۱۲؍مختصر ابواب پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کے خطبات سیر ت کا خلاصہ ہے، جسے مرتب نے بہت محنت کے ساتھ احادیث کی تخریج اور جامع حواشی کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔
مرتب نے مقدمے میں بعض معروف نکات اٹھائے ہیں جن کا تعلق تاریخ کے نفس مضمون اور سیر ت کے عمومی تصور سے ہے ۔ باب اوّل میں مطالعہ سیرت کی ضرورت و واہمیت پر غازی صاحب کے مطالعہ سیرت کے نتیجے میں بیان کردہ خطاب کے اہم پہلو تحریر کیے گئے ہیں ۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ مطالعۂ سیرت کی اہمیت مسلمانوں اورغیر مسلموں دونوں کے لیے ہے (ص۲۷)۔ اگلے باب میں سیرت اور علوم سیرت کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس سے وابستہ تیسرا باب ہے جس میں بعض باتیں مکرر اور بعض اضافی بیان کی گئی ہیں ۔اس باب میں تاریخی جائزے میں اہم سیرت نگاروں کا اختصار سے تعارف شامل ہے ۔مستشرقین نے نہ صرف واقدی بلکہ ایسی کتب کو بھی اپنا ذریعۂ معلومات بنایا ہے جو تاریخی اصول تنقید کی روشنی میں تحریر نہیں کی گئیں، جیسے کتاب الاغانی۔ مصنف نے واقدی کے حوالے سے اس عام تصور کی وضاحت کر دی ہے کہ تمام تر احتیاط کے باوجود اس کی تاریخی معلومات میں تاریخیت پائی جاتی ہے۔(ص ۷۸-۸۰)
مصنف نے مدینہ کی اسلامی ریاست کی معاشرت و معیشت کے حوالے سے ساتویں باب میں قیمتی معلومات کا خلاصہ پیش کیا ہے ۔ کلامیاتِ سیرت، فقہاتِ سیرت، دو ایسے موضوع بھی اٹھائے گئے ہیں جو عموماً کتب سیرت میں زیر بحث نہیں لائے جاتے۔ پھر برعظیم میں مطالعۂ سیرت کا تاریخی جائزہ پیش کیا گیا ہے جو اسلامی تاریخ اور عام تاریخ کے طلبہ کے لیے بھی مفید ہے ۔ دورِ جدید میں مطالعۂ سیرت کا جائزہ بھی معلومات افزا ہے۔ آخری باب میں تجویز کیا گیا ہے کہ عمرانی علوم کی علمی و تحقیقی حکمت عملی (Research Methodology) سے مدد لیتے ہوئے سیرت پاک سلسلے کے بعض ایسے پہلو زیر تحقیق آنے چاہییں جن پر ابھی تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی ۔ سیرتِ پاکؐ پر یہ ایک مفید کتاب ہے، جسے عمومی سطح پر زیرمطالعہ لانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
پاکستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر ،پروفیسر شعبۂ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔علمی تحقیق ،شعر و ادب اور خود نوشت، غرض ہر شعبے میں ڈاکٹر صا حبہ نے اعلیٰ معیاری تصانیف پیش کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ایک ایسی شخصیت سے تعلق رکھتی ہے، جس کے عقائد نے امت مسلمہ کے ایک محدود حصے کو متاثر کیا اور اپنی قدیم یا جدید شکل میں ان میں سے بعض عقائد کے آثار آج تک مشاہدے میں آتے ہیں ۔
مؤرخ کا قلم غیر جانب دار ،حقائق کا متلاشی اور بے باک نہ ہوتو غیر محسوس طور پر ذاتی وابستگی اور بعض اوقات تعصب کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہاں، اگر وہ اپنے تعصبات سے خود آگاہ ہو تو توازن و اعتدال کا دامن نہیں چھوڑتا ۔مغرب زدہ مسلم مؤرخین تاریخ کی تاریخ کے بیان میں جرمن تاریخ دان Rankeکو حقائق پرست ،تاریخ نگاری کا علَم بردار سمجھتے ہیں، جب کہ تصور تاریخ، جدلیاتی فکر سے متاثر ہو یا ما دیت یا سرمایہ دارنہ طرز فکر کاا سیر ہو،حتیٰ کہ نام نہاد سائنٹی فک طریق تحقیق سے وابستہ ہو ، داخلی وابستگی سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ مؤرخ حقائق کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے جو عینک زیب ناک کر رکھی ہے وہ حقائق کی صداقت تک پہنچنے میں اس کی راے پر غیرمحسوس طور پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔آج اردو زبان جس مقام پر پہنچ گئی ہے اس میں سلیس اردو کی ہر تحریر پڑھ کر تقویت ہوتی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
جناب عنایت علی خاں کی شہرت تو طنزومزاح کے شاعر کی ہے اور یہ ہے بھی سچ۔ وہ مشاعروں میں اسی مزاحیہ کلام سے دھوم مچاتے ہیں مگر ان کے کسی مجموعے کو دیکھ کر اور بالخصوص کلیات کو دیکھ کر یہ واضح احساس ہوتا ہے کہ ان کو محض طنزومزاح کا شاعر سمجھنا ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ وہ ایک دردمند ، محب ِ وطن اور حالاتِ حاضرہ سے باخبر شاعر ہیں۔
انھیں ہر صنف میں اپنی بات کہنے کا ہنر آتا ہے۔ بحرِبیکراں، افراد ہو یا راج کہانی یا ’ورلڈکپ‘ جو ان کی سب سے زیادہ مشہور نظم ہے، کسی کو بھی دیکھیے آپ کو محسوس ہوگا کہ اُن کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے اور پیش کرنے کا سلیقہ بھی۔ صرف ایک نظم کا ایک بند دیکھیے:
ہم ہیں صاحب، ہم کو ورثے میں ملی یہ صاحبی
ایک پی او ، ایک شوفر ، گیٹ پر دو سنتری
ہے شہنشاہی جسے سمجھا ہے تم نے نوکری
قوم کے افراد سارے ہیں ہمارے خدمتی
ان کی شہرت تو ضرور ایک شاعر کی ہے مگر وہ مصنف ہیں، محقق ہیں ،مترجم ہیں اور مذہب پر کامل اعتقاد رکھنے والے عالم باعمل ہیں۔ تمام زندگی پڑھتے پڑھاتے گزری ہے۔ ان کی نظم ’ٹیوٹر‘ پڑھیے تو علم کی ناقدری کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔
کلیات کی اشاعت پر ان کو مبار کباد تو دی جاسکتی ہے مگر ابھی ان سے اور بھی بہت سی توقعات ہیںجو ان شاء اللہ پوری ہوں گی۔
۶۷۲ صفحات کی اس کتاب میں ۱۵۰ سے زائد صفحات پر شاعرِ خوش کلام کے بارے میں نامی گرامی شخصیات کا اظہار خیال ہے۔ یہ تحریریں شاعر کی شخصیت ، ان کے مقام، ان کے کلام ، ان کی ذاتی زندگی، اخلاق و کردار، رویوں اور سوچ و فکر سب کے بارے میں گواہی پیش کرتی ہیں۔ جو تحریریں بعد میں لکھی جاتی ہیںعنایت صاحب نے سامنے ہی لکھوا لی ہیں۔
گواہی دینے والوں میں نعیم صدیقی، ضمیرجعفری، مشفق خواجہ، تابش دہلوی، انورمسعود، افتخار عارف، ڈاکٹر طاہر مسعود، ابونثر اور دیگر شامل ہیں۔ عطاء الحق قاسمی نے انھیں شاعروں کا پطرس قرار دیا ہے۔ عنایت صاحب نے خود اپنے حالات بھی لکھ دیے ہیں کہ سند رہے۔ ایک تحریر ہمزاد خاں کی بھی ہے۔ کلیات، عنایت علی خاں کی یادگار ہے اور اللہ انھیں زندگی اور صحت دے اور سلسلۂ عنایت از راہِ عنایت جاری رہے اور اہلِ ذوق کو کلیات کے دوسرے تیسرا ایڈیشن نصیب ہوں۔(وقار احمد زبیری)
اُردو میں اہلِ علم و ادب اور اکابرِ ملک و ملّت کی خدمات کے اعتراف میں اَرمغان یا یادگاری کتاب پیش کرنے کی ایک روایت برسوں سے چلی آرہی ہے۔ مسلّمہ روایت میں تو ’ارمغانِ علمی‘ متعلقہ شخصیت کی دل چسپی کے موضوعات پر غیرمطبوعہ علمی مضامین پر مبنی ہوتی ہے۔ اُردو میں ایسے ارمغانوں کی تعداد تقریباً دو درجن ہے( ’انگشت شمار‘ نہیں جیساکہ زیرنظر مجموعے میں بتایا گیا ہے)۔ زیرتبصرہ کتاب ان معنوں میں تو ’ارمغانِ علمی‘ نہیں مگر پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد خورشیدالحسن رضوی (ولادت: ۱۹مئی ۱۹۴۲ئ) کی شخصیت، حالاتِ زندگی، تصانیف و تالیفات، شاعری وغیرہ پر مطبوعہ مضامین اور تبصروں کا ایک خوب صورت مجموعہ ہے جسے ان کے شاگرد ڈاکٹر زاہد منیر عامرنے (جو خود بھی ایک بڑے نام وَر استاد، محقق، مصنف اور شاعر ہیں) بڑی محنت اور محبت سے تیار کر کے پیش کیا ہے۔
خورشید رضوی اُن ’پراگندا طبع‘ لوگوں میں سے ہیں جن کی تعداد ہمارے معاشرے سے روز بروز گھٹتی جارہی ہے۔ صاحبانِ علمیت و ذہانت تو مل جاتے ہیں مگر بے غرض، بے ریا اور نام و نمود کی خواہش سے بے نیاز (خورشید رضوی ایسے)کم ہی ملتے ہیں۔ اس کتاب میں رضوی صاحب کے بارے میں ان کے بعض اساتذہ کی آرا بھی شامل ہیں، مثلاً: ڈاکٹر سیّد عبداللہ، ان کی ’دانش ورانہ صلاحیتوں‘ کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’خورشید رضوی کے عربی زبان و ادب کے غیرمعمولی علم نے مجھے نمایاں طور پر متاثر کیا‘‘۔ ڈاکٹر ایس ایم زمان فرماتے ہیں: ’’ڈاکٹر خورشیدرضوی کے تحقیقی مضامین پر نظر ڈالیں تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ، محتاط، ذہین وطباع، محقق و مفکر ہیں یا صاحب ِ طرز ادیب…؟ وہ یہ سبھی کچھ ہیں‘‘۔ اسی طرح ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق کو ہزاروں طالب علموں میں سے ’’صرف ایک ہونہار نوجوان [خورشید رضوی] میں علماے سلف رحمہم اللہ کے اوصافِ عالیہ کی کچھ جھلک نظر آئی‘‘۔
اساتذہ کی ان آرا کے ساتھ رضوی صاحب پر اُردو کے نام وَر ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور نقادوں کے مختصر اور طویل مضامین بھی شامل ہیں۔یہ مضامین خورشیدصاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں (بطور شاعر، بطور محقق، بطور نقاد، بطور مترجم) کا ا حاطہ کرتے ہیں۔ مؤلّف نے مجموعے کو مزید وقیع اور روشن کرنے کے لیے خود خورشیدصاحب کے تین خطباتِ صدارت، مصاحبے (انٹرویو) اور مکاتیب بھی (مع چھے انگریزی تحریرات) شامل کردیے ہیں۔
یہ بہت خوش آیند بات ہے کہ ایک ایسے شخص پر، جس کا ادب میں کوئی دھڑا نہیں ہے اور وہ ترقی پسند بھی نہیں ہے اور شہرت کا طلب گار بھی نہیں، اتنی بڑی تعداد میں لکھنے والوں نے ازخود لکھا ہے، لیکن دوسری طرف یہ بات افسوس اور تشویش کی ہے کہ ہماری جامعات اور علمی و تحقیقی اداروں نے خورشید رضوی ایسے نادر ِ روزگار عالم سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے ستایش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر، اپنی دُھن میں عربی ادب پر بے مثال تحقیقی و تنقیدی کام کیا ہے۔
مرتب کا ذوقِ تالیف و ترتیب بھی قابلِ داد ہے۔ انھوں نے مجموعے کو دل چسپ بنانے اور پیش کش کو نہایت خوب صورتی سے سامنے لانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ لیکن اگر وہ زیرنظر نسبتاً آسان کام کے بجاے اصل ’ارمغانِ علمی‘ تیار کرتے تو اور زیادہ مبارک باد کے مستحق اور ’مرداں چنیں کنند‘ کا مصداق ہوتے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
زیرنظر کتاب غالباً مصنف کا ایم فل اُردو کا تحقیقی مقالہ ہے۔ اشاعت کے موقعے پر ممکن ہے اس میں ترامیم اور تبدیلیاں کی گئی ہوں۔ مصنف نے ایم فل اُردو کے لیے ’اُردو قاعدہ، تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا جس میں اِملا اور رسم الخط کے مسائل بھی زیربحث آئے تھے۔ انھی مسائل کی وضاحت اور حل کے سلسلے میں انھوں نے زیرنظر کتاب تصنیف کی ہے۔ اس میں ان کے تحقیقی مقالے کا ایک حصہ بھی شامل ہے۔
اُردو زبان بالعموم خط ِ نستعلیق میں لکھی جاتی ہے جو ہمارے نزدیک دنیا کا سب سے خوب صورت رسم الخط یہی ہے۔ لیکن جہاں اِملا درست نہ ہو اور اِملا میں یکسانیت کا فقدان ہو، وہاں اُردو کی خوب صورتی ماند پڑ جاتی ہے۔ مصنف کی خواہش بجا ہے کہ اُردو لکھنے والا ہرشخص درست اِملا لکھے۔ اس کے لیے انھوں نے درست اِملا کے اصول بھی بتائے ہیں، مثالیں بھی دی ہیں اور ۲۱صفحات کا ایک لغت بھی شاملِ کتاب کیا ہے۔ اس میں درست اِملا میں ۵۰۰ سے زائد الفاظ دینے کے ساتھ ان کے لغوی معنی بھی دیے گئے ہیں۔
درست اِملا کی اہمیت اپنی جگہ مگر زبان کی خوب صورتی اِملا کے علاوہ الفاظ کی آلودگی سے بھی متاثر ہوتی ہے بلکہ زبان بگڑ جاتی ہے۔ ہمارے اخبارات،ریڈیو، ٹیلی وژن اور مقررین مل جل کر اس بگاڑ میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، مثلاً: انگریزی الفاظ کا بے جا اور غیرضروری استعمال ۔ اسی طرح اُردو الفاظ کے جمع بنانے میں اُردو کے بجاے انگریزی اصولوں اور قاعدوں کو اپنانا وغیرہ۔ مصنف کو اِملا کے ساتھ ساتھ اس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے تھی۔
اُردو اِملا کا المیہ یہ ہے کہ نہ صرف افراد (مصنف، خوش نویس، پروف خواں) بلکہ ادارے (علمی و ادبی انجمنیں ، جامعات کے اشاعتی شعبے، ناشر وغیرہ) بھی اِملا کے مسلّمہ اصولوں کی پاس داری نہیں کرتے۔ یوں وہ بھی زبان کی آلودگی بڑھانے میں شامل ہیں۔
زیرنظر کتاب میں لیے کو لئے، دیے کو دیئے، رشید حسن خاں کو رشید حسن خان اور ہیئت کو ہیت لکھا گیا ہے، جو ان الفاظ کا درست اِملا نہیں ہے۔ کتاب میں رُموزِ اوقاف پر بھی بحث ہے مگر مصنف کے اپنے دیباچے میں رُموزِ اوقاف کا اہتمام نہیں ملتا۔ کتابت کی اَغلاط بھی کم نہیں اور پروف ریڈنگ بھی احتیاط سے نہیں کی گئی۔ ان خامیوںکے باوجود مصنف کی کاوش قابلِ قدر ہے۔ اُمید ہے آیندہ ایڈیشن میں وہ کتاب کو بہتر اور مفید تر بنائیں گے۔(رفیع الدین ہاشمی)
علامہ اقبال کے افکار جس طرح شاعری میں اپنی ندرت اور تاثیر کے باعث قبولِ خاطر ہیں، اسی طرح نثر میں بھی ان کے نظریات واضح ہیں۔ ان کے خطوط کے ۱۰،۱۲ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
زیرنظر مجموعۂ مکاتیب سیّد نذیرنیازی کے نام ۱۷۸ خطوط پر مشتمل ہے۔ دو خطوط نذیر نیازی کے نام نہیں، تاہم وہ بھی اس مجموعے میں شامل ہیں۔ سید نذیر نیازی نے ۱۹۵۷ء میں یہ خطوط مکتوباتِ اقبال کے عنوان سے شائع کیے تھے۔ اب یہ مکاتیب متن کی تصحیح کے بعد شائع کیے گئے ہیں۔ ان خطوط کی عکسی نقول مرتب کو اقبال اکادمی سے حاصل ہوگئی تھیں۔ سیّد نذیرنیازی کے شائع کردہ مکتوباتِ اقبال میں سیکڑوں اغلاط تھیں اور غیرضروری طویل حواشی تھے جو زیرنظر مجموعے میں حذف کردیے گئے ہیں۔ سیّد نذیر نیازی کے نام یہ خطوط ۱۹۲۹ء سے ۱۹۳۷ء تک کے عرصے میں تحر یر کیے گئے۔ علامہ اقبال نے ان خطوط میں اپنی تصنیفات، بعض شخصیات، اپنے اسفار، علمی کانفرنسوں میں شرکت،اور اپنی بیماری وغیرہ کا ذکر کیا ہے اور بعض خطوں میں علمی مسائل پر کلام کیا ہے۔
مرتب نے سیّد نذیر نیازی کی کتاب مکتوباتِ اقبال کی تصحیح کرتے ہوئے اگرچہ بہت سی اغلاط کی درستی کی ہے جس کے باعث زیرنظر مجموعہ پہلے مطبوعہ نسخے مکتوباتِ اقبالکی نسبت بہتر حالت میں ہے۔ تاہم زیرنظر تصحیح کردہ نسخے میں بھی متعدد اغلاط موجود ہیں۔ بعض خطوط کے عکس دے دیے جاتے تو بہتر ہوتا۔ مرتب نے مکاتیب کے متن کی صحت کا خیال رکھنے کی کوشش کی ہے، تاہم پروف عجلت کے بجاے ذمہ دارانہ احساس کے ساتھ احتیاط سے پڑھے جاتے تو یہ اغلاط نہ رہتیں۔ (ظفر حجازی)
o زندگی اسوئہ رسولؐ کے سنگ ، علامہ محمد علی بِکری صدیقی شافعیؒ، ترجمہ: غلام مصطفی القادری۔ ناشر: ساگرپبلشرز، فرسٹ فلور، ۳۰- الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۰۴۲۳-۰۴۲۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [شمائلِ نبویؐ اور گیارھویں صدی ہجری کے محدث علامہ محمدعلی بن علان بن ابراہیم بِکری صدیقی شافعی کی عربی تصنیف کا اُردو ترجمہ ہے۔ علامہ علی بِکری نے روایاتِ احادیث کی صورت میں محسنِ انسانیت ؐ اور ہادیِ عالم ؐ کے شمائل وخصائل، عادات و معمولات، طبع و مزاج گرامی اور رسولِ کریمؐ کے استعمال میں رہنے والی اشیا، سواریوں، لباس و بستر وغیرہ کا تذکرہ مرتب کیا ہے۔ سیرتِ پاکؐ کے یہ پہلو بھی لائقِ اتباع ہیں۔]
o شرح اربعین امام حسینؓ، عبداللہ دانش۔ ناشر: العاصم اسلامک بُکس۔ ۲۸-الفضل مارکیٹ، ۱۷-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۱۲۲۴۲۳-۰۴۲۔صفحات: ۴۷۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [مرتب نے چند برس قبل امام حسینؓ کے فضائل و مناقب اور شہادت سے متعلق احادیث ِ رسولؐ اور تاریخی روایات کا ایک مجموعہ اربعین امام حسینؓ کے نام سے شائع کیا تھا۔ اب اسی مجموعے کی شرح، تخریج اور کتاب کے نام میں ایک لفظ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ اربعین امام حسینؓ عنوان سے تاثر ملتا ہے کہ یہ امام حسینؓ کی جمع کردہ احادیث ِ رسولؐ کا مجموعہ ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ان سے متعلق روایات ہیں جن کو مرتب نے صحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ طباعت معیاری ہے۔]
o ادب: کس کا، کیوں اور کیسے؟ ، مولانا حکیم محمد ادریس فاروقی، محمد نعمان فاروقی۔ ناشر: مسلم پبلی کیشنز، ۲۵-ہادیہ حلیمہ سنٹر، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۱۰۰۲۲-۰۴۲۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت ( مجلد): ۳۹۰ روپے۔ [اللہ تعالیٰ، رسولؐ اللہ، قرآنِ مجید، احادیث ِ رسولؐ ، صحابہؓ و اہلِ بیتؓ ، حرمین شریفین و دیگر مساجد، ائمہ محدثین و فقہا، اولیاے کرام، والدین، اساتذہ اور بڑوں کے ادب و احترام پر قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ اسلوب عام فہم اور واقعات مستند۔ مصنف کا زاویۂ نظر درست ہے۔]
o تربیت اولاد میں ماں کا کردار، عائشہ کرامت شیخ۔ ناشر: اسلامک سروسز سوسائٹی، ۱۷۹-اے ، احمدبلاک، نیو گارڈن ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۸۶۳۱۹۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۷۔ قیمت: درج نہیں۔[معاشرتی بگاڑ کا بنیادی سبب اخلاق اور دین سے دُوری ہے اور نوجوان نسل بالخصوص اس کا ہدف ہے۔ اس انحطاط کو روکنے اور نوجوان نسل کی صحیح خطوط پر تربیت کے لیے ایک ماں کا مطلوبہ کردار اور راہ نمائی کے اصول اس کتابچے میں ایک مختلف اسلوب میں بیان کیے گئے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے ایک مختصر اور جامع کتاب۔]