ریاست، حکومت اور بالائی طبقات جن کے ہاتھوں میں تمام فیصلے، وسائل اور طاقت ہے اور جو ہر وقت عوام کی خدمت کے نام کی سیاست کرتے ہیں، عملاً عوامی اعتماد سے بے وفائی کا شکار ہیں۔ لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں کہ ہمارا حکمران طبقہ اور ریاستی ادارے اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کی سیاست کے مقابلے میں ان کے اور بالخصوص کمزور طبقات کی سیاست کرتے ہیں۔ قومی بحران کی یہ ایک بڑی جڑ ہے۔
سوال یہ ہے کہ لوگوں کے روزمرہ اہم مسائل کیا ہیں؟ انسانی ضروریات کی ایک طویل فہرست ہے او رجس انداز میں انسان آگے بڑھتا ہے، اس کی ضروریات کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔عوامی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں ان بنیادی ضروریات کا خیال کرنا ہوتا ہے جو لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے درکار ہوتی ہیں او راس کی براہ راست ذمہ داری ریاست ریاستی اداروں اور حکومت کی ہوتی ہے۔ ایک عام آدمی کی ریاست و حکومت سے کیا توقعات ہوتی ہیں؟ اس کا جواب بڑا سادہ اور واضح ہے، یعنی اس میں سستی تعلیم، صحت، روزگار، انصاف کی فراہمی، اداروں کی مضبوطی اور ان پر اعتماد کی بحالی، امن و امان، زندگی کا تحفظ، ڈر اور خوف کے بغیر ماحول، خوراک کی فراہمی، نقل و حمل کی سہولیات، آمدنی اور مہنگائی کے درمیان توازن جیسے موضوعات شامل ہیں۔عام آدمی ان تمام مسائل میں کوئی بہت زیادہ سہولتوں پر مبنی عیاشی نہیں چاہتا، بلکہ وہ ریاستی اداروں اور حکومت سے اس قدر توقع ضرور رکھتا ہے جو اسے باعزت اور پُروقار طریقے سے زندہ رہنے کا موقع فراہم کرسکے۔
ایک عام آدمی کو آج حکومت اور ریاست کے ساتھ جو چیلنج درپیش ہیں، وہ یہ ہیں:
اول: ہماری سیاست اور طرز حکمرانی عام لوگوں کے ساتھ بہت کم منسلک ہے۔
دوم: ریاست اور حکومت لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو فراہم کرنے کے حق سے دست بردار ہوتے ہوئے سماجی اور معاشی شعبوں میں وسیع پیمانے پر نج کاری کی پالیسی پر گامزن ہے۔
سوم: اداروں کے مقابلے میں افراد کی حکمرانی اور بالادستی کو غلبہ حاصل ہورہا ہے جس سے لوگوں کی اداروں سے وابستہ امیدیں ماند پڑتی جارہی ہیں۔
چہارم: معاشرے میں مجموعی طور پر اجتماعی سوچ اور امداد باہمی کے رویے کے مقابلے میں انفرادیت کی سوچ بڑھتی جارہی ہے۔
پنجم: سرمایہ دارانہ نظام اور منڈی کی تحریک کے نتیجے میں ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ نمود ونمایش اور غیرضروری آسایشوں اور خواہشات کو بڑی ضرورتیں بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ میڈیا پر اشتہارات کے ذریعے پورے معاشرے کے مجموعی مزاج میں کمرشلائزیشن کو فوقیت حاصل ہو رہی ہے۔
دراصل جب ریاست اور حکومت عوام کے بنیادی حقوق کے معاملات سے لاتعلق ہوکر انھیں تاجرانہ مزاج کے اداروں کے سہارے چھوڑ دیتی ہے تو اس سے معاشرے کے کمزور طبقات کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ تعلیم، صحت، روزگار، غربت، خوش حالی، انصاف، تحفظ،ماحولیات، نقل وحمل، پانی، سمیت بہت سے شعبوں میں عورتوں، مردوں اور بچوں کے صرف حکومتی اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیں تو اس میں جو مجموعی منظرنامہ اس ملک کا اور بالخصوص پس ماندہ علاقوںکا ملے گا، اس میں ایک بڑی سیاسی، سماجی اور معاشی تفریق ملے گی۔ یہ تفریق عملاً آگے جاکر معاشرے کے اندر ایک بڑے سماجی انتشار کا سبب بنتی ہے۔ یہ سب کچھ جو ہمیں اس وقت معاشرے کے اندر نظر آرہا ہے، اسے ایک سطح پر ریاست، حکومت اور سیاست کی ناکامی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے اور دیکھا جانا بھی چاہیے۔لیکن کیا سب کچھ ریاست اور حکومت کا کیا دھرا ہے، یا اس میں ہمارے سماجی ادارے اور عام آدمی بھی کسی حد تک ذمہ دار ہے؟کیونکہ اب یہ ہمارے ہاں عملاً ایک فیشن بن گیا ہے کہ ہر ناکامی کی ذمہ داری حکومت اور ریاست کے اداروں پر ڈالی جاتی ہے اور لوگ اپنی ناکامی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ بہت سے مسائل کے پیدا کرنے، یا اسے طول دینے میں خود لوگ بھی براہ راست شامل ہیں تو اکثر اہل دانش ناراض ہوجاتے ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ لوگ اس سارے بحران کی ذمہ داری سے مبرا ہیں مگر یہ ایک کمزور دعویٰ ہے۔ آج ہم پر جمہوریت اور عوام دوستی کے نام پر جو قیادتیں مسلط ہیں اور جن کا کسی بھی سطح پر احتساب کا کوئی امکان نہیں، اس میں ایک ذمہ داری لوگوں کی بھی ہے جو قیادت کے احتساب کے عمل میں جانے کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے بیش تر کارکنوں میںاب وہ دم خم نہیں کہ وہ اپنی قیادت کو جھنجھوڑ سکیں یا پھر وہ خود بھی ایسے کاموں میں شامل ہوگئے ہیں جو سیاسی کارکنوں کا خاصہ نہیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں لوگوں کو کبھی بھی اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق نہیں مل سکا، مگر بات اتنی سادہ نہیں کیونکہ زندگی کے مجموعی تناظر کو دیکھیں تو بہت سے فیصلوں میں ہم بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہوتے ہیں اور اس میں کسی حد تک ہماری رضامندی شامل ہوتی ہے۔اسی طرح ہم نے عالمی منڈی کی تحریک کا شعوری یا لاشعوری طور پر حصہ بن کر ایک ایسے سماجی , سیاسی اور معاشی کلچر کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک کرلیا ہے، جو دراصل ہماری بنیادی ضرورتوں کے مقابلے میں بہت آگے ہے۔ کفایت شعاری، سلیقہ مندی، سادگی، قناعت پسندی، اپنی ضرورت کے تحت آگے بڑھنا، اپنی حیثیت کے مطابق چلنے جیسے عوامل اب ہماری نجی اور خاندانی زندگیوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ قوم کا ایک بڑا طبقہ اپنے ملکی حالات کے مطابق ماڈل کو چھوڑ کر بیرونی ماڈل کو اپنی ضرورت بنالے تو مسائل ضرور سامنے آئیں گے۔ معاشرے میں عزت دار اور شریف و خوددار لوگوں کے مقابلے میں سیاسی، سماجی اور معاشی حیثیت کو بالادستی حاصل ہوگی اور طاقت ہی کو اصل کامیابی سمجھا جائے گا۔
لوگوں میں موجود مایوسی کی ایک بڑی وجہ ان کے سامنے ریاست، حکومت اور اداروں کی جانب سے مختلف مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے کسی مددگار نظم کا نہ ہونا یا ایک کمزور نظم کا ہونا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں میں ایک خاصیت تھی کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت فلاح و بہبود کے کسی نہ کسی عملی کام میں پیش پیش ہوتے تھے۔لیکن اب یہ عمل محض حادثاتی بنیادوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جس سے عام فرد کی زندگی کو مختلف مصائب کا سامنا ہے۔
یقینا کسی ایک طبقے کے بس میں نہیں کہ وہ موجودہ بحران حل کرسکے، کیونکہ اب یہ کام آسان نہیں رہا اور اس کے لیے مختلف طبقوں کے درمیان مضبوط رابطہ کاری اور بہتر حکمت عملی ہی ہمیں ایک نئے سفر کی جانب گامزن کرسکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں مربوط حکمت عملی کے تحت عوامی سطح پر ایک نئی سیاسی و سماجی شعور کی بیداری کی تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے، جس میں اس احساس کو اجاگر کیا جائے کہ ہم ریاست اور حکومت سمیت بالادست طبقوں کے مقابلے میں کمزور نہیں ہیں اور ہم اپنی قسمت اور اپنے مسائل کو خود بھی حل کرسکتے ہیں۔یہ نعرہ محض خواب نہیں کیونکہ ہمارا منظم نہ ہونا اور اپنے سیاسی و سماجی شعور کا بہتر ادراک نہ ہونا ہی ہماری بڑی کمزوری ہے۔ ہمیں اس سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کام کون کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو معاشرے کے بالادست طبقوں یا جن کے پاس فیصلوں کی طاقت ہے، ان پر منظم ہوکر دباو ڈالنے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی، اور اپنی عوامی طاقت اور اجتماعیت کے پہلو کو مضبوط بناتے ہوئے ایک نئے سیاسی و سماجی سفر کا آغاز کرنا ہوگا، جو مشکل اور کٹھن ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ عوام الناس کی بہتری اور بھلائی چاہنے والے افراد، جماعتیں اور سماجی ادارے اگر لوگوں کی فکری وذہنی تربیت اور ان کے سیاسی و سماجی شعور کی بیداری میں آگے بڑھیں اور اپنے کام کو ایک نئی جہت دیں تو وہ ایک نئے کام کا آغاز کرسکتے ہیں۔
لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے نتیجے میں بے بسی اور لاچارگی کو قسمت کا فیصلہ اور خدا کا حکم سمجھنا غلط سوچ کی عکاسی ہے۔ انھیں یہ باور کروانا ہوگا کہ معاشرے میں موجود خرابیاں انسان کی پیدا کردہ ہیں اور اسے انسان ہی خدا کی مدد کے ساتھ ساتھ اپنی بہترحکمت عملی اور جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ختم کرسکتا ہے۔ اصلاحِ احوال کے لیے مسجدوں کو بنیاد بناکر ایک نئی سماجی تحریک کا آغاز کرسکتے ہیں۔ سرگرم لوگ اس تحریک کے نتیجے میں معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی نمود نمایش اور بے جا اسراف، بے حیائی اور عریانیت پر مبنی کلچرکے خاتمے، معیار زندگی او ر رہن سہن، لین دین سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں سادگی اور دیانت داری کے کلچر کو مضبوط بنیاد فراہم ہوسکتی ہے۔ لوگوں میں دولت کے حصول میں جو شدت آئی ہے اور ہر شخص اس کے حصول میں جائز و ناجائز سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے اور اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ دولت کہاں سے اور کس طریقے سے آرہی ہے۔ اس کھیل نے سب کو اس بیماری میں مبتلا کردیا ہے اور لوگ اپنی ضرورت سے بڑھ کر آگے جانے کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ ایک بہتر سیاست بھی اسی صورت میں سامنے آئے گی جب ہم سماجی اور اخلاقی سطح پر ایک بہتر نظام رکھتے ہوں گے۔ بہتر سماجی و اخلاقی نظام ہی بہتر سیاسی نظام ہی کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
ہمیں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ محض دنیا پرستی کی دوڑ اور اس سے محبت ہماری زندگی کا حاصل نہیں، بلکہ ہمیں اس اصل سفر پر بھی توجہ دینی ہے جہاں بہرحال ہم سب کو جانا ہے۔ یہ راستہ ہم سے دنیا اور آخرت کے تناظر میں جو توقعات رکھتا ہے، انھیں پیش نظر رکھنا ہے۔ اس سارے عمل کے لیے ضروری ہے کہ قول و فعل میں تضاد سے مبرا رول ماڈل گلی محلے کی سطح پر قیادت کریں۔ وہ جو کچھ زبان سے بول رہے ہوں، اس پر نہ صرف وہ خود عمل کرتے ہوں بلکہ ان کا بہتر عمل لوگوں کو نظر بھی آنا چاہیے۔ ان کا یہ طرزِ عمل لوگوں کو بتائے گاکہ یہ لوگ محض باتیں ہی نہیں کرتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
اصلاحِ احوال کی اس جدوجہد کا آغاز ہر فرد اپنی ذات، اپنے دائرہ کار اور حلقہ اثر سے کرسکتا ہے۔ خیال رہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے فرائض کی ادایگی اور معاشرے کی بہتری اور خرابی کو دُور کرنے کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہے، لہٰذا تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے کیجیے۔ انفرادی اصلاح اور منظم جدوجہد کے ذریعے بتدریج اصلاح کا دائرہ بڑھتا چلا جائے گا۔ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے بھی ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ معاشرے کی بہتری اور سماجی بگاڑ کو روکنے کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ دوسروں کے انتظار میں بیٹھ رہنا چاہیے۔ اگر سماجی و سیاسی انتشار کو نہ روکا گیا تو معاشرتی بگاڑ کے نتیجے میں بالآخر قومی انحطاط اور زوال کا سامنا کرنا ہوگا۔ مسئلے کی نزاکت کا احساس کرنے اور اس جدوجہد کی ہمیں آج ضرورت ہے جو ہماری آج کی اس پریشان حال زندگی کو خوش حالی میں تبدیل کرسکے۔