ایک منٹ کی وڈیو فلم کا آغاز ہوا تو اسکرین پر ’فلسطین‘ نام کا اخبار تھا۔ چند سیکنڈ بعد اس کی تاریخ ۲۰۰۹ء؍۹؍۱۴ دکھائی گئی اور پھر اخبار کے اُوپری کنارے سے جھانکتی ہوئی دو آنکھیں دکھائی دیں، آہستہ آہستہ اخبار ہٹ گیا اور سامنے اغوا شدہ یہودی فوجی گلعاد شالیط کا چہرہ تھا۔ شالیطکو تین سال قبل حماس کے عسکری بازو نے اغوا کیا تھا۔ حماس کا مطالبہ تھا کہ اسرائیلی جیلوں میں گرفتار ہزاروں فلسطینی قیدیوں کورہا کیا جائے ،وگرنہ ایک کے بعد دوسرا شالیط گرفتار کیا جاتا رہے گا۔ صہیونی حکومت نے اس اغوا پر انتہائی شدید ردعمل ظاہر کیا۔ ۲۰۰۶ء میں مختلف فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی جارحیت اور پھر ۲۰۰۸ء کے اختتام پر غزہ کی خوفناک تباہی کا اصل مقصد بھی شالیط کو اغوا کرنے والی حماس کا مکمل خاتمہ تھا۔ گذشتہ ساڑھے تین سال سے جاری غزہ کے مسلسل حصار سمیت، حماس کے خلاف ہر ممکن دبائو اور دھمکیوں نے کام نہ کیا تو حماس کے ساتھ مذاکرات اور گفت و شنید کا دروازہ بھی کھولا گیا۔ شالیط کے بارے میں طویل مذاکرات کا نتیجہ بالآخر درج بالا وڈیو فلم کی صورت میں نکلا۔
اسرائیل اپنی تمام تر جاسوسی، چالاکیوں اور اپنے ایجنٹوں کی فوج ظفرموج کے باوجود شالیط کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں کرسکا تھا۔ حماس کے ساتھ حالیہ معاہدے میں طے پایا کہ اگر وہ شالیط کے زندہ یا مُردہ ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت دے دے تو صہیونی انتظامیہ کچھ فلسطینی قیدیوں کورہا کردے گی۔ فلسطینی مذاکرات کاروں نے میدانِ جہاد واستقامت کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی میز پر بھی بڑی کامیابی حاصل کی اور ایک دو فلسطینی قیدیوں کی نہیں، پوری ۲۰ فلسطینی خواتین قیدیوں کی رہائی کی شرط منظور کروائی۔ یہ خواتین سالہا سال سے صہیونی جیلوں میں مختلف عقوبتیں اور سزائیں جھیل رہی تھیں۔ ان کی رہائی ۲۰ فلسطینی گھرانوں ہی کے لیے نہیں ہرفلسطینی اور ہرانسان دوست کے لیے مسرت کا باعث بنی۔ رہائی پانے والی خواتین کے ساتھ دنیا کا سب سے کم سن قیدی دوسالہ یوسف الزق بھی رہا ہوگیا۔ یوسف الزق نے جیل ہی میں جنم لیا تھا، اس کی والدہ شادی کے چند ماہ بعد ہی گرفتار کر لی گئی تھی اور اب دوسالہ بیٹے کے ساتھ رہاہوئی۔
حماس کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ اب بھی مکمل طور پر نہیں رُکا۔ اس ایک منٹ کی وڈیو میں حماس نے اعلیٰ پیمانے کی فنی نفسیاتی اور سیاسی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ زندہ ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت دینے کے لیے اس روز کے تازہ اخبار کا سہارا لیا گیا۔ اخبار کا انتخاب کرتے ہوئے روزنامہ فلسطین کا انتخاب کیا گیا۔ تین سال بعد اپنے فوجی، اپنے شہری اور اپنے عزیز کا چہرہ دیکھنے کے لیے ہرصہیونی اور یہودی بے تاب تھا لیکن اس کا چہرہ دیکھنے سے پہلے انھیں جو نوشتۂ دیوار پڑھنا پڑا وہ تھا: فلسطین۔ پھر شالیط نے عبرانی زبان میں لکھا ہوا اپنی خیریت کا جو پیغام پڑھا، اس میں اداسی کے سایے تو تھے لیکن یہ بھی مکمل طور پر واضح تھا کہ حماس اپنے قیدی کے ساتھ حسنِ سلوک کا برتائو کرر ہی ہے۔ حماس کی قیادت نے وڈیو جاری کرنے کے موقع پر ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اگر صہیونی جیلوں میں قید ۱۰ ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو صہیونی ریاست کو ایک کے بعد دوسرے شالیط کا صدمہ سہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اس پوری کارروائی میں ایک بہت اہم اور قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ حماس نے رہائی کے لیے جن ۲۰ خواتین کی فہرست پیش کی، ان میں صرف چار کا تعلق خود حماس سے تھا، باقی ۱۶ خواتین کا تعلق الفتح سمیت مغربی کنارے اور غزہ کی دیگر فلسطینی تنظیموں سے تھا۔ گویا حماس کہہ رہی ہے کہ ہمارے لیے تمام فلسطینی شہری بالخصوص قیدی یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف سے تو خیرسگالی کے یہ پیغامات ہیں لیکن دوسری طرف مصری دارالحکومت قاہرہ میں حماس اور الفتح کے مابین جاری مذاکرات سنگین سے سنگین تر صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان مذاکرات کے دسیوں رائونڈ ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ الفتح اور بالخصوص صدر محمودعباس (ابومازن) کی بنیادی سوچ فلسطینی تحریکِ آزادی سے عسکریت، یعنی جہاد کا خاتمہ ہے۔ حالیہ مذاکرات اور معاہدے میں بھی بنیادی اختلاف اسی نکتے پر ہے۔ مذاکرات کے درجنوں دَور ہوچکے ہیں لیکن کسی متفق علیہ سوچ پر پہنچنا ممکن نہیں ہورہا۔ جس مسودے پر حماس سمیت تمام فلسطینی دھڑوں کا اتفاق ہوا، اسے بھی جب دستخطوں کے لیے پیش کیا گیا تو پوری کی پوری عبارتیں اور جملے اس میں سے غائب تھے۔ اس تحریف کی تمام تر ذمہ داری محمود عباس اور مصری حکومت کے سر آتی ہے لیکن جب حماس نے تحریف شدہ تحریر پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تو مذاکرات ناکام کرنے کی ساری ذمہ داری حماس کے سر ڈالی جارہی ہے۔ نہ صرف تنقید بلکہ دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ حماس کی مرکزی قیادت سے اس بارے میں استفسار کیا تو اس کا کہنا تھا کہ معاہدے کے موجودہ، یعنی تحریف شدہ مسودے پر دستخط کرنا بلاجواز موت کی سزا قبول کرنے کے مترادف ہے۔
حماس اور الفتح کے مابین اختلاف کا ایک نکتہ آیندہ انتخابات بھی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت فلسطین کے دونوں علاقے غزہ اور مغربی کنارہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔ محمودعباس نے تقریباً ڈیڑھ برس پہلے منتخب فلسطینی حکومت اور پارلیمنٹ معطل کرنے کا اعلان کر دیا اور سلام فیاض نامی ایک غیرمنتخب شخص کو عبوری حکومت کا سربراہ بناکر حکومتی سیکرٹریٹ غزہ سے مغربی کنارے منتقل کر دیا۔ ادھر حماس نے اس غیردستوری اور غیراخلاقی حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تب سے فلسطینی علاقوں میں دو الگ الگ حکومتیں قائم ہیں۔ غزہ میں منتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کی اور مغربی کنارے میں محمود عباس کی۔ ۸جنوری کو محمود عباس کی مدت صدارت ختم ہوجانے کے باوجود انھوں نے یہ منصب چھوڑنے سے انکار کردیا۔ اسرائیلی انتظامیہ سمیت مغربی ممالک نے بھی نہ صرف ان کی مکمل سرپرستی کی، بلکہ بھرپور مالی اور سیاسی سرپرستی جاری رکھی۔ دوسری طرف ۱۵لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا علاقہ غزہ مسلسل اور مکمل حصار سے دوچار ہے۔ دوا اور غذا سمیت کوئی چیز جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن پوری دنیا یہ راز جاننے سے قاصر ہے یا خود جاننا ہی نہیں چاہ رہی کہ اس قدر ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اہل غزہ حماس کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں۔
غزہ ہی نہیں خود مغربی کنارے میں جتنے سروے ہورہے ہیں، ان میں بھی محمود عباس کا گراف مسلسل گر رہا ہے، جب کہ حماس کی تائید میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ محمود عباس کی بدنامی میں ماہِ رواں میں اس وقت اور اضافہ ہوگیا، جب اس نے اقوام متحدہ میںجسٹس گولڈسٹون کی وہ رپورٹ پیش کرنے پر اعتراض کیا جو اس نے غزہ کی جنگ کے دوران میں اسرائیلی مظالم کے خلاف تیار کی تھی۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے اس یہودی الاصل جج جسٹس ریٹائرڈ گولڈسٹون کو جب عالمی ادارے کی طرف سے غزہ کی جنگ کے دوران میں ہونے والے جرائم کی رپورٹ تیار کرنے کا کہا گیا تو کسی کو اس منصفانہ راے کا اندازہ نہیں تھا۔ جب رپورٹ آئی تو اس نے شالیط کے اغوا اور یہودی آبادی پر حماس کے میزائلوں کا ذکر بھی کیا لیکن جس سفاکیت اور درندگی کا مظاہرہ اسرائیل نے کیا تھا اس کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا، جس پر کہرام مچ گیا۔ صہیونی انتظامیہ ہسٹیریائی انداز سے چلّانے لگ گئی۔ لیکن اصل رکاوٹ اس وقت سامنے آئی جب خود محمود عباس انتظامیہ نے جنیوا میں یہ رپورٹ پیش کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے یہ وقت مناسب نہیںہے۔ قدرت نے شاید کچھ لوگوں کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانا تھا۔ جب فلسطینی آبادی اور عالمِ عرب سے فلسطینی انتظامیہ پر لعنت ملامت میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو بالآخر محمود عباس نے اعتراض واپس لے لیا۔ گولڈسٹون رپورٹ سرکاری طور پر دنیا کے سامنے آگئی اور اب اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کے بعد اسے سیکورٹی کونسل میں پیش کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ محمود عباس نے سو پیاز بھی کھا لیے اور سو جوتے بھی۔
اس تناظر میں قاہرہ مذاکرات کی میز سجی ہے۔ ۲۲؍اکتوبر کو خالدمشعل سے ایک ملاقات کے موقع پر ان سے جب مذاکرات کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہہ رہے تھے کہ ہم تو اپنی بہت سی شرائط سے دست بردار ہوکر بھی صلح کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردی جاتی ہے۔ وہ اس خدشے کا اظہار بھی کررہے تھے کہ تقسیم و اختلاف کی اسی صورت حال میں انتخابات کا ڈول ڈال دیا جائے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرتے ہوئے ایک نیا بحران کھڑا کر دیا جائے۔ ابھی ان کی اس گفتگو کی بازگشت کانوں میں باقی تھی کہ ۲۴؍اکتوبر کی شام محمود عباس نے ’صدارتی فرمان‘ جاری کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ ۲۴؍ جنوری ۲۰۱۰ء کوفلسطین میںصدارتی اور پارلیمانی انتخابات منعقد کروا دیے جائیں گے۔ صدارتی فرمان اسی صدر نے جاری کیا ہے جس کی اپنی صدارت ۹ماہ اور ۱۶ روز پہلے ختم ہوچکی ہے اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت غزہ سے عملاً لاتعلق ہیں۔ لیکن اگر معاملات اسی دھارے پر آگے بڑھے تو من مرضی کے یک طرفہ نتائج پر مشتمل انتخابات وقوع پذیر ہوجائیں گے اور گذشتہ انتخابات میں دو تہائی سے زائد نشستیں حاصل کرنے والی اسلامی تحریکِ مزاحمت (حماس) کم از کم کاغذوں سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ایک طرف مقبوضہ فلسطین کو تقسیم در تقسیم کرنے اور اہلِ فلسطین کو باہم دست و گریباں کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب صہیونی ریاست خطے میں اپنے زہریلے پنجے مزید گاڑ رہی ہے۔ ادھر قاہرہ مذاکرات میں تعطل کا اعلان ہو رہا تھا اور ادھر امریکا اور اسرائیل اپنی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کر رہے تھے۔ ان مشقوں میں دونوں فریقوں نے جو اصل میں ایک ہی فریق کی حیثیت رکھتے ہیں جدید ترین ہتھیاروں بالخصوص اینٹی میزائل سسٹم کے خصوصی تجربات کیے۔ ۲۰۰۶ء میں لبنان پر اور ۲۰۰۸ء کے اختتام پر غزہ کی جنگ کے دوران میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود صہیونی ریاست اپنی طرف آنے والے میزائلوں کا راستہ نہیں روک سکی تھی۔ حالیہ مشقوں میں اس جانب خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔
اس حوالے سے ایک اہم اور حوصلہ افزا پہلو یہ ہے کہ یہ مشترکہ مشقیں بنیادی طور پر اسرائیل، امریکا اور ترکی کے درمیان ہونا تھیں۔ ترک افواج گذشتہ کئی سال سے ان سالانہ مشقوں میں شریک ہوتی رہی لیکن اس بار منتخب ترک حکومت نے احتجاجاً ان سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
حالیہ مشقوں کے حوالے سے اصل تشویش ناک پہلو یہ سوال ہے کہ کیا صہیونی ریاست خطے میں کسی نئی جارحیت کی بنیاد رکھنے جارہی ہے؟ گذشتہ ہفتوں میں مسجداقصیٰ کو شہید کرنے کی کوششوں میں بھی اچانک اضافہ کردیاگیا ہے۔ اگر ہزاروں کی تعداد میں نہتے فلسطینی مسجداقصیٰ کے اندر زبردستی جاکر دو ہفتے سے زائد عرصے کے لیے وہاں ایک انسانی ڈھال نہ بنا لیتے تو خدانخواستہ اب تک کوئی اور بڑا سانحہ بھی روپذیر ہوچکا ہوتا۔
مقامِ معراج مصطفیؐ کو شہید کرکے وہاں یہودی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی مسلسل اور بے تابانہ کوششیں اور ساتھ ہی ساتھ امریکی اسرائیلی وسیع تر فوجی مشقیں اُمت کو اور بالخصوص اہلِ فلسطین کو اہم پیغام دے رہی ہیں۔ کیا اسرائیل سے بھی زیادہ اسرائیل کے وفادار حکمران اور خود فلسطینی قائدین یہ پیغام سمجھنے کی تکلیف گوارا کریں گے؟ کیا وہ یہ حقیقت فراموش کردیں گے کہ چند روزہ نام نہاد اقتدار یا چند ارب ڈالر کی بھیک کی خاطر، مسجداقصیٰ کے محافظ اپنے ہی فلسطینی بھائیوں پر فتح حاصل کرنے کا خواب، نہ صرف دنیا میں رسوائی کا سبب ہوگا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کی ہلاکت کا بھی۔