ستمبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| ستمبر ۲۰۰۴ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

راشد الیاس ‘لاہور

ہم مغرب میں خاندانی نظام کی ابتری کو موضوع بناتے ہیں لیکن اپنے اخبارات ہماری بھی کوئی کچھ اچھی تصویر پیش نہیں کرتے۔ ’’خاندان کو لاحق خطرات، ممکنہ لائحہ عمل‘‘ (اگست ۲۰۰۴ئ) میں اہم مسئلے کی طرف توجہ دی گئی ہے۔ مضمون نگار نے جو تجاویز دی ہیں‘ ان پر ہماری تنظیموں کو عمل کرنا چاہیے۔


مامون ہاشم‘ کوئٹہ

ملک میں علاج کتنا مہنگا ہوگیا ہے‘ اس کا تجزیہ کیا جائے تو عجیب و غریب حقائق سامنے آئیں گے۔ کتنی ہی دوائیں پڑوسی ممالک سے دس گنا قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں‘ یہ نفع کس کی جیب میں جاتا ہے۔’’ علاج کی صورت حال’’ (اگست ۲۰۰۴ئ) میں کسی پارلیمانی کمیٹی کے لیے ضروری نشاندہی کی گئی ہے


محمد خلیق ‘جدہ

’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) میں وقت کے اس نعرے کی حقیقت بہت خوب کھول کر بیان کی گئی۔ جو لوگ سرکاری پروپیگنڈے سے گمراہ ہوتے ہیں‘ ان کے لیے یہ تحریر چشم کشا ہے۔ مقالہ نگار نے اسلام کا حقیقی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا حقیقی تصور پیش کرکے حق ادا کر دیا۔ جو دانش ور امریکی راگ الاپ رہے ہیں‘ وہ ضرور اس کا مطالعہ کریں۔


راشدہ واحد  ‘کراچی

’’غلبۂ اسلام کی بشارتیں اور عملی تقاضے‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) بہت جامع‘ پُراثر اور امیدافزا تھی‘ جسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ غلبۂ اسلام کے لیے مومنانہ اوصاف ناگزیر ہیں۔ اور دل نے محسوس کیا کہ ’’دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔(آل عمران۳:۱۳۹)


ڈاکٹر شہزاد اکبر ‘ چیچہ وطنی

جولائی کے شمارے میں اشارات بہت خوب تھے۔ حالاتِ حاضرہ کی اور موجودہ حکومت کی صحیح تصویرکشی کی گئی۔ جنرل صاحب کے عزائم سے پردہ اٹھایا گیا۔ جہاں اشارات پڑھ کر دل افسردہ ہوا وہاں ’’غلبۂ اسلام کی بشارتیں‘‘ پڑھ کر دل کو یقین ہوا کہ آخرکار حق کو غالب آنا ہے۔ یقینا غلبۂ دین کے لیے کام کرنے والوں کو قرآن پر غورکرنا چاہیے‘ اور اسی سے رہنمائی لینی چاہیے۔


اشفاق احسان ‘ کراچی

قوم میں موجود ہمہ جہت خرابیوں اور ان کی اصلاح پر ملک کے عالی مرتبت اہل فکرونظر کے دل سوزی کے ساتھ لکھے ہوئے مقالات شاید میری طرح دیگر قارئین کے بھی غم و افسوس کو تووقتی طور پر بڑھا دیتے ہیں لیکن ان کی اکثریت میں کوئی ایسا ردعمل پیدا کرتے نہیں دکھائی دیتے جو ان کے قول و فعل اور معاملات میں کسی مثبت اخلاقی تبدیلی کے ذریعے ظاہر ہو۔ میرا خیال ہے کہ لمبے لمبے مضامین‘ طول طویل پروگرام اور ان میں دشوار طلب مطالبے عام لوگوں کی ہمتیں عمل سے پہلے ہی پست کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سالہا سال سے نامی گرامی واعظین‘ مقررین اور مصنفین کو سننے اور پڑھنے کے باوجود قوم کی اخلاقی حالت مسلسل روبہ تنزل ہے۔

میں عاجز گمان کرتا ہوں کہ ابلاغ کے حوالے سے حکمت اختیار کرنے کی ضرورت ہے‘ مثلاً چند حضرات دو ایک بینر ہاتھوں میں پکڑے خاموشی کے ساتھ کسی عام گزرگاہ پر کھڑے ہوجائیں‘ اور ان پر کوئی ایک پیغام مختصر الفاظ میں لکھا ہو۔ ان مختصرالفاظ اور جملوں کے ذریعے شان دار دعوت کو سہل اور اثرانگیز انداز میں عوام الناس تک پہنچانے کی حکمت ضرور موثر ہوگی۔ ان بینرز کی عبارات کچھ اس طرح کی ہو سکتی ہیں: ۱- دیانت و امانت کی خوبیاں پیدا کیجیے ۲- وعدوں کی پابندی کیجیے وغیرہ۔

  • طویل تحریر کو مختصر کیا گیا ہے۔