سعاد ت پارٹی کی استنبول برانچ کے زیرا ہتمام ایک اور بڑے اور منظم پروگرام میں شامل ہونے کا موقع بھی ملا جس میں کشمیر کی صورت حال پر ہم نے بریفنگ رکھی اور ان کی تنظیمی صورت حال اور کام کی تفصیلات بھی معلوم ہوئیں۔ استنبول سے انقرہ تک ہر جگہ سعادت پارٹی متحرک نظر آئی۔ اسے گذشتہ انتخابات میں محض ۵ء۲ فی صد ووٹ ملے تھے اور بری طرح شکست ہوئی تھی۔ اب وہ پُرامید ہیں اور یہ موقف رکھتے ہیں کہ گذشتہ انتخابات میں طیب اردگان کی پارٹی کو بھی لوگ اربکان صاحب ہی کی پارٹی سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کو کامیاب کیا۔ اب قوم کے سامنے صورت حال واضح ہوگئی ہے اس لیے ہمارا ووٹ بنک ہمیں واپس ملے گا۔ نیز یہ بھی بتایا گیا کہ اربکان صاحب کی پارلیمنٹ میں جو ۱۶۳ ارکان تھے ان کی اور ان کے پارلیمنٹ کے ارکان کی ایک بڑی تعداد سعادت پارٹی سے وابستہ ہے جو یقینا آیندہ کارکردگی دکھائے گی۔
اگر قوم پرست اور بائیں بازو کے عناصر متحرک ہوگئے اور حق پارٹی اور سعادت پارٹی کے درمیان خلیج موجود رہی تو اس سے ان دونوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ نیزسعادت پارٹی کو اردگان حکومت کی پالیسیوں پر سخت تحفظات ہیں ۔ ان کے مطابق انھوں نے جناب اربکان سے بے وفائی کی اور محض حکومت بچانے کے لیے اسرائیل اور فوج کے ساتھ معاملات کرنے میں اپنے موقف سے پسپائی اختیار کی ، حتیٰ کہ حجاب کے مسئلے پر بھی دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود کوئی قانون سازی نہ کرسکے ۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان انتخابات میں خلیج بڑھنے کا امکان ہے اور ووٹ بنک بھی تقسیم ہوگااس لیے کہ سعادت پارٹی نے بھی زور و شور سے اپنی تنظیم اور سرگرمیوں کو مؤثر بنا لیا ہے۔
ایک اہم مسئلہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کا ہے جو گذشتہ چار عشروں سے زیر التوا ہے۔ ترکی کی ہر حکومت کی خواہش رہی ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت سے اس کے لیے اقتصادی میدان میں نئے مواقع پیدا ہوں۔لیکن یونین کی طرف سے آئے روز نئی نئی شرائط کی تکمیل کا ایجنڈا دے دیا جاتا ہے جس کے اہم نکات یہ ہیں: (۱) آئینی اور قانونی اصلاحات کے ذریعے ترکی میں حقیقی جمہوریت قائم کی جائے اور سیاسی نظام سے فوج کا کردار ختم کیا جائے۔ (۲)ترکی کے معاشی انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔ (۳)قانون میں ایسی اصلاحات کی جائیں جو یورپ کے بنیادی حقوق کی تعریف پر پورا اترسکیں ، نیز ان سے متصادم قوانین مثلاُ پھانسی کی سزا وغیرہ ختم کی جائے۔ (۴)ترک معاشرے کو زیادہ لبرل کیا جائے۔
ہر حکومت یورپی یونین کے معیار پر پورا اُترنے کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات کرتی رہی ہے اور موجودہ حکومت بھی یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔مختلف دانش وروں اور سیاسی رہنمائوں سے یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ یہی نکتہ سامنے آیا کہ اگرچہ یورپی یونین میں شمولیت کے نتیجے میں معاشی ترقی کے مواقع پیدا ہوں گے اور فوج کے سیاسی کردار سے بھی جان چھوٹ جائے گی جو وہاں اچھے نظام کے قیام اور فروغ کے راستے میں رکاوٹ ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یورپ کی تہذیبی گندگی سے ترک معاشرہ مزید آلودہ ہوجائے گا، بالخصوص مسلم معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان بری طرح متاثر ہوگا۔موجودہ حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کی ساری کاوشوں کے باوجود یور پ کے تحفظات ختم نہیں ہوئے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ترکی کی شمولیت سے یور پ کی آبادی کا تناسب متاثر ہوگا۔ترکی کی موجو دہ آبادی اس وقت ساڑھے چھے کروڑ سے زائد ہے۔یورپ میں پہلے سے چار کروڑ کے لگ بھگ مسلمان آبادہیں۔ یہ سب مل کر آیندہ چند عشروں میں یورپ کی عیسائی شناخت کو متاثر کرسکتے ہیں۔ انھی تحفظات کی وجہ سے یورپی یونین کے کرتا دھرتا ابہام کا شکار ہیںاور آئے روز ایسے حیلے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ترکی کا یونین میں داخلہ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
ترکی کے اہم داخلی مسائل میں کردستان کی تحریک اہم مسئلہ ہے۔ کرد ترکی ، عراق، ایران اور آذربائیجان میں مقیم ہیں۔ نسل اور زبان کے اعتبار سے یہ وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں اور ایک طویل عرصے سے ان تمام ممالک میں آزاد کردستان کے حصول کے لیے تحریک چل رہی ہے۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کردوں کا ایک بڑا حصہ یعنی ترکی کا ایک چوتھائی حصہ کردوں پر مشتمل ہے۔ کر د آزادی کے لیے ماضی میں مسلح جدوجہد بھی کرتے رہے۔ ترکی نے آزادی کی اس مسلح تحریک کو بالجبر ختم کرنے کی کوشش کی جو کافی حد تک کامیا ب رہی لیکن سیاسی سطح پر اب بھی یہ تحریک موجود ہے ۔ اس حوالے سے سیاسی اور عسکری تمام تنظیموں پر قانونی لحاظ سے پابندی ہے۔ نجم الدین اربکان نے کردوں کی بے اطمینانی کو ختم کرنے کے لیے انھیں ممکنہ طور پر بااختیار بنانے کی کوشش کی۔ اس تسلسل کو موجودہ حکومت نے بھی جاری رکھا ۔ کردستان کی آزادی کے کرتا دھرتا قوم پرست سیکولر اور سوشلسٹ عناصر ہیں ۔ سرد جنگ کے دوران میں انھیں روس اور اس کے ہم خیال حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔
اسلامی تحریک سے وابستہ حلقے ترکی کے مزید حصے بخرے کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ اربکان اور طیب اردگان کو بنیادی طور پر انھی حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس وقت موجود کرد ارکان پارلیمنٹ میں سے اکثریت کی حمایت طیب اردگان کی حکومت کو حاصل ہے۔ ترکی کی سا لمیت کے حوالے سے یہ مسئلہ اس حد تک حساس ہے کہ عراق پر امریکی حملے کے مقاصد میں آزاد کردستان کا قیام بھی شامل تھاجو ترکی کی مخالفت اور مزاحمت کی وجہ سے رک گیا۔ ترکی مسلم دنیا میں امریکا کا سب سے بااعتماد حلیف ہے ۔ بالخصوص ناٹوکا ممبر ہونے کی حیثیت سے اس کی فوج کے نہایت ہی گہرے روا بط امریکا اور یورپی ممالک کے ساتھ استوار ہیں لیکن اس قومی مسئلے پر ترکی کی حکومت اور فوج نے امریکا کو الٹی میٹم دے دیا تھا کہ اگر آزاد کردستان بنانے سے امریکا باز نہ آیا تو ترکی نتائج سے بے پروا ہو کر کھلی جنگ سے دریغ نہ کرے گا۔حقیقت یہ ہے کہ ہر ملک کی دفاعی حکمت عملی کی ایک سرخ سرحد ہوتی ہے جس پر کوئی ملک بھی سمجھوتا نہیں کرتا۔ افسوس ہے کہ پاکستان کے حکمران ایسی کوئی سرحد بھی قائم نہ رکھ سکے۔
دورے میں میڈیا سے متعلق مختلف اداروں اور سیاسی سطح پر ہونے والی ملاقاتوں میں تحریک آزادی کشمیر کی تازہ صورت حال ، بھارتی مظالم اور عالمی اور اسلامی برادری کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بات ہوئی ۔ یہ پہلو اطمینان بخش تھا کہ ہر جگہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک گونہ ہمدردری کی فضا موجود ہے اور لوگ دل چسپی بھی رکھتے ہیں ۔ لیکن خود حکومت پاکستان کی طرف سے مذاکرات پراظہار اطمینان او ر اپنے دیرینہ موقف سے پسپائی کی وجہ سے ہمدردی کی یہ ساری آواز یں خاموش ہوتی چلی جا رہی ہیں ۔ پروفیسر نجم الدین اربکان سے لے کر حکمران پارٹی تک سب نے تقریباً ایک ہی نوعیت کی راے کا اظہارکیا ۔ترکی جیسا دوست ملک جہاں سے ہمیشہ غیرمشروط تعاون ملا ہے ، اس کے ذمے داران کی طرف سے یہ توجہ پالیسی سازوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ ترکی کے کئی دفاتر میں آویزاں دنیا کے نقشے پرکشمیر کو بھارت کاحصہ دکھایا گیا ہے۔ اس پر بھی ہر جگہ ہم نے اداروں کو متوجہ کیا اور ہماری توجہ کو نوٹ بھی کیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ اور سفارت خانے آخرکس مرض کی دوا ہیں؟ترکی جیسے برادر ملک میں یہ منظر دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایک مرتبہ پھر قومی موقف کا اعادہ کرے اور دنیا کی راے عامہ اس کے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کرے ۔
ترکی میں ہر ملک کی طرح داخلہ اور خارجہ مسائل پر راے عامہ تقسیم ہے لیکن پاکستان کے ساتھ محبت کے حوالے سے پوری قوم ایک ہے۔ اسلام سے محبت رکھنے والے تو زیادہ پُرجوش ہیں لیکن قوم پرست اور ترقی پسند اور بائیں بازو کے حلقے بھی پیچھے نہیں۔ لاشعور میں برصغیر کے مسلمانوں کا وہ کردار ہے جو انھوں نے مشکل وقت میں ادا کیا۔ اس کے بعد آج یہ تیسری چوتھی نسل گزر رہی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ محبت کا جذبہ نسل در نسل منتقل ہورہا ہے۔ اس تعلق سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ قوموں کی آزمایش کے وقت میں مدد کس قدر دیر پا اثرات رکھتی ہے۔ ایک طرف ترکی میں یہ زمزمۂ محبت بہتا دیکھ کر میں خوش ہورہا تھا اور دوسری طرف سوچ رہا تھا کہ جس طرح پاکستان کی موجودہ حکومت نے افغانستان کو تاراج کرنے میں ساتھ دیا ہے اس نے افغانوں کی آیندہ نسلوں میں کس قدر نفرت کے بیج بو دیے ہیں اور کانٹوں کی یہ فصل نہ جانے کب‘ کون‘ کس طرح کاٹ سکے گا؟ اور آنے والی نسلوں تک اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ اسی طرح سید علی گیلانی اور مقبوصہ کشمیر میں نظریہ پاکستان کے علم برداروں اور تحریک آزادی کے ساتھ مخلص وفاداروں کو جس طرح حکومت پاکستان دیوار کے ساتھ لگا رہی ہے اس کے عوامی اثرات کیا ہوں گے؟ اس کا تصور کرکے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ترکی کے عوام کی پاکستان سے محبت اپنے اند ر یہ پیغام رکھتی ہے کہ ہمیں حکومتوں کے بجاے قوموں سے دوستی کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ یہ دوستی دیر پا ہوتی ہے۔ اس پس منظر میں آج پاکستان میں ذہنی طور پر شکست خوردہ ایک طبقہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتا ہے ۔ انھیں بھی سمجھ لینا چاہیے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ، عالم عرب اور عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ خدانخواستہ ایسی حماقت ہوئی تو فلسطینی اور عرب عوام میں پاکستان کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ اور جب کل وہاں حالات بدلیں گے تو پاکستان منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا۔ بہرحال ترک عوام کی اس محبت کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ میں نے ہرجگہ یہ کہا کہ حکومتی اور عوامی سطح پر آپ نے زلزلہ زدگان کا جس طرح تعاون کیا ہے ہماری نسلیں کبھی فراموش نہیں کریں گی۔ یوں یہ دو طرفہ محبت کے جذبات اور بڑھ گئے۔ اللہ انھیں قائم و دائم رکھے۔ عوامی سطح پر روابط بڑھانے اور اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس دورے میں ترک دانش وروں کی مختلف مجالس میں شرکت کا موقع ملا۔ ترکی کے معروف اسلامی دانش ور اور مفکر جناب پروفیسر ڈاکٹر صباح الدین زعیم کے ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کی جس میں ممبران پارلیمنٹ‘ یونی ورسٹی کے اساتذہ ، دانش ور اور تاجر برادری کے اہم افراد بھی شریک تھے۔ یہ مجلس دو تین گھنٹوں سے زیادہ جاری رہی۔انھوں نے کل‘آج اور ہم کے موضوع پر لیکچر بھی دیا اور سوال و جواب کی نشست کا اہتمام کیا۔ ان کا ترک دانش ور حلقوں میں بہت احترام ہے۔ اس طرح انقرہ کے اکنامک اور سوشل ریسرچ سنٹر میں اس نوعیت کا پروگرا م تھا۔ ESSAM کے نام سے یہ تنظیم ترک دانش وروں میں ایک عرصے سے کام کررہی ہے اور یہ بھی جناب اربکان کا صدقہ جاریہ ہے ۔ ترکی کے سابق صدر ترگت اوزال تک اس کے ممبر رہے ہیں ۔ اس کے صدر جناب قوطان ہیں اور سیکر یٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹرعارف ارساے اور نائب صدر سلیمان بالگن ہیں ، ان حضرات سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی ۔اسی طرح ترک بار کونسل کے صدر جناب نجات جیلان اور او آئی سی کے لیے این جی او کی ایسوسی ایشن کے صدر علی کرف کے ہمراہ چند دیگر ایسی ہی مجالس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ دیکھ کر بہت مسرت ہوئی کہ ترکی کا دانش ور طبقہ نہ ذہنی طور پر مرعوب ہے اور نہ مایوس ۔ بلکہ حالات کا صحیح تجزیہ کرتے ہوئے وہ پُرعزم ہیں کہ ترکی کے حالات بھی بدلیں گے اور ترکی اسلامی دنیا میں ایک کردار بھی ادا کرے گا۔ ترکی کے دانش ور حلقوں میں پاکستان کے سینیٹر پروفیسر خورشید احمد بہت مقبول ہیں۔ دانش وروں کی مجالس میں ہر جگہ ان کا تذکرہ ہوا۔ بالخصوص یورپ میں تعلیم اور دعوت کے محاذ پر لیسٹر اور مارک فیلڈمیں موجود ان کے ادارے کی بے پناہ تحسین کی گئی۔ ترکی کی انتہائی مصروف اور مشینی زندگی کے معمولات میں اہل دانش کا کئی کئی گھنٹے آپس میں مل بیٹھ کر مسائل پر غور کرنا اور ان کے حل کے لیے فعال کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار‘ ترکی کے شان دار مستقبل کی نوید ہے۔
ترکی کی ایک اور قابل تقلید مثال ان کی اپنی زبان سے محبت اور اس پر اعتماد ہے۔ آپ پورے ترکی میں گھومیں ، خال ہی کوئی سائن بورڈ انگریزی میں نظر آئے گا۔ پارلیمنٹ کی کارروائی سے لے کر خط و کتابت تک تمام معاملات ترکی زبان میں چلائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ یونی ورسٹی اور پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں نصاب کو ترکی زبان میں ڈھا ل لیا گیا ہے۔ انگریزی متبادل زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے اور لوگ انگریزی سیکھتے تو ہیں لیکن اس کااستعمال صرف ناگزیر حالات ہی میں کیا جاتا ہے بلکہ انگریزی میںخوامخواہ اظہار خیال کرنا اپنی زبان کی توہین سمجھتے ہیں۔ نجم الدین اربکان اور طیب اردگان انگریزی زبان سمجھنے کے باوجود اپنی گفتگو ترکی زبان میں کرتے ہیں اور ترجمان کی وساطت سے تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر پاکستان کی اشرافیہ کی ذہنی غلامی پر بجا طور پر دکھ ہوتا ہے کہ جس نے ایک عظیم قوم کو عظیم زبان سے محروم رکھا ہوا ہے۔انگریز کی سدھائی ہوئی مٹھی بھر سول اور ملٹری بیوروکریسی اس قوم کو انگریزی کی مار دے رہی ہے ۔ کاش پاکستانی قیادت اعتماد کے ساتھ اردو کو فروغ دے تو اس کے نتیجے میں پاکستان کی شناخت اور حلقۂ اثر وسیع تر ہو سکتا ہے ۔
اسی طرح لباس کا معاملہ ہے ۔ اسلام میں اگرچہ کسی خاص لباس کو فرض نہیں کیا گیا ، آداب بتادیے گئے کہ لباس شرعی اور باحیا اور باوقار ہونا چاہیے ۔ اس لحاظ سے ہمارے قومی لبا س کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ مجھے متعدد بار دنیا کے مختلف حصوں میں جانے کے مواقع ملے۔ میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ قومی لباس میں زیادہ احترام ملا۔ ترکی کے اس دورے کے موقعے پر بھی قدم قدم پر اپنے لباس کی قدر و قیمت کا احسا س ہوا۔ جہاںبھی گئے ’کاردیش پاکستانی‘کہتے ہوئے لوگ گلے لگ جاتے۔ مساجد میں نمازوں کے لیے گئے تو بھی محبت کا جوش دیکھا۔ حتیٰ کہ توپ کاپی کے قومی عجائب گھر گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام کے نوادرات اور آثار سمیت عثمانی خلافت کی تمام تاریخ کو محفوظ کرلیا گیا ہے، وہاں بھی سیکڑوں لوگ موجود تھے لیکن سکیورٹی پر مامور ایک افسر نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور تمام آثار دکھائے اور ساتھ ساتھ پروٹوکول دیتا چلا گیااور ہمارے فارغ ہونے تک ہمارے ساتھ رہا۔ میں نے اپنے ہم سفر ساتھیوں سے کہا کہ دیکھیے قومی لباس کا کرشمہ کہ کس قدر اس کا احترام ہے۔ اب تیونس اور الجزائر میں یہ مقبول ہور ہا ہے ۔ میں نے تو امریکا اور یورپ میں بھی دیکھا کہ جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں وہ اسے مغربی لباس پر ترجیح دیتے ہیں ۔
ترکی میں پاکستان کے سفیر جنرل(ر)افتخار حسین شاہ ہمارے پرانے مہربان ہیں۔ انقرہ پہنچ کر انھیں اطلاع دی تو انھوں نے بہت پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ترک عوام علامہ اقبال اور پاکستان کے ہیروز کا بہت احترام کرتے ہیں اور مسئلہ کشمیر اور اکتوبر کے تباہ کن زلزلے کو اپنے مسائل سمجھتے ہیں۔ ان سے کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی۔ کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا۔ وہاں کے حالات پر انھوں نے بہت فکر مندی کا اظہار کیا اور بہتر دنوں کی یاد تازہ کرتے رہے۔ اپنے دورے کے تاثرات سے انھیں بھی آگاہ کیا اور تجویز بھی دی کہ ترک این جی اوز کو متاثرین کی خدمت کے لیے مزید متوجہ کیا جائے ۔ نیز ترکی کی یونی ورسٹیوں میں پاکستانی طلبہ کے داخلوں کا بھی اہتمام کیا جائے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اس حوالے سے کام کررہے ہیں اور حال ہی میں ڈاکٹر عطاء الرحمن یہاں کا دورہ بھی کر چکے ہیں اور یہاں کی ٹیکنیکل اور انجینیرنگ یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں۔ محمد خان کیانی صاحب ایک اور پاکستانی دانش ور ہمارے دیرینہ دوست ہیں۔ وہ بھی اب یہاں کے شہری بن چکے ہیں۔ وہ ترک رائٹر فورم کا اہم کردار ہیں۔ انھوں نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن اور دیگر کتابوں کا ترکی میں ترجمہ کیا ہے ۔ وہ اب بھی مختلف موضوعات پر ریسرچ کررہے ہیں ۔ ان کی وساطت سے تفہیم القرآن اور سید مودودی کے لٹریچر کے پبلشر حسن جنیش سے ملاقات ہوئی جو’انقلاب‘ کے نام سے ایک بڑا اشاعتی ادارہ اور بک سنٹر چلا رہے ہیں۔ یہاں ان سے معلوم ہوا کہ ترکی زبان میں مولانا مودودی کے لٹریچر بالخصوص تفہیم القرآن کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ حیرت انگیز حد تک اردو زبان سے بھی زیادہ۔ یہ فیڈبیک یہاں دوسرے ملنے والوں سے بھی ملا۔ باکوز بلدیہ کے مئیر محرم ارگول نے تو یہاں تک کہا کہ ترکی میں شاید ہی کوئی گھر ہو گا جس میں تفہیم القرآن نہ ہو۔ صرف اسلامی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ہی نہیں بلکہ سیکولر لوگ بھی تفہیم زیر مطالعہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح علامہ اقبال کا ہرجگہ تذکرہ سنا۔ ان کا کلام‘ اور سید قطب شہید کی فی ظلال القرآن بھی بہت زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ہے۔ ڈاکٹر حمیدا للہ مرحوم کی کتب بھی بہت پڑھی جاتی ہیں۔ ہر مجلس میں ان عظیم مفکرین کی خدمات کا تذکرہ ہوا۔ یہاں اسلام اور سیکولرازم کی کش مکش میں جو لوگ اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں وہ شعوری مسلمان ہیں اور اسلام کی پیاس بجھانے کے لیے وہ ان مفکرین کی کتب سے اردو دان حلقوں سے زیادہ استفادہ کر رہے ہیں۔ ایک دانش ور نے کہا کہ ہمارے فکری استاد مولانا مودودی اور علامہ اقبال ہیں ، جہاں ہم کسی مسئلے میں الجھ جاتے ہیں ان کی تحریروں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہمیں شافی جواب مل جاتا ہے۔ کاش کہ پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے میں بھی یہی پیاس ہوتی اور تفہیم القرآن اور کلام اقبال کو اس اہتمام کے ساتھ پڑھتے تو ایک بھرپور فکری انقلاب بر پا ہو چکا ہوتا۔ تحریک اسلامی سمیت جو حلقے پاکستان کی نظریاتی سمت کو درست رکھنے کا عزم رکھتے ہیں انھیں اس بارے میں فکر مند بھی ہونا چاہیے اور منصوبہ بھی بنانا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ ساری دنیا میں تجدیدو احیاے اسلام کی لہر آگے بڑھتی ر ہے اور اہل پاکستان چراغ تلے اندھیرے کے مصداق اس سے محروم رہ جائیں۔ ترکی پر اس فکری اور دعوتی کام کے یہ اثرات گذشتہ سالوں کی نسبت زیادہ گہرے نظر آتے ہیں ۔ خواتین بالخصوص نوجوانوں، بچوں اور بچیوں میں اس کے زیادہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ حالانکہ ملکی نظام مسلسل اس لہر کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ عجیب منظر نامہ ہے کہ ترکی ۸۰ سال کے سیکولر دور کے بعد اسلام کی طرف مراجعت کررہا ہے۔ اس کے وزیر اعظم اور کابینہ کے تمام ارکان کی بیگمات حجاب اور اسکارف کا اہتمام کرتی ہیں اور یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں بھی اسکارف پہن کر ہی شرکت کرتی ہیں لیکن پاکستان جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور جس نے احیاے اسلام اور اسلامی تہذیب کی پشتیبانی کرنا تھی اسے سیکولر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
ترکی میں مختلف دینی اور دعوتی حلقے اپنے اپنے انداز سے کام کررہے ہیں ۔ ان کے اپنے اخبارات اور ٹی وی چینل ہیں جو ۲۴گھنٹے کی نشریات کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ پہلو بہت حوصلہ افزا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں ترک تحریکوں نے اس جانب بہت توجہ دی ہے ۔ ان میں ایسے اخبارات بھی ہیں جن کی تعدا دلاکھوں میں ہے اور ٹی وی چینل بھی بہت مقبول ہیں۔ ان چینلوں کے ذریعے معیاری پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔اسی طرح بچوں کا اسلامی لٹریچر اور بصری تربیتی پروگرام اور کھیل وغیرہ سی ڈی پر یکساں دستیا ب ہیں۔ چینل ۵ سعادت پارٹی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے جو ترکی کے علاوہ بلقان کی ریاستوں ، سنٹرل ایشیا اور جرمنی میں بھی مقبول ہے۔ اس کا معیار مسلسل بہتر ہو رہا ہے۔ اس طرح message کے نام سے ایک چینل جو یہاں کے صوفی حلقے کا ترجمان ہے ، بھی کافی مقبول ہے۔ Halal ٹی وی یہاں کے اسلامی دانش وروں کے گروپ نے شروع کیا ہے ، جس کے سربراہ مصطفی اسلام اوغلو ہیں ۔ ایک نہایت ہی بالغ نظر اسکالر ہیں ۔ AKABE کے نام سے وقف چلا رہے ہیں جس نے حالیہ ریلیف میں اہم خدمات سرانجام دی ہیں۔ دعوتی ، تعلیمی اور میڈیا کے محاذ پر مفید کام کررہے ہیں۔ ان سارے چینلوں نے ہمارے انٹرویو کیے۔ میں نے سوال کیا کہ ایسا چینل قائم کرنے پر کتنا خرچ آتا ہے تو بتایا گیا کہ کم از کم چار ملین ڈالر۔یہ یقینا ایک بڑی رقم ہے لیکن یہاں کے اسلامی حلقے اس بات پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے میڈیا کے اس چیلنج کو قبول کرکے متبادل حل پیش کردیا ہے۔ پاکستان کے دینی حلقوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔
یہاں کی مساجد بہت صاف ستھری اور شفاف ہیں۔ پہلے کی نسبت مساجد میں حاضری میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ البتہ وضو کے لیے گرم پانی کا انتظام یہاں کی مرکزی اور تاریخی مساجد میں بھی نہیں ہے ۔ اس پر میں نے حیرت کا اظہار کیا تو ڈاکٹر ندیم صاحب نے بتایا کہ یہاں گرم پانی کا انتظام گھروں میں بھی خال خال ہی ہے۔ ترک اسے اپنی جفا کشی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ مذہباً حنفی ہونے کے باوجود معتدل ہیں۔ نمازیں بہت خشوع اور خضوع سے پڑھتے ہیں اور انتہائی مصروف زندگی کے باوجود نمازوں کے بعد مسنون تسبیحات اور اذکار کا اہتمام کرکے مساجد سے اٹھتے ہیں۔ عام طور پر ہر نماز کے بعد سورۂ بقرہ کا آخری حصہ یا سورۂ حشر کا آخری رکوع بآواز بلند تلاوت کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اجتماعی دعا ہوتی ہے۔ فجر کی نماز کے بعد بعض اوقات امام سورۂ یٰسین تلاوت کرتے ہیں۔ تمام خطیب‘ امام حضرات عربی میں گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ترکی کی مساجد اور مدارس یا جامعہ ازہر سے فارغ ہیں۔ بعض اَئمہ بغیر داڑھی کے بھی ہیں۔ وہ صرف نماز کے وقت مصری کلاہ اور چغہ پہن لیتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں پہچاننا مشکل ہوجاتاہے۔ ترکی کے مفتی اعظم بھی داڑھی کے بغیر ہیں۔ البتہ نوجوان علما اب بڑی تعداد میں داڑھی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم نے کوشش کی کہ مختلف مساجد میں نمازیں ادا کی جائیں ۔ اس کے بعد نمازی حضرات اور اَئمہ سے بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔جنھیں اپنی دعائوں میں کشمیر کے مسلمانوں کو یاد رکھنے کی درخواست کرتے۔ وہ ڈھیروں دعائوں کے ساتھ رخصت کرتے رہے۔
ترکی میں عوامی اور تحریکی سطح پر تعلقات نہایت مفید ہوسکتے ہیں۔ اس کے لیے تدابیر اختیار کرنا چاہییں۔ ہم نے ریلیف کے کام کی طرف متوجہ کیا۔ سب اداروں نے یقین دہانی بھی کرائی ، البتہ حکومتی اداروں سے لے کر الخدمت تک سب کے بارے میں یہ شکایت کی کہ بروقت فیڈ بیک نہیں ملتا اس لیے وہاں کی این جی اوز سے کام لینے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے تقاضوں کے مطابق فیڈ بیک کا اہتمام کیا جائے ۔
ہماری حکومت کے اس پروپیگنڈے نے بھی کہ زلزلہ زدگان کے تمام مسائل حل ہو چکے ہیںاور اب کوئی مشکل باقی نہیں ہے این جی اوز کو ابہام کا شکار کردیا ہے ۔ این جی اوز پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکومتی اداروں اور بیوروکریسی کے رویے کو بھی کام میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتی ہیں۔ استنبول بلدیہ کے ذمہ داران نے بتایا کہ وہ آزاد کشمیر میں ایک dialysis centre قائم کرنا چاہتے تھے ۔ اس سلسلے میں مشینری بھی خرید لی۔ لیکن اس کے متعلق مراسلت کرتے رہے مگر کسی ادارے نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیںکی۔ ایک سال کے انتظارکے بعد انھوں نے عطیہ دہندگان کی اجازت سے یہ سنٹر اب استنبول ہی کے ایک غریب علاقے میں قائم کردیا ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ اس لیے حکومت، ایرااور الخدمت سمیت تعاون حاصل کرنے والی این جی اوز کو چاہیے کہ وہ بروقت فیڈ بیک فراہم کریں اور روایت سے ہٹ کر کام کریں ورنہ یہ سارے ذرائع دوسری طرف منتقل ہوتے چلے جائیں گے۔
اس کی بھی ضرورت ہے کہ ترک تعلیمی اداروں میں پاکستانی نوجوان زیادہ سے زیادہ جائیں۔ بزنس فورم فعال ہوکر تجارت میں اضافہ کرے اور مختلف دائروں میں تحریکی پس منظر کے وفود کا باہمی تبادلہ ہو۔