انسانی حقوق کے عالم گیر منشور میں روے زمین کے تمام انسانوں کو یکساں حقوق کا حق دار قرار دیا گیا ہے لیکن نسلی امتیاز اور لسانی و مذہبی تفریق و تعصب نہ صرف آج بھی موجود ہے بلکہ حکومتیں اس کی سرپرستی کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سیکڑوں تنظیمیں اس قسم کے سروے شائع کرتی رہتی ہیں کہ کہاں کہاں قوم‘ قبیلے‘ گروہ یا اجتماعیت کے خلاف مذہب‘ نسل‘ خاندان‘ علاقے‘ پیشے یا صدیوں سے جاری رواج کی بنا پر ظلم و تشدد یا تعصب و امتیاز برتا جا رہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے قراردادیں تو موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہے‘ سب غالب اقوام ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘ کے نام پر انسانی حقوق پامال کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں آواز کون بلند کرے گا۔
یُوری ڈیوس کی کتاب Apartheid Israel, Possibilities for the Struggle Withinکی اشاعت سے اسرائیل اور امریکا کے یہودی نواز حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس کتاب کے مصنف عرصۂ دراز سے انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے کام کر رہے ہیں‘ اُن کا مرکز توجہ اسرائیل ہے جو ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء سے قبل فلسطین تھا اور برطانیہ کے زیرانتظام تھا۔ یُوری نے انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی روشنی میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت اور اسرائیل کی نسل پرست حکومت کا ٹھوس حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔ وہ انسانیت پروری اور انسان دوستی کے ناطے یہ چاہتے ہیں کہ آج جو حقوق‘ مثلاً جرمنوں یا فرانسیسیوں کو حاصل ہیں وہ فلسطینیوں کو بھی حاصل ہوجائیں۔ اُن کی دوسری دل چسپی اس امر میں ہے کہ مختلف افریقی ممالک میں بالعموم اور جنوبی افریقہ میں بالخصوص نسلی امتیاز اور تعصب کے خاتمے کے لیے عالمی برادری نے جو جدوجہد کی ہے وہ اسرائیل کے خلاف بھی کی جائے۔
یوری ڈیوس کی تحریریں متنازعہ قرار دے دی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے رُکن رہے ہیں۔ وہ تاریخی تحقیق کی روشنی میں جب اس حقیقت کو واشگاف کرتے ہیں کہ برطانوی انتداب کے دورمیں ارضِ فلسطین پر یہودیوں کی آبادی سات فی صد تھی‘ بالفور اعلان کی روشنی میں بے زمین قوم کو غیرآباد سرزمین پر لاکر بسا دیا گیا۔ مصنف نے اُن ۵۰۰ دیہاتوں کی مقامی فلسطینی آبادی اور اُن کی زیرملکیت اراضی کی تفصیل فراہم کی ہے جن کو اسرائیلی فوجیوں نے ظلم و زیادتی اور وحشیانہ تشدد کے ذریعے خالی کرا لیا۔ جوانوں‘ بوڑھوں‘ بچوں اور عورتوں کے ساتھ اس جبری انخلا میں جو سلوک روا رکھا گیا اُس کو چشمِ تصور سے بھی دیکھیں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ بیت المقدس شہر‘ یروشلم‘ الخلیل‘ ہَبرون‘ اریحا‘ جیریکو اور دیگر شہروں کے نام تبدیل کر کے اُن کی سیکڑوں سال پر محیط اسلامی شناخت نسل پرست حکومت نے ختم کرنے کی کوشش کی۔ بیت لحم‘ جافا‘ رملے‘ لدِّہ‘ جنین‘ طُل قرم‘ حیفا‘ عکرے‘ نظارت‘ صفاد‘ طبریاس‘ لیبان اور غزہ پورے کے پورے خالی کرا لیے گئے۔
برطانوی حکومت نے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان اور بندوبست کیا تھا لیکن ڈیوس کا خیال ہے کہ اسرائیل کی حکومت کو نہ ۵۰ برس قبل یہ حق حاصل تھا نہ آج حاصل ہے کہ اس سرزمین پر سیکڑوں برس سے قیام پذیر لوگوں کو اپنے گھروں‘ زرعی اراضی‘ دیہاتوں اور قصبوں سے نکال پھینکیں اور بعدازاں دلیل یہ پیش کریں کہ یہ لوگ یہاں سے جاچکے ہیں‘ اراضی کے سروے کے دوران ان کو موجود نہ پایا گیا‘ لہٰذا یہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں واپس آنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرست سفید قوم اقلیت میں تھی لیکن وہ سیاہ فام اکثریت پر حکمران تھی اور اُس نے ۲ کروڑ میں سے ایک کروڑ ۲۰ لاکھ افریقیوں کو افریقہ کا باشندہ تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا تھا۔ یہی حال اسرائیل کا ہے۔ اُس نے ۶۰ لاکھ فلسطینیوں میں سے ۵۰ لاکھ کو فلسطین کا حقیقی باشندہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عالمی قراردادوں اور سفارتی دبائو کے باوجود مختلف خلیجی و یورپی ممالک میں مقیم فلسطینیوں کو اسرائیل واپسی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ سفید کا امتیاز تھا‘ اسرائیل میں یہودی‘ غیریہودی کی بنا پر فیصلے ہوتے ہیں۔ نسل پرست سفید یورپی اقوام جنوبی افریقہ کی حکومت کی پشتیبان تھیں‘ سوپرپاور اسرائیل ’’مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوریت‘‘ کا سرپرست ہے۔ واشنگٹن اسرائیل کو عرصۂ دراز سے ۲ ارب ڈالر سالانہ امداد ترقیاتی منصوبوں کے لیے ادا کر ہی رہا ہے۔ حال ہی میں مزید ایک ارب ڈالر سالانہ امداد کی منظوری دے دی گئی ہے تاکہ اسرائیل ’’مقامی دہشت گرد تنظیموں اور سرگرمیوں‘‘ کا سدباب کر سکے‘ جس طرح امریکا عراق میں بندوق کی نوک پر کر رہا ہے۔
مصنف نے ۱۹۵۰ء میں لاگو ہونے والے Absentee's in Property Law پر شدید تنقید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اسرائیل قائم ہوا تو مقامی یہودیوں کے پاس ۲۰لاکھ دنوم (۵لاکھ ایکڑ) زمین تھی۔ حکومت کو برطانوی انتظامیہ سے ۴ لاکھ دنوم (ایک لاکھ ایکڑ) اراضی ملی۔ ۲ کروڑ ۲ لاکھ ۲۵ہزار دنوم (تقریباً ۵۱ لاکھ ایکڑ) قانونی طور پر عربوں کی اراضی تھی لیکن فلسطینی عورتوں کے برہنہ جلوس نکال کر اور فلسطینی کسانوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے قتل کرکے بہت بڑے رقبے پر قبضہ جما لیا گیا۔ آج اسرائیل کا رقبہ ۲۰ ہزار ۸ سو ۵۰ مربع کلومیٹر ہے اور یُوری ڈیوس انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی روشنی میں جمہوریت اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کا تعاون چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں کو اُن کی اراضی واپس دلائی جاسکے۔ اُس کی دلیل یہ ہے کہ نسل پرست استعمار اسرائیل کو محدود نہ کیا گیا تو بعد کے ادوار میں کئی توسیع پسند ممالک دوسرے ممالک کو باجگزار بناسکتے ہیں اور اُن کی نسلوں کو ختم کر سکتے ہیں۔ آج نصف کروڑ کے قریب فلسطینی شام‘ لبنان‘ اردن‘ یورپ و امریکا میں درجہ دوم کے شہری بنے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے سیاہ فام لوگ نسلی امتیاز والی حکومت کا حق رکھتے تھے اور فلسطینی نسلی امتیاز کے خاتمے اور اپنے وطن واپس لوٹنے کے حق دار نہیں ہیں۔ اس دُھرے معیار کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
کتاب کے پہلے باب ’صہیونیت‘ میں مصنف عالمی صہیونی تنظیم(WZO) اور جیوش ایجنسی کے کردار کا خصوصی ذکر کرتا ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں برس ہا برس سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آرتھوڈوکس اور پروگریسو یہودیوں کو سمجھا رہی ہیں کہ جو یہودی ہے اُسے توریت کی تعلیمات کے مطابق سرزمین اسرائیل پر سکونت اختیار کرنا چاہیے۔ ۸۵ ممالک کے یہودی‘ خالصتاً نسلی بنیادوں پر اسرائیل میں لاکر بسا دیے گئے ہیں۔ رُوس کے لاکھوں یہودی اسرائیل میں لائے گئے۔ امریکا سے بھی کئی ہزار سالانہ کی شرح سے یہودی خصوصی طیاروں میں’’امن کی سرزمین‘‘ پہنچ رہے ہیں۔ یہودی ہونے کے دعویدار بھارت کے ایک قبیلے کے سے یہودی اکابر علما ملاقات کرچکے ہیں اور ان کی تاریخی و نسلی روایات کو درست اور اُنھیں بنی اسرائیل کے گم شدہ ۱۲قبیلوں میں سے ایک تسلیم کر لیا گیا ہے اور جلد ہی اُن کو اسرائیل پہنچا دیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں اُن ۱۳لاکھ عربوں کی حالتِ زار پر غور فرمایئے کہ جنھیں اپنی ملازمت سے گھر واپس جانے تک کئی بار شناختی کاغذات معائنے کے لیے پیش کرنا پڑتے ہیں۔ رفح ٹرمینل اسرائیلی حکم پر ڈیڑھ ماہ تک بند رکھا گیا اور کئی لوگ علاج کی سہولت سے بھی محروم ہوگئے۔ ایک فلسطینی عورت نے اسی حالت میں بچے کو جنم دیا‘ مرج الظہران کی سرد پہاڑیوں پر کئی سو فلسطینیوں کو سازوسامان کے بغیر دھکیل دیا گیا تاکہ وہ سردی سے مرجائیں۔ اسلامی تحریک مزاحمت کے بانی شیخ احمد یاسینؒ اور دوسرے سربراہ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کو باضابطہ منصوبہ بندی کرکے شہید کیا گیا اور وزیراعظم اپنے گھر میں بیٹھ کر ان کارروائیوں کی براہ راست نگرانی کر رہا تھا۔ اُن ۴ ہزار فلسطینیوں کو بھول جایئے جو پچھلے ساڑھے تین برسوں میں ہلاک کر دیے گئے‘ اُن کی عمریں دو ماہ سے ۸۴ برس تک تھیں‘ اِن کارروائیوں کے لیے صرف ایک الزام کافی ہے کہ ’’یہ لوگ اسرائیل کی مسلح فوج کی کارروائیوں میں مزاحم‘‘ تھے۔ ڈیوس یہ سوال اٹھانے میں برحق ہے کہ ’’کیا سکنڈے نیویا میں‘ مشرقی یورپ میں‘ مغربی ممالک میں اور شمالی امریکا میں بھی انسانوں کے ساتھ ایسا سلوک برداشت کیا جاسکتا ہے؟‘‘
اعداد و شمار کے مطابق ۷۰ فی صد فلسطینی اسرائیل کی نسل پرست ریاست کے زیرانتظام خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اُن کی کاشتکاری‘ کاروبار‘ ملازمت‘ ہر چیز انتشار اور تذبذب کا شکار ہے۔ ایک یہودی عالم نے فتویٰ دیا ہے کہ غیریہودی کا خون‘ یہودی کے پائوں کے ناخن سے بھی کم اہمیت کا حامل ہے۔ لہٰذا اسرائیل میں قائم ہونے والی حکومتیں اس کی بالکل پروا نہیں کرتیں کہ اُن کے زیرتسلط علاقوں میں عرب باشندوںکو جو وہاں کے حقیقی باشندے ہیں‘ بنیادی حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔ اسرائیل میں حکومت دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی‘ اُن کی اولین کوشش یہی چلی آ رہی ہے کہ فلسطینیوں کا ناطقہ بند کیے رکھا جائے۔ مسجد الاقصیٰ کو (معاذاللہ) نقشۂ ارض سے مٹا دیا جائے اور یہاں پر عظیم الشان ہیکل سلیمانی تعمیر کر دیا جائے۔
اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی چھے روزہ جنگ میں عرب ممالک کو شکست دی تھی‘ نیز مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی پر بزور طاقت قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل کا اس پر یقین ہے کہ اس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں اور سعودی عرب‘ شام‘ لبنان‘ اُردن سمیت کئی عرب ممالک پر اسرائیل دائمی تسلط جمالینا چاہتا ہے تاکہ دنیا پر بنی اسرائیل کی حکمرانی کا خواب حقیقی روپ اختیار کر لے۔
غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کی حالتِ زار کے بارے میں ڈیوس لکھتے ہیں: ’’۱۹۶۷ء سے ۳۰ لاکھ فلسطینی عرب باشندے اسرائیل کے فوجی تسلط میں ہیں۔ اُن کو اسرائیل کی شہریت بھی نہیں دی جاتی‘اُن کو جایداد اور زمین خریدنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اُن کو شہری حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ اسرئیل کی جیلیں غزہ اور مغربی کنارے کے باشندوں سے بھری رہتی ہیں (اس وقت بھی اسرائیلی جیلوں میں ۸ ہزار فلسطینی قید ہیں اور بھوک ہڑتال کیے ہوئے ہیں)۔ اُن کے گھروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے مسمار کیا جاتا ہے۔ سرکاری طور پر شہریوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ شہریوں پر بموں سے حملہ سرکاری انتظام میں کیا جاتا ہے (شیخ احمد یاسینؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کو سرکاری انتظام اور سرکاری نگرانی میں شہید کیا گیا)۔ بار بار سزائیں دے کر اُن کو جسمانی طور پر معذور اور ناکارہ بنا دیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں سے زمین چھینی جاتی ہے اور اسرائیلوں کے جتّھے وہاں لاکر بسا دیے جاتے ہیں۔ اِن کے گھروں اوربازاروں کے درمیان دیوار کھڑی کی جارہی ہے ]اسرائیل فلسطینی آبادیوں کے گردا گرد جو متنازعہ دیوار تعمیر کر رہا ہے اُس کی لمبائی ۶۵۰ کلومیٹر اور بلندی ۸ میٹر ہے[۔ فوجی حملوں سے‘ تشدد سے‘ جھوٹے مقدمات سے‘ نظربند اور قید کرنے سے‘ کرفیو کے نفاذ سے‘ علاقے کے گھیرائو سے‘ دیہاتوں اور شہروں کے محاصرے سے فلسطینیوں کی زندگی دُوبھر کر دی گئی ہے۔ اس پر مستزاد ملازمت اور کاروبار سے محرومی‘ پانی اور غذائی اجناس حاصل کرنے میں رکاوٹ اور طبی امداد حاصل کرنے میں درپیش رکاوٹیں ہیں جن کی بنا پر اسرائیل کا چہرہ سابقہ جنوبی افریقہ سے بھی بھدّا نظرآتاہے‘‘ (ص ۱۶۶)
یُوری اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے آئین میں اس کے لیے جمہوری یا پارلیمانی ریاست نہیں‘ بلکہ ’’یہودی ریاست‘‘ کا ذکر ہے۔ دنیا کا ہر یہودی یہاں آکر ملازمت حاصل کر سکتا ہے‘ کاروبار کر سکتا ہے اور شان دار زندگی گزار سکتا ہے لیکن ۵ہزار برس سے مقیم فلسطینیوں کے لیے زندگی دُوبھر بنا دی گئی ہے۔
ابوغریب جیل کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مبصر نے کہا کہ فلسطینی قیدیوں کی حالت اِن سے زیادہ ژولیدہ ہے۔نسل پرست اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ جما رکھا ہے اور عربوں کی ریاستیں تو درکنار تمام اسلامی دنیا بھی انھیں واگزار کرانے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہیں۔
اس کتاب کے پہلے باب ’’صہیونیت‘‘ میں صہیونی تحریک کی تاریخ‘تھیوڈر ہرزل کے کردار‘ عالمی صہیونی تحریک کی طویل جدوجہد پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور فلسطینیوں کے جبری اور کئی برسوں تک جاری رہنے والے انخلا کو بنیاد بناکر اسرائیل کو نسل پرست ریاست قرار دیا گیا ہے۔ یُوری کا کہنا ہے کہ ’’فلسطینیوں کا اجتماعی‘ جبری انخلا انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی خلاف ورزی ہے‘‘ (ص ۸)۔ ہٹلر کے ہاتھوں ۶۰لاکھ یہودیوں کے قتل کو وہ مبالغہ آمیز قرار دیتا ہے۔ اُس کا خیال یہ ہے کہ یہودیوں کی اتنی بڑی تعداد میں قتلِ عام کی داستانیں اس لیے مشہور کی گئیں تاکہ ارضِ فلسطین پر قبضہ جمایا جائے اور ایک بے وطن قوم کے ساتھ ہمدردی کے جذبات ابھارے جاسکیں۔ ڈیوس تسلیم کرتا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے یہ آواز بلند کرنے کے نتیجے میں مجھے ’اچھوت‘ قرار دے دیا گیا ہے اور میں اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہوں (ص ۱۰)۔ اُس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنے استعمار اور آمریت پر پردہ ڈالنے کے لیے سب سے بہتر یہی سمجھا ہے کہ فلسطین کا ایک ایک انچ ریاستی تصرف میں آجائے‘ بعد میں سیاسی جنگ تو وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر امریکا کی مدد سے جیت سکتا ہے (ص ۱۸)۔ یہ پالیسی اسرائیل کو یہودی قومی فنڈ (JNF) کے نائب سربراہ جوزف ویز نے دی تھی۔ (ص ۱۹)
یہودیوں کے ظالمانہ کردار کے حوالے سے دیریاسین کے کئی واقعات بیان کیے گئے ہیں کہ اس علاقے کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے لیے اور عوام پر دہشت بٹھانے کے لیے ذبح کرنے سے لے کر جلا کر راکھ کر دینے تک کے حربے استعمال کیے گئے۔ پہلے باب میں عالمی صہیونی تحریک کے مکروہ عزائم اور اِن کے خوفناک منصوبوں پر بھی تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔
یُوری کے نزدیک یہ حکومتی غفلت نہیں‘ یہودی نسل کی فلسطینی عرب نسل کو اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے محروم کر دینے کی کوشش ہے (ص ۵)۔ وہ اس پر اظہار افسوس کرتا ہے کہ معروف ذرائع ابلاغ بھی اسرائیل کو ’’مشرقِ وسطیٰ کی واحد جمہوری کونپل‘‘ سمجھتے ہیں اور عرب ممالک کی بادشاہتوں کو عوام دشمن قرار دے کر اسرائیل کے کردار کو قابلِ تعریف بناکر پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس صورت حال میں اسلامی تاریخی آثار کی فکر کون کرے گا (ص ۳۸)۔ اس سلسلے میں وہ اقوامِ متحدہ اور اسرائیل کے معاملات پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور اس کے بعد یہ دل چسپ بحث اٹھاتا ہے کہ اصل میں یہودی کون ہے (ص ۷۱)۔ یُوری اس پر یقین رکھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے انسانی حقوق کا منشور جو ۱۹۴۸ء میں تیار ہوا تھا اُس پر ہی عمل درآمد کر لیا جائے تو فلسطینی بہتر زندگی کا راستہ دیکھ سکتے ہیں۔
اگلے ابواب میں اسرائیل پی ایل او معاہدوں میں جس طرح اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا گیا اور جس طرح یاسر عرفات کو شکار کیا گیا اُس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل نسل پرستی مخالف تحریک (MAIAP) کا تعارف بھی کرایا گیا‘ نیز فلسطینی تاریخ میں جو اتار چڑھائو آئے ہیں اُن کا کہیں کہیں سرسری جائزہ لیاگیا ہے۔
یُوری ڈیوس کی کتاب ہر لحاظ سے ایک جامع کتاب ہے اور اس میں اسرائیل کی نسل پرستی کے حوالے سے ممکنہ حد تک تمام معلومات اکٹھی کر دی گئی ہیں۔ اُمت کے صاحبِ دل اور فہیم طبقے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دشمنوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مجتمع کریں۔ بابری مسجد تو زمین بوس ہوچکی ہے‘ مسجد الاقصیٰ کے دشمن اپنے ’حتمی وار‘ کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اس کے سدباب کے لیے تیاری کی بھی ضرورت ہے اور بیداری کی بھی۔ انسانی حقوق کا ایک کارکن تحقیق کی بنیاد پر اتنا کچھ کہہ سکتا ہے‘ اگر امت مسلمہ کا ہر فرد اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے‘ اور اس کا کھل کر اظہار کرے تو بھی نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ (Apartheid Israel, Possibilities for the Struggle Within‘ Yri Davis ‘زیڈ-ای- ڈی پبلشرز‘ لندن‘ نیویارک‘ قیمت: ۹۵.۱۴ ڈالر۔ صفحات: ۲۴۸)