کتابوں میں لکھا ہے کہ کسی حکومت کی کارکردگی جانچنا ہو تو دیکھو کہ اُس ملک کے شہریوں کی جان‘ مال اور آبرو کتنی محفوظ ہے۔ نواب شاہ کی غریب لڑکی سکینہ پر ایک وڈیرے کا بیٹا رات کو گھر میں گھس کر تیزاب ڈال جاتا ہے اور اُسے یقین ہے کہ کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ ایک فوجی ایتھلیٹ فیصل آباد سے ایک ایتھلیٹ لڑکی کو ملازمت دلانے کے بہانے لاہور بلاتا ہے اور اگلی صبح ہوٹل سے اس کی لاش ملتی ہے۔ اس کے بعد اس کا ذکر اخبارات سے غائب ہوجاتا ہے۔ اجتماعی آبروریزی کی کوئی بہت ہی لرزہ خیز واردات ہو اور سیاسی مصلحت آڑے نہ آرہی ہو تو وزیراعلیٰ جاکر ہمدردی کے دو بول بولتے ہیں اور ایک دو لاکھ روپوں سے زخموں پر نمک چھڑک آتے ہیں۔ یقینا اخبارات میں سیکڑوں میں سے چند ہی واقعات آپاتے ہیں۔
مال کی حفاظت کایہ عالم ہے کہ کراچی جیسے شہر میں گاڑیاں اور موبائل چھیننے کے واقعات سیکڑوں ہوتے ہیں (گذشتہ برس موبائل چوری میں مزاحمت پر ۴۰ شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے) اور مجرم آٹھ دس بھی نہیں پکڑے جاتے۔ گھروں میں ڈاکو دستک دے کر آتے ہیں اور گھروں کا صفایا کرجاتے ہیں۔ صاحبِ خانہ مزید لٹنے کے لیے تیار نہیں‘ اس لیے پولیس میں رپورٹ درج نہیں کراتے۔ بنکوں سے رقم لے کر نکلنے اور جمع کرانے آنے والوں کا لٹنا معمول کی بات ہے۔ بسوں اور ریل گاڑیوں میں سوار ہوکر اور ناکے لگاکر باوردی ڈاکو کئی کئی گھنٹے کارروائی کرتے ہیں اور کوئی پوچھنے نہیں آتا۔ کئی موقعوں پر تو وردی جعلی نہیں‘ اصلی پائی گئی۔اگر معاشرے میں جان کی حفاظت کا عالم دیکھنا ہو تو اخبارات میں قتل کی وارداتوں کی کثرت پر نظر ڈالیں۔ کوئی تحقیق کار ملک بھر کے اخبارات سے صرف ایک دن کا چارٹ بنالے تو تعداد تین ہندسوں تک پہنچ جائے گی۔
اس مہذب اور ترقی یافتہ دور میں قانون کی حکمرانی‘ یعنی Rule of Law کا بڑا ذکر ہے۔ عدالتوں کا پورا نظام‘ پولیس کا ہمہ دم مزید سہولتیں پانے والا محکمہ اسی لیے ہے لیکن قانون کی حکمرانی کا عالم دیکھنا ہو تو یہ دیکھیے کہ اس ملک کا بزعم خود صدرجلسۂ عام میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم چلاکر دن دہاڑے دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیرتا ہے‘ اور ڈنکے کی چوٹ بکھیرتا ہے لیکن کسی الیکشن کمیشن کے کان پر جوں نہیں رینگتی اور نہ کسی عدالت کو سوموٹو کا خیال آتا ہے اور نہ کوئی شہری فریاد لے کر جاتا ہے‘ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ ایسی فریاد کی شنوائی نہ ہونے کی روایت محکم ہے اور فریاد کرنے والے کا حشر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے قانون توڑنے والے صدر کو ۱۰ بار بلکہ ۱۰۰ بار باوردی منتخب کرنے کا‘ چہرے پر کسی شرم کا تاثر لائے بغیر‘ اعلان کرنے والے بھی موجود ہیں۔
جان‘ مال اور آبرو کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی سے غافل بلکہ اس کی دشمن حکومت کی کارگزاری پر نظر ڈالی جائے تو صحافی اغوا ہورہے ہیں‘ قتل ہورہے ہیں‘ لاپتا افراد کے ورثا احتجاج کرتے کرتے تھک گئے ہیں‘ عدالت عظمیٰ بھی بے بس ہے۔ اتنی پولیس اور فوج دھماکے روکنے میں ناکام ہے لیکن میڈیا سے راگ الاپے جا رہے ہیں کہ سب چین ہے اور پورے ملک میں زبردست معاشی ترقی ہورہی ہے‘ دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں (خودکشی اور بچے فروخت کرنے کی خبروں کو ایک طرف رکھیں)۔ معاشی ترقی ضرور ہو لیکن ایسا بھی کیا کہ اُس کا خبط ہوجائے اور ترقی بھی بس یہ کہ ہم کسی طرح امریکا و برطانیہ کی طرح ہوجائیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی سوچ نہیں‘ کوئی نصب العین نہیں۔ آزادی کے ۶۰سال بعد بھی غلام کے غلام! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون!
بات صرف معاشی ترقی کی نہیں۔ دوسرا خبط اپنی دینی اور معاشرتی اقدار و روایات کو ترک کرکے ہرطرح سے مغرب کے سانچے میں ڈھل جانے کا ہے۔ اس کا اظہار صرف میراتھن ریس سے نہیں بلکہ ہر سرگرمی سے ہوتا ہے( بسنت‘ سیاحت کا سال‘ ہر وقت ناچ گانے…)۔ حال ہی میں ریڈیو پاکستان جیسے قومی ادارے کی تقسیم ایوارڈ کی تقریب منعقد ہوئی‘ جس میں شوکت عزیز‘ محمد علی درانی اور اشرف قاضی جیسی ہستیوں کی مسکراہٹوں کی جلو میں گلوکارائیں حاضرین کو اُٹھنے اور ناچنے کی اور بیٹھے بیٹھے بھنگڑا ڈالنے پر ہر طرح کے انداز و ادا سے اُبھارتی رہیں۔
کیا ہم اللہ تعالیٰ کی نظروں میں واقعی اس حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے بدترین لوگ ہم پر مسلط کردیے گئے ہیں! وہ حکومت جس کے لیے دستور پاکستان میں یہ ہدایت مرقوم ہے کہ اپنے شہریوں کی زندگی کو قرآن وسنت کے مطابق گزارنے میں تعاون کرے گی‘ اس کی ساری پالیسیاں اس کے خلاف ہیںاور کسی شرمندگی کے ساتھ نہیں‘ ببانگ دہل خلاف ہیں۔ اس کے لیے سارے قومی وسائل بے دردی سے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
ایک محدود اقلیت طاقت و اختیار کے سرچشموں پر قبضہ کرکے اور عالمی سازشوں میں حصہ دار بن کر ملک کی اکثریت کا قبلہ و کعبہ بدلنے کے درپے ہے۔ کیا اسے ایسا کرنے دیا جائے؟ اس اقلیت کے سرخیل اپنے اُوپر ’اعتدال پسندی‘ کا جھوٹا لیبل لگاکر پروپیگنڈے کے بل پر حقیقی اکثریت کو اقلیت ہونے کا یقین دلا رہے ہیں۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اقلیت کے لیے‘ حکومت و اختیار کے باوجود بھی‘ یہ ممکن کیوں ہے؟
اس کا سبب یہ ہے کہ معاشرے میں جو مجموعی خیر ہے‘ وہ منظم نہیں‘ اس لیے مقابلے پر نہیں آتا اور برائی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ اس اقلیت کی طاقت کا راز اکثریت کی نیکی کا غیرمنظم ہونا ہے۔ جو آدمی خود کو نیک سمجھتا ہے‘ وہ اس سے آنکھیں بندکرلیتا ہے کہ معاشرے کا شر اس کے ماحول کو اور آس پاس افراد بلکہ اُس کی آل اولاد تک کو گھیرے میں لے رہا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ جب تک یہ حکمران تبدیل نہیں ہوں گے‘ معاشرہ صرف دعائوں سے نہیں بدلے گا۔ خیر کی بہت ساری کوششیں علیحدہ علیحدہ منظم ہیں لیکن مجموعی طور پر منتشر ہیں‘ اس لیے بے اثر ہیں۔ دراصل حکمران طاقت کو تبدیل ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خیر کی طاقتیں مجتمع ہوں‘ ورنہ منظم برائی کے آگے غیرمنظم نیکی شکست کھا جائے گی اور مغلوب ہوجائے گی۔ اس وقت تو چیلنج بھی دیا جارہا ہے کہ مقابلے کا سال ہے‘ ان نیکوکاروں کو فنا کردو۔ اس کا ایک جواب یہ ہوسکتا ہے کہ پورے ملک کے ہر قریہ و شہر کی ہر چھوٹی بڑی مسجد کے سب نمازی ہر روز مغرب کے بعد باہر آئیں اور بازار میں کھڑے ہوکر مرگ بر امریکا کی طرز کا نعرہ تین دفعہ لگا کر منتشر ہوجائیں۔ یہ لَے بڑھتی جائے اور یہ نعرے ملک کے طول و عرض میں ۳۰‘ ۳۵ منٹ گونجیں تو بدی کے علَم برداروں کے اعصاب جواب دے جائیں گے۔ ایسا وقت آگیا ہے کہ نیک لوگوں کو‘ سب نیک لوگوں‘ مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے تاکہ بدی اور فساد کے علَم بردار شکست کھاکر اپنے بلوں میں واپس جائیں۔ ہماری خون پسینے کی کمائی ‘ ہمارے فراہم کردہ وسائل ہماری دنیا اور آخرت خراب کرنے کے لیے استعمال نہ کریں۔
قرآن صرف اس لیے نازل نہیں ہوا کہ لوگ نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں اور رسولؐ اللہ بھی صرف نماز روزوں کے لیے نہیں آئے تھے۔ نماز‘ روزہ ضروری ہیں لیکن ان کی بنا پر وہ قوت پیدا ہونا چاہیے جو بدی کو برداشت نہ کرے اور نیکی کو نافذ کرنے کے لیے ہرطرح کی تدابیر کرے اور کامیابی حاصل کرنے تک چین سے نہ بیٹھے۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نیکی کے محدود تصور پر قانع ہیں اور قرآن کے پیغام اور اُسوۂ رسول ؐ سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔اس کے باوجود بھی معاشرے میں اتنا خیر ہے کہ بدی کی طاقتیں حکومتی وسائل‘ فوج‘ پولیس‘ اقتدار‘ عالمی سرپرستی وغیرہ سے محروم ہوں‘ اور ملک کے سیکولر عناصر کا دین اسلام کے غلبے کے خواہاں لوگوں سے منصفانہ مقابلہ ہوتو بڑے بڑے طرّم خاں دم دبا کر بھاگتے نظر آئیں گے۔ وہ اپنے عوام کی عظیم مسلمان اکثریت پر چڑھ دوڑنے کے لیے وردی اور اسلحے کے محتاج ہیں۔ یہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی لیے شفاف انتخابات کی ہرتجویز کو رد کرتے ہیں اور اپنے مذموم عزائم کے سرپرست بیرونی ماہرین سے انتخابات منصفانہ ہونے کا سرٹیفیکٹ لیتے ہیں۔
تبدیلی آئے‘ معاشرے کا خیرحکومت کے ایوانوں تک پہنچے‘ حکومت دستور اور قرارداد مقاصد کے تقاضوں کو اخلاص اور جذبے سے پورا کرے‘ تب ہی اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی اور شہریوں کی جان‘ مال اور عزت وآبرو محفوظ ہوگی۔ پولیس فرض شناس ہوگی۔ عدلیہ کو معلوم ہوگا کہ اگر وہ ممانعت کردے گی تو کوئی آرڈی ننس بسنت منانے کی اجازت نہیں دے گا‘ کوئی آبروریزی کی جرأت کرے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ اسی شام یا اُسی ہفتے اُسے تختہ دار پر لٹکنا ہوگا۔ ایسا ہوجائے تو پھر یہ ملک ہمارے لیے اور ہماری آیندہ نسلوں کے لیے رہنے کی جگہ ہوگی اور ہم یہاں پُرسکون زندگی گزار کر آخرت میں بھی سرخ رو ہوسکیں گے۔ان شاء اللہ!