اللہ کو دونّی والے ممبروں کی کثرتِ تعداد کی ضرورت نہیں۔ اس کو تو صرف اطاعت و وفاداری مطلوب ہے۔ اِس کے دین کا قیام محض ’نام لیوائوں‘کے ذریعے نہیں ہوسکتا بلکہ ایمان و عملِ صالح رکھنے والوں کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس آسمان کے نیچے دنیا میں دو،دو لاکھ کی تعداد رکھنے والی جماعتیں طوفان بپا کیے ہوئے ہیں، عین اسی آسمان کے نیچے ستاون کروڑ کی فوج ہر گوشۂ زمین پر مار کھا رہی ہے، آبروئیں لٹا رہی ہے، تذلیل و تحقیر کا نشانہ بن رہی ہے، گھروں سے بے گھر ہو رہی ہے، قانون اور لاقانونی سے کچلی جارہی ہے، روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے ایمان اور ضمیر بیچتی پھرتی ہے، شکستوں پر شکستیں کھا رہی ہے بلکہ یوں کہیے کہ جینے کے اور سارے جتن کر رہی ہے لیکن ایک نہیں کر رہی تو صرف خدا سے وفاداری کو بحال کرنے کا اہتمام نہیں کر رہی!
ہم بالفرض ستاون کروڑ نہ ہوتے دو کروڑ ہوتے، ستاون لاکھ ہوتے، ستاون ہزار ہی ہوتے، لیکن اپنے معاہدے پر قائم، اِس کی شرائط کے پابند، اپنے مقصدِ وجود کے فدائی،اپنے نصب العین کے لیے سرگرم، اپنے فرائض کی ادائی کے لیے اعتصام بحبل اللہ سے منظم ہوتے، تو ہم دنیا میں تہلکہ مچا رکھنے کے لیے کافی ہوتے۔ پھر ہماری عزت، ہماری حفاظت، ہماری فتح اور ہماری کامیابی کا ضامن خود حکمرانِ کائنات ہوتا اور اس کی کائنات کی پوری محسوس اور غیرمحسوس قوتیں ہمارے ساتھ ہوتیں۔
خدا کا اور خدا کے دین کا نام لیوا بن کر، اس کی حکومت کو تسلیم کرکے اور اس کی نوکری کا جوا گردن پر رکھ لینے کے بعد پھر اس سے مذاق کرنا اور اس کے احکام کو ٹھکرانا اور اس کے دیے ہوئے نظامِ زندگی سے انحراف کرنا وہ خوف ناک جرم ہے جو ’ضالین‘ کی سطح سے بھی گرا کر ’مغضوب علیہم‘ کے گڑھے میں جا گراتا ہے۔ اس قسم کی کھلی بغاوتوں کا انجام ہمیشہ وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ کی صورت میںرُونما ہوتا ہے۔ خدا ہم سب کو اس سے بچنے کی توفیق دے۔
مایوس ہونا صرف ان لوگوں کا کام ہے جن کے سامنے اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے قوانین اور وعدوں کی صداقت کا یقین نہ ہو۔ ہم لوگ تو صرف یہ سمجھ کے کام کرنے اُٹھے ہیں کہ ہم پر ہمارے خالق و مالک کی طرف سے کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور انھیں پورا کیے بغیر اس کی سلطنت میں رہنے اور اس کے خزائن رزق سے فائدہ اٹھانے کا حق ہمیں نہیں پہنچتا اور یہ سمجھ کر اس کی اطاعت کرنے کی صورت میں اس کی نصرت و تائید بہرحال ہمارے ساتھ ہے۔(’یہ ذلت و مسکنت کیوں؟‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۲، عدد ۶، ذی الحجہ ۱۳۶۸ھ، نومبر ۱۹۴۹ء، ص ۶۲-۶۳)