اہلِ پاکستان ۱۹۹۰ء سے،۵فروری کا یوم اہلِ کشمیر کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طو رپر مناتے چلے آرہے ہیں ۔ دراصل یہ قاضی حسین احمد رحمتہ اﷲ علیہ کا ایسا صدقۂ جاریہ ہے جو ہرسال پوری قوم کو اہلِ کشمیر کی پشت پر لا کھڑا کرتا ہے ۔ پاکستان کے مختلف المزاج حکمرانوں کے بدلتے ہوئے رحجانات اور کمزور پالیسیوں کی وجہ سے بعض اوقات شکوک و شبہات بھی پیدا ہو تے رہتے ہیں۔ تاہم ہرسال ۵فروری کا دن قوم کے اندر ایسی لہر اٹھا دیتا ہے کہ سازشیں دَم توڑ دیتی ہیں اور پوری قوم اہل کشمیرکو یہ پیغام پہنچاتی ہے کہ قوم کا بچہ بچہ اہلِ کشمیر کی پشت پر ہے۔ یوں تحریکِ آزادیِ کشمیر کو ایک نئی تقویت ملتی ہے ۔
امسال یک جہتی کشمیر ایسے عالم میں منایا جا رہا ہے،جب میدانِ کارزار میں اہلِ کشمیر مشکلات کے باوجود منزل کے حصول کے لیے پُرعزم ہیں۔ وہ بھارتی استبداد کا بے جگری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی اُن کے پُرعزم ہونے کا ثبوت ہے کہ گذشتہ سیلاب میں ۵۵لاکھ کشمیریوں نے بُری طرح متاثر ہونے کے باوجود بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ریلیف لینے سے انکار کردیا تھا۔ ان کی قومی غیرت نے قبول نہ کیا کہ وہ ان مشکل ترین لمحات میں بھی ظالموں اور غاصبوں سے کسی طرح کی امداد و اعانت وصول کریں۔ وہ اﷲ کی تائید و نصرت اور باہم اتحاد و یک جہتی سے بھارت کے ہر وار کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔اس عرصے میں گونا گوں چیلنج اُبھرکر سامنے آئے ہیں۔
نریندر مودی نے اپنے انتخابی منشور میں بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کے خاتمے کے ذریعے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بھارت میں اس کے مکمل انضمام کا اعلان کیا تھا اور مقبوضہ ریاست کی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر نے کے لیے بھرپور مہم چلائی تھی۔ پھر پے در پے کئی دورے کر کے بڑے بڑے معاشی پیکیجز کا اعلان کیا لیکن مسلم اکثریتی نشستوں میں سے بی جے پی ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی۔ یوں اسے مجبوراً مفتی سعید کے ساتھ ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے سرینگر میں مخلوط حکومت میں شامل ہونا پڑا۔مرکزی سرکار کی آشیر باد سے بی جے پی نے ریاست کا مسلم اکثریتی تشخص ختم کرنے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن قائدِ حریت سید علی گیلانی اور دیگر قائدین حریت نے بر وقت اقدام کرتے ہوئے پوری کشمیری قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں بدل دیا ، شہدا کے جنازے ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کرگئے۔ حالات نے قائدین حریت کو کندھے سے کندھا ملا کر چلنے پر مجبور کر دیا۔ جناب شبیر احمد شاہ اور دیگر حریت تنظیمیں سید علی گیلانی کی قیادت میں منظم اور یکجہت ہو گئیں۔
نامساعد حالات کے باوجود، اپنے ذرائع کی بنیاد پر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے ایک مرتبہ پھر قابض افواج کو پیغام دیا کہ جب تک استعماری قبضہ ختم نہیں ہوتا، مجاہدین اپنی جدوجہد ترک نہیںکر سکتے۔یہ نوخیز نوجوان قوم کے ہیرو قرار پائے۔ ان کا سرخیل حزب المجاہدین کا ایک کمانڈر برہان مظفر وانی وہاں آج کے نوجوانوں کا آئیڈیل ہے ۔ گذشتہ چند ماہ میں کئی عسکری معرکوں میں بھارتی فوج کو شدید ہزیمت اور نقصان کاسامنا رہا ۔ اس عرصے میں نریندر مودی کے مقبوضہ کشمیر کے دوروں کے موقعے پر تاریخی ہڑتالوں نے ثابت کیا کہ کشمیری خوف اور لالچ کے کسی ہتھکنڈے کو خاطر میں لائے بغیر آزادی کے حصول تک اپنے مشن پر گامزن رہیں گے۔
نریندر مودی کی حکومت کے بر سراقتدار آتے ہی بھارت نے پاکستان سے بات چیت کا سلسلہ منقطع کر دیا اور لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ روز افزوں ہوگیا جس کے نتیجے میں سویلین اور فوجی شہادتیں ہوئیں لیکن افواج پاکستان نے بھی دندان شکن جواب دیا ۔ ادھر آزاد جموں وکشمیر کی تمام سیاسی اور دینی جماعتوں نے کل جماعتی کشمیر رابطہ کونسل کے پلیٹ فارم سے حقِ خود ارادیت کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اتحاد کرتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سرگرمیوں کا اہتمام کیا ۔ برطانیہ اور امریکا میں بڑے بڑے مارچ کیے گئے ، بالخصوص برطانیہ میں نریندر مودی کی آمد کے موقعے پر تحریک کشمیر برطانیہ اور دیگر جماعتوں نے ایک جھنڈے اور ایک نعرے کے ساتھ بھرپور احتجاج کیا ۔ کل جماعتی رابطہ کونسل کے کنوینر کی حیثیت سے راقم ساری جماعتوں کی نمایندگی کرتے ہوئے ان سارے پروگراموں میں شریک رہا۔ برطانوی میڈیا اور ممبران پارلیمنٹ نے بھی ان سرگرمیوں سے متاثر ہو کر کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالی کے ریکارڈ پر نریندر مودی اور بھارتی حکومت کی سخت مذمت کی، اور اپنی حکومت اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ خطّے اور دنیا کے امن کو کسی بڑے حادثے سے بچانے کی خاطر کشمیر جیسے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھارتی حکومت پر دبائو بڑھایا جائے ۔
اسی عرصے میں وزیر اعظم پاکستان نے جنرل اسمبلی میں اپنے قومی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک موقف اختیار کیا ۔اسی طرح چیف آف آرمی سٹاف نے بھی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف کانفرنسوں میں مسئلہ کشمیر کو تقسیم برعظیم کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر واضح کیا کہ پاکستان کشمیریوں کی برحق جدوجہد سے کسی طور پر پیچھے نہیں ہٹ سکتا ۔ ان سارے عوامل، یعنی مقبوضہ ریاست میں عوامی و عسکری مزاحمت ، پاکستان کا دو ٹوک موقف اور بین الاقوامی دبائو نے نریندر مودی کی حکومت کو پاکستان سے ’ کُٹی‘ کرنے کی پالیسی ختم کرنے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں پہلے ان کی وزیر خارجہ شسما سوراج اور پھر نریندر مودی پاکستان وارد ہوئے اور دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا ۔ پاکستان اور اہل کشمیر نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل ہو۔ اس سلسلے میں ۱۰۰ سے زیادہ اَدوار ہو چکے ہیں لیکن شومیِ قسمت سے مسئلے کے حل کی طرف بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ جب بھی بین الاقوامی دبائو بڑھا بھارت بات چیت کا ڈول ڈالتے ہوئے محض وقت حاصل کرتا رہا۔ اس لیے قائد حریت سید علی گیلانی سمیت تحریکِ آزادی سے وابستہ تمام حلقے یہ موقف پیش کرتے رہے ہیں کہ اگر بات چیت ہو تو محض آلو پیاز پر اور اسی طرح کے جزوی مسائل پر نہ ہو بلکہ مسئلہ کشمیر پر ہو اور ان شرائط کے ساتھ ہو کہ :
۱- بھارت اٹوٹ انگ کی رٹ ترک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو حل طلب تسلیم کرے۔
۲-مقبوضہ کشمیر سے فوجی انخلا کرے ، کم از کم پہلے مرحلے پر آبادیوں سے فوج واپس بلائے ۔
۳- کالے قوانین واپس لے۔
۴-ہزاروں گرفتار شدگان کو جو سال ہا سال سے جیلوں میں پڑے ہیں ، رہا کیا جائے۔
۵-قائد حریت سید علی گیلانی اور دیگر قائدین حریت کی حراستوں کو ختم کرتے ہوئے شہری آزادیاں بحال کرے اور انھیں اپنا مقدمہ بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرنے کا موقع دے ۔ اس سلسلے میں انھیں سفری دستاویزات فراہم کرے۔
۶-۵۵لاکھ متاثرین سیلاب کے لیے بین الاقوامی این جی اوز اور آزادکشمیر و پاکستان میں مقیم کشمیریوں کو کشمیری بھائیوں تک امداد پہنچانے کا موقع فراہم کرے۔
ان شرائط پر عمل پیرا ہوئے بغیر، بات چیت ماضی کے تجربات کی روشنی میں محض بھارتی ہتھکنڈا ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور بھارت پر بین الاقوامی دبائو بڑھانے اور تحریکِ آزادی کی تقویت کا اہتمام جاری رکھنا چاہیے ۔کوئی اورایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار ہو یا کم از کم ہندستان کو ایسا کرنے کا جواز فراہم ہو۔ خصوصاً گلگت اور بلتستان جو تاریخی اعتبار سے ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہیں ، انھیں تمام بنیادی حقوق دیے جائیں جو پاکستان کے تمام شہریوں کو حاصل ہیں۔ تاہم آئینی لحاظ سے مسئلہ کشمیر کے پس منظر کو نظر انداز کر کے انھیں پاکستان کا صوبہ بنانا ایسی بے تدبیری ہوگا جس کے نتیجے میں کشمیریوں اور پاکستان کے درمیان بے اعتمادی کی فضا جنم لے گی ۔حالات کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کشمیری قیادت کی مشاورت سے ایک واضح حکمت عملی طے کریں تاکہ آزادی کی منزل قریب تر ہو سکے۔