کسی نبی کا کبھی یہ مقصد نہیں رہا کہ وہ دوسروں کو جبر کے ذریعے اپنے ساتھ لائے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہی اور صرف وہی حق پر ہیں‘ پھر بھی انھوں نے اپنے مخاطبین کو کبھی اپنا پیغام قبول کرنے پر مجبور کرنے کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ ان کی ذمہ داری ابلاغ تھی‘ پیغام پھیلانا‘ بات پہنچانا۔ ابلاغ کے مفہوم میں بات کرنا‘مکالمہ‘ آزادیِ تقریر اور آزادیِ انتخاب شامل ہے۔ قرآن‘ انبیا اور ان کے مخاطبین کے مکالموں سے بھرا پڑا ہے۔ ہدایت کے راستے کا انتخاب یا گمراہ رہنا‘ رسول کے دائرہ اختیار سے باہر‘ انسان اور اس کے خداکے درمیان ایک انفرادی معاملہ تھا۔ آنحضرتؐ کو اکثر بتایا گیا: ’’(اے نبیؐ) نصیحت کیے جائو۔ تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو‘ کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘(الغاشیہ ۸۸:۲۱-۲۲)۔ اے نبیؐ، ’’تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے‘ مگر اللہ جسے چاہتا ہے‘ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہیں‘‘ (القصص ۲۸:۵۶)۔ ہدایت کے راستے پر لے آنا یا فیصلہ کرنا رسول کی ذمہ داری نہیں ہے۔ نجات‘ مغفرت و بخشش یا سزا کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے آخری فیصلے میں رسول کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ’’فیصلے کے اختیارات میں تمھارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اللہ کواختیار ہے‘ چاہے انھیں معاف کرے‘ چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۸)
اسلام میں نبوت کے چند اہم پہلوئوں کا یہ انتہائی مختصر جائزہ کسی معاشرے میں مختلف بلکہ متضاد سچائیوں کے دعوئوں کے باوجود مل جل کر رہنے کے لیے‘ وسیع مضمرات کی نشان دہی کرتا ہے۔
تمام بڑے مذاہب کا الہامی سرچشمہ ایک ہی ہے۔ بعض اختلافات جو بنیادی طور پر اتنے اہم نہیں ہیں اصلی الہامات کا حصہ تھے‘ بعض مختلف تہذیبوں اور انسانی فکر کے دھاروں سے ان کے باہمی تعامل سے وجود میں آئے۔ اختلافات کا یہ دوسرا دائرہ مذاہب کو سختی سے ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ پھر بھی ان میں بہت سی بنیادی صداقتیں مشترک ہیں۔کوئی ایک طرف یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام کے مابین اختلافات اور دوسری طرف ہندومت اور بدھ مت کے مابین اختلافات کی طرف اشارہ کرسکتا ہے جن کی میرے خیال میں بالترتیب پیغمبرانہ اور صوفیانہ حیثیتوں سے غلط طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔ لیکن اگر آج یہ سوالات کھڑے ہوئے ہیں کہ کیا حضرت عیسٰی علیہ السلام اپنے آپ کو وہی کچھ سمجھتے تھے اوروہی کچھ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے جو بعد کی نسلوں نے انھیں سمجھا‘ تو کیا یہی سوالات رام‘ کرشن اور بدھا کے بارے میں نہیں کھڑے ہوسکتے؟
یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ اسلام نظریۂ نبوت کو صرف انھی تک محدود نہیں کرتا جن کا قرآن میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس اصول کے بیان کے بعد کہ انبیا ؑہرقوم کی طرف مبعوث کیے گئے‘ آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’اے نبی، تم سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تم کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے‘‘۔ (المومن ۴۰:۷۸)
یہ بات کہ مسلمانوں نے اس اصول کو ان مذہبوں پر خوشی خوشی منطبق کیا جن سے انھیں واسطہ پڑا ہے‘ یعنی زرتشتی اور ہندو مذاہب‘ اس کے مذہبی اور معاشرتی مضمرات ہیں‘ انھیں آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
یہ نظریہ کہ تمام دوسرے مذاہب اپنے موجودہ پیروکاروں کے خیال کے مطابق اپنے صحیح اور اصل راستے سے دور ہوچکے ہیں‘ کسی بین المذہبی رشتے اور اسلام کے مکمل سچائی کا حامل ہونے کے دعویٰ میں ایک بڑی رکاوٹ دکھائی دے سکتا ہے۔ لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے خیال میں بعد کی نسلوں کے اسلام کے وژن کے بارے میں اسلام بھی وہی بات کہے گا‘ یعنی یہ کہ یہ اصل حقیقی اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر اسلام دوسرے عقائد کے پیروکاروں کو ایسی زندگی بسر کرتے دیکھتا ہے جو ان کی بانیوں کی تعلیمات کے خلاف ہیں تو وہ یہی بات مسلمانوں کی غالب اکثریت کے بارے میں بھی کہے گا۔ دوسرے یہ کہ شاید کوئی عقیدہ مضبوط‘ مؤثر اور زندہ نہیں رہ سکتا اگر اسے اس خود اعتمادی سے محروم کر دیا جائے کہ صرف وہی مکمل سچائی کا حامل ہے۔
اسلام دوسرے مذاہب کے نظام عقائد سے کلی طور پر متفق نہیں ہے تب بھی وہ غیرمبہم طور پر تسلیم کرتا ہے کہ ’’وہ سب اللہ کا نام لیتے ہیں‘‘۔ اس طرح عبادت کے تمام مقامات صاف طور پر اللہ کی عبادت کے مقامات تسلیم کیے گئے ہیں۔ ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں‘ جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمار کر ڈالی جائیں‘‘۔ (الحج ۲۲:۴۰)
کیا اسلامی نظریۂ نبوت کتابوں میں ایک عقیدے اور تصور ہی کی حیثیت سے محفوظ رہا یا مثبت رویوں اور اعمال سے اس کا اظہار بھی ہوا؟ اس میں سے کچھ رویوں کا قرآن پاک میں تذکرہ کیا گیا ہے‘ مثلاًیہ کہ ایک مسلمان مسلمان نہیں رہے گا اگر وہ پہلے تمام انبیاؑ پر ایمان نہ لائے---اسی طرح قرآن پاک کا عقائد کے اختلافات کے باوجود دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ خوردونوش اور شادی بیاہ کی اجازت انسانیت کی بنیاد پر معاشرے کی تخلیق کے لیے انقلابی مضمرات رکھتا ہے۔
تاریخ میں مسلمانوں کا طرزِعمل اور پالیسیاں کئی لحاظ سے قابلِ اطمینان نہیں کہی جاسکتیں۔ مسلمان انسان ہی تھے اور اسی لیے خام تھے۔ لیکن ان میں جو اچھائی اور خیر کا عنصر دکھائی دیتا ہے اس کی وجہ نبوت کے متعلق وہی خاص اسلامی نظریہ ہے۔ اس میں اچھائی یا خیر کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ ہرچند کہ ہمارے موجودہ معیارات (عمل کتنا ہوتا ہے؟) کی رو سے اسے مثالی نہ کہاجاسکے‘ مثلاً عبادت کی آزادی اور مذہبی خودمختاری جو مسلم علاقوں میں بڑے وسیع پیمانے پر موجود تھی۔۱؎ لباس پر پابندی‘ عبادت گاہوں کی جگہوں کی تخصیص‘ دفاعی خدمات کے بجاے خصوصی ٹیکس یعنی جزیہ‘ امتیازی درآمدی محاصل جیسی کچھ اِکا دکا مثالیں کم تر حیثیت کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں‘ لیکن آج کل کے بعض جدید اور مہذب معاشروں میں بھی پائی جانی مشکل نہ ہوں گی۔
بعض قرآنی احکامات کی سختی اور اسلام کے ابتدائی دور میں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف بعض اقدامات اکثر لوگوں کو پریشان کرتے ہیں لیکن یہ مقام ان کے تنقیدی جائزے کا نہیں۔ ان کا تفصیلی جائزہ یہ ثابت کرسکتا ہے کہ جو کچھ بہت عرصے تک امرواقعہ سمجھا جاتا رہا ہے وہ دراصل سچ نہیں تھا۔۲؎ لیکن انھیں سمجھنے کے لیے دو تناظر خاصے مددگار ثابت ہوں گے۔
پہلا یہ کہ یہ سیاسی دائرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ محض اس لیے کہ کوئی ایک خاص عقیدے کے پیروکار ہے۔ اس کے خلاف کوئی اعلانات نہیں کیے گئے‘ کوئی کارروائیاں نہیں کی گئیں‘ کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ بے شک مذہبی جبر کو بدترین ظلم اور کبیرہ گناہ (فتنہ) قرار دیا گیا ہے۔ سیاسی بنیاد اس وقت واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے جب کوئی قرآن کی مسلمانوں کو کفار تک سے اس وقت تک صلہ رحمی کرنے کی ہدایت دیکھتا ہے جب تک وہ مسلمانوں کے خلاف آمادہ شروفساد نہ ہوجائیں۔ ’’بعید نہیں کہ اللہ تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے۔ وہ غفور و رحیم ہے۔ ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا… اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ ’’وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے‘ اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔ (الممتحنہ ۶۰:۷-۹)
تم کتنے ظالم ہو! اے فریسیو! اے قانون سکھانے والو! اے ریاکار لوگو! تم سفیدی کیے گئے مقبروں کی طرح ہو جو بظاہر بہت خوش نما دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے اندر ہڈیاں اور لاشیں گل سڑ رہی ہیں… پس تم عملاً اعتراف کرتے ہو کہ تم ان کی اولاد ہو جنھوں نے انبیاؑ کو قتل کیا۔ اے سانپو! اے سانپوں کے بچو! تم کیونکر توقع رکھتے ہو کہ تم دوزخ کی آگ سے بچ سکو گے۔
پس میں تمھیں بتاتا ہوں کہ میں تمھارے پاس پیغمبر اور اہل دانش اور تعلیم دینے والے بھیجوں گا۔ تم ان میں سے بعض کو قتل کرو گے‘ بعض کو مصلوب کرو گے‘ اور بعض کو اپنے معبدوں میں کوڑے مارو گے اور شہر بہ شہر ان کا تعاقب کرو گے۔
یروشلم! یروشلم! تو انبیاؑ کو قتل کر دیتا ہے! اور اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کو سنگسار کر دیتا ہے۔ (متی ۲۳:۳۷-۲۷)
مجھے ان خوشبوئوں سے جو تم جلاتے ہو‘ سخت گھن اور کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ان میں تمھارے گناہوں کی بدبو رچی ہوتی ہے۔
تمھارے ہاتھ خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ وہ شہر جو کبھی وفاکیش ہوا کرتا تھا‘ اب کسی بیسوا کا رنگ ڈھنگ اختیار کر گیا ہے۔ تمھارے راہنما باغی اورچوروں کے دوست ہیں۔ وہ ہر دم تحفے اور رشوتیں وصول کرتے رہتے ہیں۔ (یسیلیا: ۱-۱۳-۲۳)
جب کبھی کوئی رسول تمھاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمھارے پاس آیا تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی اختیار کی۔ کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کرڈالا۔ (البقرہ ۲:۸۷)
آخرکار ان کی عہدشکنی کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور متعدد پیغمبروں کو ناحق قتل کیا… ان کے اس ظالمانہ رویے کی بنا پر… اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور سود لیتے ہیں جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائزطریقوں سے کھاتے ہیں (النساء ۴:۶۱)
شاید کسی بھی مذہب کے اہم مسائل میں سے ایک نجات کا مسئلہ ہے۔ یہ جانچنا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس حوالے سے مسلم عقائد‘ تصورات اور رویوں کی تشکیل میں اسلامی نظریۂ نبوت کا کیا کردار ہے۔
اس لحاظ سے میرا خیال ہے کہ نجات کے اسلامی نظریے کا تعین بیش تر اس کے نظریۂ نبوت سے ہوتا ہے۔ پہلے یہ کہ اسلام بہت واضح طور پر ایک معروف مذہب سے منسلک ہونے‘ اور سچا ایمان رکھنے اور عملِ صالح کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔ یا جسے ہم دوسری قرآنی اصطلاح میں سچائی (الحق یا الدّین یا آیات اللہ جو مطالب میں ایک ہیں) تلاش کرنے‘ پانے‘ قبول کرنے‘ تصدیق کرنے اوراس کے مطابق زندگی گزارنے سے تعبیرکرسکتے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے‘قرآن نے ان کے لیے نزول کے وقت بھی (الذین اٰمنوا) کے الفاظ استعمال کیے۔ اس کے دو مفہوم تھے۔ ایک وہ جو اُمت مسلمہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو واقعی ایمان رکھتے ہیں‘ (البقرہ ۲:۶۲‘۴: ۱۳۶‘ ۵:۶۹) ۔چنانچہ نجات کا انحصار محض اُمت مسلمہ سے تعلق رکھنے پر نہیں۔
دوسرے یہ کہ نجات کا راستہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے وسیلے یا تعلق پر منحصر نہیں۔ وہ بہت سے انبیاؑ میں سے ایک تھے گو کہ آخری پیغمبر تھے۔ اس کے کچھ ایسے اہم مضمرات ہیں جن کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔
کیا ضروری ہے کہ نجات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی تسلیم کیا جائے؟ میرا خیال ہے کہ اس سوال کے تمام پہلو اور اس پر مسلمانوں کے مختلف موقفوں پر تحقیق ابھی ہونا ہے۔ البتہ یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا نبی ہونا پہچان چکے ہیں (یعرفون) انھیں اپنی نجات کے لیے انھیں سچا نبی تسلیم کرنا چاہیے۔ دوسرا لفظ جو اس سلسلے میں استعمال ہوتا ہے وہ سَمِعُوْا ہے‘یعنی وہ جو انؐ کی باتیں سنتے ہیں۔ لیکن لفظ سَمَعَ (سننا) قرآن پاک میں سننے کے طبعی فعل کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ یقینا اس کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے اور شاید قرآن سماعت میں قبولیت پر آمادگی کے لیے علم بھی شامل کرتا ہے۔
بہرکیف یہ دونوں الفاظ ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کو شامل نہیں کرتے جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کبھی نہیں سنا۔ ظاہر ہے کہ نجات کا کوئی دعویٰ مطلق نہیں ہے۔ شاید اسی لیے الغزالی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و کرم بہت سے عیسائیوں اور ترکوں کے لیے بھی ہے۔ جن لوگوں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں پہنچا‘ ان کے پاس ایک جائز عذر ہے۔۳؎میرے خیال میں انھی باتوں کا اطلاق اسلام اور قرآن کے آخری وحی خداوندی ہونے پر کیا جا سکتا ہے۔
تیسرے یہ کہ جو بات بڑی اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے پیش نظر تمام نوع انسانی کو خداے واحد کی حاکمیت کے تحت لانا ہے۔ لیکن یہ اسے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا کہ کسی خاص فرد یا جماعت کو اپنے خداے واحد کے تصور اور طریقۂ عبادت کی طرف لے آئے۔ اس کا کوئی ایسا الوہی منصوبہ نہیں ہے کہ تمام نوع انسانی کو لازماً اسلام کی طرف پھیر لائے یا مذہبی اقلیتوں کو اپنے علاقے سے نکال دے یا ان کا نام و نشان مٹا دے۔ شاید یروشلم میں صلیبیوں اور مسلمانوں کے داخلے کے وقت ان دونوں کے رویوں اور اقلیتوں کے مسائل کے مسلمانوں کے حل اور دوسروں کے حل میں فرق کی وجہ یہی ہے۔
چوتھی اور اہم بات یہ ہے کہ میری نظر میں اسلامی رویوں میں ان انسانی فیصلوں کا کہ کون سا شخص جنت میں جائے گا اور کون ہمیشہ کے جہنم میں‘ کوئی مقام نہیں ہے۔ درحقیقت سختی سے منع کیا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے بارے میں پہلے ہی کوئی رائے قائم کرے۔ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ تمام مذہبی تنازعات کا فیصلہ کرے گا۔ ایک مسلمان خود اپنے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا اسے نجات حاصل ہوگی یا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا: ’’ایمان بیم و رجا کے بین بین ہے‘‘۔
ایک دوسری اہم روایت میں آپ ؐ نے ایک ایسے گناہ گار شخص کا قصہ سنایا تھا جس نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے جسم کو جلا دینے اور اپنی راکھ کو بکھیردینے کی وصیت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ اکٹھی کی‘ اسے دوبارہ زندہ کیا اور اس سے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا: صرف تیرے خوف کی وجہ سے۔ اور وہ بخش دیا گیا۔
اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کا یادگار قول خصوصی اہمیت کا حامل ہے: اگر روز قیامت میں یہ اعلان سنوں کہ سوائے ایک کے سب لوگ جنت میں جائیں گے تو مجھے یہ خوف ہوگا کہ یہ وہ شخص میں ہی نہ ہوں‘ اور اگر یہ اعلان سنوں کہ سوائے ایک کے سب لوگ دوزخ میں جائیں گے تو میں یہ امید کروں گا کہ وہ ایک شخص میں ہی ہوں گا۔ مسلم رویے کی اس سے بہتر اور دلکش نمایندگی نہیں کی جا سکتی۔
ہر مذہب کے اپنے اصولوں کی حقانیت پر قائم رہتے ہوئے‘ کیا اسلام میں نبوت کا تصور مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رہنے کے لیے کسی ایک اہم راستے کی نشاندہی کرتا ہے؟ مجھے امید ہے کہ بین المذہبی اجتماعات میں اس سوال کی طرف زیادہ توجہ دی جائے گی۔
ایک اور اہم اور متعلق سوال جسے ہماری گفتگو کے دائرے سے طویل عرصے کے لیے باہر نہ ہونا چاہیے یہ ہے کہ کیا آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کے سچے نبی تھے۔ وہ ان میں سے ایک تھے جن سے اللہ ہمکلام ہوا‘ اور جو انسانیت کے سامنے درست طور پر دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اللہ نے یہ کہا۔ اس سوال کو مناسب الفاظ میں اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے: ’’کیا قرآن اللہ کا کلام ہے؟‘‘ یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر واقعی اللہ کی وحی آتی تھی‘ مسلم نقطۂ نظر کا بیان ہے۔۴؎
کسی بین المذہبی نشست میں آسانی سے قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے ہی سے معلوم شدہ اور مسترد شدہ بات کا دعویٰ کرنے یا دہرانے سے زیادہ کی کوشش نہیں ہے‘ یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کسی کے اپنے عقیدے کی سچائی کی گواہی دینا اور تبلیغ کرنا ہے جس کا نتیجہ یا مذہب کی تبدیلی ہوگی یا اختلافات کی شدت میں اضافہ‘ بعض دفعہ اول الذکر‘ اور اکثر ثانی الذکر۔۵؎
مسلمانوں کے ساتھ ایک عشرے سے زائد کے مکالمے میں اس مسئلے (issue) کی گہرائی میں اترنے کی بجاے اس سے پہلو کیوں بچایا جاتا رہا ہے؟ عموماً بحث اس مثبت مسئلے کے اندر اترنے کے بجاے اس کے قریب ہی سے گزر جاتی رہی۔ اس طرح‘مکالمے کے لیے تیار کیے جانے والے تمام بیانات‘ قراردادوں اور رہنما خطوط میں اس کا جگہ نہ پانا قابلِ توجہ ہے۔ وٹیکن II کا ناسٹرا ایٹیٹ(Nastre etate) میں محمدؐ کا حتیٰ کہ اسلام تک کا تذکرہ نہیں ملتا۔ یا تو مذہبی مضمرات اس موضوع پر بحث میں مانع ہیں‘ یا اس راستے کو مختلف مذاہب کے افراد کے مابین دوستی کے لیے خطرات سے بھرپور سمجھا گیا‘ یا اس کے متوقع نتائج کی قدروقیمت اتنی مشکوک تھی کہ اس کے لیے کوشش نہ کی گئی۔
اگر ہم مذہبی افراد کی حیثیت سے بین المذہبی تعلقات کے لیے ایک ایسا فریم ورک تشکیل دینے کے لیے اپنے درمیان اتفاق و اختلاف کے دائروں کو تلاش کریں جو ہمیں ’’ایک عالم گیر دنیا‘‘ میں رہنے کے قابل بنا دیں تو ایسی صورت میں کیا ہمیں اس مسئلے سے زیادہ عرصے تک صرفِ نظر کرنا چاہیے؟اور کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں؟ یہ مستقبل کے کسی مذہبی مباحثے کے لیے جس میں مسلمان بھی شامل ہوں‘ ایک اہم سوال ہے۔ اگر شرکا خوف اور بے اعتمادی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے اور سنجیدگی سے غوروفکر نہیں کر سکتے اور کم سے کم یہ کوشش نہیں کرتے کہ ان اختلافات کو دُور کریں یا ان کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش کریں جنھوں نے ان کو پُرتشدد طور پر جدا کر رکھا ہے تو وہ بھلا ’’ایک عالم گیر دنیا‘‘… ایک مشترکہ انسانیت کے محبوب آدرش کی طرف پیش قدمی کی امید کیونکر کرسکتے ہیں؟ اگر مکالمہ اپنی بقا کے لیے ہے تو ان بنیادی مسائل پر مشترکہ گفتگو کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جو ناقابلِ عبور دکھائی دیتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم یہ امید کرلیں کہ کل صبح یا مستقبل قریب کی کسی صبح‘ اس مسئلے کا کوئی حل مل جائے گا۔ بے شک ہماری زندگی میں کوئی حل نہ ملے لیکن کیا ہمیں کبھی نہ کبھی ان مسائل پر کھلی بحث کی کوشش کا آغاز نہیں کرنا چاہیے جو ہمارے باہمی جھگڑے اور فساد کی اصل جڑ ہیں۔ اگر ایسا ہونا ہے‘ تو آج ہی کیوں نہ ہوجائے؟ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ اس طرح شاید یہ مسئلہ حل نہ ہو۔ لیکن یہ کم از کم زیادہ سننے‘ زیادہ جاننے‘ زیادہ سمجھنے‘ زیادہ اعتماد و بھروسا‘ زیادہ دوستی اور شاید زیادہ قرب کی جانب رہنمائی کرے گا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ دُوری کی خلیج کو کم اہمیت دی جا رہی ہے۔ کوئی بھی چیز اسلام کو دوسرے مذاہب بالخصوص یہودیت و عیسائیت سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور قرآن کے بارے میں اس کے دعویٰ سے زیادہ جدا نہیں کرتی۔ ایک طرف اس کے مضمرات دینی ہیں۔ سادہ طور پر بیان کیے جائیں‘ تو بے لچک دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی عیسائی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کچھ سمجھے جو مسلمان سمجھتے ہیں تو وہ عیسائی نہ رہے گا۔ یہی بات یہودیوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے‘ اور اگر کوئی مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سمجھنا چھوڑ دے جو وہ سمجھتا ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قطع نظر اسلام میں یہودیت اور عیسائیت سے اتنی بہت سی باتیں کم سے کم ظاہری طور پر مشترک ہیں کہ اسے بلاہچکچاہٹ یہودیت سے ماخوذ یا عیسائیت میں جڑیں رکھنے والا مذہب کہہ سکتے ہیں۔ بلاشبہہ بعض مغربی تحریروں میں یہودیت اور عیسائیت اس بارے میں مقابلہ کرتی نظرآتی ہیں کہ ان میں کون ولدیت میں زیادہ حصہ رکھتا ہے۔ اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت کا کانٹوں بھرا مسئلہ نہ ہو تو ان میں سے کوئی بھی اس بچے کو گود لے سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ مضمرات معاشرے کے لیے اور ایک لادین شخص کے لیے جو صرف انسانی صورت حال ہی سے دل چسپی رکھتا ہے کچھ کم اہمیت نہیں رکھتے۔ اس لیے کہ جدید دور میں بھی مسلمان اپنی زندگیاں قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے متمنی ہیں جن کی دائمی صداقت پر وہ ایمان رکھتے ہیں اور اس کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ مزیدبرآں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں اسلام کے تصور کی تشکیل میں انتہائی نمایاں۶؎،انتہائی مرکزی اور انتہائی اہم مقام ہمیشہ حاصل رہا ہے اور آج بھی ہے۔ مسئلہ کتنا ہی گمبھیر کیوں نہ ہو‘ قریب آنے میں مشکلات بلکہ ناممکنات کی نوعیت اور وسعت کیسی ہی ہو‘ ہم اس کام کو چاہے نتیجہ خیز نہ پائیں‘ روحانی‘ دینی اور عملی طور پر مفید اور تحرک خیز پائیں ضرور گے۔
مذہبی لحاظ سے ایک مسلمان کی حیثیت صاف اور واضح‘ حتمی اور غیرتغیر پذیرہے۔ میں اس حقیقت کو محض بیان کرنا نہیں چاہتا بلکہ ایک قدم آگے جانا پسند کروں گا۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مسئلے پر مختلف نقطہ ہاے نظر تلاش کرنے اور متعین کرنے میں جو سوال اٹھیں ان کو متعین کرنے کی کوشش کروں گا خواہ میرے پاس کوئی قابلِ قبول جواب نہ بھی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ مسلمان اور دوسرے مذاہب کے پیروکار جو ایک دوسرے سے کھلے دل سے ملنے کے لیے تیار ہیں‘ ان مسائل کا سامنا کریں گے اور اپنے محدود دائرے کے اندر لکھنے اور بولنے کی بجاے مختلف نظریات اور سوالات پر آمنے سامنے گفتگو کریں گے اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سنیں گے۔ ذرائع اور حدود کار صرف وہ ہونے چاہییں جن پر ہم متفق ہیں۔ ان میں مغربی علمی روایت کے پروردہ زمرے‘ معیار اور ذرائع لازماً شامل یا باہر نہ ہونے چاہییں۔ بعض اوقات میں دیکھتا ہوں کہ قرآن پر ہی نہیں‘ بائیبل کے لوازمے پر بھی بعض مغربی طریقوں کا اطلاق خصوصاً ’انسان اورخدا‘ اور’خدا اور تاریخ‘ کے باہمی تعلق کے بارے میں پہلے سے طے شدہ تصورات پر مبنی قیاس آرائی سے زیادہ نہیں۔
اولاً: نبوت کا تصور ہی سائنسی طریقے کے خلاف ہے۔ کوئی خدا نہیں ہے اور اگر ہے تو اسے انسانی تاریخ میں مداخلت کی کوئی ضرورت یا حق نہیں۔ مغرب کا ایک عام فرد انسانی زندگی کے ہر پہلو کو حسی مشاہدات و معلومات‘ تاریخ‘ عمرانی اقتصادی‘ ثقافتی پس منظر اورماحول کی بنیاد پر وضاحت کرنا چاہے گا۔ ایسے اندازنظر سے ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مسئلے سے زیادہ وسیع اور گہرے ہیں۔
ثانیاً: اللہ انسان سے ہم کلام ہوتا ہے لیکن اللہ کی انسان سے ہمکلامی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ یہ ہم بہت کم جانتے ہیں۔ اس زاویے کی جو تعبیر اسلام پیش کرتا ہے اور جیسا کہ یہودیت اور عیسائیت میں بھی سمجھا جاتا ہے (جسے گب ازمنہ وسطیٰ کی ترجمانی کہتا ہے) جدید سائنسی تصورِ جہاں کی روشنی میں قابلِ مدافعت نہیں ہے۔ اس کا یقینا یہ مطلب نہیں کہ انسان جو وصول کرتا ہے وہ واقعتا اللہ ہی کے الفاظ ہیں۔ وہ کسی صورت میں ابدی نہیں ہیں۔ جو بھی تجربہ یا جذبہ ہو‘ وصول کنندہ کی اپنی شخصیت‘ معاشرتی حیثیت اور اس کے نظریۂ کائنات کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ مثال کے طور پر عہدنامہ عتیق کے پیغمبر مسلمانوں کے عقیدہ وحی کے مطابق اللہ کا کلام وصول نہیں کرتے تھے۔ یہ طرزِفکر اگرچہ عام نہیں‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک پیغمبر تسلیم کرسکتی ہے‘ لیکن پیغمبر کے اپنے تصور کے مطابق‘ نہ کہ اس طرح جس طرح مسلمان سمجھتے ہیں۔
ثالثاً: ہرچند کہ اللہ انسان سے ہمکلام ہوتا ہے‘اور تاریخ میں بھی اپنی ذات کی حد تک بھی مداخلت کرتا ہے‘ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک پیغمبر نہیں تھے۔ یہاں سے یہ طرزفکر دو راستوں میں بٹ جاتا ہے۔ اول: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے اللہ کا کلام سمجھا وہ ان کی اپنی اندرونی آواز تھی‘ جو ان کے اپنے معاشرے کے تجربات‘ اپنے معاشرتی ماحول پر غوروتفکر اور اللہ کے بارے میں انہماک اور اس سوچ و بچار کے نتیجے میں کہ عرب کیا چاہتے تھے‘ ان کے اندر سے اُٹھی تھی۔ وہ ایک مخلص لیکن خودفریبی میں مبتلا انسان تھے۔ دوم: وہ (نعوذباللہ) ایک جعلی شخصیت تھے۔ وہ اپنی تحریر کے مصنف تھے‘ جسے انھوں نے اپنے گردوپیش کے مختلف ذرائع سے حاصل کیا تھا اور اسے کلامِ الٰہی کہہ کر پیش کیا تھا۔
اس نظریے کی کہ وہؐ ایک مخلص انسان تھے اگرچہ پیغمبر نہیں تھے‘ دوسری ترجمانی جومیر (Jomier) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مسیحی نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے نسبتاً زیادہ قابلِ قبول اصطلاحات میں کی ہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عظیم مذہبی راہنما قرار دیتا ہے جنھوں نے‘ جیسا کہ اس نے تصور کی وضاحت کی ہے، ’’زوال پذیر مذہب میں بہت سے مثبت اضافے کیے… وسیع منصوبۂ نجات میں کچھ اصلاحات کیں‘… انھیں ایک تاریخی مشن تفویض کیا گیا… (اور اپنے آپ کو) اور عیسائیوں کو مخاطب کیا‘ مؤخر الذکر کو اپنی اقدار اور تشخص کے کھو ڈالنے کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے‘‘۔۷؎
یہ تمام نقطۂ ہاے نظر کچھ سوال اٹھاتے ہیں جن پر ہم پھر کسی وقت بحث کریں گے‘ ان میں سے چند پر یہاں گفتگو کی جاتی ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ جو لوگ نبوت کی شکل میں وحی الٰہی پر یقین رکھتے ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا پیغمبر نہیں پاتے؟ ظاہر ہے‘ اس لیے نہیں کہ وہ اس تصور کو خلافِ عقل اور غیر سائنٹفک سمجھتے ہیں‘ بلکہ اس لیے کہ ان کا خیال ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس معیار پر پورے اترنے میں ناکام رہے ہیں جس پر کسی کو ایک سچے پیغمبر کی حیثیت سے قبول کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے یہ مناسب رہے گا اگر تحقیق و جستجو کو اس طور پر آگے بڑھایا جائے‘ معیارات کا تعین قطعیت سے کیا جائے‘ زیادہ تنقیدی نگاہ سے جائزہ لیا جائے‘ خصوصاً نبوت سے متعلق ان نظریات کی روشنی میں جو دو طرفہ طور پر قابلِ قبول ہوں خواہ وہ انجیل میں آئے ہوں یا قرآن میں۔اس کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کو اس معیار پر پرکھا جاسکے گا۔ اس کا جواب اگرچہ نتیجہ خیز نہ ہوگا لیکن تحقیق مکمل طور پر بے فائدہ بھی نہ ہوگی۔
مزیدبرآں یہ نظریہ کہ ہرچند کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعوے میں سچے نہیں تھے اور جو کچھ انھوں نے کہا ہمیشہ سچ نہیں تھا‘ پھر بھی وہ انتہائی اخلاص کے ساتھ اپنی باتوں کے کلام الٰہی ہونے پر یقین رکھتے تھے‘ کیا اس بیان سے کہ وہ ایک مدعی کاذب تھے‘ زیادہ مضبوط ہے؟ ایک اندازنظرمصالحانہ اور مہذب ہے اور دوسرا مخالفانہ اور کھردرا۔ لیکن کیا ان کا آخری نتیجہ یکساں نہیں ہے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ سچا نہیں تھا۔ اس پر جو کچھ سوچا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ باتیں ان کی حیات میں ان کے سامنے پیش کی گئیں اور قرآن نے بہت صاف طور پر وضاحت اور قطعیت سے انھیں مسترد کیا۔ یہ الزام کہ وہ جو کچھ اللہ سے منسوب کرتے تھے اللہ کی طرف سے نہیں تھا‘ اسے نہ صرف جھٹلایا گیا ہے‘ بلکہ قرآن کے ہرصفحے پر جھٹلایا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ مثبت بات کہ یہ من جانب اللہ ہے اسے بھی کم نہیں دہرایا گیا ہے۔ بیشتر قرآنی سورتوں کا آغاز ہی اسی واضح بیان کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ یقین کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۲۳ سال کی طویل مدت تک اپنے رسول ہونے پر اصرار کرتے رہے اور اس کے برعکس بات کی تردید ان الفاظ میں کرتے رہے جو وہ خدا کی طرف منسوب کر رہے تھے اور پھر بھی وہ ایک مخلص انسان تھے۔ جس وقت وہ اپنی زبان میں وہ کچھ تحریر کرنے میں مصروف تھے جس کی ہدایت ان کی اندرونی آواز دے رہی تھی یا وہ بیرونی ذرائع سے جانتے بوجھتے یہ مواد اکٹھا کررہے تھے‘ اس وقت اسی مسئلے پر دلائل میں مصروف تھے۔ تو کیا کوئی مخلص شخص ایسے تیزوتند تنازعات میں مصروف ہو سکتا ہے‘ جب کہ وہ اسی وقت اپنے آپ کو وہ کچھ ظاہر کر رہا تھا جو وہ حقیقتاً نہیںتھا۔ کیا وہ اپنے پیروکاروں کو ناقابلِ تسخیر ایمان سے مالا مال کر سکتا ہے اوران کی زندگیاں اپنے تصورات کے سانچے میں ڈھال سکتا ہے‘ جب کہ وہ تمام عرصہ غلط شناخت کا شکار رہے؟ یقینا غلط شناخت قرآن میں ایک تیزوتند استدلال کا سبب نہیں ہوسکتی۔ صرف ایک مدعی کاذب ہی اتنی ثابت قدمی کے ساتھ قطعی باتیں کرسکتا ہے۔
آپؐ ان تمام پیغمبروں کے آخر میں‘ جن پر یہود و نصاریٰ اور مسلمان ایمان رکھتے ہیں‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھی بعد تشریف لائے۔ یہ مذہبی نظریہ نہیں بلکہ تاریخی حقیقت ہے۔ لیکن آپؐ نے کبھی تمام پیغمبروں سے بہتر اور اعلیٰ پیغمبر ہونے کا یا کسی تاریخی عمل کا نقطۂ عروج ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ یہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے‘ خواہ مسلمان انھیں ایسا مقام دیتے ہوں۔ قرآن مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ کہیں: ’’لانفرق بین احد من رسولہ‘‘۔ ایک مرتبہ کسی صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں مخاطب کیا: ’’یااشرف المخلوقات!‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ ابراہیم ؑ تھے… خلیل اللہ‘‘۔ ایک موقع پر آپؐ سے پوچھا گیا: ’’کس پیغمبر کا خاندان سب سے معزز و محترم ہے؟‘‘ آپؐ نے جواب دیا: ’’یوسف ؑکا خاندان۔ جو اس پیغمبر کے بیٹے تھے جس کا باپ بھی پیغمبر تھا‘ اور اس کے باپ ابراہیم ؑ خلیل اللہ تھے‘‘۔ ایک مرتبہ ایک مسلمان اور ایک یہودی میں اس بات پر جھگڑا ہوگیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور موسٰی ؑ میں کون بہتر وبرتر ہے۔ یہ معاملہ آپؐ کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپؐ نے سختی سے مسلمان کی سرزنش کی اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ موسٰی ؑ اور دوسرے انبیاؑ کے مقابلے میں انؐ کی ستایش اور مدح سرائی نہ کیا کریں۔ رچرڈبیل (Bell) جیسے لوگ اسے یہودیوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور انھیں پرچانے کے لیے پریشان حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی تدبیر سے تعبیر کریں گے لیکن کیا مسلمانوں کا دوسرے انبیا علیہم السلام کے بارے میں رویہ ان تعلیمات کے سانچے میں ڈھلا ہوا نہیں دکھائی دیتا؟
ولفریڈ اسمتھ کا خیال ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم بات ہے کہ کوئی مذہب زمانے کے لحاظ سے کسی دوسرے مذہب سے پہلے یا بعد آیا ہے۔ جو کسی کے بعد آئے وہ پہلے والے کے ساتھ سرپرستانہ رویہ رکھتا ہے۔ اس لیے عیسائیوں نے یہودیوںکی تمام کتب مقدسہ کو اپنی انجیل میں جمع کر لیا ہے۔۸؎ یہ تاریخی نقطۂ نظر مسلم رویے کے ایک پہلو کی توجیہہ کرسکتا ہے لیکن وسیع تر پہلو کی گنجایش چھوڑتا ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بنیادی تعلیمات‘زندگی اور مشن کے ساتھ عہدنامہ عتیق کے زمانے اور فضا میں پہنچا دیے جائیں تو وہ کیا ایک سچے پیغمبر سے بڑھ کر بھی کچھ ہوسکتے تھے؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نوعیت کا اسلامی نقطۂ نظر ‘ نہ کہ ان کی سچائی ہرچند کہ دونوں باہم دگر متعلق ہیں‘ ہماری توجہ ایک دوسرے اہم مسئلے کی طرف مبذول کرتے ہیں۔ وہ ہے اسلام کا سائنس اور ٹکنالوجی کے چیلنج پر ردعمل اور جدیدیت کے پیدا کردہ مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان جدیدیت کے مسئلے سے بہت قریبی طور پر منسلک ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے افراد سے ملاقاتیں کرنے اور ان چیلنجوں کو معلوم کرنے اور ان کے ممکنہ جواب دینے کے قابل نہ ہوں۔ جو چیز اس کام کو سہل بنائے گی وہ یہ ہے کہ جواب کو جدیدیت کی پہلے ہی سے دی گئی شرائط کی بنیاد پر نہیں دیا جانا چاہیے‘ جنھیں اس لیے قبول کیا جائے کہ یہ فی نفسہ درست ہیں۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے--- مجھے امید ہے کہ میں غلطی پر ہوں--- مذہبی اجتماعوں کے شرکا‘ ایسے طرزِعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جسے کسی نے کھردرے اور ناشایستہ لیکن صاف اور واضح الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’اسلام اور مغرب کے مابین کوئی مکالمہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا‘ نہ ہوگا جب تک کہ اسلام عورت اور سزا کے بارے میں اپنی پوزیشن میں تبدیلی یا ترمیم پر آمادہ نہیں ہو جاتا‘‘۔ شاید استدلال اور تفہیم سے‘ بیان کرنے اور سننے سے مغرب اور اسلام ایک دوسرے سے زیادہ سیکھ سکیں گے۔
ایک ممکنہ جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے ہی سے طے شدہ سائنسی نظریے کے زیراثر اسلام اس حد تک باقی رہ سکتا ہے جس حد تک عیسائیت مغرب میں باقی رہی ہے۔ کیا انسانیت کے وسیع تر مفاد میں ہمیں اس امکان کو خوش آمدید کہنا چاہیے؟ کیا یہ نسلِ انسانی کے لیے بہتر ہوگا کہ اگر اسلام بھی اتنا کچھ کھودے جتنا کہ عیسائیت نے کھویا ہے اور صرف اتنا بچائے جتنا اس نے بچایا ہے؟ کیا یہ بدقسمتی نہ ہوگی کہ دوسرے مذاہب خود اپنے مختلف ردعمل دینے میں ناکام رہیں؟ ہم زیادہ بہتر صورت حال میں (richer) ہوں گے اگر ہر مذہب اپنا الگ ردعمل ظاہر کرے اور بالکل اس طرح کا ردعمل نہ دے جس طرح کا عیسائیت نے سائنس اور عقل پرستی‘ اثباتیت اور انسان دوستی کے نظریات کے پہلے حملے کے خلاف ظاہر کیا تھا۔ کیا یہ کوئی اچھی بات ہوگی کہ ہم تمام مذاہب کو محض ہر آن بدلتے رہنے والے تجربی علوم کی روشنی میں معتبر رہنے کے لیے بڑی بڑی تبدیلیوں سے گزرنے پر مجبور کریں؟ یہ انسانی زندگی میں مذہب کے کردار اور اصل مقصد کو ہی ختم کر دے گا۔
یہ تعین کہ ’قرون وسطیٰ ‘ کیا ہے اور ’جدید کیا ہے؟‘ ،’قرون وسطیٰ کا انسان کیا ہے‘ اور ’جدید انسان کیا ہے‘ اور ’جدید ذہنیت کیا ہے؟‘ یہ سمجھنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا کہ مغربی نظریات کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے دوسرے مذاہب کو اپنے جوابی اقدام کس طرح تشکیل دینا چاہییں۔ ظاہر ہے کہ قدیم اور جدید کے تصورات مغربی فکر کے پیدا کردہ ہیں جن کا ماخذ وہ خاص راستہ ہے جس پر مغربی تہذیب نے ترقی کی ہے۔ اگر جدیدیت حصولِ علم کے واحد ذریعے کے طور پر سائنٹفک اسلوب پیش کرتی ہے‘ اور اگر جدیدیت کا آغاز بقول ٹوئن بی اس طرح ہوا تھا کہ ’’مغربی انسان نے اللہ کا نہیں بلکہ خود اپنا شکر ادا کیا تھا‘‘ تب واقعتا قدیم ذہنیت سے جس کا اعلان تھا: الحمدللّٰہِ رب العلمین (تمام حمدوثناء اللہ کے لیے ہے)‘ جدیدیت تک روحانی سفر کرنا آسان نہ ہوگا‘ نہ ’ایک عالم گیر دنیا‘ کے مستقبل کے لیے ہی فائدہ مند ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے مذہبی عقائد کے لیے بہت سے سنجیدہ چیلنج پیش کیے ہیں لیکن انسانیت کی بقا کے لیے ان کا چیلنج بہت زیادہ سنگین ہے۔ بلاشبہہ مذاہب کو اپنے نظامِ عقائد‘ وحی اور نبوت کے بارے میں اپنے نظریات‘ اپنی آسمانی کتابوں اور مذہبی لٹریچر‘ اپنے اخلاقی ضوابط اور انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے اپنے دعوئوں کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے مناسب اور قابلِ قبول جواب دینے کی عظیم ذمہ داری کا سامنا ہے۔ لیکن ٹھیک اسی وقت اس قبر سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش بھی‘ جوانسانیت کے وجود کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے‘ ان کی کچھ کم ذمہ داری نہیں ہے۔
صرف سائنس اور ٹکنالوجی کو ہر اس مصیبت کی جڑ قرار دینا جس میں آج کل کا انسان مبتلا ہے مشکل ہی سے منصفانہ مؤقف قرار دیا جا سکتا ہے‘ لیکن شاید بغیر کسی خاص اختلاف کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سائنسی نقطۂ نظر سے پیدا ہونے والے نظریۂ ہاے حیات اور اخلاقی بندشوں سے آزاد ترقی کی اندھا دھند دوڑ نے اسے مکمل تباہی کی دہلیز تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسے ہلاکت عظمیٰ کی خبر دینے والوں کی مایوسانہ باتیں کہا جا سکتا ہے لیکن انسانوں کی غالب اکثریت کو درپیش حد درجہ غربت اور افلاس‘ امیر اور غریب کے مابین گہری اور وسیع ہوتی خلیج‘ سلگتے ہوئے سیاسی قضیے‘ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی قرضے‘ ان میں سے کوئی بھی یکایک پھٹ کر ہمیں ایک ناقابلِ تصور تباہی کے ’ہولوکاسٹ‘ کی طرف لے جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک انتہائی سنگین نوعیت کا چیلنج ہے جس کا سامنا اہل مذہب کو کرنا چاہیے۔ ان کے مذہب مختلف ہوسکتے ہیں لیکن خطرہ ان سب کے لیے مشترک ہے۔ مذہب پر قابو پانے کے لیے ایٹم بم آسانی سے بنایا جا سکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر ایک مرتبہ اس کی تباہ کاریوں کے دائرے کو پھیلنے دیا گیا تو یہ اپنا شکار ہونے والوں میں ان کے مذہب کی بنیاد پر تفریق نہ کرے گا۔
میں نے ابراہیم کو منتخب کیا کہ وہ اپنے بیٹوں اور اپنی نسلوں کو میری اطاعت کی ہدایت دے اور حق و انصاف کی راہ دکھائے۔ (پیدایش ۱۸:۱۹)
سوائے میرے کسی خدا کی عبادت نہ کرو۔ اپنے لیے آسمانوں اورزمین پر اور زیرزمین پانی میں کسی چیز کے عکس پیدا نہ کرو۔ (متی ۵:۷-۸)
خلوصِ دل سے‘ اپنی روح اور ذہن کی پوری گہرائیوں کے ساتھ‘ اپنے مالک اللہ سے محبت رکھو۔ یہ اس کا سب سے بڑا اور اہم ترین حکم ہے۔ دوسرا سب سے بڑا اہم حکم یہ ہے کہ اپنے ہمسائے سے بھی ویسی ہی محبت رکھو جیسی کہ تم اپنے آپ سے رکھتے ہو۔ (متی ۲۲:۳۷-۳۹)
یہ مت سوچو کہ میںموسیٰ کے قانون اور دوسرے پیغمبروں کی تعلیمات منسوخ کرنے آیا ہوں۔ میں انھیں منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ ان کی تصدیق اور حقانیت واضح کرنے آیا ہوں۔ (متی :۵-۱۷)
آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔ (آلِ عمران ۳: ۶۴)
شاید ہم ایسے مسائل کا کوئی حل تلاش نہ کر سکیں جنھوں نے ہمیں تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ ان پر گفتگو سے احتراز کا کوئی معقول عذر نہیں لیکن ہم کافی مشترکہ ماخذ دریافت کر سکتے ہیں تاکہ انھیں یکجا کریں۔ اس سلسلے میں ایک انتہائی چبھتا ہوا سوال ہمیشہ باقی رہے گا: کیا ہم مذہب تسلیم کرنے والوں کی حیثیت سے مل رہے ہیں‘ اور کیا ہمارا یہ ملنا اللہ کے ہماری زندگی کے لیے بنائے گئے منصوبے کے مطابق‘ جیسا کہ ہم اسے سمجھتے ہیں‘ زندگی گزارنے میں ہمارا معاون ثابت ہوگا۔
۱- مثال کے طور پر دیکھیے مذکورہ بالا نوٹ (۵) اور برکت احمد Muhammad and Jews: A Reexamination نئی دہلی‘ ۱۹۷۹ئ)
۲- ابوحامد الغزالی‘ فیصل ا لتفرقہ بین الاسلام والزندق (مرتب)‘ (سلیمان Dunya ‘قاہرہ‘ ۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ئ‘ ص ۲۰۶)
۳- جان ہِک‘ God Has Many Names (دی مک ملن پریس‘ لندن ۱۹۸۰ئ)‘ ص ۸۵)
۴- جان ہِک‘ Truth and Dialogue (شیلڈن پریس‘ لندن ۱۹۷۵ئ)‘ ص ۱۵۴۔
۵- دیکھیے نارمین ڈینیل کی کتاب: Islam and the West: Making of an Image (ایڈن برگ یونی ورسٹی پریس‘ ایڈن برگ‘ ۱۹۶۰ئ)
۶- God Has Many Names حوالہ بالا‘ ص ۹۳۔
۷- On Understanding Islamحوالہ بالا‘ ص ۲۹۳۔
۸- (احمد وان ڈینیفر‘ Muhammad A Prophet or a Great Religious Leader?" ‘ امپیکٹ انٹرنیشنل‘لندن‘ ج ۱۰‘ شمارہ ۱۳‘ ۱۱-۲۴ جولائی ۱۹۸۰ئ)‘ ص ۲۔