محمد سلیم اخترo | ۲۰۱۶ فروری | اسلامی معاشرت
مذاہب ِ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو اُن کی تعلیمات میں سائلین، محرومین، مستضعفین اور کسی بھی انداز کی معذوری اور محتاجی کے سدباب کے اشارے یا واضح اسلوب موجود ہیں۔ قبل مسیح کے دیگر مختلف افکار اور مذاہب کے راہ نما اپنے اپنے صحائف اور اخبارات کے ذریعے معاشرے کے محروم اور ضرورت مند لوگوں کی بھلائی کے بارے مقتدر حضرات کو آگاہ کرتے رہے۔ بعدازاں ان کی سرداری اپنے ہاتھ میں لے کر ظلم و جبر کا کاروبار عام کرنے والے کامیاب ہوگئے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی آسمانی کتابوں زبور اور انجیل میں اِن طبقات کی فلاح اور بھلائی کے باب موجود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اللہ کے اذن سے اندھوں کو بینائی بخشنا اور کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کرنا، اُن کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے۔ حتیٰ کہ یہ سلسلۂ ادیان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ تک آن پہنچا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں معذور افراد کے بارے واضح اور کھلے احکامات کا ذکر کرتے ہوئے آںحضوؐر کی زندگی میں ہی عملی اقدامات کا بندوبست فرمایا۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo (التین ۹۵: ۴)ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷: ۷۰)اور یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔
متذکرہ بالا آیاتِ مقدسہ کے اسباق میں یہ امر واضح ہو رہا ہے کہ خالقِ کائنات نے نفس انسانی کو بہت عزت و تکریم اور احترام و احتشام سے نوازا ہے۔
اے بنی نوع انسان! تمھارے خون، تمھارے اموال اور تمھاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جس طرح اِس ماہ (ذوالحجہ) اِس شہر (مکہ) میں تمھارے لیے اِس دن (یومِ عرفہ) کی عزت ہے۔(السیرۃ النبویہ، ابن ہشام)
آں حضوؐر نے انسان کی عزت، جان اور مال کو ایک دوسرے پر حرام قراردیا ہے۔ گویا عزت اور جان و مال کے سلسلے میں ساری انسانیت برابر ہے۔ آپؐ کا ذاتی کردار تکریمِ انسانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ایک مرتبہ آں حضوؐر کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا۔ آپؐ کھڑے ہوگئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! یہ یہودی کا جنازہ تھا۔ ارشاد فرمایا: میں نفسِ انسانی کے احترام میں کھڑا ہوا ہوں۔
تکریمِ انسانیت کی بلند ترین سطح یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان کی دِل آزاری نہ کرے، اِس کا مذاق نہ اُڑائے، اسے اس کے عیبوں کا طعنہ نہ دے، اسے بُرے ناموں یا القاب سے نہ پکارے، اسے اپنے سے کم تر یا گھٹیا محسوس نہ کرے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے تکریم انسانیت کا یہ درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد رکھو۔(الحجرات۴۹ : ۱۱)
دینِ اسلام نے زندگی کے معاملات میں ہر انسان کو بلا تمیز رنگ و نسل یا سماجی مرتبہ مساوی حیثیت عطا کی ہے۔ یہ عام سماجی رویہ ہے کہ معذور افراد کو زندگی کے عام معاملات اور میل جول میں نظرانداز کرنے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ قرآنی تعلیمات نے اِس روش اور عادت کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے ہر انسان کو لائقِ عزت و وقار قرار دیا ہے۔
عَبَسَ وَتَوَلّٰیٓ o اَنْ جَآئَہُ الْاَعْمٰی o وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓ o اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰیo (عبس۸۰: ۱- ۴) تُرش رُو ہوا اور بے رُخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمھیں کیا خبر، شاید وہ سُدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟
۱- معذور افراد دیگر افرادِ معاشرہ کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔ دوسرے افراد کو اِن پر ترجیح دیتے ہوئے انھیں نظر انداز نہ کیا جائے۔
۲- عزت و وقار کے مرتبے کا تعین سماجی یا معاشرتی حیثیت کو دیکھ کر نہ کیا جائے بلکہ اس کے لیے ذاتی کردار، تقویٰ، اصلاح طلبی اور نیکی کے جذبے کو معیار بنایا جائے۔
۳- معذور افراد کو تعلیم سے بہرہ مند کیا جائے کیونکہ وہ دیگر انسانوں کی طرح مفید اور کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔
دین اسلام نے کسی شخص کے جسمانی نقص یا کمزوری کی بنا پر اُس کی عزت و توقیر اور معاشرتی رُتبہ کو کم کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی ہے، بلکہ جا بجا ایسے واقعات اور احکامات موجود ہیں جن کی بنیاد پر اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایسے لوگوں کو دوسرے انسانوں کی نسبت زیادہ عزت بخشی ہے۔
حضرت عبداللہ بن اُمِ مکتوم نابینا تھے۔وہ حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا کچھ مدعا بیان کرنا چاہتے ہیں اور تعلیماتِ رسولؐ سے بہرہ مند ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بینائی نہ ہونے کی وجہ سے اُنھوں نے حاضرِ خدمت ہو کر اپنا مدعا بیان کرنا شروع کر دیا، عین اُسی وقت کچھ اشرافِ قریش بھی آپؐ کے پاس بیٹھے تھے جنھیں آپؐ دین حق کی تبلیغ فرما رہے تھے۔ دعوتِ حق کی حکمت عملی اور محویت کے باعث آپؐ عبداللہ ابن مکتوم کی طرف توجہ نہ دے سکے اور اُن کے سوالات کا جواب بھی نہ دیا، بلکہ ابن مکتوم کی بار بار نِدا اَور مداخلت سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو قدرے ناگواری ہوئی۔ مگر باری تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمؐ کو متوجہ فرماتے ہوئے اُن کی مخلصانہ طلب اور راہِ حق کی سچی جستجو کو زیادہ اہمیت دینے کی نشان دہی فرمائی۔
ایک اور واقعہ جو بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت عمرؓ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ آپؓ نے دیکھا ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اے بندۂ خدا! دائیں ہاتھ سے کھا۔ اُس نے جواب دیا کہ ’’وہ مشغول ہے‘‘۔ آپؓ آگے بڑھ گئے جب دوبارہ گزرے تو پھر وہی فرمایا اور اُس شخص نے پھر وہی جواب دیا۔ جب تیسری بار آپؓ نے اُس کو ٹوکا تو اُس نے جواب دیا کہ ’’موتہ کی لڑائی میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔‘‘ یہ سن کر آپؓ رونے لگے اور پاس بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگے کہ: تمھارے کپڑے کون دھوتا ہے اور تمھاری دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتی ہیں؟ تفصیلات معلوم ہونے پر آپؓ نے اس کے لیے ایک ملازم لگوا دیا۔ اسے ایک سواری دلوائی اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی دِلوائیں۔ (کتاب الآثار از یوسف ۱:۲۰۸ رقم ۹۲۷ھ)
اِس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتِ اسلامیہ کا فرض ہے کہ وہ معذور افراد کی ضروریات کا خیال رکھنے میں کوتاہی اور سستی کی مرتکب نہ ہو۔
ایک پگلی عورت کا واقعہ بھی حدیث میں نقل ہوا ہے جسے متعدد محدثین مثلاً امام مسلمؒ، ابودائودؒ، قاضی عیاضؒ، قسطلانیؒ، ابولیلیؒ اور ذہبیؒ نے حضرت انسؓ کی زبانی تحریر کیا ہے کہ مسجد نبویؐ میں آںحضورؐ صحابہ کرام کے پاس بیٹھے کچھ اہم موضوعات پر گفتگو فرما رہے تھے کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑھیا مجمع کے آخر میں کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ آپؐ اُس کی طرف متوجہ ہوئے۔ اُس نے عرض کیا کہ حضورؐ میں کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں مگر سب کے سامنے نہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ عورت پاگل ہے اور ایسے ہی آپؐ کا وقت ضائع کرے گی۔ آپؐ کا چہرۂ اقدس متغیر ہوا فرمایا کہ: ’’پاگل ہے تو کیا انسان نہیں ۔ کیا اِس کی خواہشات اور تمنائیں نہیں ہیں۔ یہ کچھ کہنے آئی ہے‘‘۔ لہٰذا آپؐ مسجد نبوی سے نکل کر اُس کے ساتھ چل پڑے۔ آپؐ نے اُس سے اُس کی ضرورت پوچھی اور ساتھ ہی فرمایا کہ تیری ہر بات تسلیم کی جائے گی۔ بڑھیا آگے آگے چلتی رہی اور سرکار دو عالمؐ اُس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔ مدینے کی ایک گلی کی نکڑ پر بڑھیا نے آپؐ سے کہا کہ آپ زمین پر تشریف رکھیں۔ آپؐ بیٹھ گئے۔ بڑھیا نے اپنی پوری داستان سنائی اور رحمتِ دوعالمؐ نے اُس کی ساری ضروریات پوری کر دیں۔ اِس طرح بے سہاروں کو سہارا دینا بھی ایک بڑی عبادت ہے۔
کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھالے) اور نہ تمھارے اُوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچائوں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموئوں کے گھروں سے، یا اپنی خالائوں کے گھروں سے، یا اُن کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمھاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھائو یا الگ الگ۔(النور۲۴: ۶۱)
یہاں بے بصر اور جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے ایک نعمت اور عطیۂ خداوندی کا اعلان کرتے ہوئے اُنھیں فاقہ کشی اور بھوک و ننگ سے محفوظ کر دیا ہے کہ اہلِ قرابت اُن کی ضروریات اور حقوق سے جان چھڑاتے نہ پھریں اور نہ خصوصی افراد اپنی بے بسی اور اپنوں کی بے مروتی کے باعث خودکشیاں کرتے پھریں۔ دیکھیے کتنے عظیم اور بنیادی چارٹر کا اعلان :
۱- اندھے، بیمار اور جسمانی طور پر معذور (لولے لنگڑے) افراد چونکہ جنگ میں شریک نہ ہو سکتے تھے، لہٰذا اُنھیں قریبی رشتہ داروں کے گھروں سے کھانا کھانے کی اجازت دی گئی۔
۲- قریش اور سردارانِ مکہ معذور افراد کو منحوس اور قابل نفرت خیال کرتے تھے۔ لہٰذا اللہ نے اُن کی تکریم کرتے ہوئے ، اُن کے حقوق اور عزتِ نفس کا اعلان کیا اور جاہلانہ رسوم کا قلع قمع کر دیا۔
۳- ماں باپ اور بہن بھائی معذور افراد کو کراہتاً رشتہ داروں کے گھر چھوڑ آتے تھے تاکہ وہ خود تو خوب سیر ہو کر کھالیں اور یہ کہیں سے روکھی سوکھی کھا لیں۔ رب العزت کو یہ بات پسند نہ تھی لہٰذا ترغیباً والدین اور بہن بھائیوں یا قریبی رشتہ داروں کے گھر سے کھانے کی اجازت دی۔
۴- بہن بھائیوں، چچائوں، پھوپھیوں، ماموئوں، خالائوں کے گھروں سے یا اُن کی عدم موجودگی میں بھی اُن کے ہاں کھانا کھانے کی اجازت اور رخصت دی گئی۔
۵- رشتہ داروں کے بعد جن گھروں کی کنجیاں اُن کے حوالے کی گئیں وہاں سے بھی کھانے کی اجازت دی گئی۔ دوست احباب کے گھر کو بھی رشتہ داروں کے گھروں سے تشبیہہ دی گئی تاکہ یہ قربت بھی عظمت کی علامت رہے اور خصوصی افراد کے حقوق یہاں بھی محفوظ رہیں۔
۶- بعض لوگ معذور لوگوں کو حقیر سمجھ کر الگ تھلگ بٹھاکر کھانا دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تنہا خوری کی کراہت کو ختم کرتے ہوئے اپنے رسولؐ کے ذریعے اکٹھے کھانے کی ترغیب دی۔
حضرت عمرؓ کا گزر کسی کے دروازے پر سے ہوا جہاں ایک سائل بھیک مانگ رہا تھا۔ وہ ایک بوڑھا آدمی تھا جس کی بصارت زائل ہو چکی تھی۔ آپؓ نے پوچھا: تم اہلِ کتاب کے کس گروہ سے ہو؟ اُس نے کہا :یہودی۔ آپؓ نے اس سے پوچھا: تمھیں کس چیز نے بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا: میں بڑھاپے، ضرورت مندی اور جزیہ کی وجہ سے بھیک مانگ رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور گھر میں سے اُسے کچھ لا کر دیا اور پھر آپؓ نے بیت المال کے نگران کو بلایا اور فرمایا: اِس کا اور اِس جیسے دوسرے لوگوں کا خیال رکھو۔ (کتاب الخراج، اَز ابو یوسف،ص ۱۳۶ )
مدینہ کے اطراف میں ایک نابینا بڑھیا رہتی تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ روزانہ علی الصبح اِس کے جھونپڑے میں جا کر اس کے لیے پانی اور دیگر ضروری خدمات انجام دیتے تھے۔ کچھ عرصے بعد آپ کو محسوس ہوا کہ کوئی شخص اِن سے پہلے آکر یہ کام کر جاتا ہے۔ ایک روز تحقیق کی غرض سے آپ ؓ کچھ رات گزرنے کے بعد وہاں تشریف لے گئے تو دیکھا خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ اِس ضعیفہ کی خدمت گزاری سے فارغ ہو کر اس کے جھونپڑے سے نکل رہے تھے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اِس بات کا خاص اہتمام کر رکھا تھا کہ ممالک محروسہ میں کوئی شخص فقر و فاقہ میں مبتلا نہ ہو۔ آپؓ نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ ہر مفلوج اور اپاہج فرد کو بیت المال سے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ (ہندی، کنزالعمال، اسلام اور کفالت عامہ،ص ۷۷)
ہاں اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں۔ جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اللہ اُسے اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔(الفتح ۴۸:۱۷)
گویا قانونِ اسلام نے معذور افراد کو ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کو اُن کا بنیادی حق قرار دیا اور مزید برآں اِس استثنا سے اِس بات کی نفی کی گئی کہ اِن افراد کو کم تر نہ سمجھا جائے کہ وہ جہاد میں شریک نہیں ہوئے۔ اسلام کی تعلیمات سے یہ امر واضح ہے کہ:
۱- اسلام معذور افراد کو معاشرے کا قابلِ احترام اور باوقار حصہ بنانے کی تلقین کرتا ہے۔
۲- اسلام اِس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ معذور افراد کو خصوصی توجہ دی جائے اور اُنھیں یہ احساس قطعاً نہ ہونے دیا جائے کہ اُنھیں زندگی کے کسی شعبے میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
۳- معاشرتی اور قومی زندگی میں ان پر کسی بھی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہ ڈالا جائے جو اِن کے لیے ناقابلِ برداشت ہو۔
۴- اسلام کے عطا کردہ جملہ حقوق کی ادایگی میں معذوروں کو ترجیحی مقام دیا جائے تاکہ معاشرے میں اِن کے اِستحصال یا محرومی کی ہر راہ مسدود ہو جائے۔
غزوۂ احد کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرو بن جموعؓ جو سب انصارکے بعد اسلام لائے۔ وہ ایک پائوں سے لنگڑے تھے۔ جب آپؐ نے صحابہ کرام کو غزوۂ بدر میں شریک ہونے اور اللہ کی راہ میں جہاد کی تبلیغ فرمائی، وہ جنگ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ اُنھیں اُن کے بیٹوں نے جانے سے منع کر دیا۔ پھر جنگ ِاُحد کا موقع آیا، اُنھوں نے اس بار جہاد میں شرکت کا قوی ارادہ کر لیا۔ مگر اُن کے بیٹوں نے اس بار بھی انھیں بوجہ عذر جنگ میں شمولیت سے منع کیا اور ارادہ ترک کرنے کی ترغیب دی۔ اُنھوں نے اپنے بیٹوں کی بات نہ مانی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! اگر میرے بیٹے جنگ میں شریک ہوسکتے ہیں تو میں بھی ضرور جائوں گا۔ خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ میں شہید ہو کر اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں جائوں گا۔آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری معذوری کی وجہ سے تم پر جہاد فرض نہیں ہے ۔یہ اللہ کی طرف سے تمھارے لیے چُھوٹ ہے مگر حضرت عمرو بن جموعؓ نے کہا کہ میں جہاد میں ضرور جائوں گا۔ آپؐ نے انھیں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت مرحمت فرما دی اور وہ اُسی جنگ میں شہید ہو گئے۔ (اسد الغابہ، حصہ ہفتم، ص ۶۷۸)
البتہ متقی لوگ اُس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ اُن کا رب اُنھیں دے گا اِسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اُس دِن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے، راتوںکو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروںمیں معافی مانگتے تھے، اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔(الذّٰریٰت۵۱: ۱۵-۱۹)
۱- متقی لوگ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہوں گے اور اِس راحت کے عوض وہ مخلوق میں سے محتاج اور معذور لوگوں کے خیر خواہ اور مددگار ہیں، خواہ وہ اُن سے طلب نہ کریں۔
۲- مالِ صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کے علاوہ بھی محروم لوگوں پر اپنے رزق اور مال سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔
۳- محروم لوگوں پر رحم کرنے کے بجاے اپنے فرائض کی بجاآوری خیال کرتے ہوئے ضرورت مند لوگوں کو تلاش کر کے اُن کی معاونت کرتے ہیں۔
۴- ضرورت مند افراد کو تلاش کر کے اُن کی ضروریات کو پورا کرنا ہی کافی نہیں سمجھتے بلکہ یہ عمل کرنے کے بعد اللہ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں۔
یہ بات جان لینی چاہیے کہ اہل ایمان کے مال و دولت میں سائل اور محروم کے جس حق کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اُس سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے جو شرعاً اُن پر فرض کی گئی ہے، بلکہ یہ وہ حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی ایک صاحب ِاستطاعت مومن اپنے مال میں خود محسوس کرتا ہے۔
معذور افراد کی زندگی کو باسہولت بنانے کے لیے مناسب سہاروں کو مہیا کرنا اسلامی معاشرے اور حکومت کا فرض ہے۔موجودہ دور میں معذور اور خصوصی افراد کو وہیل چیئرز، ٹرائی سائیکل، بیساکھیاں، آلۂ سماعت، خصوصی موٹر بائیک، گاڑی، مصنوعی اعضا وغیرہ کی فراہمی کے علاوہ اُن کے لیے تعلیمی سکول، ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر اور دیگر ضروری ادارہ جات کا قیام اسلامی روایات کی روشنی میں صاحبِ استطاعت لوگوں اور حکومت پر فرض ہے۔
کتنے خسارے کی بات ہوگی کہ اگر ہم مسلمان اور مومن بھی کہلوائیں اور اللہ کے بندوں سے تحقیر کا رویہ بھی اختیار کریں۔ زبانیں حمد و نعت سے مزین ہوں اور ان پر طعنے اور بدزبانی بھی رہے۔ رب کو راضی کرنے کا دعویٰ بھی ہو، اور اُس کے بندوں کو ستائیں بھی۔ لوگ ہماری عزت ہمارے شر کے خوف سے کریں۔ ایسے کردار کے حامل لوگوں کے بارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہماری راہ نمائی اور آخرت کی بہتری کے لیے کافی و شافی ہے:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: یَحْسَبُ اَمْرِیْ مِنَ الشَّرِّ اَنْ یَّحْقِرُ اَخَاہُ الْمُسْلِمِ (مسلم،کتاب البرواصلۃ ولادب ج۴، رقم ۲۵۲۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لیے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔