افغانستان پر فوج کشی کا مرحلہ درپیش تھا تو ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ بلند کردیا گیا۔ پھر جنرل صاحب سے لے کر ادنیٰ وزرا اور گویوں.ّ تک سب انھی الفاظ کی جگالی کرنے لگے۔ اس وقت اُمت کی بات کرنے والوں کو ‘کشمیر وفلسطین کی بات کرنے والوں کو بے حکمت‘ غیرمتوازن اور جذباتی کے طعنے دیے گئے۔ انھیں پرایوں کی لڑائی میں کودنے کے کوسنے دیے گئے۔ پھر افغانستان تباہ ہوگیا‘ ہزاروں بے گناہ انسان خاک میں ملا دیے گئے۔ کئی عشروں پر محیط افغان پالیسی کے نتیجے میں ہم نے وہاں جتنے بھی دوست بنائے تھے‘ سب کھو دیے‘ وہاں امریکا سمیت ناٹو ممالک کی افواج اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا جال وسیع تر ہوتا چلا گیا اور برادر حقیقی کی حیثیت رکھنے والے ملک کی ہوائیں پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے زہریلی ہوتی چلی گئیں۔
’سب سے پہلے پاکستان‘ کی بنیادوں پر ہم نے بھی مزید ردّے چڑھا دیے۔ہزاروں بے گناہوں کے قتل میں معاونت کا بوجھ تو گردن پہ تھا ہی‘ اب ہم نے اپنے قبائل کو بھی کچلنا شروع کردیا۔ باڑھ ہی کھیت کو کھانے لگی تو ہم اس فکر سے بھی آزاد ہوگئے کہ چھری خربوزے پہ گرتی ہے یا خربوزہ چھری پر۔ دونوں طرف اپنے ہی بھائی بندوں کے لاشے گر رہے تھے‘ فوجی جوان بھی پاکستانی اور قبائل بھی پاکستانی۔
ایسے المیوں کا جو انجام ہوتا ہے ہم اب اسی کا سامنا کر رہے ہیں ۔ جس بے وفا کے لیے جان سے گزرے تھے وہ اب بھی ہمیں موردالزام ٹھیرا رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں سرحدپار کھل کھیل رہی ہیں۔ کوئی بھی دھماکا ہو‘ کیسا ہی حادثہ ہو‘ جو بھی شکایات پیدا ہوں الزامات ہمارے ہی سر منڈھے جارہے ہیں۔ وہی طالبان جنھیں ہم نے خود پکڑپکڑ کر گوانتاناموبے بھجوا دیا‘ افغانستان کی خاک میں ملا دیا‘ ہمارے اور امریکیوں کے اندازے سے زیادہ سخت جان نکلے۔ افغان تاریخ و روایات کے عین مطابق جب انھوں نے قابض فوجوں سے عملاً نبردآزما ہونا شروع کیا‘ تو سارا نزلہ عضو ضعیف پر ہی گرنے لگا۔ ساری خدمت اور چاکری کرنے کے باوجود ہم ہی گردن زدنی ہیں‘ ہرطلوع ہونے والے دن ہمارے لیے دشنام و الزامات کا نیا ذخیرۂ الفاظ ایجاد ہو رہا ہوتا ہے۔ اب نہ روشن خیالی کی کوئی تدبیر کام کر رہی ہے اور نہ نسلوں کو تباہ کرنے والی تعلیمی و ثقافتی قلابازیاں اثر دکھا رہی ہیں۔
اصل بدقسمتی یہ ہے کہ ایسی تاریکی میں بھی اندھوں کو ایک بار پھر بڑی دُور کی سوجھی ہے۔ اب ’سب سے پہلے پاکستان‘کے بجاے زیادہ ’حقیقت پسندی‘ کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ بالکل اُلٹی سمت میں جاکر اعلان کیا گیا ہے کہ اصل مسئلہ مشرق وسطیٰ کا مسئلہ ہے۔ اسے حل کیے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اب جنرل صاحب نے ایک دو نہیں پورے ۹مسلم ملکوں کے طوفانی دورے کیے ہیں۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے بعد اب وہ ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘ کے سنہری فارمولے کی دلالی کر رہے ہیں۔ برادر مسلم ممالک تو ہم سے ہمیشہ دوستی‘ تعاون اور مضبوط تعلقات ہی چاہتے ہیں۔ انھوں نے حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ہمیں سب سے پہلے پاکستان کا نسخۂ کیمیا تھمایا گیا تھا‘ تب امریکی کولھو میں جتے دیگر تمام مسلم ممالک کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکا جا رہا تھا۔ اس وقت جدھر سنتے تھے‘ ایک ہی نغمہ الاپا جا رہا تھا: ’سب سے پہلے اُردن‘، ’سب سے پہلے لبنان‘، ’سب سے پہلے مصر‘، ’سب سے پہلے…۔ اب کیسٹ اُلٹی چلنی شروع ہوئی ہے تو توقع ہے کہ عنقریب ہر جانب سے ایک ہی راگ کانوں میں رس گھولے گا: ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘۔
آخر یہ نیا فارمولا ہے کیا؟ اسلام آباد نے تو اعلان کیا ہے کہ ابھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکتا‘ لیکن نئے سال کے دوسرے مہینے‘ دوسری بار مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئی ہوئی امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے اس کی کئی جھلکیاں دکھا دی ہیں۔ حماس الفتح مذاکرات اور معاہدۂ مکہ سے یہ تاثر اُبھرا تھا کہ اب فلسطینیوں کو فلسطینیوں سے لڑانے کی سازش ناکام ہوجائے گی۔ اب دونوں بھائی مل کر اپنے دشمن کا سامنا کرسکیں گے‘ اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کی فکر کریں گے۔ لیکن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں رسمی تقاریر ہی کے دوران میں صدر محمود عباس نے اصل ایجنڈے کی نشان دہی کردی۔ انھوں نے کہا: ’’بالآخر ہماری قومی حکومت تشکیل پاگئی ہے۔ اب حماس کو ان تمام عالمی معاہدوں کا احترام کرنا ہوگا جو ہم نے عالمی برادری کے ساتھ کیے ہیں‘‘۔ روسی صدر پوٹن نے جو خود بھی ان دنوںمشرق وسطیٰ کے دورے پر تھے‘ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’معاہدۂ مکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پہلا عملی قدم ہے‘‘۔ ظاہر ہے محمود عباس نے تو عالمی برادری کو شیشے میںاُتارا ہی اس بنیاد پر تھا کہ وہ ان کے احکام بجا لائیں گے۔ محمودعباس اپنے عقیدے کے بارے میں زبان زدعام اطلاع کی نفی کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں ’بہائی‘ نہیں۔ لیکن عملاً اسی بات کا پرچار کرتے ہیں جو قادیانیت اور بہائیت کی اصل بنیاد ہے‘ یعنی ’’جہاد کا انکار اور مجاہدین سے دست برداری‘‘۔ محمودعباس‘ حماس کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ہروہ خدمت بجا لائے جو اسرائیل و امریکا کو مطلوب تھی۔ امریکی وزیرخارجہ نے جواباً ان کی اپنی سیکورٹی فورسز کے لیے ۸۶ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا۔
اُردن و مصر کے راستے‘ فلسطینی انتظامیہ کے مقابل صدارتی افواج کے لیے اسلحے کے انبار فراہم کر دیے گئے اور محمودعباس کے ساتھیوں میں سے سب سے متنازع شخص محمد دحلان صدارتی فوج لے کر اپنے فلسطینی مجاہدین پر ہی چڑھ دوڑا۔ غزہ یونی ورسٹی جلا ڈالی گئی۔ مساجد میں علماے کرام اور کتاب الٰہی پر گولیوں کی برسات کردی گئی اور جہاں کبھی صرف صہیونی بم باری اور فائرنگ ہوا کرتی تھی وہاں فلسطینیوں کو خود فلسطینی مارنے لگے۔ اور یہ خوں ریزی عین اس وقت ہورہی تھی جب قابض صہیونی افواج مسجداقصیٰ سے ملحق حصے کو شہید کر رہے تھے۔ حرم قدسی کے باب المغاربہ کے باہر بنے حجرے کو گرا کر وہاں ہیکل سلیمانی کی بنیاد رکھنے کی تیاریاں کر رہے تھے اور اسلامی تحریک کے کارکنان ان سے برسرپیکار تھے۔ فلسطینیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی یہ خوں ریزی فلسطین کی تاریخ کا سیاہ ترین باب تھی‘ لیکن بالآخر فریقین مکہ مکرمہ میں ایک معاہدے پر متفق ہوگئے۔ محمودعباس نے مذکورہ بالا بیان تو دے دیا لیکن یہودی اخبارات نے واویلا مچایا کہ حماس سے عالمی معاہدوں کے احترام کی بات بہت کمزور اور ناکافی ہے۔ محمود عباس کو تاکیداً کہنا چاہیے تھا کہ ہم حماس سے ان معاہدوں کی پابندی کروائیں گے۔
رائس نے حالیہ دورے میں صہیونی وزیراعظم اولمرٹ اور محمودعباس سے ملاقاتیں کرنے کے بعد دو ٹوک اور مختصر بات کی ہے کہ‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دہشت گردی (یعنی فلسطینی جہاد) کو ترک کرنے سے کم کوئی اور بات قابلِ قبول اور قابلِ عمل نہیں ہوگی۔ ان مکرر ارشادات عالیہ اور گذشتہ تقریباً پون صدی کے حقائق‘ ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘ کی وحی مستور کی جھلک دکھانے کے لیے کافی ہیں۔
ویسے اُمت مسلمہ ہی نہیں خود امریکی اور صہیونی بھی اب اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ فلسطینی مجاہدین کو کچلنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ وہ یہ راز سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فلسطینیوں کے سروں کی فصل‘ جتنی کاٹتے ہیں‘ اس سے زیادہ پھر سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ انھیں نہیں معلوم کہ اسی سفر معراج میں جس کا آغاز مسجداقصیٰ سے ہوا تھا‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خالقِ کائنات نے خود اس راز کی حقیقت سے آگاہ فرما دیا تھا‘ اور پوچھنے پر بتایا تھا کہ ’’یہ آپؐ کی اُمت کے جہاد کی فصل ہے… یہ کبھی ختم نہیں ہوگی‘ جتنی کٹے گی… اتنی ہی بڑھے گی‘‘۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’سب سے پہلے اسرائیل ‘ کا فارمولا تیار کرنے والے ’مسلم‘ حکمران اس حقیقت پر کتنا ایمان رکھتے ہیں۔