نومبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

پاکستان اور امریکا کے تعلقات کیری لوگر بل کے آئینے میں

پروفیسر خورشید احمد | نومبر ۲۰۰۹ | اشارات

Responsive image Responsive image

ایک مسلّمہ اور ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، تاریخ انھیں سبق سکھا کر رہتی ہے۔ انسانوں کے منصوبے اور چالیں اپنی جگہ، لیکن اللہ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب ہوکر رہتی ہے۔۱؎

بہت سی چیزیں ہم ناپسند کرتے ہیں لیکن بسااوقات انھی ناپسندیدہ چیزوں کے شر سے خیر کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور جس طرح رات کی تاریکی کے بطن سے دن کی روشنی رونما ہوتی ہے، اسی طرح وہی ناپسندیدہ شر، خیر اور بھلائی کی تمہید اور بعض بنیادی تبدیلیوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔۲؎

دراصل اس طرح کی تبدیلی اللہ کی سنت ہے اور وہ اسی طرح زمانے کو کروٹیں دیتا رہتا ہے۔ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ(اٰل عمرٰن ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔

تاریخ کے اوراق میں انسان، صدیوں سے یہ ’تماشا‘ دیکھتا چلا آرہا ہے  ع

ہوتا ہے شب و روز تماشا ، مرے آگے!

کسے خبر تھی کہ ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو طاقت کے نشے میں مست ایک پاکستانی جرنیل امریکی صدر بش کی پوری پشت پناہی کے زعم میں، پاکستان کے چیف جسٹس کو برطرف کرکے عدالت عالیہ اور نظامِ عدل پر حملہ آور ہوکر اسے اپنی مٹھی میں لینے کا جو اقدام کرے گا، اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو عدلیہ پر ایک دوسرا اور زیادہ بھرپور وار کر کے اپنے تئیں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کا جو کھیل کھیلے گا، وہ کس طرح خود اس کی اپنی تذلیل، شکست اور بالآخر ملک سے اس کے فرار پر منتج ہوگا اور قوم دستور کی دفعہ ۶ کے تحت اس کے جرم کا محاسبہ کرنے اور اسے قرارواقعی سزا دینے کا مطالبہ کرے گی اور وہ دَر دَر بھٹکتا پھرے گا۔

بلاشبہہ ۹مارچ ۲۰۰۷ء اور ۱۵مارچ ۲۰۰۹ء میں ۲۴ مہینے کا فاصلہ ہے۔ تبدیلی میں دو سال لگ گئے (اس دوران وکلا برادری، سول سوسائٹی، سیاسی کارکنوں اور میڈیا نے تاریخی مزاحمتی کردار ادا کیا) لیکن اس شر سے ایک بڑا خیر نمودار ہونے سے ملک میں آزاد اور خودمختار عدلیہ کے پروان چڑھنے کے امکانات روشن ہوگئے۔

شاید آج کچھ لوگوں کو یہ امکان دُور ازکار اور یہ بات بھی مجذوب کی بڑ محسوس ہو مگر کیا   بعید ہے کہ جس طرح بش کی سرپرستی میں مشرف کے مجرمانہ اور ہتک آمیز اقدامات ہی عدلیہ کی تاریخ کے ایک نئے باب کے آغاز کا ذریعہ بنے، اسی طرح کیری لوگر بل کی شکل میں مغرور امریکا کا حاکمانہ، استعماری اور ہتک آمیز اقدام بالآخر ملک میں ایک حقیقی طور پر آزاد خارجہ پالیسی کے فروغ کی تمہید ثابت ہو، اور امریکا کی ۶۰سالہ سیاسی اور معاشی غلامی سے نجات کا پیش خیمہ بن جائے۔

لیکن مستقبل کی دھندلی تصویر کو حقیقی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کے اصل اہداف کا دقّت نظر سے تجزیہ کیا جائے، خصوصاً گذشتہ ۶۰ سال کے دوران پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور اس کے نتائج کو معروضی انداز میں سمجھا جائے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قوم کو بیدار اور متحرک کیا جائے تاکہ وہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے اسی طرح کمربستہ ہوجائے جس طرح انگریزی سامراج اور ہندو کانگریس کے خطرناک کھیل کا مقابلہ کرنے کے لیے تحریکِ پاکستان کے دوران سرگرم ہوئی تھی، اور جس طرح ۲۰۰۷ء تا ۲۰۰۹ء میں مشرف کے آمرانہ اقتدار سے نجات اور پھر زرداری کی عدلیہ کو محکوم رکھنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے دو سال تک شب وروز جدوجہد کی اور بالآخر پرویزی اقتدار سے نجات پائی۔ پھر زرداری کا کھیل بھی خاک میں مل گیا۔

بل کی ھتک آمیز شرائط

کیری لوگر بل کے مندرجات کی زہرناکی کے کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جنھیں اچھی طرح سمجھنا ازبس ضروری ہے۔

اس بل کے حامیوں کی یہ بات ایک حد تک درست ہے کہ امریکا اپنی امداد پر ہمیشہ شرائط لگاتا ہے اور یہ بھی غلط نہیں کہ معاشی اور فوجی امداد دینے والے ملک امداد کو اپنی خارجہ پالیسی اور  اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ خالص انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر دی جانے والی بے لوث مدد اس دَور میں عنقا ہے۔ عالمی سیاست طاقت کا کھیل ہے اور جیساکہ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد امریکا کی خارجہ سیاست کی صورت گری کرنے والے مفکر جارج کینان نے بہت ہی صاف الفاظ میں کہا تھا کہ خارجہ پالیسی وغیرہ کا اخلاق اور قانون کی پاس داری سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو صرف مفاد کا کھیل ہے۔

اس لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ امریکا کا مفاد کیا ہے اور ہمارا مفاد کیا ہے اور اگر ان میں کوئی مطابقت اور ہم آہنگی نہیں تو پھر ہمارے درمیان اشتراکِ عمل اور حقیقی شراکت کیسے وجود میں آسکتی ہے؟ متضاد مقاصد، اہداف اور مفادات کے ساتھ ہم ایک دوسرے کے ہم سفر کیسے ہوسکتے ہیں؟ اور اگر طاقت ور اور استعماری قوت فی الحقیقت ہماری آزادی اور مفادات کے لیے خطرہ ہوتی ہے تو پھر  ع

جس کو ہو جان و دل عزیز ، اُس کی گلی میں جائے کیوں؟

بلاشبہہ امریکا شروع ہی سے ہم پر کچھ نہ کچھ شرائط لگاتا رہا ہے۔ روئیداد خان کی مرتّبہ دستاویزات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ امریکا ۱۹۵۴ء ہی سے فوجی اور معاشی دونوں نوعیت کی امداد کے سلسلے میں اپنے مقاصد اور اہداف کو مختلف شکلوں میں ہم پر مسلط کرتا رہا ہے اور کہیں پاکستان کی قیادت نے سپر ڈالی ہے اور کہیں پابندیوں سے فرار کی راہیں بھی نکالی ہیں۔ لیکن اس اولیں دور میں شرائط کی زبان سخت اور نگرانی کا نظام حاکمانہ نہیں تھا۔

سب سے بڑھ کر یہ سب چیزیں سرکاری دستاویز اور خط کتابت میں دفن تھیں اور قوم اور پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا سارے معاملات طے ہو رہے تھے۔ ۱۹۸۰ء میں امریکا نے اسرائیلی اور بھارتی لابی کے زیراثر زیادہ واضح شرائط اور پابندیوں کا راستہ اختیار کیا۔ سیمنگٹن، پریسلر اور گلین ترامیم ان کی مثال ہیں لیکن ان کا تعلق بڑی حد تک جوہری صلاحیت سے تھا اور افغانستان میں  روس کی مداخلت کے پس منظر میں گو یہ تمام تحدیدات کتابِ قانون میں موجود تھیں لیکن انھیں لاگو کرنے سے عمداً چشم پوشی کی گئی، حتیٰ کہ جب روسی فوجوں کی واپسی کا اعلان ہوگیا تو ہم پر معاشی پابندیاں لگ گئیں۔

۲۰۰۱ء کے بعد پھر حالات نے نئی کروٹ لی اور ۱۹۹۸ء کے جوہری تجربات کے بعد جو پابندیاں لگی تھیں، وہ مصلحت کے ایک ہی جھونکے میں پادر ہوا ہوگئیں۔ اس پس منظر سے چار باتیں بالکل واضح ہیں:

۱- پابندیاں مختلف شکلوں میں لگتی رہی ہیں،وہ نئی چیزیں نہیں ہیں لیکن سوال صرف پابندیوں کا نہیں ان کی نوعیت، اثرانگیزی، زبان اور وسیع تر اثرات کا ہے۔

۲- پابندیوں پر عمل درآمد، مفادات اور سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں کے تابع رہا ہے اور بالعموم امریکا نے صرف اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر انھیں استعمال کیا یا نظرانداز کیا۔

۳- یہ پابندیاں برابر بڑھتی رہیں اور اب ان پابندیوں نے ایک ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ وہ اپنی وسعت، گہرائی اور کاٹ کے اعتبار سے تباہ کن ہوگئی ہیں۔

۴- اس پورے دور کے مطالعے سے جو حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا سے ہمارا تعلق سارے زبانی جمع خرچ کے باوجود، نہ اصولی بنیادوں پر اشتراکِ مقاصد کا تھا اور نہ اسے حقیقی اور دیرپا دوستی (جسے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کہا جاتا ہے) کے فریم ورک کی حیثیت حاصل رہی۔ اس کا امکان ماضی میں تھا نہ آج ہے، مستقبل میں بھی دُور دُور تک یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ سارا معاملہ خالص امریکی مفادات کے فریم ورک میں لین دین پر مبنی تھا اور آج بھی ہے۔ اگر کوئی امریکا کا حقیقی پارٹنر رہا ہے تو وہ صرف برطانیہ اور اسرائیل ہیں، اور اب بھارت اس محدود دائرے میں داخل ہوچکا ہے۔ پاکستان کبھی اس کا حقیقی حلیف تھا اور نہ آج ہے اور مستقبل میں بھی اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ خواہ دل خوش کرنے (مگر درحقیقت دھوکا دینے) کے لیے اسے کبھی نہایت قریبی حلیف کہا جائے اور کبھی ناٹو کا غیررکن حلیف کے القابات سے نوازا جائے، حقائق بہت واضح ہیں۔ ہمیں اپنے کو دھوکا نہیں دینا چاہیے اورنہ دوسروں سے دھوکا کھانا چاہیے۔

اس پس منظر میں پھر وہ کیا بات ہے جس نے کیری لوگر بل کو ایک مختلف حیثیت دے دی ہے؟ ہماری نگاہ میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب کمیت اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے جو شرائط اور پابندیاں اس کے ذریعے لگائی گئی ہیں اور تھوک کے بھائو سے یک مشت لگائی گئی ہیں، وہ اپنی موجودہ شکل میں نہایت سخت ہتک آمیز اور ’غلام آقا‘ تعلقات کی بدترین مثال ہیں۔ اس طرح جو عمل ۱۹۵۴ء میں شروع ہوا تھا، وہ اب اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ کر امریکا کے قانون کا حصہ بن گیا ہے، جو آیندہ بھی ہرقانون اور معاہدے کے لیے نمونے کا کام انجام دے گا۔ اب ہم محکوم اور   تابع مہمل بنا دیے گئے ہیں اور امریکا نے اپنے لیے حاکم اور آقا کے سارے اختیارات لے لیے ہیں۔ پھر اس قانون میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو عادی مجرموں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ آزاد اور خودمختار ممالک کے درمیان معاملات اس زبان میں اور اس انداز میں نہیں کیے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ قانون اپنے تمام پیش روؤں پر بازی لے گیا ہے۔ اب امریکی عزائم اور ہمارے لیے غلامی کی زنجیریں بالکل برہنہ ہوکر سامنے آگئی ہیں اور اس قانون پر پردہ ڈالنے کی جو آخری کوشش پاکستانی عوامی ردعمل کے جواب میں پانچ صفحات پر مشتمل نام نہاد مقاصد کے توضیحی بیان کی شکل میں کی گئی ہے،  وہ دھوکے اور طفل تسلی کے زمرے میں آتی ہے جس سے حقائق میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اس قانون کا جو بھی دیانت داری سے مطالعہ کرے گا وہ اسے دوستی کا پروانہ نہیں، غلامی کا طوق اور قومی تذلیل اور تحقیر کی دستاویز قرار دے گا، جیساکہ ہم آگے شواہد سے ثابت کریں گے۔

قومی ردعمل

دوسرا پہلو جو اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اب سے پہلے امریکی امداد کی شرائط کا تعین فوجی حکومت کے دور میں ہوا یا فوج کی قیادت کا اس میں زیادہ عمل دخل رہا۔ اس بار ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے نمایندوں نے یہ گل کھلائے ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ آج آزاد پریس کی فضا میں یہ قانون سازی ہوئی ہے، اور گو دیر سے سہی امریکا کے سینیٹ اور ایوانِ نمایندگان میں اختلاف کے بعد جو آخری مسودہ منظور ہوا ہے وہ کھلی کتاب کی مانند پاکستانی قوم کے سامنے آگیا ہے۔ نیز عالمی میڈیا اور خود پاکستان کے میڈیا اور سیاسی قیادت نے خصوصیت سے حزبِ اختلاف نے اسے اجتماعی غورو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی پہلی بار کھل کر بات ہوئی ہے۔     گو پارلیمنٹ کو کسی فیصلے پر پہنچنے کا موقع نہیں دیا گیا اور حکومت نے بحث کے دوران مسئلے کو ہائی جیک کر کے ایک نمایشی سمجھوتے کا ڈھونگ رچایا لیکن اس بار کلھیا میں گڑ نہیں پھوڑا گیا اور معاہدے کی ہانڈی چوراہے پر پھوٹی ہے۔ پوری قوم کو احساس ہے کہ ’دوستی کی دستاویز‘ کے نام پر اسے محکومی اور غلامی کا طوق پہنایا گیا ہے۔ قوم نے اسے رد کر دیا ہے اور ہرسطح پر اپنی بے زاری کا اظہار کردیا ہے جس کا تازہ ترین ثبوت گیلپ پاکستان کا سروے ہے جس میں قوم کے فیصلے کی بازگشت صاف   سنی جاسکتی ہے اور یہی جماعت اسلامی کے زیراہتمام عوامی ریفرنڈم کا فیصلہ ہے جس کے مطابق ۹۹فی صد عوام نے کیری لوگر بل کو مسترد کردیا ہے۔ گیلپ کے چار سوال اور ان کے جواب بھی  قوم کے فیصلے کے مظہر ہیں:

اس سروے کے مطابق ۵۲ فی صد نے کہا: مسترد کر دیں، ۱۵ فی صد نے کہا: قبول کرلیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا کیری لوگر بل کے تحت امداد پاکستان کی معاشی ترقی میں مددگار ہوگی؟ ۶۰ فی صد نے نفی میں جواب دیا۔ پھر یہ کہ کیا یہ امداد ایک عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لائے گی؟ ۶۹ فی صد نے نہیں میں جواب دیا۔ کیا پاکستان امریکا اور دوسرے ملکوں کی امداد پر چل رہا ہے یا یہ اپنے وسائل سے بھی ترقی کرسکتا ہے؟ اس آخری سوال کے جواب میں ۶۲ فی صد نے برملا کہا کہ پاکستان اپنے وسائل سے بھی ترقی کرسکتا ہے۔

اس پس منظر میں امریکا سے تعلقات کا مسئلہ اب خواص اور مفاد پرست قیادت کے اختیار سے نکل کر عوام کی عدالت میں آگیا ہے اور اب ان شاء اللہ اس کا آخری فیصلہ واشنگٹن کے   وائٹ ہائوس یا اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں نہیں، پاکستان کے گلی کوچوں میں ہوگا۔ اگر پارلیمنٹ اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عوام نے جس طرح عدلیہ کی بحالی کا مسئلہ طے کیا، ان شاء اللہ اسی طرح یہ مسئلہ بھی طے کریں گے خواہ اس میں کتنا بھی وقت لگے اور عوام کو اپنے حق اور آزادی اور خودمختاری سے محروم کرنے کے لیے اپنے اور غیر کیسی ہی چالیں کیوں نہ چلیں۔

نیا عالمی منظرنامہ

تیسرا پہلو بہت ہی بنیادی اور شاید سب سے اہم ہے اور معاملات کی تہہ تک جانے کے لیے سب سے زیادہ فیصلہ کن ہے۔

۵۰ کے عشرے سے لے کر ۲۰۰۹ء کے حالات تک دنیا بہت بدل گئی ہے اور خود امریکا کے عالمی عزائم اور اس خطے کے بارے میں اس کے ایجنڈے میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جن کی تفہیم بہت ضروری ہے۔

۱۹۴۵ء سے ۱۹۸۹ء تک دنیا سردجنگ کی گرفت میں تھی اور امریکا کی ساری سیاست اسی کے گرد گھوم رہی تھی۔ اس میں امریکا نے سیاسی اور معاشی حلقہ بندیوں کی جو حکمت عملی اختیار کی، اس میں پاکستان کا ایک خاص کردار تھا۔ ۱۹۹۰ء میں حالات بالکل بدل گئے اور امریکا اور مغرب نے نیا ایجنڈا بنایا جس میں ایک یک قطبی دنیا اور عالم گیریت، عالمی سرمایہ داری، سیکولر جمہوریت، آزاد معیشت اور امریکا کی عالمی بالادستی کی بنیاد پر نیا نقشہ تعمیر کیا گیا۔ ایک طرف تہذیبوں کے تصادم کا راگ الاپا گیا تو دوسری طرف مغرب کے تہذیبی نظریے کو، جسے سیاسی اور معاشی آزاد روی (political & economic liberalism) کا نام دیا گیا، پوری دنیا پر مسلط کرنے اور ان کے نظریے سے اختلاف یا اسے چیلنج کرنے والے کسی دوسرے نظریے کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینے کے عزائم کو پروان چڑھایا گیا۔ اس سلسلے میں اسلام اور اسلامی دنیا کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا۔   نائن الیون اسی سلسلے کی اہم ترین کڑی تھا لیکن آٹھ سال تک دنیا کو ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے ایک نہ ختم ہونے والے ہیجان اور انسانی اور معاشی تباہی کے جہنم میں جھونکنے کے باوجود امریکا اور ناٹو اقوام اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکیں۔

اس کے نتیجے میں ایسا نظرآرہا ہے کہ آیندہ کے لیے نئی صف بندی ہو رہی ہے اور اب امریکا، اسرائیل اور بھارت کا ایک نیا گٹھ جوڑ وجود میں آرہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یورپ، جاپان اور چین میں بھی اہم تبدیلیاں کروٹ لے رہی ہیں۔ اس نئے نقشۂ جنگ میں شرق اوسط اور خصوصیت سے پاکستان اور ایران کی بڑی اسٹرے ٹیجک اہمیت ہے۔ان دونوں ملکوں کے لیے بڑی خطرناک منصوبہ بندیاں کی جارہی ہیں، خصوصیت سے پاکستان کو قابو کرنے، اسے کمزور کرنے اور خانہ جنگی اور اندرونی انتشار میں مبتلا کرکے اس کے ایٹمی اثاثوں کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے مختلف النوع حکمت عملی وضع کی جارہی ہیں۔ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے بھارت کو خصوصی کردار دیا گیا ہے۔ ایران کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اور پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے اور پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ اب جملہ کارروائیوں کا مرکز افغانستان سے پاکستان کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے اور افغانستان میں بھی، ناکامی کا سبب پاکستان کے کردار کو قرار دے کر، اسے نہ صرف ہراعتبار سے اپنی گرفت میں لینے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے بلکہ فوج کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں اُلجھا کر اور فوج اور قوم کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرکے اپنے ہاتھوں میں کھیلنے والی سیاسی قیادت کو آلۂ کار بناکر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قوت، رشوت اور بلیک میلنگ کے ہتھیار پوری چابک دستی سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ہیلری کلنٹن نے اب ایک نئی پروپیگنڈا وَار کی دھمکی دے دی ہے۔

امداد کی حقیقت

ان حالات میں عوامی مخالفت اور پارلیمنٹ کی مزاحمت کے باوجود کابینہ نے کیری لوگر بل کو جس طرح منظور کیا ہے، وہ انتہائی افسوس ناک ہے اور مشرف دور کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی اقدام ہے جیسا پرویز مشرف نے ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو کیا تھا۔ اگر اس اقدام کا ہدف عدلیہ اور اس کی آزادی تھی تو اِس مرتبہ اصل ہدف ملک کی آزادی اور خودمختاری ہے اور عزت و وقار کا سودا کر کے اسے امریکا کی گرفت میں دینے کی سازش ہے۔ اسے زرداری صاحب اور ان کے وزیرخارجہ ایک ’تاریخی کامیابی‘ قرار دے رہے ہیں اور دعویٰ ہے کہ اب امریکا سے ’مستقل دوستی‘ اور لمبے عرصے کے فریم ورک میں امداد حاصل کی جارہی ہے،  حالانکہ کیری لوگر قانون ان دونوں باتوں کی تردید کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ کہ پہلی بار پانچ سال کے لیے امداد کا وعدہ کیا جارہا ہے، واقعاتی اعتبار سے غلط ہے۔ اس لیے کہ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ڈاکٹر محبوب الحق کی وزارتِ خزانہ کے دور میں بھی پانچ سال کے لیے امریکی امداد دی گئی تھی اور اس کے نتائج قوم  دیکھ چکی ہے۔

جہاں تک موجودہ امداد کے لیے پانچ سال کے فریم ورک کا سوال ہے تو یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ کیری لوگر بل کے مطابق ہرسال جائزہ لیا جائے گا اور اس کے لیے ہر چھے ماہ بعد امریکا کی وزارتِ خارجہ رپورٹ تیار کرے گی اور پاکستان میں احتساب، نگرانی اور آڈٹ کا بھرپور نظام قائم کیا جائے گا۔ نیز ان ۴۲ شرائط (benchmarks) کی روشنی میں، جو اس قانون کا حصہ ہیں، اگر  رپورٹ میں ذرا بھی خلاف ورزی پائی گئی تو امداد کی اگلی قسط کو روک دینے کی سفارش قانون کا حصہ ہے۔ اس کی موجودگی میں نہ امداد کا تسلسل یقینی ہے اور نہ معاشی ترقی کے منصوبوں کے دیرپا ہونے کی کوئی ضمانت ہوسکتی ہے۔

۵ء۷ ارب ڈالر کو ایک ’خطیر امداد‘ قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ ۱۹۸۴ء میں صرف ایک سال میں ۱ء۵ ارب ڈالر کی امداد بھی پاکستان کو مل چکی ہے۔ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۷ء تک ۱۲ ارب ڈالر کی امداد کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور اگر اس زمانے میں افراطِ زر اور ڈالر کی قوتِ خرید اور اس کی عالمی قیمت میں کمی کو سامنے رکھا جائے تو حقیقی طور پر ۵ء۱ ارب ڈالر سالانہ کی امداد مونگ پھلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ پھر اس ۵ء۱ ارب ڈالر میں سے ۲۰۰ ملین ڈالر امداد پر امریکا کی نگرانی کے   نظام کے لیے وقف ہیں۔ باقی ۳ء۱ ارب میں سے کتنا امریکا کے پاکستانی منصوبوں پر خرچ ہوگا   وہ ایک معما ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ صرف امریکی سفارت خانے کی توسیع کے لیے ۶۰۰ سے ۷۰۰ ملین ڈالر درکار ہوں گے۔ اگر اس سے صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تب بھی ہمارا اپنا اور دنیا کے سارے ممالک کا تجربہ ہے کہ معاشی امداد کا ۵۰ فی صد امداد دینے والے ملک کے ادارے اور مشیر واپس لے جاتے ہیں اور باقی ۵۰ فی صد میں سے ۲۰ فی صد امداد لینے والے ملک میں بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے۔ ملک اور اس کے عوام کے حصے میں بمشکل ۲۰ یا زیادہ سے زیادہ ۳۰ فی صد آتا ہے اور وہ بھی ان منصوبوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو امداد دینے والے ملک کی ترجیح ہوتے ہیں (قطع نظر اس کے کہ امداد لینے والے ملک کی ترجیح میں وہ کہاں آتے ہیں اور اُسے کتنا حقیقی فائدہ ہوتا ہے)۔ یہ بھی مشتبہ ہے کہ ان میں سے کتنے منصوبے مکمل ہوتے ہیں، کتنے صرف کاغذ پر بنتے ہیں اور فائلوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کی خودمختاری

کیری لوگر بل میں غیرحکومتی اداروں کو خصوصی کردار دیا گیا ہے اور پالیسی کی یہ ترجیح واضح الفاظ میں موجود ہے کہ حکومتی ذرائع کے علاوہ امداد کا ذریعہ این جی اوز ہوں گی۔ ٹائٹل J کے سیکشن ۱۰۱ میں صاف بیان کیا گیا ہے:

صدر کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اس سیکشن کے تحت امداد فراہم کرنے کے لیے پاکستانی اداروں، کمیونٹی اور مقامی این جی اوز بشمول میزبان ملک کے ساتھ معاہدوں اور مقامی لیڈروں کے ساتھ کام کریں۔

سارا کام یو ایس ایڈ اور اس فنڈ کے لیے پاکستان کے سربراہ کے ذریعے انجام دیا جائے گا جو مانٹیرنگ کے فرائض بھی انجام دے گا۔ اس امداد پر تصدیق نامہ جاری کرنے کا نظام ہوگا جو سیکرٹری آف اسٹیٹ کے اختیار میں ہوگا اور اسے نظرانداز کرنے (waiver ) کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔ امریکا نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ہمارا کوئی ارادہ نہیں کہ آپ کے منصوبوں میں دخل اندازی کریں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ آڈٹ کا پورا نظام امریکی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہوگا۔ منصوبوں اور پروگراموں کو روبہ عمل لانا، ان کا انتظام، ان کا آڈٹ اور ان کی نگرانی اس کی ذمہ داری ہوگی۔

بات ارادوں سے بہت آگے جاچکی ہے۔ امریکا عملاً بہت کچھ اپنے ہاتھ میں لے چکا ہے۔ اب کیری لوگر بل نے اس عملی انتظام کے لیے قانونی ڈھانچا تجویز کیا ہے اور یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ باہر کے محققین جن کی نگاہ پاکستان کے حالات اور امریکی امداد کے طریقۂ واردات پر ہے، وہ اس کا برملا اعتراف کر رہے ہیں۔

لندن کے اخبار دی گارڈین کا نامہ نگار اپنے مضمون Pakistan's American Aid Dilemma میں امریکا اور پاکستان دونوںکو ان الفاظ میں آئینہ دکھاتا ہے:

پاکستان میں جو بات لوگوں کو خوف زدہ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ امداد پاکستان کی سلامتی کے پورے نظام کے حساس ترین پہلوئوں کی امریکی نگرانی سے مشروط ہے۔ ان اقدامات پر اتنا شدید احتجاج ہوا کہ کانگریس کو ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا     جس میں وعدہ کیا گیا کہ امریکا ریاست کے انتظامی امور میں جزئیات کے انتظام (micro management) تک نہیں جائے گا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اس وقت بھی جزئیات کے انتظام میں دخل انداز ہے۔ اب بڑا فرق یہ ہوگیا ہے کہ امریکی انتظامیہ جب یہ کرے تو کانگریس کو زیادہ جواب دہ ہوگی۔ (دی گارجین، ۲۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

اس مضمون میں دی گارڈین کے نامہ نگار کا مندرجہ ذیل تبصرہ بھی غور کرنے کے لائق ہے:

یہ ایک ہمہ گیر قانون ہے جو عملاً پاکستان کے ریاستی امور، تعلیم اور ماحولیات سے لے کر سلامتی کے معاملات تک، ہر پہلو کا ذکر کرتا ہے۔بلاشبہہ یہ واضح نہیں ہے کہ کتنی امداد پاکستان کو براہِ راست دی جائے گی اور کتنی امداد امریکا اور نجی مشیران اس کے انتظامی امور پر خرچ کریں گے۔

پاکستان کے وزیرخزانہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انتظامی اخراجات امداد کو نصف کردیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امدادی پیکج کے ساتھ جو شرائط لگائی گئی ہیں، وہ پاکستان کا بازو موڑنے کو چھپانے کے لیے استعمال کی جائیں گی۔ محکمہ خارجہ اور اس کے ساتھ  کم تر درجے میں کانگرس اور پینٹاگون کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ  یہ امداد کرپشن کی نذر نہ ہو۔ بہرحال یہ ادارے غیرجانب دار اور آزاد نہیں ہیں۔  افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی بقا کے لیے امریکا پر انحصار کرتا ہے۔

کیا اب بھی اس میں کوئی شک ہے کہ بات جزئیات کے انتظام کو ہاتھ میں لینے سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ اگر اس قانون پر پورا عمل ہوتا ہے (اور امریکا کروائے گا) تو پاکستان ایک محکوم ملک ہوگا اور امریکاکی حیثیت ریاست بالاے ریاست کی ہوگی، محض ریاست کے اندر ریاست کی نہیں!

بل کے مضمرات

یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ کیری لوگر بل ایک مربوط اور جامع قانون ہے جس میں معاشی اور سیکورٹی امداد کے لیے الگ الگ سیکشن تو ضرور قائم کیے گئے ہیں لیکن یہ دونوں باہم مربوط ہیں۔ قانون کے اولین حصے کا سیکشن ۳ بہ عنوان Findings ۱۲ نکات پر مشتمل ہے، اور اس کے سیکشن ۴ بہ عنوان Statement of Principles میں پانچ اصول بیان کیے گئے ہیں۔ پانچویں اصول کے ذیل میں ۱۴نکات سموئے گئے ہیں۔ یہ حصے پورے بل پر حاوی ہیں اور معاشی اور سیکورٹی امداد دونوں ان کے تابع ہیں۔ یہ حصے پورے قانون کے مقاصد اور مزاج کو متعین کرتے ہیں۔ پورے امدادی نظام کے لیے جو مانٹیرنگ اور تصدیق کا دروبست طے کیا گیا ہے، وہ بھی ناقابلِ تقسیم ہے۔ سب سے بڑھ کر خود پاکستان اور حکومت ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ کچھ شرائط کا تعلق صرف سیکورٹی امداد سے ہے، ایک مغالطہ ہے۔ جیسا کہ امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بجاطور پر لکھا ہے، یہ تفریق ناقابلِ عمل ہے۔ (دی نیوز، ۲۰؍اکتوبر ۲۰۰۰ء)

نسیم زہرہ کی بات بھی غورطلب ہے:

اس بل سے پاکستان میں اقتدار کے معاملات کو غیرمستحکم کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس بل سے سول اور فوجی حکام کے درمیان اعتماد کی کمی ظاہر ہوتی ہے۔ حزبِ اقتدار کی جماعتوں اور سیکورٹی کے اداروں میں ایک راے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ حکمران سیاسی قیادت کے ایک حصے نے ان شرائط کی شمولیت کے لیے جن کا نشانہ پاکستان کے سیکورٹی کے ادارے اور پالیسیاں ہیں، اگر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی تو ساتھ ضرور دیا ہے۔

اس قانون کے مطالعے سے جو ناقابلِ انکار حقائق سامنے آتے ہیں وہ ہم ڈاکٹر ملیحہ لودھی ہی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ محترمہ ملیحہ لودھی حکومتی نظم کا بہت اہم حصہ رہی ہیںاور ان پر تعصب یا امریکا دشمنی یا بنیاد پرستی کا الزام نہ زرداری صاحب لگا سکتے ہیں اور نہ صدر اوباما، یا  محترمہ ہیلری کلنٹن یا سینیٹر جان کیری۔

  •  قانون امریکی انتظامیہ کو پابند کرتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو اور دہشت گردی کے خلاف متعین دائروں سے لے کر فوجی بجٹ اور ترقیوں کے طریقۂ کار تک کی نگرانی کرے، یا اس میں پاکستان سے تعاون حاصل کرے۔
  •  یہ ایکٹ ایسے مستقل معیارات (benchmarks) طے کرتا ہے جو نہ صرف فوجی امداد کو، بلکہ دوسرے دائروں میں بھی تعلقات کو مشروط کریں گے۔ درحقیقت یہ ایسا فریم ورک فراہم کرتا ہے کہ آیندہ تعلقات انھی شرائط اور فریم ورک پر منحصر و محدود ہوں گے اور ممکن ہے کہ دوسری مغربی قومیں بھی اس کے مطابق معاملہ کریں۔
  •  یہ شرائط طویل عرصے سے قائم اس تصور کو تقویت دیتی ہیں کہ امریکا اپنی امداد کو پاکستان کی داخلہ و خارجہ پالیسیاں طے کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتاہے۔
  •  یہ اعتماد کے فقدان کا تاثر دیتی ہیں، خصوصاً پاکستان کی مسلح افواج پر۔ اس سے وہ تعاون بھی قابلِ بحث ہوجاتا ہے جو اس نے پیش کیا ہے۔
  •  یہ  شرائط پریسلر لا کی طرح تعلقات پر تلوار کی طرح لٹکتی رہیں گی۔
  •  بعض دفعات کو ملا کر پڑھا جائے تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کھوجنے (probe) کی کوشش نظر آتی ہے۔
  •  ان شرائط کے ہوتے ہوئے پاکستان شدت پسندی کے خلاف جو اقدام اٹھائے گا، ملک میں اسے واشنگٹن کے احکامات سمجھا جائے گا اور اس سے جو قومی مفاہمت حال ہی میں قائم ہوئی ہے، اسے نقصان پہنچے گا۔
  •  اس قانون کے بعض حصوں میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ بھی قابلِ گرفت ہے، مثلاً دفعہ ۲۰۳۔ اس میں انتظامیہ کی اس تصدیق کو لازمی کیا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان، پاکستانی فوج کے اندر بعض عناصر یا اس کی خفیہ ایجنسی کی طرف سے انتہاپسند اور  دہشت گرد گروہوں کی حمایت ختم کرنے پر آگے بڑھ رہی ہے___ اور اس قرارداد جرم کا ہدف یہ ہے کہ امریکا کو مطلوبہ تعاون ملے!

بل: غیر جانب دارانہ نقطۂ نظر

اس قانون کا جو مفہوم پیپلزپارٹی کے اربابِ اقتدار کو چھوڑ کر پاکستان کے دانش وروں، صحافیوں اور خود فوج کی قیادت نے سمجھا ہے، اس کی تصدیق امریکا کے غیر جانب دار اہلِ قلم بھی کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ کی ۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں ان کے مضمون نگار ڈیوڈ اگناشیس (David Ignatius) نے اہلِ پاکستان کے جذبات کی پوری دیانت اور جرأت سے ترجمانی کر دی ہے۔ یہ مضمون امریکی قیادت کو آئینہ دکھاتا ہے اور پی پی کی قیادت کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے چند اقتباس ملاحظہ کیجیے:

کانگریس نے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے امداد کو تین گنا کیا ہے لیکن ممبران نے جو ہمیشہ دوسروں کو یہ بتانے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں کہ وہ کیا کریں، ایسی شرائط داخل کردی ہیں جو پاکستانیوں کو توہین آمیز لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ امداد اور دوستی کو خوش آمدید کہنے کے بجاے پاکستانی [عوام] امریکی مداخلت پر ناراض ہیں۔ گذشتہ ہفتے میں اسلام آباد میں تھا تو اس وقت پاکستانی پریس امریکا مخالف جذبات سے بھرا ہوا تھا۔

پاکستانیوں پر کچھ حرف گیری کرنے کے بعد ڈیوڈ اگناشیس کام کی بات کہتا ہے:

یہ دراصل ان بلاجواز الفاظ کا نتیجہ ہے جنھیں ان تنبیہات کے باوجود قانون میں لکھا گیا کہ اس سے اس طرح کا ردعمل پیدا ہوگا۔ امریکی سیاست دان دوسروں کو لیکچر دینے کے اتنے عادی ہوجاتے ہیںکہ وہ دوسرے ملکوں میں ان کے الفاظ سے جو مفہوم لیا جائے گا، اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔ لیکن جب کچھ بلاجواز جملے القاعدہ کے خلاف ہمارے سب سے اہم اتحادی کے ساتھ تعلقات کو غیرمستحکم کرسکتے ہیں تو پھر یہ ہمارا مسئلہ بھی ہے۔

مضمون نگار اس کے بعد بل کی تاریخ بیان کرتا ہے کہ کس طرح سینیٹ میں منظور ہونے والا بل کم از کم زبان کے اعتبار سے نسبتاً نرم تھا مگر ایوانِ نمایندگان کے مسودے کے ذریعے ایسی شرائط کا اضافہ کردیا گیا جو کسی بھی باغیرت قوم کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتیں۔ مضمون نگار کے الفاظ میں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ:

پاکستان کو فوجی امداد نہیں ملے گی جب تک کہ وہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف اپنے مضبوط عہد کا مظاہرہ نہ کرے اور دہشت گرد گروپوں کے لیے اپنی حمایت ختم نہ کرے اور کوئٹہ اور مریدکے (جہاں لشکرطیبہ کا مرکز ہے) کے دہشت گرد اڈوں کو ختم نہ کردے۔ اگرچہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ان گروپوں سے ماضی میں تعلقات رہے ہیں لیکن کانگریس کی طرف سے اس برسرِعام ڈانٹ ڈپٹ نے پاکستانی خفیہ سروس کے افسران اور فوجی حکام کو پریشان کرنا ہی تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے سپاہی طالبان اور دوسرے انتہاپسند گروپوں کے خلاف لڑائی میں اپنی جانیں دے رہے ہیں اور انھیں کانگریس کی طرف سے کسی رعب کے اظہار کی ضرورت نہیں۔

امریکا کے ایک اور رسالے ورلڈ پولٹیکل ریویو میں اس کے مقالہ نگار ڈاکٹر کلاڈ رکی سٹس (Claude Rakisits )٭ نے اس بل کے ایک اور خطرناک پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:

کیری لوگر بل کی بعض شرائط بہت سخت ہیں اور انھوں نے پاکستان کی سول اور فوج کی مقتدرہ کے درمیان ایک گہری دراڑ ڈال دی ہے جو اس ملک میں جمہوریت کے استحکام میں مددگار نہیںہوگی۔ ایک شرط جس نے پاکستانی فوج کو بہت زیادہ ناراض کیا ہے، یہ ہے کہ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن ہر چھٹے ماہ کانگریس کو رپورٹ کریں گی کہ حکومت پاکستان فوج پر مؤثر سول کنٹرول کر رہی ہے یا نہیں؟ وزیرخارجہ کو دوسری باتوں کے علاوہ     یہ اندازہ بھی لگانا ہوگا کہ حکومت کس حد تک فوجی بجٹ، فوج کی قیادت، رہنمائی     اور منصوبہ بندی اور سینیرافسران کی ترقی پر نظر رکھتی ہے۔ پاکستانی فوج کے افسران    کے لیے یہ بیل کے سامنے سرخ جھنڈا لہرانے کے مترادف ہے۔

کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، پاکستان میںفوج نے ظاہری یا خفیہ طور پر ملک کے سیاسی   فیصلہ سازی کے عمل میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ منتخب سول قائدین کو بالآخر فوج پر بالادست ہونا چاہیے لیکن یہ یقین کرنا کہ ایسا چند مہینوں میں ہوجائے گا بہت سادگی کی بات ہے اور خاص طور پر اس وقت، جب کہ یہ کوشش واشنگٹن سے مسلط کی جارہی ہو۔ گذشتہ سال اس کا مظاہرہ ہوا ہے جب صدر آصف زرداری نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ آئی ایس آئی کوسول کنٹرول میں لے رہے ہیں۔اگلے ہی دن انھیں جنرل کیانی کی مخالفت کی وجہ سے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔

کیری لوگر بل کے لیے زرداری کی بہت شدید کھلی حمایت نے پاکستانیوں کے اس تاثر کو گہرا کر دیا ہے کہ ان کا صدر امریکا کی ہر بات مانتا ہے، یہاں تک کہ وہ سخت ضروری رقوم کی خاطر پاکستان کی خودمختاری کے کچھ حصے سے بھی دست بردار ہونے کے لیے تیار ہے۔ یہ ایسے ملک میں جہاں امریکی مخالفت عام ہے اور اس وقت سب سے زیادہ ہے، ایسے صدر کو جو پہلے ہی سیاسی طور پر کمزور ہو، مزید کمزور کردیتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ سول اور فوجی قیادت میں بداعتمادی کو بڑھادے گا مگر اس سے امریکا کو پاکستان میں حکمرانی کو بہتر کرنے کے اپنے مقصد میں مدد    نہیں ملے گی۔ ان سب باتوں سے پاکستانی فوج میں یہ احساس تقویت پاتا ہے کہ واشنگٹن ان پر اعتماد نہیں کرتا۔

بات صرف فوج اور امریکا کے درمیان اعتماد کی نہیں، بلکہ پوری پاکستانی قوم کے بارے میں امریکا کے اور امریکا کے بارے میں پاکستانی قوم کے اعتماد میں کمی کی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور بالآخر دونوں کے راستے ایک دوسرے سے جدا ہوکر رہیں گے۔ مضمون نگار جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے:

کیونکہ اسلام آباد کو رقم کی سخت ضرورت ہے، اس لیے اس کے پاس اس کڑوی گولی کو نگلنے اور اس بل کو جیسا یہ ہے قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس سے  منہ بدذائقہ ہوجائے گا اور یقینا دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد قائم نہیں رہے گا۔

امریکیوں کی نظر میں

یہ تو پھر بھی دوسروں کا تجزیہ اور تبصرہ ہے، اگر خود امریکی ایوانِ نمایندگان کے کچھ ارکان کے ارشادات پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے تو امریکی کانگریس اور حکمرانوں کا اصل ذہن سامنے آجاتا ہے، اور قانون کے مقاصد کے بارے میں کسی نمایشی یافرمایشی بیان کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایوانِ نمایندگان میں اس بل کے مجوز کانگریس کے ڈیموکریٹک رکن ہاورڈ برمین کا بیان ہے:

ہم القاعدہ یا کسی دوسرے دہشت گرد گروپ کو جو ہمارے قومی سلامتی کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں، اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ قبائلی علاقوں میں یا پاکستان کے کسی دوسرے حصے میں کسی اندیشے کے بغیر کارروائی کریں، نہ ہم یہ اجازت دے سکتے ہیں کہ طالبان ریاستِ پاکستان اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرلیں۔

ایوان کے ایک دوسرے رکن ڈانا روہرباخر (Dana Rohrbochar) بل کی تائید میں کہتے ہیں:

چین اور پاکستان، دونوں حکومتیں ہمیشہ ہمارے مفادات کے خلاف منصوبے بناتی اور کارروائیاں کرتی ہیں۔ انقلابی اسلام کا خطرہ حقیقی ہے لیکن یہ ہمارے اپنے ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے کے بارے میں غیر ذمہ دار ہونے سے حل نہیں ہوگا۔

سینیٹر جان کیری امریکا کے بڑے معتبر سیاست دان ہیں، انھیں پاکستان کادوست ہونے کا بھی دعویٰ ہے لیکن یادش بخیر جب وہ ۲۰۰۴ء میں صدارتی امیدوار تھے تو ان کا ارشاد تھا کہ اگر میں امریکا کا صدر منتخب ہوگیا تو میری اولین ترجیح پاکستان کے نیوکلیر ایٹمی اسلحے پر قبضہ ہوگا۔ خود اس  بل پر بحث کے دوران ان کا کہنا ہے:

بغاوت کے خلاف حکمت عملی کے برخلاف دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی اس نظریے پر مبنی ہے کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مفادات کو حقیقی خطرہ پاکستان میں ہے افغانستان میں نہیں۔ پاکستان اہم مرکز ہے اور امریکا کے لیے سب سے بڑا سیکورٹی رسک ہے، اور یہ ساری مشق بالآخر ہماری اپنی سلامتی سے متعلق ہے۔

اپنے حالیہ دورے میں بھی جب وہ پاکستانی صحافیوں اور سیاست دانوں کو (پی پی کے ٹولے کو چھوڑکر) قائل نہ کرسکے تو ان کے منہ سے سچی بات ان الفاظ میں نکل ہی پڑی: ’’یہ قانون امریکا کی پارلیمنٹ نے بنایا ہے۔ ہم مدد دے رہے ہیں، پاکستان کواختیار ہے کہ وہ مدد نہ لے‘‘۔

پاکستان کے ردعمل پر امریکا کے سرکاری ترجمان کا تبصرہ  جو دی نیوز کے واشنگٹن کے نمایندے نے اپنی رپورٹ مورخہ ۱۲؍اکتوبر ۲۰۰۹ء میں بھیجا ہے، سنجیدہ غوروفکر کے لائق ہے:

اس رپورٹر کو ایک سینیر امریکی افسر نے بتایا: ’’شاید کیری لوگر بل کی زبان پاکستانیوں کے لیے زیادہ حساس ہوسکتی تھی لیکن موجودہ زبان ہماری کانگریس کی راے کی عکاس ہے۔ کانگریس کے دونوں ایوانوں کے ۵۰۰ ممبران بعض وقت دوسرے ملکوں کے بارے میں شدید غیر محتاط زبان استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں امریکا کی سفیر محترمہ پیٹرسن نے ۸؍اکتوبر کو لاہور میں اس قانون کے  ۴۲ ہتک آمیز مطالبات کی توجیہ کا بالعموم یہی آسان حل نکالا ہے کہ بس کیری لوگر بل کی زبان نامناسب تھی۔ گو فوج کے بارے میں دفعات کے باب میں یہ بھی ان کی زبان سے نکل گیا کہ یہ دفعات    "a big mistake" (ایک بڑی غلطی) تھیں۔

بل کے مجوزین کی طرف سے توضیحی بیان کا سارا زور بھی اس پر ہے کہ زبان کو سمجھنے میں ابہام رہا ہے اور مسئلے کا حل الفاظ کی بہتر تعبیر ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ الفاظ کی بہتر تعبیر سے معاملہ  رفع دفع تو کیا جاسکتا ہے لیکن زبان جن خیالات اور مطالبات کی ترجمان ہے ان کی کوئی دوسری تعبیر یا توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ ہمارا اصل مسئلہ وہ اہم بنیادی موضوعات اور مسائل (substantive issues) ہیں، جن میں پاکستانی قوم اور امریکی قیادت کی سوچ اور اہداف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیری لوگر بل کے الفاظ ہی بقول سرکاری ترجمان: امریکی پارلیمنٹ کے ذہن کے عکاس ہیں اور توضیحی بیانات کی لیپاپوتی سے حقائق پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس بات کی توثیق اس تازہ ترین قانون کی شکل میں ہوگئی ہے جو اس ساری بحث کے بعد امریکی ایوانِ نمایندگان نے ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو Fiscal 2010 Defence Authorization Bill کی شکل میں منظور کیا ہے اور جسے ۲۳؍اکتوبر کو سینیٹ نے بھی منظور کرلیا ہے۔ اس بل میں عملاً وہ شرائط ایک تازہ ترمیم کے ذریعے شامل کردی گئی ہیں جن پر کیری لوگر بل کے حوالے سے تنقید ہورہی ہے اور جسے پاکستانی قوم نے یکسر رد کر دیا ہے۔ سی بی این نیوز کی رپورٹ US Congress Quietly Okays New  Curbs on Military Aid (۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۹ء) پڑھنے کے لائق ہے:

میڈیا کو بتایا گیا کہ محکمہ دفاع کے بل میں ایک ترمیم شامل کردی گئی ہے تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ پاکستان کو جو فوجی امداد دی جارہی ہے، حقیقی طور پر اپنے مقصد یعنی طالبان اور القاعدہ سے لڑنے کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ اس کے مطابق امریکا کے وزیرخارجہ اور وزیردفاع پاکستان کو امداد دینے سے پہلے یہ تصدیق نامہ دینے کے پابند ہیں کہ یہ ادایگی قومی سلامتی کے مفادات کے تحت ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر نہیں کرے گی۔

واضح رہے کہ اس تازہ ترین قانون کے مطابق امریکی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ امداد کی رقم اور اس کے تحت دیے جانے والے اسلحے کے استعمال پر نگاہ رکھے، یعنی یہ کہ کتنا اور کون سا اسلحہ کہاں، کیسے اور کب، کس طرح اور کس لیے استعمال ہوا؟ ہراسلحے اور ہرڈالر کے استعمال پر امریکا کی ایسی نگاہ ہو کہ وہ صرف امریکی سیکورٹی مقاصد کے لیے استعمال ہو اور علاقے میں قوت کا توازن  متاثر نہ ہو جس کے معنی بھارت کے مفادات اور اس کی عسکری برتری کی حفاظت ہے۔

یہ تازہ ترین قانون زرداری حکومت کے منہ پر ایک اور طمانچا ہے لیکن اسی حکومت نے امریکا کی ہر زیادتی اور ہر ناروا مطالبے پر سرتسلیم خم کرنے کی قسم کھا رکھی ہے (بالفاظِ دیگر امریکی غلامی کو طوق در طوق قبول کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے) اور اس وقت جب خود امریکا کے کچھ صحافی اور سیاست دان یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ امریکا کی یہ سامراجی پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی، پاکستان کے مفاد پرست حکمران اپنے ہی ملک کی آزادی اور خودمختاری کاجنازہ نکالنے کے لیے کندھا دینے میں پیش پیش ہیں۔

کیری لوگر بل پر امریکی کانگریس کے ایک رکن گیری ایکرمین کا یہ تبصرہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو عبرت اور پاکستان کے غیور عوام کو حالات کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے پیشِ خدمت ہے:

ہماری کامیابی کا سارا انحصار ان اصلاحات پر ہوگا جو پاکستانی پاکستان میں کریں گے اور مجھے اس بل میں کوئی ایسی یقین دہانی نظر نہیں آتی کہ اس طرح کی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ہم ایک دفعہ پھر پاکستان کے سرپرست بن رہے ہیں نہ کہ شراکت دار۔ آخر میں یہ ہوگا کہ جو کچھ ہم دے رہے ہیں، وہ اس کو ہضم کرلے گا اور رہے گا وہی پاکستان۔ سب سے بُری بات یہ ہے کہ پھر بھی یہی دعویٰ کریں گے کہ ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

ایکرمین کا یہ تبصرہ پاکستان سے دوستی اور فکری ہم آہنگی پر مبنی نہیں، اس لیے کہ اس کا اصل ذہن تو یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کی اساس، سوچ اور مفادات متصادم ہیں۔ اس نے صاف الفاظ میں کہا ہے: ’’امریکا اور پاکستان کے مفادات قریب قریب یکساں نہیں ہیں‘‘۔

لیکن اگر مخالف کے منہ سے بھی سچی بات نکل جائے تو اس کی ناقدری نہیں کرنی چاہیے۔

منظم جدوجھد کی ضرورت

پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے ماضی، حال اور مستقبل کی جو تصویر ۶۰سالوں پر   پھیلی ہوئی اس داستان سے اُبھرتی ہے، کیری لوگر بل اور امریکی کانگریس کے منظورشدہ تازہ ترین The Defence Authorization Bill for 2010 میں صاف نظر آتی ہے۔ اس سے دیانت داری کے ساتھ صرف یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مفادات میں   کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ ہمارے لیے آزادی، عزت اور ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ایسی آزاد خارجہ پالیسی کے اختیار کرنے میں ہے جس میں ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ ہمارے خارجہ تعلقات کی بنیاد بڑی طاقتوں کے مفادات اور ان کی کاسہ لیسی سے عبارت نہ ہو، بلکہ خود  اپنے نظریاتی اور تہذیبی وجود اور سیاسی اور معاشی عزائم اور مفادات پر مبنی ہو اور دوست اور دشمن کی صحیح تمیز کی بنیاد پر تعلقات کو مرتب اور مستحکم کیا جائے۔ پاکستانی عوام امریکا کو اپنا دوست نہیں سمجھتے اور اس علاقے کے بارے میں امریکا کی پالیسیوں کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔   کم و بیش یہی جذبات پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی اس قرارداد میں بھی سامنے آئے تھے جو ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو   متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی اور جس پر پورا ایک سال گزر گیا، حکومت نے  رتی بھر بھی عمل نہیں کیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں اور عوام کی خواہشات میں کوئی مطابقت نہیں، بلکہ حکومت کی کارکردگی انتہائی غیراطمینان بخش ہے۔ حالات روز بروز بگاڑ کی طرف جارہے ہیں۔ اس صورت حال میں ضرورت کس بات کی ہے؟

تبدیلی کے لیے جدوجہد کی___ غلط پالیسیوں کے خلاف عوامی اور جمہوری جدوجہد، امریکا کی سیاسی اور معاشی گرفت سے نکلنے اور اپنی آزادی، خودمختاری اور عزت و وقار کی حفاظت، معاشی خودانحصاری کے حصول اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کو پروان چڑھانے کے لیے ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے۔

کیری لوگر بل نے ’گو امریکا گو‘ کی تحریک کی ضرورت، افادیت بلکہ ناگزیریت کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے۔ کیری لوگر بل کا تازیانہ اگر قوم کو بیدار کرنے کا ذریعہ بنتا ہے، ملّت اسلامیہ پاکستان کی آزادی، خودمختاری، خودانحصاری اور عزت و وقار کی بحالی کی تحریک اگر آگے بڑھتی ہے اور یہ تحریک عوامی اور جمہوری قوت کے ذریعے استعماری قوتوں اور ان کے حواریوں سے نجات کا راستہ استوار کرتی ہے تو پھر یہ ایک تاریخی تبدیلی کی نقیب بن سکتی ہے___ اور یہی وہ راستہ ہے جو آزادی، زندگی، قوت اور عزت کی منزل کی طرف لے جاسکتا ہے    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے، تو.ُ عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے


(کتابچہ:  کیری لوگر بل اور پاک امریکا تعلقات دستیاب ہے، قیمت: ۱۰ روپے۔ سیکڑے پر خصوصی رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور)