بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ o اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o(الذٰریٰت۵۱ :۱۵-۱۶) البتہ متقی لوگ اس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ ان کا رب انھیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے۔
یہ سورئہ ذاریات کے پہلے رکوع کی آیات ہیں۔ سورئہ ذاریات منکرینِ آخرت کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی ہے اور آخرت کے متعلق جو ان کے شبہات اور اعتراضات تھے اور اس کے انکار پر وہ اصرار کر رہے تھے، اس کے اُوپر استدلال بھی کیا گیا ہے اور ان کو تنبیہہ بھی کی گئی ہے۔
اس سے پہلے جو آیات گزر چکی ہیں ان کے اندر سب سے پہلے ہوائوں کے انتظام کو بطورِ دلیل کے پیش کیا گیا ہے۔ ہوائوں کا چلنا اور ان سے بارشوں کا آنا اور بارشوں کا ایک قاعدے کے مطابق اور ایک تنظیم کے ساتھ زمین کے مختلف حصوں پر تقسیم ہونا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا یہ نظام ایک حکیمانہ نظام ہے۔ یہ حکمت اور دانائی پر مبنی ہے، کسی بچے کا کھیل نہیں ہے۔ جب یہ حکیمانہ نظام ہے تو اس کے متعلق کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اس زمین پر انسان کو پیدا کرنے کے بعد، اس کو طرح طرح کے اختیارات دینے کے بعد، اس کے اندر اخلاقی حس پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو مرنے کے بعد خاک میں ملا دے گا اور معدوم کردے گا اور پھر کبھی اس کو اُٹھا کر یہ نہ پوچھے گا کہ اس نے دنیا کی زندگی میں کیا کام کیا اور کس طرح کیا، درست نہیں۔ اگر یہ کسی بچے کا کھلونا ہوتا تو وہ اس سے کچھ دیر کھیلنے اور اس سے دل بہلانے کے بعد پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے اسے توڑ ڈالتا اور پھر پلٹ کر نہ دیکھتا۔
درحقیقت اس کائنات کا نظام کسی بچے کا کھلونا نہیں ہے بلکہ ایک حکیمانہ نظام ہے۔ اس میں ہزارہا برس سے حق اور باطل کی کش مکش چل رہی ہے۔ ہزارہا آدمیوں نے حق کا ساتھ دیا اور لاکھوں آدمیوں نے باطل کو سربلند کرنے کے لیے کوشش کی ہے۔ لوگوں نے حق اور باطل کی اس کش مکش میں اپنی زندگیاں کھپائی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں آدمیوں نے ظلم سہے اور لاکھوں کروڑوں آدمیوں نے ظلم کیے۔ یہ سب کچھ برپا ہونے کے بعد آخرکار دونوں کا ہی ایک جیسا انجام ہوجائے، ظلم کرنے والے سے کبھی نہ پوچھا جائے کہ تم نے کیوں ظلم کیا تھا اور مظلوم کی کبھی کوئی داد رسی نہ کی جائے، یہ حکمت اور انصاف کے خلاف ہے۔
استدلال یہ تھا کہ اس کائنات کا نظام ایک حکیمانہ نظام ہے اور اس کے اندر کسی شخص کا یہ تصور کرنا کہ یہ یونہی ختم کردیا جائے گا، بغیر اس کے کہ اس میں انصاف ہو، اس میں کوئی عدالت ہو، جس میں اعمال کی بازپُرس ہو، یہ ایک احمقانہ خیال ہے۔
اس کے بعد دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ محض گمان اور اٹکل سے یوں ہی الل ٹپ فیصلے کر دینا کہ اس کائنات میں انسان کا انجام کیا ہوگا؟ یہ ایک غلط بات ہے۔ اتنا بڑا اور اہم مسئلہ ہو اور اس چیز کو انسان محض اپنے گمان سے حل کردے درآں حالیکہ اس کے بارے میں انسان کے گمان مختلف بھی ہیں۔ کوئی گمان کرتا ہے کہ تناسخ ہوگا۔ کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ مرکر یوں ہی مٹی ہوجائیں گے۔ کوئی گمان کرتا ہے کہ مرکر اُٹھیں گے تو سہی لیکن کچھ لوگ سفارش کرکے اپنے متوسلین کو اور ان لوگوں کو جنھیں وہ نذرانے دیتے ہیں ان کے گناہ معاف کروا لیں گے۔ اس طرح آخرت کے متعلق لوگ مختلف گمان کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ سارے گمان تو صحیح نہیں ہوسکتے۔ صحیح چیز یہ ہے کہ یہ اعتقاد علم پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ محض قیاس اور گمان پر۔
تیسری بات یہ فرمائی گئی کہ تمھارے گمانوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ تم بار بار چیلنج کے انداز میں پوچھتے ہو کہ کہاں ہے وہ آخرت اور وہ کیو ں نہیں آتی؟ وہ آخرت آئے گی اور آکر رہے گی اور جب وہ آئے گی تو تم آگ پر تپائے جائو گے۔ جن لوگوں نے بھی آخرت کا انکار کیا اور اپنے آپ کو غیرذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھا اور دنیا میں بے نتھے بیل کی طرح رہ رہے ہیں، آخرکار ان کا جو انجام ہونا ہے وہ یہ ہے کہ وہ آگ پر تپائے جائیں گے۔ اور ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ یہ وہی چیز تو ہے نا جس کا تم دنیا میں انکار کرتے تھے اور جس کو تم جھٹلاتے تھے۔
اس سلسلے میں مزید یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو دنیا میں آخرت کا انکار کرکے شتربے مہار کی طرح رہ رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو آخرت کا اقرار کرکے تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ تقویٰ اختیار کرنے والوں میں سے کوئی بھی شخص آخرت کا انکاری نہیں ہوتا۔ آخرت کا اقرار کر کے ہی آدمی کے اندر تقویٰ پیدا ہوتا ہے، لہٰذا جن لوگوں نے آخرت کا اقرار کر کے تقویٰ اختیار کیا وہ اُس وقت اللہ کی جنتوں اور چشموں میں ہوں گے۔ جنت عربی زبان میں باغ کو کہتے ہیں، یعنی وہ وہاں باغوں میں ہوں گے۔ گویا ایک طرف آخرت کا انکار کرنے والے ہوں گے جنھیں وہاں آگ پر تپایا جائے گا، اور دوسری طرف آخرت کا اقرار کرنے والے ہوں گے اور وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o (۵۱ :۱۶) جوکچھ ان کا رب انھیں دے گا وہ خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے قبل نیکوکار تھے۔
گویا یہ لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے نیک تھے۔ انھوں نے نیکوکاری اختیار کی تھی۔ اس لیے یہ لوگ جنت کے مستحق ٹھیرے ہیں۔
اب ان کی مزید صفات بیان کی گئی ہیں کہ ان کی نیکی کیا تھی:
کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ o وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ o وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (۵۱:۱۷-۱۹) وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے، راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے، اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔
یہ ایسے لوگ تھے جو راتوں کو کم ہی سوتے تھے۔ رات کے آخری حصے میں استغفار کرتے، اللہ تعالیٰ سے درگزر اور مغفرت کی دعائیں مانگتے تھے، اور ان کے مالوں میں سائل اور مسکین کا حق تھا۔
ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ قرآنِ پاک میں ایک جگہ پر نیک کاموں کی فہرست بناکر یک جا پیش نہیں کی گئی۔ نیکی کس کو کہتے ہیں؟ یہ پورے قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔ بدی کسے کہتے ہیں؟یہ بھی قرآن کے اول سے لے کر آخر تک لکھا ہوا ہے۔ مختلف مقامات پرجہاں کسی چیز کا کوئی بیان آتا ہے کہ نیک کون ہے اور بد کون، تو وہاں ایک دو نمونے کی چیزیں لے کر چند صفات بیان کردی جاتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں نیکی کے تمام کاموں کی فہرست موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ نمونے کی چند صفات کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اصولی بات کی جاسکتی ہو۔ اسی طرح سے بدی ہے۔ مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ بدی کی مختلف چیزوں کی مذمت فرماتے ہیں۔ کسی ایک جگہ ان تمام صفات کو بیان نہیں کردیا گیا ہے جو بُری ہیں۔ موقع محل کے لحاظ سے ایک دو چیزیں بیان کی جاتی ہیں جن سے آدمی سمجھ سکتا ہے کہ بُرائی کیا ہے؟
یہاں بھی احسان اور تقویٰ کا ذکر کرنے کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کی وجہ سے یہ لوگ جنت میں جائیں گے وہ ان کا تقویٰ اور احسان ہے۔
تقویٰ اس چیز کا نام ہے کہ آدمی بُرائی سے اس بنا پر ڈرے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ ناپسندہے۔ اللہ تعالیٰ کا غضب اس کی وجہ سے ہوگا۔ اس لیے وہ بُرائی سے بچنے کی کوشش کرے گا۔
احسان اس چیز کا نام ہے کہ آدمی بہتر سے بہتر رویہ اختیارکرنے کی کوشش کرے۔
آگے چل کر ان لوگوں کی بطورِ نمونہ دو صفات پیش کی گئی ہیں جن کے اندر تقویٰ اور احسان پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ راتوں کو کم ہی سوتے ہیں اور رات کے آخری حصے میں استغفار کرتے ہیں۔ یہاں بطورِ نمونہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کا کیا کام پسند ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس دنیا میں انسان کے تعلقات کو اگر آپ تقسیم کریں تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہوں گے۔ ایک یہ کہ آدمی کا خدا سے کیسا تعلق ہے اور دوسرے یہ کہ بندوں سے آدمی کا کیسا تعلق ہے۔
یہاں پہلی چیز یہ بتائی گئی کہ خدا سے ان کا کیا تعلق ہے۔ خدا سے ان کا تعلق یہ ہے کہ وہ رات کو کم سوتے ہیں اور رات کے آخری حصے میں اُٹھ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں۔ اگر ایک شخص استغفراللہ، استغفراللہ پڑھ رہا ہو تو اس میں اس بات کا امکان ہے کہ وہ ریاکاری کررہا ہو اور اس میں خلوص نہ ہو۔ رات کے آخری حصے میں اگر کوئی شخص استغفار کرتا ہے تو اس وقت وہ اور اس کا رب ہوتا ہے اور درمیان میں کوئی اور نہیں ہوتا۔ اس وقت اگر کوئی آدمی استغفار کرتا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ وہ خلوص کی بنا پر یہ کر رہا ہے ۔ اس کے دل کو لگی ہوئی ہے۔ وہ ریاکاری نہیں کررہا۔ اپنے رب سے پُرخلوص تعلق کی وجہ سے وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ رات کے آخری حصے میں جب کوئی دیکھنے اور سننے والا نہیں ہے، اس کے اور اس کے رب کے درمیان یہ تعلق اس کے خلوص کا نتیجہ ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ وہ استغفار کرتا ہے۔ ایک طرف وہ شخص ہے جو دنیا میں ظلم کرتا ہے، زیادتیاں کرتا ہے، حرام خوریاں کرتا ہے، لوگوں کے حقوق مارتا ہے لیکن پھر بھی اس کو استغفار کا خیال نہیں آتا۔ اللہ سے معافی مانگنے کا خیال تک اس کے دل میں نہیں آتا۔
دوسرا آدمی وہ ہے جو تقویٰ کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ کسی چیز کے بارے میں اسے خیال ہوتا ہے کہ اس میں میرے رب کی ناراضی ہوگی، اس سے وہ پرہیز کرتا ہے۔ جن جن بھلائیوں کے متعلق اسے علم ہے کہ وہ اس کے رب کو پسند ہیں، ان کو وہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سب کے باوجود وہ استغفار کرتا ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میرے رب کا میرے اُوپر جو حق تھا مَیں اس کو پوری طرح ادا نہیں کرسکا۔ اس کو یہ غلط فہمی نہیں ہوتی کہ میں نے اپنے رب کے سارے حقوق ادا کر دیے ہیں۔ میں تمام بُرائیوں سے بچ گیا ہوں اور کبھی مجھ سے کوئی بُرائی سرزد نہیں ہوئی۔ ساری نیکیاں اور بھلائیاں میں نے کرلی ہیں اور کوئی نیکی اور بھلائی مجھ سے نہیں چھوٹی۔ اس غلط فہمی میں وہ کبھی مبتلا نہیں ہوتا۔ سارے نیک عمل جو وہ کرسکتا ہے ان کو کرنے کے بعد اور ساری وہ بُرائیاں جن کو وہ کرسکتا ہے ان سے بچنے کے بعد بھی وہ اپنے رب سے درگزر ہی کی درخواست کرتا ہے، اور معافی ہی مانگتا ہے۔ یہ پہلی صفت ہے کہ خدا کے ساتھ اس بندے کا کیا تعلق ہے۔
وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o(۵۱:۱۹) ان کے مالوں میں حق ہے سائل اور محروم کا۔
یہاں اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ ایک وہ آدمی ہے جس پر دوسرے لوگوں کے قانونی حقوق عائد ہوتے ہیں اور وہ ان کو ادا کرتا ہے۔ شرعاً اس پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں وہ ان کو ادا کرتا ہے۔ یہ بھی نیکی ہے ۔ لیکن اس سے آگے بڑے درجے کی نیکی یہ ہے کہ بظاہر کسی کا کوئی حق آپ پر نہیں آرہا۔ کسی قانون میں نہیں لکھا ہے کہ ایک آدمی آپ سے مدد مانگنے کے لیے آئے تو آپ پر لازم ہے کہ اس کی مدد کریں۔کسی قانون میں یہ نہیں لکھا ہے کہ فلاں آدمی اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ جا کر اس کو پہنچائیں۔ کوئی فریضہ آپ پر اس طرح کا عائد نہیں ہوتا لیکن باوجود اس کے ایک آدمی ان لوگوں کے حق کو محسوس کرتاہے کہ جن کا حق اس پر ازروے قانون عائد نہیں کیا گیا۔ اس کے اُوپر کوئی فریضہ عائد نہیں ہے لیکن وہ اپنی جگہ یہ احساس رکھتا ہے کہ جو بندہ مدد کا محتاج ہے اور میرے پاس آکر اپنی حاجت ظاہر کرتا ہے، مجھ سے درخواست کرتا ہے کہ میں مدد کا محتاج ہوں،اس آدمی کا حق وہ اپنے اندر خود محسوس کرتا ہے۔ آپ خود یہ محسوس کرتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے اس میں اس آدمی کا بھی حق ہے درآں حالیکہ قانون نے وہ حق آپ پر عائد نہیں کیا۔ یہ ایک اخلاقی حق ہے لیکن ازروے قانون آپ پر لازم نہیں ہے۔
اسی طرح اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک آدمی آپ کے پاس آکر کہتا ہے کہ میں حاجت مند ہوں اور میری مدد کیجیے۔ ایک دوسرا شخص ہے کہ جس کے علم میں ہے کہ یہ شخص اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے۔ اس کے گھر آج کھانے کو نہیں ہے۔ اس کے پاس کپڑے نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو پہنا سکے۔ غرض کسی نہ کسی طرح آپ کے علم میں یہ بات آجائے کہ ایک آدمی اپنی ضروریات پوری کرنے کے ذرائع سے محروم رہ گیا ہے۔ محروم اسی آدمی کو کہیں گے جو مدد مانگنے کے لیے مجبور ہے لیکن مدد مانگنے کے لیے نہیں آتا، اور جو آکر مدد مانگے وہ سائل ہے۔ جب آپ محسوس کریں کہ میرے پاس جو مال ہے اس میں اس کا بھی حق ہے۔ یہ صرف میرا مال ہی نہیں ہے کہ مَیں نے اسے کمایا ہے ۔ میرے بال بچوں کا ہی حق نہیں ہے کہ وہ میرے بال بچے ہیں۔ نہیں، بلکہ اس میں اس آدمی کا بھی حق ہے جو اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے اور ان حقوق کو وہ محسوس کر کے ادا کردے۔اللہ کے بندوں کے ساتھ جو بہترین تعلق آپ محسوس کرسکتے ہیں وہ اس کے اندر آگیا۔
ظاہر بات ہے کہ جو آدمی بندوں کے حقوق کو اس طرح سے محسوس کرتا ہو، اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ بندوں کے حقوق کو اس طرح سے محسوس کرے اور پھر انھیں ستائے بھی۔ ان کے ساتھ شرارتیں بھی کرے، ان پر طنز بھی کرے اور ان کے ساتھ زیادتیاں بھی کرے اور ان کے حقوق بھی مارے۔ اس کا آپ تصور نہیں کرسکتے۔ بندوں کے ساتھ بہترین تعلق کی جو صورت ہوسکتی ہے، یہاں اس کا ایک نمونہ بیان کر دیا گیا ہے جس سے آپ تصور کرسکتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی اس کا خدا کے بندوں کے ساتھ کیا رویہ ہوگا۔
خدا اور اس کے بندوں کے ساتھ یہ تعلق رکھنے والے ہی محسن اور متقی ہیں اور اس طرح کے لوگ لازماً جنت میں جائیں گے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو آخرت کا انکار کرتے ہیں اور آخرت کے انکار کی وجہ سے اپنے آپ کو غیرذمہ دار سمجھتے ہیں اور دنیا میں اس طرح سے زندگی بسر کرتے ہیں کہ گویا ان کو کسی کے سامنے جاکر اپنا حساب نہیں دینا ہے، وہ آگ کے اُوپر تپائے جائیں گے۔
یہ جنت کے حق میں تیسری نوعیت کا استدلال ہے۔ ایک استدلال یہ ہے کہ اس کائنات کا نظام حکیمانہ ہے۔ دوسرا استدلال یہ ہے کہ تمھارے لیے یہ بات صحیح نہیں ہے کہ تم اتنے بڑے اہم معاملے کا فیصلہ اٹکل پچو اور محض اپنے قیاسات و گمان کی بنیاد پر کرلو۔ تیسرا استدلال یہ ہے کہ خود اخلاق کا تقاضا کیا ہے۔ انسان کے اندر جو اخلاقی حس رکھی گئی ہے کہ یہ نیکی ہے اور یہ بدی، تو کون سا آدمی ایسا ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز نہ کرسکے اور کون سا آدمی ایسا ہے جو نیکی اور بدی کو مکینیکل سمجھتا ہے۔
ایک آدمی کو اگر گدھا لات مار دیتا ہے تو اس کو کبھی غصہ اس حیثیت میں نہیں آتا کہ اس گدھے نے جان بوجھ کر مجھے لات ماری ہے۔ ایک آدمی دوسرے کو لات مار دیتا ہے تو اس کو فوراً غصہ آجاتا ہے اور وہ اس سے لڑنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ سوچے سمجھے افعال اور بے سوچے سمجھے افعال کے درمیان فرق کر رہا ہے۔ اس کے بعد وہ یہ بھی فیصلہ کرتا ہے کہ گدھے کے عمل میں نیکی اور بدی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، لیکن انسان کے عمل میں نیکی اور بدی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر کوئی چھوٹا سا بچہ کسی کو گالی دے دیتا ہے تو کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ اپنی اس گالی کے لیے ذمہ دار ہے۔ بڑا آدمی اگر گالی دے تو دوسرا شخص لڑنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی نیکی اور بدی میں تمیز کر رہا ہے۔ ایک ایک آدمی اس فرق کو محسوس کر رہا ہے۔
دنیا میں کوئی آدمی ایسا نہیں جو اس بات کو محسوس نہ کر رہا ہو کہ نیکی کس کو کہتے ہیں اور بدی کس کو کہتے ہیں، اور نیکی اور بدی میں فرق کیا ہے۔ لہٰذا انسان میں نیکی اور بدی کی تمیز موجود ہو اور اس کی پوری زندگی میں نیکی اور بدی کا امتیاز پایا جاتا ہو۔ اس کے بعد کوئی جواب دہی نہ کرنی پڑے تو اس کے کیا معنی! انسان میں اخلاقی حِس کا پیدا ہونا خود بخود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کی کہیں نہ کہیں جواب دہی ہونی چاہیے، اور وہ جواب دہی اس دنیا میں نہیں ہوسکتی۔
اس دنیا میں جواب دہی اس طرح ہوتی ہے کہ جو جوتے مارتے ہیں وہ بعض اوقات قوموں کے حکمران بن جاتے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ان کے آگے سلامیاں پیش کی جاتی ہیں، ان کی تعریفوں کے لیے گیت گائے جاتے ہیں درآں حالیکہ ساری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے کہ وہ کیسا آدمی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کہیں کوئی ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں لازماً ٹھیک ٹھیک انصاف ہو۔یہ تیسری نوعیت کا استدلال ہے۔
وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ o وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَا تُبْصِرُوْنo (۵۱:۲۰-۲۱) زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے ، اور خود تمھارے اپنے وجود میں ہیں۔ کیا تم کو سُوجھتا نہیں؟
قرآنِ مجید حقیقت کی تلاش کا جو راستہ بتاتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ آدمی آنکھیں بند کرکے ایک تاریک کمرے میں بیٹھ کر منطقی دلیلوں اور قیاسات کی بنا پر راے قائم کرے کہ اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا نہیں؟ کوئی آخرت ہے یا نہیں اور اس دنیا میں میری کیا حیثیت ہے؟ انسان کی کوئی جواب دہی ہے یا نہیں؟ اور ان کی بنیاد پر انسان اپنی زندگی کے بارے میں کیا فیصلہ کرے۔
قرآن جو راستہ بتاتا ہے وہ یہ ہے کہ اتنے بڑے اہم معاملات کے متعلق آدمی کو کوئی عقیدہ علم کے بغیر اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اس کو علم ہونا چاہیے نہ کہ قیاس اور گمان ہو۔ اسے علم ہونا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے؟ اور یہ علم بغیر وحی کے کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ غیب کی جو حقیقتیں آپ کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں ان کے متعلق براہِ راست جاننے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ آپ صرف ان چیزوں کو جان سکتے ہیں جنھیں آنکھوں سے دیکھ سکیں، جن کی آواز اپنے کانوں سے سنیں، یا چھو کر دیکھ لیں، یا جسے آپ اپنی ناک سے سونگھ کر دیکھ لیں، یا زبان سے چکھ کر دیکھ لیں۔ ان کے متعلق تو آپ کسی نہ کسی حد تک ایک فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہ وہ علم ہے جو آپ کو اپنے تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہوا۔ جو چیزیں آپ کی حس سے ماورا ہیں، جو کسی بھی طرح آپ کے مشاہدے میں نہیں آسکتیں، لامحالہ ان کے بارے میں کسی ایسے ذریعے ہی سے علم حاصل ہوسکتا ہے جس کو حقیقت کا براہِ راست علم ہو، اور حقیقت کا براہِ راست علم سواے خدا کے کسی کو نہیں۔
اسی طرح جو چیز آگے آنے والی ہے، یعنی آخرت، اس کے متعلق آپ کے پاس جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ آخرت آئے گی یا نہیں آئے گی؟ اگر آپ قیاسات کی بنا پر راے قائم کریں گے تو وہ اٹکل پچو بات کریں گے۔ وہ ایسا ہی ہے کہ آدمی اندھیرے میں چلے۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کہاں ٹھوکر کھائے گا۔ آخرت کے متعلق بھی جاننے کا ذریعہ سواے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی بتائے کہ تم کو مرنے کے بعد اُٹھنا ہے اور آخرت ہوگی اور ایسا اور ایسا ہوگا، او ر کوئی ذریعہ اس چیز کے جاننے کا نہیں ہے۔ بس وہی ایک ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی ؑ کو علم دیتا ہے۔ اب انسان کے پاس اس حقیقت کو جاننے کا اور اپنا یہ اطمینان کرنے کا کہ یہ شخص جو کہہ رہا ہے کہ میں نبی ہوں اور جو معلومات وہ دے رہا ہے ان کے متعلق آپ آنکھیں کھول کر چاروں طرف اس کائنات کو دیکھیں اور پھر خود اپنے وجود کو بھی دیکھیں، اور اس کے بعد یہ سوچیں کہ جو حقیقتیں نبی بتا رہا ہے، کیا واقعی وہ حقیقت ہیں اور دل کو لگتی ہیں؟ کیا واقعی وہ معقول ہیں؟ اس کائنات اور میرے اپنے وجود میں کچھ نشانیاں ہیں جو پتا دیتی ہیں کہ نبی جو خبر دے رہا ہے وہی بات زیادہ صحیح ہے۔ یہ آپ کے پاس ایک ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ حقیقت کا راستہ ہی دوسرا بتاتا ہے اور وہ قیاس کا راستہ نہیں بتاتا۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ آپ سائنٹی فک معلومات کے ذریعے حقیقت کے علم تک پہنچ جائیں گے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ آپ سائنٹی فک معلومات کے ذریعے سے جانچ سکتے ہیں کہ نبی جو اطلاع آپ کو دے رہے ہیں، وہ زیادہ معقول ہے، یا جو دوسرے مختلف قیاسات قائم کر رکھے ہیں وہ زیادہ معقول ہیں؟
ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے۔ نبی یہ کہتے ہیں کہ خدا ہے۔ کائنات کو دیکھیے۔ ایک عظیم الشان کائنات سے لے کر کرئہ زمین تک دیکھیے اور راے قائم کیجیے کہ کیا یہ سب کچھ ایک خدا کے بغیر قائم ہوسکتا ہے، یا یہ سب کچھ قائم کرنے کے لیے خدا درکار ہے؟ اگر ایک آدمی اندھے تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو وہ کہے گا کہ کائنات کا یہ explaination کہ اس کا کوئی خدا نہیں ہے یہ نہایت نامعقول ہے، اور یہ explaination کہ ایک حکیم قادرِ مطلق نے اس کو بنایا ہے اور وہ اس کو چلا رہا ہے، یہ زیادہ معقول ہے۔
اسی طرح آخرت کا معاملہ ہے۔ انبیا ؑ خبر دیتے ہیں کہ آخرت ہوگی، تم کو مرنے کے بعد اُٹھنا ہے اور جواب دہی کرنی ہے، اور تمھارے اعمال جیسے ہوں گے اس کے لحاظ سے تمھارا مستقبل بنے گا۔ دوسری طرف ایک آدمی کہتا ہے کہ نہیں، کوئی آخرت نہیں ہوگی، مرکر مٹی ہوجانا ہے، بالکل معدوم ہوجانا ہے۔ کائنات کو دیکھیے اور خود اپنے وجود کو دیکھیے اور اس کے بعد راے قائم کیجیے کہ ان دونوں میں سے کون سی بات زیادہ معقول ہے۔
اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں اور خود تمھارے اپنے نفس میں نشانیاں ہیں۔ کیا تم کو نظر نہیں آتیں؟ لیکن یہ نشانیاں کن لوگوں کے لیے ہیں، لِّلْمُوْقِنِیْنَ، جو یقین لانے کو تیار ہوں۔ایک آدمی جو قسم کھا کر بیٹھ گیا ہے کہ مجھ کو نہیں ماننا، اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کو کچھ نظر نہیں آئے گا۔ وہ سب کچھ دیکھ کر بھی اس حال میں ہوگا کہ جیسے اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ لیکن جو آدمی یقین لانے کے لیے تیار ہے اور اس نے اپنے دل کے دروازے یقین کے لیے بند نہیں کرلیے ہیں، اس کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
زمین میں جس طرف بھی آپ نگاہ اُٹھا کر دیکھیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ پورا نظام سراسر حکیمانہ ہے۔ اس نظام میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی آدمی کو اس زمین کے اُوپر وسیع اختیارات دے دیے گئے ہوں، بے شمار ذرائع اس کے قبضے میں دے دیے گئے ہوں، من مانی کرنے کے مواقع اس کو دے دیے گئے ہوں، جانوروں پر، انسانوں پر، تمام موجودات پر مختلف طرح کی چیزوں پر اس کو قدرت عطا کر دی گئی ہو، لیکن اس سے یہ نہ پوچھا جائے کہ تو نے ان ساری چیزوں کو کس طرح استعمال کیا ہے؟ جو اختیارات تجھ کو دیے گئے تھے تو نے ان کو کیسے استعمال کیا؟ اس زمین کے نظام پر جو آدمی بھی غور کرے گا وہ ضرور محسوس کرے گا کہ اس کو کسی اندھے راجا نے نہیں بنایا ہے۔ یہ کوئی چوپٹ راج یا اندھیر نگری نہیں ہے کہ اتنی بڑی عظیم الشان زمین اور اس کے بے شمارے ذرائع اور اس کے اندر تصرف کے اختیارات کسی کو دے دیے جائیں اور پھر پلٹ کر اسے پوچھا ہی نہ جائے کہ تو نے اس سب کا کیا کیا؟ ایسا کوئی اندھا راجا ہی کرسکتا ہے جو پلٹ کر پوچھے ہی نہ کہ تم نے کیا کیا؟ اگر آپ اپنے نوکر کو پانچ روپے دیتے ہیں تو اس سے بھی حساب لیتے ہیں کہ تو نے انھیں کہاں خرچ کیا۔ اس زمین پر انسان کو بے شمار اختیارات دے دیے جائیں، وسائل دے دیے جائیں اور پھر اس سے پلٹ کر نہ پوچھا جائے کہ تم نے ان چیزوں پر کیسے تصرف کیا اور انھیں کیسے استعمال کیا، تو یہ اندھیر نگری اور اندھا راج نہ ہوا تو اور کیا ہے؟ اسی طرح فرمایا گیا:
وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط(۵۱:۲۱) تمھارے اپنے نفس کے اندر نشانیاں ہیں۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمھارے اپنے نفس کے اندر نیکی اور بدی کا امتیاز موجود ہے۔ تمھارے اپنے نفس کے اندر یہ تصور موجود ہے کہ مختارانہ فعل کو ن سا ہے اور غیرمختارانہ فعل کون سا ہے۔ آدمی اگر پلک جھپکاتا ہے تو وہ غیرمختارانہ فعل ہے اور اگر وہ کسی کو آنکھ مارتا ہے تو یہ مختارانہ فعل ہے۔ دونوں میں فرق ہے اور ہر آدمی اس فرق کو جانتا ہے۔ کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو ان دونوں چیزوں میں امتیاز نہ کرسکتا ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے نفس میں یہ حِس موجود ہے۔ جب تمھارے نفس میں یہ حِس موجود ہے تو یہ خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ تمھارے اختیاری افعال اور غیراختیاری افعال کے درمیان کسی وقت فرق کیا جائے اور جو اختیاری افعال ہیں ان کے متعلق تم سے پوچھا جائے کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ اگر تم نے اپنے اختیارات سے نیکی کی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ تم کو تمام نیکیوں کا بدلہ نہ ملے۔ جن لوگوں نے ساری عمر حق پھیلانے کے لیے کام کیا ہو، ساری عمر خلقِ خدا کے ساتھ بھلائی کی ہو، جن لوگوں نے لوگوں کو ایسی روشنی دکھائی ہو کہ صدیوں تک خلقِ خدا ان سے فائدہ اُٹھاتی رہے، کیا وہ اس کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کو اس کا بھرپور انعام دیا جائے؟ کیا دنیا میں سبھی اس طرح کے لوگوں کو ان کا انعام ملا ہے؟ اگر انعام ملا بھی تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کی تمام نیکیوں کا پورا پورا انعام تھا؟
اگر وہ اس کا پورا پورا انعام نہیں پاسکے اور نہیں پاسکتے۔ اس دنیا میں اس کا امکان نہیں ہے۔ اگر ایک آدمی نے دنیا میں حق کی روشنی پھیلائی ہے اور دوہزار برس یا چار ہزار برس تک لاکھوں اور کروڑوں انسان اس کا فائدہ اُٹھاتے رہے ہیں اور اس دنیا میں اس کی نیکی کا پورا پورا اجر اس کو مل جائے، کیا اس بات کا کوئی امکان ہے؟ اگر اس کا کوئی امکان نہیں ہے، تو لامحالہ ایک وقت ایسا ہونا چاہیے کہ جب اس آدمی کو اس کی اس طرح کی نیکیوں کا بھرپور اجر مل سکے۔
اسی طرح اگر کسی نے اس دنیا کے اندر بدی کے بیج بوئے اور ہزارہا برس تک خلقِ خدا کے اندر وہ بدی کے بیج اپنے کانٹے بکھیرتے رہے، تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ اس کو اس دنیا میں اس کی پوری سزا مل سکے۔ اوّل تو بہت سے لوگ سزا پائے بغیر ہی چلے گئے۔ انھوں نے جو کچھ بُرے کام دنیا میں کیے لیکن ان کو اس کا کوئی نقصان نہ پہنچا۔ اسٹالن مرتے مر گیا اور دنیا کے اندر ظلم و ستم کرتا رہا، بتایئے اس کو کیا سزا ملی؟ آخر وقت تک اس کی ڈکٹیٹرشپ چلتی رہی۔ لامحالہ اس طرح کا وقت ہونا چاہیے جب اس طرح کے لوگوں کی بھرپور گرفت ہو ، جنھوں نے لاکھوں انسانوں پر ظلم ڈھایا ہو اور جن کے مظالم کے اثرات و نتائج نہ معلوم کتنی صدیوں تک خلقِ خدا بھگتے گی اور کروڑوں آدمی اس سے متاثر ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخرت کی نشانیاں تو تمھارے اپنے نفس میں موجود ہیں۔ جس طرف زمین میں نگاہ اُٹھا کر دیکھیں آخرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ اگر تم اپنے نفس پر غور کرو گے تو اسی طرح آخرت کی نشانیاں پائو گے۔ لیکن تم کو اس لیے نہیں سوجھتا کہ تم آخرت پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہو۔ آخرت پر ایمان لانے کے لیے اس پر یقین لانا ضروری ہے۔
آخرت کو تسلیم نہ کرنے کے لیے انسان خواہ کتنی ہی حجتیں کرلے،درحقیقت آخرت پر ایمان لانے کے لیے انسان صرف اس لیے تیار نہیں ہوتا ہے کہ اگر آخرت کو مان لے گا تو پھر دنیا میں بے نتھے بیل کی طرح نہیں رہ سکے گا۔ اس کی یہ آزادی کہ جس کھیت میں چاہے منہ مارے، اور جہاں چاہے دوڑتا پھرے، اور جو کچھ چاہے کرتا پھرے، یہ آزادی، آخرت پر یقین رکھ کر کوئی شخص برت ہی نہیں سکتا۔ آدمی اپنی اس آزادی کی خاطر اور اپنے آپ کو اخلاقی بندھنوں میں پھنسانے سے بچانے کے لیے آخرت کا انکار کرتا ہے۔ جو آدمی یہ یقین لانے کے لیے تیار نہیں ہے، اس کے لیے کوئی نشانیاں نہیں ہیں۔ وہ صرف اس وقت مانے گا جب آخرت میں فرشتے اس کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور جہنم کی طرف لے جارہے ہوں گے۔ اس سے پہلے وہ ماننے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہوگا۔
وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ o فَوَرَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَo (۵۱:۲۲-۲۳) آسمان ہی میں ہے تمھارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔ پس قسم ہے آسمان اور زمین کے مالک کی، یہ بات حق ہے، ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو۔
یعنی جس طرح تمھارا بولنا یہ امر واقعہ اور حقیقت ہے کہ تم بول رہے ہو۔ اسی طرح یہ بھی امرِواقعہ ہے کہ آخرت ہونی ہے اور یہ یقینا حق ہے۔ آسمان اور زمین کے رب کی قسم کھا کر کہا گیا ہے کہ یہ امرِ حق ہے۔ کیا چیز امرِ حق ہے؟ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ، یعنی آسمان میں تمھارا رزق ہے اور وہ چیز ، یعنی آخرت بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ آسمان میں رزق ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ آسمان میں کہیں رزق رکھا ہوا ہے اور وہ لاکر پھینک دیا جائے گا، اور آسمان میں کہیں آخرت رُکی پڑی ہوئی ہے اور یک دم اسے کھول دیا جائے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی نے جب کبھی خدا سے دُعا مانگنی ہوتی ہے تو ہمیشہ اُوپر کی طرف دیکھتا ہے۔ جب کبھی انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دوران میں کوئی اشارہ کرتا ہے تو آسمان کی طرف کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ آدمی کی فطرت میں یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو عالمِ بالا میں محسوس کرتا ہے۔ اسی چیز کا یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ عالمِ بالا ہی میں تمھارا رزق مقدر ہے اور عالمِ بالا ہی میں آخرت کا آنا بھی مقدر ہے۔
پہلی چیز رزق کا بیان اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں اگر آپ غور کرکے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انسان کو اس دنیا میں جو کچھ ملتا ہے وہ لازماً اس کی اپنی کوششوں اور تدبیروں کا نتیجہ نہیں ہے۔
ایک شخص ایک رئیس کے ہاں پیدا ہوگیا۔ اس رئیس کے ہاں اسے جو عیش و آرام حاصل ہوا اور جو وراثت ملی، یہ بجز اس کے کہ کسی نے اس کو وہاں پیدا کر دیا تھا اور اس وجہ سے اسے یہ سب کچھ ملا، ورنہ ایسا نہیں ہے کہ وہ خود اپنی کوشش سے آیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ماں باپ کچھ خاص بچوں کو چھانٹ کر لے آئے ہوں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی اور شخص کسی نفس کو چھانٹ کر وہاں پیدا کردے۔ معلوم ہوا کہ نہ وہ شخص خود اپنے انتخاب سے اس گھر میں آیا تھا اور نہ اس کے ماں باپ اسے چھانٹ کر لائے تھے، اور نہ کسی ڈاکٹر نے یہ تجزیہ کیا تھا کہ اس شخص کے ہاں فلاں شخص نے پیدا ہونا ہے۔
اسی طرح سے انسان کو اس دنیا میں جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس پر اگر غور کیا جائے، اور ہروقت انسان کو اس کا تجربہ ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کے لیے کوششیں کرتے اور اس کے لیے اپنا پورا سر مار لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آپ کو وہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ بعض اوقات آپ کی کوششوں کے بغیر ہی ایک ایسی چیز آپ کو حاصل ہوجاتی ہے جو آپ کے لیے مفید ہوتی ہے۔
معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کوئی ایسی ہستی ہے جو فیصلہ کرنے والی ہے اور وہ فیصلہ بھی بڑی باقاعدگی سے ہو رہا ہے اور الل ٹپ نہیں ہو رہا۔ وہ فیصلہ کسی حکیمانہ طریقے سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح جب انسان غور کرے گا تو اسے معلوم ہوگاکہ رزق کی تقسیم بڑے حکیمانہ طریقے سے ہو رہی ہے۔ جس طرح سے تمھاری قسمت کا فیصلہ اس دنیا کی زندگی میں ہو رہا ہے اور کوئی حکیم اور قادرِمطلق کر رہا ہے، اُسی حکیم اور قادرِ مطلق کا یہ فیصلہ ہے کہ تمھارے اُوپر آخرت بھی آئے۔
فَوَ رَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَo (۵۱:۲۳) آسمان اور زمین کے رب کی قسم وہ آکر رہے گی اور وہ امرحق ہے۔
رَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ کی قسم کھا کر کہنے کا مدعا یہ ہے کہ کائنات کے خدا کے متعلق تم اگر کوئی صحیح تصور قائم کرو گے تو لامحالہ تمھارا دل یہ گواہی دے گا کہ وہ اندھا راجا نہیں ہے اور اس کی نگری چوپٹ نگری نہیں ہے۔ اس کے اندر لازماً یہ ضروری ہے کہ آخرت ہو اور اس کے اندر حساب کتاب ہو۔ (جاری)(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)