۲۱ دسمبر ۲۰۰۶ء صومالیہ کی تاریک تاریخ میں ایک اورسیاہ باب رقم کرنے کے لیے طلوع ہوا۔ ۱۶برس کی بدترین خانہ جنگی‘ قحط سالی اور عالمی طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے نڈھال صومالی قوم ہمسایہ ملک ایتھوپیا کی جدید ترین امریکی اسلحے سے لیس فوج کا مقابلہ نہ کرسکی۔ یوں ایک ہی ہفتے کے اندر صومالیہ کے تمام قابلِ ذکر شہر یکے بعد دیگرے کالی آندھی کے سامنے ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ اسلامی عدلیہ یونین سے پٹ کر بھاگنے والے جنگی سردار ایتھوپیائی ٹینکوں اور امریکی طیاروں کی بم باری کی آڑ میں موگادیشو پر قبضہ جمانے میںکامیاب ہوگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صومالیہ میں ایسی کیا بات ہے کہ عالمی طاقت امریکا اور افریقہ کی سب سے بڑی فوجی قوت ایتھوپیا اس پکے ہوئے پھل پر اتنی بے تابی سے ٹوٹ پڑے ہیں؟
صومالیہ کے ساتھ ایتھوپیا کے کئی اسٹرے ٹیجک مفادات وابستہ ہیں۔ یہ ۴۰ کے عشرے کی بات ہے جب برطانوی سامراج شاہانہ فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے ہرکس و ناکس کو بڑے بڑے ارضی خطے تحفتاً پیش کر رہا تھا۔ بے وطن یہودیوں کو فلسطین کی زمین بے داموں دی جارہی تھی۔ جنت نظیر خطۂ کشمیر اور پنجاب کے ملحقہ اضلاع ہندوؤں کو عطا کیے گئے تھے۔ اسی طرح براعظم افریقہ میں قدیم بازنطینی عیسائی سلطنت کے وارث شہنشاہ حبشہ کو ارض صومال کا سب سے بہترین زرخیز اور معدنی دولت سے مالامال مسلم اکثریت کا صوبہ اوگادین عطا ہوا۔ استعماری طاقتوں کی یہی بندربانٹ آج دنیا میں تصادم اور جنگوں کا حقیقی سبب ہے۔
صوبہ اوگادین کے تنازعے پر صومالیہ اور ایتھوپیا میں دو نہایت خوف ناک جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ ایتھوپیا کی یہی پالیسی رہی ہے کہ صومالیہ کے عوام کی نمایندہ کوئی طاقت ور مرکزی حکومت نہ آنے پائے۔ یہ ملک خانہ جنگی کی آگ میں جلتا رہے اور اوگادین کی آزادی کے لیے کوئی مربوط اور منظم کوشش نہ ہوسکے۔
دوسری جانب اریٹیریا کی آزادی کے بعد ایتھوپیا عملاً سمندر تک رسائی سے محروم (land locked) ملک بن گیا ہے۔ سمندر تک اس کا سب سے مختصر راستہ صرف صومالیہ سے ہوکر گزرتا ہے۔ لہٰذا صومالیہ میں دوستانہ بلکہ کٹھ پتلی حکومت کا وجود ناگزیر سمجھا گیا ہے۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے‘ وہ ہمیشہ ہی سے صومالیہ پر اثرورسوخ بلکہ مستحکم قبضے کا خواہاں رہا ہے۔ اس خواہش کے پیچھے ایک تو سمندروں پر حکمرانی کی خواہش ہے۔ صومالیہ کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہاں پر قبضہ جمائے بغیر بحیرۂ احمر کی اہم ترین سمندری گزرگاہ پر تسلط ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ دوسرے‘ اسے تیل اور دوسری قیمتی معدنیات یورینیم وغیرہ کی بھوک ہے۔ علاوہ ازیں امریکا کو موگادیشو میں کھائی ہوئی ۱۹۹۴ء کی شرم ناک شکست بھولے سے بھی نہیں بھولتی۔ واشنگٹن کے انٹرنیشنل اسٹرے ٹیجک اسٹڈی سنٹر کے صدر جان ہیمبرے اس سلسلے میں کہتے ہیں: ’’صومالیہ ہماری خارجہ پالیسی تشکیل دینے والوں کے سر پر ایک کابوس کی مانند سوار ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے منفی اثرات سے ہم کبھی چھٹکارا حاصل نہیں کرپائے‘‘۔ لہٰذا اب امریکا ایتھوپیا کا عملاً ساتھ دے کر اپنے شرم ناک ماضی کے داغ کو دھونا چاہتا ہے۔ اپنے سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے پہلے پہل تو کمیونزم کے علَم بردار ایتھوپیا کے فوجی ڈکٹیٹر ہیل سلاسی کے مقابلے میں صومالی ڈکٹیٹر جنرل سیدبرے کی حکومت کی مدد کی گئی۔ ۱۹۷۷ء کی اوگادین جنگ میں مالی و فوجی مدد کے ذریعے جنرل سیدبرے کے ہاتھ مضبوط کیے گئے۔ پھر ۱۹۹۱ء میں سیدبرے کا تختہ اُلٹ جانے کے بعد خوراک اور امداد کی تقسیم کی آڑ میں براہ راست فوجی مداخلت کا جواز تراشا گیا‘ لیکن آفرین ہے صومالی حریت پسندوں پر‘ جنھوں نے صومالیہ کی آزادی کی خاطر امریکی سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘ اور ۱۹۹۴ء کا سال امریکی تاریخ کا تاریک ترین سال قرار پایا جب صومالیہ کے حریت کیش مجاہدین نے ۱۸امریکی میرین شکار کیے اور انھیں موگادیشو کی سڑکوں پر گھسیٹا۔ اس پر امریکا اپنی ساری نخوت بھول کر صومالیہ سے نکل گیا۔ اب امریکی حکمران اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے پھر سے نکلے ہیں لیکن ذرا ایک اور طریقے سے۔
صومالیہ کے عوام کو سبق سکھانے کی خاطر موگادیشو پر قابض جنگی سرداروں کو Alliance for the Restoraion of Hope and anti Terrorismکے نام پر جمع کیاگیا اور ان پر اسلحے اور ڈالروں کی بارش برسائی جانے لگی۔ ان جنگی سرداروں کی بے مقصد جنگ و جدل سے اُکتائے ہوئے عوام مزید خون ریزی سے بچتے ہوئے ملک و قوم کی خاطر ٹھوس اقدامات کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں نے ’اسلام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے‘ کے نعرے تلے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ ابتدا میں ایک قبیلے میں اور بعدازاں ہر قبیلے کی سطح پر ایک ایک اسلامی عدلیہ کا قیام عمل میں آیا۔ جہاں جہاں اسلامی عدالتوں کا قیام عمل میں آتا گیا وہ علاقے امن و امان کے حوالے سے مثالی حیثیت اختیار کرتے گئے۔ اسلامی عدلیہ کے احکامات کی تنفیذ کے لیے نوجوان رضاکار موجود تھے۔ انھی قبائلی سطح پر منظم ہونے والی اسلامی عدالتوں نے آگے چل کر ایک یونین بنا لی جسے اسلامی عدلیہ یونین کا نام دیا گیا۔ یہ یونین اپنی ساخت کے لحاظ سے وسیع البنیاد عوامی تحریک تھی جس میں جہاں سخت گیر اسلامی فکر کے حامل سلفی تھے تو صوفیا اور مشائخ بھی شامل تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ معاشرے کے نمایاں تجار‘ سابقہ فوجی جنرل اور دیگر مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے سبھی امن پسند عناصر موجود تھے۔ اس یونین کا آغاز اگرچہ صرف عدالتی امور نبٹانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور دیگر اسلامی تنظیموں کی مدد سے اس نے سماجی‘ طبی اور تعلیمی خدمات کا آغاز بھی کردیا۔ یہاں تک کہ برسرِاقتدار آنے سے قبل موگادیشو میں تین یونی ورسٹیاں اسلامی عدلیہ یونین کے زیراہتمام کام کر رہی تھیں۔تمام تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ ۱۶ برس کی خانہ جنگی میں صومالی تاریخ میں اگر کوئی سنہری کارنامہ وقوع پذیر ہوا ہے تو وہ ان اسلامی عدالتوں کا قیام ہے۔
جنگی سرداروں کی چھیڑ چھاڑ کے جواب میں گذشتہ جون میں یونین کے رضاکاروں نے سخت جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں نہ صرف دارالحکومت موگادیشو بلکہ جنوبی صومالیہ کا بیش تر حصہ امریکی حمایت یافتہ جنگی سرداروں کے چنگل سے آزاد ہوگیا۔ عوام نے یونین کی ان کامیابیوں کا بھرپور خیرمقدم کیا اور پورے ملک میں امن و امان پوری طرح بحال ہوگیا۔ بیش تر جنگی سردار ایتھوپیا کی پناہ میں چلے گئے۔ اب ایتھوپیا کو عبوری حکومت کی حمایت کی خاطر صومالیہ میں فوجی مداخلت کا جواز مل گیا۔ اگرچہ یہ بھیڑیے اور میمنے کی کہانی والا جواز ہی تھا لیکن چونکہ اسے امریکا کی عملی تائیدو حمایت حاصل تھی‘ لہٰذا ایتھوپیا نے صومالیہ پرحملہ کرنے میں بالکل دریغ نہ کیا۔
ایتھوپیائی فوج کوئی دو ماہ سے صومالیہ کے سرحدی علاقوں میں برسرپیکار تھی‘ تاہم کھلا فوجی حملہ ۲۱دسمبر سے شروع کیا گیا۔ فضائی بم باری اور توپ و تفنگ کا خانہ جنگیوں سے ُچور ہونے اور اقوام متحدہ کی جانب سے اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی کے باعث کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ اس پر مستزاد گھر کے بھیدی‘ ملک و قوم کے غدار بھگوڑے جنگی سردار ایتھوپیائی فوج کی رہنمائی کے لیے پیش پیش تھے۔ ان سبھی جنگی سرداروں کا ماضی عوام کے قتلِ عام اور باہمی خون ریزیوں سے عبارت ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے‘ ان سبھی جنگی مجرموں کے سرخیل عبوری حکومت کے سربراہ عبداللہ یوسف احمد کو لیا جائے تو ان کا تعارف یہ ہے کہ موصوف صومالی فوج میں کرنل رہے ہیں۔ کئی فوجی بغاوتوں میں ان کا نمایاں ہاتھ رہا ہے۔ خانہ جنگی کے دور میں صومالیہ ہی کے ایک نیم خودمختار صوبہ پُنٹی لینڈ کے سربراہ بنے۔ اقتدار سے اس قدر پیار ہے کہ ۲۰۰۱ء میں اپنی مدت صدارت کی تکمیل پر بھی کرسیِ اقتدار کو چھوڑنا گوارا نہ کیا بلکہ اُلٹا اپنے سیاسی مخالفین کو بے دردی سے قتل کرنا شروع کیا اور اب ایتھوپیا کی فوج کے سہارے ایک بار پھر موگادیشو میں وارد ہوئے ہیں۔
اب ایتھوپیا اور امریکا کی مدد سے عبوری حکومت موگادیشو تک پہنچ تو گئی ہے لیکن اس حکومت کا وجود برسرِزمین کہیں نظر نہیں آتا۔ اس حقیقت کو امریکی بھی محسوس کررہے ہیں۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے صدر کہتے ہیں: ’’عبوری حکومت بے حد کمزور ہے اور اب تک کی تمام رپورٹیں یہی بتا رہی ہیں کہ صومالی عوام اس حکومت کے ہرگز حامی نہیں ہیں‘‘۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ صومالیہ کے عوام نے اپنے مقبوضہ علاقے اوگادین کی خاطر ایتھوپیا سے طویل جنگیں لڑی ہیں اور موگادیشو میں ایتھوپیائی فوجوں کو غاصب فوج کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اسی لیے امریکا اور مغربی طاقتیں لالچ اور خوف کے تمام ہتھکنڈے لیے اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ کسی طرح افریقی یونین کی افواج کو صومالیہ لانے میں کامیاب ہوجائیں تاکہ ایتھوپیائی قبضے کا تاثر دُور ہوسکے۔
اس وقت تک ان کی تمام کوشش رائیگاں جاتی نظر آتی ہیں۔جنوبی افریقہ نے دانش مندی سے امریکی کھیل میں شریک ہونے سے انکار کرتے ہوئے اپنی فوجیں بھیجنے سے انکار کیا ہے۔ ۸ہزار امن فوج میں یوگنڈا اور برونڈی جیسے ممالک سے صرف ۴ہزار فوج کا انتظام ہوسکا ہے۔
اگلا مرحلہ یہ بتایا گیا ہے کہ موگادیشو کو اسلحے سے پاک شہر بنایا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس شہر کو امریکا اور ایتھوپیا اپنی کھلی جارحیت سے اسلحے سے پاک شہر بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو کیا افریقی یونین کی کمزور سی آدھی فوج یہ معرکہ سرانجام دینے میں کامیاب ہوسکے گی؟ حالات اس کی نفی کر رہے ہیں۔ موگادیشو میں تقریباً روزانہ مسلم حریت پسندوں اور ایتھوپیائی فوجوں کے درمیان مسلح جھڑپیں ہورہی ہیں۔ نظر یہی آرہا ہے کہ صومالیہ کے عوام اپنی آزادی کو رہن رکھنے کے لیے ہرگزتیار نہیں ہیں اور غاصب فوجوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمت صومالیہ کے عزمِ آزادی پر دلالت کر رہی ہے۔