ستمبر ۲۰۰۴

فہرست مضامین

اعداد وشمار کی صحت کا مسئلہ

پروفیسر خورشید احمد | ستمبر ۲۰۰۴ | شذرات

Responsive image Responsive image

شماریات (Statistics) کی بحیثیت ایک علم عمر اب ۱۰۰سال سے زیادہ ہے۔ اس زمانے میں زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں قابلِ اعتماد اعداد و شمار کی اہمیت بے انتہا بڑھ گئی ہے اور معاشی اور معاشرتی منصوبہ بندی میں اعداد و شمار کا کردار روز بروز بڑھ رہا ہے۔ حکومت اور مختلف اداروں کی کارکردگی کا پیمانہ بھی یہی اعداد و شمار بن گئے ہیں۔ ان حالات میں اعداد و شمار کو جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے والے اداروں کو مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ ایک زمانے میں تو شماریات کو ناقابلِ اعتماد گورکھ دھندا سمجھا جاتا تھا اور ایک ماہرِ شماریات نے یہاں تک لکھ دیا تھا کہ جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں۔

Lies, white lies and statistics, in order of ascendence.

یہ مبالغہ صحیح نہیں۔ البتہ اعداد و شمار کی صحت اور ان کے جمع کرنے اور مرتب کرنے کے نظام کو حکومت کی مرضی پر چھوڑنا بڑا گمراہ کن ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک اس کے لیے متعدد طریقے اختیار کر رہے ہیں جس میں مندرجہ ذیل خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔

۱-            اعداد و شمار کے نظام کو آزاد انتظام کے تحت مرتب کرنا ‘ اس کے لیے قانون کے ذریعے آزاد اداروں کا قیام جن کو دستوری تحفظ حاصل ہو اور جن کے مالی ذرائع حکومتوں کی مرضی پر موقوف نہ ہوں۔

۲-            ہر موضوع کے بارے میں ایک سے زیادہ اداروں کے ذریعے اعداد وشمار کا حصول ‘ تاکہ ایک ہی موضوع کے بارے میں مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کا تقابل کیا جا سکے۔ نیز متبادل ذرائع کی موجودگی اعداد و شمار میں بددیانتی کرنے کے خلاف ایک مؤثر  رکاوٹ کا کردار بھی ادا کر سکے۔ اس باب میں خصوصیت سے نجی شعبے کے اداروں کی خدمات اہمیت اختیار کرگئی ہیں جو سرکاری ذرائع کے لیے بھی checks & balances کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہے۔

۳-            اب یورپ کے کئی ممالک خصوصیت سے انگلستان میں ایک ادارہ بہت مؤثر کردار ادا کر رہا ہے اور وہ ہے Statistics Commission جس کی حیثیت ایک طرح کے نگراں (Statistics Watch-dog  ) یا محتسب (Statistics-Ombudsman) کی ہے جو دوسروں کی تحریک پر اور خود اپنے اختیار سے (suo moto) شماریات کے پورے نظام پر نگاہ رکھتا ہے ‘اور جہاں کہیں کوئی ایسی تدبیر اختیار کی جاتی ہے جس سے شماریات کی صحت پر برا اثر پڑے‘ یہ کمیشن فوری طور پر احتساب کا فرض ادا کرتا ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں بنیادی سال (year base) کو تبدیل کرنے کا کام ۲۳سال کے تغافل کے بعد بہت ہی عجلت میں کیا گیا اور نئی اور پرانی دونوں بنیادوں پر اعداد و شمار اور تبدیلی کے رجحانات کا تقابل شائع نہیں کیا گیا جو علمی اعتبار سے سخت قابلِ گرفت ہے‘ خصوصیت سے اس لیے کہ جس سال کو نیا بنیادی سال قرار دیا گیا ہے وہ غیرمعمولی حالات کا شکارتھا‘ یعنی ۲۰۰۰-۱۹۹۹ئ۔ اسی طرح غربت کی کیفیت اور کمیت کا تعین کرنے کے لیے جو سال میں چار بار ہائوس ہولڈ سروے ہوتے ہیں اور ان کے اوسط کو سال کے لیے غربت کے تعین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ہٹ کر محض ایک مختصر (یعنی اصل نمونے کے صرف ایک تہائی) نمونے کی بنیاد پر اور وہ بھی صرف ایک سہ ماہی تک محدود رکھ کر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں ان کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگر ہمارے ملک میں بھی شماریات کا کمیشن بحیثیت محتسب ہو تو ایسے واقعات پر بروقت گرفت ہو سکتی ہے۔

برطانیہ کے کمیشن نے حال ہی میں قومی شماریات کے دفتر پر سخت تنقید کی ہے کہ اس نے بلاجواز اور تمام حقائق ظاہر کیے بغیر کچھ میدانوں میں اعداد و شمار جمع کرنے کے طریقے میں تبدیلیاں کرڈالی ہیں۔ کمیشن نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ:

سرکاری اعداد و شمار پر عوام کا اعتماد اعداد مرتب کرنے کے طریقوں کے معیار سے متاثر ہوتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار مرتب کرنے کے انتظامات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے اعتماد کو تقویت دی جاسکے۔ (گارجین‘ جولائی ۲۰۰۴ئ‘ بیان پروفیسر ڈیوڈرڈ‘ چیئرمین شماریاتکمیشن)

پاکستان میں بھی شماریات کے سرکاری ادارے کی تنظیم نو‘ اس کے تمام معاملات میں مکمل شفافیت اور ایک آزاد کمیشن جو شماریات کے پورے نظام بشمول محکمہ کسٹم اور اسٹیٹ بنک کی فراہم کردہ معلومات پر نگاہ رکھے‘ وقت کی ضرورت ہے۔