جب گھر کے چوکیدار اپنی طاقت کے زور پر گھر کے مالک بن کر من مانے فیصلے کرنے لگیں تو اس گھر کے مکینوں کو سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کس پُرامن طریقے سے اپنے ان ملازموں سے گھرکو واگزار کرائیں۔ یہ معاملہ ایک گھر کا ہو تو تکلیف دہ اور اگر ایک قوم کے ساتھ ہو تو المناک ہوا کرتا ہے۔
پاکستان میں ملازمین ریاست نے (چاہے وہ باوردی ہوں یا بے وردی) اسی قوم کو اپنے جبروزیادتی کا نشانہ بنایا ہے‘ جس قوم نے سخت قربانیوں کے ساتھ ان کے کروفرکا بندوبست کیا اور اختیار کی امانت ان کے سپرد کی۔ یہ ملازمین بنیادی طور پر عوام کے مسائل و معاملات سے لاتعلق نہیں تو بے بہرہ ہونے کی ایک تاریخ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ اُن کی تربیت کا استعماری پس منظر ہے۔ بہرحال ایسے لوگ جب اقتدار کے سرچشموں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا شروع کرتے ہیںتو کبھی اس کا قبلہ درست کرنے پر تل جاتے ہیں اور کبھی اس کی تاریخ ٹھیک کرنے کی فکر میں غلطاں ہوتے ہیں۔ ایسے میں کچھ خود ساختہ حکمران‘ فکری بونوں اور سیاسی بالشتیوں میں کھڑے ہو کر جب اپنے عقل کل ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو کسی دل جلے کے ہونٹوں سے آہ پھوٹ پڑتی ہے۔ ایسے میں یہ عقلِ کل صاحبان ’’کچل دینے‘‘کی دھمکی سے کم پر نہیں رکتے۔ ایسے ہی عقلِ کل حکمرانوں نے پاکستان کے سیاسی مستقبل کو خدشات و خطرات شکار کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی مستقبل کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قومی نظام تعلیم کے ساتھ جس کھیل تماشے کا انھوں نے آغاز کیا ہے‘ اس پر ہر محب وطن شدید صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے‘ تاہم قوم کو صدمے کی کیفیت سے نکل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔
جنرل یحییٰ خان کے زمانے سے اسماعیلی فرقے کے سربراہ کو پاکستان میں سرخ قالین پر استقبال کرانے والے شہنشاہ معظم کا رتبہ حاصل ہے‘ حالانکہ ان کے پاس کوئی ریاست اور کوئی حکومت نہیں۔ عجیب و غریب عقائد و نظریات کے حامل اس عالمی استعماری گروہ نے فی الواقع پاکستان میں ریاست در ریاست قائم کرنے کے لیے شمالی علاقہ جات کو اپنا مرکز بنایا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اپنے عقائد کے اعتبار سے اسماعیلی شیعہ بھی نہیں کہ مسلمانوں میں شمار کیے جائیں بلکہ ان کے عقائد قادیانیوں سے قریب تر ہیں۔ اہلِ تشیع ان کے بارے میں اسی رائے کو درست سمجھتے ہیں جو جمہور مسلمان قادیانیوں کے بارے میں رکھتے ہیں۔اور عجیب بات یہ ہے کہ انھی اسماعیلیوں کو اکثر ہمارے حکمران سب سے اچھا پڑھا لکھا‘ اور روشن خیال مسلمان قرار دیتے ہیں۔
۱۹۸۳ء میں جنرل ضیا الحق مرحوم نے آغاخان فائونڈیشن کو کراچی میںایک میڈیکل یونی ورسٹی کھولنے کی اجازت عطا کی۔ اس تعلیمی ادارے نے بے پناہ فنڈز رکھنے کے باوجود نہایت مہنگے داموں میڈیکل تعلیم کا چراغ روشن کیا۔ یہاں پر یہ مسئلہ زیربحث نہیں کہ کس طبقے کے کتنے بچوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی اور پھر ان میں سے کتنے فی صد پاکستان میں خدمت انجام دینے کے لیے رکے رہے۔ اس موضوع پر حقائق سامنے لائے جائیں تو خود بخود یہ حقیقت کھل جائے گی کہ یہ ادارہ اپنے حتمی نتائج کے اعتبار سے پاکستان کے بجاے دوسروں کی خدمت پر کمربستہ ہے۔ بلاشبہہ اس ادارے نے میڈیکل سائنس اور صحت کے میدان میں بڑے نمایاں نتائج دیے ہیں‘ مگر اس بات سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ پاکستان بھر کے ۱۵ کروڑ لوگوں کے بچوں کو بھی تعلیم دینے کی اہلیت اور قابلیت رکھتا ہے۔
اکتوبر ۲۰۰۲ء میں عام انتخابات ہوئے۔ قوم نے اپنے نمایندے چن لیے‘ لیکن جنرل پرویز مشرف نے اپنی متنازعہ صدارت اور بوگس ریفرنڈم سے حاصل کردہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ۸ نومبر ۲۰۰۲ء کو اپنے دستخطوں سے ’’غیرمعمولی آرڈی ننس‘‘(CXIV/2002) منظور کیا‘ جسے ’دی گزٹ آف پاکستان‘ کے صفحات ۱۷۳۱ تا ۱۷۳۵ پردیکھا جا سکتا ہے۔ یوں قوم کے مستقبل پر ایک اور کمانڈوایکشن لیا گیا۔ افسوس کہ اہلِ سیاست اور اہلِ قانون اس آرڈی ننس کی نزاکت سے بے خبر رہے‘ اور اب یہ آرڈی ننس اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ قوم کی فکری‘ تاریخی‘ دینی اور معاشی مستقبل پر شب خون کا درجہ ہی نہیں رکھتا بلکہ دن دھاڑے ڈاکازنی کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسے تیار کرنے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ کسی معاشرے اور قوم کے وقار‘ عزت اور خودی کو مسخر کرنے اور اسے ہمہ پہلو غلامی کے شکنجے میں کسنے کا سب سے کامیاب گر تعلیم ہے۔
یہاں پر آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ (AKU-EB) کے اس آرڈی ننس کی چند شقیں پیش کی جا رہی ہیں‘ جنھیں دیکھنا‘ پرکھنا اور اس پر آواز بلند کرنا تمام اہل نظر کی دینی‘ قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ آرڈی ننس کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے:
آرٹیکل (۱) اس آرڈی ننس کو ’’آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ ۲۰۰۲ئ‘‘ کہا جائے گا۔ (۲) یہ پورے پاکستان پر محیط ہوگا۔ (۳) یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
۴- امتحانی بورڈ کے مقاصد: ] سات آٹھ مقاصد درج ہیں[
۶- امتحانی بورڈ کو معقول حد تک امتحانات کی فیسیں عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔
۸- اس آرڈی ننس کے تحت نیک نیتی سے کیے گئے تمام کام کسی قسم کے عدالتی دعوئوں اور قانونی کارروائیوں سے محفوظ ہوں گے۔
واقعات کو اگر ترتیب سے دیکھیں تو نظرآتا ہے کہ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے گروہ نے اخلاقی جواز نہ رکھنے کے باعث کئی قسم کے دبائو قبول کیے اور کئی حوالوں سے‘ ہتھیار ڈالتے وقت خود دشمن کو بھی حیران کر کے شادی مرگ میں مبتلا کر دیا۔ اسلام آباد کے باخبر سرکاری حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ دسمبر ۱۹۹۹ء میں استعماری مفادات کی حامل این جی اوز نے بڑی تیزی کے ساتھ‘ مختلف وزارتوں اور پالیسی ساز اداروں میں اپنا عمل دخل بڑھا لیا۔ یوں رفتہ رفتہ پالیسی سازی اور پالیسی دستاویزات کی تیاری میں حیرت ناک حد تک اختیار حاصل کرلیا‘ بلکہ ۲۰۰۰ء کے اواخر تک اس حق کو ایک ’اعلیٰ قدر‘ کے طور پر تسلیم بھی کرا لیا۔ ڈیوولیوشن پلان یا ’اختیارات کی تقسیم پروگرام‘ کی ظاہری خوش نمائی کے باوجود اس کی داخلی بدنمائی نے قومی مرکزثقل کوہلا کر رکھ دیا۔
۲۰۰۱ء میں حکومت نے بڑی تیزی کے ساتھ ایجوکیشن سیکٹر ریفارم کے نام پر سال بہ سال چھوٹی چھوٹی تعلیمی پالیسیاں جاری کرنا شروع کیں۔ حالانکہ اس سے قبل تعلیم کے حوالے سے یہ طے شدہ امر تھا کہ پالیسی واضح طور پر مشتہرکی جائے کہ اہل حل و عقد‘ تعلیم کے میدان میں آیندہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن فوجی حکمرانوں نے اتنے اہم اسٹرے ٹیجک شعبے کو بے سروپا انداز میں چلانا شروع کیا۔ ۲۰۰۲ء میں آغا خان یونی ورسٹی کے فرنٹ مین مسٹر شمس قاسم لاکھا کی نگرانی میں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونی ورسٹیوں کے نظام کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ پھراسی سال آغا خان امتحانی بورڈ کو رات کے اندھیرے میں پاکستان بھر کے تعلیمی مستقبل کا مستقل مالک بنا دیا گیا۔ بعدازاں امریکی ادارے‘ یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (USAID) نے آغا خان یونی ورسٹی سے ۱۳؍اگست ۲۰۰۳ء کو کراچی میں ایک معاہدہ کیا‘ جس پر امریکی سفیرہ نینسی پاول اور آغا خان یونی ورسٹی کے نمایندے شمس قاسم لاکھا نے دستخط کیے۔ اس تقریب میں وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال صاحبہ (جنھیں امریکی حکومت ’’ونڈرفل لیڈی‘‘ کے طور پر یاد کرتی ہے) اور سندھ کے وزیرتعلیم عرفان اللہ مروت بطور سرکاری گواہ موجود تھے۔ ان دستخطوں سے حکومتِ امریکا نے آغا خان یونی ورسٹی کو اپنے امتحانی بورڈ کی تعمیروترقی کے لیے ۴۵۰ لاکھ ڈالر عطا کیے اور ’’جب تک یہ بورڈ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوجاتا اسے امداد دی جاتی رہے گی‘‘ کا مژدہ بھی سنایا گیا۔ ہدف یہ مقرر ہوا کہ پاکستان بھر کے اعلیٰ و ثانوی تعلیمی بورڈ‘ آغا خان بورڈ کے قبضۂ اختیار میں چلے جائیں۔
آغا خان امتحانی بورڈ نے آغاز کار میں صرف تین ہزار ۸ سو روپے رجسٹریشن فیس فی طالب علم مقرر کی ہے‘ جسے ہر طالب علم نومبر ۲۰۰۴ء تک ادا کرے گا۔ یاد رہے کہ سرکاری تعلیمی بورڈ میں یہ فیس ۳۰۰ روپے ہے۔ بعدازاں امتحان کے لیے فیس الگ سے لی جائے گی‘ اور وہ بھی چار ہزار ہوگی۔ کیا عام طالب علم اتنی فیس ادا کر سکے گا۔ موجودہ تعلیمی بورڈوں میں امتحانی فیس میٹرک کے لیے ۷۰۰ روپے اور انٹرمیڈیٹ کے لیے ۹۰۰ روپے ہے۔تعلیم کو سستا کیے بغیر معاشرے میں تعلیم عام نہیں ہو سکتی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم مفت ہے‘ کتاب اور کاپی بھی مفت ہے‘ جب کہ انٹر تک طالبات کیبہت بڑی تعداد کو وظیفہ دیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں تعلیم عام کا ہدف سرکاری سرپرستی اور اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہوا‘ لیکن یہاں پر تعلیم کی زمامِ کار ساہوکاروں اور کثیرقومی کارپوریشنوں کے ہاتھ میں دے کر ’’روشن پاکستان‘‘ (رائزنگ اور توانا پاکستان) بنانے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔
چند ماہ پیش تر قومی ادارہ نصابات (نیشنل کریکولم ونگ) اور صوبائی درسی کتب بورڈوں کے ہاتھوں جہالت پر مبنی جن غلطیوں پر قوم سراپا احتجاج بنی‘ واقعہ یہ ہے کہ اس احتجاج نے جہاں ان اداروں پر سے قوم کے اعتماد کو مجروح کیا ہے‘ وہیں حکومت اپنے منصوبے کے مطابق‘ خود نصاب اور ٹیکسٹ بک بورڈوں ہی کے وجود پر فاتحہ خوانی کے لیے تیار ہے۔ نصابی کتب کی ڈی ریگولیشن سے جنرل مشرف اور زبیدہ جلال کی یہ والہانہ وابستگی دراصل قومی نصابی عمل کوختم کرنے کا واضح اعلان ہے۔ قوم نے اپنے نصابی اداروں کو ٹھیک کرنے کے لیے آواز بلند کی‘ جسے عملاً دبا دیا گیا اور محض چند سطروں کی اصلاح اور دو تین مضامین کو حذف کرنے کے سوا تمام کا تمام متنازعہ نصاب درس گاہوں میں آج بھی موجود ہے‘ اور قومی نمایندے اس سارے ظلم سے بے خبر‘ لاتعلق اور غیرمتعلق ہیں۔ پارلیمنٹ میں اس موضوع پر ایک دو بار بات ہوئی اور حکومتی نمایندوں کے جھوٹے‘ مبہم اور متضاد بیانات سن کر‘قوم کے نمایندے ’مطمئن‘ ہوگئے۔
اب ‘ جب کہ آغا خان بورڈ‘ امریکی امداد اور حکومت پاکستان کی سرپرستی میں امتحانی نظام پر مرحلہ وار انداز میں قبضہ کر رہا ہے‘ تو پھرلامحالہ یہی بورڈ اپنا نصاب خود بنائے گا‘ خود پڑھائے گا اور اس کے مطابق امتحان لے گا۔ اس کے نصاب یا مالی طریق کار اور پیمایشی نظام پر قوم کے نمایندوںکا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں قوم کو دھوکا دینے کے لیے حقیقی حکمران اور ان کے دست راست افراد غیرمنطقی بیانات دے رہے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ یہ بورڈ ’’قومی نصاب کے مطابق کام کرے گا‘‘ (اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مختلف جگہ پر آغا خان امتحانی بورڈ نے یہ لکھا بھی ہے) تاہم‘ قدم قدم پہ‘ یہ اعلان بھی کرتے جا رہے ہیں کہ ’’ہم وہی کریں گے جو ہم چاہیں گے‘‘--- مثال کے طور پر آغا خان بورڈ نے الحاق کے لیے جو شرائط نامہ جاری کیا ہے‘ اس کی شق ۳ئ۳ کے مطابق کہا گیا ہے: ’’اسکول لازماً اسی قومی نصاب کو اختیار کریں گے‘ جسے آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ جاری کرے گا‘‘۔ اس شق میں بظاہر لفظ ’’قومی‘‘ سے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کا طے شدہ قومی نصاب ہوگا‘ لیکن خود اس جملے کی ساخت بتاتی ہے کہ یہاں مراد وہ ’’قومی‘‘ ہے‘ جسے آغاخان بورڈ ’’قومی‘‘ قرار دے گا۔ اس معاملے کو ایک دوسری مثال سے پرکھتے ہیں۔ آغا خان بورڈ نے میٹرک کے لیے اسلامیات کے جس نصابی خاکے کو جاری کیا ہے‘ اس کے ابتدایئے میں وعدہ کیا ہے کہ ’’پاکستان کے نصابی شعبے کی ہدایات کی روشنی میں نصاب تیار کیا جائے گا‘‘۔ لیکن اس کے صفحہ ۵ پر پہنچتے ہی اعلان کیا گیا ہے: ’’قومی مقاصد کے مطابق‘ اسلامیات کا نصاب وضع کرنے کے لیے‘ زیتونیہ یونی ورسٹی‘ تیونس سے رہنمائی لی جائے گی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک کو چھوڑ کر تیونس ہی کی مثال کیوں؟
اس لیے کہ وہاں کے آمرمطلق حبیب بورقیبہ نے ۹۸ فی صد آبادی کے مسلمان ملک میں جبری طور پر روزے پہ پابندی لگانے اور اسکارف و حجاب کو جبراً ممنوع قرار دینے کے علاوہ مسجدوں میں خطبہ و نماز پر اپنے من مانے احکام چلانے شروع کر دیے۔ قوم کو عریانی اور یورپی اقوام کی تفریحی شکارگاہ بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ تفصیل کے لیے مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کی کتاب مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش دیکھی جاسکتی ہے۔ بلکہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر خود جنرل مشرف کو تیونس کا لبرل اسلام پسند ہے تو اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ نماز‘ روزے سے نجات‘ شراب اور ڈانس پارٹیوں کی فراوانی کا کلچر‘ عریانی و آوارگی کا چلن--- یہ ہے تیونس کے ’’لبرل اسلام کی منزل‘‘ ۔ ایسے ہی جابر اور آمر حکمرانوں کی رہنمائی میں تیار کردہ ’’اسلامیات‘‘ ہمارے آغاخان امتحانی بورڈ کو پسند ہے۔ آغاخان بورڈ نے اسلامیات کے لیے میٹرک کا جو نصاب پیش کیا ہے‘ اس میں قرآن کے متن کو تلاش کرنے کے لیے خوردبین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہا یہ گیا ہے کہ ’’پاکستان کے قومی نصاب کی روشنی میں نصاب تیار کیا جائے گا‘‘۔ کیا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ حکومت نے نصاب میں قرآن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے تیونس کے اسلام بذریعہ آغا خان کا یہی طریقہ مناسب سمجھا ہے؟ --- یہی صورت حال تاریخ‘ مطالعہ پاکستان اور سماجیات و ادب کے دیگر مضامین میں روا رکھی گئی ہے۔
امریکا و یورپ نے پہلے پہل یہ کہا کہ دینی مدارس سے دہشت گردی پیدا ہو رہی ہے‘ بعد میں یہ کہنا شروع کیا: ’’جدید تعلیم کے اداروں سے دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں‘‘۔ اس لیے مغرب کے بھتے (پے رول) پر کام کرنے والی این جی اوز نے گذشتہ چار برس سے اس پروپیگنڈے کا آغاز کیا کہ: ’’دو قومی نظریہ نفرت کی علامت ہے‘ محمد بن قاسم نے چوری چھپے حملہ کر کے وطن کے بیٹے راجہ داہر جیسے بے ضرر انسان کو خواہ مخواہ شکست دی۔ ہندستان پر قبضہ کرنے والے انگریز ماضی کی داستان تھے اور آج کے انگریز دوسری چیز ہیں جو ہمارے دوست ہیں‘ اس لیے انگریزی سامراج کے خلاف حصے نصاب سے خارج ہونے چاہییں۔ میجرطفیل‘ راجہ عزیز بھٹی‘ راشد منہاس اور دیگر نشانِ حیدر رکھنے والے افراد کا تذکرہ بھی خارج از نصاب قرار دیا جائے‘ کیونکہ اس طرح بے جا طور پر ہندوئوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ محمود غزنوی اور غوری حکمرانوں کا ذکر بھی ہندو کے خلاف نفرت پیدا کرتا ہے۔ نہرو اور کانگریس کے خلاف بھی مواد حذف کیا جائے۔ اصل اسلام صوفیوں نے پیش کیا۔ اسی طرح حضرت فاطمہؓ، حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ کے ذکر کے بجاے بلقیس ایدھی اور عاصمہ جہانگیر وغیرہ کو رول ماڈل (خاکم بدہن) کے طور پر پیش کرنے کے لیے پیش رفت کی جائے (بلکہ ایسا کر بھی دیا)۔ صحابہ کرامؓ بڑے ’’لبرل‘‘ تھے۔ رسول اکرمؐ نے مسلمانوں اور یہودیوں پر مشتمل ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا‘ جس سے مسلم اور یہودی اسلامی ریاست کے شہری بن گئے‘‘--- ان چیزوں کو روبہ عمل لانے کے لیے ایک حد تک سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈوں کو استعمال کیا گیا اور آیندہ یہ کام زیادہ یکسوئی کے ساتھ کرنے کے لیے آغا خان بورڈ کے ذمے لگایا گیا ہے۔
اس مسئلے پر اسی قبیل کے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ترجمان جہد حق (اگست ۲۰۰۴) نے تو یہ لکھا ہے: ’’اب وقت آن پہنچا ہے کہ جنوبی ایشیا کے لیے ایک مشترکہ کتاب کے طور پر برصغیر کی تاریخ مرتب کی جائے --- بچوں کو بجاے اس کے کہ کسی واحد سرکار کی طرف سے منظور کردہ آلایشوں سے پاک سچائی سے روشناس کرایا جائے‘ انھیں ہر قسم کے نظریات سے واقفیت کرائی جائے۔ ’’نظریہ پاکستان‘‘ جس سے یہ [پاکستان] چمٹا ہوا ہے وہ بھارت کے لیے حکمران فوجی اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مذہبی گروہوں کی نفرت سے کسی حد تک علیحدہ چیز ہونا چاہیے۔ صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ‘ جن کی اجارہ داری ہے نظریاتی چوکیداروں کے فرایض سرانجام دیتے ہیں اور تابع دار مصنفین کی سرپرستی کرتے ہیں‘‘۔ (ص ۸)
اس سال کے آغاز میں‘ حکومت نے ان تمام وعدوں کو پس پشت ڈال کر‘ کہ آغا خان بورڈ تو بنیادی طور پر نجی تعلیمی اداروں کے لیے ہے‘ سب سے پہلا وار وفاق کے زیرانتظام تعلیمی اداروں پر کیا۔ جنوری ۲۰۰۴ء میں اس حوالے سے سرگرمی سے کام شروع کیا گیا‘ جس پر اسلام آباد کے شہریوں کی بے چینی کو زبان دیتے ہوئے روزنامہ دی نیشن نے اپنی رپورٹ (۹فروری ۲۰۰۴ئ) میں بتایا: حکومت نے وفاقی تعلیمی بورڈ (ایف بی آئی ایس ای)کو آغا خان بورڈ سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے وفاقی وزیرتعلیم زبیدہ جلال اور فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ڈائرکٹر جنرل بریگیڈیر (ر) مقصودالحسن نے سرگرمی سے دبائو بڑھانا شروع کیا ہے۔ لیکن والدین اور اساتذہ کی انجمن نے اس امر کی مخالفت کی‘ اور ۲۰ جنوری کو ہونے والے اجلاس میں مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری جانب معلوم ہوا کہ اس منصوبے پر دو طریقے سے عمل کیا جائے گا۔ پہلے والدین کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ ایک ہی تعلیمی ادارے میں اپنے بچے کو آغا خان بورڈ کے تحت امتحان دلانا چاہتے ہیں یا نہیں‘ جب کہ دوسرے مرحلے میں اس ادارے کے سب بچوں پر لازم کر دیا جائے گا کہ وہ آغا خان بورڈ ہی کو منتخب کریں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہم دہم کا امتحان ایک ہی مرتبہ لیا جائے۔ کسی سرکاری تعلیمی ادارے کو کسی پرائیویٹ ادارے کے زیرانتظام منسلک کرنا مکمل طور پر غیرقانونی فعل ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ آغا خان بورڈ کے فارغ التحصیل طلبہ کو بیرون پاکستان آسانی سے داخلہ مل جائے گا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے طلبہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور اس معمولی تعداد کے لیے کیا پورے پاکستان کے بچوں کو اس مہلک سسٹم میں دھکیل دینا کوئی عقل مندی کی بات ہوگی‘‘۔
تاحال وفاقی تعلیمی بورڈ پر گرفت مضبوط بنانے کے لیے آغا خان بورڈ سرگرداں ہے‘ جب کہ وفاقی بورڈ میں قومی درد رکھنے والے چند افسر مزاحمت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب کے بورڈوں کے چیئرمینوں نے بھی سردست آغا خان کے سامنے ہتھیار نہ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہے‘ لیکن یہ مزاحمت یا ضد علامتی ہے۔ اکثر چیئرمین سفارش یا ذاتی جوڑ توڑ سے اس منصب تک پہنچتے ہیں۔ جو چند ملّی درد رکھنے والے افراد ہیں‘ ان کی مزاحمت اس وقت تک باثمر نہیں ہو سکتی جب تک کہ قومی سطح پر اہل دانش اور عوامی حلقے انھیں اخلاقی امداد بہم نہ پہنچائیں۔ ایک طرف امریکی استعمار کھلے عام‘ امریکی سفیرہ کی قیادت اور جنرل مشرف و زبیدہ جلال صاحبہ کی سیادت میں تعلیمی ڈھانچے اور نظام پر قبضہ کرنے کے لیے کھلے عام پیش رفت کر رہا ہے‘ دوسری جانب ریٹائرمنٹ کے قریب تھکے ہارے چند بے نوا پروفیسر حضرات اپنے اپنے بورڈوں کو کب تک بچائیں گے۔ پھر جس طرح کا ہمارے ہاں نظام ہے کہ ایسے مباحث میں کئی مفاد پرست ناصحین مشورہ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ ’’قبول کر لیا جائے‘‘۔ دوسرا یہ کہ آغا خان بورڈ کے کارندوں نے مختلف انجمنوں اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے رابطوں میں تیزی پیدا کی ہے۔ اس حوالے سے وہ مذہبی پس منظر کے چند اداروں اور دینی شکل و صورت رکھنے والے چند بندگانِ زر کو بھی شیشے میں اتار رہے ہیں‘ بلکہ اس نوعیت کے کچھ لوگوں سے رابطوں کو انھوں نے کمپنی کی مشہوری اور مذہبی طبقے کی جانب سے سندِ قبولیت کے طور پر پیش کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔
آغا خان امتحانی بورڈ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر تھامس کریسٹی جو برطانوی نژاد انگریز اور مانچسٹر یونی ورسٹی کے سابق ڈین ہیں‘ شب و روز کی جدوجہد سے اپنے وابستگان میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے ہمراہ شمس قاسم لاکھا ہیں‘ جن کے ہاتھوں یونی ورسٹی کے نظام کار کا حلیہ بگاڑنے اور تعلیم کو تجارت و زرپرستی کا دوسرا نام دینے کا المیہ رونما کرانے کے بعد‘ اب ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کی بساط بھی لپیٹی جارہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے یونیورسٹی سطح کی تعلیم کے دروازے تو اب نچلے اور متوسط طبقے کے بچے کے لیے بند ہو چکے ہیں۔ سیلف فنانس‘ سیلف سپورٹ اور لوٹ مار کے بے شمار نجی تعلیمی اداروں نے ناداروں کو زندگی بہتر بنانے کی دوڑ سے باہر نکال دیا ہے۔ مختلف ناموں کی یونی ورسٹیاں ہر شہر میں کھل رہی ہیں‘ جو اپنی جگہ قانون کی نہایت سنگین خلاف ورزی ہے۔ لیکن ہمارا ریاستی نظام ان جعلی اداروں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجاے‘ انھیں مختلف اقدامات کے ذریعے پروان چڑھانے میں مددگار بن رہا ہے۔
آغا خان اقلیت کی حکمت عملی قادیانیوں اور یہودیوں سے ملتی جلتی ہے۔ وہ یہ کہ قوت کے سرچشموں کو اپنے اثرونفوذ میں لیا جائے‘ بظاہر امن پسندی کا ڈھونگ رچایا جائے اور اصل میں ہڈیوں میں اتر جانے والا ظلم ڈھایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ان کے ہاں مادی وسائل پر قبضہ اور پس پردہ سازش دو بنیادی اصول ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آغا خان بورڈ میں فی طالب علم کی محض رجسٹریش فیس کا سرکاری بورڈوں کے مقابلے میں تناسب تقریباً چار ہزار بمقابلہ تین سو ہے‘ اور امتحانی فیس کا تناسب بھی یہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کے لیے اپنے بچے کو پڑھانا ممکن نہ ہوگا۔ اسی طرح جنرل مشرف کے ڈی ریگولیشن کے محبوب تصور کے تحت درسی کتب بے پناہ مہنگی ہوجائیں گی۔ ممکن ہے اس مہنگائی کا کوئی عارضی علاج امریکا اور اس کے حلیف سوچ لیں (جس کے تحت وقتی طور پر آغا خانی تعلیم کو کچھ سستا بھی کر دیں) لیکن اصل چیلنج ہمارے نزدیک اس تعلیم کا مہنگا ہونا نہیں ہے‘ بلکہ دیسی‘ بدیسی اور دشمن قوتوں کے ہاتھوں نئی نسل کے ذہن‘ فکر‘ تربیت اور مستقبل کو غلام بنانے کے راستے پر چلنا ہے۔
یورپی اقوام نے نظام تعلیم کو محکوم قوموں کے خلاف ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا‘ جس کی ایک مثال لارڈ میکالے کا فرمان ہے‘ دوسرا اعلان نپولین کا ہے کہ مسلمان ملکوںمیں ’’مقامی لوگوں کو مقامی لوگوں سے مرواو‘‘ (یعنی (natives to kill natives۔ گذشتہ تین برسوںکے دوران امریکا نے مسلم دنیا کے بارے میں جتنی رپورٹیں جاری کی ہیں‘ ان میں مسلمان ملکوں کے نظام تعلیم کو بنیادی ہدف بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ عراق پر قبضہ کرنے سے ایک سال پیش تر جون ۲۰۰۲ء میں عراقیوں کے لیے امریکا نے درسی کتب تیار کر لی تھیں اور ۱۰‘ اپریل ۲۰۰۳ء کو بغداد پر کنٹرول حاصل کرنے کے آدھے گھنٹے بعد امریکا نے عراق کے لیے جاری کی جانے والی سب سے پہلی امداد عراقی نظام تعلیم سے منسوب کی تھی۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انگریز اور یورپی استعمار نے ہر مسلمان ملک میں سیکولر اور مذہبی نظام تعلیم کو رواج دے کر خود مسلمانوں کو دو‘ مسلسل متحارب اور اجنبی گروہوں میں بانٹ کر رکھ دیا۔ ایک گروہ پر ملازمت‘ عزت اور احترام کے دروازے بند ہیں‘ چاہے وہ جس قدر بھی دیانت دار اور اسلامی تعلیمات سے قریب تر ہو۔ دوسرے گروہ کے لیے دولت‘ ثروت‘ عزت اور قوت کے تمام دھارے کھول کر رکھ دیے ہیں‘ چاہے وہ گروہ مجموعی طور پر‘ خود اپنی قوم کے لیے نفرت‘ حقارت اور بے رحمی کی چلتی پھرتی علامت ہی کیوں نہ ہو۔
اب آغا خان بورڈ اور بیکن ہائوس قسم کی برگر پود تیار کر کے خود جدید تعلیم کے فاضلین میں بھی ایک نہایت گہری تقسیم پیدا کی جا رہی ہے۔ اس ظلم کو متعارف کرانے کا کام ’’فوجی یونٹی آف کمانڈ‘‘ کے سنہری اصول کے تحت کیا جا رہا ہے۔ معاشی وسائل پر دسترس دینے کے لیے ایک جانب امریکا کی طرف سے کھلی مالی امداد ہے‘ جب کہ خفیہ طور پر دیے جانے والے فنڈز ہماری معلومات سے کہیں زیادہ ہیں۔ گذشتہ دنوں حبیب بنک جیسے قومی ادارے کو ’’آغا خان فنڈ براے ترقی‘‘ کے سپرد کرتے وقت یہ شفافیت اپنائی گئی کہ اخباری اطلاعات کے مطابق ۷۰ارب روپے کے اثاثوںوالا بنک صرف ۲۲ ارب میں فروخت کر دیا۔ اس ضمن میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے دبائو کا اعتراف خود وکلا حضرات نے سپریم کورٹ کے سامنے کیا۔ وفاقی تعلیمی بورڈ کو سب سے پہلے آغا خان کے حوالے کرنے کا جو ڈول ڈالا گیا ہے‘ تو یاد رہنا چاہیے کہ اس بورڈ کی صرف اسلام آباد اور بیرون پاکستان میں اربوں روپے کی جایداد ہے‘جب کہ پاکستان کے ۲۳ تعلیمی بورڈوں کو‘ جنھیں رفتہ رفتہ آغا خان فاؤنڈیشن جیسے مگرمچھ کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے‘ ان کے اثاثہ جات کئی ارب سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ اور پھر قوم کے ہر بچے کی جانب سے سالانہ تاوان دینے کی مجبوری الگ۔ یہ تمام چیزیں لمحۂ فکریہ ہیں۔
آغا خان بورڈ حالات کو کس رخ پر لے جائے گا‘ یا اپنے تصورِ جہاں (ورلڈ ویو) کے مطابق اس کے کرتا دھرتا کن دائروں میں زندگی گزارنے کی پہچان رکھتے ہیں‘ اسے دیکھنے کے لیے آغاخان ایجوکیشن کے دو سوال ناموں پر نظر ڈالنا مفید رہے گا۔ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان نے کلاس نہم سے گیارھویں جماعت تک کے طلبہ و طالبات کے ’’بالغانہ صحت کے سروے‘‘ کے لیے ایک سوالنامہ مرتب کیا ہے۔ اس سروے کو ’’دی گلوب فنڈ‘‘ اور حکومت پاکستان کے ایک شعبے کا بھی تعاون حاصل ہے۔ ان میں بچوں سے سوال پوچھا گیا ہے:
__ آپ کے خیال میں پاکستان میں ایڈز کا سب سے خطرناک ذریعہ کون ہے؟
(۱) غیرمحفوظ جنسی تعلقات (کمرشل جنسی ورکر‘ ایک سے زیادہ جنسی تعلقات) (۲) مرد سے مرد کا جنسی تعلق‘ وغیرہ (ص ۹)
__ آپ خود کو کس طرح ایڈز سے متاثر ہونے سے بچاسکتے ہیں؟
(۱)محدود جنسی تعلقات رکھنے سے (۲) کمرشل جنسی ورکر سے گریز (۳) حکیمی جڑی بوٹیوں اور دوائوں کے استعمال سے ‘ وغیرہ (ص ۱۰)
__ مندرجہ ذیل جملوں میں سے سب سے زیادہ اہمیت کون سے جملے رکھتے ہیں؟
(۱) اپنی مرضی سے زندگی گزارنا (۲)اپنا ہم سفر خود چننا (۳) شادی اور بچے‘ وغیرہ (ص ۲۲)
__ ان میں سے کون سی چیزیں آپ نے پچھلے چھے مہینوں میں کی ہیں؟
(۱) والدین سے جھوٹ بولا (۲) مزے کے لیے اسکول سے فرار ہوئے (۳) دکان سے چرا کر بھاگے (۴) گھر سے بھاگے (ر) دوستوں کے بہکاوے میں اگر غلط کام کیا (۵) شراب پی ہے‘ وغیرہ (ص ۲۲‘ ۲۳)
__ کیا آپ دوستوں سے گرل فرینڈ/بواے فرینڈ رکھنے کی خواہش کا اظہار کرسکتے ہیں؟
(۱) جی ہاں (۲) بالکل نہیں (۳) میں کر سکتا ہوں وغیرہ (ص ۲۳)
__ کیا آپ نے کبھی جنسی تعلقات استوار رکھے ہیں؟
(۱) ہاں (۲) نہیں (ص ۲۳)
__ اگر ہاں تو پہلی بار جنسی تعلقات استوار کرتے وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟
(۱) ۱۳سال سے کم عمر میں (۲) ۱۳ سال کی عمر میں (۳) ۱۴سال کی عمر میں (۴) ۱۵ سال کی عمر میں (۵) ۱۶ سال کی عمر میں (۶) ۱۷ سال یا اس سے زیادہ عمر میں‘ وغیرہ (ص ۲۳)
__ جو آپ درست سمجھتے ہیں ان پر صحیح کا نشان لگائیں؟
(۱) میں اپنے جنسی اقدار اور عقیدوں کی وجہ سے پریشان ہوں (۲) میں نے کبھی بھی کسی سے جنسی تعلقات نہیں رکھے (۳) میرے گرل/ بواے فرینڈ کے ساتھ جنسی تعلقات ہیں (۴) میں اپنے جنسی رویے پر شرمندگی محسوس کرتا ہوں (۵) میرے جنسی تعلقات کی وجہ سے میرے دوست حسد کرتے ہیں (ص ۲۴)
__ آپ کتنی مرتبہ نشہ کرتے ہیں؟
(۱) روزانہ (۲) ہفتے میں ایک بار (۳) مہینے میں ایک بار‘ وغیرہ (ص ۲۶)
__ کیا آپ شراب پیتے ہیں؟
(۱) ہاں میں پیتا/پیتی ہوں (۲) نہیں‘ میں نہیں پیتا/ پیتی ہوں (۳) کبھی کبھار پیتا/پیتی ہوں (ص ۲۷)
__ آپ نے شراب پینا کیوں شروع کی؟
(۱) میرے تمام دوست شراب پیتے ہیں (۲) میں دوستوں کے سامنے اچھا نظر آنا چاہتاہوں /چاہتی ہوں (۳) میں اکثر شراب کے بارے میں سنتا تھا اور پی کر دیکھتا چاہتا تھا/چاہتی تھی (۴) میں بہت پریشان رہتا تھا/رہتی تھی (ص ۲۷)
__ ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار اور اصولوں کو بہت اہمیت حاصل ہے‘ آپ کے
خیال میں کیا ایک لڑکی کا شادی سے پہلے جنسی تعلقات رکھنا جائز ہے؟
(۱) اخلاقی طور پر غلط ہے (۲) بالکل غلط نہیں (۳) میں نہیں جانتا (ص ۲۸)
__ آپ جن جوابات کو درست سمجھتے ہیں ان پر نشان لگایئے؟
(۱) میرے دوست جی بھر کے تمام قسم کے جنسی تعلقات میں حصہ لیتے ہیں (۲) میں وہ کرنا چاہتا ہوں جو میرے دوست کرتے ہیں (۳) دو محبت کرنے والوں کے لیے شادی سے پہلے جنسی تعلق ٹھیک ہے۔
__ کیا آپ گاڑی لے کر گئے؟
(۱) دوست کے گھر (۲) گھر کے آس پاس (۳) اپنے بواے/گرل فرینڈ کے گھر تک‘ وغیرہ (ص ۲۹)
اسی نوعیت کا سوال نامہ میٹرک‘ انٹر کے اساتذہ کے لیے بھی ہے۔
اوپر درج شدہ چند سوالات اور ان کے مجوزہ جوابات دیکھیے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حکومت کی آشیرباد سے فائونڈیشن اول روز سے ہی حلال و حرام کے مذہبی ضابطوں اور جملہ اخلاقی اقدار کو تہس نہس کر کے پاکستان کے مسلم معاشرے کو یورپ و امریکا کے طرز کی اباحیت میں ڈوبی ہوئی مادر پدر آزاد سوسائٹی میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ کسی کلاس روم میں طلبہ و طالبات کے ان فارموں کو پُر کرنے کا تصور کیجیے‘ جس سے آپ کو وہ ماحول سمجھ میں آجائے گا‘ جس میں باقاعدہ بھڑکا کر لانا مطلوب ہے۔ اس سوالنامے کے نفسیاتی اور سماجی پہلو پر گفتگو کرنے سے خود حیا آتی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ سوال نامہ ’لبرل ماڈریٹ‘ مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس بحث کے آخر میں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ ظلم پر مبنی اس آرڈی ننس اور حقارت و زیادتی پر مبنی اس نظام کو مسلط کرنے کے لیے مختلف استعماری این جی اوز اور حکومت کے بارسوخ افراد نے بڑے تسلسل سے کام کیا ہے۔ حکومت کے ’’اصل لوگ‘‘ سرخوشی کے عالم میں کچھ اچھے اور زیادہ تر برے فیصلے کرتے جارہے ہیں۔ بلاشبہ آغا خان امتحانی بورڈ کا آرڈی ننس بھی سترھویں ترمیم کے پردے میں قوم پر مسلط کیا جانے والا ظلم ہے۔ سترھویں ترمیم کو تسلیم کرنے والوں پر یہ بہت بڑا قرض ہے کہ وہ اپنی نئی نسلوں کو اس طوق غلامی سے نجات دلانے کے لیے‘ اس پر پارلیمنٹ میں بحث کریں اور مسترد کریں۔ لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ خود منتخب نمایندوں کو ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے کی نزاکت سے آگاہ کیا جائے۔ سترھویں ترمیم کی منظوری کے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ گذشتہ عہد مشرف میں جو آرڈی ننس یا فیصلے ہوچکے ہیں‘ انھیں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں زیربحث لا کر‘ قبول کرنے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس مشترکہ کمیٹی کا قیام التوا میں چلا آرہا ہے۔ حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ طے شدہ طریقے کے مطابق خصوصاً اس آرڈی ننس کا جائزہ لیا جائے اور اسے مسترد کیا جائے۔
اس الم ناک صورت حال پر اہلِ دانش اور اساتذہ کرام کا یہ دینی اور قومی فریضہ ہے کہ وہ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے ایک ایک رکن کو یہ بات سمجھائیں۔ یہ مسئلہ متحدہ مجلس عمل‘ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا نہیں ہے‘ بلکہ سبھی کے لیے مشترکہ درد اور کرب کا مسئلہ ہے۔ کیا اہلِ دانش اور اہلِ سیاست کسی جابر کی حکمت عملی کو تسلیم کر کے صدیوں تک اپنی نسلوں کو غلامی کے غار میں دھکیلنے کے لیے تیار ہیں یا حکمت و دانش سے بیداری و یک جہتی کی شاہراہ پر چلتے ہوئے ان زنجیروں کو توڑنے کے لیے آمادہ ؟