گلگت بلتستان تاریخی اعتبار سے ریاست جموںو کشمیر کا حصہ ہے ۔تقسیم ہند سے قبل اسے سیاسی لحاظ سے تین صوبوں، یعنی جموں، کشمیر اور لداخ و گلگت میں تقسیم کیاگیا تھا۔۱۹۴۷ء میں شروع ہونے والی تحریک جہاد کے نتیجے میں ریاست کا ایک حصہ آزاد ہو کر آزاد جموں وکشمیر کہلایا، جب کہ لداخ اور گلگت کو مجاہدین نے اپنی جدوجہد سے آزاد کروا کر یکم نومبر ۱۹۴۷ء کو آزادی کا اعلان کیا اور حکومت ِ پاکستان کو خطے کے انتظام و انصرام کی دعوت دی۔ ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء اور۵ جنوری ۱۹۴۹ء کو جو قرار دادیں منظور ہوئیں، ان کی رو سے بھی پاکستان اور بھارت دونوں نے ان اضلاع کو ریاست جموں وکشمیرکا حصہ تسلیم کیا جس کا اعتراف دونوں کے ریاستی آئین میں بھی موجود ہے ۔ نیز جنگ بندی کے بعد اقوام متحدہ کے جو مبصرین تعینات ہوئے وہ ریاست کے باقی حصوں کی طرح یہاں پر اب بھی موجود ہیں ۔
اس وقت چونکہ رسل و رسائل اور مواصلات کے ذرائع بہت محدود تھے، اس لیے ۲۸؍اپریل ۱۹۴۹ء کو حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان ایک معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام و انصرام عارضی طور پر حکومت پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔ اس معاہدے پر حکومت پاکستان کی طرف سے مرکزی وزیر مشتاق احمد گورمانی اور حکومت آزاد جموں وکشمیر کی طرف سے صدر ریاست سردار محمد ابراہیم خان اور چودھری غلام عباس مرحوم صدر آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے دستخط کیے۔خود عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ معاہدے اور پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی رو سے بھی یہ علاقے ریاست کا حصہ ہیں۔
سیاسی عمل نہ ہونے کی وجہ سے وہاں یک جہتی کی فضا متاثر ہو رہی ہے ۔ صدیوں سے وہاں تمام مکاتب ِفکر مکمل بھائی چارے کی فضا میں رہتے رہے ہیں۔لیکن رفتہ رفتہ بیورو کریسی نے راے عامہ کو تقسیم کرنے کے لیے اہل تشیع اور آغا خان کمیونٹی کو باور کرایا کہ آزاد جموں وکشمیر میں شمولیت سے آپ ایک کمزور سی اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔ آپ لوگ تعلیم و ترقی کے لحاظ سے بھی بہت آگے ہیں، اس لیے الگ صوبے کا مطالبہ کرو،تا کہ آپ ا قلیت میں تبدیل ہونے سے بچ سکیں۔ بیورو کریسی کو اس علاقے کی تاریخی حیثیت کا کماحقہٗ علم تھا اور وہ یہ بھی سمجھتی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں الگ صوبہ بنانا محال ہے ۔وہ سمجھتے تھے کہ اس ہتھکنڈے سے راے عامہ تقسیم ہو گی اور آزاد جموںو کشمیر کے ساتھ ملنے کا امکان مسدود ہو کر موجودہ ’جوں کی توں‘ حیثیت برقرار رہے گی، جہاں وہ سیاہ و سفید کی مالک ہے۔
ایک اہم عامل آغا خان کا بھی ہے، جن کے پیرو کاروں کی ایک بڑی تعداد ہنزہ اور غذر کے اضلاع میں مقیم ہے ۔ یہ کمیونٹی نہایت تعلیم یافتہ اور باوسائل ہے۔ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (AKRSP) کے ذریعے پورے گلگت بلتستان میں خاص طور پر جہاں جہاں ان کی اپنی کمیونٹی ہے، وہاں ان کے تعمیر و ترقی کے لیے گذشتہ تین عشروں سے مسلسل کام ہو رہا ہے ۔ آغا خان کو ان کے پیرو کار ’حاضر امام‘ تصور کرتے ہیں اور مذہبی معاملات میں انھیں حتمی اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں۔ موجودہ امام پر نس کریم آغا خان کو پاکستان میں آمد کے موقع پر سربراہ ریاست کا پروٹوکول ملتا ہے، بلکہ ساری دنیا میں وہ اس نوعیت کے پروٹوکول سے مستفید ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی اداروں سے خصوصی تعلقات کی وجہ سے وہ آغا خان فائونڈیشن کے لیے بے پناہ وسائل فراہم کرتے ہیں، جن سے بیورو کریسی بھی مستفید ہوتی ہے ۔اسلام آباد اور گلگت کے بیورو کریٹس ریٹائرمنٹ کے بعد آغا خان فائونڈیشن اور ’آغا خان رورل سپورٹ پروگرام‘ میں بھاری معاوضوں پر ملازمتوں کے حصول کے لیے مواقع پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ محتاط اندازے کے مطابق شمالی علاقہ جات کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ وسائل آغا خان فائونڈیشن سالانہ بروے کار لاتی ہے۔اس کے باوسائل ہونے کا اندازہ اس امر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ فائونڈیشن کے پاس تین ہیلی کاپٹر موجود ہیں، جو بیورو کریسی کی صواب دید پر ہی رہتے ہیں ۔دل چسپ امر یہ ہے کہ ’آغا خان رورل سپورٹ پروگرام‘کے تحت صرف گلگت بلتستان میں نہیں، بلکہ چترال اور وسطی ایشیا میں بھی اثرونفوذ میں وسعت آرہی ہے۔ بڑی تعداد میں یورپی باشندے بھی ان اداروں میں کام کرتے ہیں، جن کی دل چسپیوں اور اہداف کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ کیا ہیں؟ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جس طرح تعلیم کو آغا خان بورڈ کی وساطت سے مغربی آقائوں کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی وجہ سے بعض باخبر حلقے یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ایسے ادارے جن کا بین الاقوامی کردار بھی بڑا مشکوک ہے، ان کواس قدر اہمیت کیوں دی جا رہی ہے ؟ کیا ریاست کے بغیر سربراہ حکومت کے پروٹوکول سے مستفید ہونے والی شخصیت کے لیے کسی ریاست کا بندوبست تو مطلوب نہیںہے ؟
پاکستان میں پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے گلگت بلتستان کو بااختیار نظامِ حکومت دینے کا جس طرح اعلان کیا ہے اس سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ۔اس لیے کہ جن اصطلاحات اور اختیارات کے ساتھ یہ نظام دیا گیا ہے یہ وہاں ایک خاص مکتبۂ فکر کے علاوہ کسی کا بھی مطالبہ نہ تھا۔
راے عامہ تقسیم ہونے کے نتیجے میں تین نقطۂ ہاے نظر سامنے آئے ہیں:
۱- ’’علاقے کو اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے آزاد ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ شامل کیا جائے‘‘۔ اہل سنت، جماعت اسلامی، جمعیت العلماے اسلام، جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ اور قوم پرست جماعتیں اس نقطۂ نظر کی حامی ہیں۔
۲- ’’ان علاقوں کو صوبائی درجہ دیا جائے‘‘۔ تحریک جعفریہ، ان کی برادر تنظیمیں اور پیپلز پارٹی اسی نقطۂ نظر کی حامی ہیں، اور آغا خان بحیثیت کمیونٹی بھی اس نقطۂ نظر کی وکالت کرتے ہیں۔
۳- ’’ان علاقوں کو بالکل خود مختار ریاست بنایا جائے‘‘۔ نیشنل بلاورستان فرنٹ سے وابستہ تنظیمیں اسی نقطۂ نظر کا پرچار کرتی رہی ہیں۔
طویل عمل کے بعد ۲۰۰۰ء میں تمام جماعتوں پر مشتمل گلگت بلتستان نیشنل الائنس معرضِ وجود میں آیا، جس میں تینوں نقطۂ ہاے نظر کے حامیوں نے اپنے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے ایک متفقہ موقف پر اتفاق کر لیا۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے چونکہ یہ علاقے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں، اس لیے مسئلہ کشمیر کے حل تک ان علاقوں کو :
۱- آزاد جموں وکشمیر طرز کا با اختیار نظام حکومت دیا جائے، جس میں انتظامی اور عدالتی تمام ادارے داخلی لحاظ سے خود مختار اور بااختیار ہوں ۔
۲- دونوں یونٹس، یعنی آزاد جموں و کشمیر اورگلگت بلتستان کو تحریک آزادیِ کشمیر کی تقویت اور ریاست کی علامتی وحدت کے لیے کشمیر کونسل میں مساوی نمایندگی دی جائے اور کونسل کو دواکائیوں کا ایوان بالا قرار دیا جائے جس کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان ہوں۔
۳- مسئلہ کشمیر پر ہونے والی بات چیت کے تمام مراحل میں گلگت بلتستان کے نمایندگان کو بھی حق نمایندگی دیا جائے۔
جناب عنایت اﷲ شمالی، جناب مشتاق احمد ایڈووکیٹ اور دیگر قائدین نے شب و روز محنت کر کے تمام سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر کو اس موقف پر متفق کر لیا لیکن حکومت نے نہ صرف اس متفقہ موقف کو نظر انداز کر کے پیکیج کا اعلان کیا، بلکہ ان قائدین سے کماحقہٗ مشاورت کا اہتمام بھی نہیں کیا جس سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
شکوک و شبہات میں مزید اضافہ یوں بھی ہوا کہ وزارت خارجہ کے اجلاس میں جہاں آزاد جموں و کشمیرکی قیادت نے دو ٹوک انداز میں اس پیکیج کو مسترد کرتے ہوئے اسے تحریک آزادی کشمیر کے لیے سمِ قاتل قرار دیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، وہاں آخر میں کم از کم مطالبہ یہ کیاگیا کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کی اصطلاحات کو تبدیل کر دیا جائے تا کہ اس تاثر کی تصحیح ہو سکے کہ آپ ان علاقوں کو صوبہ بنانے جا رہے ہیں جس سے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار ہوگی۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ساری قیادت سے وعدہ کیا کہ آپ کے تحفظات نوٹ کر لیے گئے ہیں اور اعلامیے کے حتمی اجرا پر ان کی روشنی میں اصلاح کی جائے گی۔ مقام افسوس ہے کہ ایسا نہ ہوا اور چند دن کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا، وہ جوں کا توں تھا۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس سارے عمل کے پیچھے کوئی ایسی نادیدہ طاقت ور قوت کار فرما تھی جس کے سامنے حکومت بے بس ہے ۔کڑیاں ملائی جائیں تو وہ وہی قوت ہے جس کے دبائومیں سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر سے دست برداری اختیار کی اور تقسیمِ کشمیر کے مختلف مجہول فارمولے پیش کیے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مشرف حکومت کے اختتام کے باوجود کشمیر پر پسپائی کا عمل جاری ہے اور صدر آصف علی زرداری کے زیرقیادت حکومت ہر وہ کام کرنے پر تلی بیٹھی ہے جو مشرف کے ہاتھوں بھی نہ کرایا جاسکا تھا ۔اس لیے اس امر کا قوی اندیشہ موجود ہے کہ نئی اسمبلی قائم کرنے کے بعد، اس سے قرارداد پاس کرواتے ہوئے گلگت بلتستان کو حتمی طور پر صوبہ قرار دیا جائے ۔یوں یہ عمل پاکستان کی طرف سے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں سے یک طرفہ دستبرداری سمجھا جائے گا جس سے مسئلہ کشمیر کی بنیادیں منہدم ہو جائیں گی کہ جس کے بل پر حق خود ارادیت کی تحریک جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو ترغیب ملے گی کہ وہ اپنے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کرتے ہوئے ہندو اکثریتی صوبہ جموں کو براہِ راست بھارت میں شامل کرلے، اور وادی کشمیر کے مسلمانوں کو مزید سبق سکھانے کا اہتمام کرے ۔
ان خدشات کے پیش نظر جماعت اسلامی آزاد جموںو کشمیر نے پیش قدمی کرتے ہوئے سب سے پہلے گلگت میں ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی، جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام جماعتوںنے شرکت کی۔ اس کانفرنس نے اس پیکیج کو مسترد کیا اور گلگت بلتستان نیشنل الائنس کے مطالبے کو ایک مرتبہ پھر اپنا متفقہ مطالبہ بنایا ۔۱۱ستمبر ۲۰۰۹ء کو راولپنڈی میں جماعت اسلامی ہی کے زیر اہتمام ایک اور آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی جس میں آزاد جموں وکشمیر، گلگت بلتستان اور حریت قائدین نے شرکت کرکے اس پیکیج کو مسترد کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ’گلگت بلتستان نیشنل الائنس‘ کے مطالبات پر مبنی ڈیکلریشن منظور کیا ۔اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ صدر آزاد کشمیر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر براہِ راست شریک رہے اور انھوںنے بھی ڈیکلریشن پر دستخط کیے ۔
پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہ مظفر آباد کے موقع پر ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو کشمیری قیادت نے ایک مرتبہ پھر متفقہ طور پر اپنے موقف کا اعادہ کیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ۔ستم یہ ہے کہ وزیرامور کشمیر اپنے موقف کی رٹی رٹائی وضاحت تو کرتے رہے ہیں، لیکن کشمیری قیادت کے تحفظات اور سوالات کا کوئی جواب ان کے پاس موجود نہیں ہے۔
حکومتی اعلامیے میں علاقے کی تاریخی حیثیت کا کوئی تعارف شامل نہیں ہے اور نہ یہ وضاحت موجود ہے کہ یہ اعلامیہ کب تک مؤثر رہے گا۔ اصولی طور پر آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین ۱۹۷۴ء کی طرح اس اعلامیے میں بھی یہ وضاحت ہونی چاہیے تھی کہ مسئلہ کشمیرکے حل تک نظام کو موجودہ شکل دی جا رہی ہے اور اس میں حسب ضرورت ترامیم و اضافے ہوتے رہیں گے۔ درحقیقت اس اعلامیے کے ذریعے گلگت بلتستان کو کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے منسلک کرنے کے بجاے گلگت بلتستان کے نظام کو کشمیر سے الگ رکھنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے، مثلاً انچارج وزیر کو جگہ جگہ وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان تحریر کیاگیا ۔ اس طرح وزارت امور کشمیر کو بھی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان قرار دے کر بین السطور یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیر اور گلگت بلتستان دو الگ الگ اکائیاں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت اورامریکہ کا موجودہ شیطانی اتحاد پاکستان کو اپنی شہ رگ سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔پاکستان میں بر سر اقتدار موجودہ کمزور اور بے سمت قیادت سے ایسے فیصلے کروانا آسان سمجھا جا رہا ہے ۔اگر پاکستان کے محب وطن قائدین اور جماعتوں نے مخمصے سے نکل کر بھر پور کردار ادا نہ کیا تو مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادیِ کشمیر ہی کو نہیں،بلکہ خود پاکستان کی سلامتی کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔ کشمیریوں سے بڑھ کر نظریاتی پاکستانی شاید ہی کوئی اور ہو۔ گذشتہ ۶۱ برس سے وہ اپنی آزادی اور پاکستان کی بقا کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں اور اب تک پانچ لاکھ شہدا کی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں ۔قائد تحریک حریت سید علی گیلانی سمیت تمام کشمیری قائدین مضمرات کو بھانپتے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں لیکن ہمارے حکمران طے کیے ہوئے ہیں کہ کسی احتجاج کو خاطر میں نہ لایا جائے گا اور نہ کسی معقول دلیل ہی کو سند قبولیت حاصل ہوگی۔ یہ پسپائی کا عمل اس وقت رُکے گا جب پاکستانی قیادت اور راے عامہ اپنا فرض ادا کرے گی۔