’پاکستان: نظریاتی اساس پر سیکولرلابی کی یلغار‘ (اکتوبر ۲۰۰۹ء) فی الواقع موجودہ دور کی ایک بڑی ضرورت تھی جسے پورا کیا گیا ہے۔ پاکستان کی دین بے زار سیکولر صحافت نے قائداعظم کی ایک تقریر کا سہارا لیتے ہوئے اودھم مچایا ہوا تھا۔ ملک اور بیرون ملک سے انگریزی اخبارات میں پے درپے کالم اور خطوط شائع ہورہے تھے۔ یہاں تک بات پہنچی کہ دو قومی نظریہ بلکہ نظریۂ پاکستان بعد کی تخلیق ہے۔ قرارداد مقاصد کو ملائیت قرار دیا جا رہا ہے اور کوشش ہے کہ دستورِ پاکستان ۱۹۷۳ء سے اسے حذف کرا دیا جائے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی خواہش مند ہیں کہ فی الوقت پارلیمنٹ میں زیرغور دستوری اصلاحات کے پردے میں یہ مقصد حاصل کرلیا جائے۔
’پاکستان: نظریاتی اساس پر سیکولر لابی کی یلغار‘ (اکتوبر ۲۰۰۹ء) کے عنوان سے جو چشم کشا مضمون تحریر کیا گیا ہے ،ضرورت ہے اسے ہر پڑھے لکھے شخص تک پہنچایا جائے۔ سیکولر عناصر کے عزائم کے خلاف قدغن لگانے کی ضرورت ہے، مؤثر آواز تو ضرور اٹھائی جانی چاہیے۔
’پاکستان: نظریاتی اساس پر سیکولر لابی کی یلغار‘ میں سیکولرزم کے حوالے سے قائداعظمؒ کی تقاریر سے جو اقتباسات دیے گئے ہیں وہ بہت اہم ہیں اور عام طور پر سامنے نہیں آتے۔ انھیں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ’پاکستان میں نفاذِ شریعت کے امکانات‘ سید مودودیؒ کی تحریر سے اچھا انتخاب ہے۔ نفاذِ شریعت کے امکانات کے حوالے سے اپنا فرض ادا کرنے کی طرف اچھی توجہ ہوئی۔ ایسی تحریروں سے جذبے کو تازگی اور کام کے لیے ایک نیا عزم اور ولولہ ملتا ہے۔ ’کلام نبویؐ کے سایے میں‘ احادیث کے انتخاب سے اور ’رمضان کے بعد‘ تحریر سے رمضان المبارک کے بعد تزکیہ و تربیت کے تسلسل کے لیے عملی رہنمائی ملی۔ تعلیمی پالیسی پر محترم سلیم منصورخالد نے بروقت توجہ دلائی۔ معلوم ہوا کہ قومی زندگی کے اس اہم ترین شعبے کے لیے جو منصوبہ بندی کی گئی ہے، اس میں کیا کیا کمی ہے۔
’احتساب: اجتماعی زندگی میں اہمیت‘ (اکتوبر ۲۰۰۹ء) ایک عرصے کے بعد بھرپور، مؤثر اور وقت کی ضرورت پورا کرنے والا مضمون دیکھنے کو ملا۔ موضوع کا حق ادا کر دیا۔
’احتساب: اجتماعی زندگی میں اہمیت‘ (اکتوبر ۲۰۰۹ء) اپنے موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے اہم اور منفرد تحریر ہے۔ آج کی اجتماعی زندگی کے بہت سارے تضادات، اختلافات اور پریشانیوں کے جوابات بین السطور اور بلاواسطہ اس میں موجود ہیں۔ قومی سطح پر خلفشار اور عدم احساسِ زیاں نے ہرسطح کی قیادت کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے جس کی وجہ سے تحریکی قیادت کی ذمہ داری پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اُسے پہلے سے زیادہ اپنے کارکنوں کے اعتماد، اطمینان اور شرحِ صدر کی ضرورت ہے۔
’عصرِحاضر میں اسلام کی رہنمائی‘ (اکتوبر ۲۰۰۹ء) فکرانگیز اور برمحل ہے۔ محترم سید جلال الدین عمری نے عصرِحاضر کے اہم سوال کہ اتنی ترقی کے باوجود بگاڑ کا سبب کیا ہے کی صحیح توضیح کی ہے کہ انسان اس کائنات اور اپنے لیے صحیح نقطۂ نظر نہیں فراہم کرسکا۔ دوسری طرف اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو صحیح نظریۂ حیات پیش کرتا ہے اور جو انسانی ذہن میں اٹھنے والے تمام سوالات کا اطمینان بخش جواب دیتا ہے۔ مغرب اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام کی مقبولیت میں کمی اور مسلمانوں کے ذہن کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اسلامی تحریکیں جو اس نظریۂ حیات کے نفاذ کی علَم بردار ہیں، ان کے اثرات بھی پھیل رہے ہیں۔ تاہم مصنف نے مسلمانوں کی بعض کمزوریوں کی طرف بجا توجہ دلائی ہے، اس پر غوروفکر اور لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔
میرے پیش نظر ایک ایسے اہم موضوع کی طرف اہلِ فکر ونظر کو متوجہ کرنا ہے جس سے غفلت برتی جارہی ہے۔ یہ موضوع خاندان کے ادارے پر منظم عالمی حملہ ہے جس کے تحت اقوام متحدہ کی سرپرستی یا شراکت میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی مہم، شادی کی ’رسم‘ کو فرسودہ قرار دینے کی کوشش، جنسی ثقافت کے نام پر چھوٹے بچوں تک کو بے راہ روی پر مائل کرنے اور ہم جنس ’شادیوں ‘ کو عالمی طور پر قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش زور و شور سے کی جارہی ہے جس کا ہمیں کم احساس ہے۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی سے کم نہیں کہ اس کے خلاف خود مغرب میں اخلاقی اقدار کا احترام کرنے والے غیرمسلم عرصے سے تحریکیں چلا رہے ہیں، جب کہ ہمارے ملکوں میں اس بارے میں مناسب آگاہی کا فقدان ہے۔