اپنے بارے میں دوسروں کا نقطۂ نظر جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔ کسی وقت یہ بڑا چشم کشا ہوتا ہے۔ اس وقت مسلم دنیا میں امریکا جو کھیل کھیل رہا ہے وہ سب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن امریکا ہی کے دانش ور نے اس کی تفصیلات پہلے ہی بیان کردی ہیں۔ پھر بھی مسلمان سازش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک تحریر پیش ہے۔ (ادارہ)
ریاست ہاے متحدہ امریکا کو اس وقت اسلامی قوتوں کی جانب سے ایک عظیم ‘ لامتناہی اور تباہ کُن خطرے کا سامنا ہے۔ ۱۱ستمبر سے جاری دہشت گردانہ بم باری اس امر کی علامت ہے کہ یہ خطرہ عالم گیر سطح پر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پہلے تو امریکا کمیونزم کے خطرے سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف رہا‘ اور اب امریکا کے خلاف ایک اور معاندانہ عالم گیر نظریے کی موجودگی یہ اشارہ دے رہی ہے کہ یہ خطرہ آنے والی کئی نسلوں کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ نیوکلیرٹکنالوجی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے اثرات مستقبل پر اس قدراثرانداز ہوسکتے ہیں کہ امریکا کے دو ایک بڑے بڑے شہر نیوکلیر حملے کی زد میں آکر تباہی کا شکار ہوجائیں اور یہ بھی ممکن ہے امریکی معاشرہ بھی بذاتِ خود ہولناک نیوکلیر آگ میں جل کر بھسم ہوجائے۔
عراق میں موجودہ بغاوت اور شورش کو سُنّی آبادی کی حمایت حاصل ہے۔ سُنّی آبادی کے اس رویے کے باعث دنیابھر میں اسلامی عسکریت پسندوں کی طاقت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسلامی دہشت گردوں کا عالمی سطح پر قائم نیٹ ورک جس میں زیادہ تر سُنّی انتہا پسند شامل ہیں‘ طاقت پکڑ چکا ہے اور اسے ایک باقاعدہ حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں موجود تمام اسلامی قوتیں امریکا‘ اس کے اتحادیوں‘ اور عمومی طور پر مغرب کے خلاف صف آرا ہوچکی ہیں۔ امریکا کی موجودہ انتظامیہ‘ خاص طور پر صدر بش کی حماقت کے سبب ہم اس خطرناک حالت میں گرفتار ہوچکے ہیں تو سب سے اہم سوال اب یہ ہے کہ ہم اس سے نجات کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ اس کے لیے ممکنہ طریقے: لبرل‘ روایتی قدامت پسند اور جدید قدامت پسند طرزِفکر کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں۔ یہ سب طریقے پہلے بھی آزمائے جاچکے ہیں اور ان کے نتائج سے سبھی واقف ہیں۔
لبرل عناصر عوامی بحث مباحثے میں پیش پیش ہیں‘ اور اسی لیے‘ زیادہ تر عمومی حل‘ انھی کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں۔ ان طریقوں میں عام طور پر تکنیکی یعنی تدبیری حفاظتی اقدام‘ مثلاً بہتر ذرائع سراغ رسانی‘ فضائی اور سمندری مستقروں پر جانچ پڑتال کے بہتر اور مناسب انتظامات اور پھر حال ہی میں‘ زمین دوز سفری راستوں میں سفر کے دوران دستی سامان کی جانچ اور پٹرول لے جانے والے ٹرکوں کی نگرانی شامل ہیں۔ ان حفاظتی اقدامات میں تبدیلی کی ضرورت اتنی نہیں جتنی امریکی خارجہ حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک سے آئے ہوئے اور امریکا میں موجود غیر ملکی اور خطرناک پناہ گزینوں کے متعلق حکمتِ عملی میں بنیادی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ لبرل عناصر کا خیال ہے کہ شدید معاشی اور سیاسی تنازعات‘ اعلیٰ درجے کے ماہرین اور افسران (جولبرل ہیں) کی وضع کردہ فوری پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں۔ اسلامی دہشت گردی کے معاملے میں‘ کوئی فوری حل کیا جائے‘ تو دہشت گرد زیادہ دیر تک انتظار کرسکتے ہیں‘اور کوئی سطحی حل ہو تو وہ اس پر قابو پاسکتے ہیں۔
امریکا‘ اس کے اتحادیوں اور مغرب کو اسلامی قوتوں کی جانب سے پیدا کی گئی خطرناک صورتِ حال سے نکالنے کے لیے ممکنہ تجاویز میں سے ایک‘ امریکا کی خارجہ حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ اسرائیل کی حمایت‘ اسلامی ممالک میں امریکی نواز حکومتوں کا قیام اور پھر حال ہی میں عراق میں مسلح کارروائیاں‘ ان کے باعث اکثر مسلمان بُری طرح برانگیختہ ہیں۔ خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی تجاویز اکثر روایتی قدامت پسندوں کی جانب سے پیش کی جاتی ہیں۔ اس قسم کی تجاویز خارجہ پالیسی کے متعلقہ افسران اور پیشہ ور ماہرین‘ خاص طور پر ان کی جانب سے جو اَب ریٹائر ہوچکے ہیں‘ پیش کی جاتی رہی ہیں۔ بش انتظامیہ اور جدید قدامت پسند‘ اصولی طور پر اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ امریکا کو اب اسلامی ممالک میں آمر حکمرانوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ لوگ اب بھی اسرائیل کی حمایت اور عراق میں مسلح کارروائیوں کی پالیسی بدلنے کے حق میں نہیں ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر امریکی خارجہ حکمت عملی تبدیل کردی جائے تب بھی عالم گیر سطح پر موجود اسلامی قوتوں کی معاندانہ روش اسی طرح جاری رہنے کاامکان ہے۔ اس طور القاعدہ اور اس کی حلیف جماعتیں ‘ امریکا کو اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کردینے کا سہرا یقینا اپنے سر باندھیں گی اورپھر وہ اپنے لیے نئے اور زیادہ انقلابی اہداف‘ مثلاً اسلامی ممالک سے مغربی اثرات مٹانے اور مغربی ممالک میں اسلامی اثرونفوذ میں اضافے کے لیے نئے جذبے اور توانائی کے ساتھ میدانِ عمل میں اُتریں گی۔
درحقیقت‘ بش انتظامیہ اور جدید قدامت پسندوں کی جانب سے پیش کیے جانے والا حل بھی اپنے طور پر‘ ایک انقلابی حل ہے۔ نہ صرف امریکی خارجہ حکمت ِ عملی میں تبدیلی ان کے پیش نظر تھی بلکہ مشرق وسطیٰ ‘ خاص طور پر اسلامی ممالک کی فطرت یا کم از کم کلچر میں تبدیلی کو بھی انھوں نے اپنے مقاصد میں شامل کیا۔ وہ اسلامی ممالک میں آزاد جمہوریت‘ آزاد تجارت‘ آزاد معاشرے اور انسانی حقوق کو رواج دے کر اسلامی دہشت گردوں کو توانائی بخشنے والے چشمے خشک کرنا چاہتے تھے۔ جدید قدامت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ عالم گیر سطح پر وہ اس منصوبے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بیش تر مسلمان اس عمل کو‘ ماضی کے استعماری ہتھکنڈوں ہی کی طرح کا ایک اور ہتھکنڈا سمجھتے ہیں۔
بہرحال ‘ جیسا بھی ہے‘ غیر روایتی قدامت پسندوں کے ان عزائم نے ہم کو عراق میں دھکیل دیا جس نے اسلامی دنیا کی بغاوت کو ایندھن فراہم کیا‘ جب کہ امریکا اپنے کسی بھی خودساختہ مقصد کے حصول میں واضح طور پرناکام ہوگیا اور اب امریکا‘ ایک عظیم ناکامی اور رسوائی کی طرف چلا جارہا ہے۔
اس وقت امریکا کے خلاف اسلامی دنیا میں پھیلے ہوئے اشتعال اور مخالفت کو زائل کرنے کے لیے لبرل عناصر‘ روایتی قدامت پسندوں اور غیرروایتی قدامت پسندوں کی طرف سے پیش کیے جانے والا کوئی بھی حل‘ اُمید نہیں دلاتا۔ اب وقت آچکا ہے کہ اس خطرے کے سدِّباب کے لیے کوئی نیا طریقہ اختیار کیا جائے‘ یا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو حقیقی معنوں میںایک پرانا طریقہ ہے‘ جسے نصف صدی قبل‘ امریکا نے عالمی سطح پر کمیونزم کی تحریک سے نمٹنے کے لیے اختیار کیا تھا۔
سرد جنگ کے دور میں کمیونزم کی عالم گیر تحریک کے خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکا نے اُس وقت جو اقدامات کیے تھے‘ اِس وقت بھی وہی اقدامات‘ عالم گیرسطح پر موجود اسلامی قوتوں کی طرف سے پیش آنے والے خطرات کو کم کرنے بلکہ ختم کرنے کے لیے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ اسلامی دنیا کو تقسیم کرنے کے اقدامات کا انحصار اسلامی دنیا میں موجود مختلف طبقات پر ہے‘ مثلاً اعتدال پسند مسلمان بالمقابل انتہاپسند مسلمان اور سُنّی مسلمان بالمقابل شیعہ مسلمان۔
سردجنگ کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی مخالف سیاسی نظریے کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ اس نظریے کے اعتدال پسند اور انتہاپسند پیروکاروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا جائے۔ خاص طور پر یورپ میں ۵۰ کے عشرے میں امریکا اس طریقے کے سبب‘ اعتدال پسند مارکسٹوں___سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹس___ کو انتہاپسند مارکسٹوں یعنی کمیونسٹوں سے علیحدہ کرنے میںکامیاب رہا اور یہ تقسیم سردجنگ کے بقایا عرصے میںزیادہ ترقائم رہی۔ تقسیم کرنے کی یہ حکمت عملی تیسری دنیا میں زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ وہاں ’اعتدال پسند مارکسٹ‘ کہیں کہیں موجود تھے‘ اور جہاں موجود تھے انھیں انتہاپسندمارکسٹوں یا امریکا کی حلیف کمیونزم مخالف حکومتوں نے ختم کردیا۔
آج بھی‘ عالمی سطح پر اسلامی اثرات کوزائل کرنے کے لیے بہترین طریقہ یہی نظر آرہا ہے کہ اعتدال پسند اور انتہاپسندمسلمانوں کے راستے جدا جدا کردیے جائیں۔ ایک دفعہ پھر یورپ میں‘ سیاسی جمہوریتوں‘ ترقی یافتہ معیشتوں اور آزاد معاشروں کے قیام کے باعث اعتدال پسند اور انتہاپسند مسلمانوں کو باہمی طور پر جدا کرنے کا طریقہ معقول وجوہات کی بنیاد پر قابلِ غور ہے۔ یورپی حکومتوں کے پاس ایسے بہت سے وسائل اور ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے ممالک میں رہایش پذیر معتدل مسلمانوں سے کامیاب سودے بازی کرسکتی ہیں تاکہ یہاں سے انتہاپسند مسلمانوں کو ملیامیٹ کردیا جائے۔ مشرق وسطیٰ‘ جنوبی مغربی ایشیا اور جنوبی مشرقی ایشیا میں مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی یہ حکمت عملی زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ ان ممالک میں آمرانہ حکومتوں‘ وسیع پیمانے پر غربت اور طبقاتی امتیاز کے باعث انتہاپسند اسلامی عناصر کی سرگرمیوں کو پنپنے کا موقع فراہم ہوجاتا ہے۔
سردجنگ کے دور میں‘ تقسیم کرنے کی انتہائی کامیاب حکمت عملی کو چین اور روس کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس حکمت عملی کا آغاز ۱۹۷۰ء کے عشرے کے اوائل میں رچرڈ نکسن اور ہنری کسنجر نے کیا۔ درحقیقت‘ امریکا کی طرف سے چین اور روس کے درمیان اختلاف کو ہوا دینے سے پہلے ہی ان دونوں ممالک کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوچکے تھے لیکن نکسن انتظامیہ نے ویت نام میں جنگ بند کروانے کی خاطر ۱۹۷۱ء-۱۹۷۳ء کے دوران چین اور روس کے درمیان پیدا شدہ اختلافی صورت حال کا فائدہ اٹھایا۔ پھر بعد میں‘ چین اور روس کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی حکمت عملی کو امریکی انتظامیہ نے کمیونسٹ طاقتوں کے حصے بخرے کرنے کی حکمت عملی کی بنیاد بنایا۔ امریکی انتظامیہ کی یہ کوشش سردجنگ میں سوویت یونین پر امریکا کی حتمی فتح کے لیے اہم عنصر ثابت ہوئی۔
عصرحاضر میں اسلامی دنیا پر اس مثال کا اطلاق ان کے درمیان فرقہ بندی‘ یعنی سُنّی اور شیعہ تقسیم کے ذریعے ہوتا ہے۔ عراق میں سُنّی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان جاری پُرتشدد فرقہ واریت کے ذریعے عراق میں موجود تقسیم کی شدت کے متعلق اشارہ ملتا ہے۔ لیکن سُنّی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت‘ شکوک و شبہات اور اختلافات‘ کئی دیگر اسلامی ممالک‘ خاص طور پر لبنان‘ شام‘ سعودی عرب اور پاکستان میں بھی کافی ہیں۔ عام طور پر سُنّی شیعوں کو کافر اور کم تر جب کہ شیعہ سنّیوں.ُ کو منافق اور ظالم سمجھتے ہیں۔
پوری اُمت مسلمہ میں مجموعی طور پر سُنّی بہت زیادہ اکثریت میں ہیں‘ یعنی تقریباً ۸۳ فی صد‘ جب کہ شیعوں کی تعداد ۱۶ فی صد ہے اور بقایا ایک فی صد چھوٹے چھوٹے فرقے ہیں۔ اکثر مسلمان ممالک میں سُنّی اکثریت میں ہیں لیکن شیعہ اسلامی دنیا کے نہایت حسّاس علاقوں لبنان سے خلیج فارس ہوتے ہوئے ایران تک اور آگے دیگر علاقوں میں زیادہ تعداد میں ہیں۔ ایران اور عراق میں شیعہ اکثریت میں ہیں‘ جب کہ لبنان میںسب سے بڑی اقلیت کی حیثیت شیعوں کی ہے۔ وہ سعودی عرب کے تیل سے مالا مال اہم مشرقی صوبے میں بھی واضح اکثریت میں موجود ہیں۔
تقریباً تمام اسلامی ممالک میں وہ افراد حکمران ہیں‘ جنھیں کسی نہ کسی طرح سُنّی سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ دور میں تمام بڑے اسلامی ممالک میں سے صرف ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں شیعہ حکمران رہے ہیں۔ لیکن اس وقت عراق میں شیعہ حکمرانی کا امکان‘ اچانک بڑھتے ہوئے مسئلے کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ (شام میںاس وقت حکمران افراد کا تعلق علوی فرقے سے ہے اور یہ فرقہ‘ شیعہ مسلک سے علیحدہ ہوکر وجود میں آیا ہے) اسلامی دنیا میں آبادی اور سیاسی لحاظ سے سنّیوں.ُ کا غلبہ ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ شیعہ انھیں ظالم و جابر تصور کرتے ہیں۔
سنّیوں.ُ کے انتہاپسند عناصر اسلامی خلافت کے احیا کا خواب دیکھتے ہیں تاکہ پوری دنیا میں اسلامی قوانین کی حکمرانی ہو۔ ۱۹۲۲ء میں آخری اسلامی خلافت‘ یعنی خلافتِ عثمانیہ کو ختم کردیا گیا تو مسلم دنیا مختلف ریاستوں میں تقسیم ہوگئی اور ان کے درمیان باہمی مسابقت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ نئی اسلامی خلافت کے قیام سے ریاستوں اور ان کے مُرتد اور کافر حکمرانوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن چونکہ سُنّی شیعوں کو کافر سمجھتے ہیں لہٰذا اُمت مسلمہ کی سچی خلافت کو یہ درست اقدام کرنا ہوگا کہ انصاف کے تقاضے کے تحت شیعوںکے اثرات کم کرے اور انھیں ماتحت بنائے۔ اس لیے اسلامی خلافت کے قیام کا یہ خواب عملی طور پر حقیقت کے جتنا قریب ہوتا جائے گا‘ شیعوں کی طرف سے انتہاپسند سنیوں کے خلاف مزاحمت اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ اسلامی خلافت کے احیا کا یہ منصوبہ اسلامی تحریک میں ایسی دراڑہے جو ٹائم بم کی طرح کسی بھی وقت اسے دو ٹکڑے کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔جس کے نتائج نہایت تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
عراق شیعہ سُنّی تفریق کے لیے ایک ٹسٹ کیس اور امکانات سے پُر کٹھالی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تصور کرنا اب بہت آسان ہے کہ عراق میں حالیہ پُرتشدد اور شکوک و شبہات پر مبنی تفرقہ بازی‘ سُنّی اور شیعہ مسلمانوں یا زیادہ صحیح طور پرسُنّی اور شیعہ عربوںکے درمیان خانہ جنگی کا پیش خیمہ ہے‘ کیوں کہ سُنّی کُرد ان دونوں جماعتوں سے خود کو علیحدہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان حالات میں عالمی اسلامی تحریک کیسی نظر آئے گی؟ اس کی جو کشش اور معنی آج ہیں تبدیل ہوجائیں گے۔ ممکن ہے کہ اسلامی شناخت کا تصور کچھ مسلمانوں کے لیے باعثِ کشش ہو لیکن یہ اسلامی شناخت‘ برسرپیکار شیعہ اور سُنّی شناختوں کے مقابلے میں یقینا بہت کم ہوجائے گی۔اگر سنّیوں.ُ اور شیعوں کے درمیان اس اختلاف کے اثرات ہمسایہ ممالک تک پھیل گئے تو اس میں اضافہ ہوگا۔ بلاشک و شبہہ‘ اگر سُنّی اور شیعہ مسلمانوں میں یہ اختلاف نہ صرف شدید اور وسیع ہوجائے بلکہ طویل عرصے تک چلے‘ تو یہ معاملہ سردجنگ کے آخری تین عشروں میں پیدا ہونے والے چین روس تنازع سے کسی طور کم حیثیت کاحامل نہیں ہوگا۔ اس صورت میں عالم گیر اسلامی تحریک اپنے معنی اور افادیت کھو بیٹھے گی اور کوئی بھی اس کا نام لیوا نہ رہے گا۔ مسلم دنیا میں سُنّی اسلام پسند اور شیعہ اسلام پسند ہوں گے اور یہ دونوں جماعتیں‘ امریکا کے بجاے ایک دوسرے کو اپنا سب سے زیادہ بڑا دشمن تصور کریں گی۔
عراق میں سُنّی عربوں کی تعداد ہمیشہ سے ہی اقلیت میں رہی ہے (اس وقت یہ تعداد ۱۵سے ۲۰ فی صد ہے)۔ شیعہ عربوں اور سُنّی کردوں پر ظلم و ستم کی طویل تاریخ اور اسلامی مزاحمت کی حالیہ حمایت کے باعث جس کا نشانہ شیعہ اور سُنّی کرد بھی ہیں، سُنّی عربوں کو بہت کچھ جواب دہی کرنی ہے۔ اس طرح انھوں نے ایک خوف ناک خانہ جنگی کی بنیاد رکھ دی ہے۔
سُنّی عرب رہنمائوں کے عوامی بیانات کچھ بھی ہوں‘ لیکن درحقیقت وہ عراق پر اپنی اقلیتی حکومت کے خواہاں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایسا جابرانہ نظام چاہتے ہیں جس کے تحت ان کے مفادات کا تحفظ اسی طرح ہوسکے‘ جس طرح برطانیہ کے ہاتھوں عراق کی تخلیق اور اس سے بھی‘ قبل سلطنت عثمانیہ کے دور میں ہوتارہا۔ چونکہ سُنّی عرب ایک چھوٹی سی اقلیت تھے‘ اس لیے قائم ہونے والی کوئی بھی سُنّی حکومت‘ خاص طور پر جابرانہ حکومت تھی اور اپنی اقلیتی بنیاد کی تلافی اس حکومت میں شامل افراد کی طرف سے شیعہ اور کُرد آبادیوں پر غیرمعمولی ظالمانہ اقدامات سے کرتی تھی۔ ۲۰ویں صدی میںعراقی معاشرہ جدید ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکا تھا‘ اسی دوران شیعوں اور کُردوں نے آہستہ آہستہ زیادہ معاشی اور تعلیمی وسائل حاصل کرلیے جس نے ان کے سیاسی تحرک اور نظم کو ممکن بنادیا۔ اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ بعد میں آنے والی سُنّی حکومتوں نے بتدریج زیادہ ظالمانہ روش کیوں اختیار کی جس کے باعث بعث پارٹی کی ظالمانہ حکومت قائم ہوگئی اور صدام حسین کے سفاک دورِ حکمرانی کا آغاز ہوگیا۔ حکومت اوپر سے دبائو بڑھاکر ہی‘ زیادہ متحرک و منظم ہونے والے کُردوں اور شیعوں کے نیچے سے آنے والے دبائو کا مقابلہ کرسکتی تھی۔
صدام حسین کی حکومت کا تقابل اکثر سوویت یا نازی حکومت سے کیا جاتا ہے۔ بیرونی تنظیمی ڈھانچے کی کارکردگی کے لیے زیادہ تر سوویت ماڈل اختیار کیا گیا‘ جب کہ اندرونی نظریاتی ڈھانچے کے لیے زیادہ تر نازی اندازفکر کو مثال بنایا گیا۔ دوسرے تقابل کے مطابق‘ صدام حسین ہٹلر‘ بعث پارٹی‘ نازی پارٹی اور عراقی عوام جرمن عوام کا کردار ادا کرتے تھے۔ مزیدبرآں اس سے بھی زیادہ صحیح تقابل یہ ہوسکتا تھاکہ بعث پارٹی کو نازی پارٹی کے خاص شعبے ایس ایس‘ اور سُنّی عربوں کو مجموعی حیثیت سے نازی پارٹی کے متماثل قرار دے دیا جاتا‘جب کہ نازی پارٹی کی تعداد کُل جرمن آبادی کا صرف ۱۵ فی صد تھی۔
۱۹۹۰ء کے عشرے کے آخر تک سُنّی عربوں نے نہ صرف اس جابر حکومت کے ذریعے بے شمار فوائد حاصل کیے بلکہ انھوں نے اس نظامِ حکومت کے متبادل کے طور پر کسی قابلِ قبول نظامِ حکومت کا تصور تک نہ کیا تھا‘ کسی جمہوری نظام کا تو ہرگز نہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور ان کے محافظ اداروں کو ختم کردیاگیا تو پھر ملک میں مکمل افراتفری کا راج ہوگا‘ اور طویل عرصے سے ستم رسیدہ شیعہ اور کُرد یقینا انتقام پر اُتر آئیں گے۔
اپریل ۲۰۰۳ء میں جب امریکا نے صدام حسین کی حکومت کو تباہ و برباد کردیا تو سنّیوں.ُ کے نقطۂ نظر سے یہ بہت بُرا ہوا۔ تاہم ابھی بھی عراقی فوج اور بعث پارٹی کے بقایا جات کی صورت میں ان کے لیے تحفظ کا سامان موجود تھا۔ لیکن مئی ۲۰۰۳ء میں‘ امریکا کی قابض فوج کے متکبّر لیکن نااہل سربراہ پال بریمر نے عراقی فوج اور بعث پارٹی دونوں کو یکسر ختم کرنے کا حکم جاری کردیا۔ اس نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ تمام حکومتی اداروں کی بشمول صحت اور عوامی سہولیات کی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے‘ بعث پارٹی سے تطہیر کردی جائے۔ بریمر کے احکامات کا مطلب یہ تھاکہ لاکھوں سُنّی بے روزگار ہوجائیں۔
معاشی طور پر سُنّی امریکا کے گریٹ ڈیپریشن کی طرح انتہائی مایوسانہ کیفیت کا شکار ہوگئے۔ اس سے بھی بدتر صورت حال یہ ہوگئی کہ جب انھوں نے دیکھا کہ جس طرح مشرق وسطیٰ میں دیگر قتل عام (مثلاً ۱۹۱۵ء-۱۹۱۸ء میں آرمینیا میں نسل کُشی‘ ۱۹۷۵ء-۱۹۹۰ء میں لبنان کی خانہ جنگی اور پھر۱۹۸۷ء-۱۹۹۰ء میں صدام حسین کے ہاتھوں کُردوں کی نسل کُشی) ہوئے‘ انھیں بھی اسی طرح قتل عام اور نسل کُشی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ امر باعثِ حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ ان حالات میں سُنّی مایوس ہوجاتے بلکہ ان کے لیے ’زندگی یا موت‘ جیسی کیفیت پیدا ہوجاتی اور وہ پھر ہرممکن طریقے سے امریکی قبضے کے خلاف منظم مزاحمت کا آغاز کردیتے۔ بعث پارٹی کے زیرزمین چلے جانے والے فوجیوں اور سُنّی اسلامی تحریکوں سے اچانک اُبھرنے والے باغی دستوں نے انھیں یہ موقع فراہم کردیا۔ اس میں زیادہ وقت نہ لگا کہ بدنامِ زمانہ سُنّی مثلث میں مکمل تربیت یافتہ بغاوت برپا ہو اور اس میں بھی زیادہ وقت نہ لگا کہ سُنّی عسکریت پسندوں نے شیعہ آبادی پر شدید اور مستقل حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا‘ جن سے اب وہ ڈرتے تھے اور جن سے وہ طویل عرصے سے نفرت کرتے رہے تھے۔
عراق کو جمہوری لحاظ سے ایک واحد اکائی بنانے یا اس کا شعبدہ دکھانے کے لیے بش انتظامیہ مسلسل اپنی کوششوں میں مصروف ہے‘ لیکن ان کا یہ مقصد ممکنہ طور پر غیرحقیقی اور ناقابلِ حصول نظر آتا ہے۔ عراق تقسیم کی حکمت عملی کے لیے مناسب تجربہ گاہ ہوسکتا ہے‘ اور واقعاتی طور پر سُنّی بمقابلہ شیعہ‘ اور کرد ملیشیا بمقابلہ سُنّی دہشت گرد کے درمیان تقسیم یہاں روبہ عمل آسکتی ہے۔ امریکا کے تربیت یافتہ اور مسلح کردہ شیعہ اور کُرد ملیشیا‘ اپنے علاقوں میں سُنّی مزاحمت کاروں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے قابل ہوں گی (بلاشبہہ اس وقت بھی امریکی نگرانی میں تیار ہونے والی نئی عراقی محافظ فوج زیادہ تر شیعہ یا کرد افراد پر مشتمل ہے۔ فطری طور پر وہ اب شیعہ اور کُرد فوج کی شکل اختیار کرلیں گے)۔ ان حالات میںقدرتی اور فطری طور پر شیعہ اور کُرد مسلح افراد یا افواج کا طریقہ کار بے رحمانہ ہوگا اور وہ اپنے اپنے علاقوں سے زیادہ تر سُنّی آبادی کو اس طرح نکالیں گے جیسے یوگوسلاویہ میں نسل کُشی کی گئی تھی۔ اس طرح سُنّی آبادی مرکزی اور مغربی عراق‘ اور بغداد اور موصل کے بعض حصوں تک محدود ہوسکتی ہے۔
اگر امریکا شیعہ اور کُردمسلح افراد کے ذریعے سُنّی عسکریت پسندوں کو شکست دینے کی حکمت عملی نہیں بھی اپناتا‘ تب بھی وہ شیعہ اور کُرد‘ جن پر سنّیوں.ُ نے مخالفانہ حملے کر کے اشتعال دلا دیا تھا‘ اپنے طور پر ہی سُنّی عسکریت پسندوں کو شکست سے دوچار کرنے کی حکمت عملی اپنا سکتے ہیں۔ ایران پہلے ہی شیعہ ملیشیا کو مدد مہیا کر رہا ہے اور کُرد ملیشیا ایک مکمل فوج کی صلاحیت حاصل کرنے ہی والے ہیں۔ آخرکار عراق بھی یوگوسلاویہ کی مانند‘ کئی ایک باہم مخالف نسلی ریاستوں میں تقسیم ہوتا نظرآتا ہے۔ لیکن اس تقسیم کے باعث‘شیعہ اور کُرد علاقوں میں اسلام پسندوں کی شورش ختم ہوجائے گی۔
یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ سُنی‘ شیعہ اور کُرد علیحدہ علیحدہ ریاستوں کے قیام کے لیے ان فریقین کے درمیان جنگ یا عراقی خانہ جنگی امریکی مفادات کے خلاف ہوگی اور یہ امریکا کو مشکل اور پریشان کن صورت حال میں ڈال دے گی۔ بہرحال‘ اگر امریکی مسلح افواج عراق میں مزید قیام نہیں کرتیں تو پھر بھی عراقی نسلی گروہ یا ریاستیں ایک دوسرے کی عظیم دشمن ہوں گی۔ عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھی عراقی عوام کی اکثریت کے دلوں میں امریکا‘ ایک عظیم دشمن کی حیثیت سے موجود رہے گا‘ سُنّی اور شاید شیعہ بھی یقینی طور پرامریکا کو اپنے دشمن کی حیثیت سے یاد رکھیں گے‘ اور امکانی طور پر کُرد بھی‘ اس لیے کہ امریکا ایک دفعہ پھر انھیں تنہا چھوڑ دے گا‘ لیکن بحیثیت ایک نسلی گروہ‘ وہ جماعتیں فوری اور عملی طور پر ان کی دشمن ہوں گی جو انھیں اس وقت قتل کرنے میں مصروف ہیں۔
عراق میں امریکا کے خلاف حالیہ شورش اور بغاوت سے اسلام پسندوں اور اسلامی دہشت گردوں کے بین الاقوامی نیٹ ورک کی طاقت اور اپیل میں بہت اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے برعکس عراق میں مختلف ریاستوں کے درمیان جنگ کے باعث‘ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں نہیں تو کم از کم عراق میں اسلامیت بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔ اگر سُنّی عرب مسلمان‘ شیعہ عرب مسلمانوں کو (سُنّی کرد مسلمانوں کو بھی) ہلاک کر رہے ہوں اور اس کے جواب میں شیعہ عرب مسلمان‘ سُنّی عرب مسلمانوںکو قتل کر رہے ہوں گے تو اسلام کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟
اس قسم کی جنگ کے باعث عراق کے سُنّی عرب‘ بڑی حد تک سُنّی مسلمانوں کے انتہائی انتہاپسند مسلکوں یعنی وہابیت اور سلفیّت کی طرف مائل ہوجائیں گے لیکن ردعمل کے طور پر شیعہ اور کُرد بچے کھچے سُنّی علاقوں‘ سُنّی مثلث اور بغداد و موصل کے سُنّی اضلاع پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ اگر عراق کی مختلف ریاستوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور اس جنگ نے طول پکڑ لیا تو سُنّی ‘ شیعوںاور کُردوں کے پاٹوں درمیان پِس جانے کے عظیم خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
حالیہ مایوسی اورافسردگی کے عالم میں‘ معلوم یہ ہوتا ہے کہ سُنی‘ اپنی قوم اوربقا کو درپیش اس امکانی خطرے سے بے نیاز کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اپنی انتظامی صلاحیتوں اور مہذب و شایستہ طورطریقوں‘ انصاف پروری اور اپنی سلطنت میں دیگر افراد پر مؤثر حکمرانی کے سبب‘ اپنے عروج اور ناقابلِ شکست ہونے کا احساس رکھتے ہیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اُن پر بھی تباہی و بربادی نازل ہوسکتی ہے۔ آج بھی بڑے بڑے سُنّی یہ مغالطہ انگیز دعویٰ کرتے ہیں کہ عراق میں سُنّی عربوں کی اکثریت ہے۔
سُنّی عرب اپنے آپ کوحقیقی جنگ جو.ُ اور کمزور و بے بس شیعوں پر حکمرانی کو اپنا موروثی حق تصور کرتے ہیں۔ اگر وہ یہ یاد کریں تو بہت اچھا ہو کہ ۱۹۴۵ء میں‘ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جرمن فاتحین پر کیا گزری‘ ۳۰لاکھ افراد ہلاک ہوگئے‘ ۸۰لاکھ افراد کو اپنا وطن ہمیشہ کے لیے چھوڑنا پڑا اور ۹۰ لاکھ افراد کو مشرقی جرمنی میں سوویت حکومت کی جانب سے ۴۰ برس تک کمیونسٹ حکومت برداشت کرنی پڑی اور پھر بلاشبہہ ممتاز افراد کی حیثیت ان فاتحین کا نام و نشان مٹ گیا۔
شیعوں کے متعلق کسی بھی گفتگو کے ضمن میں ایران کا حوالہ لازمی ہے۔ ایران شیعوں کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی اسلامی حکومت ۱۹۷۹ء ہی سے امریکا کے سخت خلاف ہے‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا نے طویل عرصے سے اسلام کے شیعہ فرقے کو سنّیوں.ُ کی نسبت اپنے لیے اسی طرح ایک عظیم خطرہ تصور کیا جس طرح ایک دفعہ (خاص طور پر ۱۹۶۰ء کے عشرے میں) سوویت کے بجاے چینی کمیونزم کو اپنے لیے عظیم خطرہ محسوس کیا تھا۔ ایران کی طرف سے زیادہ خطرہ اسی طرح کی ایٹمی صلاحیت کے حصول کا ہے جیسے ۵۰ کے عشرے کے اواخر اور ۶۰ کے عشرے کے اوائل میں چین نے حاصل کرلی تھی اور پھر ۱۹۶۴ء میں کامیاب ایٹمی تجربہ کرڈالا تھا۔
ایران کے شیعہ ہوں یا دنیا میں کسی اور جگہ کے شیعہ ہوں‘ وہ امریکا کو مسلسل شک و شبہہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ اس کے خلاف نفرت حتیٰ کہ حقارت اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ شیعہ‘ امریکا کے سچے اتحادی نہیں ہوسکتے‘ لیکن وہ کسی انتہاپسند سُنّی تحریک یا ریاست کے خلاف جو ان دونوں کی دشمن ہے‘ امریکا کے حربی اتحادی ہوسکتے ہیں۔ یہی معاملہ القاعدہ اور اس کے دہشت گرد ساتھیوں کا ہے اور اگر انقلاب پسند وہابی اور سلفی سعودی عرب میں حکومت حاصل کرلیں تو یہی معاملہ ان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
ایران پہلی مسلم ایٹمی قوت نہیں‘ پاکستان میں بھی اسلامی عناصر موجود ہیں اور اس کے پاس پہلے ہی اپنے ایٹمی ہتھیار ہیں۔ کچھ معاملات میں‘ پاکستان اور ایران ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ ایران میں حکومت‘ امریکا کی سخت مخالف ہے‘ جب کہ عوام کا رویہ نسبتاً دوستانہ ہے۔ اس کے برعکس‘ پاکستان میں حکومت زیادہ تر امریکا سے تعاون کرتی رہی ہے‘ جب کہ عوام ہمیشہ ہی امریکا کے شدید مخالف رہے ہیں۔ مزیدبرآں‘ ایران میں آبادی کی بہت بڑی اکثریت شیعوں کی ہے لیکن سُنّی بھی واضح اقلیت (تقریباً ۱۰ فی صد) میں ہیں۔ اس کے برعکس‘ پاکستان میں سنّیوں.ُ کی واضح اکثریت ہے لیکن شیعہ بھی واضح اقلیت (تقریباً ۱۵ فی صد) میں ہیں۔
ان دونوں خطرناک اسلامی بموں کے خلاف امریکا کے پاس کوئی اچھی متبادل حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ بش انتظامیہ کے شور مچانے کے باوجود امریکا کے پاس ایران کے ایٹمی منصوبے کو مکمل اور مستقل طور پر تباہ کرنے کے لیے کسی عملی مسلح کارروائی کا راستہ نہیں ہے اور پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان تو مزید کم ہے۔ جہاں تک تقسیم کرنے کی حکمت عملی کا تعلق ہے‘ پہلا طریقہ (اعتدال پسند بمقابلہ انتہا پسند عناصر) شاید‘ پاکستان یا ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے ضمن میں مؤثر ثابت نہیں ہوگا۔ دونوں ممالک کے معتدل اور انتہاسند عناصر اپنی اپنی اقوام کو ایٹمی قوت دیکھنا چاہتے ہیں۔ تقسیم کرنے کی دوسری حکمت عملی (سنّیوں.ُ اور شیعوں کے درمیان) میں اچھے اور برے دونوں امکانات ہیں۔ ایران کی اکثریتی شیعہ آبادی اور پاکستان کی اکثریتی سُنّی آبادی‘ اپنے اپنے ملک میں اقلیت کے خلاف ناروا کارروائیوں میں مصروف ہے جو دوسرے ملک میں اکثریت میں ہے۔ دونوں ممالک میں موجود یہ صورت حال‘ دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کے لیے کافی امکان مہیا کرتی ہے۔ مزیدبرآں‘ دونوں ممالک کے درمیان سرحد بھی متنازع ہے‘ جس کے ذریعے بلوچستان تقسیم ہوجاتا ہے۔
اگر دونوں ممالک ایٹمی قوت ہوں تو دونوں ممالک کے مابین ایٹمی جنگ کا خطرہ اور بحران پیداہونے کا بھی کافی امکان ہے۔ اگر عراق میں شیعہ سُنّی تنازع نہایت ہی شدید اور طویل خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلیتا ہے تو پھر ایران اور پاکستان میں شیعہ سُنّی تنازع بڑھنے کا امکان زیادہ ہوجائے گا۔ ان حالات کے باعث عراق کے ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان میں سُنّی اور شیعہ آبادی کی علیحدہ علیحدہ شناخت اور ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ رویے میں مزید اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔ وسیع پیمانے پر سُنّی شیعہ تقسیم کے سبب ایٹمی ایران اور ایٹمی پاکستان نہایت ہی خطرناک اور تباہ کُن طور پر ایک دوسرے کے سامنے آسکتے ہیں۔ امریکی خارجہ پالیسی کا کوئی بھی معقول پیشہ ور ماہر اس قسم کی صورت حال کے پیدا ہونے کا خواہاں نہیں ہوگا۔
بہرحال‘ اس وقت امریکا کی جو بھی حکمت عملی ہو‘ بالآخر ایرانی بم کے پڑوس میں پاکستانی بم ہوگا جس طرح کہ اب بھارتی بم کے پڑوس میں پاکستانی بم ہے۔ بہ الفاظ دیگر‘ اس کرئہ ارض کے ایک انتہائی آتش فشاں اور پُرتشدد علاقے میں تین نئی اور غیرمعتبر ایٹمی طاقتیں ایک ہی صف میں کھڑی ہوںگی۔ سہ فریقی مسائل کی طرح ان تین ایٹمی طاقتوں کی حرکیات کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن جب یہ حرکیات روبہ عمل آئیں گی تو عالمی اسلامی تحریک کے بہت سے حالیہ فیصلوں پر حاوی ہوکر انھیں ماضی کا حصہ بنا دیں گی۔ ان حالات کے باعث شیعہ ایٹمی ایران اور ہندو ایٹمی بھارت کے درمیان سُنّی ایٹمی پاکستان عراق میں سنّیوں.ُ کی مانند تباہی و بربادی کے مہیب خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔
امریکا نے جیسے پہلے کمیونزم کے حوالے سے چین اور سوویت یونین کو باہم تقسیم کرنے کی حکمت عملی شروع نہیں کی‘ اسی طرح اسلام کے تناظر میں امریکا نے سُنّی اور شیعہ کو باہم تقسیم کرنے کا آغاز نہیں کیا ہے۔ بہرحال‘ جس طرح سرد جنگ کے دوران امریکا نے تقسیم کے عمل سے فائدہ اٹھایا‘ اب بھی امریکا تقسیم کے عمل سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
امریکا کو جب ویت نام سے نکال باہر کیا گیا تو اسے ہندچینی کے علاقے میں غیرکمیونسٹ حکومتیں قائم کرنے کے منصوبے کو ترک کرنا پڑا۔ بہرحال‘ نصف عشرے کے دوران‘ پہلے تو سوویت روس کے حلیف کمیونسٹ ویت نام نے چین کے ایک حلیف‘ کمیونسٹ کمبوڈیا پر حملہ کردیا اور پھر کمیونسٹ چین نے کمیونسٹ ویت نام کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا۔ امریکا کے اس منظرنامے سے ہٹ جانے کے باعث فطری طور پر کمیونسٹ ریاستیں باہمی طور پر ایک دوسرے کے خلاف جنگوں میں اُلجھ گئیں۔ امریکا ریگن انتظامیہ کی سربراہی میں‘ اس صورت حال اور کمیونسٹ ریاستوں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا۔ اسی اصول کے تحت‘ اگر امریکا عراق سے نکل جاتاہے تو اسے مشرقِ وسطیٰ میں جمہوری حکومت کے قیام کے اپنے غیرحقیقی منصوبے کو ترک کرنا ہوگا۔ ایک مختصر سی مدت میں اُمت مسلمہ کا مرکزی تنازع وہ ہوجائے گا جو سنّیوں.ُ اور شیعوں کے درمیان اُبھرے گا۔ یہ پہلے تو عراق کے سنّیوں.ُ کا مقدر ہوگا اور پھر کچھ مزید عرصے بعد پاکستانی سنّیوں.ُ کا مقدر بنے گا۔ اور یہ عمل حیرت انگیز طور پر سنّیوں.ُ کو متحد ہونے پر مجبور کردے گا۔ اس تناظر میں‘ سُنّی مسلمانوں کی امریکا کی طرف توجہ بے جا اور درحقیقت بے معنی ہوگی۔
امریکا کو اسلامی دنیا میں ترقی کے حوالے سے اجنبی اور نامانوس تصورات مسلط کرنے کی بے سود کوشش کے لیے عراق پر حملہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب امریکا کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ عراق سے نکل جائے اور اُمت مسلمہ میں موجود اندرونی اور فطری اختلافات کو اپنے انداز میں بڑھنے دے۔ کسی بھی حقیقی عظیم طاقت کے لیے دیگر ممالک میں اپنا اثرونفوذ بڑھانے کے لیے منطقی حکمت عملی یہ نہیں کہ بالکل نرالی اور انوکھی روایات قائم کرنے کی کوشش کی جائے جن کی مقامی حالات میں کوئی بنیاد نہ ہو۔ اسے اقوام اور ممالک میں موجود مقامی حقائق اور پہلے سے موجود اختلافات سے اپنے طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا چاہیے۔