نومبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

حج کی حکمت اور تقاضے

خرم مراد | نومبر ۲۰۰۹ | حج بیت اللّٰہ

Responsive image Responsive image

حج کی عبادت اس پوری زندگی کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی میں دینے کا اپنی مخلوق سے مطالبہ کیا ہے، ایک بڑی اہم عبادت ہے۔ اس کو اسلام کے ارکان میں شمار کیا جاتا ہے اور ارکان کے معنی ہیں وہ ستون جن کے اوپر پوری عمارت قائم ہو۔ گویا ان ستونوں کے بغیر عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ ستون کے حوالے سے ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ وہ یہ کہ ستون کا نام عمارت نہیں ہے بلکہ ستون دراصل عمارت کی بنیاد اورسہارا ہوتا ہے۔ عمارت ستونوں کے علاوہ ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ یہی  کُل دین ہے۔ درحقیقت یہ دین کے ارکان اورستون ہیں، دین کی اصل عمارت اپنی جگہ پر الگ ہے۔ پوری زندگی اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت میں گزرے، یہ دین ہے۔ اس کو سہارا دینے کا کام یہ ستون کرتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ خود دین نہیں ہیں۔

عبادت کا مقصد

ہر عبادت اپنی جگہ پر کوئی مقصد رکھتی ہے۔ چنانچہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کی یاد زندگی میں جاری و ساری ہو۔ ہر وقت بندہ اللہ کو یاد رکھے۔ اسی لیے پانچ وقت نماز کے ذریعے اس بات کی مشق کروائی جاتی ہے کہ کاروبار زندگی چھوڑ کر اللہ کے حضور حاضرہو کے اس کو یاد کرو، زبان سے بھی یاد کرو، دل سے بھی اور ہاتھ پائوں سے بھی یاد کرو، نیز پیشانی اس کے سامنے ٹیک کر، ہاتھ پائوں باندھ کر، اس کے سامنے کھڑے ہو کر مکمل اطاعت اور بندگی کا نمونہ پیش کرو۔ گویاپوری زندگی   اللہ کی یاد میں صرف ہو۔ قرآن مجید میں اہلِ ایمان کے بارے میں فرمایا گیاہے:

یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قَیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) جو اُٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔

ہمارا نماز میں بیٹھ کے، لیٹ کے، جھک کے ہر طریقے سے اللہ کو یاد کرنا وہی زندگی بنانے کے لیے ہے جس میں دل، دماغ، عمل ہر جگہ اللہ کی یاد ہمیشہ تازہ رہے۔

اس کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا حکم ہے اور زکوٰۃ کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دیا ہے وہ اس کی مرضی کے مطابق اس کے بندوں کے اوپر خرچ ہونا چاہیے۔ گویا نماز اللہ کی یاد سے متعلق ہے اور زکوٰۃ اس احساس کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے، اس میں بندوں کے حقوق ادا کرو اور اللہ کو مال سے زیادہ محبوب رکھو۔ اہلِ ایمان کے بارے میں فرمایا گیا ہے:     اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ (البقرہ۲:۱۷۷) ’’جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘

یوں گویا پوری زندگی، جان و مال ہی اسی لیے ہے کہ آدمی کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے، جسمانی صلاحیتیں، قوت گفتار، تصنیف و تالیف کی صلاحیت، مال، وقت، محض اپنے لیے نہ ہو بلکہ دوسرے انسانوں کی فلاح و بہبود اور خدمت کے لیے بھی ہو۔

تیسرا ستون روزہ ہے جو اپنے نفس کے اوپر ضبط کی تربیت دیتا ہے اور چوتھا ستون حج ہے۔ یہ دراصل اللہ کی راہ میںنکلنا اور اللہ کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیزیں قربان کرنا ہے، اور  اللہ کے دین کو دنیا کے اندر قائم و دائم اور غالب کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے عزم اور جذبے سے سرشار ہونا ہے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے ہے۔

حج ایسی عبادت نہیں ہے کہ ہر ایک پر فرض ہو۔ اس کے لیے مال بھی چاہیے، صحت بھی چاہیے اور سفر کی سہولت بھی۔ اس کے بغیر کوئی آدمی اس کو ادا نہیں کر سکتا۔ نماز دن میں پانچ دفعہ   فرض ہے۔ زکوٰۃ سال میں ایک دفعہ فرض ہے۔ روزے سال میں ایک دفعہ ۳۰ دن کے لیے   فرض ہوتے ہیں، جب کہ حج پوری زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ اس کے بعد جو بھی حج ہے، وہ نفلی عبادت ہے۔

جب حج فرض ہوا اور حضوؐر نے مسجد نبویؐ میں اعلان فرمایا کہ تم پر ہر سال حج فرض کر دیا گیا ہے، تو ایک قبائلی سردار حضرت فرع بن حابسؓ کھڑے ہو گئے اور پوچھا کہ کیا یہ ہر سال فرض کیا گیا ہے؟ اس پر آپؐ خاموش رہے۔ انھوں نے دوسری بار پھر یہی سوال کیا۔ کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے؟ آپؐ  نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو پھر حج ہر سال فرض ہو جاتا اور پھر تم اس کو ادا نہیں کرسکتے تھے۔ پھر آپؐ  نے فرمایا کہ جو میں کہا کروں اس کو اسی پر چھوڑ دیا کرو ۔تم سے پہلے لوگوں نے ایسے ہی سوال کرکے دین کو بڑا مشکل بنا دیا تھا۔ پھر وہ اس پر چل نہیں سکے اور آپس میں اختلاف کیا۔ جو میں حکم دوں اس کو سنواور جتنا عمل کرسکتے ہو، اس پر عمل کرو۔ گویا نبی کریمؐ نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ بہت سارے سوال کرکے کام کو اپنے لیے مشکل بنایا جائے۔ لہٰذا حج پوری زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے۔

حج، اللّٰہ سے والھانہ عشق

حج دراصل محبت اور عشق کی عبادت ہے اور یہ ایمان کا بنیادی تقاضا ہے کہ ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت ہو۔

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۶۵) ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔

اللہ سے محبت کوئی ایسا مقام نہیں ہے جو صرف صوفیاے کرام اور اولیاء اللہ کا مقام ہو، اور بڑے مقرب آدمی ہی کو اللہ سے محبت ہو سکتی ہو، بلکہ یہ تو ہر آدمی کو ہو سکتی ہے۔ ہر آدمی محبت سے واقف ہے اور ہر آدمی محبت کا مزہ چکھے ہوئے ہوتا ہے۔ جب کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو آدمی اس کے لیے دیوانہ وار کام کرتا ہے اور اس کے لیے اپنی پسندیدہ چیزیں تک قربان کرتا ہے۔ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آدمی کو اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت ہو۔ اسی بات کی ہدایت قرآن مجید میں کی گئی ہے کہ جو ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ پھراللہ سے محبت کو مزید کھول کے بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر تمھارے باپ، تمھارے بیٹے، تمھاری بیویاں، تمھارے رشتہ دار اور تمھارے مال جو تم نے سینت سینت کے جمع کر رکھے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار اور ملازمتیں جن سے تم کماتے ہو، اور تمھارے وہ مکانات جو تم کو بڑے پسند ہیں، کوئی چیز بھی اگر اللہ اور اس کے رسولؐ [اب اللہ کے ساتھ اس کے رسول کا بھی تذکرہ ساتھ ساتھ کیا گیا ہے] اور اللہ کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہے تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔

اللہ کی محبت اس طرح کی محبت نہیں ہے جس طرح کی محبت آدمی دُنیا میں کرتا ہے، بلکہ اس میں تو اللہ کے رسول کی محبت بھی شامل ہے اور اللہ کا رسول دراصل اللہ کا نمایندہ اور دوسروں کے لیے اس کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔ اس کی زندگی وہ زندگی ہے جو اللہ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس کی اطاعت، اللہ کی اطاعت ہے۔ اس کا کہا ماننا دراصل اپنے محبوب کا کہا ماننا ہے۔ اس کے پیچھے چلنا، اپنے محبوب کے پیچھے چلنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو خود حکم دیا:

قُل اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط (اٰل عمرٰن۳:۳۱) اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔

لہٰذا حج اللہ سے محبت کی عبادت ہے، اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار کرنے کے لیے ہے۔

حج حضرت ابراہیم ؑ کی اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر قربانی بھی اسی محبت کو تازہ کرنے کے لیے ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کی محبت میں جس طرح اپنے باپ کو چھوڑا، اپنا گھر بار چھوڑا، رشتہ داروں کو چھوڑا، ایک بیابان جنگل میں اپنے بیوی بچے کو لا بسایا، وہاں پر پتھروں سے اللہ کا گھر بنایا، یہ سب محبت کی علامت ہے۔ وہ جس طرح آتے تھے، اس گھر کے گرد چکر کاٹتے تھے، اس کو چومتے تھے، اس کو پیار کرتے تھے، یہ بھی محبت کی علامت ہے۔

تکمیلِ دین کا مرحلہ

حج، دین کی تکمیل کا نام ہے۔ قرآن مجید کے نزول کا آغاز رمضان المبارک میں ہوا۔ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لیے اپنے نفس پر ضبط اور اس کے احکام کی اطاعت و پیروی ضروری ہے۔ اس قرآن کو لے کر کھڑے ہونا، اس کو دُنیا تک پہنچانا، اس کو غالب کرنا، دین کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ دین کی تکمیل بھی حج کے موقع ہی پر ہوئی۔ حضوؐر حجِ وداع کے موقع پر عرفات کے میدان میںکھڑے تھے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرِضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المآئدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے، اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔

اس آیت کا حج کے موقع پر نازل ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دین کی تکمیل کا رشتہ حج کے ساتھ وابستہ ہے۔ حضوؐر نے پوری زندگی میں صرف ایک بار حج کیا اور اس کے تین مہینے بعد آپؐکا وصال ہو گیا اور آپؐ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپؐ نے اپنے وصال سے پہلے حج کا فریضہ انجام دیا، اس کے سارے مناسک اور آداب اور مسائل لوگوں کو سکھائے اور یہ آپؐ ہی واضح کر سکتے تھے۔ اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر دین کی تکمیل بھی ہوگئی۔

دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب دین پوری زندگی میں غالب آ جائے اور پوری زندگی دین کے مطابق ہو۔ یہ مرحلہ اس وقت آیا جب لوگ دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت اور فتح عنایت فرمائی اور مکہ فتح ہوگیا اور بہ تدریج پورے عرب میں دین غالب آ گیا۔جب آپؐ مغلوب تھے، اس وقت آپؐ عمرے کے لیے تشریف لے گئے تھے۔    حج کے لیے آپؐتب نکلے جب پورا مکہ، مدینہ اور سارا عرب آپؐ کے زیر نگیں آگیا۔ اسلام کی حکومت قائم ہوگئی، دین غالب آگیا، لوگ گروہ در گروہ دین میں داخل ہونے لگے۔ سورۂ نصر میں اسی مرحلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب لوگ گروہ در گروہ دین میں داخل ہونے لگے تھے۔

حج، جھاد ھے

حج اس بات کی علامت ہے کہ محض ضبط نفس، نیکیاں کر لینا، نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا، اس سے دین مکمل نہیں ہوتا، بلکہ دین اس وقت مکمل ہوتا ہے جب آدمی اللہ کی راہ میں ان چیزوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو جو اسے محبوب ہیں اور اس کے بغیر اللہ کی راہ میں جہاد نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید میں جہاں بھی جہاد فی سبیل اللہ کا لفظ آیا ہے، بعضوں نے اس کے معنی صرف اللہ کے لیے میدانِ جنگ میںجہاد کے لیے ہیں اور بعض نے اس میں حج کوبھی شامل کیا ہے۔ حج بھی جہاد سے ملتی جلتی عبادت ہے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ میرے دین میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔ اگر رہبانیت دُنیا کا ترک ہے تو وہ حج میں اور جہاد فی سبیل اللہ میں ہے۔ آپؐ نے ان دونوں کا ایک ساتھ ذکر فرمایا۔ گویا دُنیا کو چھوڑنا یا ترکِ دنیا اگر ہے تو یہ حج اور جہاد فی سبیل اللہ کے اندر ہے۔ لیکن دُنیا کے دوسرے تمام کام اسی طرح ہوں گے جس طرح دوسرے لوگ کرتے ہیں لیکن اللہ کی مرضی کے لیے ہوں گے، اللہ کے حکم کے تحت ہوں گے۔ لہٰذا اسلام میں اگر کوئی رہبانیت ہے تو وہ حج اور جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ کچھ نہیں ۔

گوشوں اور خانقاہوں میں بیٹھنے اور راتوں کو بیٹھ کر لمبے لمبے ذکر کرنے کی تعلیم آپؐ  نے نہیں دی۔آپؐ نے اس کو پسند نہیں فرمایا کہ کسی چیز کو لاکھوں بار پڑھا جائے۔ ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بڑے ثواب کا کام ہے، حضوؐرنے بڑا پسند کیا ہوگا کہ کسی کلمے کا لاکھ لاکھ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ دفعہ ورد کیا جائے۔ ایسی کوئی حدیث نہیں ملتی کہ حضوؐر نے اس کثرت سے پڑھنے کی کوئی تعلیم دی ہو۔ آپؐ  نے زیادہ سے زیادہ سو دفعہ، دس دفعہ، سات دفعہ، یاتین دفعہ پڑھنے کی تعلیم دی ہے۔

ایک بار حضوؐرکسی کام سے باہر نکلے۔ اس وقت حضرت جویریہؓ دانوں پر تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ جب آپؐ واپس آئے تو وہ اسی میں مشغول تھیں۔ آپؐ نے پوچھا کہ اتنی دیر میں کیا پڑھا؟ انھوں نے بتایا کہ میںتو تب سے یہ تسبیح پڑھ رہی ہوں اور آپ کاروبار میں مشغول تھے۔ آپؐ  نے فرمایا: میں نے اس عرصے میں صرف چار کلمات کہے ہیں اوریہ تمھاری ساری تسبیحات پر بھاری ہیں۔

اسلام نے رہبانیت کی تعلیم نہیں دی۔ اسلام چاہتا ہے کہ آدمی دُنیا میںمشغول رہے مگرہروقت اللہ کی رضا کواپنے سامنے رکھے۔ چنانچہ بہت سے علما نے کہا ہے کہ اگر آدمی ہزاروں اشرفیوں میں کھیلتا ہے، جائز کماتا ہے اور جائز خرچ کرتا ہے مگر دل اشرفیوں میں نہیں اٹکتا تو وہ سچا مومن ہے اور اس کے مقابلے میں ایک آدمی جھونپڑی میں بیٹھا ہے، اس کے پاس چندپیسے ہیں، اس کا دل ان پیسوں میں اٹکا ہوا ہے، اللہ کے پا س نہیں ہے تو وہ بڑا دُنیا دار ہے۔ یہ حکم ہے دُنیا کے بارے میں ۔ یہ ہے رہبانیت دین کو مکمل کرنے کے لیے ، دین کو غالب کرنے کے لیے۔ اس کے لیے ہی حج کی عبادت فرض کی گئی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ عائد کیاگیا ہے۔

اللہ کی یاد، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، اپنے نفس کے اوپر ضبط کرنا اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے، اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے، اس مشن کو پورا کرنے کے لیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے سپرد کیا، اس کے لیے گھر بار چھوڑنا، گھر سے نکلنا اور اپنے معمولاتِ زندگی چھوڑ دینا اور کہیں اور سفر کرکے جانا___ حج کے ذریعے ان سب پہلوئوں سے تربیت کی جاتی ہے۔

حج کا اھم ترین فرض

حج کی عبادت میں، کوئی چیز پڑھنا ضروری نہیں ہے جس طرح نماز اور دیگر عبادات میں ہے۔ حج کے فرائض صرف تین ہیں۔ ان میں کوئی بھی چیز پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ آدمی عرفات میں حاضر ہو جائے، یعنی گھر سے نکلے، سفر کرے، میقات پر احرام باندھے اور عرفات کے میدان میں پہنچ جائے۔ اور جو شخص عرفات کے میدان میں سورج نکلنے سے لے کر بعض کے نزدیک سورج غروب ہونے تک اور بعض کے نزدیک اگلے دن فجر تک پہنچ گیا، اس کا حج ہو گیا اور جو نہیں پہنچا، اس کو اگلے سال حج کے لیے دوبارہ آنا پڑے گا۔ ہر چیز کی قضا ہوسکتی ہے، ہر چیز کا مداوا ہے، ہر چیز کا علاج ہے، آدمی سے طواف چھوٹ گیا بعد میں کر لے، قربانی بعد میں دے دے لیکن عرفات کے میدان میں حاضری کی کوئی قضا نہیں ہے۔ اگلے سال لازماً پھر آنا پڑے گا۔ کسی قربانی سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ گویا یہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے کہ لوگ گھروں سے نکلیں، سفرکریں، بیوی بچوں کو چھوڑیں، کاروبار چھوڑیں، ملازمت چھوڑیں، اور اس کے دربار میں کھڑے ہوکے واپس چلے جائیں۔ صرف حاضری دیں اور کچھ نہ کریں۔ اگر آدمی میدانِ عرفات میں سے ایک منٹ بھی گزارے تو اس کا حج ہو جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے نہیں پہنچ پاتا تو اس کا حج نہیں ہوتا ہے۔

یہ حج کا پہلا اہم ترین فرض ہے۔ پھر اس کے ساتھ بہت ساری چیزیں اور مناسک ہیں لیکن حج کا رکنِ اعظم یہی ہے کہ آدمی گھر بار چھوڑ کر نکلے، مال بھی خرچ کرے، مشقت بھی اُٹھائے، سفر بھی کرے اور میدانِ عرفات میں حاضری دے کر واپس چلا جائے۔ دیگر فرائض بھی ہیں، قربانی ہے، طواف ہے لیکن پورے حج کا انحصار اسی پر ہے۔ گویا مسلمانوں کا ایک میدان میں جمع ہونا،  اللہ کے دربار میں حاضری دینا، یہ اللہ کو اتنا محبوب ہے کہ یہ حج کا اہم ترین فرض ہے۔ ا س لیے کہ  یہ اس کی محبت کی علامت ہے۔ یہ محبت ہی تو ہے کہ آدمی اپنے گھر سے نکلے، اپنا لباس اتار دے،  دو چادروں میں ملبوس ہو جائے، سفر کرے، اپنے محبوب کے گھر پر پہنچ جائے، اس کے گھر کے گرد دیوانوں کی طرح گھومے، اسے بوسا دے، چومے اور لپٹ لپٹ جائے اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں۔

ہم سب اردو شاعری سے واقف ہیں۔ محبوب کی گلی میں جانا، اس کے در پر حاضر ہونا،  اس کی گلی کے چکر کاٹنا، یہ سب محبت کے وہ محاورے ہیں جو ہمارے شعرا نے باندھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے گھر جانا، اس کے گھر کے درودیوار سے لپٹ کے دُعا کرنا، اس کے گھر کے پردے سے لپٹ جانا، اس کے در پر جا کے کھڑے ہو جانا، اس سے منہ لگانا، گال لگانا، پیار کرنا اور پتھر کو چومنا، بوسا دینا، سینے سے لگانا، یہ سب بھی اللہ تعالیٰ سے والہانہ محبت اور عشق کا اظہار اور اس کی علامات ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے، کسی ایک گھر میں نہیں بیٹھا ہوا ہے، کسی ایک پتھر سے وابستہ نہیں ہے۔ اس نے علامتیں مقرر اسی لیے کیں تاکہ آدمی اس سے محبت کا اظہار کر سکے، اس سے والہانہ عشق کر سکے۔ اسی لیے اس نے کہا کہ یہاں آئو، اسی گھر کے گرد چکر لگائو، اس کو چومو اور پیار کرو اور اس کے بعد پھر اپنے محبوب کے حکم کی تکمیل میں عرفات کے میدان میں پہنچ کر حاضری دو۔

حج کے موقع پر قربانی بھی دی جاتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر آدمی کواللہ کی راہ میں خون بہانا پڑے، اپنی جان دینی پڑے، اپنے محبوب بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا پڑے تووہ اس سے دریغ نہیں کرے گا اور سر کٹوانے کے لیے تیار ہوگا، اس لیے کہ یہ سر اس کا دیا ہوا ہے۔ سر محبوب کے قدموں پر نثار کر دے، قربان کر دے۔ جب بھی اس کی راہ میں قربانی دینا پڑے،  مال کی، وقت کی، جذبات کی، محبتوں کی، وہ قربانی دی جائے۔ یہی اسوۂ ابراہیمی ؑ ہے اوریہی حج کا منشاو مقصود ہے۔ اسی لیے یہ ایسی عبادت ہے کہ اگر آدمی عمر میں صرف ایک دفعہ بھی کرلے تو بھی یہ اس کے لیے کافی ہے۔ یہ دوا کی اتنی بڑی خوراک ہے اورتربیت کا اتنا اہم ذریعہ ہے کہ اگر آدمی اس کو واقعی انجام دے لے، تو اس کی پوری زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل سکتی ہے۔

اسوۂ ابراھیمی کی یاد

حج حضرت ابراہیم ؑ کی محبت و قربانی کی یاد گار ہے۔ حج کے جتنے مناسک ہیں، اسی کی یاد میں ہیں۔ صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت آدم ؑ نے کی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو پہلی عبادت گاہ قرار دیا ہے جو انسانوں کے لیے زمین پر تعمیر کی گئی۔

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰـرَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ط (اٰل عمرٰن۳:۹۶-۹۷)    بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر وبرکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں، ابراہیم ؑ کا مقامِ عبادت ہے، اور اُس کا حال یہ ہے کہ جواس میں داخل ہوا، مامون ہوگیا۔

لہٰذا یہ پہلا گھر ہے جو اللہ کے لیے بنایا گیا ہے اور سارے انبیاؑ نے اس کا حج کیا ہے۔

جب حضوؐرآخری حج کے لیے جا رہے تھے، ایک جگہ رُک کر آپؐ نے پوچھا کہ یہ کون سی وادی ہے؟ صحابہ کرامؓ نے وادی کا نام لیا تو آپؐ نے کہا کہ میں گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ حضرت یونس ؑ جن کے گھنگریالے بال ہیں، سفید کپڑے پہنے ہوئے لبیک کہتے ہوئے جا رہے ہیں۔ حضرت یونس ؑ کا زمانہ توبہت پرانا تھا۔ آپؐ نے کہا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ جار ہے ہیں اور یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ  نے ان انبیاے کرام کے نام بھی لیے جو بہت پہلے گزرے تھے کہ انھوں نے یہاں حج کیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد کے لیے تو مرکز یہی تھا۔ اب تورات میں تحریف ہو گئی ہے اور قربانی کی جگہ کا نام مورولکھا ہوا ہے لیکن اصل مروہ ہے۔ مروہ کے مقام پر حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی دی گئی تھی۔ تورات میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے اکلوتے بیٹے حضرت اسحاقؑ کی قربانی دی گئی تھی حالانکہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی دی گئی تھی۔ قرآن مجید میں اس واقعے کا تذکرہ کیا گیا ہے اگرچہ قرآن ان بحثوں میں نہیں الجھتا کہ صحیح نام کیا ہے لیکن یہ واضح کیا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی گئی ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ نے اس کو اپنا گھر بنایا۔ مقامِ ابراہیم ؑ اور وہ پتھر آج بھی موجودہے جہاں کھڑے ہو کر آپ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ آپ کی اہلیہ یہاں رہتی تھیں، آپ کا بچہ یہاں پر رہتا تھا اور جہاں آدمی کے بیوی بچے رہتے ہوں، وہ اس کا گھر بھی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے خانہ کعبہ آپ کا گھر بھی تھا۔ مقامِ ابراہیم سے ایک مراد حضرت ابراہیم ؑ کے قیام کی جگہ بھی ہے، اور یہاں لا کر آپ نے اپنی اولاد کو بسایا تھا۔ لہٰذا تاریخی حوالے سے بھی یہ اللہ کا قدیم ترین گھر ہے، اور پھر قرآن مجید کی شہادت تو کسی روایت کی محتاج نہیں ہے۔ اس کے لیے کسی تاریخی حوالے کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ یہ پہلا گھر ہے جو خدا کی بندگی کے لیے بنایا گیا ہے اور وہ مکے میں ہے۔ مکہ کا پہلا نام بکہ تھا اور تورات میں اور حضرت دائود ؑ کے نغموں میں اس کا نام بکہ ہی لکھا ہے۔ وادی بکہ، اس سے لگائو، اس کے عشق میں وہاں پر جائوں اور اس کی زیارت کروں اور خیموں میں ٹھہروں… یہ سارے گیت تورات کے اندر موجود ہیں۔ بکہ اور خانہ کعبہ سے متعلق بہت سے بیانات تورات انجیل میں ملتے ہیں، جن کو لوگ نہیں مانتے، تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کا ذکر نام کے ساتھ موجود ہے۔ خدا کے پہلے گھر کو حضرت ابراہیم ؑ نے دوبارہ تعمیر کیا اور ان بنیادوں پر تعمیر کیا جن بنیادوں پر اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی۔ قرآن مجید نے اس تعمیر کا نقشہ کھینچا ہے:

وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوْاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط (البقرہ ۲:۱۲۷)اور یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔

اس پورے منظر کی تصویر کھینچ کر سامنے رکھ دی ہے کہ دونوں باپ بیٹے مزدور کی طرح لگے ہوئے ہیں، کام کر رہے ہیں، بیٹا پتھر لا لا کے دے رہا ہے اور باپ ایک ایک پتھر رکھتا جارہا ہے اور اس گھر کی تعمیر ہو رہی ہے جس کی مثال اور نظیر دُنیا کے کسی اور گھر کی نہیںہے۔

بندگی کی معراج

یہ گھر اس بات کی علامت ہے کہ یہ مرکزِ رشدو ہدایت ہے۔ نماز میں پانچ وقت [اسی طرف] رُخ کرنے کا حکم بھی اسی لیے ہے کہ یہ اللہ کا گھر ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی مثال کے ذریعے سے ا س بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ جو اس گھر کے رب کو اپنا رب بنا لیتا ہے تو اللہ اس کو کیا مقام عطا کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانا تو اللہ نے ان کو کتنا اونچا مقام دیا۔ سارے انسانوں کا امام بنا دیا۔ عیسائی، یہودی، مسلمان تینوں ان کو اپنا امام مانتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برہمن کا لفظ بھی ابراہیم سے نکلا ہے۔ ابراہیم سے اس لیے کہ ’ب رھ م‘ یہ مادہ عربی زبان میں اور عبرانی زبان میں ایک ہی لفظ کا ہے۔ ہر مذہب کی جڑ جا کر انھی تک پہنچتی ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو ساری دُنیا کا امام بنا دیا۔

ایک عورت جس نے اللہ پربھروسا کیا، جو یکا و تنہا تھی، جس کا کوئی سہارا نہیں تھا، اس کا ایک بیٹا جو دودھ پیتا بچہ تھا، ان کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب انھیں یہاں پر چھوڑا تو حضرت ہاجرہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ انھوں نے پلٹ کے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ آپؐ کو اس کا حکم اللہ نے دیا ہے؟ کہنے لگے: ہاں، اللہ نے حکم دیا ہے۔ اس پر وہ مطمئن ہو گئیں اور مزید کوئی سوال نہیں کیا اور اللہ کی ذات پر بھروسا کر لیا۔ حضرت ابراہیم ؑبھی بالکل مطمئن واپس آ گئے۔ یہ اللہ پر بھروسے کا نتیجہ ہی تھا کہ اللہ نے لق ودق صحرا میں ان کی زندگی کا سامان کر دیا، زم زم جاری کر دیا اور پھر اپنی اس بندی کی اس محبت و اطاعت کو حج کا رکن بنا کر ہمیشہ کے لیے جاری وساری کر دیا۔

خدا پر بھروسا اور ا س کی اطاعت، یہی دراصل دین کی روح ہے۔ اسی لیے نماز میں جواطاعت کی مظہر ہے، ہم خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ سبق ذہن میں ہر وقت تازہ ہونا چاہیے کہ گھر سامنے موجود ہے۔ اگرچہ نگاہوں کے سامنے تونہیںہے لیکن تصور میںموجود رہنا چاہیے۔ یہ اتنا ضروری ہے کہ اگر قبلے کی طرف رخ نہ ہو تونماز نہیں ہوتی۔ قبلہ کی طرف رخ کرنا بنیادی شرائط نماز میں سے ہے۔ حکم ہے کہ اگر قبلہ نامعلوم ہو توآدمی اندازے سے رخ کا تعین کرے اور جب صحیح رخ معلوم ہو جائے توبغیر کسی توقف کے فوراً اپنا رخ درست کرلے۔ جب حضوؐر کو تحویل قبلہ کا حکم آیا تو آپؐ  شمال کی طرف جدھر بیت المقدس تھا منہ کیے ہوئے تھے، جیسے ہی تحویل قبلہ کا حکم آیا تو آپؐ نے فوراً ۱۸۰ ڈگری پھیر کر مکہ کی طرف اپنا رخ کرلیا۔

قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم، پانچ وقت نماز میں رخ کرنا اور حج کے موقع پر حاجی کا اللہ کے گھر کی طرف جانا، یہ اللہ پر بھروسے، اس پر توکل، اس پر اعتماد اور حکم ملتے ہی بلا دھڑک   اس کی اطاعت کرنے کا نام ہے۔ یہی حضرت ابراہیم ؑ کی محبت کی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:

اِذْا قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ لا قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (البقرہ ۲:۱۳۱) اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا! مسلم ہو جا تو اس نے فوراً کہا: میں مالکِ کائنات کا ’مسلم ‘ہوگیا۔

بے لاگ اطاعت کی مشق

اللہ کی اطاعت ایک مسلمان کی شانِ بندگی ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ لبیک لبیک کہتے ہوئے، سفید لباس پہنے ہوئے، لاکھوں کی تعداد میں خانہ کعبہ جاتے ہیں لیکن اگر زندگی میںکوئی معاملہ اطاعت کا آ جائے تو منہ سے لبیک نہیں نکلتا، اور عمل سے تو بالکل ہی نہیں نکلتا ۔ وہ بڑے بڑے روساے حکومت جو احرام باندھ کر جاتے ہیں اور خانہ کعبہ میں گھس کر اپنی داد وصول کرتے ہیں اور مسجد نبویؐ کے اندر بھی روضہ مبارک کے اندر پہنچائے جاتے ہیں، کھلم کھلا احکامِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں اور مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں لیکن یہاں ان کے منہ سے لبیک نہیںنکلتا۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے حج کا حکم اسی لیے دیا ہے کہ ادھر آئو اور اللہ سے اپنی محبت کو تازہ کرو۔ ماں باپ، بیوی بچے، رشتہ دار، تجارت، مال و دولت، مکان کوئی چیز بھی اللہ اور اس کے رسولؐ سے بڑھ کر محبوب  نہیں ہونی چاہیے۔ نبی کریمؐ نے بھی اپنی محبت کے لیے ایسا ہی مطالبہ کیا ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے والدین، جان و مال اور ہر چیز سے بڑھ کر پیارا اور محبوب نہ ہوجائوں۔

عبادت بالخصوص حج دراصل اللہ کی محبت کی علامت ہے۔ یہ جہاد کے لیے تیاری کرنے کی علامت ہے۔ اس اُمت کے زوال کا اصل سبب بھی یہی ہے کہ اس نے اس مقصد کے لیے جہاد کو ترک کر دیا جس کے لیے اللہ نے اس کو پیدا کیا تھا۔ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ دُنیا اتنی محبوب ہو جائے اور موت سے آدمی ڈرنے لگے تو پھر کافر قومیں تم پر اس طرح ٹوٹیں گی جس طرح بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہم تعداد میں کم ہوں گے؟آپؐ نے کہا: نہیں تم درخت کے پتوں اور ریگستان کے ذروں کے برابر ہوگے۔ لیکن دیگرقوموں کے لیے ترنوالہ ہو گے۔ جو چاہے گا تم پر ظلم ڈھائے گا۔پھر لوگوں نے پوچھا: کہ یہ کیوں ہوگا؟آپؐ نے فرمایا: وَہن پیدا جائے گا۔ لوگوں نے پوچھا: وَہن کیا ہے؟آپؐ نے فرمایا: دُنیا کی محبت اور موت کا ڈر۔

یہ اس مقصد فراموشی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان سوا ارب سے زیادہ کی تعداد میں ہیں کہ دُنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے لیکن دشمن قومیں ہم پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑی ہیں۔ بوسنیا،چیچنیا، فلسطین، کشمیر [اور اب افغانستان، عراق، پاکستان] میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ اس کے مداوے کی بھی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ وہن سے نجات حاصل کی جائے، خدا کی بے لاگ اطاعت ہو اور اس سے محبت و عشق کا والہانہ اظہار کیا جائے۔ حج کے ذریعے سے اسی پیغام کو تازہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے تو اسی محبت سے بے قرار ہو کے جاتا ہے۔ کوئی کام نہیں کرتا سواے اس کے کہ میدان میں پہنچ کر حاضری دے جس طرح میدانِ جنگ میں جا کر آدمی لڑتا ہے۔ یہ ویسی ہی مشق ہے جس طرح پریڈ میں آدمی کرتا ہے کہ بگل بجتے ہی آدمی ہر کونے سے دوڑا چلا آتا ہے۔ اس کا مقصد صرف حاضری دینا اور واپس چلے جانا ہوتا ہے اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ اگر کوئی نہ آئے تو اس کا کورٹ مارشل ہو جاتا ہے، اس کو ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح حج کے موقع پر حاضری بھی اسی بات کی علامت ہے کہ جب پکارا جائے: ’’آجائو، اطاعت کرو‘‘، تو سب کچھ لا کے حاضر کردو۔ اس بات کی عملی تربیت حج کے ذریعے دی گئی ہے۔

حج اتنی عظیم عبادت ہے کہ محبت، عشق، قربانی اور حضرت ابراہیم ؑ کی طرح سب کچھ ترک کرنا، اسی پر بھروسا کرنا، اسی پر توکل کرنا، یہ سب صفات اس سے پیدا ہوتی ہیں۔

نبی کریمؐ کے مشن کے لیے تڑپ!

اب تو حج بڑی کثرت سے ہوتا ہے۔ لوگ ہر سال حج کے لیے بھی جاتے ہیں اور برابر عمرے کے لیے بھی جاتے ہیں لیکن حج کی عبادت کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس بات کی تربیت ہو کہ جہاں آدمی ہو، وہ کام کرے جس کے لیے حضوؐر تشریف لائے تھے۔ اس کام کے مکمل ہونے کی داستان مکہ کے ایک ایک پتھر اور ایک ایک سنگریزے کے اوپر لکھی ہوئی ہے۔ جو وہاں پر جائے اس پوری داستان کو پڑھے۔ لیکن جو شخص طواف کرے اور واپس آ جائے اوراس کے دل میں کوئی شوق پیدا نہ ہو کہ میں بھی وہی کام کروں جو حضوؐرنے کیا ہے تو اس نے حج سے کچھ حاصل نہیں کیا۔

ایک آدمی ہر سال حج کے لیے جاتا ہے، عمرے کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ ایک لاکھ کا ثواب مجھے مل رہا ہے، تو یہ ثواب محض ترغیب کے لیے ہے۔ اگر صحابہؓ کو معلوم ہوتا کہ یہی اصل چیز ہے تو وہ مدینہ چھوڑ کر ہی نہ نکلتے کہ مسجد نبویؐ میں نماز ادا کرنے کے نتیجے میں ہمیںہر وقت پچاس ہزار نماز کا ثواب مل رہا ہے، یا مکہ میں جا کر بیٹھ جاتے کہ یہاں تو ایک لاکھ نماز کا ثواب ہے اور تواتر سے ہر سال عمرہ اور حج کرتے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ خود نبی کریمؐ جب حج کے لیے آئے، امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ  آئے اور عمرہ کرکے واپس اپنی قیام گاہ میں چلے گئے جو مکہ کے بالائی حصے میں تھی۔ اس کے بعد جب تک آپؐ مکہ میں رہے، طواف اور نماز کے لیے حرم میں نہیں آئے۔ ۴ تاریخ کو آپؐ مکہ آئے تھے اور ۸ تاریخ کو آپؐ مکہ سے نکلے تھے۔ حج کے لیے منیٰ کی طرف گئے اور پھرآپؐ نے آکر طواف نہیں کیا اور حرم میں نماز نہیں پڑھی۔ آپؐ  حجراسود کو چومنے کے لیے آگے بڑھے۔ آپؐ  اپنی چھڑی سے اشارہ کرتے تھے اور اونٹنی پر سوار ہو کے آپؐ نے طواف کیا۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ خواہ مخواہ کی بھاگ دوڑ ضروری نہیں ہے۔ آدمی جو کچھ سہولت سے کرسکتا ہو، وہی کرے۔ اصل تو حج کا سبق ہے، یعنی محبت کا، قربانی کا، عشق کا اور وہ کام کرنے کا جو حضوؐر نے انجام دیا ہے۔

آج لوگ فرائض چھوڑ کر نوافل کی طرف دوڑتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ ایک کروڑ نفل بھی ادا کرلیے جائیں تو وہ ایک سنت ایک فرض کے برابر نہیں ہوسکتے۔ اس کا وہ مقام نہیں ہو سکے گا جو مقام فرض اور سنت کا ہے۔ اس لیے کہ وہ نفل ہے۔ سب سے بڑا فرض تو شریعت پر عمل اور اس کا نفاذ ہے۔ ایک سنت کو بھی اگر آدمی زندہ کرے اوراگر سنتیں مٹ گئی ہوں تو اس کا اتنا ثواب ہے کہ ایک کروڑ نفل ادا کر کے بھی نہیںمل سکتا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ ہر سال حج کو جاتے ہیں، عمرے کو جاتے ہیں، لیکن ایک پائی بھی دین کو قائم کرنے کے لیے اور فریضہ    امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے جیب سے نہیں نکلتی۔

حضرت شفیق بلخیؒ کے پاس ایک آدمی آیا۔ اس نے کہا میرے پاس پیسہ جمع ہے اورمیں حج کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ آپ نے پوچھا کہ کیا پہلے حج کر چکے ہو؟ وہ کہنے لگا کہ ہاں کر چکا ہوں اور اب پھر جانا چاہتا ہوں۔ حضرت شفیق بلخیؒنے فرمایا کہ میں جو بات تمھیں بتائوں گا، تم اس کو نہیں مانو گے۔ وہ کہنے لگا:نہیں، آپ مجھے بتائیں، جو کچھ آپ بتائیں گے، میںوہی کروں گا۔ وہ کہنے لگے کے تمھارے محلے کے ایسے لوگ جو غریب ہیں، بھوکے ہیں اورضروریات زندگی سے محروم ہیں، یہ پیسہ جو تم نے حج کے لیے جمع کیا ہے، وہ انھیں دے دو۔ اس لیے کہ غریب کی مدد کرنا تو فرض ہے، اللہ کے دین کو قائم کرنا فرض ہے۔ وہ کہنے لگے تم حج کو نہ جائو۔ اس نے کہا: نہیں، میں تو حج کو ہی جائوں گا۔ میں نہیں مانوں گا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی تم کو کہا تھاکہ میںجو مشورہ تم کو دوں گا، تم اس کو نہیں مانو گے۔ اس لیے آدمی سمجھتا ہے کہ نفلی حج کرنا ہی بڑی عبادت ہے۔

درحقیقت اصل عبادت یہ ہے کہ آدمی اپنے مقام پر ان فرائض کو ادا کرے جو اللہ نے فرض کیے ہیں۔ یہ فرائض حقوق میں بھی ہیں اور دین میں بھی۔ ان چیزوں سے بچا جائے جو اللہ نے حرام کی ہیں۔ نماز، روزہ اور حج، اسی ترغیب کے لیے ہیں۔

حج کے حوالے سے ایک پہلو ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو حج کے لیے نہیں جا سکتے۔   دل کی تمنا، شوق، تڑپ اور محبت تو ایسی چیز ہے کہ یہ جتنی وصال میں ہے، اس سے زیادہ ہجر میں ہوتی ہے۔ محبوب سے دُور رہنا، اس کی محبت میں آنسو بہانا، اس کی یاد میںتڑپنا، یہ اس سے زیادہ محبوب ہوگا کہ یہاں وہ تڑپتا رہے، اسی کی آرزو میں آنسو بہاتا رہے اور اپنا مال اور وقت اس کے دین کی سربلندی کے لیے خرچ کرتا رہے۔ یہ اس کے لیے سب سے بڑی محبوب چیزہوگی۔    لیکن اللہ نے محبت کے جو راستے بتائے ہیں، ہم ان کو چھوڑ کر ان راستوں کے پیچھے جاتے ہیں   جو ہمارے دل پسند راستے ہیں کہ وہاں چلے جائیں، زیارت کرکے واپس آئیں اوراس طرح   خدا کی محبت کا حق ادا ہو جائے گا۔ حج کے حوالے سے یہ پہلو بھی غور طلب ہے۔ اگر ہم اس پر    غور کریں تو اللہ کا دین جو مٹ رہا ہے، اللہ کے بندے جو پریشان حال ہیں، یقیناان سب  کے لیے وسائل کی ایک بڑی مقدار میسر آئے گی اور خدا کی محبت کا حق بھی بہتر طور پر ادا ہوسکے  گا۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)