سوال: آج کل الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اِس بات کی ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ فوت ہونے سے قبل اِس بات کی وصیت کردیں کہ ان کے اعضاے جسمانی انسانیت کی فلاح کے لیے وقف ہیں اور اُن کے انتقال کے بعد ان کو نکال لینے کی مکمل اجازت ہے۔ اس عمل کو آرگن ڈونیشن کا نام دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شریعت کی رُو سے ایسا کرنا جائزہے؟
جواب: عمومی انداز میں لوگوں کو اپنی وفات کے بعد اپنے اعضا عطیہ کرنے اور نکال دینے کی دعوت و ترغیب دینا درست نہیں ہے، اسے ختم کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس طرح کی تشہیر کے نتیجے میں انسانی اعضا کی تجارت اور کاروبار کا سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے جس کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ انسانی اعضا کا عطیہ اور پیوند کاری کو مفتی محمد شفیعؒ اور مولانا یوسف بنوریؒ کی سربراہی میں علما نے ناجائز قرار دیا ہے۔ مفکراسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی بھی یہی راے تھی۔ احادیث سے احترامِ انسانیت کی جو ہدایت ملتی ہے، اس کا بھی یہی تقاضا ہے لیکن سعودی عرب، الجزائر، ملیشیا اورپاکستان کے بعض علما، جن میں شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن بھی شامل ہیں، اضطراری حالت میں اسے جائز سمجھتے ہیں لیکن اس کے لیے چھے شرائط کی پابندی لازمی ہے۔ ان کے بغیر انسانی جسم کی چیرپھاڑ اور اعضا کی منتقلی نہیں کی جاسکتی۔ وہ شرائط یہ ہیں:
ا- مریض کی موت یا اس کے کسی عضو کے ضائع ہوجانے کا شدید خطرہ ہو۔
ب- ماہرین کی راے یہ ہو کہ انسانی عضو کی پیوندکاری سے مریض کے شفایاب ہونے کی قوی امید ہے اور اس عمل کی کامیابی کا غالب گمان ہے۔
ج- جس شخص کی لاش سے کوئی عضو لیا جائے، اس کے بارے میں قوی یقین ہو کہ وہ مرگیا ہے اور اس کے جسم میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔
د- اگر زندہ شخص کا کوئی عضو، مثلاً گردہ لیا جا رہا ہو تو اس صورت میں، جب کہ یہ یقین یا غالب گمان ہو کہ اس کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ اپنی خوشی سے یہ عطیہ دے رہا ہو۔
ھ- میت کے شرعی وارثوں نے اس کا کوئی عضو لینے کی اجازت دے دی ہو، اس لیے کہ وہ اس کی تدفین و تجہیز کے شرعاً ذمہ دار ہیں۔ اگر میت لاوارث ہو تو علاقے کا قاضی اس کا وارث ہے جس کی اجازت پر عضو لیا جاسکتا ہے (وصیت کی صورت میں بھی اجازت ہے)۔
و- اس بات کا اطمینان حاصل کرلیا گیا ہو کہ اعضا کی پیوندکاری کا یہ عمل انسانی اعضا کے کاروبار کا ذریعہ ثابت نہیں ہوگا اور حکومتوں نے اس بارے میں قانون کے ذریعے عام انسدادی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرلی ہوں۔ (بحوالہ تفہیم المسائل، ج ۳، ص ۱۸۷ - ۱۸۹)
میڈیا پر جس انداز سے تشہیر ہورہی ہے اور جو کمپنیاں یہ تشہیر کر رہی ہیں، اس کے نتیجے میں مذکورہ تمام شرائط اور قدغنیں کالعدم ہوکر رہ جاتی ہیں۔ ان قدغنوں کا مقصد تو یہ ہے کہ اعضا کے لیے انسانی میت کی چیرپھاڑ اضطراری حالت میں نہایت محدود پیمانے پر ہو لیکن میڈیا کی تشہیر کے نتیجے میں لاشوں کی چیرپھاڑ کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہونے کا اور اس کے کاروبار بن جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اس لیے اس تشہیر کو روکنا چاہیے تاکہ جو حدیں لگائی گئی ہیں، وہ اپنی جگہ مؤثر رہیں اور محض اضطراری حالت میں اس ناگوار عمل کا ارتکاب کیا جائے۔ (مولانا عبدالمالک)
س: ریٹائرمنٹ پر میں نے ساڑھے گیارہ لاکھ روپے کی رقم بنک میں رکھنے کے بجاے اس کا ایک پلاٹ خرید لیا۔ پلاٹ خریدتے وقت پیش نظر یہ تھا کہ:
۱- روپے کی قدر کم ہوتی رہتی ہے، جب کہ پلاٹ کی مالیت بڑھنے کی توقع ہے۔ اگر کسی وقت مناسب منافع ملا تو پلاٹ کو بیچا جاسکتا ہے (تاہم دو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پلاٹ کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا)۔
۲- گھریلو اخراجات ماہوار پنشن میں بمشکل پورے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات غیرمعمولی اخراجات بھی کرنے پڑ جاتے ہیں، مثلاً کسی بچے کی شادی یا بیماری کی صورت میں۔ کسی بھی صورت میں ضرورت پڑنے پر پلاٹ بیچ کر ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔
۳- اگر مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت پیش نہیں آتی تو پلاٹ پڑا رہے گا اور اولاد کے کام آئے گا۔
میرا سوال یہ ہے کہ: ۱- کیا اس پلاٹ کی مالیت پر زکوٰۃ واجب ہے؟
۲- زکوٰۃ واجب ہے تو پلاٹ کی کس وقت کی مالیت پر یا کس حساب سے طے کردہ مالیت پر؟
۳- زکوٰۃ واجب ہے لیکن وقت پر ادایگی کے لیے نقد رقم موجود نہیں اور ذاتی ماہوار آمدنی میں سے زکوٰۃ کے لیے رقم نہیں بچتی۔ ایسی صورت میں میرے لیے کیا حکم ہوگا؟ ا- کیا پلاٹ بیچ دینا چاہیے؟ ب- ایک بیٹے کی کمائی میں یہ گنجایش موجود ہے کہ اس سے میں اپنی زکوٰۃ ادا کر دوں۔ کیا شرعاً میں اس بات کا مکلف ہوں کہ بیٹے کی کمائی سے اپنی زکوٰۃ ادا کر دوں؟
ج: جب آپ نے روپے کو پلاٹ کی شکل میں محفوظ کرلیا ہے اور مقصد اسے فروخت کرنا ہے، منافع کی صورت میں، ہنگامی ضروریات کی صورت میں، یا اسے بچوں کے لیے پس انداز کرنا ہے، جو بھی صورت ہو، زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ پلاٹ کی مارکیٹ کے ریٹ کے مطابق قیمت کا تعین کرکے زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ خیال رہے کہ رہایشی ضرورت کے تحت خریدے گئے پلاٹ پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی۔
آپ کے پاس زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے فاضل رقم نہیں ہے، البتہ ایک بیٹے کی کمائی میں گنجایش ہے۔ آپ کا یہ سوال کہ کیا پلاٹ کو فروخت کر دیا جائے تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ آپ کی صوابدید پر ہے۔ زکوٰۃ تو بہرصورت دینا ہوگی، اس لیے کہ آپ کی ضروریات سے فاضل محفوظ شکل میں براے فروخت پلاٹ پڑا ہوا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ بیٹا رضاکارانہ طور پر اعانت کردے اور آپ زکوٰۃ ادا کردیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جب پلاٹ فروخت ہو تو اس وقت سارے عرصے کی زکوٰۃ ادا کردیں،واللّٰہ اعلم۔ (ع - م )