اس خدافراموشی‘ آخرت فراموشی‘ اور پیغمبروں کی تعلیمات سے استغنا و بے نیازی کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب آج اِس قدر روشن ہے کہ اس کی رات بھی دن ہے لیکن اس قدر تاریک ہے کہ دن بھی رات ہے۔ روشنی اور ترقی کے اس دور میں آج وہ سب کچھ پیش آ رہا ہے جو وحشت و بربریت کے دور کی خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔ بقول میراکبر حسین الٰہ آبادی مرحوم ؎
لکھے گا کلکِ حسرت دنیا کی ہسٹری میں
اندھیر ہو رہا تھا بجلی کی روشنی میں
اگر حضرت مسیح اس دنیا میں تشریف لے آئیں‘ تو زیادہ عرصے تک زندہ نہ رہ سکیں گے۔ وہ ملاحظہ یہ فرمائیں گے کہ دو ہزار برس کے بعد بھی انسان فتنہ و فساد‘ کشت و خون‘ قتل و غارت میں بدستور مبتلا ہے‘ بلکہ اس وقت توانسانیت کے جسم سے تاریخ کی عظیم ترین جنگ کے اثر سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں‘ اور زمین اس قدر تاراج ہوچکی ہے کہ نوبت فاقہ کشی کی آگئی ہے۔ اور حضرت آکر کیا دیکھیں گے؟ کیا اخوت و مساوات کے ساتھ لوگوں کو ہاتھ ملاتے؟ یا اس کے بالکل برعکس اس جنگِ عظیم سے بھی بڑھ کرمہلک و پُراذیت جنگ کی تیاریاں کرتے؟ ایک سے بڑھ کر ایک جان لیوا اور ستم کش آلاتِ ہلاکت ایجاد کرتے اور تعذیب کی نئی نئی ترکیبیں سوچتے؟
…… اس دنیا کے باشندے اس صدی کے پچھلے حصے میں غاروں میں زندگی گزارنے والے دنیا کے قدیم وحشیوں کا طرزِ زندگی اختیار کرلیں گے اور اُسی وحشت و بربریت کا دور شروع ہوجائے گا جو ہزاروں سال پہلے دنیا میں قائم تھا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ تمام ممالک ایک ایسے ہتھیار سے بچنے کے لیے کروڑوں روپیہ صرف کر رہے ہیں جس سے ہیں تو سب کے سب خائف مگر اس کو قابو میں رکھنے پرراضی نہیں ہوتے۔ میں بعض اوقات تعجب سے سوچتا ہوں کہ اگر کسی دوسرے سیارے سے کوئی سیاح اور زائر اس زمین پر آئے تو وہ ہماری اس دنیا کو دیکھ کر کیا کہے گا۔ وہ دیکھے گا کہ ہم سب اپنی ہی بربادی اور ہلاکت کے وسائل تیار کر رہے ہیں اورطرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک دوسرے کو اس کے طریق استعمال کی اطلا ع بھی دے رہے ہیں۔
(سیرت محمدیؐ کا پیغام بیسویں صدی کے نام‘‘، مولانا ابوالحسن علی ندوی‘ ترجمان القرآن‘ ج۲۵‘ عدد ۱-۴‘ رجب تا شوال ۱۳۶۳ھ‘ جولائی تا اکتوبر ۱۹۴۴ئ‘ ص ۴۸)