زیرنظر کتاب ڈاکٹر نثار احمد صاحب کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے پر مبنی ہے۔ ۵۰۰ سے زائد صفحات پر پھیلی ہوئی اس کتاب میں جس بنیادی موضوع کا جائزہ لیا گیا ہے وہ عالمِ اسلام کے لیے ہی نہیں بلکہ جدید مغربی مفکرین اور ان کے زیراثر تربیت پانے والے مسلم دانش وروں کی توجہ کا بھی مرکز رہا ہے۔ پاکستان کے قیام اور مستقبل کے حوالے سے بھی یہ موضوع غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ بعض حضرات اسلام کے سرسری مطالعے کی بنیاد پر اور اسلام کو دیگر مذہب کی طرح ایک مذہب تصور کرتے ہوئے اس راے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ مدینہ منورہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی معاشرہ توقائم کیا لیکن نہ قرآن میں اور نہ سنت میں ’اسلامی ریاست‘ کی کوئی واضح شکل ملتی ہے اور نہ کوئی دلیل۔ اس لیے اسلام مذہبی تعلیمات و عبادات کا ایک مجموعہ ہے اور اس کا کوئی تعلق سیاست کے ساتھ نہیں ہے بلکہ بعض دانش ور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اسلام کو سیاست اور ریاست کے معاملات میں شامل کیا گیا تو مذہبی جنونیت، شدت پسندی کو تقویت ملے گی اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق کی پامالی عمل میں آجائے گی۔
یہ کتاب ایک تحقیقی مقالے کی حیثیت سے ان تمام بے بنیاد تصورات کی نظری، عقلی اور تاریخی شواہد کے ذریعے سنجیدہ اور غیرجذباتی تردید ہے۔ کتاب کے مبنی برتحقیق ہونے کے حوالے سے برعظیم پاک و ہند کے نام ور مؤرخ و مفکر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے تحریر کردہ پیش لفظ میں جو راے دی گئی ہے وہ ایک اعلیٰ علمی شہادت کی حیثیت رکھتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی ناسمجھ ہی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن کریم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا کہ مذاہبِ عالم میں ایک مذہب کا اضافہ ہوجائے اور جس طرح یہودی، عیسائی، بدھ، زرتشت یا ہندو اپنے مذہبی رسوم و عبادات پر عمل کرتے تھے، ایک اور قوم ایسی پیدا ہوجائے جو مختلف انداز میں عبادات اور چند مخصوص تہوار منا لیا کرے۔ قرآن کریم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا بنیادی مقصد دنیا سے ظلم و طغیان کو مٹاکر عدل اور علم و ہدایت پر مبنی نظامِ حیات کا قیام تھا۔ اس بنا پر مکی دور ہو یا مدنی، دونوں ادوار میں اصل تعلیم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا قیام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کے ذریعے قرآن کی معاشی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی تعلیمات کا عملاً مظاہرہ تھا، تاکہ قیامت تک کے لیے انسانیت کے سامنے تعلیمات، احکام و ہدایاتِ قرآنی کے نفاذ کا طریقہ اور تاریخی شواہد کے ذریعے انسانیت کے معاشرتی، سیاسی و معاشی مسائل کا واضح، متعین اور عملی شکل میں آجائے۔ گویا مدینے کی اسلامی ریاست قرآن کریم کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تعلیمات کی تفسیر و تشریح و تشریع کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس ریاست کا نشووارتقا کتاب کا موضوع ہے۔ مصنف نے قرآن و حدیث، معروف تفاسیر، مشہور تاریخی مصادر اور بعد کے لکھنے والوں کی تحریرات کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد حاصلِ مطالعہ کو اپنے قارئین کے سامنے انتہائی مؤثر، مدلل اور سادہ انداز میں پیش کر دیا ہے، جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کتاب کی نمایاں خصوصیات میں اس کا مستند و معتبر مصادر پر مبنی ہونا اور غیرجانب دارانہ تحقیق ہے۔
قرآن کریم ، احادیث اور سیرت طیبہؐ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ریاست مدینہ منورہ میں قائم کی، وہ ایک مکمل ریاست تھی جس میں ریاست کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، فلاحی، قانونی وظائف کو آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارکہ ہی میں واضح شکل دے دی تھی۔ ظاہر ہے اس بنیادی خاکے میں بعد کے ادوار میں معاشرتی اور معاشی ضروریات کے پیش نظر مزید اضافے ہونے فطری تھے لیکن بنیادی تصورات، بنیادی ادارے اور بنیادی خدوخال کے حوالے سے خود خاتم النبیینؐ نے اس کام کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں مکمل فرما دیا اور یہی قرآن کریم کے اس ارشاد کا مفہوم ہے جس میں اسلام کے مکمل کیے جانے کا تذکرہ ہے۔ (المائدہ۵:۳)
اللہ کی حاکمیت اعلیٰ پر قائم ہونے والی اس ریاست میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے خلیفہ فی الارض یا سربراہِ مملکت کی تھی۔ جو نظام قائم کیا گیا اس کی بنیاد شوریٰ اور مالی، عسکری، انتظامی اور عدلیہ کے اداروں کے استحکام پر تھی۔ مصنف نے بڑی عرق ریزی سے اس پورے نظام کا نقشہ باب پنجم میں (ص ۳۸۵ تا ۴۸۰) اصل مصادر کی مدد سے پیش کر دیا ہے۔
مصنف نے ۲۰ویں صدی کے معروف مسلم مفکرین سے، جنھوں نے اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی ریاست کے موضوع پر اظہار خیال کیا ہے خصوصاً سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، محمد اسد، ڈاکٹر محمدحمیداللہ، امین احسن اصلاحیؒ اور مولانا گوہر رحمنؒ کی تصانیف و تحریرات سے بھی جابجا استفادہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نثاراحمد صاحب کی یہ کتاب ہرعلمی کتب خانے میں رکھنے کے قابل ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس محققانہ مقالے کو تحریر کرنے پر بہترین اجر سے نوازے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
امام محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴ھ- ۲۵۶ھ) نے کم سنی ہی میں اہلِ علم اور اساتذۂ فنِ حدیث کی نظر میں بے مثل مقام پا لیا تھا وہ بہت کم افراد کو نصیب ہوتا ہے۔عربی زبان میں امام بخاری پر سوانحی ذخیرہ بہت وسیع ہے مگر ایک صدی قبل تک اُردو میں ایسی مستند کاوش موجود نہ تھی۔ اس ضرورت کو مبارک پور (بھارت) کی زرخیز زمین کے مایہ ناز سپوت مولانا عبدالسلام مبارک پوری نے نہایت اعلیٰ معیار پر پورا کیا۔
سیرۃ البخاری کے نام سے فاضل مصنف نے نو ابواب اور خاتمے پر مشتمل کتاب کے اندر موضوع کا حق ادا کیا ہے۔ امام بخاری کی ولادت و تعلیم سے لے کر روایت و تدوین حدیث اور علمِ رواۃ پر محققانہ اسلوب میں معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ امام کے ابتدائی اساتذہ میں نام ور علماے حدیث کا تذکرہ و تعارف، امام کے علمی و اخلاقی اوصاف کا بیان، آپ کے ۳۲ اساتذہ و شیوخ [جن میں امام احمد بن حنبل بھی شامل ہیں] کی نظر میں آپ کا مقام، اقران و معاصرین کے نزدیک آپ کا رتبہ، امام کے بارے میں بلندخیال لوگوں کی آرا اور امام کے اپنے حکیمانہ ملفوظات کو جامعیت و اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ الجامع الصحیح کے علاوہ امام کی ۲۴ تصانیف کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔ الجامع الصحیح کے تعارف و تفصیل میں مصنف نے امام بخاری کے علمی منہج، کتاب کے تراجم (عنوانات) ابواب، شرائط بخاری، احادیث کے تکرار کی توضیح اور اختصار و تقطیع یہ حصہ کتاب جس قدر اہم ہے مصنف نے اسی ذمہ داری کے ساتھ اس کو عالمانہ و محدثانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ صحیح بخاری کو سمجھنے کے لیے یہ باب انتہائی معاون و مددگار ہے۔
الجامع الصحیح کی سیکڑوں علما نے شروح لکھیں، مصنف موصوف نے ۱۴۳، شروح کا مختصر اور معلومات افزا تعارف پیش کیا ہے۔مصنف نے اپنے ہم عصر معترضین کے چند اعتراضات کے شافی جواب بھی دیے ہیں، جس سے مصنف کی وسعت علمی اور اصولِ حدیث پر گرفت کی شان جھلکتی ہے۔
حدیث اور اصولِ حدیث اور فقہ البخاری پر مصنف نے بہت شان دار انداز میں حفاظتِ حدیث کی تاریخ، روایتِ حدیث میں احتیاط، امام بخاری کے طرزِ اجتہاد اور فقہاے محدثین کے طرزِ اجتہاد و اصولِ فقاہت کے بالمقابل فقہاے اہل الراے کا طرزِ اجتہاد و اصولِ فقاہت علمی انداز میں بیان کیا ہے۔ خاتمہ کتاب میں امام بخاری کے ہزاروں شاگردوں میں سے ۱۴ نام وَر محدثین علما کا تعارف پیش کیا ہے۔کتاب کا اختتام مصنف نے امام بخاری تک اپنی سند کے تذکرے پر کیا ہے۔
سیرۃ البخاری اپنا تعارف آپ بہترین انداز میں پیش کرتی ہے۔ لیکن اس کی افادیت کو اس کتاب کے عربی مترجم ڈاکٹر عبدالعلیم بستوی کے عربی حواشی کے اُردو قالب نے بہت بڑھا دیا ہے۔ اس معلومات افزا اور علم افروز کتاب کا نام سیرۃ البخاری ہے مگر اس کا مواد صرف سیرتِ بخاری تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ علومِ حدیث کے متعدد گوشوں اور پہلوئوں سے متعلق علمی نکات پر مشتمل دائرۃ المعارف ہے۔ تدریس حدیث اور تحصیل علمِ حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک بیش بہا خزانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کا پہلا اڈیشن آج سے ایک صدی قبل منظر پر آیا تھا، سید سلیمان ندوی نے بھی اس کی تحسین کی تھی۔ زیرنظر اڈیشن کو نشریات نے صدی اڈیشن کے طور پر نہایت عمدہ کتابت و طباعت اور کاغذ و جلدبندی کے اعلیٰ معیار پر پیش کیا ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)
مصنف موصوف اقبالیات کے متخصص ہیں۔ خاص طور پر اقبال کے مخالفین اور معترضین کی خبر لینے والوں میں پیش پیش ہیں۔ انھوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں بھی اقبال کے جملہ معترضین کی تحریروں کا تجزیہ کیا تھا۔ پھر اس مقالے کے مختلف حصے مزید اضافوں کے ساتھ کئی کتابوں کی صورت میں شائع کیے۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اس کتاب کے جملہ ۱۳ ابواب کے عنوانات سوالیہ ہیں، مثلاً کیا فکراقبال مستعار ہے؟ کیا اقبال کے ہاں تضاد ہے؟ کیا اقبال جارحیت پسند ہیں؟ کیا اقبال خرد دشمن اور مخالف علم ہیں؟ کیا اقبال وحدت الوجودی ہیں؟ صرف شاعر یا مفکر بھی؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہر باب میں مشرق و مغرب کے ان تمام چھوٹے بڑے، معروف اور غیرمعروف، مسلم اور غیرمسلم، مستشرقین اور مستغربین اہلِ قلم کی تحریروں پر نقد کیا گیا ہے جن کے ہاں فکراقبال کے کسی خاص پہلو پر اعتراض کا شائبہ ملتا ہے۔ ان ناموں میں اقبال کے مخالفین کے ساتھ ساتھ ایسے نام بھی نظر آتے ہیں جو اقبال کے مداحوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مصنف اقبال کے محقق اور نقاد ہی نہیں بلکہ ان کے طرف دار بھی ہیں، تاہم انھوں نے یہ کام بڑی دقّت نظری اور محنت سے کیا ہے اور اِستناد کا خیال رکھا ہے۔
امید ہے ڈاکٹر محمد ایوب صابر کا یہ کام اقبالیات پر آیندہ کام کرنے والوں کے لیے بہت مفید اور مددگار ثابت ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
محسنِ انسانیتؐ سے عالم گیر شہرت پانے والے نعیم صدیقی کا اصل نام فضل الرحمن تھا۔ آپ کی بنیادی تعلیم منشی فاضل اور تعلق خطہ پوٹھوہار چکوال سے تھا۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے کسبِ فیض کیا۔ تحریر و تقریر ہر دو میدانوں میں آپ نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ کی شاعری حُسن و جمال کا مرقع اور پاکیزگی و سلامت روی کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ صحافتی زندگی میں ہفت روزہ ایشیا، ترجمان القرآن، چراغِ راہ، شہاب، سیارہ میں ادارتی خدمات سرانجام دینے کے علاوہ، روزنامہ تسنیم لاہور، قاصد لاہور اور جسارت کراچی اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کالم نویسی اور مضمون نگاری کرتے رہے۔ آپ ۲۰ سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔
زیرنظر مجموعے میں آپ کی حیات و خدمات پر تقریباً ۲۸ مضامین، متعدد نظمیں اور مرحوم کی اپنی تحریریں اور خطوط جمع کیے گئے ہیں۔ ناشر کی طرف سے اعتراف کیا گیا ہے کہ مرتب کے ارسال کردہ مسودے میں ہمارے ادارے کے رفقا (برادرم حمیداللہ خٹک اور دیگر) نے بھی خاصی محنت اور ترامیم اور اضافے کیے ہیں۔ غالباً انھی رفقا کی محنت سے کتاب کے تقریباً ایک سو صفحات کا نیا لوازمہ کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ لکھنے والوں میں معروف اور غیرمعروف اہلِ قلم شامل ہیں جن میں مرحوم کے خطوط، کچھ نثری مضامین، انٹرویو اور ان پر بعض نظمیں بھی شامل ہیں جو آپ کی زندگی کے بیش تر پہلوئوں اور ان کی مختلف حیثیتوں (ادیب، شاعر، مقرر، صحافی، مفکر وغیرہ) کو سامنے لاتی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا اسلوبِ نظم و نثر کیا تھا، ان کے علمی منصوبے کتنے اُونچے پائے کے تھے، اسی طرح یہ کہ ادبیاتِ اُردو میں ان کی تخلیقات کس طرح منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔
یہ مجموعہ اگرچہ جناب نعیم صدیقی کی شخصیت اور خدمات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا لیکن اس عظیم شخصیت کی خدمات کا کماحقہٗ اعتراف اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ایک جامع منصوبہ بناکر مرحوم پر ایک مربوط کتاب یا ان کی سوانح حیات لکھی یا لکھوائی جائے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
یونی ورسٹیوں میں خصوصاً سماجی علوم اور ادبیات کے شعبوں سے شائع ہونے والے تحقیقی مجلے عموماً اعلیٰ علمی و تحقیقی معیار کے حامل نہیں ہوتے۔ ایسے بے قدری کے موسم میں، مذکورہ یونی ورسٹی کے سب سے کم عمر شعبے، شعبہ اُردو کا یہ مجلہ قاری کو حیرت اور مسرت سے دوچار کرتا ہے۔ باقاعدہ حصوں میں تقسیم کر کے سلیقے کے ساتھ تحقیقی تخلیقات پیش کی گئی ہیں۔ مقالات تقاضا کرتے ہیں کہ فرداً فرداً ان کا تعارف کرایا جائے، مگر پرچے کی تنگ دامانی اجازت نہیں دیتی۔ ان میں بعض مقالات تو واقعی چونکا دینے والے ہیں، اور پھر نوادرات میں علامہ اقبال کے ایک خط کی دریافت اور غالب و غمگین کی مراسلت نے اسے اور زیادہ قیمتی بنا دیا ہے۔ مجلات کی زندگی میں ’اجتہاد‘ کرتے ہوئے، نایاب مطبوعات کو ایک حصے میں مرتب کرکے پیش کرنے کا عزم بھی اپنی جگہ قابلِ قدر ہے۔
مندرجات کے تنوع اور پیش کش کے حسن میں ڈاکٹر معین الدین عقیل کے ذوق تحقیق کی خوشبو خودبخود ظاہر ہو رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معیار نام رکھ کر ادارے نے بڑا بھاری پتھر اٹھایا ہے، اس لیے کہ اگر وہ اس معیار کو برقرار نہ رکھ سکے تو یہی نام شعبے کے لیے باعث ِخجالت ہوسکتا ہے، سو یہ نام منتظمین ادارہ و مدیرانِ محترم کو پکار پکار کرکہہ رہا ہے: ’جاگتے رہنا‘۔ (سلیم منصور خالد)