مارچ۲۰۰۷

فہرست مضامین

عصرِ حاضر کا بحران اور آیندہ لائحہ عمل قرآنی تعلیمات کی روشنی میں

حبیب الرحمٰن چترالی | مارچ۲۰۰۷ | اُمت مسلمہ

Responsive image Responsive image

مسلمانوں کے لیے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حوادثِ عالم کے تسلسل میں وہی طرزِعمل کامیابی اور فلاح کی ضمانت ہے جو اُسوۂ رسولؐ کے عین مطابق ہو اور قرآن کریم کے معیار حق و صداقت پر پورا اترتا ہو ۔حق و صداقت کیا ہے اور جھوٹ کیا؟یہ معلوم کرنے کے لیے ہمیں نہ نصاریٰ اور اہل کتاب کی طرح افراط و تفریط کا رویہ اپنانا چاہیے اور نہ فلاسفہ کی فلسفیانہ موشگافیوںکا سہارا لینا چاہیے۔بحیثیت حق جو’ مسلمان ہمارا رویہ کتاب اللہ اور سیرت رسول کی طرف رجوع کا ہونا چاہیے کیونکہ قوموں کے عروج و زوال اس حدیث کے مطابق قرآن کے ساتھ ان کے سلوک سے مشروط ہے۔اسی لیے ارشاد ہوا:’’اﷲ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو عروج نصیب کرتا ہے اور دوسری قوموں کو زوال سے دوچار کرتا ہے‘‘(مسلم)۔ بطور تشریعی امر قرآن ہمیں سمع و طاعت کا پابند بناتا ہے۔البتہ اس شرع کا اطلاق عصر حاضر کے تکوینی امور پر کرنے سے پیش تر زمینی حقائق پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے۔

گذشتہ پانچ برسوں کے دوران وقوع پذیر حالات و واقعات،دہشت گردی کے نام پر  حق و باطل کی کش مکش، خدائی قوانین کو بدل کر سیکولر قوانین کے اجرا کی جدوجہد، اباحیت، عالمی ذرائع ابلاغ پر پیغمبرآخر الزمان کی ذات اقدس کا تمسخر،قرآن مجید کی علانیہ بے حرمتی اور اسلامی شعار کا مذاق،نیو یارک میں خانہ کعبہ کی شبیہہ پر شراب خانے کی تعمیر، امریکا میں چنگیز خان کے مجسمے کی تنصیب، افغان جیلوں، عراقی عقوبت خانوں اور گوانتاناموبے میں مسلمانوں پر مظالم اور سفاکیت،مظلوم فلسطینیوں اورکشمیریوں کے خلاف یہود و ہنود اور صلیبی قوتوں کے گٹھ جوڑ اور امریکا کی طرف سے امتیازی طور پر بھارت کے ساتھ سول نیوکلیر معاہد ے کے توثیق نے استعمار کے اصل مقاصد کو واضح کر دیا ہے جو عصر حاضر میں فرعونیت کی علامت ہیں۔

تاریخی طور پر فرعونی استعمار کے عزائم اور ان کی پالیسیوں کے ادراک کے لیے قرآن مجید ہمیں جو روشنی فراہم کرتا ہے اس کا سورۂ قصص میں یوں احاطہ کیا گیا ہے: ’’واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوںکو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا،اس کے لڑکوں کو قتل کرتااور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریںان لوگوں پرجو زمین پر ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنا دیں اور انھی کو وارث بنائیں۔اور زمین میں انھیں اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کاانھیں ڈر تھا‘‘۔ (القصص۲۸: ۴-۶) قرآن کے مطابق فرعونی استعمار کی پشت پر اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی (النازعات۷۹:۲۴) ’’میں ہی تمھارا پروردگارِ اعلیٰ ہوں‘‘کا استکبارکارفرماتھاجس کا وہ عوام میں اعلان کرتا پھرتا تھا۔   اسی لیے اس کو آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ کر اﷲ نے عبرت کا نشانہ بنا دیا ہے۔ہر ’فرعونے را موسی ‘کے مصداق اس مقصد کے لیے ’دشمن‘ کی پرورش فرعون کے محل میں ہوتی رہی۔ جب یک قطبی قوت کے حامل فرعون جارحیت کے مرتکب ہوئے اور ملکوں کو روند ڈالا: الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلاَدِo(الفجر۸۹:۱۱) اور دنیا کو فساد سے بھر دیا: فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ o (الفجر ۸۹:۱۲) تو پھر اﷲ نے اس پر اپنے عذاب کاکوڑا برسایا اور اسی ’دشمن‘ کے ہاتھوں اسے غرقاب کیا اور مستضعفین کو نجات دلا دی۔فرعون کی حنوط شدہ محفوظ لاش ۲۱ویں صدی کے مستعمرین کے لیے عبرت کی ایک کھلی نشانی ہے۔

قرآن مجید میں ایک ایسے ہی خود ساختہ عالمی نظام کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے جو مصر کے فرعونوں نے قائم کیا تھا‘ اس کے بنیادی عناصر کی نشان دہی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس نظام کے علَم برداروں نے زمین میں اپنی بڑائی قائم کی(اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ)، باشندگانِ ملک کو ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم کیا(جَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا)،کچھ لوگوں کو کمزور کیا اور ان کی نسل کشی کی (یَّسْتَضْعِفُ طَـآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئَ ھُمْ)اور زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے کے موجب ہوئے،(اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ- القصص ۲۸:۴)یہ نظام جو ہزاروں سال پہلے فرعون نے قائم کیا تھا اپنے اندر وہ تمام خصائص رکھتا ہے جو بعد میں سامنے آنے والے دوسرے عالمی نظاموں میں اپنائے گئے لہٰذا قرآن مجید کی رو سے ہر وہ خود ساختہ عالمی نظام فرعونی نظام ہے جو یہ مقاصد رکھتا ہو۔

مستقبل کا لائحہ عمل تعلیمات قرآنی کی روشنی میں

ماضی اور حال کے مستکبرین کے مکر و فریب اور چال بازیوں کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے : قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَاَتَی اللّٰہُ بُنْیَانَھُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْھِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِھِمْ وَ اَتٰھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَo (النحل۱۶:۲۶)’’ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں کر چکے ہیں تو دیکھ لو اﷲ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اُوپر سے ان کے سر پر آگری اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا ان کو گمان تک نہ تھا‘‘۔

قرآن مجید کی روشنی میں تکوین میں وقوع پذیر حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے سے احکام تشریع کے اطلاق میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا اور امت مسلمہ کے مخلص افراد ان تعلیمات کی روشنی میں آیندہ کا کوئی لائحہ عمل اور پالیسی ترتیب دینا چاہیں تو قرآن ان کے لیے ہدایت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ــ سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات میںبدعہد مشرکین کو چار ماہ کا نوٹس دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔جس کے اعلان کے لیے حج اکبر کے دن کا تعین کیا گیا تھا اس وقت ابوبکر صدیقؓ حج کے لیے نکل چکے تھے تو حضوؐر نے حضرت علیؓ کو بھیجا کہ مجمع عام میں حاجیوں کو سنائیں اور انھوں نے منیٰ کے اندر جا بجا یہ آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائیں‘ جب کہ حجاج کی قیادت بدستور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ میں ہی رہی:

’’اعلان براء ت ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے ان مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لواور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو‘ اور یہ کہ اللہ منکرین ِحق کو رسوا کرنے والا ہے ۔ اطلاع عام ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ   اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی۔اب اگر تم توبہ کر لوتو تمھارے ہی لیے بہتر ہے جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔اور اے نبیؐ! انکار کرنے والو ں کو سخت عذاب کی خوش خبری سنا دو بجز ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے پھر انھوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدتِ معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اﷲ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (التوبہ ۹: ۱ -۴)

دوسری جگہ حکم ہوا: فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ’’جب حرام مہینے (ذی القعد،ذی الحج،محرم اور رجب) گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ،قتل کر دو‘‘۔(۹:۵)

سورئہ توبہ کی آیات ۷ تا ۱۵ میں اس نوٹس کے پس منظر میں کفار کو ان الفاظ میں چارج شیٹ دی گئی ہے: ’’ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہو سکتا ہے‘ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا ـ۔ تو جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہوکیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے___مگر اُن کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہو سکتا ہے‘جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پاجائیںتو نہ تمھارے معاملے میںکسی قرابت کا لحاظ کریں اور نہ کسی معاہدے کی ذمہ داری کا؟ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کو شش کرتے ہیںمگر دل ان کے انکار کرتے ہیںاور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔انھوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی پھر اللہ کے راستے میں سدّراہ بن کر کھڑے ہو گئے۔بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔کسی مومن کے معاملے میں نہ یہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیںاور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا۔ اور زیادتی ہمیشہ انھی کی طرف سے ہوتی ہے‘‘۔(۹:۷-۱۰)

آگے چل کر اسی سورہ کی آیات ۱۳ ،۱۴ اور ۱۵میں یہ حکم دیا گیاہے :’’کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ ان سے لڑو‘ اللہ تمھارے ہاتھ سے ان کو سزا دلوائے گااور انھیں ذلیل وخوار کرے گااور ان کے مقابلے میں تمھاری مدد کرے گااور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا‘ اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا۔اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہیـ‘‘۔

بدعھدی کا انجام

بے شک معاہدات انسانی تعلقات کی قدیم ترین بنیادیں ہیں۔عمرانی زندگی میں اگر میثاق وعہد کی خلاف ورزی اور نقضِ عہد کو وطیرہ بنایا جائے تو قرآن کریم کی ہدایت کی روشنی میں بدترین فساد اور فتنہ لازمی ہوجاتا ہے۔اس لیے قرآن نے مخصوص صورت حال کے علاوہ عہد کی پابندی کا درس دیا ہے۔جس پیچیدہ صورت حال سے آج پاکستان اور عالمِ اسلام کے ممالک گزر رہے ہیں اور دہشت گردی کے حوالے کیے جانے والے معاہدات ہمارے حکمرانوں کے پاؤں کی زنجیریں بن رہے ہیں۔

تفصیل میں جائے بغیر صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کرنے والے مشرکین کی طرف اشارہ کافی ہوگاجو کہ اسلام اور اسلامی مملکت کو پنپتے دیکھ کر ہر بندش سے خود کو آزاد کر کے اسلام پر آخری وار اور مسلمانوں کو مطعون کرنا چاہتے تھے جس نے آنحضوؐر کو خلافِ معمول اسٹرے ٹیجی بدلنے پر مجبور کر دیا جو بالآخر قیصرِ روم کی شکست پر منتج ہوا۔ کیونکہ آنحضوؐر نے صریح بد عہدی کے بعد احزاب یعنی coalition forcesکو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔سورئہ انفال، سورئہ احزاب اور سورئہ توبہ میں تفصیل موجود ہے جو تاریخی تقابل اور واقعاتی تطابق کے حوالے سے موجودہ حالات سے موافقت رکھتے ہیں۔سورئہ انفال کی آیات ۵۵ تا ۵۸ کے تاکیدی ارشادات ملاحظہ ہوں:

یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیںجنھوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔(خصوصاً)ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اورذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔پس اگر یہ لوگ تمھیں لڑائی میں   مل جائیںتو ان کی ایسی خبر لوکہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں ان کے حواس باختہ ہو جائیں ۔ توقع ہے کہ بدعہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو اور برابر ہو جائو یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔

اتحادیوں کی عبرت ناک شکست

سورئہ احزاب میں ان اتحادی فوجوںکے انجام بد کی طرف نشان دہی کی گئی ہے جنھوں نے عظیم سلطنت روم کی شہ پر مسلمانوں سے لڑائی کی تھی اور ساتھ ہی یہودیوں کی سرکوبی کی بھی  نوید سنائی گئی ہے جو نہ صرف جزیرۃ العرب میں بدامنی پھیلانے کے ذمہ دار تھے بلکہ وہ عالمی سطح پر شروفساد کی پشت پناہی کرتے تھے اور غزوۂ احزاب کے روحِ رواں تھے۔ارشا د ہوا:

اللہ نے کفا ر کا منہ پھیر دیا‘وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یوں ہی نامراد پلٹ گئے‘ اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا‘ اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ پھر اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا‘ اللہ ان کی گڑھیوں سے انھیں اتار لایا اور ان کے دلوں میں اُس نے ایسا رعب ڈال دیا کہ آج ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہواور دوسرے گروہ کو   قید کررہے ہو۔ اس نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیااور وہ علاقے تمھیںدیے جسے تم نے کبھی پامال نہ کیا تھا۔اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (احزاب ۳۳:۲۵-۲۷)

ایک اور جگہ پر دین حق کی حتمی فتح کی بشارت دیتے ہوئے ارشاد ہوا:

اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(التوبہ۹:۶۱)

امت مسلمہ کے اھداف کا ازسرنوتعین

شریعت اسلامی کی ان اصولی ہدایات اور احکام کی روشنی میں اللہ کے رسولؐاور ان کے جاںنثار صحابہؓ نے جو تکوینی حکمت عملی اپنائی وہ رہتی دنیا تک تمام انسانیت کے لیے عموماً اور مستضعفین اہل ایمان کے لیے خصوصاً مشعل راہ ہیں۔لہٰذا موجوہ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں قرآن اور سیرت رسول کو اپنانا پڑے گا۔اور ہمیں ہر سطح پر اپنی عسکری اور سیاسی پالیسی اور حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہو گی اور یہی اقدام بدلتی دنیا میں امت مسلمہ کی حیات نو کی ضمانت ہو گی۔  شرع اسلامی میں تکوین میں وقوع پذیر تمام واقعات اور انسانی مسائل کا اصولی حل موجود ہے‘ تاہم اختصار کے ساتھ ان ہدایات کی طرف اشارہ کروں گا جو امت مسلمہ کو یک جہتی اور اپنے اہداف کے ازسر نو تعین میں راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

  •  اعلاے کلمۃ اللّٰہ: امت مسلمہ کا پہلا ہدف اعلاے کلمۃاللہ، یعنی کلمۂ حق کی بلندی ہونا چاہیے۔ ارشاد خداوندی ہے : تکون کلمۃاﷲ ھِیَ العلیا ’’ تاکہ اللہ کا کلمہ سربلند ہو جائے‘‘۔ قرآن کی مخالفت اور استہزا کے جواب میں امت کو تمسک بالقرآن والسنۃ کا رویہ اپنانا چاہیے تاکہ کلمۂ کفر سرنگوں ہو جائے اور طاغوتی طاقتیں اپنے انجام بد سے دوچار ہوں۔اللہ کے کھلے اور چھپے دشمنوں کو مرعوب کرنے کے لیے مسلمانوں کے لیے قوت اور ٹکنالوجی کا اصول ضروری ہے۔ ارشاد ہوا : ’’ان کے مقابلے کے لیے جہاں تک تمھارا بس چلے قوت فراہم کرو ‘‘۔
  •  اتحاد امت اور اصول رازداری: امت کا دوسرا ہدف مکمل اتحاد و یک جہتی ہونا چاہیے۔ ارشا د خداوندی ہے : وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳)’ ’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘۔

مسلمانوں کے درمیان افتراق اور انتشار کے اسباب فراہم کرناشیطانی چالیں ہیں۔ جغرافیائی و طبقاتی تقسیم،مذہبی و سیاسی تفریق ،نسلی اور لسانی امتیاز اور جنس اور رنگ کی بنیاد پر  تعصب و کش مکش کا خاتمہ صرف اعتصام بحبل اللہ کی لڑی میں پرونے اور اختلافات مٹانے میں پوشیدہ ہیں۔اس لیے اولین شرط یہ ہے کہ ہم دوسروں کو اپنا رازدار نہ بنائیں۔حکم ہوا ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ۔وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے۔تمھیں جس چیزسے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے، ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔ہم نے تمھیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں‘ اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتوگے)‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۱۸)یہ آیت مسلمانوں کے خفیہ اداروں کے لیے ایک رہنما اصول کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا intelligence sharing کے ڈھکوسلوں کا سہارا لینا ناعاقبت اندیشی اور خود کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔

  •  احترام آدمیت اور مظلوم انسانوں کی مدد: ارشاد ہوا : وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ،(بنی اسرائیل۱۷:۷۰)’’ہم نے بنی آدم کو فضیلت بخشی ہے‘‘۔

احترام آدمیت اور اولاد آدم کی یگانگت کا اصول ہمارا ہدف ہونا چاہیے ۔خدا کے آزاد بندوں کو اپنا بندہ بنانے کے لیے مستکبرین کی تگ و دو کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہونا اور مدد طلب کرنے پر دنیا بھر کے مستضعفین کی بلا امتیاز مدد کرنا اُمت ِمسلمہ کا طرۂ امتیاز ہونا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ، (انفال۸:۷۲) ’’اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے‘‘۔

  •  جھاد فی سبیل اللّٰہ: مستکبرین کے تمام غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کا توڑ صرف ڈپلومیسی سے ممکن نہیں بلکہ یہ جہاد فی سبیل اللہ سے ممکن ہے قرآن کریم میں اس کے لیے کئی مقامات پر تاکیدی احکامات موجود ہیں چند آیات کی طرف اشارہ کافی ہو گا ارشاد ہوا: اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا  وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ (الحج۲۲:۳۹) ’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے‘ کیوںکہ وہ مظلوم ہیں‘ اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے‘‘۔ دوسری جگہ حکم دیا گیا: اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (التوبہ ۹:۴۱)’’نکلو اللہ کی راہ میں خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور لڑو اللہ کی راہ میں اپنے مال وجان سے‘‘۔ یہ بھی ارشاد ہوا :وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا (البقرہ۲:۱۹۰)’’جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اﷲ کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا‘‘۔ ارشاد خداوندی ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ (التوبہ ۹:۷۳) ’’اے نبیؐ! تم کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کرو اور ان سے سختی سے پیش آؤ ‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ (الحج۲۲:۷۸)’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔

جہاد اور قتال وہ ہدف ہے جس سے رو گردانی ذلت و رسوائی کا باعث ہے۔ ما ترک قوم الجھاد الا ضلوا (حدیث)افغانستان اور عراق کے علاوہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد ہماری پالیسی کا جزولاینفک ہونا چاہیے تا کہ برہمن اور سامی النسل مستکبرین کا استکبار و غرور خاک میں مل جائے۔اور دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کو حوصلہ تازہ مل جائے۔قرآن کا حکم واضح ہے:’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوںکی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیںاور فریاد کر رہے ہیںکہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہماراکوئی حامی و مددگار پیدا کر‘‘۔ (النساء۴:۷۵)

  •  تیز رفتار ڈپلومیسی: مذکورہ بالا تکوینی حالات میں قرآنِ کریم کے احکامات ایک تیز رفتار ڈپلومیسی کے بھی متقاضی ہیں جس کا مقصد مقاتلین belligerents کو عالمی سطح پر تنہائی (isolation) کا شکار کرناہوگا لہٰذا ہدایاتِ الٰہی Divine Guidance کی روشنی میں عالمِ اسلام کی قیادتوں اور سفارتی حلقوں کو OICاور UNOکے پلیٹ فارم سے مستکبرین کی گرتی ہوئی عہد شکن طاقتوں کے سامنے اپنے واضح موقف کا اعلان کرنا چاہیے جس کے چیدہ نکات درجِ ذیل ہوسکتے ہیں:
  •     عالمِ اسلام کے خلاف امریکا اور برطانیہ اپنی امپیرئیل گرینڈ اسٹرے ٹیجی پر عمل درآمد فوری روک دیں۔
  •     افغانستان اور عراق سے اتحادی افواج کی چار ماہ کے اندر واپسی کا عمل شروع کرنے کو یقینی بنا یا جائے۔
  •      اسلام کو evil ideology اور انتہا پسند نظریے کی بنیاد پر ابلاغی پروپیگنڈے کا موضوع بنانے ، نیز قرآن اور شعائرِ اسلامی کی بے حرمتی کو روکا جائے۔
  •     بین الاقوامی تعلقات میں انصاف کے اصولوں کو بالاے طاق رکھ کر آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی سے منسوب نہ کیا جائے۔
  •    اسرائیل اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کی عالمی سطح پر حمایت بند کی جائے۔
  •     فلسطین اور کشمیر کی آزادی اور خود مختاری اور حقِخود ارادیت کو یقینی بنایا جائے۔
  • معاشرت اور معیشت کی تنظیم نو: عالم گیریت کے نام پر اسلامی معاشروں کی موجودہ ہیئت اور رویوں میں تبدیلی ،نجی اور سرکاری تنظیموں ،ابلاغ اور قوانین کے بل بوتے پر معاش کے وسائل کو ملٹی نیشنل اداروں کے حوالے کرنا ،اسلامی معاشرے کے معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کو کمزور اور بے عمل بنانا بالادست استعمار کے اہداف ہیں جس نے زیر دست معاشروں اور افراد کو ظلم ،نا انصافی اور استحصال کے سوا کچھ نہیںدیا۔بنا بریں قرآن کریم کی سورئہ حجرات اور دوسری آیات میں دی گئی ہدایات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی رویوں کی درستی ضروری ہے۔ اُمت مسلمہ کو اپنی معاشرتی زندگی میں بد گمانیوں کے بجاے حُسنِ ظن کے اصول کو اپناناچاہیے۔یتیموں، بے کسوں کی کفالت کو شعار بنانا چاہیے جو کہ اسلامی سماجی نظام کفالت کا لازمی جزوہے۔حقوق اللہ اور  حقوق العباد کی ادایگی میں مسلم معاشروں کو استقامت کا رویہ اپنانا چاہیے۔اولاد کے لیے حلال کی کمائی کو ترجیح دینا چاہیے ۔فرد اور معاشرے کی سطح پر لالچ خود غرضی اور بخل کے امراض سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سادگی اور انکساری کی زندگی پر کاربند ہونا چاہیے۔ گلوبلائزیشن کے ضمن میںملکی سطح پرمعاش کی جدوجہد میں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور منفی سرگرمیوں کی حا مل این جی اوز کا آلہ کار بننے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سودی معیشت کا خاتمہ اور ملکی اور عالمی سطح پرمسلم اداروں کے استحکام کو ہدف بنانا چاہیے۔سفارتی تعلقات اور امت مسلمہ کی آپس میں تجارت کے فروغ اور مشترکہ منڈی کے قیام کے لیے جدو جہد کرنا چاہیے اور ڈالر اور یورو کے مقابلے میں مسلم ممالک کے لیے مشترک طلائی سکہ رائج کرنا چاہیے اور امت مسلمہ کو ان مقاصد کے حصول کے لیے مسلم ریڈیو و ٹی وی چینل کے قیام اور ابلاغی اداروں کی اصلاح کو ہدف بنانا ہو گا۔معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے ابلاغی پالیسی مرتب کرنا ہو گی تا کہ ابلاغ حق اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ریاستی سطح پر انجام دیا جاسکے۔

جدید معاشی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ امریکا اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد‘ ادارہ تحقیقات اسلامی‘ آئی آئی یو جیسے مراکزِدانش کی  سائنٹی فک تحقیق اور عالمِ اسلام کے دینی و اصلاحی تحاریک کی اجتماعی دانش سے استفادہ کیا جائے اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے لیے بھی تحاریکِ اسلامی کے تربیت یافتہ کارکن مزّکی کا کردار اداکر سکتے ہیںتاکہ اجتماعی عمل معاشرے میں عملِ صالح کے قالب میں ڈھل جائے۔ اور عالمی بستی میں خیر کو شرپر غلبہ حاصل ہو سکے نیز عدل و احسان پر مبنی فلاحی ریاست کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو۔تطہیرِ افکار اور تعمیرکردار کا یہ کام جدید ترکی کو ماڈل بنانے سے حاصل نہیں ہوسکتا  لہٰذا ماضی کے استعماری قوانین کو جاری رکھنے کے بجاے پاکستان کی اسلامی آئینی شناخت کو بر قرار رکھا جائے، خاندان کی اکائی اور مشرقیت کا تحفظ کیا جائے،عورتوں کی اسمگلنگ اور flesh trade کا راستہ روکا جائے، این جی اوز کے پریشر گروپس اور ملٹی نیشنل لابیوں کی ترغیبی وترہیبی حربوں کے سامنے   گھٹنے ٹیک کر متفرق نہیں ہوا جائے۔ لہٰذا پروپیگنڈے کے بجاے حقائق کو مدِنظر رکھا جائے تو ۳۰نومبر کو منظور ہونے والا حقوقِ نسواں کا ناقص بل پاکستان کی آئینی اور اسلامی اہداف کے حصول کے مقصد کو پورا نہیں کرتا۔لہٰذا حقوقِ نسواں اور جنسی امتیاز کا مسئلہ آسمانی ہدایت وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(البقرہ۲:۲۲۸) ’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں‘‘کی بنیاد پر حل کرنا ہوگا‘‘۔ عورتوں کے اور ان کے ناموس کی حفاظت کے لیے سورئہ نساء اور سورئہ نور کی روشنی میں قانون سازی حقوق نسواں کے تحفظ کو یقینی بنا کر معاشرے میں عورت کو عزت کا مقام عطا کر سکتا ہے۔

  •  تنظیمِ نو کا عالم گیر ماڈل: معاشی اور معاشرتی رویوں کی اصلاح اور تنظیمِ نو کے سلسلے میں ہمیں نمونے کے طور پر سیرتِ رسولؐ سے رہنما اصول اخذ کرنے ہوں گے کیونکہ قرآن کریم ہدایت کو اتباعِ رسول کے ساتھ مشروط کرتا ہے ۔وَاِنْ تُطِیعُوْہُ تَھْتَدُوْا (النور ۲۴:۵۴)’’ اگر تم رسولؐ کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے‘‘۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب۳۳:۲۱)’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا‘‘۔

سیرتِ رسولؐ میں ہمیں دین و دنیا کی جدائی کا تصور نہیں ملتا بلکہ آخرت کے مقاصد یعنیends کے حصول کے لیے دنیا کے وسائل کا استعمال سیرتِ نبویؐکا ایک اہم پہلو اور قرآن کی اس تعلیم کا نچوڑ تھا : وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا (القصص ۲۸: ۷۷) ’’اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو‘‘۔ اُخروی مقاصد کی خاطر دنیا کے وسائل برتنے کے آسمانی اصولوں اور پیغمبرانہ ضابطے کو اصطلاح میں ’شریعت ‘ کہتے ہیں۔اس لیے آنحضوؐر نے دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا: الدنیا مزرعۃ الآخرۃ۔ ماڈل کے طور پر سردارِ دو عالم کے دونوں جہاں میں واحد کامیاب رہنما کی شہادت خود مغرب کے مفکرین بھی دیتے ہیں۔مائیکل ایچ ھارٹ (Michael H.Hart) سو عظیم تاریخ ساز شخصیات کی درجہ بندی میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے نمبر پر شمار کر کے رقم طراز ہے:

محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تاریخ میں وہ واحد شخصیت ہیں جو دین اور دنیا دونوں سطحوں پر سب سے زیادہ کامران اور کامیاب قرار پائے۔

عالم گیریت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں سرکارِ دوعالمؐ سے بڑھ کر کوئی اورعظیم قائد نہیں مل سکتا جس کی تعلیمات زمینی اور زمانی قیود سے آزاد ہوںاورجس تک پہنچنا کامیابی کی دلیل ہو۔ اسی لیے شاعرِ مشرق نے فرمایا ہے:    ؎  بمصطفیٰؐ برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست

  • خلافت کا قیام : آفاق میں دینِ حق کے غلبے کی واحد صورت زمین پر خلافت علی منہاج النبوۃ کا احیا ہے۔ ماضی کے استعمار کا پہلا ہدف مسلمانوں کی ٹوٹی پھوٹی خلافت کا خاتمہ تھاجسے ۱۹۲۴ء میں سرانجام دیا گیا ۔ لہذا عصر حاضر کے بحران سے نمٹنے کے لیے امت مسلمہ کا اصل ہدف سیاسی طور پر اجتماعی خلافت کے نظام کا قیام ہونا چاہیے جو حق و انصاف اور نیابت الٰہی کے اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔دور جدید میں ریاستی اداروں کی سطح پر مقننہ،عدلیہ،انتظامیہ اور پریس اور سفارتی و دفا عی اداروں کو ہر حال میں شرعی تقاضوں کا پابند ہونا چاہیے اوراسلامی ممالک اپنے آئین اور قوانین کو اسلام کے دیے ہوئے قرارداد مقاصد کے تحت مرتب کریں۔اجتماعی قیادت ان خامیوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے جو جمہوریت اور آمریت اور شخصی حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ خلافت کے ضمن میںماضی کے تحقیقی کام کو ضابطے کی صورت میں مرتب کرنا ہو گا اس مقصد کے لیے عالمِ اسلام کی سطح پر مسلم اور مخلص مراکز دانش (ThinkTanks)کا قیام ضروری ہے ۔مسلمانوں کی خلافت ِارضی کے حوالے سے قرآن کریم کا ارشاد ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْم بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا (النور۲۴:۵۵) اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا  ہے‘ ان کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میںپسند کیا ہے‘ اور اُن کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا۔

بلا شبہہ اصول جہان بانی اور دنیا کو امن آشتی اور انصاف کی فراہمی کے لیے مسلمانوں کے لیے شریعت کے مقرر کردہ اہداف کا حصول شرط اولین ہے جس سے صرف ِنظر کر کے وہ دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام نہیں حاصل کر سکتے۔

  •  مسلم ورلڈ آرڈر کی تشکیل: ۲۱ویں صدی میں نیو رورلڈ آرڈر کے خاتمے اور مستکبرین کی گرینڈ اسٹرے ٹیجی کے انہدام کے صورت میں دنیا ایک عالمی بحران سے دوچار اور    نظامِ حیات میں ایک بڑا خلا رونما ہو نے والا ہے ۔ اﷲ کی مدد سے اس خلا کو پر کرنے کے لیے  قرآن و سنّت کے مطابق ایک اعلیٰ اسٹرے ٹیجی اور ارفع حکمتِ عملی action plan کی ترتیب اور دنیا بھر کے ستائے ہوئے مستضعفین کو امن اور انصاف کی فراہمی دراصل وہ چیلنج ہے جس سے عنقریب امتِ مسلمہ کو نبرد آزما ہونا ہے۔ مسلمانوں کی ترقی اور ان کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے مصالحتی کمیشن Inter muslim conflict resolution  جیسے ادارے تشکیل دے کر حل کیا جائے جس کے لیے قرآن سے یہ بنیاد فراہم کی ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات۴۹:۱۰)  ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘ لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو‘‘۔

بلا شبہہ سیرتِ نبویؐاور سیرتِ خلفاے راشدینؓ کی روشنی میں ایک بے لوث مجاہد قیا دت کی فراہمی،صلاحیت و صالحیت کی دو دھاری صفات سے متصّف سول و ملٹری انتظامیہ کی تشکیل،   ایمان دارانہ اور بے لاگ نظامِ قضاۃ کا قیام نیز سچائی کے علَم بردار دیانت دار میڈیا مینیجرز اور مخلص باصلاحیت سفارت کاروں کی فراہمی کو یقینی بنا کر ہی امتِ مسلمہ اس چیلنج سے عہد ہ برآ ہو سکتی ہے۔ نصر من اﷲ و فتح قریب