یہ چند حروف کا کلمہ ، ایک انقلابی مشن اور پروگرام کا عنوان اور دیباچہ ہے۔ لاالٰہ تمام معبودانِ باطل کے خلاف بغاوت کا نعرہ ہے، یعنی نفس، غلط رسم ورواج، نظامِ طاغوت، جو انسان پر اپنی بندگی اور فرماں برداری کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ انسان میں جو خواہشِ نفس رکھی گئی ہے سب سے پہلے وہ مطالبہ کرتی ہے کہ اُس کو خوش رکھا جائے۔ اُس کا ہر مطالبہ صحیح ہو یا غلط پورا کیا جائے۔ کسی قید اور پابندی کے بغیر جو کچھ وہ چاہے اُس کو بلا چوں وچرا قبول کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ یہ نفسِ امّارہ ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے:
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (یوسف۱۲: ۵۳) نفس تو بدی پر اُکساتا ہی ہے، الا یہ کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو۔ بے شک میرا رب بڑا غفور ورحیم ہے۔
انسان جب نفس کی تابع داری کرتا ہے تو وہ نفس کو الٰہ تسلیم کرتا ہے۔ چاہے وہ زبان سے ایسا نہ کہے اور لاالٰہ دہراتا رہے۔ لیکن اصل اعتبار عمل کا ہے۔ چنانچہ جن انسانوں نے دُنیا کی زندگی میں خواہشات نفس کی پیروی کی ہو، وہ جب آخرت میں شفیع المذ نبین صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کی درخواست کریں گے تو اﷲ تعالیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے خطاب فرمائے گا:
اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰـھَہُ ھَوٰہُ ط اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًاo (الفرقان ۲۵: ۴۳) کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنالیا ہو۔ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو۔
خواہشِ نفس کو خدا بنالینے سے مراد اُس کی بندگی کرنا ہے اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بُت کو پوجنا، یا کسی مخلوق کو معبود بنانا۔ حضرتِ ابوامامہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : اس آسمان کے نیچے اﷲ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جارہے ہیں، اُن میں اﷲ کے نزدیک بدترین معبود خواہشِ نفس ہے جس کی پیروی کی جارہی ہو۔ (تفہیم القرآن: ج ۳، ص۴۵۲- ۴۵۳)
اس کے بعد آبا واجداد کی پیروی یہ دیکھے بغیر کہ وہ اﷲ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے اور طرزِ عمل کے مطابق ہے کہ نہیں، الٰہ کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ تیسرے مرحلے پر اﷲ کے باغی اور سرکش بندے آتے ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں اقتدار، قوت، حکومت، فوج، پولیس، ذرائع تبلیغ، زندگی کی ضرورتیں، تعمیری کام، نظامِ تعلیم، سیاست، معیشت، تہذیب، ثقافت، تمدن سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل اختیار کرتے ہیں کہ لوگ اُن کے احکامات کی اطاعت اور پیروی کریں۔ جو لوگ لاالٰہ تو پڑھتے ہیں مگر زندگی کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں ان تینوں معبودانِ باطل کی پیروی کرتے ہیں، اُن کا لاالٰہ پڑھنا محض چند الفاظ کا دہرانا ہے اور کچھ نہیں۔ انھی حقائق کی طرف حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے ان اشعار میں اُمت کی توجہ مبذول کی ہے:
نکتۂ می گویم از مردانِ حال
اُمتاں را لَا جلال اِلاَّ جمال
لَا وَ اِلاَّ احتسابِ کائنات
لاَ وَ اِلاَّ فتحِ بابِ کائنات
ہر دو تقدیرِ جہانِ کاف و نون
حرکت از لا زاید از اِلاَّ سکوں
تانہ رمزِ لا اِلٰہ آید بدست
بندِ غیراﷲ را نتواں شکست
درجہاں آغازِ کار از حرفِ لا ست
ایں نخستیں منزلِ مردِ خداست
ملتے کز سوزِ اُو یک دم تپید
از گِل خود خویش را باز آفرید
پیشِ غیراﷲ لا گفتن حیات
تازہ از ہنگامۂ اُو کائنات
از جنونش ہر گریباں چاک نیست
در خورِ ایں شعلہ ہر خاشاک نیست
جذبۂ اُو در دلِ یک زندہ مرد
می کند صد رہ نشیں را رہ نورد
بندہ را با خواجہ خواہی درستیز؟
تخمِ لا درمُشتِ خاکِ او بریز
ہر کرا ایں سوز باشد درجگر
ہولش از ہولِ قیامت بیش تر
لاَ مقامِ ضرب ہاے پے بہ پے
ایں غوِرعد است نے آوازِ نے
ضربِ اُو ہر بُود را سازد نبود
تا بروں آئی ز گرِدابِ وجود
[پس چہ باید کرد]
میں آپ کو مردانِ حال کے بارے میں کچھ بتاؤں گا [مردانِ حال سے مراد، اﷲ وحدہٗ لاشریک کی معرفت حقیقی کے امانت دار]۔ اُمتوں کے لیے لا کہنا اور اقرار کرنا، شوکت وعظمت کی دلیل اور آغاز ہے۔ پھر اﷲ واحد کو دیکھنے کا اقرار اُن کے لیے سکونِ قلب اور امن وآشتی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ لا اور اِلاَّ دونوں مل کر پوری کائنات کا احتساب ہے۔ لاالٰہ شعور کی بیداری کے ساتھ کہا جائے تو پوری کائنات کو مسخر کرنے کا آغاز ہوتا ہے۔ دونوں لا اور اِلاَّ کاف و نون سے وجود پذیر ہونے والی دُنیا کی تقدیر ہے۔ اشارہ ہے لفظ کُن، فیکون، ہم نے کہا ہوجا اور دُنیا وجود میں آگئی۔ لا کہنے سے انقلاب کی حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور اِلاَّ سے سکون وجود پاتا ہے۔ جب تک انسان کو لا الٰہ کا اصل مفہوم، مدعا، مقصد اور راز معلوم نہ ہوجائے وہ ماسوا اﷲ کی قید، بندشوں اور غلامی کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکتا ہے۔ دُنیا میں انقلاب لانے کا آغاز صرف لا کے اعلان سے ہوتا ہے۔ معبوددانِ باطل کے خلاف اعلانِ جنگ لا ہے۔ اﷲ کے مخلص اور یکسو بندوں کے لیے انقلاب لانے کی یہ پہلی منزل ہے۔
وہ ملت جو لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کے سوز سے تپش محسوس کرتی ہے، وہ آب وگل کے وجود سے اپنے حقیقی وجود کی بازیافت کرتی ہے، یعنی شعور کی بیداری کے ساتھ لا الٰہ کا اعلان اُس کو اپنے اصل منصب اور مقام کی شناخت پیدا کرتا ہے۔ اﷲ کی بندگی اور حاکمیت کے مقابلے میں معبودانِ باطل کے سامنے لا کا نعرہ اور اعلان اصل زندگی اور حیات ہے۔ اس کے نتیجے میں جو ہنگامہ اور انقلاب پیدا ہوگا، وہ پوری کائنات کی زندگی اور حیات ہے۔ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا انقلابی نعرہ بلند کرنا ہر ایک کے نصیب کی بات نہیں ہے۔ خس وخاشاک کا ہر ذرہ اور تنکا اس انقلابی شعلے کے اہل نہیں ہوسکتا ہے ؎
ایں سعادت بزور باز و نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا جذبہ اور جنون اگر ایک زندہ مرد کے دل میں موج زن ہوجائے، وہ سیکڑوں راہ نشینوں کو سرگرم سفر بناسکتا ہے ؎
آگ اُس کی پھونک دیتی ہے برنا وپیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحبِ یقیں
[ضربِ کلیم]
کیا تم غلاموں کو جابر اور ظالم حکمرانوں اور آقائوں کے خلاف برسرپیکار بنا دینا چاہتے ہو؟ اُن کی مشتِ خاک میں لا الٰہ کے بیج بو دو [اس کے بغیر اُن میں حقیقی اور پاے دار انقلاب کا ولولہ اور شوق پیدا نہیں ہوسکتا۔ لا الٰہ کی بنیاد کے بغیر جو بھی انقلاب لائیں گے، وہ صرف آقاؤں کے ہاتھ اور چہرے بدلنے کا انقلاب ہوگا۔ بندوں کی غلامی سے نکل کر ایک اﷲ کی بندگی کا قلادہ گردن میں نہیں ہوگا]۔ جس انسان کے جگر اور دل میں لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا سوز اور ولولہ پیدا ہوگا، اس کا ہول، ہنگامہ اور تَہ وبالا قیامت سے بھی زیادہ ہوگا۔ لا، پے بہ پے ضرب لگانے کا مقام ہے۔ یہ نہیں کہ ایک باطل الٰہ کے خلاف، ایک دفعہ آپ نے لا کا نعرہ لگایا اور بس! نہیں، یہ مسلسل اور تواتر کے ساتھ کرنے کا کام ہے۔ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا نعرہ بجلی کا کڑکا ہے۔ یہ بانسری کی آواز نہیں ہے ؎
ضربتِ پیہم سے ہوجاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بُتِ سنگیں دل و آئینہ رُو
[ارمغانِ حجاز]
غوِّ ر عد پر مولانا الطاف حسین حالی کی مُسدس کے یہ اشعار حسبِ حال ہیں:
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی
اک آواز میں سوتی بستی جگادی
پڑا ہر طرف غل یہ پیغامِ حق سے
کہ گونج اُٹھے دشت وجبل نامِ حق سے
لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کی ضرب ہر باطل بود کو نابود بنادیتی ہے اور اسی نعرے کی برکت سے انسان باطل معبودوں کے گرداب سے نجات حاصل کرلیتا ہے:
باتو مے گویم ز ایّامِ عرب
تا بدانی پُختہ و خامِ عرب
ریز ریز از ضربِ اُو لات و منات
در جہات آزاد از بندِ جہات
ہر قبائے کہنہ چاک از دستِ اُو
قیصر وکسریٰ ہلاک از دستِ اُو
گاہ دشت از برق و بارانش بدرد
گاہ بحر از زورِ طوفانش بدرد
عالمے در آتشِ اُو مثلِ خس
ایں ہمہ ہنگامۂ لا بود و بس
اندریں دیرِ کہن پیہم تپید
تاجہانے تازۂ آمد پدید
بانگِ حق از صبح خیز یہائے اوست
ہر چہ ہست از تخم ریز یہائے اوست
اینکہ شمعِ لالہ روشن کردہ اند
از کنارِ جوے اُو آوردہ اند
لَوحِ دل از نقشِ غیر اﷲ شُست
از کفِ خاکش دو صد ہنگامہ رُست
[پس چہ باید کرد]
میں آپ کو عرب کی تاریخِ بتاؤں گا تاکہ تم عرب کے لوگوں میں سے کچے اور پختہ لوگوں کے کردار کو جان سکو۔ عربوں سے جان پہچان اس لیے ضروری ہے کہ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کے وارث تھے جن کو آخری رسولؐ کی وساطت سے اس انقلابی پیغام کا وارث بنایا گیا۔ انھوں نے جس خلوص اور یکسوئی کے ساتھ رسولؐ اﷲ کو یہ انقلابی پیغام پھیلانے، عام کرنے اور غالب کرنے میں مال، جان اولاد، اعزہ و اقربا اور قلب وذہن کی بھرپور آمادگی کے ساتھ تعاون دیا، وہ اسلامی تاریخ کازرّیں اور بے مثال باب ہے۔ ان لوگوں نے کسی بھی آزمایش اور معرکہ آرائی کے مرحلے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے امتیوں کی طرح یہ نہیں کہا:
فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنo (المائدہ ۵:۲۴) آپ اور آپ کا ربّ جائیں اور ان دشمنوں کے ساتھ لڑیں۔ ہم یہاں بیٹھ کر انتظار کریں گے۔
جنگ بدر کے موقع پر جب ایک طرف قریش کا تجارتی قافلہ آرہا تھا اور دوسری طرف مکہ سے قریش کا لشکر چلا آرہا تھا، تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو جمع کرکے جاننا چاہا کہ قافلہ اور قریش میں سے کس طرف یہ لوگ جانا چاہتے ہیں۔ آپؐ کے پوچھنے پر سب سے پہلے مہاجرین میں سے حضرت مقداد بن عمروؓ نے اُٹھ کر کہا:
یا رسولؐ اﷲ! جدھر آپؐ کا ربّ آپؐ کو حکم دے رہا ہے اُسی طرف چلیے۔ ہم آپؐکے ساتھ ہیں۔ جس طرف بھی آپؐ جائیں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ جاؤ تم اور تمھارا خدا دونوں لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ نہیں، ہم کہتے ہیں کہ چلیے آپؐ اور آپؐ کا خدا، دونوں لڑیں اور ہم آپؐ کے ساتھ جانیں لڑائیں گے جب تک کہ ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کررہی ہے۔
مہاجرین کا عندیہ دیکھ کر آپؐ نے انصار کی طرف رُخ فرمایا۔ انصار اب تک کسی معرکہ آرائی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ انصاری حضرت سعد بن معاذؓ اُٹھے اور انھوں نے عرض کیا شاید حضوؐر کا روے سخن ہماری طرف ہے؟ فرمایا: ہاں۔ انھوں نے کہا:
ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں، آپؐ کی تصدیق کرچکے ہیں کہ آپؐ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور آپؐ سے سمع وطاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں۔ پس اے اﷲ کے رسولؐ جو کچھ آپؐ نے ارادہ فرمالیا ہے اُسے کر گزریے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! اگر آپؐ ہمیں لے کر سامنے سمندر پر جا پہنچیں اور اُس میں اُتر جائیں تو ہم آپؐ کے ساتھ کودیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپؐ کل ہمیں لے کر دشمن سے جابھڑیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے، مقابلے میں سچی جان نثاری دکھائیں گے اور بعید نہیں کہ اﷲ آپؐ کو ہم سے وہ کچھ دِکھوادے جسے دیکھ کر آپؐ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ پس اﷲ کی برکت کے بھروسے پر آپؐ ہمیں لے چلیں۔(تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۱۲۴، ۱۲۵)
یہ اقتباسات میں نے تفہیم القرآن جلد دوم، سورۂ انفال کے دیباچے سے صرف اس لیے نقل کیے ہیں، تاکہ علامہ مرحوم نے عربوں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار اپنے اشعار میں کیا ہے، اُس کے پس منظر سے ہم آگاہ ہوجائیں اور اس حقیقت کا ادراک کریں کہ نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم فداہُ ابّی و اُمّی کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے سرفروشوں کی وہ جماعت عطا کی تھی، جو اپنے وعدوں اور قول وقرار کی پابند تھی اور جس چیز کو وہ حق سمجھ چکے تھے اُس پر اپنا سب کچھ، حتیٰ کہ جانِ عزیز تک قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ اِنھی لوگوں کے ایثار، قربانیوں، جان نثاریوں اور سرفروشیوں کی برکت سے اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔ حالانکہ وہ تعداد میں زیادہ نہ تھے۔ معرکہ بدر میں ایک اور تین کی نسبت تھی، مگر وہ موت کے خوف سے بالاتر ہوکر نکلے اور اﷲ تعالیٰ نے فی الواقع رسولِؐ رحمت کو وہ کچھ دکھایا، جن سے آپؐ کو آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوئی۔
آج مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ۶۰ کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے، مگر آج کا مسلمان حُبِ دُنیا اور کراہیت الموت کے مرض میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اس لیے وہ پوری دُنیا میں غلامی، ذلت، اِدبار، محکومیت اور مظلومیت کا شکار ہے۔ جب تک آج کے مسلمانوں میں دورِاوّل کے مسلمانوں کی طرح اسلام کے احیا اور غلبے کے لیے سرفروشی کا جذبہ پیدا نہ ہوجائے، وہ اس پستی اور ذلت کی زندگی سے نجات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ نہ ملت دنیوی اور اُخروی فلاح سے ہم کنار ہوگی اور نہ بنی نوع انسان سامراجی قوتوں کے پنجۂ استبداد سے نجات حاصل کرسکے گی ؎
غیرِ حق چوں ناہی و آمر شود
زور ور بر ناتواں قاہر شود
[جاوید نامہ]
عربوں نے جب لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا کلمہ شعور کی بیداری کے ساتھ پڑھا، اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ڈھانچا تشکیل دیا تو اُن کی ضربِ پیہم سے لات اور منات کے بُت ریزہ ریزہ ہوگئے۔ ملک کی حدود میں رہتے ہوئے بھی وہ آفاقی اور ہمہ جہت بن گئے۔ اُن کے ہاتھوں سے پرانی قبائیں اور عبائیں چاک ہوگئیں، نیز جاہلانہ رسم و رواج اور سماجی بندھنوں کے تاروپود بکھر کر رہ گئے۔ اُن کے ہاتھوں سے قیصر وکسریٰ کی سامراجیت اور ظلم و سفاکیت ختم ہوگئی۔ اُن کی بجلیوں سے کبھی دشت لرز اُٹھے اور کبھی سمندر اُن کے طوفانوں سے تلاطم خیز بن گئے۔ پوری دُنیا اُن کے ایمان ویقین کی آگ میں گھاس کے تنکوں کی طرح بھسم ہوکر رہ گئی۔ یہ سب کچھ کلمہ لا الٰہ کی تاثیر اور پیغام کی وسعت و گہرائی تھی اور کچھ نہیں!
اس پرانی دُنیا میں وہ مسلسل سرگرمِ عمل رہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے اپنے نظریۂ حیات کے مطابق نئی دُنیا تعمیر کی۔ حق وصداقت کی آواز اُن کی سحر خیزیوں کی برکت سے ہے۔ جوکچھ ہم ایمان وعمل کے نظارے اور مناظر دیکھ رہے ہیں، یہ اُنھی کی تخم ریزی کے نتائج اور ثمرات ہیں۔ انھوں نے گلِ لالہ کی شمع روشن کی، یعنی کلمہ توحید کا نعرہ بلند کیا اور گردوپیش کی دُنیا کو اُس کی آبجو کے کنارے پر جمع کردیا۔ انھوں نے دل کی تختیوں سے ماسوا اﷲ کے، دیگر تمام نقش دھوڈالے۔ اُن کی کفِ خاک سے سیکڑوں ہنگامے اور واردات وجود پاگئے:
ہم چناں بینی کہ در دورِ فرنگ
بندگی باخواجگی آمد بجنگ
روس را قلب و جگر گردیدہ خوں
از ضمیرش حرفِ لاَ آمد بروں
آں نظامِ کہنہ را برہم زدست
تیز نیشے بررگِ عالم زِداست
کردہ ام اندر مقاماتش نگہ
لاَ سلاطیں، لاَ کلیسا، لاَ الٰہ
فکرِ اُو در تُند بادِ لاَ بماند
مرکبِ خود را سوئے اِلاَّ نراند
آیدش روزے کہ از زورِ جنوں
خویش را زیں تند باد آرد بروں
درمقامِ لاَ نیاساید حیات
سُوے اِلاََّ می خرامد کائنات
لاَ و اِلاَّ ساز و برگِ اُمتّاں
نفی بے اثبات مرگِ اُمتّاں
در محبت پختہ کے گردد خلیلؑ
تا نگردد لاَ سوئے اِلاَّ دلیل
اے کہ اندر حجرہ ہا سازی سخن
نعرئہ لاَ پیش نمرودے بزن
ایں کہ می بینی نیر زد باد و جَو
از جلالِ لاَ اِلٰہ آگاہ شو
ہرکہ اندر دستِ او شمشیرِ لاَ ست
جملہ موجودات را فرمانرواست
[پس چہ باید کرد]
ایسا ہی کچھ تم دیکھ رہے ہو کہ انگریزوں کے دورِ اقتدار میں بندگی نے خواجگی کے ساتھ معرکہ آرائی اور جنگ شروع کردی۔ روس کے لوگوں میں انقلاب کی لہر دوڑ گئی۔ دل وجگر خون میں لت پت ہوگئے۔ اُن کے دلوں سے لا کا نعرہ بلند ہُوا۔ لا کا مطلب یہ تھا کہ پرانا نظامِ زندگی، جو شاہی اور خاندانی راج کی شکل میں تھا، اُس کو درہم برہم کردیا گیا۔ عالمی سطح پر انھوں نے خنجر سے انقلاب لانے کا آغاز کیا۔ ان اشعار میں علامہ محمد اقبال مرحوم نے روس میں ۱۹۱۷ء میں کمیونزم انقلاب کی طرف اشارہ کیا تھا۔ میں نے جب انقلاب کے اندر جھانکنے کی کوشش کی کہ اس کی روح اور بنیادی ستون کیا ہے تو معلوم ہوا کہ اس نظام میں کوئی بادشاہت یا کوئی مذہب اور کوئی الٰہ تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ گویا اس سرخ انقلاب کی بنیاد الحاد ہے۔ اس انقلاب کے فکر اور فلسفے نے نفی کی تیز ہواؤں میں پناہ لی۔ یہ اپنی سواری لا سے اِلاَّ اﷲ کی طرف نہ لے جاسکا۔ علامہ فرماتے ہیں کہ کوئی دن ضرور آئے گا کہ یہ سرخ انقلاب اپنے زور جنون سے یا خود کو اس تیز ہوا کی گرفت سے باہر نکالے گا۔ اس لیے کہ لا، یعنی نفی الحاد کا فلسفہ اور نظریۂ حیات کائنات کو امن وسکون نہیں دے سکتا ہے۔
کائنات دھیرے دھیرے اِلاَّ اﷲ کی زندہ حقیقت کی طرف گام زن ہے جو واحد نظام ہے۔ یہ امن وآشتی، عدل وانصاف، انسانی اور اخلاقی اقدار کا محافظ اور امانت دار نظام ہے۔ لا اور اِلاَّ اُمتوں کے لیے سامانِ زیست ہے۔ اِلاَّ اﷲ کے بغیر محض لا پر فلسفۂ زندگی کی بنیاد رکھنا امتوں کے لیے موت کا پیغام ہے، جیسا کہ آج کی دُنیا میں دیکھا جارہا ہے کہ لا دینیت کے نام پر کس طرح قوموں، ملکوں اور عام انسانوں کو طاقت کے بل بوتے پر غلام بناکر اُن کے بنیادی حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔ بم برسائے جارہے ہیں۔ ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، میزائل اور ہلاکت آفرین ہتھیاروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور سب کچھ امن، ترقی، جمہوریت اور آزادی کے نام پر کیا جارہا ہے۔ یہ ساری دَین ’لا‘ کے فلسفۂ زندگی کی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ اُن کی محبت اور وابستگی کیسے پختہ اور مستحکم ہوسکتی تھی، اگر نفی سے وہ اثبات کی طرف رہنمائی حاصل نہ کرلیتے، یعنی جب انھوں نے تاروں، چاند اور آفتاب کی ربوبیت سے انکار کیا تو لَا کے تقاضے پورے ہوگئے۔ اگر وہ یہاں ہی رُک جاتے تو اﷲ تعالیٰ کی معرفت اور اُس کی حاکمیت اور معبودیت کا ادراک اور یقین اُن کو کیسے حاصل ہوجاتا۔ چنانچہ انھوں نے مظاہر کائنات کی آقائیت سے انکار کرکے اعلان کیا:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (الانعام ۶:۷۹) میں اپنا رُخ اُس ذاتِ اقدس کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین اور آسمان کو وجود بخشا ہے۔ میں یکسو ہوکر اُس کا بندہ ہوں۔ میں اُس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیراتا ہوں۔
علامہ محمد اقبال مرحوم لا سے اِلاَّ اﷲ کی طرف ذہناً اور عملاً بڑھنا ہی ملت کی زندگی اور بقا کے لیے لازم قرار دیتے ہیں۔ اب وہ لاالٰہ کہنے والے مسلمان سے فرماتے ہیں: اے حجروں، مسجدوں اور خانقاہوں میں سخن سازی کرنے والے مسلمان! تیرا فریضہ تو یہ ہے کہ تو وقت کے نمرودوں کے خلاف نعرہ ’لا‘ بلند کر۔ یہ نہیں کہ وقت کے فرعونوں، نمرودوں، ہامانوں اور یزیدوں کے ساتھ تو ساز باز کرکے، خلوت گاہوں میں بیٹھ کر لا الٰہ کی تسبیحات جپتا رہے تاکہ وقت کے طاغوت کے ساتھ تیری معرکہ آرائی نہ ہو۔ جب تک لا الٰہ کہنے والا، وقت کے نظامِ باطل کے خلاف بغاوت کا نعرہ بلند نہ کرے، وہ لا الٰہ کہنے میں مخلص اور یکسو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال تم کو یہ حقیقت سمجھاتے ہیں کہ جس دُنیا پر تو فریفتہ ہورہا ہے، تیرے دین، ایمان، یقین اور مقصدِ آخرت کے مقابلے میں اس کی قیمت جَو کے دو دانوں کے برابر بھی نہیں ہے۔ کاش! تو.ُ لا الٰہ کے جلال اور سطوت ودبدبے سے آگاہ ہو جائے۔
جس فرد کے ہاتھ میں ’لا‘ کی شمشیر اور تلوار ہے، وہ ساری کائنات میں فرماں روائی کا مقام حاصل کرسکتا ہے، مگر:
اے لا الٰہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ ، کردارِ قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل، سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ
[بالِ جبریل]