ادارہ معارف اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد باصلاحیت نوجوانوں کو تحقیق کے عمل سے گزارنا اور علومِ اسلامیہ و عصریہ میں اسلام کی ترجمانی کے قابل بنانا تھا۔ اس کام کے بارے میں سوچ و بچار ہوتی رہی مگر عملاً اس کا آغاز نہ ہوسکا۔ آخرکار ایک مشاورت میں طے پایا کہ پہلا قدم اگرچہ لڑکھڑاتے ہوئے اٹھایا جاتا ہے مگر منزل تک پہنچنے کے لیے پہلا قدم ہی اولین ترجیح اور تقاضا ہوتا ہے۔ اس سوچ کے بعد پہلا قدم اٹھانے کا فیصلہ ہوگیا۔
ابتدائی مرحلے میں تین ماہ کا تصنیفی و تربیتی اقامتی پروگرام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اشتہار کے ذریعے ایم اے پاس یا اس کے برابر دینی تعلیم کے حامل نوجوانوں کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ ۲۵ درخواستیں موصول ہوئیں۔ انٹرویو کے بعد آٹھ نوجوانوں کا انتخاب ہوا جنھوں نے اس پروگرام میں شرکت کی۔
۱۴ اپریل سے ۱۴ جولائی ۲۰۰۴ء تک تحقیقی و تصنیفی تربیتی پروگرام ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ لاہور میں منعقد کیا گیا۔ اس میں عربی‘ انگریزی‘ فارسی (ابتدائی) کی تعلیم دی گئی۔ درست اردو لکھنے کی مشق کرائی گئی۔ مختلف موضوعات پر مہمان مقررین نے ایک گھنٹے سے دوگھنٹے تک کے لیکچر دیے۔ سوال و جواب کی نشست بھی ہر خطاب کے بعد ہوئی۔ بیشتر خطابات ریکارڈ کیے گئے۔ درجن بھر منتخب کتب کا مطالعہ کرایا گیا۔ ان میں تنقیحات‘ تفہیمات (اول)‘ سنت کی آئینی حیثیت‘ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی‘ محسن انسانیتؐ‘ مشاہدات‘ رسائل و مسائل اور چند ادبی کتب شامل ہیں۔
شرکا لاہور کی کئی اہم لائبریریوں میں گئے اور مختلف تحریکی رہنمائوں کے ساتھ نشستیں بھی ہوئیں۔ ان میں امیرجماعت اسلامی پاکستان‘ نائب امرا‘ قیم جماعت اور محترم میاں طفیل محمد خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ مختلف تقاریب کی رپورٹنگ کی مشق کرائی گئی‘ مختلف مسائل اور موضوعات پر مدیرانِ اخبارات کے نام خطوط اور مضامین لکھوائے گئے۔ ان میں سے کئی ایک اخبارات اور رسائل میں شائع بھی ہوگئے۔
آخری ہفتے میں طے شدہ موضوعات پر مقالے لکھنے کے لیے شرکا کو پورا وقت دیا گیا‘ تاہم ان کا قیام ادارے ہی میں رہا۔ الحمدللہ مقالے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ تین ماہ کی مختصر مدت میں شرکا نے کافی منازل کامیابی سے طے کی ہیں۔ اس سارے پروگرام میں ادارے کے تمام احباب و رفقا نے بھرپور حصہ لیا مگر اس کے روحِ رواں ڈائرکٹر ریسرچ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی تھے۔ یہ پہلا قدم تھا لیکن اس سے دوسرے قدم اور پھر اگلا قدم اٹھانے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ آگے کے مراحل کے لیے مشاورت جاری ہے۔
دینی مدارس کا محدود کردار‘ اسباب‘ اثرات(عرفان عادل)‘ پاکستان میں عیسائیت کا فروغ (محمد ریاض)‘ پاکستان میں تحریک حقوق نسواں (محمد رمضان راشد)‘ نصاب تعلیم میں تبدیلیاں (حمیداللہ خٹک)‘ ملٹی نیشنل کمپنیاں: اغراض و مقاصد اور اسلام دشمنی (شیخ افتخار احمد)‘ خانہ بدوش اور ان میں دعوتِ اسلامی (محمد رفیق)‘ منبرومحراب: انقلاب کا پیش خیمہ (حافظ محمد ہاشم)‘ انقلاب کی راہ (عبدالجبار بھٹی)۔
ان مقالہ جات کی تدوین کر کے اخبارات اور رسائل میں اشاعت کے لیے بھی ارسال کیا جائے گا۔