ایک تاریخ نویس‘ صحابہ کرامؓ کے سوانح نگار اور سیرتِ نبویؐ کے مولّف کی حیثیت سے جناب طالب الہاشمی کا نام نامی محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ سیرتِ طیبہؐ سے متعلق اس سے پہلے سات تالیفات شائع کر چکے ہیں (اخلاقِ پیمبریؐ، معجزاتِ سرورِ کونینؐ، ارشاداتِ داناے کونینؐ، وفودِ عرب، بارگاہِ نبویؐ میں، ہمارے رسول پاکؐ، جنت کے پھول، حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ)۔ ان میں سے بیشتر سیرت نبویؐ کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ زیرنظر کتاب اس اعتبارسے ان سب میں ممتاز‘ منفرد اور جامع ہے کہ اس میں سیرتِ پاکؐ کے جملہ پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
رحمتِ دارینؐ کے دیباچہ نگار جناب حفیظ الرحمن احسن نے اس کے بعض امتیازات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایجاز و اطناب میں توازن‘ اختلافی امور میں طویل مباحث سے گریز‘ سیرت کے بعض نادر پہلوئوں کا ذکر‘ مستند اور معتبر روایات سے استناد اور متعلقاتِ سیرت پر مفید حواشی کا ذکر کیا ہے۔ ہمارے خیال میں سیرت النبیؐ کے موضوع پر یہ کتاب فاضل مولّف کی ماہرانہ دسترس کا ثبوت ہے۔ مولّف نے موقع بہ موقع قرآن پاک‘ حدیث نبویؐ اور تواریخِ سیرت سے حوالے دیے ہیں۔ اسی طرح عربی اشعار اور(حالی‘ شبلی وغیرہ کی) بعض اردو نظموں کے ذریعے بیان کو زیادہ واضح اور مؤثر بنایا ہے۔
رحمت ِدارینؐ کی ایک خوبی یہ ہے کہ مولّف نے افراد‘ مقامات اور کتابوں وغیرہ کے ناموں کے صحتِ تلفظ کا اہتمام کیا ہے اور بڑے التزام سے اِعراب لگائے ہیں (ص ۳۸۶ پر عربی شعر پر اعراب نہیں لگ سکے)۔ یہ اہتمام و التزام‘ سیرت پاکؐ کی بہت کم کتابوں میں نظرآتا ہے۔ بعض اختلافی روایات کا ذکر حواشی میں کر دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر جناب طالب الہاشمی نے رحمتِ دارینؐ کی تحریر و تصنیف میں نہایت اہتمام‘ لگن اور دیدہ ریزی سے کام لیا ہے۔ یہ ان کے طویل تصنیفی و تالیفی تجربے‘ سیرت نبویؐ کے برسوں کے مطالعہ و تحقیق اور تین برس کی محنت ِشاقہ کا نتیجہ ہے۔ امید ہے سیرتِ پاکؐ پر ان کی یہ تالیف قبولِ عام حاصل کرے گی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
الفرقان کے نام سے قرآن پاک کے ابتدائی حصے کے مطالب و مضامین پر دو جلدیں شائع کرنے کے بعد‘ شیخ عمرفاروق نے احادیث کا مجموعہ الحکمہ کے نام سے پیش کیا ہے اور یہ بھی طالبان و شائقین کو ہدیتاً فراہم کیا جا رہا ہے۔
انداز و اسلوب ایسا دل کش کہ پڑھنے کو دل چاہے اور پڑھتے ہی چلے جائیں۔ آیات‘ احادیث‘ اشعار اور عام متن میں صحت کا خصوصی اہتمام‘ موضوعات کے لحاظ سے انسانی زندگی کے تمام دائروں کے بارے میں خصوصاً اخلاقی حوالے سے ہدایات‘ ہر باب کے آخر میں ایک دعا کا التزام‘ اس مجموعے کی خصوصیات کہی جا سکتی ہیں۔ بیشتر احادیث ریاض الصالحین سے لی گئی ہیں اور عبادات و معاملات کے ابواب آگئے ہیں۔ شیخ عمرفاروق کا تشریح و بیان کا اپنا انداز ہے جس میں دوسری متعلقہ احادیث وآیات‘ برمحل اشعار‘ دیگر علما کی کتابوں کے اقتباسات‘ سب جڑتے چلے جاتے ہیں اورایسا مختصر وعظ بن جاتا ہے جو مجلسوں میں پڑھا جائے تو دل چسپی سے سنا جائے۔ اس لیے کہ حالاتِ حاضرہ کے حوالے بھی آجاتے ہیں۔ شیخ صاحب اس عمر میں جو محنت کر رہے ہیں‘ وہ انھی کا حصہ ہے اوریقینا من جانب اللہ ہے۔
شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ باہرجاکر دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینا سب پر فرض نہیں ہے‘ یہ تو اہلِ علم کا منصب ہے کہ اہل خانہ کے لیے نان و نفقہ مہیا کر دیا‘ بال بچوں کی حفاظت کا انتظام بھی ہوگیا‘ اب شوق سے دعوت و تبلیغ کے لیے نکلیے (ص ۲۷۳)۔ یہ ایسا لگا کہ سب بچوں کی شادیاں کر کے حج کا سوچا جائے۔
الحکمہ‘ ڈاک سے بھیجنے کا انتظام نہیں‘ مصنف سے بطور ہدیہ دستی وصول کیا جا سکتا ہے (فون: ۷۵۸۵۹۶۰)۔ (مسلم سجاد)
عبادت کے حوالے سے ایک عام تصور نماز‘ روزہ‘زکوٰۃ‘ حج ہی کو کل عبادت سمجھ لینا ہے‘ جب کہ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں میں سید مودودی علیہ الرحمہ نے زندگی کے ہر دائرے میں اللہ کی اطاعت کو ’عبادت‘ قرار دیا جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے‘اور نماز روزہ کو اس عبادت کے لیے تیار کرنے کے ذرائع قرار دیا۔زیرنظر کتاب اسلام کے اس تصور کو نہایت جامع اور علمی و تحقیقی انداز سے پیش کرتی ہے۔ اس میں‘ مصنف نے علامہ ابن تیمیہؒ، ابن قیمؒ، امام غزالیؒ، مولانا مودودیؒ، سید سلیمان ندویؒ اور دیگر اصحابِ علم سے بھی استفادہ کیا ہے۔
علامہ یوسف قرضاوی نے انسان کے مقصدِحیات سے آغاز کرتے ہوئے عبادت کی حقیقت پر گفتگو کی ہے اور دوسرے مذاہب میں عبادت کے ناقص تصور کے پس منظر میں اسلام کے جامع تصور کو واضح کیا ہے۔ عبادت کی قبولیت کا معیار کیا ہے؟ اس حوالے سے روحِ عبادت‘ عبادت میں اخلاص‘ خشوع و خضوع اور احکامِ شریعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ آخر میں (۱۵۰ صفحات) مسنون عبادات ‘یعنی نماز‘ روزہ ‘ حج‘ زکوٰۃ پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ دو عبادات کا اضافہ کیا ہے: امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ۔
فاضل مصنف نے عبادت کے حوالے سے شرک اور بدعت پر بھی گفتگو کی ہے‘ یعنی عبادت صرف اللہ کی کی جائے اور بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کی جائے۔ انھوں نے دین کے آسان ہونے پر ایک الگ باب قائم کیا ہے اور بہت سی مثالیں دے کر‘ دین کو مشکل بنانے والوں پر گرفت کی ہے۔ موزوں پر مسح‘ جمع الصلاتین‘ ننگے سرنماز جیسے مسائل اسی ذیل میں آتے ہیں۔
تبصرہ نگار اس راے کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بہت اچھی اور معلومات افزا مفصل کتاب ہے لیکن ایک تاثر یہ ہوتا ہے کہ جیسے اصل موضوع پر گرفت نہیں ہو رہی اور تمام امور منطقی ربط میں نہیں ہیں۔
خدابخش کلیار صاحب نے بہت خوب ترجمہ کیا ہے‘ تاہم ’اسلام کا تصورِ عبادت‘ بہتر نام ہو سکتا تھا۔ (م - س)
گذشتہ ۳۲ برس سے افغانستان کی سرزمین بارود کی بو اور خون کے سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ظاہرشاہ بیک وقت روسی اور اشتراکی آلہ کار تھا‘ اس کے اقتدار کے خاتمے پر کمیونسٹوں نے ’انقلاب کے لیے خون‘ کے نعرے پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ ۱۹۷۸ء میں ملفوف جوابی اشتراکی انقلاب آیا اور ۱۹۷۹ء میں اشتراکی کوچہ گردوں نے کابل کو اپنی آماج گاہ بنانا چاہا۔ ۱۹۹۲ء میں ان کا چراغ گل ہوا تو وہ ایک دوسرے روپ میں جہادی گروپوں کو باہم لڑانے کے لیے امریکی کیمپ کے طرف دار بن گئے۔ بعدازاں اکتوبر ۲۰۰۱ء میں امریکا نے پورے لائولشکر کے ساتھ افغانیوں کے کوہ و دمن کو نشانہ بنایا۔ ایک ملک دو انتہائی ظالم سامراجیوں کا نشانہ بنتا ہے اور اس کے ہمسائے ملک پاکستان میں چند ایک کے سوا کوئی صاحب ِ علم صحافی دکھائی نہیں دیتا جو حالات و واقعات کا صحیح تناظر میں تجزیہ کرسکے۔ مختارحسن کے انتقال (اگست ۱۹۹۵ئ) کے بعد اس فریضے کی ادائی کے لیے امان اللہ شادیزئی ایک صاحب ِ نظر دانش ور اور ہوش مند تجزیہ نگار کی صورت میں سامنے آتے ہیں‘ جو واقعات کو ان کے ظاہر سے زیادہ‘ ان کے پسِ پردہ حقائق کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
اس کتاب میں مصنف نے اپنے مضامین میں مسئلہ افغانستان کو سمجھنے اور پاکستان میں اس مسئلے سے پیوستہ جڑوں کو کھوجنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔انھوں نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں آنے والی تباہی کے دیگر محرکات کے ساتھ خود پاکستان کے نام نہادقوم پرستوں نے بھی اس ظلم میں اپنا حصہ ڈالا۔ آج بلوچستان میں پیدا کی جانے والی بے چینی کے محرکات بھی اس کتاب میں ظاہر ہیں اور خود افغانستان میں رونما ہونے والی مزاحمت کے آثار بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ (سلیم منصورخالد)
عامر عثمانی ؒ(امین الرحمن عامر ۱۹۲۰ئ-۱۹۷۵ئ) مولانا شبیراحمد عثمانی ؒ کے برادر زادے تھے۔ ماہنامہ تجلّی کے مدیر کی حیثیت سے ان کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ ایک بے باک صحافی‘ پختہ قلم نگار اور منفرد طنزنگار کے علاوہ عمدہ شاعر بھی تھے۔
یہ قدم قدم بلائیں ان کی نظموں اور غزلوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے حفیظ جالندھری کے انداز میں ان کی ایک کتاب شاہنامہ اسلام‘ جدید منظرعام پر آچکی ہے۔
یہ مجموعہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں ۴۵ غزلیں اور دوسرے حصے میں ۲۲ نظمیں شامل ہیں۔ آخر میں مختلف موضوعات پر خاصی تعداد میں قطعات بھی موجود ہیں۔ ان کی غزل ہو یا نظم‘ ہر جگہ ان کی دینی سوچ اور پاکیزہ خیالات بولتے سنائی دیتے ہیں۔ ان کے قلم کی روانی کے ہمراہ ان کا منطقی اندازِفکر ہر کہیں جلوہ گر نظرآتا ہے۔ قومی شاعری کے ضمن میں ان کا کلام ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ بعدازمرگ ان کی شاعری کے مجموعے کی یہ اشاعت ان سے مولانا حسن احمد صدیقی کی محبت اور ان کے دیگر نیازمندوں کی عقیدت کا ایک کھلا ثبوت ہے۔ کتاب کے شروع میں مولانا عامر عثمانی کی وفات پر مولانا ماہر القادری کا لکھا مضمون بھی کتاب میں شامل ہے جو خاصے کی چیز ہے۔ (سعید اکرم)
بڑی شخصیات اپنے بہت سے مداحوں کے ساتھ‘چند معاندین اور مخالفین بھی پیدا کرتی ہیں۔ بیسویںصدی کے آغاز میں شیخ محمد اقبال نے ایک اردو شاعر کی حیثیت سے‘ دنیاے شعروادب کو چونکا دیا۔ فکر‘خیال‘ فن اور زبان و بیان ہر اعتبار سے وہ ایک منفرد لہجے کے شاعر تھے۔ ان کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں کی طرف سے ان کے کلام پر اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ معترضین کے بہت سے گروہ تھے۔ یہ اعتراضات زبان و بیان کے مختلف پہلوئوں‘ روز مرہ ‘ محاورہ‘ تذکیرو تانیث‘ تعقید‘ لفظی اسقام‘ نامانوس تراکیب‘ فارسیت‘ معنوی لغزشوں اور عروض و قافیے کے حوالے سے کیے گئے تھے۔ بعض نقادوں نے کلام اقبال کو نقد و انتقاد کی جدید سان پر کسنے کی کوشش کی۔ ایک صاحب فرقہ واریت کی عینک سے اقبال کی شاعری پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب صابر نے زیرنظر تحقیقی جائزے میں اقبال کے اردو کلام پر ہر نوعیت کے اعتراضات کا تجزیہ کرتے ہوئے‘ شافی و کافی جواب دیے ہیں۔ موصوف کئی برسوں سے ایک لگن کے ساتھ اقبال کی شخصیت اور فکروفن پر اعتراضات پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی دو کتابیں اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ اور تصورِ پاکستان: اقبال پر اعتراضات کا جائزہ شائع ہوچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ذخیرئہ اقبالیات میں‘ اس موضوع پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے‘ فاضل مولّف نے اس سے بھی فائدہ اٹھایا ہے اور یوں ایک جامع تصنیف پیش کی ہے۔
بحث کے اختتام پر پروفیسر ایوب صابر نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ (ص ۱۴۳)۔ ان کا خیال ہے کہ دانتے‘ شیکسپیئر اور گوئٹے کو محض براعظمی اور قومی تعصبات کے سبب نسلِ انسانی کے سب سے بڑے شعرا قرار دیا جاتا ہے۔ شیکسپیئر کو تو برطانیہ نے اپنی سامراجی قوت کے بل بوتے پر بڑا شاعر منوایا۔ اگر فیصلہ اہلیت و انصاف کی بنیاد پر ہو تو اقبال ہی دنیا کا سب سے بڑا شاعر قرار پائے گا۔
پروفیسر محمد ایوب صابر کی یہ کتاب اقبالیاتی ادب میںوقیع اضافہ ثابت ہوگی۔ کتابت اور اشاعتی معیار اطمینان بخش ہے‘ اشاریہ بھی شامل ہے‘ مگر یہ بات کھٹکتی ہے کہ مباحث کا آغاز مصنف کی کسی تمہید یا دیباچے کے بغیراچانک ہوتا ہے۔ (ر - ہ)
اردو زبان میں جرم و سزا کے موضوع پر جو کچھ لکھا گیا ہے اُس کا بیش تر حصہ حقیقت سے زیادہ افسانے پر مشتمل ہے‘ البتہ معروف ادیب عنایت اللہ مرحوم اور کچھ نیک نام پولیس افسران کی بعض نگارشات افسانے سے بھی زیادہ دل چسپ ہیں اور ان میں افادیت کا پہلو غالب ہے۔ زیرِنظر کتاب اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔
چودھری احمد خان چدھڑ نے ملازمت کا آغاز بطور کانسٹیبل کیا اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ترقی کرتے ہوئے ایس پی کے عہدے تک پہنچے۔ اس دوران میں انھوں نے تجربے اور ذہانت سے کام لے کر بڑے بڑے اندھے جرائم کی تفتیش کی اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا۔ گو اس کے لیے انھیں بڑی قربانی دینا پڑی اور ذاتی نقصانات بھی اٹھائے‘ لیکن فرض شناسی کو اہمیت دے کر انھوں نے اپنی عظمت تسلیم کرائی۔
سید شوکت علی شاہ کے بقول یہ کتاب: ’’محکمہ کے اہل کاروں اور افسران کے لیے ایک گائیڈ اور ریفرنس کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔ مصنف کے تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ اسلام جرائم کی بیخ کنی کے لیے ان محرکات کو ختم کرنے پر زور دیتا ہے جن سے دوسروں کے حقوق پر زد پڑتی ہو‘ اس لیے سماجی انصاف اور عدل ضروری ہے۔
کتاب کے حصہ اول میں مصنف نے اپنے حالات بیان کیے ہیں۔ دوسرے حصے میں جرائم اور ان کی بیخ کنی کے لیے جدوجہد کا ذکر کیا ہے ‘ جب کہ تیسرے حصے میں چند اہم واقعات کا مختصر ذکر ہے۔ پوری کتاب کا حاصل یہ بنتا ہے کہ اگر پولیس دیانت داری سے جرائم کی بیخ کنی کا عزم کرلے اور انھیں ’’اُوپر‘‘والوںکی تائید بھی حاصل ہو تو معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بن سکتا ہے اور چونکہ ایسا نہیں ہو رہا ہے‘ اس لیے ملک میں فساد اور بدامنی روز افزوں ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
پیش نظر کتاب مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم و مغفور کا تذکرہ ہے‘ جس میں ان کی زندگی کے اہم تر احوال و آثار‘ شخصیت کے مختلف رنگ اور علمی و دینی کارہاے نمایاں قلم بند ہوئے ہیں۔ کتاب کا اندازِ تحریر سادہ اور شگفتہ ہے۔ اقتباسات کے ساتھ حوالے بھی دیے گئے ہیں‘ مگر دو باتیں خاص طور پر کھٹکتی ہیں:
۱- پروف خوانی ٹھیک طرح سے نہیں کی گئی‘ جس کی وجہ سے خاصی تعداد میں غلطیاں موجود ہیں اور کتنے ہی شعر بے وزن ہوگئے ہیں۔ (ملاحظہ ہوںصفحات: ۴۲‘ ۶۲‘ ۶۵‘ ۷۴‘ ۹۶‘ ۱۰۸‘ ۱۰۹‘ ۱۱۰‘ ۱۳۷‘ ۱۴۷‘ ۱۶۳‘ ۱۷۳‘ ۱۷۹‘ ۱۸۰‘ ۲۵۴‘ ۲۵۶‘ ۲۶۴)
۲- ضروری تھا کہ ایسی علمی کتاب میں کتابیات کی ترتیب کا اہتمام محنت اور دقتِ نظر سے انجام پاتا۔ اگر اس نوعیت کے تسامحات سے قطع نظرکرلیا جائے تو یہ کتاب اپنے مندرجات کی ثقاہت کے اعتبار سے بہت اہم اور معلومات افزا ہے۔ (عبدالعزیز ساحر)
پانچ عنوانات (۱- اسلامی ورلڈ ریویو ۲- قرآن ۳- محمدؐ رسول اللہ ۴- عبادات‘ قانون‘ اخلاق ۵- تزکیۂ نفس) کے تحت موجودہ دور کے عالمِ اسلام کے تمام ہی نامور قائدین (حسن البنا‘ سید مودودی‘ ابوالحسن علی ندوی‘ یوسف قرضاوی‘ خرم مراد‘ خورشید احمد‘ محمد الغزالی‘ محمدقطب‘ سید قطب‘ سعید رمضان‘ محمد اسد‘علی عزت بیگووچ‘ اسماعیل فاروقی وغیرہ) کی کل ۳۳ نگارشات کا یہ گلدستہ انگریزی پڑھنے والوں کے لیے اسلام کا ایک حقیقی تعارف ہے۔ تمام پہلو خوب اچھی طرح روشن ہو گئے ہیں۔ جہاں کی زبان انگریزی نہیں‘ (مثلاً پاکستان) وہاں بھی انگریزی پڑھنے والوں کی کمی نہیں‘ لیکن مسئلہ ان کتب کی مقامی شرح پر دستیابی کا ہے جسے حل کیا جانا چاہیے۔ (م - س )
نواے بے نوا محترم عبدالرشید صدیقی کی نظموں اور غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے جس میں آغاز سے اب تک کے تمام کلام کا انتخاب شامل ہے۔ ان کا خوب صورت شعری ذوق اب اس کتاب کے ذریعے کھل کر سامنے آیا ہے۔ یہ کتاب اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ ان کی شاعری کے موضوعات عشق و محبت تک محدود نہیں ہیں اور اُن کا دائرہ کار وطن کی محبت اور اس کی خوشبو کے علاوہ مسلم امہ کے احیا اور دین ہدیٰ کی سربلندی اور اس کی سرفرازی کی تمنا تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ بقول پروفیسر خورشید احمد یہ کتاب ’نے نوازی کا ایسا مرقع ہے جس میں قدیم و جدید‘ مشرق و مغرب اور نغمہ و پیغام‘ قوسِ قزح کے مختلف رنگوں کی بہاریں دکھا رہے ہیں اور قلب ونظر دونوں کی تسکین کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔
صدیقی صاحب گوالیار میں پیدا ہوئے۔ ممبئی میں یونی ورسٹی تک تعلیم حاصل کی۔ لندن میں لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ کیا اور پھر لسٹر یونی ورسٹی میں طویل عرصے تک انفارمیشن لائبریرین کے طور پر کام کرتے رہے۔ حال ہی میں اسلامک فائونڈیشن لسٹر نے اشاعت و فروغِ دین کے مقاصد کے پیشِ نظر انگریزی میں ان کی تین کتابیں شائع کی ہیں۔ وہ برطانیہ میں کئی اسلامی تنظیموں اور اداروں میں آج بھی بھرپور طریقے سے سرگرمِ عمل ہیں۔ زیرنظر کتاب ان کی نفاست ِ طبع کا ایک اور پہلو نمایاں کرتی ہے۔ (سعید اکرم)
٭ معارف الاسماء شرح اسماء اللہ الحسنٰی‘ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری‘ تحقیق و تخریج: محمد سرور عاصم‘ ناشر: مکتبہ اسلامیہ بالمقابل رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۳۔ قیمت: ۱۳۰روپے۔] اللہ تعالیٰ کے ۹۹ناموں کی شرح۔ طبع اول ۱۹۳۰ء کی نئی خوب صورت اشاعت۔ آیات و احادیث کے حوالوں کا اضافہ از محمد سرور عاصم۔ سرورق پر اور پشت سرورق کے فلیپ میں بھی نام کتاب معارف الاسمٰی درست نہیں۔[