نومبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

عالمی اسلامی بنک: قیام کی طرف پیش رفت

امجد عباسی | نومبر ۲۰۰۹ | شذرات

Responsive image Responsive image

عالمی معاشی بحران کے نتیجے میں اسلامی بنکاری کو تیزی سے فروغ حاصل ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی اسلامی فنانس انڈسٹری کے اثاثہ جات میں گذشتہ چند برسوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہو ا ہے اور اب وہ ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں(ٹریو بنکنگ، اگست-ستمبر ۲۰۰۹ء، ص ۱۱)۔ یہ غیرمعمولی پیش رفت ہے اور اسلامی بنکاری کے ایک محفوظ بنکاری کے تصور پر بڑھتے ہوئے اعتماد کا نتیجہ ہے کہ یہ سود اور سٹہ سے پاک حقیقی سرمایہ کاری پر مبنی ہے۔

اسلامی بنکاری کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت چند ماہ قبل اشتراکی نظریات کے حامل روس کے دارالحکومت ماسکو میں پہلی بین الاقوامی اسلامی بنکاری کانفرنس (۱۷؍۱۸ مارچ ۲۰۰۹ء) کا انعقاد ہے جس سے روس اور اسلامی ممالک میں اسلامی بنکاری کی پیش رفت کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے۔ حال ہی میں ویٹی کن سٹی نے بھی سرمایہ داری نظام کو ناکام قرار دیتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ معاشی بحران کے حل کے لیے اسلامی بنکاری سے رجوع کیا جائے۔ اس لیے کہ اسلام کے معاشی قوانین معاشی بحران کا بہتر حل پیش کرتے ہیں۔ ویٹی کن کے سرکاری ترجمان L'osservator Romunoنے ایک مقالہ: Islamic Finance: Proposal and Ideas for The West in Crisisجو کہ اٹلی کے ماہرین معیشت Loretta Napoleoniاور Claudia Segreنے لکھا ہے، شائع کیا ہے اور تجویز کیا ہے کہ اسلامی معاشی قوانین موجودہ بحران کا ایک بہتر حل پیش کرتے ہیں اور سکوک بانڈ کو سود کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پوپ بینڈکٹ XVI نے بھی سرمایہ داری نظام پر کڑی تنقید کی ہے۔ ویٹی کن خود بھی مالی بحران کا شکار ہے۔ ۲۰۰۷ء کے ۱۸ بلین یورو اضافی بجٹ میں ۶ بلین یورو کی کمی واقع ہوچکی ہے جس میں سالِ رواں میں مزید کمی کا اندیشہ ہے۔

عالمی اسلامی فنانس کا بڑا مرکز اس وقت مشرق وسطیٰ، ایشیا اور برطانیہ ہے۔ ہانگ کانگ، سنگاپور، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا کے ساتھ ساتھ جاپان میں بھی اسلامی بنکاری تیزی سے فروغ پارہی ہے۔اس عالمی رجحان کی وجہ سے عالمی اسلامی بنک کے قیام کی ضرورت کو بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ ماضی میں بھی اس حوالے سے کوششیں کی جاتی رہی ہیں، تاہم البرکہ گروپ بحرین نے شیخ صالح کمال کی سربراہی میں سرگرمی دکھائی ہے اور عالمی اسلامی بنک کے قیام کی طرف  مزید پیش رفت ہوئی ہے۔ البرکہ گروپ، استخلاف (Istikhlaf) کے نام سے شرعی انوسٹمنٹ عالمی بنک کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ گذشتہ کئی برسوں کی کوششوں کے نتیجے میں اسی اقدام کو نہ صرف سراہا جا رہا ہے بلکہ بنک کے اجرا کے لیے اب تک ۵ء۳ بلین ڈالر کا سرمایہ خلیجی ممالک سے جمع بھی کیا جاچکا ہے، جب کہ اسے ۱۰۰ بلین ڈالر تک بڑھانے کا ہدف ہے۔ (اکانومسٹ، ۲۰ جون ۲۰۰۹ء)

اس راہ میں کچھ عملی مشکلات بھی ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ سرمایے کی کمی ہے جس کی وجہ سے اسلامی بنک سرمایے کے حصول کے لیے ملٹی نیشنل بنکوں سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔ اس مسئلے کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ سعودی عرب جو آج بھی اسلامی بنکاری کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے، آگے بڑھ کر اپنے وسائل عالمی اسلامی بنک کے قیام کے لیے لگائے۔ بحرین جو اس میدان میں پیش پیش ہے اس کے ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری کی جائے۔

اسلامی بنکاری کے لیے تکنیکی سٹاف کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کو ملٹی نیشنل بنکوں کے تعاون سے پورا کیا جارہا ہے۔اس مسئلے کے حل کے لیے اسلامی ممالک کو جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ فنی تربیت کے لیے بڑے پیمانے پر معیاری تعلیمی ادارے کھولنے کی ضرورت ہے جو اسلامی فنانس کی ضروریات کو مستقبل میں پورا کرسکیں۔

ایک عملی مسئلہ اسلامی بنکاری کے لیے یکساں عالمی اصولوں اور قواعد و ضوابط کا ہے۔ اسلامی بنکاری کے مختلف طریقوں مثلاً مضاربہ (باہمی شراکت) رہن (مارٹ گیج) اور سکوک بانڈ کے لیے مختلف ممالک میں مختلف طریق کار رائج ہیں جو کہ عالمی اسلامی بنکاری کے فروغ میں   ایک رکاوٹ ہے۔ کویت کا ایک مسلمان ملایشیا کا سکوک بانڈ نہیں خرید سکتا، اس لیے کہ ایک ملک کے علما کے نزدیک اس میں سود کا عنصر شامل ہے۔ اسی طرح اسلامی بنکاری کے لیے رائج طریقوں اور اسکیموں میں شریعہ ماہرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یکساں عالمی اسلامی بنکاری کے قوانین اور ضوابط وضع کرنے میں رکاوٹ پیش آرہی ہے اور عالمی اسلامی بنکاری کے فروغ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ علماے کرام، اسکالرز اور شریعہ ماہرین علمی سطح پر تبادلۂ خیال کر کے اصولی نقطۂ نظر کو سامنے لائیں۔ اس کے نتیجے میں یکسوئی پیدا ہوگی اور عالمی اسلامی بنکاری کے لیے راہ ہموار ہوگی۔ عالمی اسلامی بنک کے قیام کی ضرورت بھی اس لیے محسوس کی جارہی ہے تاکہ یکساں عالمی اسلامی بنکاری کے اصول وضوابط کا اجرا ہوسکے اور پوری دنیا اسلامی بنکاری سے بھرپور انداز میں استفادہ کرسکے۔ توقع ہے کہ علماے کرام، اسکالرز اور شریعہ ماہرین اُمت مسلمہ کو درپیش اس چیلنج کا عملی حل جلد پیش کریں گے۔