اہلِ پاکستان ۱۹۹۰ء سے،۵فروری کا یوم اہلِ کشمیر کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طو رپر مناتے چلے آرہے ہیں ۔ دراصل یہ قاضی حسین احمد رحمتہ اﷲ علیہ کا ایسا صدقۂ جاریہ ہے جو ہرسال پوری قوم کو اہلِ کشمیر کی پشت پر لا کھڑا کرتا ہے ۔ پاکستان کے مختلف المزاج حکمرانوں کے بدلتے ہوئے رحجانات اور کمزور پالیسیوں کی وجہ سے بعض اوقات شکوک و شبہات بھی پیدا ہو تے رہتے ہیں۔ تاہم ہرسال ۵فروری کا دن قوم کے اندر ایسی لہر اٹھا دیتا ہے کہ سازشیں دَم توڑ دیتی ہیں اور پوری قوم اہل کشمیرکو یہ پیغام پہنچاتی ہے کہ قوم کا بچہ بچہ اہلِ کشمیر کی پشت پر ہے۔ یوں تحریکِ آزادیِ کشمیر کو ایک نئی تقویت ملتی ہے ۔
امسال یک جہتی کشمیر ایسے عالم میں منایا جا رہا ہے،جب میدانِ کارزار میں اہلِ کشمیر مشکلات کے باوجود منزل کے حصول کے لیے پُرعزم ہیں۔ وہ بھارتی استبداد کا بے جگری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی اُن کے پُرعزم ہونے کا ثبوت ہے کہ گذشتہ سیلاب میں ۵۵لاکھ کشمیریوں نے بُری طرح متاثر ہونے کے باوجود بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ریلیف لینے سے انکار کردیا تھا۔ ان کی قومی غیرت نے قبول نہ کیا کہ وہ ان مشکل ترین لمحات میں بھی ظالموں اور غاصبوں سے کسی طرح کی امداد و اعانت وصول کریں۔ وہ اﷲ کی تائید و نصرت اور باہم اتحاد و یک جہتی سے بھارت کے ہر وار کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔اس عرصے میں گونا گوں چیلنج اُبھرکر سامنے آئے ہیں۔
نریندر مودی نے اپنے انتخابی منشور میں بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کے خاتمے کے ذریعے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بھارت میں اس کے مکمل انضمام کا اعلان کیا تھا اور مقبوضہ ریاست کی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر نے کے لیے بھرپور مہم چلائی تھی۔ پھر پے در پے کئی دورے کر کے بڑے بڑے معاشی پیکیجز کا اعلان کیا لیکن مسلم اکثریتی نشستوں میں سے بی جے پی ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی۔ یوں اسے مجبوراً مفتی سعید کے ساتھ ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے سرینگر میں مخلوط حکومت میں شامل ہونا پڑا۔مرکزی سرکار کی آشیر باد سے بی جے پی نے ریاست کا مسلم اکثریتی تشخص ختم کرنے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن قائدِ حریت سید علی گیلانی اور دیگر قائدین حریت نے بر وقت اقدام کرتے ہوئے پوری کشمیری قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں بدل دیا ، شہدا کے جنازے ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کرگئے۔ حالات نے قائدین حریت کو کندھے سے کندھا ملا کر چلنے پر مجبور کر دیا۔ جناب شبیر احمد شاہ اور دیگر حریت تنظیمیں سید علی گیلانی کی قیادت میں منظم اور یکجہت ہو گئیں۔
نامساعد حالات کے باوجود، اپنے ذرائع کی بنیاد پر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے ایک مرتبہ پھر قابض افواج کو پیغام دیا کہ جب تک استعماری قبضہ ختم نہیں ہوتا، مجاہدین اپنی جدوجہد ترک نہیںکر سکتے۔یہ نوخیز نوجوان قوم کے ہیرو قرار پائے۔ ان کا سرخیل حزب المجاہدین کا ایک کمانڈر برہان مظفر وانی وہاں آج کے نوجوانوں کا آئیڈیل ہے ۔ گذشتہ چند ماہ میں کئی عسکری معرکوں میں بھارتی فوج کو شدید ہزیمت اور نقصان کاسامنا رہا ۔ اس عرصے میں نریندر مودی کے مقبوضہ کشمیر کے دوروں کے موقعے پر تاریخی ہڑتالوں نے ثابت کیا کہ کشمیری خوف اور لالچ کے کسی ہتھکنڈے کو خاطر میں لائے بغیر آزادی کے حصول تک اپنے مشن پر گامزن رہیں گے۔
نریندر مودی کی حکومت کے بر سراقتدار آتے ہی بھارت نے پاکستان سے بات چیت کا سلسلہ منقطع کر دیا اور لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ روز افزوں ہوگیا جس کے نتیجے میں سویلین اور فوجی شہادتیں ہوئیں لیکن افواج پاکستان نے بھی دندان شکن جواب دیا ۔ ادھر آزاد جموں وکشمیر کی تمام سیاسی اور دینی جماعتوں نے کل جماعتی کشمیر رابطہ کونسل کے پلیٹ فارم سے حقِ خود ارادیت کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اتحاد کرتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سرگرمیوں کا اہتمام کیا ۔ برطانیہ اور امریکا میں بڑے بڑے مارچ کیے گئے ، بالخصوص برطانیہ میں نریندر مودی کی آمد کے موقعے پر تحریک کشمیر برطانیہ اور دیگر جماعتوں نے ایک جھنڈے اور ایک نعرے کے ساتھ بھرپور احتجاج کیا ۔ کل جماعتی رابطہ کونسل کے کنوینر کی حیثیت سے راقم ساری جماعتوں کی نمایندگی کرتے ہوئے ان سارے پروگراموں میں شریک رہا۔ برطانوی میڈیا اور ممبران پارلیمنٹ نے بھی ان سرگرمیوں سے متاثر ہو کر کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالی کے ریکارڈ پر نریندر مودی اور بھارتی حکومت کی سخت مذمت کی، اور اپنی حکومت اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ خطّے اور دنیا کے امن کو کسی بڑے حادثے سے بچانے کی خاطر کشمیر جیسے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھارتی حکومت پر دبائو بڑھایا جائے ۔
اسی عرصے میں وزیر اعظم پاکستان نے جنرل اسمبلی میں اپنے قومی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک موقف اختیار کیا ۔اسی طرح چیف آف آرمی سٹاف نے بھی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف کانفرنسوں میں مسئلہ کشمیر کو تقسیم برعظیم کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر واضح کیا کہ پاکستان کشمیریوں کی برحق جدوجہد سے کسی طور پر پیچھے نہیں ہٹ سکتا ۔ ان سارے عوامل، یعنی مقبوضہ ریاست میں عوامی و عسکری مزاحمت ، پاکستان کا دو ٹوک موقف اور بین الاقوامی دبائو نے نریندر مودی کی حکومت کو پاکستان سے ’ کُٹی‘ کرنے کی پالیسی ختم کرنے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں پہلے ان کی وزیر خارجہ شسما سوراج اور پھر نریندر مودی پاکستان وارد ہوئے اور دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا ۔ پاکستان اور اہل کشمیر نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل ہو۔ اس سلسلے میں ۱۰۰ سے زیادہ اَدوار ہو چکے ہیں لیکن شومیِ قسمت سے مسئلے کے حل کی طرف بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ جب بھی بین الاقوامی دبائو بڑھا بھارت بات چیت کا ڈول ڈالتے ہوئے محض وقت حاصل کرتا رہا۔ اس لیے قائد حریت سید علی گیلانی سمیت تحریکِ آزادی سے وابستہ تمام حلقے یہ موقف پیش کرتے رہے ہیں کہ اگر بات چیت ہو تو محض آلو پیاز پر اور اسی طرح کے جزوی مسائل پر نہ ہو بلکہ مسئلہ کشمیر پر ہو اور ان شرائط کے ساتھ ہو کہ :
۱- بھارت اٹوٹ انگ کی رٹ ترک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو حل طلب تسلیم کرے۔
۲-مقبوضہ کشمیر سے فوجی انخلا کرے ، کم از کم پہلے مرحلے پر آبادیوں سے فوج واپس بلائے ۔
۳- کالے قوانین واپس لے۔
۴-ہزاروں گرفتار شدگان کو جو سال ہا سال سے جیلوں میں پڑے ہیں ، رہا کیا جائے۔
۵-قائد حریت سید علی گیلانی اور دیگر قائدین حریت کی حراستوں کو ختم کرتے ہوئے شہری آزادیاں بحال کرے اور انھیں اپنا مقدمہ بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرنے کا موقع دے ۔ اس سلسلے میں انھیں سفری دستاویزات فراہم کرے۔
۶-۵۵لاکھ متاثرین سیلاب کے لیے بین الاقوامی این جی اوز اور آزادکشمیر و پاکستان میں مقیم کشمیریوں کو کشمیری بھائیوں تک امداد پہنچانے کا موقع فراہم کرے۔
ان شرائط پر عمل پیرا ہوئے بغیر، بات چیت ماضی کے تجربات کی روشنی میں محض بھارتی ہتھکنڈا ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور بھارت پر بین الاقوامی دبائو بڑھانے اور تحریکِ آزادی کی تقویت کا اہتمام جاری رکھنا چاہیے ۔کوئی اورایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار ہو یا کم از کم ہندستان کو ایسا کرنے کا جواز فراہم ہو۔ خصوصاً گلگت اور بلتستان جو تاریخی اعتبار سے ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہیں ، انھیں تمام بنیادی حقوق دیے جائیں جو پاکستان کے تمام شہریوں کو حاصل ہیں۔ تاہم آئینی لحاظ سے مسئلہ کشمیر کے پس منظر کو نظر انداز کر کے انھیں پاکستان کا صوبہ بنانا ایسی بے تدبیری ہوگا جس کے نتیجے میں کشمیریوں اور پاکستان کے درمیان بے اعتمادی کی فضا جنم لے گی ۔حالات کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کشمیری قیادت کی مشاورت سے ایک واضح حکمت عملی طے کریں تاکہ آزادی کی منزل قریب تر ہو سکے۔
ریاست جموں وکشمیر پر برطانیہ کی آشیر باد سے کانگریسی قیادت نے مہاراجا سے سازباز کرکے ۱۹۴۷ء میں فوجی قبضہ کیا اور بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کا ڈراما رچایا گیا۔ ابتدائی دستاویز الحاق کے مطابق مہاراجا کی موروثی حکمران کی حیثیت ختم کی گئی اور داخلی سطح پر صدرریاست ، وزیر اعظم ایک دو ا یوانی پارلیمان کے ساتھ ایسی بااختیار حکومت کا جھانسا دیاگیا جو قانون سازی اور ریاست کے معاملات میں مکمل طور پر با اختیار قرار دی گئی،البتہ دفاع ،مواصلات، کرنسی اور امور خارجہ کے محکمے مرکز کے سپرد کیے گئے ۔اس فارمولے کے مطابق شیخ عبداﷲ کو بھی شیشے میں اتارا گیا اور بالآخر ریاست کی وزارت عظمیٰ ان کے سپرد کی گئی ، لیکن آہستہ آہستہ ۱۹۴۹ء کے سیز فائر اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادیں پاس ہونے کے بعد بھارت کی مرکزی سرکار نے ریاست کے اختیارات چھیننے کا عمل شروع کر دیا ۔
نہرو اور شیخ عبداﷲ کے گہرے دوستانہ مراسم کے پس منظر میں شیخ صاحب کے لیے نہرو کی حکومت کا رویہ ان کی آرزوئوں اور تمنائوں کے برعکس ثابت ہوا جس پر شیخ صاحب نے احتجاج کیا اور ۱۹۵۳ء میں انھیں حکومت سے فارغ کر کے جیل میں ڈال دیا گیا،جب کہ ان کے ایک قریبی ساتھی بخشی غلام محمد کو کٹھ پتلی وزیر اعظم بنا دیا۔اس کے ذریعے ریاست کے اختیارات سلب کر نے کی حکمت عملی جاری رکھی۔ آہستہ آہستہ گورنر اور وزیراعظم کی اصطلاحات کو وزیر اعلیٰ کی اصطلاح سے تبدیل کردیا گیا اور ریاست کی داخلی خودمختاری بھی تحلیل ہوتی چلی گئی۔بھارتی حکمران ریاست کے عارضی الحاق کو مستقل ادغام میں بدلنے کی کوشش کرتے رہے۔
بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کی رُوسے بھارتی یونین میں ریاست جموں وکشمیر کی ایک خصوصی حیثیت تسلیم کی گئی ہے ۔ایک طرف سے تو اس دفعہ کی رو سے بھارتی صدر کو ریاست میں ایگزیکٹو آرڈر کے تحت احکامات اور قوانین نافذ کرنے کا جواز بخشا گیا ہے ، جب کہ دوسری طرف دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ A-۳۵کی رو شنی میں مہاراجا کے سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو تحفظ دیا گیا ہے جس کی رُو سے غیر ریاستی شہریوں کو قانونی طور پر نہ ریاست کی شہریت دی جا سکتی ہے اور نہ وہ جایداد خرید سکتے ہیں اور نہ ووٹر ہی بن سکتے ہیں ۔۱۹۴۷ء میں صوبہ جموں میں ایک منظم سازش کے تحت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا ۔صرف ۶نومبر۱۹۴۷ء کو ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور باقی لاکھوں کو حراساں کر کے ہجرت پر مجبور کیاگیا ۔ان کی جایدادیں اگرچہ عارضی طور پر وہاں کسٹوڈین کے سپرد کی گئیں اور پنجاب اور غربی پاکستان میں سے غیر ریاستی سکھوں اور ہندوئوں کو جموں میں بسایا گیا جن کی تعداد اب آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔ایک طویل عرصے سے بھارتی حکومتیں سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو ختم کر کے انھیں ریاست کا مستقل شہری بنانا چاہتی ہیں تاکہ ریاست کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کے اس کا مسلم تشخص ختم کیا جاسکے ۔
اس پس منظر میں نریندر مودی نے اپنے انتخابی منشور میں کشمیر کے حوالے سے دفعہ ۳۷۰کو ختم کرکے اس کے بھارتی یونین میں مکمل ادغام کا اظہار کیااور ان مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے مقبوضہ ریاست کے حالیہ انتخابات میں جارحانہ انتخابی مہم بھی چلائی ۔ایک ایک علاقے میں خود دورہ کیا اور صوبہ جموں کے غیر مسلم ووٹروں کو بالخصوص اپنی اس انتہا پسندانہ سوچ سے ہم آہنگ کرنے کی پوری کوشش کی اور یہ ہدف دیا کہ ریاستی اسمبلی کی کُل ۸۷نشستوں میں سے ۴۴ سے زائد نشستوں پر بہر صورت کامیابی حاصل کرنی ہے ۔گذشتہ ستمبر میں سیلاب سے وادی کشمیر اور جموں میں ۵۵ لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ ان کے بحالی کے عمل کو بھی اپنی انتخابی کامیابی کے ساتھ مشروط کیا۔ ارب ہا روپے کے وسائل جھونکنے کے باوجود نریندر مودی ایک بھی مسلم نشست پر کامیابی حاصل نہ کرسکے، البتہ صوبہ جموں کی ۳۷میں سے ۲۵نشستیں لینے میںکامیاب ہوگئے۔ اس وقت وہ ریاست میں اپنی بارگیننگ پوزیشن مستحکم کرنے اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے انھیں استعمال کر رہے ہیں۔
دوسری طرف مسلمان ووٹروں (بالخصوص وادیِ کشمیر )کے مسلمان ووٹروں نے نریندر مودی کے ایجنڈے کو ناکام کرنے کے لیے وادی میں مفتی سعید کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو بڑے پیمانے پر ووٹ دیے اور بعض حلقوں میں بی جے پی کے امیدوار کو ہرانے کے لیے عمر عبداﷲ کی نیشنل کانفرنس اورکانگریس کے امیدواران کو کامیاب کیا ۔مسابقت کی اس فضا میں ایک طرف تو غیر مسلم ووٹروں کے ٹرن آئوٹ میں اضافہ ہو ااور دوسری طرف مسلم انتخابی حلقوں میں مسلمانوں نے بی جے پی کے ایجنڈے کو ناکام کرنے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے ۔حالانکہ قائدین حریت اور متحدہ جہاد کونسل نے الیکشن کے بائیکاٹ کی اپیل بھی کر رکھی تھی لیکن ووٹروں نے ووٹ ڈالتے وقت میڈیا پر برملا اپنے اس موقف کا اظہار کیا کہ ان کی تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ وابستگی اپنی جگہ برقرار ہے۔ ان کے مطابق روز مرہ مسائل سے نبٹنے کے لیے ووٹ ڈالنا ہماری مجبوری ہے اور اس لیے بھی کہ ہم بی جے پی کے عزائم کو ناکام بنانا چاہتے ہیں ۔ تاہم اس مرحلے پر نریندر مودی کے ۴۴+نشستوں کے نظریے کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اب ایک معلق اسمبلی قائم ہو چکی ہے جس میں ۲۸نشستوں کے ساتھ پی ڈی پی پہلی پوزیشن پر ہے۔ ۲۵نشستیں بی جے پی کے حصے میں آئیں، ۱۵نشستیں کانگریس اور ۱۲نیشنل کانفرنس ، جب کہ چند سیٹیں آزاد اورچھوٹی پارٹیوں نے بھی حاصل کیں۔
اس صورتِ حال میں کوئی ایک پارٹی بھی اپنی بنیاد پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں، لہٰذا گورنر راج نافذ کر دیا گیا ہے ۔نتیجتاً ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے۔اگرچہ مسلمان ووٹروں کی خواہش ہے کہ بی جے پی کے علاوہ باقی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں لیکن بھارت کی مرکزی حکومت اور بھارتی ایجنسیاں پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے اصولی اتفاق کے باوجود اختلاف وزارت اعلیٰ کی میعاد پر ہے ۔ پی ڈی پی یہ چاہتی ہے کہ آیندہ چھے سال کے لیے مخلوط حکومت کی سربراہی مفتی سعید کریں اور نائب وزیر اعلیٰ بی جے پی کا کوئی غیر مسلم نمایندہ بن جائے ، جب کہ بی جے پی کا اصرار ہے کہ مخلوط حکومت میں تین تین سال کی حکومت بنائی جائے ۔اگر بی جے پی کی شرائط پر حکومت بنی تو ۱۹۴۷ء کے بعد پہلی مرتبہ ریاست جموں وکشمیر میں ایک غیر مسلم وزیر اعلیٰ مسندِ اقتدار پر فائز ہو سکے گا ۔اس موقعے پر پی ڈی پی عجیب مخمصے کا شکار ہے کہ اگر وہ بی جے پی کی شرائط پر مخلوط حکومت بناتی ہے تو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت سے محروم ہوسکتی ہے۔اس لیے کہ وادیِ کشمیر میں بالخصوص اور ریاست کے دوسرے حصوں میں بالعموم کسی بھی طور پر اہلِ کشمیر بی جے پی کے امیدوار کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان نہیں دیکھنا چاہتے۔
بی جے پی کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس وقت مرحوم کشمیری رہنما عبدالغنی لون کے صاحب زادے سجاد غنی لون ،جن کی پارٹی کے پاس پیپلز کانفرنس کی دو نشستیں ہیں اور وہ بی جے پی کے اتحادی بھی ہیں، وزارت اعلیٰ کے حصول کے لیے سرگرم ہیں ۔حکومت جو بھی بنائے گا بہر حال یہ طے ہے کہ مقبوضہ ریاست کی پاور پالیٹکس میں کشیدگی اور عدم استحکام کا سلسلہ جاری رہے گااور جوں جوں بی جے پی ریاست میں اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی، اسی رفتار سے اس کے خلاف عوامی مزاحمت بھی مزید منظم اور شدید ہوتی چلی جائے گی۔صورت حال کے اس دبائو کی وجہ سے حریت کانفرنس کے مختلف دھڑے بھی مشترکہ لائحۂ عمل پر صلاح مشورہ کر رہے ہیں ۔اس وقت تحریک آزادیِ کشمیر اور تحریکِ مزاحمت کی سخت ضرورت ہے کہ حریت قائدین اپنے اس بنیادی تاسیسی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں جس سے بعض رہنمائوں کے انحراف کی وجہ سے حریت کانفرنس تقسیم ہو گئی ۔یہ اتحاد بی جے پی کی حکمت عملی کا توڑ کرنے کے لیے ایک اہم ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف بھارت کے پالیسی سا زجب انتخابی عمل کے ذریعے اپنے عزائم میں نامراد ہوئے تو انھوں نے ریاست کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی متوازی تدابیر اختیا رکرنا شروع کر دی ہیں۔غربی پاکستان سے ۱۹۴۷ء میں منتقل ہونے والے ۸لاکھ غیر مسلم کمیونٹی کے ساتھ ساتھ ۹۰ء کی دہائی میں جگموہن کی تحریک پر ۳ لاکھ بے گھر پنڈت کمیونٹی جو جموں اور دہلی کی مختلف کالونیوں میں مقیم ہیں ،کی باز آبادکاری کے لیے ہندستان کی وزارت داخلہ نے سفارشات مرتب کیں جنھیں حکومت قانون کی شکل میںنافذ کرنا چاہتی ہے۔جن کی رو سے ایک طرف تو وادی میں پنڈتوں کی محفوظ بستیوں کے لیے (جس طرح فلسطین میں یہودیوں کی محفوظ بستیاں تعمیر کی گئی ہیں )بڑے وسائل مختص کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ انھیں شہری حقوق دیے جائیں۔ خاص طو رپر جموں میں ۸لاکھ ہندوئوں اور سکھوں کو سٹیٹ سبجیکٹ تسلیم کیا جائے، نیز ان کے لیے اسمبلی کی آٹھ نشستیں بھی وقف کرنے کا مطالبہ کیاگیا ہے ۔اگر مودی کی حکومت خدا نخواستہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوئی تو ریاستی اسمبلی میں مسلم اور غیر مسلم ممبران میں فرق بھی ختم ہو سکتا ہے اور یہی ان کاہدف ہے
ان خطرات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بلاشبہہ حریت کانفرنس غور و فکر کررہی ہے لیکن بھارت کے یہ عزائم بنیادی طور پر کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی سپرٹ پر بھی سنگین وار ہے۔ اس لیے کہ ریاست جموں وکشمیر سے جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان و آزاد کشمیر میں منتقل ہوئے ان کی جایدادوں کو غیر ریاستی ہندوئوں اور سکھوں کے سپرد کر نا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رُو سے قطعاً ناجائز اور ناقابل برداشت امر ہے ۔اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھائے اور ہندستان کو مجبور کرے کہ وہ ریاست کے آبادی کے تناسب کی تبدیلی کی سازشوں سے باز آ ئے۔اس لیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رُو سے ناظم راے شماری کا تقرر اس کو اختیارات اور وسائل کی فراہمی سری نگر حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہاں کسی ایسی حکومت کا مسلط ہونا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پوری سپرٹ کے خلاف ہو یقینی طو رپر تشویش ناک امر ہے اور اس پر اقوام متحدہ کو خود بھی نوٹس لینا چاہیے۔ حکومت پاکستان کو بھی اس امر پر فی الفور کردار اداکرنا چاہیے اور اس بات پر زور دینا چاہیے کہ کشمیری مسلمانوں کی جایدادیں ہندوئوں کو سپردکرنے کے بجاے جو مہاجرین جموں وکشمیر میں بے گھر ہو کر اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں انھیں باز آباد کاری کا موقع ملنا چاہیے۔اس لیے کہ یہ راے شماری کی شرائط کا ایک بنیادی تقاضا ہے ۔
بہرحال بی جے پی اور نریندر مودی جو بھی ہتھکنڈے استعمال کریں کشمیری اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرُعزم ہیں اور اس سارے گیم پلان میں سیّدعلی گیلانی صاحب کا یہ موقف بھی درست ثابت ہوا کہ بھارت نواز پارٹیاں اور لیڈر ہی مقبوضہ ریاست پر بھارتی قبضے کے لیے آلۂ کار ہیں۔ انھیں کشمیریوں کے حال پر رحم کرنا چاہیے ، اپنی پارٹی اور خاندان کے مفادات سے بالا تر ہو کر اب اس نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے کہ ہندو بنیا کسی طور پر ان کی وفاداری پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔وقت آ گیا کہ یہ نام نہاد قائدین کھل کر حریت کے موقف کی تائید کریں۔ اگر یہ جماعتیں اسمبلی کے ایوان سے بھی نام نہاد الحاق کو چیلنج کریں تو آیندہ نسلیں انھیں معاف کر سکتی ہیں، ورنہ تاریخ انھیں غداروں اور مجروں کے کٹہرے میںکھڑا کرے گی۔
گلگت بلتستان تاریخی اعتبار سے ریاست جموںو کشمیر کا حصہ ہے ۔تقسیم ہند سے قبل اسے سیاسی لحاظ سے تین صوبوں، یعنی جموں، کشمیر اور لداخ و گلگت میں تقسیم کیاگیا تھا۔۱۹۴۷ء میں شروع ہونے والی تحریک جہاد کے نتیجے میں ریاست کا ایک حصہ آزاد ہو کر آزاد جموں وکشمیر کہلایا، جب کہ لداخ اور گلگت کو مجاہدین نے اپنی جدوجہد سے آزاد کروا کر یکم نومبر ۱۹۴۷ء کو آزادی کا اعلان کیا اور حکومت ِ پاکستان کو خطے کے انتظام و انصرام کی دعوت دی۔ ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء اور۵ جنوری ۱۹۴۹ء کو جو قرار دادیں منظور ہوئیں، ان کی رو سے بھی پاکستان اور بھارت دونوں نے ان اضلاع کو ریاست جموں وکشمیرکا حصہ تسلیم کیا جس کا اعتراف دونوں کے ریاستی آئین میں بھی موجود ہے ۔ نیز جنگ بندی کے بعد اقوام متحدہ کے جو مبصرین تعینات ہوئے وہ ریاست کے باقی حصوں کی طرح یہاں پر اب بھی موجود ہیں ۔
اس وقت چونکہ رسل و رسائل اور مواصلات کے ذرائع بہت محدود تھے، اس لیے ۲۸؍اپریل ۱۹۴۹ء کو حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان ایک معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام و انصرام عارضی طور پر حکومت پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔ اس معاہدے پر حکومت پاکستان کی طرف سے مرکزی وزیر مشتاق احمد گورمانی اور حکومت آزاد جموں وکشمیر کی طرف سے صدر ریاست سردار محمد ابراہیم خان اور چودھری غلام عباس مرحوم صدر آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے دستخط کیے۔خود عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ معاہدے اور پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی رو سے بھی یہ علاقے ریاست کا حصہ ہیں۔
سیاسی عمل نہ ہونے کی وجہ سے وہاں یک جہتی کی فضا متاثر ہو رہی ہے ۔ صدیوں سے وہاں تمام مکاتب ِفکر مکمل بھائی چارے کی فضا میں رہتے رہے ہیں۔لیکن رفتہ رفتہ بیورو کریسی نے راے عامہ کو تقسیم کرنے کے لیے اہل تشیع اور آغا خان کمیونٹی کو باور کرایا کہ آزاد جموں وکشمیر میں شمولیت سے آپ ایک کمزور سی اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔ آپ لوگ تعلیم و ترقی کے لحاظ سے بھی بہت آگے ہیں، اس لیے الگ صوبے کا مطالبہ کرو،تا کہ آپ ا قلیت میں تبدیل ہونے سے بچ سکیں۔ بیورو کریسی کو اس علاقے کی تاریخی حیثیت کا کماحقہٗ علم تھا اور وہ یہ بھی سمجھتی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں الگ صوبہ بنانا محال ہے ۔وہ سمجھتے تھے کہ اس ہتھکنڈے سے راے عامہ تقسیم ہو گی اور آزاد جموںو کشمیر کے ساتھ ملنے کا امکان مسدود ہو کر موجودہ ’جوں کی توں‘ حیثیت برقرار رہے گی، جہاں وہ سیاہ و سفید کی مالک ہے۔
ایک اہم عامل آغا خان کا بھی ہے، جن کے پیرو کاروں کی ایک بڑی تعداد ہنزہ اور غذر کے اضلاع میں مقیم ہے ۔ یہ کمیونٹی نہایت تعلیم یافتہ اور باوسائل ہے۔ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (AKRSP) کے ذریعے پورے گلگت بلتستان میں خاص طور پر جہاں جہاں ان کی اپنی کمیونٹی ہے، وہاں ان کے تعمیر و ترقی کے لیے گذشتہ تین عشروں سے مسلسل کام ہو رہا ہے ۔ آغا خان کو ان کے پیرو کار ’حاضر امام‘ تصور کرتے ہیں اور مذہبی معاملات میں انھیں حتمی اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں۔ موجودہ امام پر نس کریم آغا خان کو پاکستان میں آمد کے موقع پر سربراہ ریاست کا پروٹوکول ملتا ہے، بلکہ ساری دنیا میں وہ اس نوعیت کے پروٹوکول سے مستفید ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی اداروں سے خصوصی تعلقات کی وجہ سے وہ آغا خان فائونڈیشن کے لیے بے پناہ وسائل فراہم کرتے ہیں، جن سے بیورو کریسی بھی مستفید ہوتی ہے ۔اسلام آباد اور گلگت کے بیورو کریٹس ریٹائرمنٹ کے بعد آغا خان فائونڈیشن اور ’آغا خان رورل سپورٹ پروگرام‘ میں بھاری معاوضوں پر ملازمتوں کے حصول کے لیے مواقع پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ محتاط اندازے کے مطابق شمالی علاقہ جات کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ وسائل آغا خان فائونڈیشن سالانہ بروے کار لاتی ہے۔اس کے باوسائل ہونے کا اندازہ اس امر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ فائونڈیشن کے پاس تین ہیلی کاپٹر موجود ہیں، جو بیورو کریسی کی صواب دید پر ہی رہتے ہیں ۔دل چسپ امر یہ ہے کہ ’آغا خان رورل سپورٹ پروگرام‘کے تحت صرف گلگت بلتستان میں نہیں، بلکہ چترال اور وسطی ایشیا میں بھی اثرونفوذ میں وسعت آرہی ہے۔ بڑی تعداد میں یورپی باشندے بھی ان اداروں میں کام کرتے ہیں، جن کی دل چسپیوں اور اہداف کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ کیا ہیں؟ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جس طرح تعلیم کو آغا خان بورڈ کی وساطت سے مغربی آقائوں کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی وجہ سے بعض باخبر حلقے یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ایسے ادارے جن کا بین الاقوامی کردار بھی بڑا مشکوک ہے، ان کواس قدر اہمیت کیوں دی جا رہی ہے ؟ کیا ریاست کے بغیر سربراہ حکومت کے پروٹوکول سے مستفید ہونے والی شخصیت کے لیے کسی ریاست کا بندوبست تو مطلوب نہیںہے ؟
پاکستان میں پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے گلگت بلتستان کو بااختیار نظامِ حکومت دینے کا جس طرح اعلان کیا ہے اس سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ۔اس لیے کہ جن اصطلاحات اور اختیارات کے ساتھ یہ نظام دیا گیا ہے یہ وہاں ایک خاص مکتبۂ فکر کے علاوہ کسی کا بھی مطالبہ نہ تھا۔
راے عامہ تقسیم ہونے کے نتیجے میں تین نقطۂ ہاے نظر سامنے آئے ہیں:
۱- ’’علاقے کو اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے آزاد ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ شامل کیا جائے‘‘۔ اہل سنت، جماعت اسلامی، جمعیت العلماے اسلام، جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ اور قوم پرست جماعتیں اس نقطۂ نظر کی حامی ہیں۔
۲- ’’ان علاقوں کو صوبائی درجہ دیا جائے‘‘۔ تحریک جعفریہ، ان کی برادر تنظیمیں اور پیپلز پارٹی اسی نقطۂ نظر کی حامی ہیں، اور آغا خان بحیثیت کمیونٹی بھی اس نقطۂ نظر کی وکالت کرتے ہیں۔
۳- ’’ان علاقوں کو بالکل خود مختار ریاست بنایا جائے‘‘۔ نیشنل بلاورستان فرنٹ سے وابستہ تنظیمیں اسی نقطۂ نظر کا پرچار کرتی رہی ہیں۔
طویل عمل کے بعد ۲۰۰۰ء میں تمام جماعتوں پر مشتمل گلگت بلتستان نیشنل الائنس معرضِ وجود میں آیا، جس میں تینوں نقطۂ ہاے نظر کے حامیوں نے اپنے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے ایک متفقہ موقف پر اتفاق کر لیا۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے چونکہ یہ علاقے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں، اس لیے مسئلہ کشمیر کے حل تک ان علاقوں کو :
۱- آزاد جموں وکشمیر طرز کا با اختیار نظام حکومت دیا جائے، جس میں انتظامی اور عدالتی تمام ادارے داخلی لحاظ سے خود مختار اور بااختیار ہوں ۔
۲- دونوں یونٹس، یعنی آزاد جموں و کشمیر اورگلگت بلتستان کو تحریک آزادیِ کشمیر کی تقویت اور ریاست کی علامتی وحدت کے لیے کشمیر کونسل میں مساوی نمایندگی دی جائے اور کونسل کو دواکائیوں کا ایوان بالا قرار دیا جائے جس کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان ہوں۔
۳- مسئلہ کشمیر پر ہونے والی بات چیت کے تمام مراحل میں گلگت بلتستان کے نمایندگان کو بھی حق نمایندگی دیا جائے۔
جناب عنایت اﷲ شمالی، جناب مشتاق احمد ایڈووکیٹ اور دیگر قائدین نے شب و روز محنت کر کے تمام سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر کو اس موقف پر متفق کر لیا لیکن حکومت نے نہ صرف اس متفقہ موقف کو نظر انداز کر کے پیکیج کا اعلان کیا، بلکہ ان قائدین سے کماحقہٗ مشاورت کا اہتمام بھی نہیں کیا جس سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
شکوک و شبہات میں مزید اضافہ یوں بھی ہوا کہ وزارت خارجہ کے اجلاس میں جہاں آزاد جموں و کشمیرکی قیادت نے دو ٹوک انداز میں اس پیکیج کو مسترد کرتے ہوئے اسے تحریک آزادی کشمیر کے لیے سمِ قاتل قرار دیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، وہاں آخر میں کم از کم مطالبہ یہ کیاگیا کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کی اصطلاحات کو تبدیل کر دیا جائے تا کہ اس تاثر کی تصحیح ہو سکے کہ آپ ان علاقوں کو صوبہ بنانے جا رہے ہیں جس سے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار ہوگی۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ساری قیادت سے وعدہ کیا کہ آپ کے تحفظات نوٹ کر لیے گئے ہیں اور اعلامیے کے حتمی اجرا پر ان کی روشنی میں اصلاح کی جائے گی۔ مقام افسوس ہے کہ ایسا نہ ہوا اور چند دن کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا، وہ جوں کا توں تھا۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس سارے عمل کے پیچھے کوئی ایسی نادیدہ طاقت ور قوت کار فرما تھی جس کے سامنے حکومت بے بس ہے ۔کڑیاں ملائی جائیں تو وہ وہی قوت ہے جس کے دبائومیں سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر سے دست برداری اختیار کی اور تقسیمِ کشمیر کے مختلف مجہول فارمولے پیش کیے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مشرف حکومت کے اختتام کے باوجود کشمیر پر پسپائی کا عمل جاری ہے اور صدر آصف علی زرداری کے زیرقیادت حکومت ہر وہ کام کرنے پر تلی بیٹھی ہے جو مشرف کے ہاتھوں بھی نہ کرایا جاسکا تھا ۔اس لیے اس امر کا قوی اندیشہ موجود ہے کہ نئی اسمبلی قائم کرنے کے بعد، اس سے قرارداد پاس کرواتے ہوئے گلگت بلتستان کو حتمی طور پر صوبہ قرار دیا جائے ۔یوں یہ عمل پاکستان کی طرف سے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں سے یک طرفہ دستبرداری سمجھا جائے گا جس سے مسئلہ کشمیر کی بنیادیں منہدم ہو جائیں گی کہ جس کے بل پر حق خود ارادیت کی تحریک جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو ترغیب ملے گی کہ وہ اپنے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کرتے ہوئے ہندو اکثریتی صوبہ جموں کو براہِ راست بھارت میں شامل کرلے، اور وادی کشمیر کے مسلمانوں کو مزید سبق سکھانے کا اہتمام کرے ۔
ان خدشات کے پیش نظر جماعت اسلامی آزاد جموںو کشمیر نے پیش قدمی کرتے ہوئے سب سے پہلے گلگت میں ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی، جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام جماعتوںنے شرکت کی۔ اس کانفرنس نے اس پیکیج کو مسترد کیا اور گلگت بلتستان نیشنل الائنس کے مطالبے کو ایک مرتبہ پھر اپنا متفقہ مطالبہ بنایا ۔۱۱ستمبر ۲۰۰۹ء کو راولپنڈی میں جماعت اسلامی ہی کے زیر اہتمام ایک اور آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی جس میں آزاد جموں وکشمیر، گلگت بلتستان اور حریت قائدین نے شرکت کرکے اس پیکیج کو مسترد کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ’گلگت بلتستان نیشنل الائنس‘ کے مطالبات پر مبنی ڈیکلریشن منظور کیا ۔اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ صدر آزاد کشمیر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر براہِ راست شریک رہے اور انھوںنے بھی ڈیکلریشن پر دستخط کیے ۔
پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہ مظفر آباد کے موقع پر ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو کشمیری قیادت نے ایک مرتبہ پھر متفقہ طور پر اپنے موقف کا اعادہ کیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ۔ستم یہ ہے کہ وزیرامور کشمیر اپنے موقف کی رٹی رٹائی وضاحت تو کرتے رہے ہیں، لیکن کشمیری قیادت کے تحفظات اور سوالات کا کوئی جواب ان کے پاس موجود نہیں ہے۔
حکومتی اعلامیے میں علاقے کی تاریخی حیثیت کا کوئی تعارف شامل نہیں ہے اور نہ یہ وضاحت موجود ہے کہ یہ اعلامیہ کب تک مؤثر رہے گا۔ اصولی طور پر آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین ۱۹۷۴ء کی طرح اس اعلامیے میں بھی یہ وضاحت ہونی چاہیے تھی کہ مسئلہ کشمیرکے حل تک نظام کو موجودہ شکل دی جا رہی ہے اور اس میں حسب ضرورت ترامیم و اضافے ہوتے رہیں گے۔ درحقیقت اس اعلامیے کے ذریعے گلگت بلتستان کو کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے منسلک کرنے کے بجاے گلگت بلتستان کے نظام کو کشمیر سے الگ رکھنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے، مثلاً انچارج وزیر کو جگہ جگہ وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان تحریر کیاگیا ۔ اس طرح وزارت امور کشمیر کو بھی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان قرار دے کر بین السطور یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیر اور گلگت بلتستان دو الگ الگ اکائیاں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت اورامریکہ کا موجودہ شیطانی اتحاد پاکستان کو اپنی شہ رگ سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔پاکستان میں بر سر اقتدار موجودہ کمزور اور بے سمت قیادت سے ایسے فیصلے کروانا آسان سمجھا جا رہا ہے ۔اگر پاکستان کے محب وطن قائدین اور جماعتوں نے مخمصے سے نکل کر بھر پور کردار ادا نہ کیا تو مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادیِ کشمیر ہی کو نہیں،بلکہ خود پاکستان کی سلامتی کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔ کشمیریوں سے بڑھ کر نظریاتی پاکستانی شاید ہی کوئی اور ہو۔ گذشتہ ۶۱ برس سے وہ اپنی آزادی اور پاکستان کی بقا کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں اور اب تک پانچ لاکھ شہدا کی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں ۔قائد تحریک حریت سید علی گیلانی سمیت تمام کشمیری قائدین مضمرات کو بھانپتے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں لیکن ہمارے حکمران طے کیے ہوئے ہیں کہ کسی احتجاج کو خاطر میں نہ لایا جائے گا اور نہ کسی معقول دلیل ہی کو سند قبولیت حاصل ہوگی۔ یہ پسپائی کا عمل اس وقت رُکے گا جب پاکستانی قیادت اور راے عامہ اپنا فرض ادا کرے گی۔
سعاد ت پارٹی کی استنبول برانچ کے زیرا ہتمام ایک اور بڑے اور منظم پروگرام میں شامل ہونے کا موقع بھی ملا جس میں کشمیر کی صورت حال پر ہم نے بریفنگ رکھی اور ان کی تنظیمی صورت حال اور کام کی تفصیلات بھی معلوم ہوئیں۔ استنبول سے انقرہ تک ہر جگہ سعادت پارٹی متحرک نظر آئی۔ اسے گذشتہ انتخابات میں محض ۵ء۲ فی صد ووٹ ملے تھے اور بری طرح شکست ہوئی تھی۔ اب وہ پُرامید ہیں اور یہ موقف رکھتے ہیں کہ گذشتہ انتخابات میں طیب اردگان کی پارٹی کو بھی لوگ اربکان صاحب ہی کی پارٹی سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کو کامیاب کیا۔ اب قوم کے سامنے صورت حال واضح ہوگئی ہے اس لیے ہمارا ووٹ بنک ہمیں واپس ملے گا۔ نیز یہ بھی بتایا گیا کہ اربکان صاحب کی پارلیمنٹ میں جو ۱۶۳ ارکان تھے ان کی اور ان کے پارلیمنٹ کے ارکان کی ایک بڑی تعداد سعادت پارٹی سے وابستہ ہے جو یقینا آیندہ کارکردگی دکھائے گی۔
اگر قوم پرست اور بائیں بازو کے عناصر متحرک ہوگئے اور حق پارٹی اور سعادت پارٹی کے درمیان خلیج موجود رہی تو اس سے ان دونوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ نیزسعادت پارٹی کو اردگان حکومت کی پالیسیوں پر سخت تحفظات ہیں ۔ ان کے مطابق انھوں نے جناب اربکان سے بے وفائی کی اور محض حکومت بچانے کے لیے اسرائیل اور فوج کے ساتھ معاملات کرنے میں اپنے موقف سے پسپائی اختیار کی ، حتیٰ کہ حجاب کے مسئلے پر بھی دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود کوئی قانون سازی نہ کرسکے ۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان انتخابات میں خلیج بڑھنے کا امکان ہے اور ووٹ بنک بھی تقسیم ہوگااس لیے کہ سعادت پارٹی نے بھی زور و شور سے اپنی تنظیم اور سرگرمیوں کو مؤثر بنا لیا ہے۔
ایک اہم مسئلہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کا ہے جو گذشتہ چار عشروں سے زیر التوا ہے۔ ترکی کی ہر حکومت کی خواہش رہی ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت سے اس کے لیے اقتصادی میدان میں نئے مواقع پیدا ہوں۔لیکن یونین کی طرف سے آئے روز نئی نئی شرائط کی تکمیل کا ایجنڈا دے دیا جاتا ہے جس کے اہم نکات یہ ہیں: (۱) آئینی اور قانونی اصلاحات کے ذریعے ترکی میں حقیقی جمہوریت قائم کی جائے اور سیاسی نظام سے فوج کا کردار ختم کیا جائے۔ (۲)ترکی کے معاشی انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔ (۳)قانون میں ایسی اصلاحات کی جائیں جو یورپ کے بنیادی حقوق کی تعریف پر پورا اترسکیں ، نیز ان سے متصادم قوانین مثلاُ پھانسی کی سزا وغیرہ ختم کی جائے۔ (۴)ترک معاشرے کو زیادہ لبرل کیا جائے۔
ہر حکومت یورپی یونین کے معیار پر پورا اُترنے کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات کرتی رہی ہے اور موجودہ حکومت بھی یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔مختلف دانش وروں اور سیاسی رہنمائوں سے یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ یہی نکتہ سامنے آیا کہ اگرچہ یورپی یونین میں شمولیت کے نتیجے میں معاشی ترقی کے مواقع پیدا ہوں گے اور فوج کے سیاسی کردار سے بھی جان چھوٹ جائے گی جو وہاں اچھے نظام کے قیام اور فروغ کے راستے میں رکاوٹ ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یورپ کی تہذیبی گندگی سے ترک معاشرہ مزید آلودہ ہوجائے گا، بالخصوص مسلم معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان بری طرح متاثر ہوگا۔موجودہ حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کی ساری کاوشوں کے باوجود یور پ کے تحفظات ختم نہیں ہوئے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ترکی کی شمولیت سے یور پ کی آبادی کا تناسب متاثر ہوگا۔ترکی کی موجو دہ آبادی اس وقت ساڑھے چھے کروڑ سے زائد ہے۔یورپ میں پہلے سے چار کروڑ کے لگ بھگ مسلمان آبادہیں۔ یہ سب مل کر آیندہ چند عشروں میں یورپ کی عیسائی شناخت کو متاثر کرسکتے ہیں۔ انھی تحفظات کی وجہ سے یورپی یونین کے کرتا دھرتا ابہام کا شکار ہیںاور آئے روز ایسے حیلے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ترکی کا یونین میں داخلہ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
ترکی کے اہم داخلی مسائل میں کردستان کی تحریک اہم مسئلہ ہے۔ کرد ترکی ، عراق، ایران اور آذربائیجان میں مقیم ہیں۔ نسل اور زبان کے اعتبار سے یہ وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں اور ایک طویل عرصے سے ان تمام ممالک میں آزاد کردستان کے حصول کے لیے تحریک چل رہی ہے۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کردوں کا ایک بڑا حصہ یعنی ترکی کا ایک چوتھائی حصہ کردوں پر مشتمل ہے۔ کر د آزادی کے لیے ماضی میں مسلح جدوجہد بھی کرتے رہے۔ ترکی نے آزادی کی اس مسلح تحریک کو بالجبر ختم کرنے کی کوشش کی جو کافی حد تک کامیا ب رہی لیکن سیاسی سطح پر اب بھی یہ تحریک موجود ہے ۔ اس حوالے سے سیاسی اور عسکری تمام تنظیموں پر قانونی لحاظ سے پابندی ہے۔ نجم الدین اربکان نے کردوں کی بے اطمینانی کو ختم کرنے کے لیے انھیں ممکنہ طور پر بااختیار بنانے کی کوشش کی۔ اس تسلسل کو موجودہ حکومت نے بھی جاری رکھا ۔ کردستان کی آزادی کے کرتا دھرتا قوم پرست سیکولر اور سوشلسٹ عناصر ہیں ۔ سرد جنگ کے دوران میں انھیں روس اور اس کے ہم خیال حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔
اسلامی تحریک سے وابستہ حلقے ترکی کے مزید حصے بخرے کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ اربکان اور طیب اردگان کو بنیادی طور پر انھی حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس وقت موجود کرد ارکان پارلیمنٹ میں سے اکثریت کی حمایت طیب اردگان کی حکومت کو حاصل ہے۔ ترکی کی سا لمیت کے حوالے سے یہ مسئلہ اس حد تک حساس ہے کہ عراق پر امریکی حملے کے مقاصد میں آزاد کردستان کا قیام بھی شامل تھاجو ترکی کی مخالفت اور مزاحمت کی وجہ سے رک گیا۔ ترکی مسلم دنیا میں امریکا کا سب سے بااعتماد حلیف ہے ۔ بالخصوص ناٹوکا ممبر ہونے کی حیثیت سے اس کی فوج کے نہایت ہی گہرے روا بط امریکا اور یورپی ممالک کے ساتھ استوار ہیں لیکن اس قومی مسئلے پر ترکی کی حکومت اور فوج نے امریکا کو الٹی میٹم دے دیا تھا کہ اگر آزاد کردستان بنانے سے امریکا باز نہ آیا تو ترکی نتائج سے بے پروا ہو کر کھلی جنگ سے دریغ نہ کرے گا۔حقیقت یہ ہے کہ ہر ملک کی دفاعی حکمت عملی کی ایک سرخ سرحد ہوتی ہے جس پر کوئی ملک بھی سمجھوتا نہیں کرتا۔ افسوس ہے کہ پاکستان کے حکمران ایسی کوئی سرحد بھی قائم نہ رکھ سکے۔
دورے میں میڈیا سے متعلق مختلف اداروں اور سیاسی سطح پر ہونے والی ملاقاتوں میں تحریک آزادی کشمیر کی تازہ صورت حال ، بھارتی مظالم اور عالمی اور اسلامی برادری کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بات ہوئی ۔ یہ پہلو اطمینان بخش تھا کہ ہر جگہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک گونہ ہمدردری کی فضا موجود ہے اور لوگ دل چسپی بھی رکھتے ہیں ۔ لیکن خود حکومت پاکستان کی طرف سے مذاکرات پراظہار اطمینان او ر اپنے دیرینہ موقف سے پسپائی کی وجہ سے ہمدردی کی یہ ساری آواز یں خاموش ہوتی چلی جا رہی ہیں ۔ پروفیسر نجم الدین اربکان سے لے کر حکمران پارٹی تک سب نے تقریباً ایک ہی نوعیت کی راے کا اظہارکیا ۔ترکی جیسا دوست ملک جہاں سے ہمیشہ غیرمشروط تعاون ملا ہے ، اس کے ذمے داران کی طرف سے یہ توجہ پالیسی سازوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ ترکی کے کئی دفاتر میں آویزاں دنیا کے نقشے پرکشمیر کو بھارت کاحصہ دکھایا گیا ہے۔ اس پر بھی ہر جگہ ہم نے اداروں کو متوجہ کیا اور ہماری توجہ کو نوٹ بھی کیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ اور سفارت خانے آخرکس مرض کی دوا ہیں؟ترکی جیسے برادر ملک میں یہ منظر دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایک مرتبہ پھر قومی موقف کا اعادہ کرے اور دنیا کی راے عامہ اس کے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کرے ۔
ترکی میں ہر ملک کی طرح داخلہ اور خارجہ مسائل پر راے عامہ تقسیم ہے لیکن پاکستان کے ساتھ محبت کے حوالے سے پوری قوم ایک ہے۔ اسلام سے محبت رکھنے والے تو زیادہ پُرجوش ہیں لیکن قوم پرست اور ترقی پسند اور بائیں بازو کے حلقے بھی پیچھے نہیں۔ لاشعور میں برصغیر کے مسلمانوں کا وہ کردار ہے جو انھوں نے مشکل وقت میں ادا کیا۔ اس کے بعد آج یہ تیسری چوتھی نسل گزر رہی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ محبت کا جذبہ نسل در نسل منتقل ہورہا ہے۔ اس تعلق سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ قوموں کی آزمایش کے وقت میں مدد کس قدر دیر پا اثرات رکھتی ہے۔ ایک طرف ترکی میں یہ زمزمۂ محبت بہتا دیکھ کر میں خوش ہورہا تھا اور دوسری طرف سوچ رہا تھا کہ جس طرح پاکستان کی موجودہ حکومت نے افغانستان کو تاراج کرنے میں ساتھ دیا ہے اس نے افغانوں کی آیندہ نسلوں میں کس قدر نفرت کے بیج بو دیے ہیں اور کانٹوں کی یہ فصل نہ جانے کب‘ کون‘ کس طرح کاٹ سکے گا؟ اور آنے والی نسلوں تک اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ اسی طرح سید علی گیلانی اور مقبوصہ کشمیر میں نظریہ پاکستان کے علم برداروں اور تحریک آزادی کے ساتھ مخلص وفاداروں کو جس طرح حکومت پاکستان دیوار کے ساتھ لگا رہی ہے اس کے عوامی اثرات کیا ہوں گے؟ اس کا تصور کرکے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ترکی کے عوام کی پاکستان سے محبت اپنے اند ر یہ پیغام رکھتی ہے کہ ہمیں حکومتوں کے بجاے قوموں سے دوستی کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ یہ دوستی دیر پا ہوتی ہے۔ اس پس منظر میں آج پاکستان میں ذہنی طور پر شکست خوردہ ایک طبقہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتا ہے ۔ انھیں بھی سمجھ لینا چاہیے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ، عالم عرب اور عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ خدانخواستہ ایسی حماقت ہوئی تو فلسطینی اور عرب عوام میں پاکستان کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ اور جب کل وہاں حالات بدلیں گے تو پاکستان منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا۔ بہرحال ترک عوام کی اس محبت کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ میں نے ہرجگہ یہ کہا کہ حکومتی اور عوامی سطح پر آپ نے زلزلہ زدگان کا جس طرح تعاون کیا ہے ہماری نسلیں کبھی فراموش نہیں کریں گی۔ یوں یہ دو طرفہ محبت کے جذبات اور بڑھ گئے۔ اللہ انھیں قائم و دائم رکھے۔ عوامی سطح پر روابط بڑھانے اور اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس دورے میں ترک دانش وروں کی مختلف مجالس میں شرکت کا موقع ملا۔ ترکی کے معروف اسلامی دانش ور اور مفکر جناب پروفیسر ڈاکٹر صباح الدین زعیم کے ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کی جس میں ممبران پارلیمنٹ‘ یونی ورسٹی کے اساتذہ ، دانش ور اور تاجر برادری کے اہم افراد بھی شریک تھے۔ یہ مجلس دو تین گھنٹوں سے زیادہ جاری رہی۔انھوں نے کل‘آج اور ہم کے موضوع پر لیکچر بھی دیا اور سوال و جواب کی نشست کا اہتمام کیا۔ ان کا ترک دانش ور حلقوں میں بہت احترام ہے۔ اس طرح انقرہ کے اکنامک اور سوشل ریسرچ سنٹر میں اس نوعیت کا پروگرا م تھا۔ ESSAM کے نام سے یہ تنظیم ترک دانش وروں میں ایک عرصے سے کام کررہی ہے اور یہ بھی جناب اربکان کا صدقہ جاریہ ہے ۔ ترکی کے سابق صدر ترگت اوزال تک اس کے ممبر رہے ہیں ۔ اس کے صدر جناب قوطان ہیں اور سیکر یٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹرعارف ارساے اور نائب صدر سلیمان بالگن ہیں ، ان حضرات سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی ۔اسی طرح ترک بار کونسل کے صدر جناب نجات جیلان اور او آئی سی کے لیے این جی او کی ایسوسی ایشن کے صدر علی کرف کے ہمراہ چند دیگر ایسی ہی مجالس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ دیکھ کر بہت مسرت ہوئی کہ ترکی کا دانش ور طبقہ نہ ذہنی طور پر مرعوب ہے اور نہ مایوس ۔ بلکہ حالات کا صحیح تجزیہ کرتے ہوئے وہ پُرعزم ہیں کہ ترکی کے حالات بھی بدلیں گے اور ترکی اسلامی دنیا میں ایک کردار بھی ادا کرے گا۔ ترکی کے دانش ور حلقوں میں پاکستان کے سینیٹر پروفیسر خورشید احمد بہت مقبول ہیں۔ دانش وروں کی مجالس میں ہر جگہ ان کا تذکرہ ہوا۔ بالخصوص یورپ میں تعلیم اور دعوت کے محاذ پر لیسٹر اور مارک فیلڈمیں موجود ان کے ادارے کی بے پناہ تحسین کی گئی۔ ترکی کی انتہائی مصروف اور مشینی زندگی کے معمولات میں اہل دانش کا کئی کئی گھنٹے آپس میں مل بیٹھ کر مسائل پر غور کرنا اور ان کے حل کے لیے فعال کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار‘ ترکی کے شان دار مستقبل کی نوید ہے۔
ترکی کی ایک اور قابل تقلید مثال ان کی اپنی زبان سے محبت اور اس پر اعتماد ہے۔ آپ پورے ترکی میں گھومیں ، خال ہی کوئی سائن بورڈ انگریزی میں نظر آئے گا۔ پارلیمنٹ کی کارروائی سے لے کر خط و کتابت تک تمام معاملات ترکی زبان میں چلائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ یونی ورسٹی اور پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں نصاب کو ترکی زبان میں ڈھا ل لیا گیا ہے۔ انگریزی متبادل زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے اور لوگ انگریزی سیکھتے تو ہیں لیکن اس کااستعمال صرف ناگزیر حالات ہی میں کیا جاتا ہے بلکہ انگریزی میںخوامخواہ اظہار خیال کرنا اپنی زبان کی توہین سمجھتے ہیں۔ نجم الدین اربکان اور طیب اردگان انگریزی زبان سمجھنے کے باوجود اپنی گفتگو ترکی زبان میں کرتے ہیں اور ترجمان کی وساطت سے تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر پاکستان کی اشرافیہ کی ذہنی غلامی پر بجا طور پر دکھ ہوتا ہے کہ جس نے ایک عظیم قوم کو عظیم زبان سے محروم رکھا ہوا ہے۔انگریز کی سدھائی ہوئی مٹھی بھر سول اور ملٹری بیوروکریسی اس قوم کو انگریزی کی مار دے رہی ہے ۔ کاش پاکستانی قیادت اعتماد کے ساتھ اردو کو فروغ دے تو اس کے نتیجے میں پاکستان کی شناخت اور حلقۂ اثر وسیع تر ہو سکتا ہے ۔
اسی طرح لباس کا معاملہ ہے ۔ اسلام میں اگرچہ کسی خاص لباس کو فرض نہیں کیا گیا ، آداب بتادیے گئے کہ لباس شرعی اور باحیا اور باوقار ہونا چاہیے ۔ اس لحاظ سے ہمارے قومی لبا س کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ مجھے متعدد بار دنیا کے مختلف حصوں میں جانے کے مواقع ملے۔ میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ قومی لباس میں زیادہ احترام ملا۔ ترکی کے اس دورے کے موقعے پر بھی قدم قدم پر اپنے لباس کی قدر و قیمت کا احسا س ہوا۔ جہاںبھی گئے ’کاردیش پاکستانی‘کہتے ہوئے لوگ گلے لگ جاتے۔ مساجد میں نمازوں کے لیے گئے تو بھی محبت کا جوش دیکھا۔ حتیٰ کہ توپ کاپی کے قومی عجائب گھر گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام کے نوادرات اور آثار سمیت عثمانی خلافت کی تمام تاریخ کو محفوظ کرلیا گیا ہے، وہاں بھی سیکڑوں لوگ موجود تھے لیکن سکیورٹی پر مامور ایک افسر نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور تمام آثار دکھائے اور ساتھ ساتھ پروٹوکول دیتا چلا گیااور ہمارے فارغ ہونے تک ہمارے ساتھ رہا۔ میں نے اپنے ہم سفر ساتھیوں سے کہا کہ دیکھیے قومی لباس کا کرشمہ کہ کس قدر اس کا احترام ہے۔ اب تیونس اور الجزائر میں یہ مقبول ہور ہا ہے ۔ میں نے تو امریکا اور یورپ میں بھی دیکھا کہ جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں وہ اسے مغربی لباس پر ترجیح دیتے ہیں ۔
ترکی میں پاکستان کے سفیر جنرل(ر)افتخار حسین شاہ ہمارے پرانے مہربان ہیں۔ انقرہ پہنچ کر انھیں اطلاع دی تو انھوں نے بہت پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ترک عوام علامہ اقبال اور پاکستان کے ہیروز کا بہت احترام کرتے ہیں اور مسئلہ کشمیر اور اکتوبر کے تباہ کن زلزلے کو اپنے مسائل سمجھتے ہیں۔ ان سے کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی۔ کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا۔ وہاں کے حالات پر انھوں نے بہت فکر مندی کا اظہار کیا اور بہتر دنوں کی یاد تازہ کرتے رہے۔ اپنے دورے کے تاثرات سے انھیں بھی آگاہ کیا اور تجویز بھی دی کہ ترک این جی اوز کو متاثرین کی خدمت کے لیے مزید متوجہ کیا جائے ۔ نیز ترکی کی یونی ورسٹیوں میں پاکستانی طلبہ کے داخلوں کا بھی اہتمام کیا جائے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اس حوالے سے کام کررہے ہیں اور حال ہی میں ڈاکٹر عطاء الرحمن یہاں کا دورہ بھی کر چکے ہیں اور یہاں کی ٹیکنیکل اور انجینیرنگ یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں۔ محمد خان کیانی صاحب ایک اور پاکستانی دانش ور ہمارے دیرینہ دوست ہیں۔ وہ بھی اب یہاں کے شہری بن چکے ہیں۔ وہ ترک رائٹر فورم کا اہم کردار ہیں۔ انھوں نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن اور دیگر کتابوں کا ترکی میں ترجمہ کیا ہے ۔ وہ اب بھی مختلف موضوعات پر ریسرچ کررہے ہیں ۔ ان کی وساطت سے تفہیم القرآن اور سید مودودی کے لٹریچر کے پبلشر حسن جنیش سے ملاقات ہوئی جو’انقلاب‘ کے نام سے ایک بڑا اشاعتی ادارہ اور بک سنٹر چلا رہے ہیں۔ یہاں ان سے معلوم ہوا کہ ترکی زبان میں مولانا مودودی کے لٹریچر بالخصوص تفہیم القرآن کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ حیرت انگیز حد تک اردو زبان سے بھی زیادہ۔ یہ فیڈبیک یہاں دوسرے ملنے والوں سے بھی ملا۔ باکوز بلدیہ کے مئیر محرم ارگول نے تو یہاں تک کہا کہ ترکی میں شاید ہی کوئی گھر ہو گا جس میں تفہیم القرآن نہ ہو۔ صرف اسلامی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ہی نہیں بلکہ سیکولر لوگ بھی تفہیم زیر مطالعہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح علامہ اقبال کا ہرجگہ تذکرہ سنا۔ ان کا کلام‘ اور سید قطب شہید کی فی ظلال القرآن بھی بہت زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ہے۔ ڈاکٹر حمیدا للہ مرحوم کی کتب بھی بہت پڑھی جاتی ہیں۔ ہر مجلس میں ان عظیم مفکرین کی خدمات کا تذکرہ ہوا۔ یہاں اسلام اور سیکولرازم کی کش مکش میں جو لوگ اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں وہ شعوری مسلمان ہیں اور اسلام کی پیاس بجھانے کے لیے وہ ان مفکرین کی کتب سے اردو دان حلقوں سے زیادہ استفادہ کر رہے ہیں۔ ایک دانش ور نے کہا کہ ہمارے فکری استاد مولانا مودودی اور علامہ اقبال ہیں ، جہاں ہم کسی مسئلے میں الجھ جاتے ہیں ان کی تحریروں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہمیں شافی جواب مل جاتا ہے۔ کاش کہ پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے میں بھی یہی پیاس ہوتی اور تفہیم القرآن اور کلام اقبال کو اس اہتمام کے ساتھ پڑھتے تو ایک بھرپور فکری انقلاب بر پا ہو چکا ہوتا۔ تحریک اسلامی سمیت جو حلقے پاکستان کی نظریاتی سمت کو درست رکھنے کا عزم رکھتے ہیں انھیں اس بارے میں فکر مند بھی ہونا چاہیے اور منصوبہ بھی بنانا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ ساری دنیا میں تجدیدو احیاے اسلام کی لہر آگے بڑھتی ر ہے اور اہل پاکستان چراغ تلے اندھیرے کے مصداق اس سے محروم رہ جائیں۔ ترکی پر اس فکری اور دعوتی کام کے یہ اثرات گذشتہ سالوں کی نسبت زیادہ گہرے نظر آتے ہیں ۔ خواتین بالخصوص نوجوانوں، بچوں اور بچیوں میں اس کے زیادہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ حالانکہ ملکی نظام مسلسل اس لہر کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ عجیب منظر نامہ ہے کہ ترکی ۸۰ سال کے سیکولر دور کے بعد اسلام کی طرف مراجعت کررہا ہے۔ اس کے وزیر اعظم اور کابینہ کے تمام ارکان کی بیگمات حجاب اور اسکارف کا اہتمام کرتی ہیں اور یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں بھی اسکارف پہن کر ہی شرکت کرتی ہیں لیکن پاکستان جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور جس نے احیاے اسلام اور اسلامی تہذیب کی پشتیبانی کرنا تھی اسے سیکولر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
ترکی میں مختلف دینی اور دعوتی حلقے اپنے اپنے انداز سے کام کررہے ہیں ۔ ان کے اپنے اخبارات اور ٹی وی چینل ہیں جو ۲۴گھنٹے کی نشریات کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ پہلو بہت حوصلہ افزا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں ترک تحریکوں نے اس جانب بہت توجہ دی ہے ۔ ان میں ایسے اخبارات بھی ہیں جن کی تعدا دلاکھوں میں ہے اور ٹی وی چینل بھی بہت مقبول ہیں۔ ان چینلوں کے ذریعے معیاری پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔اسی طرح بچوں کا اسلامی لٹریچر اور بصری تربیتی پروگرام اور کھیل وغیرہ سی ڈی پر یکساں دستیا ب ہیں۔ چینل ۵ سعادت پارٹی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے جو ترکی کے علاوہ بلقان کی ریاستوں ، سنٹرل ایشیا اور جرمنی میں بھی مقبول ہے۔ اس کا معیار مسلسل بہتر ہو رہا ہے۔ اس طرح message کے نام سے ایک چینل جو یہاں کے صوفی حلقے کا ترجمان ہے ، بھی کافی مقبول ہے۔ Halal ٹی وی یہاں کے اسلامی دانش وروں کے گروپ نے شروع کیا ہے ، جس کے سربراہ مصطفی اسلام اوغلو ہیں ۔ ایک نہایت ہی بالغ نظر اسکالر ہیں ۔ AKABE کے نام سے وقف چلا رہے ہیں جس نے حالیہ ریلیف میں اہم خدمات سرانجام دی ہیں۔ دعوتی ، تعلیمی اور میڈیا کے محاذ پر مفید کام کررہے ہیں۔ ان سارے چینلوں نے ہمارے انٹرویو کیے۔ میں نے سوال کیا کہ ایسا چینل قائم کرنے پر کتنا خرچ آتا ہے تو بتایا گیا کہ کم از کم چار ملین ڈالر۔یہ یقینا ایک بڑی رقم ہے لیکن یہاں کے اسلامی حلقے اس بات پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے میڈیا کے اس چیلنج کو قبول کرکے متبادل حل پیش کردیا ہے۔ پاکستان کے دینی حلقوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔
یہاں کی مساجد بہت صاف ستھری اور شفاف ہیں۔ پہلے کی نسبت مساجد میں حاضری میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ البتہ وضو کے لیے گرم پانی کا انتظام یہاں کی مرکزی اور تاریخی مساجد میں بھی نہیں ہے ۔ اس پر میں نے حیرت کا اظہار کیا تو ڈاکٹر ندیم صاحب نے بتایا کہ یہاں گرم پانی کا انتظام گھروں میں بھی خال خال ہی ہے۔ ترک اسے اپنی جفا کشی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ مذہباً حنفی ہونے کے باوجود معتدل ہیں۔ نمازیں بہت خشوع اور خضوع سے پڑھتے ہیں اور انتہائی مصروف زندگی کے باوجود نمازوں کے بعد مسنون تسبیحات اور اذکار کا اہتمام کرکے مساجد سے اٹھتے ہیں۔ عام طور پر ہر نماز کے بعد سورۂ بقرہ کا آخری حصہ یا سورۂ حشر کا آخری رکوع بآواز بلند تلاوت کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اجتماعی دعا ہوتی ہے۔ فجر کی نماز کے بعد بعض اوقات امام سورۂ یٰسین تلاوت کرتے ہیں۔ تمام خطیب‘ امام حضرات عربی میں گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ترکی کی مساجد اور مدارس یا جامعہ ازہر سے فارغ ہیں۔ بعض اَئمہ بغیر داڑھی کے بھی ہیں۔ وہ صرف نماز کے وقت مصری کلاہ اور چغہ پہن لیتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں پہچاننا مشکل ہوجاتاہے۔ ترکی کے مفتی اعظم بھی داڑھی کے بغیر ہیں۔ البتہ نوجوان علما اب بڑی تعداد میں داڑھی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم نے کوشش کی کہ مختلف مساجد میں نمازیں ادا کی جائیں ۔ اس کے بعد نمازی حضرات اور اَئمہ سے بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔جنھیں اپنی دعائوں میں کشمیر کے مسلمانوں کو یاد رکھنے کی درخواست کرتے۔ وہ ڈھیروں دعائوں کے ساتھ رخصت کرتے رہے۔
ترکی میں عوامی اور تحریکی سطح پر تعلقات نہایت مفید ہوسکتے ہیں۔ اس کے لیے تدابیر اختیار کرنا چاہییں۔ ہم نے ریلیف کے کام کی طرف متوجہ کیا۔ سب اداروں نے یقین دہانی بھی کرائی ، البتہ حکومتی اداروں سے لے کر الخدمت تک سب کے بارے میں یہ شکایت کی کہ بروقت فیڈ بیک نہیں ملتا اس لیے وہاں کی این جی اوز سے کام لینے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے تقاضوں کے مطابق فیڈ بیک کا اہتمام کیا جائے ۔
ہماری حکومت کے اس پروپیگنڈے نے بھی کہ زلزلہ زدگان کے تمام مسائل حل ہو چکے ہیںاور اب کوئی مشکل باقی نہیں ہے این جی اوز کو ابہام کا شکار کردیا ہے ۔ این جی اوز پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکومتی اداروں اور بیوروکریسی کے رویے کو بھی کام میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتی ہیں۔ استنبول بلدیہ کے ذمہ داران نے بتایا کہ وہ آزاد کشمیر میں ایک dialysis centre قائم کرنا چاہتے تھے ۔ اس سلسلے میں مشینری بھی خرید لی۔ لیکن اس کے متعلق مراسلت کرتے رہے مگر کسی ادارے نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیںکی۔ ایک سال کے انتظارکے بعد انھوں نے عطیہ دہندگان کی اجازت سے یہ سنٹر اب استنبول ہی کے ایک غریب علاقے میں قائم کردیا ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ اس لیے حکومت، ایرااور الخدمت سمیت تعاون حاصل کرنے والی این جی اوز کو چاہیے کہ وہ بروقت فیڈ بیک فراہم کریں اور روایت سے ہٹ کر کام کریں ورنہ یہ سارے ذرائع دوسری طرف منتقل ہوتے چلے جائیں گے۔
اس کی بھی ضرورت ہے کہ ترک تعلیمی اداروں میں پاکستانی نوجوان زیادہ سے زیادہ جائیں۔ بزنس فورم فعال ہوکر تجارت میں اضافہ کرے اور مختلف دائروں میں تحریکی پس منظر کے وفود کا باہمی تبادلہ ہو۔
گذشتہ ۱۶ برسوں میں میرا یہ ترکی کا پانچواں دورہ تھا ۔ اس عرصے میں دنیا کے تقریباً سارے ہی براعظموں کے سفر کیے ۔ قدرت نے اپنی سرزمین کو انسانوں کے لیے بہت پر کشش بنایا ہے اور مغرب کے ترقی یافتہ معاشرے نے اپنی بہترین تنظیمی صلاحیتوں سے اپنے علاقو ںکو اور بھی خوب صورت بنا دیا ہے‘ تاہم ترکی بالخصوص استنبول کا کوئی ثانی نہیں۔ ترکی اور اہل ترکی سے اس لیے بھی محبت ہے کہ خلافت عثمانیہ کے تحت طویل عرصے تک انھوں نے دنیا کی ایک سوپر طاقت کی حیثیت سے مسلم دنیا کی قیادت کی۔
مسلم ممالک کے درمیان تجارتی حلقوں کو مربوط کرنے کے لیے انٹرنیشنل بزنس فورم نے، جس کا ہیڈکوارٹر استنبول میں ہے، ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جس کا افتتاح ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان نے کیا۔ یہ ایک شان دار بین الاقوامی اجتماع تھا جس میں ہمارے علاوہ فلسطین کے عظیم رہنمارائدصلاح کو بھی، جو ۱۰ سال تک اسرائیل کی جیل میں رہے اور کچھ عرصہ پہلے رہاہوئے ، کانفرنس میں مدعوکیا گیا تھاتاکہ شرکا کو فلسطین او رکشمیر کے حالات جاننے کا موقع مل سکے۔کانفرنس چار دن تک جاری رہی اور ہر لحاظ سے کامیاب رہی ۔ اس میں مسلم ممالک میں باہم تجارت بڑھانے کے حوالے سے مختلف تجاویز زیر بحث رہیں ۔ کانفرنس کے صدر ڈاکٹر عمربولاک نہایت تعلیم یافتہ اور صاحب بصیرت رہنما ہیں ۔ انھوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں جہاں مسلم ممالک کے ما بین تجارت کے فروغ کے لیے تجاویز دیں، وہاں شرکا کے سامنے فورم کی گذشتہ کارکردگی بھی رکھی۔اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے مسائل بالخصوص مسئلہ فلسطین پر ایمان افروز خطاب کیا اور وزیراعظم ترکی اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر اکمل الدین اوگلوکو کو اپنی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ کیا۔
افتتاحی سیشن میں وزیراعظم ترکی جناب طیب اردگان اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل جناب اکمل الدین اوگلو کو نے بھی خطاب کیا۔سیکریٹری جنر ل نے اپنی طرف سے او آئی سی کے ممالک کے مابین تجارت کے فروغ کے لیے اقدامات کا جائزہ پیش کیا‘جب کہ جناب طیب اردگان نے حکومت کی کارکردگی سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جو پیش رفت ہوئی ہے اس کی تفصیلات شرکا کے سامنے رکھیں اور بین الاقوامی سطح پر مسلم مسائل کے حل کے لیے عزم اور اقدامات کا تذکرہ بھی کیا۔ انھو ں نے کہا کہ جب انھیں حکومت ملی اس وقت ملک زبردست اقتصادی بحران کا شکار تھا۔ افراط زر کی شرح ۱۵۰ فی صد سے متجاوز تھی۔ بیرونی تجارت‘ یعنی برآمدات محض ۳۴ ارب ڈالر تھیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری عام تھی۔ ہماری حکومت کے اقدامات اور حکمت عملی نے ملک کو بحران سے نجات دلا دی ہے اور افراطِ زر کو ترکی کی تاریخ میں سب سے کم‘ یعنی ۹ فی صد تک پہنچادیا ہے۔ برآمدات ۸۵ارب ڈالر ہو گئی ہیں۔ ملک کے معاشی استحکام کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار تیزی سے ترکی کا رخ کررہے ہیں ۔ صرف عرب ممالک سے گذشتہ چار برسوں میں ۲۸ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔اس وقت ملک میں ۳۳ارب ڈالر سے زائدزرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ ملک کے اندر مستقبل قریب میں ۱۰۰فی صد سوشل سیکورٹی کا اہتمام ہوگا۔بین الاقوامی سطح پر تمام مسلم اور عالمی مسائل کے حوالے سے ترکی ایک فعال کردار ادا کررہا ہے۔ مسئلہ فلسطین پر ہم عرب لیگ سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس سے ایک بار پھر تاریخی غلط فہمیاں پید ا ہو سکتی ہیں۔ البتہ عرب لیگ جو حکمت عملی اختیار کرے‘ ہم اس کے ساتھ ہوں گے۔
انٹرنیشنل بزنس فورم کے سابق صدر جناب تنویر مگوںاو رپاکستان سے لاہور اور سیال کوٹ کے وفود بھی شریک تھے۔ آزاد کشمیر سے بھی ایک وفد راجا یاسین مشیر حکومت اور چیمبرز آف کامرس کے صدر حافظ ذوالفقار کے ہمراہ شریک ہوا۔ جناب تنویر مگوں نے بتایا کہ یہ بزنس فورم ۱۹۹۵ء میں جناب قاضی حسین احمد کی دعوت پر لاہور میں قائم ہواتھا اوروہ اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس بات کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ یہ اقدام اس قدر پزیرائی حاصل کرسکے گا۔ آج یہ فورم مسلم ممالک کے درمیان صنعت و تجارت او ر برآمدات کا زبردست ذریعہ بن چکا ہے۔
اس موقع پر پانچ بڑے ہالوں میں نمایش کا انعقاد بھی کیا گیا تھاجس میں زیادہ تر ترکی ہی کی صنعتی اور تجارتی کمپنیو ںنے اپنے سٹال لگا رکھے تھے۔ باقی مسلم ممالک کے بھی جاذب نظر سٹال موجود تھے۔ البتہ پاکستان کا سٹال بہت کمزور تھا۔ لگتا تھا کہ کسی ہوم ورک اور اتنے اہم موقعے کا ادراک کیے بغیر صرف خانہ پری کی گئی تھی۔ ترکی میں پاکستان کے سفیر جناب جنرل (ر) افتخار شاہ نے بھی ملاقات میںاس بات کا اعتراف کیا اور بتایا کہ اس کے اہتمام کی بنیادی ذمہ داری ایکسپورٹ پروموشن بیورو (EPB) کی تھی ۔ ہماری توجہ اور فالو اپ کے باوجود وہ اس کے لیے مؤثر اقدام نہ کرسکے ۔حالانکہ عرب دنیا‘ ایران اور وسطی ایشیا سے بھی اچھی نمایندگی تھی۔
میرے دورے کا پروگرام تو مختصر تھا لیکن بعض پرانے احباب کے اصرار پر مزیدرکنا پڑا۔ وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے طے کیا کہ حالیہ زلزلے کے موقع پر اہل ترکی نے جو تاریخی تعاون کیا اس پر ان کا شکریہ ادا کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں متوجہ بھی کیا جائے کہ زلزلہ زدگان کی مکمل بحالی تک تعاون جاری رکھیں۔کیونکہ ایک سال گزرنے کے باوجود متاثرین کے مسائل جوں کے توں ہیں اور ایمرجنسی ریلیف کے بعد مسلم این جی اوز واپس جارہی ہیں اور اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی مشنری این جی اوز ہمارے عقائد اور تہذیب و تمدن کے لیے زبردست مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ نیز مسئلہ کشمیر پر بھی انھیں تازہ صورت حال سے آگاہ کیا جائے کہ وہاں بھارت کے مظالم بدستور جاری ہیں اور تحریک بھی چل رہی ہے جسے آپ کے تعاون اور دعا کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہم نے کوشش کی کہ اہم سیاسی رہنمائوں،این جی اوز اور میڈیا کے لوگوں سے اس حوالے سے ملاقاتیں کی جائیں۔
کانفرنس میں وزیراعظم ترکی سے صرف اجتماعی ملاقات ہوسکی۔ البتہ انھوں نے اپنے ڈپٹی چیرمین اور پارلیمانی پارٹی میں خارجہ امور کے انچارج شعبان ڈسلائی کی ذمہ داری لگائی کہ تفصیلی ملاقات کریں ۔ چنانچہ انقرہ میں ان کے شان دار ہیڈکوارٹرز میں حق(حکمران) پارٹی کے ایک اور مرکزی رہنما اور استنبول سے ممبر پارلیمنٹ حسین کانسوکے ہمراہ جو دیرینہ دوست ہیں اور پارلیمنٹ میں ترک بوسنیا ہائوس کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں‘ مفید ملاقات ہوئی جس میں ترک حکومت اور قوم کا شکریہ ادا کیا‘ مسائل بھی بتائے اور کشمیر کی تازہ ترین صورت حال سے بھی آگاہ کیا۔ انھوں نے تفصیلی نوٹ تیار کیے اور طے پایا کہ وزیر اعظم کی یورپ سے واپسی پر وہ انھیں آگاہ کریں گے اور ان شاء اللہ ان سارے مسائل اور تجاویز پر ممکنہ کردار ادا کیا جائے گا۔ نیز مسئلہ کشمیر پر حکومتِ ترکی کے گرم جوش موقف کو دہرایا اور ہر لحاظ سے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔
اس دورے کے دوران سابق وزیر اعظم جناب نجم الدین اربکان سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اربکان صاحب ترکی کے حالات کا دھارا بدلنے کا مرکزی کردار ہیں۔وہ مسئلہ کشمیر اور امت کے دیگر مسائل کے پرجوش ترجمان ہیں۔ عالمی حالات کے مدوجزر پران کی گہری نظر ہے۔
نجم الدین اربکان نے اپنے دور حکومت میں جہاں ملک کے اندر اصلاحات کیں ، کرپشن کو ختم کرکے عام آدمی کی حالت بہتر کرنے کی کوشش کی وہیں انھوں نے ترکی کا رشتہ D-8 اور دوسرے اداروں اور ذاتی تعلقات کے ذریعے امہ کے ساتھ مضبوط کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں عوام میں ان کی پزیرائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور مختصر مدت میں عرب ممالک سے شان دار سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔اگر وہ وزارت عظمیٰ کی معینہ مدت پوری کرلیتے تو آیندہ انتخابات میں مزید وسیع حمایت کے ساتھ کامیابی حاصل کرتے لیکن فوج اور سیکولر عناصر نے ان کی حکومت کے خلاف کھلی اور چھپی سازشوں کا عمل تیز کردیا۔صدر کی سربراہی میں سیکورٹی کونسل کا ادارہ فوری طور پر متحرک ہوگیا کہ اربکان کی پالیسیوں کے نتیجے میں ترکی کا سیکولرازم خطرے میں ہے ۔ یوں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ان کی حکومت ختم کردی گئی۔رفاہ پارٹی پر پابندی لگادی گئی اور اربکان پر سیکولرازم کو ختم کرکے ترکی کو اسلامائز کرنے کی فرد جرم عائد کردی گئی لیکن اتنی وسیع حمایت حاصل ہونے کے باوجود اربکان اور ان کے وابستگان نے کسی پُر تشدد راستے کا انتخاب کرنے کے بجاے صبر و حکمت پر مبنی پالیسی کو اختیار کیا اور اپنے خلاف مقدمات کو عدالت میں چیلنج کیا۔ طیب اردگان چونکہ ان کے دست راست رہے تھے اس لیے لوگ یہی سمجھے کہ اردگان اربکان صاحب کے ہی نمایندے ہیں ۔ یوں ان کی پارٹی کو جو زبردست حمایت ملی وہ بھی بنیادی طور پر اربکان ہی کی کارکردگی اور ساکھ کی بنیاد پر ملی تھی۔سعادت پارٹی کو یہ گلہ ہے کہ اردگان نے اقتدار میں آنے کے بعد مقدمات کے حوالے سے استاذ اربکان کے ساتھ کوئی خاص رعایت نہیں برتی اور اس سلسلے میں جو کچھ وہ آسانی سے کر سکتے تھے وہ بھی نہیں کی۔ بہرحال اربکان صاحب اب بھی مقدمات جھیل رہے ہیں ۔ اگرچہ قید اور نظربندی کے مراحل سے تو فارغ ہو گئے ہیں لیکن اب بھی کھلے عام سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی بدستور موجود ہے جس کے خاتمے کے لیے ان کے قانونی ماہرین بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں۔
اربکان صاحب سے ملاقات کا ابتدائی پروگرام بہت مختصر تھا۔ ان کی مصروفیات اور صحت کی وجہ سے ہماری خواہش تھی کہ ان سے مختصر ملاقات کرکے دعائیں حاصل کریں گے اور پارٹی کے صدر جناب رجائی قوطان اور ان کے نائبین کو دورے کی غرض و غایت اور دیگر تفصیلات سے آگاہ کریں گے اور ان کا شکریہ ادا کریں گے کہ زلزلے کے فوری بعد جناب قوطان پیرانہ سالی کے باوجود ایک وفد اور بھرپور امداد لے کر پاکستان پہنچے ۔صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر کا بھی دورہ کیا اور حوصلہ افزائی کی ۔ ان سے وابستہ این جی اوز‘ جان سوئیو نے بھی ریلیف کے میدان میں اہم کام کیا، ان کا بھی شکریہ ادا کریں گے لیکن استاذ اربکان سے ملاقات شروع ہوئی تو سوا دو گھنٹے تک طول پکڑ گئی۔جس میں انھوں نے عالمی حالات کا تجزیہ پیش کیا اور عالم اسلام جس طرح صہیونیوں کی گرفت میں آ چکا ہے ، دلائل سے اس کی تفصیلات بیان کیں اور فرمایا کہ فلسطین اور کشمیر سمیت مسلمانوں کے جتنے مسائل ہیں وہ اس صہیونی فتنہ گری کا نتیجہ ہیں۔ مسلمانوں کو مذہبی منافرت اور مختلف نعروں کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں ان کے ساتھ وسائل ، میڈیا اور بین الاقوامی سیاسی اورمالی ادار ے بھی ان کے کنٹرول میں ہیں۔ اس زبردست شکنجے سے نکلنے کے لیے امت کے اند ر بیداری کی زبردست تحریک کی ضرورت ہے ۔
انھوں نے وضاحت کی کہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران D-8 (انڈونیشیا، بنگلہ دیش، پاکستان، ترکی ، مصر، سعودی عرب، نائیجیریااور ملائشیا) پر مشتمل بلاک اس لیے قائم کیا تھا کہ ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے اور یہ ایک مشترکہ منڈی اور کرنسی پر اکٹھے ہوجائیںتو باقی ممالک بھی تقلید کرسکتے ہیںاور بتدریج مسلم بلاک ایک قوت بن سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈالر اور یورو دونوں کرنسیوں کے پیچھے صہیونی منصوبہ ہے ۔ یہ دنیا سے دولت اپنے خزانوں میں جمع کرکے ان کے ہاتھ میں کاغذکی رسیدیں تھما دیتے ہیں۔اس کے لیے ایک نئے معاشی نظام کی ضرورت ہوگی جس کے حوالے سے چین اور روس کو قائل کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے عزم و ہمت والی صاحب .ِ ایمان قیادت درکار ہے جو سیاسی عزم (political will) کے ساتھ جدوجہد کرے ۔ انھوں نے کہا کہ ذہنی طور پر شکست خوردہ اور مغرب سے مرعوب قیادت مسلمانوں کے مسائل حل نہیں کرسکتی بلکہ ان کے ذریعے امریکا اور اتحادی مسلمانوں کو اور زیادہ مضبوط زنجیروں میں جکڑتے رہیں گے۔
اہلِ کشمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یقینا ہم مسئلہ کشمیرپر کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہیں لیکن حکومت پاکستان کی آئے روز بدلتی پالیسیوں سے مسلمان کنفیوز ہورہے ہیں۔ جب مشرف صاحب خود یہ کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ حل ہونے والا ہے اور بھارت سے بات چیت بہت اچھے ماحول میں جاری ہے تو آپ کے ہمدرد بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ ان کی کسی پرجوش حمایت سے مذاکرات کا سلسلہ خواہ مخواہ متاثر نہ ہو۔ لہذا حکومت پاکستان سب سے پہلے واضح پالیسی اپنائے اور اس کے بعد مسلمانوں او ر دنیا سے مطالبہ کرے تو اس کے زیادہ بہتر نتائج مرتب ہوں گے۔ ہم حیرا ن تھے کہ اس قدر دور بیٹھی یہ شخصیت مسئلے کی تمام نزاکتوں کا کس قدر ادراک رکھتی ہے!
نجم الدین اربکان ترکی کی اسلامی شناخت کی علامت سمجھے جاتے ہیں ۔ ترکی میں اسلام سے محبت رکھنے والے جتنے حلقوں سے ملاقات ہوئی سب ان کا یکساں احترام کرتے ہیں ۔ ان کی عمر اس وقت ۸۰ برس سے تجاوز کرچکی ہے۔لیکن آج بھی وہ نوجوانوں سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ ان کے سیکریٹری نے بتایا کہ استاذ پوری رات کام کرتے ہیں اور فجر کی نماز پڑھ کر کچھ دیر آرام کرتے ہیں ۔ ابھی تک وہ مقدمات بھگت رہے ہیں ، اس لیے پبلک سرگرمیوں میں وہ حصہ نہیں لے سکتے لیکن اپنی جماعت سعادت پارٹی کے فکری اور حقیقی قائد وہی ہیں ۔ موجودہ وزیرا عظم بھی ان کے قریبی شاگردوں ہی میں سے ہیں لیکن سعادت پارٹی کا موقف ہے کہ انھوں نے استاذ کے ساتھ بے وفائی کرکے اپنی پارٹی بنائی اور اب وہ اپنی حکومت بچانے اور چلانے کے لیے امریکا‘ اسرائیل سب کی تابع داری کر رہے ہیں‘ جب کہ حکمران جماعت اپنی حکمت عملی کو کامیاب سمجھتی ہے ۔
حکمران پارٹی کے ذمہ داران اور ہلال احمر ترکی جیسی اہم این جی اوز سے ملاقاتوں کے اہتمام کرنے میں جناب حسین کانسو نے اہم کردار ادا کیا جن سے گذشتہ ۱۵برسوں سے یاد اللہ ہے۔ وہ بنیادی طور پر بوسنیا کے مہاجر ہیں استنبول میں پیشۂ تجارت سے منسلک ہیں اور مسلسل تیسری بار استنبول سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ۔ رفاہ پارٹی میں بھی وہ امور خارجہ کے اہم ذمہ دار تھے۔ اس لیے گذشتہ دوروں کو کامیاب بنانے کے لیے انھوں نے سر توڑ کوشش کی ہے۔ مہاجر ہونے کے ناتے وہ مسئلہ کشمیر، فلسطین اور مسلمانوں کے دیگر مسائل کا بھی صحیح ادرا ک رکھتے ہیں اور جنون کی حد تک اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بے تاب رہے۔ استنبول پہنچ کر ان سے رابطہ کیا تو اس وقت انقرہ میں پارلیمنٹ کے اجلاس کی وجہ سے مصروف تھے لیکن رابطہ کرتے ہی وہ رات چھے گھنٹوں کا سفر طے کر کے صبح ہوتے ہی ملاقات کو پہنچ گئے اور طویل ملاقات میں رفاہ پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد کے مراحل اور پھر طیب اردگان کا ساتھ دینے کا پس منظر بیان کیا ۔ وہ حکمران جسٹس اینڈڈویلپمنٹ پارٹی کے بانی رہنما ہیں اور جناب اردگان کے قابل اعتماد اور قریبی ساتھی ہیں۔ اس لیے ان کی شدید خواہش تھی کہ ہماراقیامِ ترکی زیادہ سے زیادہ مفید اور بامقصد ہو۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے مشیر برادر فاتح کو خاص طور پر ہمارے ساتھ مامور کیا۔ اپنی دیگر مصروفیات کو مؤخر کرکے مسلسل انقرہ میں ہمارے ساتھ رہے۔
انھوں نے بتایا کہ ہم آج بھی استاذ اربکان کی باپ کی طرح عزت کرتے ہیں ۔ ان کے کسی الزام اور سرزنش کا جواب نہیں دیتے لیکن ان پر سیاسی عمل میں پابندی کے بعدکے انتخابات میں کو ئی چارہ نہ تھا کہ ہم متبادل پلیٹ فارم بناتے ہوئے کردار ادا کرتے ۔ چنانچہ جب فضیلت پارٹی پر پابندی لگا دی گئی اور استاذ پر مقدمات قائم کیے گئے تو اردگان نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے نام سے نئی پارٹی قائم کی۔ انتخابات کے موقع پر اس کی عمر صرف ۱۵ ما ہ تھی۔ اردگان پر بھی مقدمات تھے وہ نہ خود اسمبلی میں حصہ لے سکے اور نہ مہم چلا سکتے تھے لیکن اس کے باوجود ۵۵۰ نشستوں میں سے ۳۶۶ نشستیں ہماری پارٹی نے حاصل کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ ۴۰ سال میں پہلی مرتبہ ترکی کی تاریخ میں کسی پارٹی نے دو تہائی اکثریت حاصل کی اور مشکلات کے باوجود ایک مستحکم حکومت قائم کی‘ نیز ۳۱۰۰ بلدیاتی اداروں میں سے تقریباً دو ہزار بلدیاتی اداروں میں بھی کامیابی حاصل کی ۔ ان اداروں میں استنبول ، انقرہ سمیت تمام بڑی بلدیات شامل ہیں ۔
اس وقت ہماری حکومت کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے اور ترکی کی تاریخ میں معاشی و سیاسی لحاظ سے سنہرا دور ہے کہ یہاں حالات کے مطابق ہم حکمت سے چل رہے ہیں ۔ عراق پر حملے کے موقع پر امریکا نے پیش کش کی تھی کہ ہمیں راستہ دے دو ، ۱۰ ارب ڈالر ہم امدا د دیں گے۔ اس کے بعد سافٹ لون جس قد ر چاہیںفراہم کردیں گے ۔لیکن ہم نے قومی غیرت کا سودا نہ کیا او ر اس مسئلے کو پارلیمنٹ کے ذریعے حل کیا۔ معاشی بحران کے باوجود ہماری پارلیمنٹ نے امریکی پیش رفت کو مسترد کرکے قومی وقار کا مظاہرہ کیا۔ حالانکہ امریکی اداروں نے ۲۵۰ملین ڈالر کی خطیر رقم ترک سیکولر میڈیا میں تقسیم کی تھی کہ و ہ ترک راے عامہ کو امریکا کے مفاد میں ہموار کریں۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اردگان کو اس قدر پزیرائی اس کے اسلامی پس منظر کی وجہ سے ملی۔
اب ترکی کی صدارت کے انتخابات ہونے والے ہیں جس میں زیادہ امکان یہی ہے کہ اردگان خود صدر منتخب ہوجائیں گے اور عبداللہ گل یا اپنے کسی اور قابل اعتماد ساتھی کو وزیر اعظم بنائیں گے۔ جتنے بھی لوگوں سے ملاقات ہوئی، وہ یہی تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ اگر حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہ آئی تو موجودہ حکمران جماعت پھر کامیاب ہوسکتی ہے ۔ لیکن دوسری طرف ترکی کی سیکولر تنظیمیں اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی صف بندی کررہی ہیںجنھیں گذشتہ انتخابات میں زبردست ہزیمت اٹھانی پڑی ۔ اس قیادت کی علامت میں سے بلند ایجوت حال ہی میں انتقال کرگئے ہیں جس کے نتیجے میں ایک قیاد ت پر جمع ہونا ان کے لیے آسان نہیں ہے۔ ترک مقتدرہ (establishment ) یقینا انھیں متحد کرنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن حکمران پارٹی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں پُراعتماد ہے اور فی الحال کوئی بڑا چیلنج انھیں درپیش نہیں ہے لیکن سعادت پارٹی کی فعالیت اور اپوزیشن کے اتحاد سے انھیں نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔
ترکی میں قیام کے دوران پاپاے روم نے یہاں کا دورہ کیا ۔ یہ دورہ کئی حوالوں سے بہت متنازع رہا ۔ مسلمان جس قدر بھی سیکولر ہو اس کے دل میں ایمان کی چنگاری تو موجود رہتی ہے۔ ترکوں میں یہ چنگاری ہی نہیں ایک شعلے کی صورت میں نظر آئی۔ پوری قوم سراپا احتجاج تھی ۔ اس موقعے پر پوپ نے عیسائیوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کیا اور ترک حکومت کو عیسائیوں کو مکمل حقوق نہ دینے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا ۔ حالانکہ مذہبی لحاظ سے پوپ کیتھولک چرچ کے سربراہ ہیں اور آرتھوڈکس چر چ سے صدیوں پر محیط مخاصمت رکھتے ہیں۔ لیکن اس وقت امریکا کی سربراہی میں عیسائی دنیا نے مسلمانوں کے خلاف تہذیبی تصادم اور دہشت گردی کے نام پر جو جنگ شروع کررکھی ہے، درحقیقت ایک نئی صلیبی جنگ ہے جس کا اعلان بش نے افغانستان پر حملہ کرتے وقت کردیا تھا۔ترکی میں تجزیہ نگاروں نے لکھا کہ درحقیقت پوپ کا یہ دورہ کیتھولک اور آرتھوڈکس مذاہب کے درمیاں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں یہ دور ہ مزید تنازع کا باعث بن گیا۔سعادت پارٹی اور تمام قومی حلقو ںمیں پوپ کے دورے پر تنقید بڑھتی چلی گئی۔ اس لیے اس موقع پر وزیراعظم اردگان صرف ۲۰ منٹ استقبال کرکے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے چلے گئے اور پوپ کو بھگتانے کا کام صدر اور مفتیِ اعظم کے سپر د کرگئے۔
پوپ کے دورے کے موقعے پر سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے ٹریفک کے زبردست مسائل رہے۔اس لیے میڈیا میں اس حوالے سے ہر کوئی تلخ تجربات بیان کرتا رہااور پوپ کے دورے کے خلاف تبصرے جاری رہے۔ یہ دورہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہرزہ سرائی کے بعد کیا۔ اس لیے ترکی میں بھی باقی مسلم دنیا کی طرح زبردست ردعمل تھا۔ جس کی ترجمانی کا ذریعہ سعادت پارٹی نے استنبول میں ایک بڑی ریلی منعقد کرکے کیا جس میں ہمیں بھی شرکت کا موقع ملا۔ اس ریلی میں بزرگ اور پرجوش نوجوان حتیٰ کہ خواتین اور بچے بھی شامل ہوئے۔ ترکی کے ہر باشندے کی ہمدردیاں اس ریلی کے ساتھ تھیں۔ ریلی کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا نے دیں۔ اس کے ذریعے سعادت پارٹی نے اپنی سٹریٹ پاور اور بہترین تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہر ہ کیاہے۔ یہ سعادت کی اس نوعیت کی چوتھی پانچویں بڑی ریلی تھی ۔ قبل ازیں وہ فلسطین ، لبنان اور عراق میں امریکی جارحیت کے موقع پر بھی بڑی ریلیاں منعقد کرکے راے عامہ کو متحرک کرنے کی کوشش کرچکی ہے ۔(جاری)
ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے‘ پاکستان کا قدرتی حصہ ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے تمام اصولوں کے پیشِ نظر‘ اگر اس مسلم ریاست پر ہری سنگھ ڈوگرہ کی حکمرانی نہ ہوتی تو یہ مسئلہ یقینا پیدا ہی نہ ہوتا۔ پاکستان کے قیام کو ہندو قیادت نے بادل نخواستہ قبول کیا تھا۔ چنانچہ نہرو اور پٹیل جیسے کانگریسی رہنمائوں کی یہ پیشین گوئیاں ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ پاکستان اپنے قیام کے چند برس کے اندر ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ شروع ہی سے اس نوزائیدہ مملکت کو کمزور اور پھر معدوم کرنا بھارتی قیادت کے ایجنڈے کا اہم حصہ تھا۔ اپنے اس منصوبے کو بروے کار لانے میں‘ انھوں نے مائونٹ بیٹن اور دیگر برطانوی فیصلہ سازوں کو بھرپور استعمال کیا۔ یوں مسئلہ کشمیر کی بنیاد اسی روز ڈال دی گئی تھی جب بائونڈری کمیشن نے مسلم اکثریتی ضلع پٹھان کوٹ کو‘ بھارت کے حوالے کر دیا تھا‘ کیونکہ اس کے بغیر کشمیر کے ساتھ بھارت کا کوئی زمینی رابطہ قائم نہ ہو سکتا تھا۔
سازشی عناصر کے ان مکروہ عزائم کو بھانپتے ہوئے کشمیری مجاہدین نے علَمِ جہاد بلند کردیا۔ مجاہدین سری نگر تک پہنچ گئے تھے کہ بھارت نے ہوائی جہازوں کے ذریعے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ ریاست میں بھارتی فوجوں کے داخل ہونے کے بعد قائداعظم نے بالکل درست فیصلہ کرکے پاکستانی افواج کو بھی حکم دیا کہ وہ مجاہدین کی مدد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن انگریز کمانڈر ان چیف جنرل گریسی نے مختلف حیلوں بہانوں سے اس حکم کو سبوتاژ کیا۔ ان تمام سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے سید مودودیؒ نے اس وقت کی مسلم لیگی قیادت نواب افتخار حسین ممدوٹ وغیرہ کو یہ بات سمجھائی کہ بھارت کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اُس زمینی راستے کو کاٹ دیا جائے جو ریاست کشمیر کو گورداسپور سے ملاتا ہے ایسا ہونے کی صورت میں بھارت کشمیر کے ساتھ اپنے زمینی رابطے کو استوار نہ کر سکے گا۔ اس ضمن میں سید مودودی نے اس حد تک پیش کش کی کہ اگر انھیں ہتھیار اور ضروری سازوسامان فراہم کیا جائے تو وہ خود اپنے کارکنان کو لے کر یہ خدمت سرانجام دینے کے لیے تیار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی عسکری حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے یہ ایک نہایت ہی سائنٹفک اور برمحل تجویز تھی۔ اگر اس پر بروقت عمل ہوجاتا تو بعد میں ہندو مہاسبھائوں کے ہاتھوں جموں میں مسلمانوں کا قتلِ عام نہ ہوتا۔بعد کے مراحل میں سری نگر میں بھارتی افواج کا گھیرا تنگ کرتے ہوئے جموں‘ سری نگر شاہراہ کو موت کے کنویں میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن افسوس‘ کہ اس وقت کے حکمت کاروں نے اس نہایت ہی کارآمد حکمت عملی سے صرفِ نظر کیا جس سے بھارت کی شہ رگ پر ہاتھ رکھنے کا موقع ضائع کر دیا گیا۔ مجاہدین کی کوششوں سے وادی کا ایک بڑا حصہ آزاد ہوگیا۔
بعد میں جہاد کی کامیابی کے لیے مولانا مودودیؒ نے قائداعظم کے موقف کے ہم آہنگ یہ موقف اختیار کیا کہ ریاست پر بھارتی جارحیت کے جواب میں بھارت کے ساتھ تمام معاہدات کو مسترد کر کے‘ چوری چھپے کے بجاے مجاہدین کی علی الاعلان مدد کرنی چاہیے۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کی مسلم لیگی قیادت نے مولانا کی اسلامی دستور کے نفاذ کی مہم سے خائف ہوکر‘ مولانا کے اس صائب موقف کو خلاف واقع معنی پہنائے اور انھیں سرے سے جہاد کشمیر کا مخالف ثابت کرنے کی کوشش کی‘ حالانکہ مولانا کے موقف اور قائداعظم کے فیصلے کی روشنی میں اس وقت ہر ممکن طریقے سے مجاہدین کی مدد کی جاتی تو بھی بھارت کو ریاست پر قبضے سے روکا جا سکتا تھا۔ لیکن تذبذب پر مبنی فیصلوں نے اُس وقت بھی مسائل پیدا کیے اور قربانیاں بے ثمر رہیں اورآج بھی پالیسی ساز اُسی تارِ عنکبوت کو ایک مدبرانہ حکمت عملی سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بہرحال تقسیم کے وقت جماعت اسلامی کی افرادی قوت مختصر ہونے کے باوجود‘ سید مودودی نے مجاہدین کشمیر کی عملی امداد کے لیے بھرپورکوشش کی۔ بعد میں تو جہاد کے حوالے سے‘ القابات اور خطابات تھوک کے حساب سے تقسیم ہوئے اور انھی کی بنیاد پر آج تک آزاد کشمیر میں سیاست بھی کی جاتی رہی ہے۔
جہاد کشمیر میں مولانا مودودیؒ کی خدمات کے سب سے معتبر گواہ اس وقت کے امیر المجاہدین سیدمظفرحسین ندوی تھے‘ جو ۱۹۴۷ء کے جہاد کے پہلے امیرتھے۔ وہ خود بھی ایک بلندپایہ عالمِ دین تھے اور مولانا مسعود عالم ندویؒ کے شاگرد اور دوست بھی اور انھی کی وساطت سے وہ تحریکِ اسلامی سے متعارف ہوئے۔ یوں ریاست جموں و کشمیر میں بالکل ابتدائی دور میں‘ جو لوگ سید مودودی کی دعوت سے متاثرہ ہوئے وہ تمام بقول مولانا ندویؒ جہاد کے آغاز میں مودودی صاحب سے ملے اور انھوں نے جہادی کامیابیوں اور مسائل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا اور انھوں نے مولانا سے دیگر معاملات میں تعاون کے علاوہ ایسے مربی حضرات فراہم کرنے کی بھی درخواست کی جو مجاہدین کی دینی اور اخلاقی تربیت کا اہتمام کریں اور جو علاقے فتح ہوچکے تھے‘ ان میں شریعت کے نفاذ کے لیے رہنمائی اور معاونت کریں۔ ان کی اس درخواست پر سید مودودی نے ضروریاتِ زندگی سے بھرے ہوئے کئی ٹرک بھجوائے اور شیخ مختار صاحب کی قیادت میں مربین کا ایک دستہ بھی روانہ کیا جو جہاد کے اس سارے عرصے میں مجاہدین کے شانہ بشانہ رہے۔ بعد میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی تو وہ حضرات واپس چلے گئے۔ یوں نہ صرف ۱۹۴۷ء کے جہاد میں مولانا نے درست حکمت عملی کی نشان دہی کی‘ بلکہ جماعت کے وسائل سے جو تعاون ممکن تھا‘ مجاہدین کی نذر کیا۔
مولانا مودودیؒ کی رائے کے مطابق اگر حکومت‘ مجاہدین کی کھلے عام مدد کرتی تو وہ چند ماہ میں سارے کشمیر کو فتح کرسکتے تھے۔ میجر جنرل اکبر (جو جنرل عارف طارق کے نام سے مشہور تھے اور ۱۹۴۷ء کے سارے آپریشن کے انچارج تھے) نے اپنی کتاب Raiders in Kashmir میں مولانا کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ: اگر اُس وقت جی ایچ کیو انھیں چند اینٹی ایئرکرافٹ گنیں اور بکتربند گاڑیاں فراہم کر دیتا جس کا انھوں نے مطالبہ کیا تھا تووہ بھارتی افواج کو سری نگر ایئرپورٹ پر اترنے سے روک سکتے تھے۔ لیکن گومگو کی پالیسی چلانے والوں نے اس وقت بھی انھیں یہی جواب دیا کہ اس طرح کے ہتھیار مجاہدین کے حوالے کرنے سے پاکستان کی فوجی مداخلت ثابت ہوگی جس سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہی خوف کی پالیسی آج بھی جاری و ساری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجاہدین نے بے سروسامانی کے باوجود جو خوف اور دھاک بھارتی افواج اور کانگریسی حکمرانوں کے دل و دماغ پر بٹھا دی تھی‘ اُسی کے نتیجے میں بھارت نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی اور مسئلے کے پُرامن حل پر زور دیا‘جس کے جواب میں سلامتی کونسل نے کشمیر پر راے شماری کا اہتمام کرنے کے لیے معروف قرار دادیں پاس کیں۔ لیکن ان کے نفاذ کی ہر کوشش کو بھارت نے سبوتاژ کیا‘ بلکہ اس سارے پراسس کی آڑ میں مزید وقت حاصل کر کے کشمیر کے مسلم تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان تو سیاسی لحاظ سے عدمِ استحکام کا شکار چلا آرہا ہے۔ خارجہ پالیسی کا کارنر سٹون تو بلاشبہہ کشمیر ہی رہا لیکن سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اور نہرسویز کے مسئلے پر برطانیہ کی حمایت کرنے کے نتیجے میں‘ مسلم دنیا بالخصوص روس کے حلقہ اثر ممالک میں پاکستان کا تشخص‘ امریکی استعمار کے ایک ایجنٹ کی حیثیت سے اجاگر ہوا‘ جس کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کے لیے سفارتی محاذ پر بے پناہ مشکلات پیدا کردیں۔ نہرو ‘مارشل ٹیٹواور مصر کے صدر ناصر کی آپس میں گاڑھی چھنتی تھی۔ پوری عرب دنیا کی صحافت اور اہل دانش پر مصری ذرائع ابلاغ کے بے پناہ اثرات تھے‘ وہ گاندھی اور نہرو کو بین الاقوامی لیڈر باور کراتے تھے اور پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ اور مسلمانوں کی ایک بڑی تحریک کا ماحصل کے بجاے‘ اسے انگریزوںکی سازش کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ ایسے حالات میں حکومتوں کی سطح پر تعلقات نہایت سردمہری کی کیفیت سے دوچار رہے۔ اس برف کو پگھلانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ علما‘ اہل دانش و صحافت اور مسلم عوام تک رسائی حاصل کرتے ہوئے‘ انھیں بھارت کے حقیقی عزائم سے آگاہ کیا جاتا۔ یوں راے عامہ کے دبائو کے ذریعے‘ حکمرانوں کو بھی بھارتی شعبدہ بازوں کے سحر سے آزاد کرا کے کشمیریوں کی جدوجہد کی پشت پر کھڑا کیا جاتا۔
اس خلا کو پُر کرنے کے لیے سید مودودی نے بھی دنیاے عرب کے متذکرہ حلقوں کو حقائق سے آگاہ کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے خود بھی دورے کیے اور اپنے رفقا بالخصوص سید مسعود عالم ندوی مرحوم اور چودھری غلام محمد مرحوم کو بھی یہی ہدف دیا‘ جس کے حصول کے لیے انھوں نے شب و روز محنت کی اور اخوان اور دیگر اسلامی اداروں کو بھارتی پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے متحرک کیا۔ بعد میں رابطہ عالمِ اسلامی جیسے عالمی اداروں (جن کے قیام میں خود سید مودودی کا بھی ایک اہم کردار تھا) کے پلیٹ فارم سے قراردادوں اور محاضرات کے ذریعے‘ مسئلہ کشمیر کو مسئلہ فلسطین ہی کی طرح‘ مسلم دنیا کا ملّی مسئلہ بنانے کے لیے‘ دنیاے عرب کی ممتاز شخصیات کو مسئلہ کشمیر کا سفیربنا دیا۔ سید مودودی کی ان کاوشوں کے اثرات سفارتی سطح پر بھی منعکس ہوئے ‘جنھیں دیکھ کر ممتاز کشمیری رہنما چودھری غلام عباس مرحوم نے کہا تھا کہ: مولانا مودودی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر بالخصوص مسلم دنیا میں تنہا جتنا کام کیا ہے اس کا عشرعشیر بھی پاکستان کے حکمران‘ سفارت کار اور تمام جماعتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔
بین الاقوامی محاذ کے ساتھ ساتھ اندرون ملک بھی راے عامہ کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیدار اور متحرک رکھنا بھی ایک اہم محاذ تھا‘ تاکہ آئے روز بدلتی حکومتیں اپنے موقف سے پسپائی اختیار نہ کریں اور پاکستان کم از کم اپنا کردار ادا کرتا رہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی تمام اہم قومی جماعتوں اور شخصیات پر مشتمل نیشنل کشمیر کمیٹی کے قیام میں بھی سید مودودی نے اہم کردار ادا کیا۔ چودھری محمد علی‘ نواب زادہ نصراللہ خان ‘ چودھری غلام عباس اور سردار ابراہیم سمیت اس دور کی تمام اہم قومی شخصیات اس کمیٹی کا حصہ تھیں جس نے نہایت تاریخی کام سرانجام دیا۔ سید مودودی کی رائے میں ایک حقیقی اور جمہوری پاکستان ہی مسئلہ کشمیر کے حل میں مؤثر کردارادا کر سکتا تھا۔ چنانچہ انھوں نے بارہا فرمایا کہ: اگر پاکستان میں صحیح معنوں میں اسلامی نظام قائم ہو جاتا ہے تو کشمیر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں آگرے گا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا بنیادی محرک ایک اسلامی پاکستان کے ساتھ الحاق ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے ورنہ کشمیریوں کے لیے کاروبار اور معاشی آسودگی کے مواقع‘ خود بھارت کے ساتھ رہنے میں زیادہ وسیع ہوسکتے ہیں۔ کشمیر کی ملت اسلامیہ ان سارے مواقع کو مسترد کرکے آزادی کے حصول کے لیے جو قربانیاں دے رہی ہے وہ آزادی براے اسلام کے حوالے سے ہیں۔ پاکستان کو ایک عملی اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد‘ بجاے خود تحریکِ آزادی کی تقویت کا ذریعہ اور کشمیرکاز کی عظیم خدمت ہے‘ جسے سرانجام دینے کے لیے سیدمودودی اور جماعت اسلامی نے مثالی کردارادا کیا ہے۔
حقیقی اسلامی مملکت کا قیام‘ حقیقی جمہوری نظام کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ سید مودودی‘ جمہوریت کی بحالی کے لیے ایوب خان جیسے ڈکٹیٹر کے خلاف مسلسل مورچہ زن رہے۔ اس جرم کی پاداش میں سید مودودی اور آپ کے رفقا کو قیدوبند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔ جماعت پر پابندی بھی لگائی گئی جسے بعد میں اعلیٰ عدالتوں نے غیرآئینی قرار دے دیا۔ ایوب خان کے ساتھ تلخی کے اس ماحول میں ۱۹۶۵ء کی جنگ چھڑ گئی (جو کشمیر کی آزادی کے لیے‘ لیکن مطلقا غیرمنطقی مفروضوں پر شروع کی گئی)۔ جنگ شروع ہوئی تو امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان کو فوجی سازوسامان دینا بند کردیا۔ ادھر بھارت کو روس اور اس کے حلیفوں بلکہ درپردہ امریکہ سے دھڑا دھڑفوجی اسلحہ ملتا رہا۔ اس جنگ میں سرخرو ہونے کے لیے قومی یک جہتی پیدا کرنا ازبس ضروری تھا۔ چنانچہ سیدمودودیؒ نے نہایت اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوب خان کے ساتھ اختلافات کے علی الرغم قوم کو متحدہو کر افواج کے شانہ بشانہ لڑنے کی اپیل کی اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو دو ٹوک الفاظ میں یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم متحد ہو کر خون کے آخری قطرے تک اس کی ننگی جارحیت کا مقابلہ کرے گی۔ ان کی یہ تقریر ریڈیو سے بھی نشر ہوئی جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کے حوصلے بلند ہوئے اور قومی سطح پر بھی ایک بھرپور یک جہتی کی فضا پیدا ہوئی۔ پونچھ اور راجوری کے خطے میں عوام نے جان پر کھیل کر مجاہدین کا ساتھ دیا جس کے جواب میں بھارتی افواج نے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ قتلِ عام کے لیے وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جو اس نے ۴۷ء میں جموں میں کیے تھے یا گذشتہ ۱۵ سال سے وادی میں کر رہا ہے۔
سید مودودی کا یہ دورہ محض ایک تقریر تک محدود نہ تھا‘ بلکہ بھارتی جارحیت سے تنگ آکر آزاد کشمیر کا رخ کرنے والے مہاجرین کی آبادکاری اور بحالی کا منصوبہ بھی ان کے پیشِ نظر تھا۔ اُس وقت آزاد کشمیر حکومت کا انفراسٹرکچر بھی بہت کمزور اور محدود تھا اور عوامی سطح پر بھی لوگ مالی لحاظ سے اس قدر آسودہ نہ تھے۔ چنانچہ مہاجرین کے قافلوں کو سنبھالنا اور انھیں حوصلہ اور تسلی دینا نہایت اہم کام تھا جسے سرانجام دینے کے لیے سید مودودی نے جماعت اسلامی کی پوری تنظیم وقف کر دی۔ دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ میڈیکل ریلیف پہنچانے کے لیے ڈاکٹر نذیر شہیدؒ کی سربراہی میں ایک ٹیم نے شب و روز محنت کر کے صورت حال کو سنبھالا۔ اس وقت کی کشمیری قیادت اور حکومت نے ان ساری خدمات کی بے پناہ تحسین کی۔
سید مودودی ؒنے اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ’’مسئلہ کشمیر کا حل کیا؟‘‘ کے عنوان سے ایک جامع اور بھرپور لائحہ عمل بھی تجویز کیا جسے اخبارات میں اشاعت خصوصی کے علاوہ ایک کتابچے کی صورت میں چھپوا کر وسیع پیمانے پر تقسیم کیا گیا۔ اس لائحہ عمل میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے سارے امکانات کا جائزہ لیا گیا اور اس بات کو واضح کیا گیا کہ مذاکرات‘ ثالثی یا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ کے ذریعے‘ مسئلے کا حل اُسی وقت ممکن ہوگا جب بھارت کا سامنا گذشتہ پندرہ سال سے جاری جہاد جیسے ایک ہمہ گیر جہاد سے ہوگا۔ ایسے جہاد کی تمام جہتوں کی وضاحت بھی لائحہ عمل میں موجود ہے (یہی لائحہ عمل مجاہدین کشمیر نے اختیار کر رکھا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ کشمیر‘ دنیا میں ایک مرتبہ پھر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے)
سید مودودیؒ ہی کی تحریک نے ۱۹۸۹ء میں اس مسئلے کو زندہ کیا۔ یہ کام‘ ذہن اور کردار سازی کے بغیر ناممکن تھا۔ تحریکِ جہاد کے موجودہ مرحلے کے حوالے سے جگ موہن سے لے کر بھارتی آرمی چیف تک تمام تجزیہ نگار اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ تحریک اسلامی ہی اس جدوجہد کی ریڑھ کی ہڈی ہے‘ اس لیے وہاں سب سے زیادہ نقصان بھی جماعت اسلامی ہی کا ہوا ہے۔ ذمہ داران اور ارکان کی ایک بڑی تعداد کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ جماعت کی پالیسی کی اس وضاحت کے بعد کہ جماعت‘ وہاں سیاسی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہے‘ اس وجہ سے جماعت سے وابستہ افراد بھارتی ایجنٹوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ حزب المجاہدین سمیت دیگر مختلف تنظیموں سے وابستہ مجاہدین کی فکری تیاری میں بھی سید مودودی کے لٹریچر نے اہم کردار ادا کیا۔ مجاہدین نے بھارتی افواج کو گذشتہ پندرہ سال میں ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ اسلام کے یہ شاہین اندرونی اور بین الاقوامی سازشوں اور حوصلہ شکنی کے ماحول کے باوجود اپنے برحق موقف پر ڈٹے ہوئے بھی ہیں اور مصروفِ جہاد بھی ہیں۔ ہر مجاہد آج بھی وہاں کا ہیرو ہے اور بھارت کا ساتھ دینے والا قوم و ملت کا غدار۔ ہر آزادی کی تحریک یا تحریکِ مزاحمت کی پشت پر ایثار پیشہ لیڈرشپ ہوا کرتی ہے جو جذبوں کو جلا بخشتی ہے‘ استقامت‘ قربانی اور اپنے تدبر کی وجہ سے تحریکِ آزادی کی علامت بن جاتی ہے۔ یہ اعزاز موجودہ تحریکِ مزاحمت میں قائدِ تحریکِ حریت سید علی گیلانی اور مجاہدین کے سالار سید صلاح الدین کو حاصل ہے۔ یہ حضرات بھی سید مودودی کی اس تحریک اور فکر کا ثمرہ ہیں جس کا آغاز برصغیر میں سید مودودیؒ کی معرکہ آرا کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ سے ہوا تھا۔
مہاجرین اور مجاہدین کو سنبھالنے‘ میڈیا اور سفارتی محاذ پر راے عامہ کو متحرک کرنے اور پاکستان اور آزاد کشمیر میں تحریکِ آزادی کے تقاضوں سے ہم آہنگ فضا تیار کرنے میں جماعت اسلامی پاکستان اور آزاد کشمیر اور ان کی برادر تنظیموں نے ایک تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ یہ سارا کریڈٹ بھی یقینا تاریخ‘ سید مودودی کو دے گی کہ جن کی فکروتنظیم نے ایک ہندو بنیے کو آزادی کشمیر کے حوالے سے نوشتہ دیوار پڑھنے پر مجبور کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کی تنظیم کو بھارت اور پاکستان کی تنظیم سے الگ رکھنا بھی سید مودودی کی دوربین نگاہوں کا کرشمہ تھا ۔صورت حال اس کے برعکس ہوتی تو خود تحریکِ اسلامی کے حلقوں میں مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت ابہام کا شکار ہو جاتی اور پھر حکومتوں کو بھی قومی پالیسی پر گامزن رکھنا مشکل ہوجاتا۔
آج بحمدللہ‘ مشکل حالات کے باوجود میدان کارزار میں مجاہدین اور عوام‘ تحریک کی پشت پر کھڑے ہیں‘ کٹھ پتلی حکمران پارٹی کا کوئی آرگن یا مخبر غداری کرتے ہوئے مارا جائے تو اس کے لواحقین بعض اوقات نماز جنازہ پڑھے بغیر ہی اس ناسور کو مٹی میں دبا دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی مجاہد شہید ہوجائے تو لوگ ہیرو کی طرح دیوانہ وار اس کو الوداع کہتے ہیں۔ اس کی نماز جنازہ میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں‘ صرف شرکت ہی نہیں کرتے اس کے مشن کی تکمیل کا عہد کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں غلام رسول ڈار شہید کی نماز جنازہ جس میں پچاس ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کر کے سید علی گیلانی کو یقین دلایا کہ کشمیر کی آزادی تک جانوں اور اموال کی قربانی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ سری نگر یا مظفرآباد میں بیٹھے ہوئے رہنما اور سیاست دان‘ جیسے بھی بے محل فارمولے پیش کرتے رہیں یا بے مقصد مذاکرات کرتے رہیں۔ لیکن جس پراسس کو سید مودودی کے فکری جانشینوں کی تائید حاصل نہ ہوگی‘ اُس سے خفت اور ذلت کے علاوہ کچھ برآمد نہ ہوگا۔ پاکستان کے حکمرانوں کی جس قدرمصلحتیں اور مجبوریاں ہیں۔ لیکن وہ قافلہ سالار قاضی حسین احمد اور سید کے کارواں کی رائے کو نظرانداز نہ کرسکیں گے۔ ہم سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے دیے ہوئے لائحہ عمل پر صبروحکمت اور استقامت اور اللہ کی توفیق کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ تاآنکہ ع
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک