ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے‘ پاکستان کا قدرتی حصہ ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے تمام اصولوں کے پیشِ نظر‘ اگر اس مسلم ریاست پر ہری سنگھ ڈوگرہ کی حکمرانی نہ ہوتی تو یہ مسئلہ یقینا پیدا ہی نہ ہوتا۔ پاکستان کے قیام کو ہندو قیادت نے بادل نخواستہ قبول کیا تھا۔ چنانچہ نہرو اور پٹیل جیسے کانگریسی رہنمائوں کی یہ پیشین گوئیاں ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ پاکستان اپنے قیام کے چند برس کے اندر ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ شروع ہی سے اس نوزائیدہ مملکت کو کمزور اور پھر معدوم کرنا بھارتی قیادت کے ایجنڈے کا اہم حصہ تھا۔ اپنے اس منصوبے کو بروے کار لانے میں‘ انھوں نے مائونٹ بیٹن اور دیگر برطانوی فیصلہ سازوں کو بھرپور استعمال کیا۔ یوں مسئلہ کشمیر کی بنیاد اسی روز ڈال دی گئی تھی جب بائونڈری کمیشن نے مسلم اکثریتی ضلع پٹھان کوٹ کو‘ بھارت کے حوالے کر دیا تھا‘ کیونکہ اس کے بغیر کشمیر کے ساتھ بھارت کا کوئی زمینی رابطہ قائم نہ ہو سکتا تھا۔
سازشی عناصر کے ان مکروہ عزائم کو بھانپتے ہوئے کشمیری مجاہدین نے علَمِ جہاد بلند کردیا۔ مجاہدین سری نگر تک پہنچ گئے تھے کہ بھارت نے ہوائی جہازوں کے ذریعے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ ریاست میں بھارتی فوجوں کے داخل ہونے کے بعد قائداعظم نے بالکل درست فیصلہ کرکے پاکستانی افواج کو بھی حکم دیا کہ وہ مجاہدین کی مدد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن انگریز کمانڈر ان چیف جنرل گریسی نے مختلف حیلوں بہانوں سے اس حکم کو سبوتاژ کیا۔ ان تمام سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے سید مودودیؒ نے اس وقت کی مسلم لیگی قیادت نواب افتخار حسین ممدوٹ وغیرہ کو یہ بات سمجھائی کہ بھارت کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اُس زمینی راستے کو کاٹ دیا جائے جو ریاست کشمیر کو گورداسپور سے ملاتا ہے ایسا ہونے کی صورت میں بھارت کشمیر کے ساتھ اپنے زمینی رابطے کو استوار نہ کر سکے گا۔ اس ضمن میں سید مودودی نے اس حد تک پیش کش کی کہ اگر انھیں ہتھیار اور ضروری سازوسامان فراہم کیا جائے تو وہ خود اپنے کارکنان کو لے کر یہ خدمت سرانجام دینے کے لیے تیار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی عسکری حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے یہ ایک نہایت ہی سائنٹفک اور برمحل تجویز تھی۔ اگر اس پر بروقت عمل ہوجاتا تو بعد میں ہندو مہاسبھائوں کے ہاتھوں جموں میں مسلمانوں کا قتلِ عام نہ ہوتا۔بعد کے مراحل میں سری نگر میں بھارتی افواج کا گھیرا تنگ کرتے ہوئے جموں‘ سری نگر شاہراہ کو موت کے کنویں میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن افسوس‘ کہ اس وقت کے حکمت کاروں نے اس نہایت ہی کارآمد حکمت عملی سے صرفِ نظر کیا جس سے بھارت کی شہ رگ پر ہاتھ رکھنے کا موقع ضائع کر دیا گیا۔ مجاہدین کی کوششوں سے وادی کا ایک بڑا حصہ آزاد ہوگیا۔
بعد میں جہاد کی کامیابی کے لیے مولانا مودودیؒ نے قائداعظم کے موقف کے ہم آہنگ یہ موقف اختیار کیا کہ ریاست پر بھارتی جارحیت کے جواب میں بھارت کے ساتھ تمام معاہدات کو مسترد کر کے‘ چوری چھپے کے بجاے مجاہدین کی علی الاعلان مدد کرنی چاہیے۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کی مسلم لیگی قیادت نے مولانا کی اسلامی دستور کے نفاذ کی مہم سے خائف ہوکر‘ مولانا کے اس صائب موقف کو خلاف واقع معنی پہنائے اور انھیں سرے سے جہاد کشمیر کا مخالف ثابت کرنے کی کوشش کی‘ حالانکہ مولانا کے موقف اور قائداعظم کے فیصلے کی روشنی میں اس وقت ہر ممکن طریقے سے مجاہدین کی مدد کی جاتی تو بھی بھارت کو ریاست پر قبضے سے روکا جا سکتا تھا۔ لیکن تذبذب پر مبنی فیصلوں نے اُس وقت بھی مسائل پیدا کیے اور قربانیاں بے ثمر رہیں اورآج بھی پالیسی ساز اُسی تارِ عنکبوت کو ایک مدبرانہ حکمت عملی سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بہرحال تقسیم کے وقت جماعت اسلامی کی افرادی قوت مختصر ہونے کے باوجود‘ سید مودودی نے مجاہدین کشمیر کی عملی امداد کے لیے بھرپورکوشش کی۔ بعد میں تو جہاد کے حوالے سے‘ القابات اور خطابات تھوک کے حساب سے تقسیم ہوئے اور انھی کی بنیاد پر آج تک آزاد کشمیر میں سیاست بھی کی جاتی رہی ہے۔
جہاد کشمیر میں مولانا مودودیؒ کی خدمات کے سب سے معتبر گواہ اس وقت کے امیر المجاہدین سیدمظفرحسین ندوی تھے‘ جو ۱۹۴۷ء کے جہاد کے پہلے امیرتھے۔ وہ خود بھی ایک بلندپایہ عالمِ دین تھے اور مولانا مسعود عالم ندویؒ کے شاگرد اور دوست بھی اور انھی کی وساطت سے وہ تحریکِ اسلامی سے متعارف ہوئے۔ یوں ریاست جموں و کشمیر میں بالکل ابتدائی دور میں‘ جو لوگ سید مودودی کی دعوت سے متاثرہ ہوئے وہ تمام بقول مولانا ندویؒ جہاد کے آغاز میں مودودی صاحب سے ملے اور انھوں نے جہادی کامیابیوں اور مسائل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا اور انھوں نے مولانا سے دیگر معاملات میں تعاون کے علاوہ ایسے مربی حضرات فراہم کرنے کی بھی درخواست کی جو مجاہدین کی دینی اور اخلاقی تربیت کا اہتمام کریں اور جو علاقے فتح ہوچکے تھے‘ ان میں شریعت کے نفاذ کے لیے رہنمائی اور معاونت کریں۔ ان کی اس درخواست پر سید مودودی نے ضروریاتِ زندگی سے بھرے ہوئے کئی ٹرک بھجوائے اور شیخ مختار صاحب کی قیادت میں مربین کا ایک دستہ بھی روانہ کیا جو جہاد کے اس سارے عرصے میں مجاہدین کے شانہ بشانہ رہے۔ بعد میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی تو وہ حضرات واپس چلے گئے۔ یوں نہ صرف ۱۹۴۷ء کے جہاد میں مولانا نے درست حکمت عملی کی نشان دہی کی‘ بلکہ جماعت کے وسائل سے جو تعاون ممکن تھا‘ مجاہدین کی نذر کیا۔
مولانا مودودیؒ کی رائے کے مطابق اگر حکومت‘ مجاہدین کی کھلے عام مدد کرتی تو وہ چند ماہ میں سارے کشمیر کو فتح کرسکتے تھے۔ میجر جنرل اکبر (جو جنرل عارف طارق کے نام سے مشہور تھے اور ۱۹۴۷ء کے سارے آپریشن کے انچارج تھے) نے اپنی کتاب Raiders in Kashmir میں مولانا کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ: اگر اُس وقت جی ایچ کیو انھیں چند اینٹی ایئرکرافٹ گنیں اور بکتربند گاڑیاں فراہم کر دیتا جس کا انھوں نے مطالبہ کیا تھا تووہ بھارتی افواج کو سری نگر ایئرپورٹ پر اترنے سے روک سکتے تھے۔ لیکن گومگو کی پالیسی چلانے والوں نے اس وقت بھی انھیں یہی جواب دیا کہ اس طرح کے ہتھیار مجاہدین کے حوالے کرنے سے پاکستان کی فوجی مداخلت ثابت ہوگی جس سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہی خوف کی پالیسی آج بھی جاری و ساری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجاہدین نے بے سروسامانی کے باوجود جو خوف اور دھاک بھارتی افواج اور کانگریسی حکمرانوں کے دل و دماغ پر بٹھا دی تھی‘ اُسی کے نتیجے میں بھارت نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی اور مسئلے کے پُرامن حل پر زور دیا‘جس کے جواب میں سلامتی کونسل نے کشمیر پر راے شماری کا اہتمام کرنے کے لیے معروف قرار دادیں پاس کیں۔ لیکن ان کے نفاذ کی ہر کوشش کو بھارت نے سبوتاژ کیا‘ بلکہ اس سارے پراسس کی آڑ میں مزید وقت حاصل کر کے کشمیر کے مسلم تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان تو سیاسی لحاظ سے عدمِ استحکام کا شکار چلا آرہا ہے۔ خارجہ پالیسی کا کارنر سٹون تو بلاشبہہ کشمیر ہی رہا لیکن سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اور نہرسویز کے مسئلے پر برطانیہ کی حمایت کرنے کے نتیجے میں‘ مسلم دنیا بالخصوص روس کے حلقہ اثر ممالک میں پاکستان کا تشخص‘ امریکی استعمار کے ایک ایجنٹ کی حیثیت سے اجاگر ہوا‘ جس کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کے لیے سفارتی محاذ پر بے پناہ مشکلات پیدا کردیں۔ نہرو ‘مارشل ٹیٹواور مصر کے صدر ناصر کی آپس میں گاڑھی چھنتی تھی۔ پوری عرب دنیا کی صحافت اور اہل دانش پر مصری ذرائع ابلاغ کے بے پناہ اثرات تھے‘ وہ گاندھی اور نہرو کو بین الاقوامی لیڈر باور کراتے تھے اور پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ اور مسلمانوں کی ایک بڑی تحریک کا ماحصل کے بجاے‘ اسے انگریزوںکی سازش کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ ایسے حالات میں حکومتوں کی سطح پر تعلقات نہایت سردمہری کی کیفیت سے دوچار رہے۔ اس برف کو پگھلانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ علما‘ اہل دانش و صحافت اور مسلم عوام تک رسائی حاصل کرتے ہوئے‘ انھیں بھارت کے حقیقی عزائم سے آگاہ کیا جاتا۔ یوں راے عامہ کے دبائو کے ذریعے‘ حکمرانوں کو بھی بھارتی شعبدہ بازوں کے سحر سے آزاد کرا کے کشمیریوں کی جدوجہد کی پشت پر کھڑا کیا جاتا۔
اس خلا کو پُر کرنے کے لیے سید مودودی نے بھی دنیاے عرب کے متذکرہ حلقوں کو حقائق سے آگاہ کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے خود بھی دورے کیے اور اپنے رفقا بالخصوص سید مسعود عالم ندوی مرحوم اور چودھری غلام محمد مرحوم کو بھی یہی ہدف دیا‘ جس کے حصول کے لیے انھوں نے شب و روز محنت کی اور اخوان اور دیگر اسلامی اداروں کو بھارتی پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے متحرک کیا۔ بعد میں رابطہ عالمِ اسلامی جیسے عالمی اداروں (جن کے قیام میں خود سید مودودی کا بھی ایک اہم کردار تھا) کے پلیٹ فارم سے قراردادوں اور محاضرات کے ذریعے‘ مسئلہ کشمیر کو مسئلہ فلسطین ہی کی طرح‘ مسلم دنیا کا ملّی مسئلہ بنانے کے لیے‘ دنیاے عرب کی ممتاز شخصیات کو مسئلہ کشمیر کا سفیربنا دیا۔ سید مودودی کی ان کاوشوں کے اثرات سفارتی سطح پر بھی منعکس ہوئے ‘جنھیں دیکھ کر ممتاز کشمیری رہنما چودھری غلام عباس مرحوم نے کہا تھا کہ: مولانا مودودی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر بالخصوص مسلم دنیا میں تنہا جتنا کام کیا ہے اس کا عشرعشیر بھی پاکستان کے حکمران‘ سفارت کار اور تمام جماعتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔
بین الاقوامی محاذ کے ساتھ ساتھ اندرون ملک بھی راے عامہ کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیدار اور متحرک رکھنا بھی ایک اہم محاذ تھا‘ تاکہ آئے روز بدلتی حکومتیں اپنے موقف سے پسپائی اختیار نہ کریں اور پاکستان کم از کم اپنا کردار ادا کرتا رہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی تمام اہم قومی جماعتوں اور شخصیات پر مشتمل نیشنل کشمیر کمیٹی کے قیام میں بھی سید مودودی نے اہم کردار ادا کیا۔ چودھری محمد علی‘ نواب زادہ نصراللہ خان ‘ چودھری غلام عباس اور سردار ابراہیم سمیت اس دور کی تمام اہم قومی شخصیات اس کمیٹی کا حصہ تھیں جس نے نہایت تاریخی کام سرانجام دیا۔ سید مودودی کی رائے میں ایک حقیقی اور جمہوری پاکستان ہی مسئلہ کشمیر کے حل میں مؤثر کردارادا کر سکتا تھا۔ چنانچہ انھوں نے بارہا فرمایا کہ: اگر پاکستان میں صحیح معنوں میں اسلامی نظام قائم ہو جاتا ہے تو کشمیر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں آگرے گا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا بنیادی محرک ایک اسلامی پاکستان کے ساتھ الحاق ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے ورنہ کشمیریوں کے لیے کاروبار اور معاشی آسودگی کے مواقع‘ خود بھارت کے ساتھ رہنے میں زیادہ وسیع ہوسکتے ہیں۔ کشمیر کی ملت اسلامیہ ان سارے مواقع کو مسترد کرکے آزادی کے حصول کے لیے جو قربانیاں دے رہی ہے وہ آزادی براے اسلام کے حوالے سے ہیں۔ پاکستان کو ایک عملی اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد‘ بجاے خود تحریکِ آزادی کی تقویت کا ذریعہ اور کشمیرکاز کی عظیم خدمت ہے‘ جسے سرانجام دینے کے لیے سیدمودودی اور جماعت اسلامی نے مثالی کردارادا کیا ہے۔
حقیقی اسلامی مملکت کا قیام‘ حقیقی جمہوری نظام کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ سید مودودی‘ جمہوریت کی بحالی کے لیے ایوب خان جیسے ڈکٹیٹر کے خلاف مسلسل مورچہ زن رہے۔ اس جرم کی پاداش میں سید مودودی اور آپ کے رفقا کو قیدوبند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔ جماعت پر پابندی بھی لگائی گئی جسے بعد میں اعلیٰ عدالتوں نے غیرآئینی قرار دے دیا۔ ایوب خان کے ساتھ تلخی کے اس ماحول میں ۱۹۶۵ء کی جنگ چھڑ گئی (جو کشمیر کی آزادی کے لیے‘ لیکن مطلقا غیرمنطقی مفروضوں پر شروع کی گئی)۔ جنگ شروع ہوئی تو امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان کو فوجی سازوسامان دینا بند کردیا۔ ادھر بھارت کو روس اور اس کے حلیفوں بلکہ درپردہ امریکہ سے دھڑا دھڑفوجی اسلحہ ملتا رہا۔ اس جنگ میں سرخرو ہونے کے لیے قومی یک جہتی پیدا کرنا ازبس ضروری تھا۔ چنانچہ سیدمودودیؒ نے نہایت اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوب خان کے ساتھ اختلافات کے علی الرغم قوم کو متحدہو کر افواج کے شانہ بشانہ لڑنے کی اپیل کی اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو دو ٹوک الفاظ میں یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم متحد ہو کر خون کے آخری قطرے تک اس کی ننگی جارحیت کا مقابلہ کرے گی۔ ان کی یہ تقریر ریڈیو سے بھی نشر ہوئی جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کے حوصلے بلند ہوئے اور قومی سطح پر بھی ایک بھرپور یک جہتی کی فضا پیدا ہوئی۔ پونچھ اور راجوری کے خطے میں عوام نے جان پر کھیل کر مجاہدین کا ساتھ دیا جس کے جواب میں بھارتی افواج نے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ قتلِ عام کے لیے وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جو اس نے ۴۷ء میں جموں میں کیے تھے یا گذشتہ ۱۵ سال سے وادی میں کر رہا ہے۔
سید مودودی کا یہ دورہ محض ایک تقریر تک محدود نہ تھا‘ بلکہ بھارتی جارحیت سے تنگ آکر آزاد کشمیر کا رخ کرنے والے مہاجرین کی آبادکاری اور بحالی کا منصوبہ بھی ان کے پیشِ نظر تھا۔ اُس وقت آزاد کشمیر حکومت کا انفراسٹرکچر بھی بہت کمزور اور محدود تھا اور عوامی سطح پر بھی لوگ مالی لحاظ سے اس قدر آسودہ نہ تھے۔ چنانچہ مہاجرین کے قافلوں کو سنبھالنا اور انھیں حوصلہ اور تسلی دینا نہایت اہم کام تھا جسے سرانجام دینے کے لیے سید مودودی نے جماعت اسلامی کی پوری تنظیم وقف کر دی۔ دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ میڈیکل ریلیف پہنچانے کے لیے ڈاکٹر نذیر شہیدؒ کی سربراہی میں ایک ٹیم نے شب و روز محنت کر کے صورت حال کو سنبھالا۔ اس وقت کی کشمیری قیادت اور حکومت نے ان ساری خدمات کی بے پناہ تحسین کی۔
سید مودودی ؒنے اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ’’مسئلہ کشمیر کا حل کیا؟‘‘ کے عنوان سے ایک جامع اور بھرپور لائحہ عمل بھی تجویز کیا جسے اخبارات میں اشاعت خصوصی کے علاوہ ایک کتابچے کی صورت میں چھپوا کر وسیع پیمانے پر تقسیم کیا گیا۔ اس لائحہ عمل میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے سارے امکانات کا جائزہ لیا گیا اور اس بات کو واضح کیا گیا کہ مذاکرات‘ ثالثی یا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ کے ذریعے‘ مسئلے کا حل اُسی وقت ممکن ہوگا جب بھارت کا سامنا گذشتہ پندرہ سال سے جاری جہاد جیسے ایک ہمہ گیر جہاد سے ہوگا۔ ایسے جہاد کی تمام جہتوں کی وضاحت بھی لائحہ عمل میں موجود ہے (یہی لائحہ عمل مجاہدین کشمیر نے اختیار کر رکھا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ کشمیر‘ دنیا میں ایک مرتبہ پھر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے)
سید مودودیؒ ہی کی تحریک نے ۱۹۸۹ء میں اس مسئلے کو زندہ کیا۔ یہ کام‘ ذہن اور کردار سازی کے بغیر ناممکن تھا۔ تحریکِ جہاد کے موجودہ مرحلے کے حوالے سے جگ موہن سے لے کر بھارتی آرمی چیف تک تمام تجزیہ نگار اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ تحریک اسلامی ہی اس جدوجہد کی ریڑھ کی ہڈی ہے‘ اس لیے وہاں سب سے زیادہ نقصان بھی جماعت اسلامی ہی کا ہوا ہے۔ ذمہ داران اور ارکان کی ایک بڑی تعداد کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ جماعت کی پالیسی کی اس وضاحت کے بعد کہ جماعت‘ وہاں سیاسی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہے‘ اس وجہ سے جماعت سے وابستہ افراد بھارتی ایجنٹوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ حزب المجاہدین سمیت دیگر مختلف تنظیموں سے وابستہ مجاہدین کی فکری تیاری میں بھی سید مودودی کے لٹریچر نے اہم کردار ادا کیا۔ مجاہدین نے بھارتی افواج کو گذشتہ پندرہ سال میں ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ اسلام کے یہ شاہین اندرونی اور بین الاقوامی سازشوں اور حوصلہ شکنی کے ماحول کے باوجود اپنے برحق موقف پر ڈٹے ہوئے بھی ہیں اور مصروفِ جہاد بھی ہیں۔ ہر مجاہد آج بھی وہاں کا ہیرو ہے اور بھارت کا ساتھ دینے والا قوم و ملت کا غدار۔ ہر آزادی کی تحریک یا تحریکِ مزاحمت کی پشت پر ایثار پیشہ لیڈرشپ ہوا کرتی ہے جو جذبوں کو جلا بخشتی ہے‘ استقامت‘ قربانی اور اپنے تدبر کی وجہ سے تحریکِ آزادی کی علامت بن جاتی ہے۔ یہ اعزاز موجودہ تحریکِ مزاحمت میں قائدِ تحریکِ حریت سید علی گیلانی اور مجاہدین کے سالار سید صلاح الدین کو حاصل ہے۔ یہ حضرات بھی سید مودودی کی اس تحریک اور فکر کا ثمرہ ہیں جس کا آغاز برصغیر میں سید مودودیؒ کی معرکہ آرا کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ سے ہوا تھا۔
مہاجرین اور مجاہدین کو سنبھالنے‘ میڈیا اور سفارتی محاذ پر راے عامہ کو متحرک کرنے اور پاکستان اور آزاد کشمیر میں تحریکِ آزادی کے تقاضوں سے ہم آہنگ فضا تیار کرنے میں جماعت اسلامی پاکستان اور آزاد کشمیر اور ان کی برادر تنظیموں نے ایک تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ یہ سارا کریڈٹ بھی یقینا تاریخ‘ سید مودودی کو دے گی کہ جن کی فکروتنظیم نے ایک ہندو بنیے کو آزادی کشمیر کے حوالے سے نوشتہ دیوار پڑھنے پر مجبور کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کی تنظیم کو بھارت اور پاکستان کی تنظیم سے الگ رکھنا بھی سید مودودی کی دوربین نگاہوں کا کرشمہ تھا ۔صورت حال اس کے برعکس ہوتی تو خود تحریکِ اسلامی کے حلقوں میں مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت ابہام کا شکار ہو جاتی اور پھر حکومتوں کو بھی قومی پالیسی پر گامزن رکھنا مشکل ہوجاتا۔
آج بحمدللہ‘ مشکل حالات کے باوجود میدان کارزار میں مجاہدین اور عوام‘ تحریک کی پشت پر کھڑے ہیں‘ کٹھ پتلی حکمران پارٹی کا کوئی آرگن یا مخبر غداری کرتے ہوئے مارا جائے تو اس کے لواحقین بعض اوقات نماز جنازہ پڑھے بغیر ہی اس ناسور کو مٹی میں دبا دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی مجاہد شہید ہوجائے تو لوگ ہیرو کی طرح دیوانہ وار اس کو الوداع کہتے ہیں۔ اس کی نماز جنازہ میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں‘ صرف شرکت ہی نہیں کرتے اس کے مشن کی تکمیل کا عہد کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں غلام رسول ڈار شہید کی نماز جنازہ جس میں پچاس ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کر کے سید علی گیلانی کو یقین دلایا کہ کشمیر کی آزادی تک جانوں اور اموال کی قربانی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ سری نگر یا مظفرآباد میں بیٹھے ہوئے رہنما اور سیاست دان‘ جیسے بھی بے محل فارمولے پیش کرتے رہیں یا بے مقصد مذاکرات کرتے رہیں۔ لیکن جس پراسس کو سید مودودی کے فکری جانشینوں کی تائید حاصل نہ ہوگی‘ اُس سے خفت اور ذلت کے علاوہ کچھ برآمد نہ ہوگا۔ پاکستان کے حکمرانوں کی جس قدرمصلحتیں اور مجبوریاں ہیں۔ لیکن وہ قافلہ سالار قاضی حسین احمد اور سید کے کارواں کی رائے کو نظرانداز نہ کرسکیں گے۔ ہم سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے دیے ہوئے لائحہ عمل پر صبروحکمت اور استقامت اور اللہ کی توفیق کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ تاآنکہ ع
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک