سرزمینِ روس پر ہونے والے ہر تخریبی سانحے کے بعد روسی حکام‘ سیاست دان‘ تجزیہ نگار اور مختلف ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے اہلکار ان تخریبی کارروائیوں کا ذمہ دار چیچنیا کو قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں زیادہ تر خفیہ ایجنسیاں اپنی مخصوص سیاسی اغراض کی تکمیل کی خاطر اپنے ہی ملک کے شہریوں کی جان و مال سے کھیلتی ہیں اور اپنی ان کارروائیوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جواز کا بہانہ بناتی ہیں۔ چنانچہ امریکی خفیہ ایجنسی نے ویت نام کے سمندر میں امریکی جہاز غرق کر دیا تاکہ ویت نام کے خلاف لڑائی کو حق بجانب قرار دیا جاسکے۔ اسی طرح اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے مراکش‘مصر اور عراق وغیرہ میں دھماکے کر کے یہودیوں کو نشانہ بنایا تاکہ ایک طرف تو یہودیوں کے لیے اسرائیل کی طرف ہجرت آسان ہوجائے اور دوسری طرف ان مسلم ممالک کے تعلقات مغربی ممالک سے خراب ہوں۔
روسی خفیہ ایجنسی بھی اسی طریقۂ واردات کو اپناتی رہی ہے۔ اس نے پبلک مقامات پر دھماکے کیے اور ذرائع مواصلات کو نشانہ بنایا ہے۔ ان دھماکوں کا مقصد سیاسی قیادت کی مدد کرکے چیچنیا سے متعلق روسی راے عامہ کو ہموار کرنا تھا۔
حکومتِ روس نے ۱۹۹۴ء میں جب دیکھا کہ چیچنیا کو ازسرنو اپنے تسلط میں لانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں تو اس نے حکومتِ چیچنیا کے خلاف جارحیت کا فیصلہ کرلیا‘ مگر جارحیت سے اس وقت کے چیچنیا کے صدر جوہر دائود کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور روس کی راے عامہ نے چیچنیا کے مسائل حل کرنے پر زور دیا۔ اسی طرح بین الاقوامی تائید بھی حکومتِ چیچنیا کو ملی‘ اگرچہ بین الاقوامی سطح پر نئی جمہوریہ کو تسلیم نہ کیا گیا۔ چنانچہ روس نے چیچنیا کے نظام کو اسلحے کے زور پر بدلنے کا تہیہ کرلیا۔ ۱۵نومبر ۱۹۹۴ء کو چیچنیا کو فتح کرنے کے لیے دارالحکومت گروزنی پر حملہ کر دیا گیا۔ روسی افواج کی تمام تر جارحیت کے باوجود چیچن مزاحمت جاری رہی اورصدر جمہوریہ چیچنیا کی حکومت کا خاتمہ نہ کیا جا سکا۔ روسی حکومت کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ حملے میں شریک ۱۵روسی فوجیوں کو قیدی بنالیا گیا۔ حکومت روس نے پہلے پہل تو اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا مگر جب حکومتِ چیچنیا نے دھمکی دی کہ ان روسی قیدیوں کو کرائے کے فوجی قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا تو روس نے اپنے ان فوجیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات شروع کر دیے۔
روسی خفیہ ایجنسیوں نے اب تخریبی کارروائیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تاکہ چیچنیا کو بدنام کیا جا سکے اور اس کے خلاف ایک بڑے فوجی اقدام کا جواز پیداکیا جا سکے۔ چنانچہ ۱۸نومبر ۱۹۹۴ء کو ماسکو کے قریب دریاے یازا سے گزرنے والی ریلوے لائن کے پل پر شدید دھماکا ہوا‘ جس سے پل کا ۲۰ میٹرکا حصہ تباہ ہوگیا۔ بہت بڑی تباہی ہوتی اگر ریل گاڑی کے پل پر سے گزرتے وقت یہ دھماکا ہوتا۔ اس دھماکے میں صرف ایک آدمی مارا گیا جو دھماکا خیز مواد نصب کر رہا تھا۔ اس کا جسم حادثے کی جگہ سے ۱۰۰ میٹر کے فاصلے پر پایا گیا۔ اس دھماکے کے فوراً بعد حکومت روس نے چیچنیا پر الزام عائد کر دیا۔ جلد ہی یہ معلوم ہوگیا کہ دھماکے میں مارا جانے والا شخص آندرے شیلنکوف ہے جو روس کی خفیہ ایجنسی سے وابستہ ہے اور وہ چیچنیا میں کام کرنے والی تیل کی کمپنی ’لاناکو‘ میں ملازمت کرتا تھا۔
اس دھماکے کے ناکام ہونے کے ایک ہفتے بعد روسی افواج نے ۲۶ نومبر ۱۹۹۴ء کو چیچن حکومت کے خلاف دوبارہ عسکری حملے کا ارادہ کیا۔ یہ دوسری کوشش بھی پہلی کوشش کی طرح ناکام رہی۔ اس لڑائی میں ۵۰۰ حملہ آور ہلاک ہوئے۔ ۲۰۰ فوجیوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ بہت سے ہتھیاروں کو نقصان پہنچا۔ ۲۰ بالکل صحیح و سالم ٹینکوں پر قبضہ ہوگیا۔ قیدیوں میں سے ۷۰ روسی فوجیوں نے چیچنیا کی ٹیلی وژن اسکرین پر یہ اعتراف کیا کہ ان کا تعلق روس کی مسلح افواج سے ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں روسی خفیہ ایجنسیاں اس جنگ میں لائی ہیں۔
۱۱ دسمبر ۱۹۹۴ء کو روسی افواج سرزمینِ چیچنیا میں داخل ہوئیں تو ہزاروں روسی شہریوں نے اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کے جذبے جوان تھے۔ اس لیے کہ روس کی افغانستان میں شکست ان کے سامنے تھی۔ اس موقع پر اراکینِ پارلیمنٹ نے صدر بورس یلسن کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کا تہیہ کر لیا۔
اب روسی خفیہ اداروں کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ ایک طرف توملک کے اندر سے ہونے والی مخالفت کم کرنے کے لیے کام کریں اور دوسری طرف روسی صدر کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کریں تاکہ روسی صدر کو ’چیچنیا کی علیحدگی پسند کی تحریک کو کچلنے اور وہاں دوبارہ دستوری نظام بحال کرنے‘ کا موقع مل سکے۔
چنانچہ ۲۳ دسمبر ۱۹۹۴ء کو ماسکو کے قریب کا جوخوفا اور کانتچیکوفا ریلوے اسٹیشنوں کے درمیان ریلوے لائن پر دھماکا کیا گیا۔ اس کے صرف چار دن بعد ایک بس میں دھماکا ہوا جو ۳۳نمبر سڑک پر چل رہی تھی۔ جب فوجی ایجنسی نے ریلوے لائن اور بس میں دھماکا کرنے والوں کو گرفتار کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک فلادیمیر فربیوف ہے جو روس کے محکمہ داخلہ کی خفیہ ایجنسی میں لیفٹیننٹ کرنل ہے۔ دوسرا گرفتار شدہ شخص فلاڈیمیراکیموف ہے۔ یہ دونوں لاناکو تیل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔
روس نے چیچنیا کے خلاف جنگ شروع تو کر دی مگر وہ چیچن افواج کے خلاف کوئی فیصلہ کن اقدام نہ کر سکا۔ اب روس کو صلح و صفائی کی ضرورت کا احساس ہوا۔ چنانچہ روسی صدر نے جنگ بندی کی پیش کش کر دی۔ روسی صدر نے چیچن قیادت کے ساتھ مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں لڑائی رک گئی اور امن و سلامتی کے معاہدے کے لیے مذاکرات کرنے پر اتفاق ہوگیا‘ مگر بہت سے روسی مفاد پرستوںکے لیے امن و صلح کی یہ کوشش ناپسندیدہ تھی لہٰذا انھوں نے پرامن مذاکرات کا سلسلہ ختم کر دینے کا تہیہ کر لیا۔
۱- ۱۱؍اگست ۱۹۹۶ء کو مڑو اسٹیشن پر دھماکا ہوا جس میں چار افراد مارے گئے اور ۱۲زخمی ہوئے۔ ۲- اسی دن بوشکین کے مشہور میدان کے قریب ایک بس میں دھماکا ہوا جس میں چھے افراد مارے گئے۔۳- اگلے روز ایک اور بس میں دھماکا ہوا جس میں ۲۸ مسافروں کو نقصان پہنچا۔
ان دھماکوں کے بعد انگلیاں چیچن جانبازوں کی طرف اٹھیں۔ اسی لیے ماسکو کی بلدیہ کے چیئرمین نے مطالبہ کیا کہ شہر میں مقیم تمام چیچن قومیت کے شہریوں کے خلاف مناسب اقدامات کیے جائیں۔
۱۹۹۶ء میں چیچنیا کی آزادی کے بعد روس نے ذلت محسوس کی۔ روسی قومی سلامتی کونسل کے سابق سیکرٹری جنرل لیبیڈ کے بقول: ’’روسی افواج چیچنیا سے ذلیل و خوار ہو کر نکلیں‘‘۔
۱۹۹۷ء میں روس نے حکومتِ چیچنیا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے فریقین کی حیثیت کے تعین کے لیے بین الاقوامی قانون کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ یہ گویا روس کی طرف سے چیچنیا کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا تھا۔ لہٰذا اب حکومت روس ایک ایسے مناسب موقع کی تلاش میں تھی کہ اس تاریخی ذلت کے داغ کو کیسے دھویا جائے۔ یہ موقع اس وقت ملا جب چیچن جاں باز اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے داغستانی علاقے میں داخل ہوئے تاکہ وہاں کی اس مقامی حکومت کے خلاف لڑیں جسے ماسکو کی حمایت حاصل تھی۔
روسی افواج نے چیچن جانبازوں کو داغستانی علاقوں سے نکال کر چیچنیا میں دھکیل دیا۔ اس کے ساتھ ہی روس نے ازسرنو چیچنیا میں داخل ہونے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس مقصد کے لیے ضروری تھاکہ آیندہ جنگ کے لیے راے عامہ کو ہموار کیا جائے۔ ایک ہدف اور بھی تھا‘ وہ یہ کہ ولادی میر پوٹین نئے روسی وزیراعظم کی حمایت کی جائے۔
۳۱ اگست ۱۹۹۹ء کو کرملین سے ۱۰۰میٹر کے فاصلے پر تجارتی بازار میں دھماکا ہوا۔ اس دھماکے کا الزام بھی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق چیچنیا پر لگایا گیا۔
اس کے بعد بونیاکسک‘ ماسکو اور وولجوڈاشک کے شہروں میں رہایشی عمارتوںمیں دھماکے ہوئے جن میں ۳۰۰ لوگ مارے گئے اور سیکڑوں آدمی زخمی ہوئے۔ حسبِ معمول روسی حکام نے اس کی ذمہ داری بھی چیچن حکومت پر ڈالی اور چیچنیا کے خلاف ایک بار پھر لڑائی شروع کر دی‘ جب کہ چیچن حکومت نے ان دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور اعلان کیا کہ وہ ان دھماکوں کی تحقیقات میں ہر طرح سے مدد دینے کے لیے تیار ہے اور وہ ایک اور جنگ چھڑنے سے بچنے کے لیے تمام تر طریقے اختیار کرنے پر آمادہ ہے۔ مگر روس نے سرے سے کسی قسم کی انکوائری سے ہی انکار کیا۔ ایک طرف چیچنیا ان دھماکوں میں ملوث ہونے سے صاف انکار کر رہا تھا اور دوسری طرف روس کے پاس ان دھماکوں میں حکومتِ چیچنیا کے ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ تھا۔ یوں دھماکے کرنے والوں کے سامنے راستہ بالکل صاف تھا۔
۱- روسی انٹیلی جنس کے ایک سابق افسر لیفٹیننٹ کرنل لیتفننسکو(جو اب منحرف ہوکر برطانیہ میں پناہ گزین ہے) نے ان تمام دھماکوں کا ذمہ دار روس کی داخلی انٹیلی جنس کو قرار دیا ہے۔ اس نے اپنی کتاب (روسی خفیہ ایجنسی روس کو تباہ کر رہی ہے) میں اس امرکے بہت سے تفصیلی دلائل دیے ہیں کہ کس طرح روس کی خفیہ ایجنسیاں روس میں دھماکے کرتی ہیں۔ ’’سرکاری راز فاش‘‘ کرنے کی بنا پر اس کتاب کی اشاعت کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
۲- عمارتوں کو تباہ کرنے کے لیے جو مواد استعمال کیا جاتا ہے وہ ’یکسوجین‘ کہلاتا ہے۔ یہ مواد روس کی صرف دو فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے۔ روسی انٹیلی جنس ان فیکٹریوں کی کڑی نگرانی کرتی ہے اور انھی کی نگرانی میں یہ مواد تیار ہوتا ہے۔
۳- روسی خفیہ ایجنسی کے لوگوں نے ۲۳ ستمبر ۱۹۹۹ء کو ریزان شہر میں ایک پانچ منزلہ عمارت کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی۔ جب پولیس نے ان افراد کو گرفتار کرلیا تو روسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ جنرل نیقولائی بیتروشیف نے اعلان کیا کہ یہ واقعہ تو محض سول ڈیفنس کی ایک مشق تھی اور اس کا مقصد عوام کی بیدارمغزی کا اندازہ لگانا تھا اور یہ دیکھنا تھا کہ اس قسم کے حالات میں ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ اس دھماکے میں استعمال ہونے والا مواد وہی ’یکسوجین‘ تھا جو پہلے دھماکوں میں استعمال ہوتا رہا اور اسے چینی کی بوریوں میں چھپایا گیا تھا۔
۴- روسی حکومت نے دھماکوں کے لیے کسی باضابطہ سرکاری انکوائری کمیٹی کے قیام سے انکار کیا۔ کیونکہ روسی حکومت کو خطرہ تھا کہ انکوائری کے نتیجے میں حکومت روس کا ملوث ہونا ثابت ہوجائے گا اور اس کے مقامی و عالمی سطح پر خطرناک نتائج نکلیں گے۔ اگر انکوائری سے یہ بھی ثابت ہوجاتا کہ اس میں چیچن لوگوں کا ہاتھ ہے تو یہ بھی چند افراد کا کام ہوتا نہ کہ پوری چیچن قوم کا اور یوں روس کو لڑائی روکنا پڑتی‘ جب کہ روس نے لڑائی کا تہیہ کر رکھا تھا۔
۵- دھماکوں کے مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے اور اصل حقیقت کا سراغ لگانے کے لیے ایک عوامی کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی گئی کیونکہ حکومت روس نے سرکاری کمیٹی کی تشکیل سے انکار کر دیا تھا۔ اس کمیٹی کے سربراہ روسی پارلیمنٹ کے دو رکن یرغی یوشنکوف اور یوری شیکو چیچن تھے۔ یہ دونوں یکے بعد دیگرے مار ڈالے گئے۔یوشنکوف تو ۱۷ مارچ ۲۰۰۳ء کو اپنے گھر کے سامنے گولی لگنے سے مارا گیا‘جب کہ شیکوچیچن کو اسی سال ۳ جولائی کو زہر دے کر ہلاک کر دیا گیا۔ انکوائری کمیٹی کے ان سرکردہ افراد سے اس لیے گلوخلاصی کرائی گئی کیونکہ ان کے پاس اس امر کے بہت سے ثبوت تھے کہ دھماکوں میں روسی حکومت کا ہاتھ ہے۔
۶- روسی صدارتی انتخابات کی ایک خاتون امیدوار ایرینا خاکامادی نے بار بار اعلان کیا کہ وہ رہایشی عمارات میں دھماکا کرنے اور ’’نورداوست‘‘تھیٹر کے مسئلے پر روشنی ڈالے گی اور یہ کہ اسے یقین ہے کہ روسی حکام ان کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
۷- ڈوما پارلیمنٹ کے سابق سربراہ غینادی سیلیزنیوف نے پیشن گوئی کی تھی کہ دو دن کے بعد فولجوڈانسک شہر میں دھماکے ہوں گے۔ چنانچہ اس شہرمیں واقعی زینوف کے بتائے ہوئے وقت پر دھماکے ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیلیزنیوف کو علم غیب تھا؟ پھر متعلقہ حکام نے ان دھماکوں کو روکنے کے لیے کارروائی کیوں نہیں کی؟
۸- معروف روسی وکیل میخائیل تریباشکین نے اعلان کیا کہ اس کے پاس اس بات کے کافی ثبوت ہیں کہ دھماکوں میں روسی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ اس وکیل کو ۲۲نومبر ۲۰۰۳ء کو گرفتار کر لیا گیا۔
۹- روسی خفیہ اداروں نے مارک بلومینفیلڈ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس شخص کی نشان دہی اور حلیہ بیان کرے جس نے اس سے جگہ کرایے پر لی تھی۔ یاد رہے کہ مارک کے ایک مکان کو دھماکا خیز مواد کے سٹور کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ مارک نے جس شخص کا حلیہ بیان کیا وہ روسی خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ ولاڈیمیررومانوفیچ تھا۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد فائل سے ولادیمیرکے حلیہ وغیرہ پر مبنی کاغذات غائب تھے اور یہ ولادیمیر دھماکوں کے چند ماہ بعد قبرص میں کار کے ایک حادثے میں مارا گیا۔ مالک مکان مارک کو ایک بار پھر ازسرنو ایک تصویر دکھائی گئی اور اس سے کہا گیا کہ وہ اس شخص کا حلیہ بیان کرے۔ اب یہ حلیہ اچیمیز غوچائیف چیچن سے ملتا تھا۔ روسی حکومت نے ان دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام اس بے گناہ چیچن باشندے پر دھر دیا۔
۱- ۲۴ فروری ۲۰۰۱ء کو میرالنی فودی شہر کے بازار میں ایک دھماکا ہوا جس میں ۱۳ لوگ مارے گئے۔
۲- ۹ مئی ۲۰۰۲ء کو داغستان کے شہر کابسی میں دھماکا ہوا جس میں ۴۳ آدمی مارے گئے اور ۱۰۰ زخمی ہوئے۔
۳- ۵ جولائی ۲۰۰۳ء کو ماسکو میں دھماکا ہوا جس میں ۱۸ آدمی ہلاک ہوئے اور ۶۰ زخمی۔ اس کا الزام چیچنیا پر لگا۔ روسی حکام کو ایک چیچن خاتون کا پاسپورٹ ملا جس کا نام زلیخان ایلیحا تھا۔ روس کے پارلیمانی انتخابات سے قبل ہونے والے اس دھماکے سے حکومت چیچنیا نے لاتعلقی ظاہر کی۔ اس دھماکے کا مقصد چیچنیا کے خلاف راے عامہ کو برانگیختہ کرنا تھا۔ چیچن حکومت نے کہا کہ یہ پاسپورٹ جعلی ہے۔ روسی حکام نے جو انکوائری کی تھی اس میں یہ تاثر دیا تھا کہ زلیخان روس جانے کے لیے جارجیا میں سے گزری ہے۔ جارجیا کے حکام نے اس روسی دعوے کی تردید کی۔
۴- دسمبر ۲۰۰۳ء میں ماسکو کے مرکز میں ایک دھماکا ہوا۔ روسی حکام نے اسے چیچنیا کی کارستانی قرار دیا کیونکہ ان کے بقول حادثے کی جگہ سے ایک پاسپورٹ ملا تھا جسے حکومت چیچنیا نے جاری کیا تھا اور اس پاسپورٹ پر’’اینفاغیزوییفا‘‘ کا نام تھا۔
آپ نے دیکھا کہ ان تمام دھماکوں کا ذمہ دار چیچنیا کو قرار دیا گیا‘ جب کہ چیچن حکام نے ہر بار اس کی نفی کی۔ کافی عرصے تک چیچنیا کو نظرانداز کرنے کے بعد ۶ فروری ۲۰۰۴ء کو مڑوسرنگ پر دھماکا ہوا جس میں بیسیوں لوگ مارے گئے۔ یورپ میں حکومت چیچنیا کے نمایندے احمدزکاییف نے واضح کیا ہے کہ روسی خفیہ ایجنسیاں ہی براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ۶ فروری اور دیگر تمام واقعات کی ذمہ دار ہیں۔ زکاییف نے واضح کیا کہ چونکہ پورے یورپ میں چیچن مسئلے کو سفارتی و سیاسی مدد مل رہی ہے‘ اس لیے روسی حکومت ان دھماکوں پر مجبور ہے تاکہ وہ ان دھماکوں کا الزام چیچنیا پر لگا کر یورپ کی حمایت حاصل کرے ‘اور یہ تاثر دے سکے کہ روس دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شریک ہے‘ نیز اسے چیچنیا کے خلاف اپنی تباہ کن کارروائیاں جاری رکھنے کا جواز مل سکے۔
دھماکوں سے چیچنیا کی ہر طرح سے تعلق کی نفی کرتے ہوئے احمد زکاییف نے کہا کہ چیچنیا روس کے ساتھ ان دھماکوں کو روکنے کے لیے تحقیقات کروانے کے لیے ہر طرح سے تیار ہے‘ اور یہ کہ چیچنیا اس بات کا خواہاں ہے کہ روس چیچن جنگ ختم ہو۔ احمد زکاییف کے اس مثبت ردعمل کا روس نے بالکل جواب نہیں دیا۔
معلوم یہی ہوتا ہے کہ روس نے اپنی سابق روش پر کاربند رہنے کا عزم مصمم کر رکھا ہے۔ چیچنیا کو بدنام کرنے کے لیے وہ ایک طرف تو روس میں خوفناک دھماکوں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف روسی عوام اور عالمی راے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا چاہتا ہے۔
(المجتمع‘ شمارہ ۱۵۹۷‘ ۱۷ اپریل ۲۰۰۴ئ)