ستمبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

ہر فرعونے را موسیٰ ، ہر کمالے را زوال

پروفیسر خورشید احمد | ستمبر ۲۰۰۴ | شذرات

Responsive image Responsive image

جس طرح فرعون نے انا ربکم الاعلٰی کا نعرہ لگایا تھامگر ذلت کی موت مرا ‘اسی طرح برطانیہ کے شاہ لوئی چہاردہم(xiv) نے دعویٰ کیا تھا کہ "I am the State" لیکن وہ اور اس کی سلطنت جلد ہی قصہ پارینہ بن گئی۔ آج کے فرعون اور لوئی بھی اُسی زبان میں بات کررہے ہیں اور اپنے حشر سے بے خبر ہیں۔ ہم امریکا کی قیادت اور اس کے عزائم پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں اور درپیش خطرات کا پورا شعور رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ تبدیلی کی ان لہروں پر بھی نظر ضروری ہے جو غالب نظام اور مغرور حکمرانوں کو چیلنج کر رہی ہے۔

یہ ردعمل عوامی سطح پر تو اول روز سے موجود ہے لیکن اب مقتدر حلقوں میں بھی اختلافی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں جو استبدادی قوتوںکے لیے زوال کے آغاز کی علامت ہیں۔ ۱۱؍۹ کمیشن کی کارروائیوں اور رپورٹوں نے امریکی قیادت کے دعوئوں کا پول کھولنا شروع کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیاں امریکا اور برطانیہ میں پالیسیوں کے پاے چوبیں کی نشان دہی کررہی ہیں۔ صحافی اور اہلِ قلم اب کھل کر بات کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈھائی سال کے حیص بیص کے بعد امریکا کی عدالت عالیہ نے گوانتاناموبے کے قیدیوں کے سلسلے میں پہلا اہم فیصلہ دیا کہ ان کے حق دفاع کو مستقلاً معطل نہیں رکھا جا سکتا اور عدالت نے اپنے فیصلے میں اس اصول کا بھی اعادہ کیا ہے کہ ’’جنگ ہو یا دہشت گردی کا خطرہ‘ انتظامیہ کو لوگوں کو ان کی آزادیوں سے محروم رکھنے کی کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی‘‘۔ عدالت نے اس کلیے کو بھی بیان کیا ہے کہ:

"A state of war is not a blank cheque for the president".

حالتِ جنگ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صدر جو چاہے کرے۔

عوامی سطح پر صدر جارج بش کی قباے شاہانہ کو تار تار کرنے کا کام ایک بہت ہی غیرمتوقع انداز میں ہو رہا ہے۔ ایک مشہور فلم ساز اور آسکرایوارڈ حاصل کرنے والے اداکار مائیکل مور (Michael Moore) نے ایک دستاویزی فلم بنائی ہے جسے امریکا (ہالی ووڈ)کے وال ڈزنی نے تو جاری کرنے سے انکار کر دیا مگر فرانس کے کینزکے میلے کو اس نے لوٹ لیا۔ اب یہ فلم امریکا اور یورپ میں دکھائی جارہی ہے۔ اس کا عنوان ہے فارن ہائٹ ۱۱/۹ (Fahrenheit 9/11)۔ اس فلم میں جارج بش کا اصل چہرہ اور استعماری کردار‘ نیز سعودی حکمرانوں سے ان کی اور ان کے خاندان اور ساتھیوں کے تعلقات کی پوری داستان بیان کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ اس امریکی حکمران ٹولے نے اپنے سامراجی مقاصد اور دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کس طرح ۱۱/۹ کو استعمال کیا ہے۔ اس کا ایک مرکزی کردار وہ بدنصیب ماں ہے جس نے اپنے بیٹے کو اپنا پیٹ کاٹ کر فوج میں بھرتی کرنے کے لیے تیار کیا اور جسے وہ اپنا سہارا سمجھ رہی تھی مگر کس طرح عراق کی جنگ نے اسے بے سہارا کر دیا۔ یہ ایک ماں کی نہیں پوری امریکی قوم کی کہانی ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے کالم نگار پال کروگ مین (Paul Krugman) کے الفاظ میں یہ فلم اپنی ایک گونہ جانب داری کے باوجود ۱۱/۹ اور اس کے بعد کے کھیل کے بارے میں ان حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے جن سے امریکی عوام کو بے خبر رکھا گیا تھا۔

یہ ان لیڈروں کے بارے میں ضروری سچائی بیان کرتی ہے جنھوں نے ایک قومی المیے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور جس کی قیمت ایک عام امریکی نے ادا کی۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون‘ ۵ جولائی ۲۰۰۴ئ)

ارجنٹائن کا صدر ہیوگو شاویز (Hugo Chavez ) سوال کرتا ہے کہ:

"Who gave the United States a whistle to be the world's refree?"

امریکا اپنی تمام چابک دستی اور اثرورسوخ کے باوجود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے امریکی فوجیوں کو جنگی جرائم سے مستثنیٰ رکھنے کی قرارداد منظور نہیں کرا سکا اور آخری وقت پر اسے اس قرارداد کو واپس لینا پڑا۔ امریکا کی ساری کوشش کے باوجود اسرائیل کو جنگ کی عالمی عدالت میں منہ کی کھانی پڑی اور ۱۵ میں سے ۱۴ ججوں نے (صرف امریکی جج نے فیصلے سے اختلاف کیا) فلسطینیوں کی زمین پر آہنی باڑ بنانے کو خلافِ قانون قرار دیا اور اسے منہدم کرنے کا مطالبہ کیا جس کی توثیق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی بھاری اکثریت سے کر دی ہے۔

امریکی فوج کے کچھ باضمیر افسر جو عراق سے واپس آئے ہیں صدر بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا برملا اعتراف کر رہے ہیں۔۸۲ آرمڈ ڈویژن کا ایک افسر اعتراف کرتا ہے کہ صدر بش کے Mission Accomplishedاور عراق کی مبینہ آزادی کے اعلان کے بعد جو کچھ ہوا وہ مشن کی تکمیل نہیں بلکہ قتل و غارت گری کی نئی دوڑ کے سوا کچھ نہیں۔

ایک دفعہ پھر ہر طرف جنگ کی کیفیت تھی لیکن اس دفعہ آپ کا مقابلہ سول مزاحمت کاروں سے تھا۔ ہم عوام سے لڑ رہے تھے۔ ہر گھر‘ ہر چھت‘ ہر صحن‘ ہر اسکول کا میدان ایک مورچہ بن گیا تھا۔ ایک چیک پوائنٹ پر ایک نوجوان لڑکی نے کسی خوف کے بغیر مجھ سے بہترین انگریزی میں کہا: اگر میں تم کو قتل کر سکتی‘ تو ایسا ضرور کرتی۔

فلوجہ نے مجھے جنگ اس تناظر میں دکھائی۔ اگر ہم پورا شہر بھی روند کر رکھ دیتے اور اس کو ایک کھنڈر میں تبدیل کر دیتے‘ تب بھی ہم جیت نہیں سکتے تھے۔(فریڈرک ایف کلیرمونٹ: Faluja: A New Beginning بہ حوالہ: اکانومک اینڈ پولٹیکل ویکلی‘ ۳ جولائی ۲۰۰۴ئ)

کلیرمونٹ کے الفاظ میں فلوجہ میں جو کچھ ہوا ہے اگر کسی مثال سے بیان کیا جا سکتا ہے تو وہ اسٹالن گراڈ ہے جس نے دوسری جنگ کا رخ بدل دیا۔

اسٹالن گراڈ سے مقابلہ اس لیے مناسب ہے کہ وہ بھی جنگ میں ایک فیصلہ کن موڑ  (turning point ) تھا۔ فلوجہ عوامی شعور کے ایک نئے دور کا آغاز تھا جس میں صدام اور بعثی نظریہ بے معنی ہوگیا۔ مرد اور عورت‘ شیعہ اور سنی‘ عیسائی اور کُرد‘ سب شانہ بشانہ لڑے۔ یہ ایک نیا قومی شعور ہے جو مذہبی‘ اجتماعی اور سیاسی تفریقات سے بالا ہے۔ قابض فوج کی شعیوں اور سنیوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی۔ فلوجہ اس جدوجہد کی استعمار دشمن نوعیت کی علامت تھا۔ یہ عرب دنیا میں ایک نیا عنصر ہے اور آج قوم کی حرکی خصوصیت ہے۔

اب امریکی دانش ور یہ سوچنے اور کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ صدر بش اور ان کے ساتھیوں کا سارا کھیل ناکام رہا ہے۔ اس سلسلے میں مشہور دانش ور اور کالم نگار نکلسن کرسٹوف (Nicklson D. Kristof)کا مضمون "The Arrogance of Power" بہت چشم کشا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

اگر صدر بش اپنی عراقی مہم کو بچانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تجویز ہے : جارج ٹینٹ جیسے سی آئی اے کے خوشامدیوں کے ساتھ کم وقت گزاریں اور زیادہ وقت الجزیرہ ٹیلی ویژن دیکھیں۔

بش انتظامیہ کے خفیہ اطلاعات کے نظام کا مرکزی عنصر یہ نہیں تھا کہ یہ مناسب تعداد میں ٹیلی فون ٹیپ کرنے میں ناکام رہا‘ بلکہ یہ تھا کہ اس نے عراق یا وسیع تر عرب دنیا کے ذہن (mindset)کو سمجھنے کی پروا نہیں کی اور اب بھی نہیں کر رہا۔

صدربش اور ان کے طائفے کے ذہن کی یہ عکاسی مبنی برحقیقت ہے لیکن ستم بالاے ستم کہ مسئلہ محض صدربش کا نہیں عرب اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کا بھی اس سے مختلف نہیں۔ اور مزید بدقسمتی ہے کہ خود ہمارے حکمران بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح کے ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ یہ سب ہی اپنے عوام کے جذبات‘ احساسات اور عزائم سے لاتعلق ہیں اور آج کے نیرو (Nero) کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس پر بھی کیا یہ سب یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کا حشر بھی نیرو کے حشر سے مختلف ہوگا؟