مارچ۲۰۰۷

فہرست مضامین

حقیقی بنیاد پرستی کے خدوخال

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | مارچ۲۰۰۷ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

اگر گذشتہ دو صدیوں میں مغربی مستشرقین اور مغرب زدہ مسلمان دانش وروں کی تحریرات کا جائزہ لیا جائے تو دونوں گروہوں کا اس بات پر اجماع نظر آتا ہے کہ وہ تحریکات اسلامی کی دعوتِ اصلاح اور تبدیلیِ زمام قیادت کو Political Islam اور کسی شدت پسند مذہبی ٹولے کے اقتدار پر قابض ہوجانے یا تھیوکریسی (theocracy) کے غلبے سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح عقیدے کی اصلاح کی ہر تحریک کا رشتہ جزیرہ نماے عرب کے معروف مجدد محمدبن عبدالوہاب کی تحریک سے جوڑ کر اسے وہابی تحریک قرار دیتے رہے ہیں‘ ماضی میں بھی یہ حربہ استعمال ہوتا رہا ہے۔سیداحمدشہید کی تحریک نفاذ شریعت و خلافت کو ہندستانی وہابی تحریک کا خطاب دے دینا۔ دورِجدید میں اس فکر میں ایک جزوی تبدیلی یہ واقع ہوئی کہ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں بیرونی سامراج سے سیاسی آزادی کے حصول کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور پاکستان‘ مصر‘ سوڈان‘ اُردن‘ انڈونیشیا اور ملایشیا میں اُبھرنے والی تحریکات اسلامی نے سیاسی آزادی کے ساتھ فکری‘ ثقافتی‘ معاشی اور قانونی آزادی کے حصول کے لیے نوآزاد ممالک میں نفاذ شریعت اور دستوری اصلاحات کی تحریکات کا آغاز کیا۔ آزادی کا تصور محض بیرونی استعمار سے سیاسی آزادی تک محدود نہ تھا بلکہ اپنے دین اور ثقافت کے مطابق اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کی آزادی اس کا مرکزی نکتہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نئی مملکت کے قیام میں آنے کے ساتھ ہی اسلامی دستور اور اسلامی نظامِ معیشت و معاشرت کے قیام کی جدوجہد شروع کردی گئی۔ یہ جدوجہد بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے قوم سے کیے گئے وعدے اور ان کے ۵۰ سے اُوپر خطابات میں دہرائے گئے عزم کا ایک منطقی نتیجہ تھی۔ گویا جو کام بانیِ پاکستان اپنی حیات میں پایہ تکمیل کو نہ پہنچا سکے پاکستان میں نفاذ نظامِ اسلامی اور شریعت کے نفاذ کی تحریک اسی مقصد کے حصول کی جدوجہد تھی۔

اسلامی تحریکات کی اس جدوجہد کو مغربی سامراجی ذہن نے جو محض مغرب تک محدود نہ تھا بلکہ خود مسلم ممالک میں برسرِاقتدار طبقے میں بھی‘ جس کی ذہنی تربیت مغربی نظام تعلیم میں ہوئی تھی‘ روایتی تصورِ مذہب کی روشنی میں یہ تصور کرلیا گیا تھا کہ تحریکاتِ اسلامی کے نظام اسلام کے نفاذ کا نتیجہ دور جدید کی ایجادات کو تین طلاقیں دینے کے بعد بجلی اور انجن کی ایجاد سے قبل کے زمانے کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ان کے اس خیال کا بظاہر سبب یہ تھا کہ وہ اسلام کو بھی عیسائیت پر قیاس کرتے ہوئے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اسلامی نظام کا مطلب ایک مخصوص بنیاد پرست مذہبی ٹولے کی اجارہ داری ہے اور جس طرح یورپ میں کلیسا نے تھیوکریسی کی شکل میں سائنسی تحقیقات اور جدید افکار کا راستہ روکا تھا ایسے ہی ’مذہب‘ کے نام پر جو کام بھی کیا جائے گا اس کا نتیجہ پاکستان ہو یا مصر و سوڈان‘  ترقیِمعکوس کی شکل میں ظاہر ہوگا۔

بعض سادہ لوح افراد نے تحریکات اسلامی کے تبدیلیِ اقتدار اور اصلاحِ نظام کے مقصد کو روایتی مذہبی سوچ کی بنا پر روحانیت کے منافی ایک سیاسی نعرہ سمجھا‘ اور وہ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ اگر بات قلبی جِلا اور تزکیے کی ہو تو یہ چیز اسلام کی روح کے مطابق ہے لیکن اگر الہامی ہدایت‘ دین اور اخلاقی اقدار و احکام کی روشنی میں سیاسی‘ معاشی اور قانونی تبدیلی کی ہو تو پھر یہ سیاست ہے ۔ مزید یہ کہ اگر اسلام کو سیاسی‘ معاشی اور دیگر شعبوں میں نافذ کیا گیا تو مروجہ نظام (status quo) درہم برہم ہوجائے گا اور شاید اس کے نتیجے میں ان کا اقتدار و اثر باقی نہیں رہے گا۔ یہ قیاس کرتے ہوئے انھوں نے یہ زحمت بھی نہ کی کہ تحریکات اسلامی کی دعوت کا براہِ راست مطالعہ و مشاہدہ کرکے مبنی برحقائق راے قائم کرتے۔ یہ حضرات فرد کی ذاتی اصلاح کے توقائل رہے لیکن دین کو ’مذہب‘ سمجھنے کی وجہ سے مذہب کے معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی کردار کو ہضم نہ کرسکے اور غلط العام اصطلاح ’بنیاد پرستی‘ یا ’سیاست زدہ دین‘ کا عکس تحریکات اسلامی میں دیکھنے لگے۔

یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ تحریکات اسلامی نے کسی لمحے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ رجعتی تحریکات ہیں بلکہ روزاوّل سے دعوت و اصلاح کو ایک اجتہادی عمل سمجھا‘ لیکن ان تحریکات کے اپنے بارے میں یہ اعلان کرنے کے باوجود کہ ان کا مقصد تجدید و اصلاح ہے اور وہ جدید علوم  و ٹکنالوجی کے حصول کو اسلام کے نفاذ کی مہم کا حصہ سمجھتی ہیں۔ ان تحریکات کے بارے میں یہ بات پھیلا دی گئی کہ یہ قدامت پرست اور محض روایت کی علَم بردار تحریکات ہیں۔

اس کے مقابلے میں یورپ و امریکا کی بعض معروف سیاسی پارٹیوں کے اپنے بارے میں اس اعلان کے باوجود کہ وہ روایت پرست اور رجعتی ہیں انھیں بنیاد پرست قرار نہیں دیا جاتا۔ بڑی واضح مثال امریکا کی جی او پی یا ری پبلکن پارٹی ہے جس کی سربراہ آج کل neo-conservative فرقے کے ’امامِ حاضر‘ بش اصغر ہیں۔ یہ پارٹی اپنی قدامت پرستی کے اعلان کے باوجود آج تک fundamentalist یا extremist یا terroristکے نام سے نہیں پکاری گئی۔ ایسے ہی برطانیہ  کی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک قدامت پسند اور دوسری لبرل ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور اسی بناپر ووٹ بنک میں اپنا اثر بڑھاتی ہے لیکن کسی مغربی مفکر نے ان کے لیے fundamentalist کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تحریکات اسلامی کے لیے جو اجتہاد کو اپنا منہج قرار دیتی ہیں‘ اس اصطلاح کا استعمال نہایت فیاضی سے اور بے محل کیا جاتا رہا ہے۔

بنیاد پرستی

اس سوال کے جواب سے قبل مناسب ہوگا کہ بنیاد پرستی کے مفہوم پر چند لمحات کے لیے غور کرلیا جائے۔

حقیقت واقعہ یہ ہے کہ تحریکات اسلامی جس قرآن و سنت پر مبنی اسلام کی دعوت دیتی ہیں وہ کھلے الفاظ میں غلو‘ روایت پرستی اور آبا پرستی کا رد کرتا ہے۔ روایت پرستی کے بارے میں قرآن کا تبصرہ ہے: ’’ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے‘‘ (البقرہ ۲:۱۷۰)۔ قرآن کریم ان کے طرزِعمل اور ذہنی ساخت کے بارے میںبتاتا ہے کہ روایت پرستی اور بزرگوں کی اندھی پیروی میں وہ ایسے مقام تک چلے جاتے ہیں کہ ’’یہ لوگ جب کوئی شرم ناک (فحش) کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے (الاعراف ۷:۲۸)۔ (مزید ملاحظہ ہو الزخرف ۴۳:۲۳)

۲۱ویں صدی میں بھی آبا پرستی کی مثالیں روز دیکھنے میں آتی ہیں۔ یورپ اور امریکا میں ہم جنس پرستی کی تحریک حضرت لوطؑ کی قوم سے اپنے فکری اور نسلی رشتہ کو جوڑ کر اپنے شرم ناک عمل کو انسانی حقوق اور آزادی کا نام دیتی ہے اور ہم جنس پرست اپنے عالمی اجتماعات منعقد کرتے ہوئے فخر سے اپنے غیرفطری عمل کو عین مطابق ’اخلاق‘ قرار دیتے ہیں۔ اپنی اصل اور تاریخ سے ناواقف بعض حضرات اس ملک عزیز میں بھی قبل اسلام کی ہندو اور بدھ تہذیبوں سے آبائی رشتہ جوڑنے کو روشن خیالی کا نام دیتے ہیں اور بسنت اور ویلنٹائن ڈے جیسے مشرکانہ تہواروں کو منانے میں بھی تکلف محسوس نہیں کرتے۔

قرآن کریم ہر آباپرستی اور روایت پرستی کو شدت سے رد کرنے کے ساتھ اپنے قاری کو  عقل و فہم کی بنیاد پر زندگی کے ہرمعاملے میں اخلاقی فیصلہ کرنے کی دعوت دیتا ہے اور شعورو آگہی کی بنیاد پر نظامِ حیات کو چلانے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسلام کا تصور حلال و حرام ایک اخلاقی‘ شعوری‘ ارادی اور قانونی عمل ہے۔ زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ ہو یا اہم ترین ریاستی امور‘ معاشی پالیسی ہو یا ابلاغ عامہ کی حکمت عملی‘ پانی کا ایک گھونٹ کا پینا ہو یا کسی ملک کے ساتھ صلح و جنگ کا معاملہ‘ اس کاحتمی فیصلہ کسی فردِواحد کی عقل پر چھوڑنے کے بجاے قرآن و سنت کے معیار پر اور حلال و حرام کی بنا پر طے کرنا پڑتا ہے۔ یہ اُمت مسلمہ کی سادہ لوحی ہے کہ اس نے حلال و حرام کو ذبیحہ یا طلاق بائن سے وابستہ کر کے حلال و حرام کے دائرے کو اپنی کوتاہ عقلی کی بناپر محدود و مقید کر دیا ہے‘ جب کہ قرآن و سنت نے دین کے حرکی تصور کی بنا پر اور روایت پرستی کا رد کرتے ہوئے تمام معاملات میں انسانی فیصلوں کے لیے قرآن و سنت کے عالم گیر اصولوں کی روشنی میں عقل اور مشاہدے کی بنیاد پر فیصلہ کرنے اور حکمت عملی وضع کرنے کی تعلیم دی ہے۔ تحریکات اسلامی کا یہی امتیاز ہے کہ وہ     اپنی حکمت عملی طے کرتے وقت چاہے اس کا تعلق دیگر جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد سے ہو‘ کسی خاص معاملے پر تعاون سے متعلق ہو یا کسی مسئلے پر اصولی فیصلہ ہو‘ حلال و حرام کی کسوٹی پر پرکھ کر طے کرتی ہیں کہ ان کا فیصلہ کہاں تک مقاصدِ شریعت کو پورا کرتا ہے اور کہاں تک مصالح عامہ اور سیاستِ شرعیہ سے مطابقت رکھتا ہے۔

تحریکات اسلامی کے اس اجتہادی ذہنی عمل اور حلال و حرام کے حوالے سے وسیع تر تصور سے ناواقفیت‘ اور ایک حد تک خود تحریکات اسلامی کی طرف سے ان کی اس حکمت عملی کی مناسب انداز میں وضاحت نہ کرنے کے سبب مغربی مستشرقین اور ان سے تربیت پانے والے مسلمان یہ فرض کرلیتے ہیں کہ تحریکات اسلامی جو قرآن و سنت کی صداقت‘ کمال اور عملیت پر یقین رکھتی ہیں‘ ان کا ذہنی سفر ساتویں صدی پر آکر رک گیا ہے اور یہ تحریکات تاریخ کی قید میں گرفتار ہیں۔ ظاہر ہے تحریکات اسلامی اور اسلام کے بارے میں اگر بنیادی مفروضہ ہی غلط ہو تو حدآسمان اس پر تعمیر ہونے والا قیاسی محل ٹیڑھا ہی ہوگا اور اس کی کلیں سیدھی کیوں ہوں گی۔ نتیجتاً مغرب اور مغرب زدہ ذہن کے اخذ کردہ نتائج بظاہر مربوط ہونے کے باوجود بنیاد کے غلط ہونے کی بنا پر اسلام اور تحریکات اسلامی کی منفی‘ رجعت پسندانہ اور جامد تصویر پیش کرتے ہیں۔

بنیاد پرستی کی پھچان

بنیاد پرستی کی ایک نمایاں پہچان اور صفت اس کا اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر ہونا اور ہرمعاملے میں مطلقاً درست ہونے کا احساس ہے۔ اس زاویے سے اگر دیکھا جائے تو مغربی مفکرین جس جدید تثلیث پر غلو کی حدتک ایمان رکھتے ہیں اس کے ارکان خود ان کے بقول انفرادیت‘ لادینیت اور جمہوریت ہیں‘ وہ ان کے مطلق (absolutely) حق ہونے پر نہ صرف خود ایمان رکھتے ہیں بلکہ ہر اس شخص کو جو اس تثلیث سے اختلاف کرتا ہو’کافر‘، ’گردن زدنی‘ اور ایک دوسری دنیا کا باشندہ (alien) سمجھتے ہیں۔ اصطلاحی طور پر اس اندھے ایمان ہی کو مغربی مفکرین اور ماہرین تقابلِ ادیان بنیاد پرستی کہتے ہیں۔ گویا ایک شخص چاہے وہ مصطفی کمال ہو‘ یا مصطفی کمال کی قسم کے افراد کو اپنا ہیرو ماننے والا کوئی فوجی آمر‘ جب وہ یہ کہتا ہے کہ سیکولرزم ہی مسائل کا حل ہے اور صرف اس کے ذریعے ہی مذہبی منافرت اور شدت پسندی کو دُور کیا جاسکتا ہے تو وہ عملاً اور غیرشعوری طور پر سیکولرزم پر اس اندھے عقیدے کی بنا پر اپنے بنیاد پرست ہونے کا اعلان کر رہا ہوتا ہے‘ یا کوئی شخص جب یہ کہتا ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیم شدت پسند بناتی ہے‘ اور اس کے مقابلے میں اس کی اپنی ناقص و نامکمل عقل کی تخلیق کردہ روشن خیالی ‘گروہی تعصب‘ تشدد‘ معاشی عدمِ مساوات‘ غیرمنصفانہ عدلیہ اور معاشرتی استحصال اور بدامنی اور عدمِ تحفظ سے نجات دلا سکتی ہے تو وہ اپنے اس بلادلیل دعوے کی بنا پر دن کی روشنی میں اپنے بنیاد پرست ہونے کا ثبوت فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے ہی کوئی یک قطبی قوت جب دنیا پر اپنی اجارہ داری کے دعوے کے ساتھ محض اس اندیشے کی بنا پر کہ کوئی ملک اس پر حملہ آور نہ ہوجائے بغیر اُکسائے اور بغیر کسی جارحانہ اقدام کے اس ملک کا کشتہ بنا دے (اس فلسفے کو جدید اصطلاح میں پیشگی حملے (preventive strike ) کا نام دیا جاتا ہے) تو حقیقی معنوں میں قوت پر اندھا عقیدہ رکھنے کی بناپر اسے صرف بنیادپرست ہی کہا جاسکتا ہے۔اسی بنا پر نصف صدی قبل بعض امریکی مفکرین نے سیکولر قومیت پرستی اور مارکس ازم کو ’نیم مذہب‘ (pseudo religion)کا عنوان دیا تھا۔۱؎ یہ دونوں نظام بنیاد پرستی کی اعلیٰ ترین مثال پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ اپنے علاوہ کسی اور کو زندہ رہنے کا حق دینے کے قائل نہیں ہیں‘ کثرتیت (pluralism) کا انکار کرتے ہیں۔

اسلام کا رویہ اس کے برعکس ہے۔قرآن کریم بار بار اسلام کو الدین القیم قرار دینے اور خود اپنے آپ کو کلامِ الٰہی‘ الحق‘ الفرقان ‘البیان کہنے کے باوجود اسلامی معاشرے میں غیرمسلم کو‘ چاہے وہ اہلِ کتاب ہو یا نہ ہو‘ اپنے مذہب‘ ثقافت اور طرزِزندگی میں پوری آزادی اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔قرآن بار بار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی تعلیمات خالق انسانیت کی طرف سے نازل کردہ ہیں لیکن انسان کو اس بات کا بھی پورا حق دیتا ہے کہ وہ ہدایت اختیار کرکے فلاح اور فوز حاصل کرلے یا ضلالت و گمراہی کی تاریکی میں پڑ کر اپنا مستقبل سیاہ کرلے۔ قرآن کریم دوسرے تمام انسانوں کے بارے میں حتیٰ کہ وہ مشرک ہوں تب بھی یہ حکم دیتا ہے کہ انسانوں سے محبت اور ان کی بھلائی کے جذبے کے تحت ایک مشرک کو بھی‘ اگر وہ اسلامی ریاست اور معاشرے سے پناہ طلب کرے‘ تو اسے پناہ دی جائے حتیٰ کہ وہ قرآن کی تعلیمات سے آگاہ ہوجائے۔ اس کے بعد اگر وہ کفروشرک کی ملت میںواپس جانا چاہے تو اسے مسلمان اپنے تحفظ میں اس کی جاے امن تک پہنچائیں!

قرآن کسی مقام پر یہ نہیں کہتا کہ ایک مشرک کو پناہ دے کر اور قرآن سنا کر اگر وہ ایمان لے آئے تو خیر ورنہ گوانتاناموبے کے قیدیوں کی طرح اذیت دے دے کر ہلاک کردو! سورۂ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے مامن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے‘‘(۹:۶) ۔ قرآن کریم کا مدعا واضح ہے کہ مشرک جو دین کا علم نہیں رکھتا اور اس بنا پر گمراہی میں پڑا ہے‘ اگر قرآن کو سننا چاہتا ہو تو اسے پناہ دے کر موقع فراہم کیا جائے اور اگر پوری کوشش کے باوجود وہ دین اسلام کو قبول نہ کرے تو بلاکسی خطر اور ضرر کے حفظ و امان کے ساتھ اس کے مقام تک اسے پہنچا دیا جائے۔ رواداری‘ مخالف کا احترام اور باوقار طرزعمل کی کوئی اور ایسی مثال ہمیں تاریخ عالم میں کہیں نظر نہیں آتی۔

ایک مشرک یا ظالم کے ساتھ قرآن کریم نے جس رویے کی تعلیم دی ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ دین اسلام کے حق اور آخری مکمل نظام ہونے کے باوجود نصوص کی بنیاد پر وہ کثرتیت کا قائل و محرک ہے‘ جب کہ سیکولرزم اور نام نہاد مغربی اباحیت جسے بعض دشمنانِ عقل و دانش’روشن خیالی‘ کہتے ہیں ایک بنیاد پرست ذہن کی غمازی کرتا ہے جو صرف اور صرف اپنی بقا اور دوسروں کی فنا پر اندھا عقیدہ رکھتا ہے۔

یہ تصور کہ قرآن ہر غیرمسلم کے خون کو بہانے کا حکم دیتا ہے اور جہاں کہیں بھی کوئی غیرمسلم مل جائے اسے بلاتردد و تحقیق گولی کا نشانہ بنانے کی ترغیب دیتا ہے‘ نہ قرآن میں پایا جاتا ہے نہ اسلام کی تاریخ میں۔ اس قسم کا خیالی نقشہ ہالی وڈ کے تخلیق کردہ تصور اسلام ہی میں پایا جاتا ہے کہ وہ دارالاسلام ہو یا دارالکفر‘ کسی صاحبِ ایمان کو جہاں کہیں کوئی غیرمسلم ہاتھ لگ جائے وہ اسے مارے بغیر دم نہ لے۔ قرآن کریم توحید کی دعوت اور شرک کی شدت سے رد کے باوجود شرک کو    توعقلی دلائل کی بنیاد پر ظلم قرار دیتا ہے لیکن ہرمشرک و کافر کو ایک امکانی (potential) مسلمان قرار دیتے ہوئے عدل و امن کے ساتھ دعوت کا مخاطب تصور کرتا ہے اور لا اکراہ فی الدین کے زریں اصول کے تحت ہرشخص کو عقیدے اور راے کی آزادی کا اختیار دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جہاد کے حوالے سے سورۂ الحج میں یہ بات بطور ایک اصول کلید کے بیان کی گئی ہے کہ: ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتارہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں‘ جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمار کر ڈالی جائیں‘‘(الحج ۲۲:۴۰)۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ آخر قرآن مسجد کے ساتھ ان تین مختلف قسم کی عبادت گاہوں کا ذکر کیوں کر رہا ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر مذاہب کے مراکز عبادت کی حفاظت اورمذہبی آزادی کا تحفظ کرنا بھی جہاد کے مقاصد میں شامل ہے۔ جو قرآن مذہبی آزادی کا احترام کرتا ہو‘ مشاورت اور اختلاف کے حق کو دین کا بنیادی تصور قرار دیتا ہو‘ وہ کس طرح اپنے قاری کو بنیاد پرست‘ بند ذہن رکھنے والا‘ غلو کرنے والا‘ شدت اختیار کرنے والا بنا سکتا ہے۔ قرآن سے وابستگی اور واقفیت رکھنے والا کوئی شخص نہ تو خود بنیاد پرست ہوسکتا ہے‘ نہ دوسروں کو بنیاد پرستی کی تعلیم دے سکتا ہے۔ ہاں‘ یہ الگ بات ہے کہ جس نے قرآن کو نہ پڑھا ہو‘ نہ سمجھا ہو وہ لاعلمی کی بنا پر غلو اور شدت پسندی اختیار کرلے اور عقیدتاً قرآن کو ماننے کے باوجود اس کی راے میںشدت اور محدودیت پیدا ہوجائے۔ اُمت مسلمہ کو اس مرض سے بچانے کی صرف ایک ہی دوا ہے کہ اس کا تعلق قرآن کریم سے زیادہ سے زیادہ پیدا کیا جائے اور قرآن کریم کی تفہیم کے لیے ہرسطح پر تعلیم کا بندوبست کیا جائے ‘ اسے محض تبرکاً بغیر سمجھے بوجھے پڑھ کر نہ گزرجایا جائے۔ گویا جتنا مسلمان قرآن کو اختیار کریں گے اتنا ہی بنیاد پرستی سے محفوظ رہ سکیں گے۔

جدید معاشی بنیاد پرستی

اگر ایک وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو ’بنیاد پرستی‘ کے تصور کو محدود اور روایتی مذہبیت‘ غلو‘ اندھی روایت پرستی اور مذہبی شدت پسندی تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقتِواقعہ یہ ہے کہ جدید بنیاد پرستی‘ معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ثقافتی اور ابلاغی سطح پر اپنے اثرات کے لحاظ سے نام نہاد مذہبی  بنیاد پرستی سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک اثرات کی حامل ہے۔ معاشی میدان میں جدید بنیاد پرستی نے نئی سرمایہ دارانہ فکر کو بڑے جاذب نظر عنوانات کے تحت ابلاغ عامہ کی ماہرانہ حکمت عملی کے ساتھ ذہنوں میں اُتار دیا ہے۔ چنانچہ نیا عالمی نظام یا عالمی نظمِ تجارت کی اصطلاحات سے آج ہر تعلیم یافتہ شخص متعارف ہے۔ اپنے اثرات و نتائج کے لحاظ سے ’نیا عالمی نظام‘ شمال کی معاشی طور پر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ اقوام کی‘ کم وسائل رکھنے والی جنوبی اقوام پر‘ ایک جدید نوآبادیاتی سامراج کو مسلط کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اس کے اعضاے تنفیذی عالمی منظمہ تجارت‘ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈبنک‘ سب کا بنیادی مقصد جنوبی اقوام پر جدید سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط ہے کیونکہ یہ نظام اپنے آپ کو حتمی (ultimate) نظام قرار دیتا ہے۔ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تاریخ اپنا سفر کرتی ہوئی اُس مقام پر آگئی ہے جہاں پر صرف اور صرف مغربی لادینی جمہوریت اور استحصالی سرمایہ دارانہ نظام واحد فتح مند قوت کے طور پر اُبھرے ہیں۔ اب دیگر اقوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوکر سرمایہ دارانہ مادہ پرستی کے خدا پر ایمان لے آئیں۔ اگر معروضی طور پر مغرب کی خود تجویز کردہ‘ بنیاد پرستی کی تعریف کی روشنی میں دیکھا جائے تو معاشی بنیاد پرستی اور مادی قوت کا فیصلہ کن اور حتمی مقام حاصل کرنے کا دعویٰ جدید بنیاد پرستی کی تعریف پر پورا اُترتا ہے۔

لیکن چونکہ اس معاشی بنیاد پرستی کو عالمی ابلاغ عامہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک‘ بشمول مسلم ممالک کے فرماںروا ٹولے کے‘ جو اپنے وجود کے لیے مغرب کے کھوٹے سکوں کی دوستی پر ناز کرتا ہے اور اپنی بقا کو مغربی شاطروں کی رضا سے وابستہ کرتا ہے‘    اس لیے یہ ٹولہ اس استحصالی نظام کے گُن دن رات گاتا ہے اور آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک کے کسی سودی قرضے کے حصول کو اپنے لیے ’کارنامہ‘ تصور کرتا ہے اور دن بہ دن اس سودی دلدل میں دھنستے چلے جانے کے باوجود قوم کو ترقی کے مصنوعی باغ دکھاتا رہتا ہے۔

عالمی معاشی استحصالی اداروں کے خودساختہ ضوابط اور قوانین وہ عالمی نظم تجارت کی شکل میں ہوں یا آئی ایم ایف اور ورلڈبنک کی پالیسی کی شکل میں‘ اس معاشی بنیاد پرستی کو تحفظات اور ترقی پذیر ممالک کے مفادات کو غیرمحفوظ اور غیریقینی بنانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ جاننے بلکہ بعض اوقات ان عالمی اداروں میں بطور مزدور کام کرنے کے بعد کسی ملک کے وزیراعظم بن جانے والے افراد بھی مغرب کی اس معاشی بنیاد پرستی پر لب کشائی نہیں کرتے۔ ہاں‘ اگر کہیں ملکیت اور فرقہ واریت کی بنیاد پر کوئی ہنگامہ ہوجائے تو مذہبی بنیاد پرستی پر اُچک اُچک کر باتیں کرنے میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی نہیں کرتے۔

یہ معاشی بنیاد پرستی عام تاجر‘ صنعت کار‘ کاشت کار اور محنت کار کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانے‘ اس پر معاشی ترقی کا دروازہ بند کرنے اور بڑی مچھلیوں کو بغیر ڈکار لیے چھوٹی مچھلیوں کو نگلنے کے لیے کھلے مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہ عالمی مارکیٹ صرف ان اداروں کے لیے معاشی ترقی کے دروازے کھولتی ہے جو جدید معاشی بنیاد پرستی پر اندھا ایمان رکھتے ہوں اور عالمی تجارتی اداروں کے استحصالی مقاصد میں ان کے دست راست بننے پر آمادہ ہیں۔

ابلاغی بنیاد پرستی

اگر دیکھا جائے تو عالمی سطح پر نیوورلڈ آرڈر کے نام سے اس معاشی استحصالی اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی میں ابلاغی بنیاد پرستی کا بھی برابر کا ہاتھ ہے۔ ۲۱ ویں صدی کو انفارمیشن ٹکنالوجی کی انقلابی صدی کہا جاتا ہے۔ آج مائیکرو سافٹ انٹل کے بغیر کسی بھی معاشی ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ انفارمیشن ٹکنالوجی یا معلومات کی تخطیط و تحلیل کے ذرائع کو قوت کا اصل سرچشمہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ معروف ہے کہ معلومات ہی قوت و طاقت (power) فراہم کرتی ہیں اور جس کے پاس زیادہ معلومات ہیں وہ زیادہ قوت والا ہے۔ آج معیشت ہو یا سیاست‘ معلومات کی فراہمی اور مناسب استعمال کے بغیر کسی بھی شعبے میں ایک قدم آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ معلومات کی صحیح ترتیب و ترجیح و استعمال اور تطبیق ہی ایک قوم کو کامیاب یا پس ماندہ بنا سکتی ہے۔ مائیکروسافٹ کی یہ اجارہ داری معلومات کی شاہ راہوں (highways of information) پر تسلط اور نظربینی فراہم کرتی ہے اور اس طرح صرف وہی معلومات دوسروں تک پہنچتی ہیں جو پہنچانی مقصود ہوں۔ اس معلوماتی بنیاد پرستی نے دنیا کی آبادی کو واقعات و حقائق کو اسی انداز سے دیکھنے پر مجبور کردیا ہے جس طرح ان معلومات کو استعمال (manipulate) کرنے والے ادارے دکھانا چاہتے ہوں۔

مظلوم فلسطینیوں کے گھربار کو تباہ کرنے کو امن عالم کی راہ ہموار کرنے کے ایک اقدام کے طور پر اتنی بار پیش کیا جاتا ہے کہ ہر مظلوم فلسطینی اور ان کا خیرخواہ خود کو مجرم سمجھنے پر مجبور ہوجائے‘ دنیا کے بے شمار مقامات پر ہونے والے تشدد میں سے صرف وہ منتخب شدہ واقعات سرخیاں بنتے ہیں جنھیں کسی طرح الزام مسلمانوں پر ‘ القاعدہ پر یا طالبان پر رکھا جاسکتا ہو۔ امریکی جارحیت کے ہرقدم کو عالمی امن‘ حقوق انسانی کی بحالی اور جمہوریت کے احیا سے وابستہ کردیا جاتا ہے۔ اسی کا نام ابلاغی بنیاد پرستی ہے اور یہ اُس مذہبی بنیاد پرستی سے زیادہ مہلک و خطرناک ہے جس پر صبح و شام پیشہ ور نوحہ گروں کی طرح سینہ کوبی کی جاتی ہے کہ ہاے مذہبی بنیاد پرستی نے فرقہ واریت کو بڑھادیا!

اس بنیاد پرستی سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس پر ہم کچھ دیر بعدبحث کریں گے لیکن یہاں صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی ایک محدود (limited) تصور ہے‘ جب کہ جدید بنیاد پرستی وہ معاشی ہو یا ابلاغی‘ اس کا زہر زیادہ قاتل ہے اور آج دنیا کی بیش تر اقوام مذہبی بنیاد پرستی کے مقابلے میں عالمی یک قطبی نظام کے زیراثر آجانے کی بنا پر معاشی اور ابلاغی بنیادپرستی کی گھائل‘ زخم خوردہ اور اسیر ہیں۔

سیاسی بنیاد پرستی

بعینہٖ یہی شکل سیاسی بنیاد پرستی کی ہے۔ آج مغربی سیکولر جمہوریت کوانسانیت کے بنیادی عقیدے اور ایمان کی حیثیت سے نہ صرف دنیا کے سب سے بڑے جابر و ظالم یک قطبی ملک نے بلکہ مظلوم مسلم ممالک کے زرخرید نام نہاد اور باہر سے مسلط کردہ فرماں روائوں نے بھی وظیفۂ زبان بنا رکھا ہے اور اپنے تمام آمرانہ اقدامات کے باوجود تمام مسائل کے حل کے طور پر سیکولر جمہوریت ہی کی تسبیح پڑھتے ہیں‘ چلّے کاٹتے ہیں اور پھولوں کی چادریں چڑھاتے ہیں! ان کے خطابات کا آغاز ہی اس سے ہوتا ہے کہ ان کی آمریت کے زیرسایہ ممالک میں جمہوریت دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ ان کے عوام معاشی ترقی کے پھلوں سے مالا مال ہو رہے ہیں۔ ان کے معاشرتی اور سیاسی عدل سے محروم عوام ان کے لیے مساجد میں دعاگو ہیں اور ان کی عطا کردہ جمہوریت میں انھیں ۹ء۹۹ فی صد ووٹ دے کر عوام بے تابانہ طور پر انھیں منتخب کر کے ان کی مدت‘ ظلم واستحصال میں مزید اضافے کے لیے جانیں قربان کرنے پر آمادہ ہیں۔ یہ طلسماتی سیاسی بنیاد پرستی مصر میں ہو یا پاکستان میں‘ زمان و مکان کی قید سے آزاد کھیل اور کھلاڑی میں مشابہت کی مثال پیش کرتی ہے۔ یہ نام نہاد فرماں روا اپنے ملک کے عوام کو مفتوح اور قیدی بناکر اپنی فتح مندی کے پرچم گاڑنے کو جمہوریت کے بت کی سربلندی قرار دیتے ہیں چاہے اس بت کی قربان گاہ پر وہ پوری قوم کو قربان کردیں۔ اس بت کی اندھی پرستش ہی جدید سیاسی بنیاد پرستی کی ایک اعلیٰ اور اکمل ترین شکل ہے۔

معاشرتی بنیاد پرستی

معاشرتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مغرب کی انفرادیت پرستی پر اندھے ایمان کا دعویٰ کرنے والے افراد دوسروں پر اپنے تصورِمعاشرہ اور خاندان کو مسلط کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے خاندان کے نظام کو پامال اور برباد کرنے کے درپے  نظر آتے ہیں۔ ان کی اس معاشرتی جنگ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اباحیت کے فروغ کے ذریعے خاندان کے نظام کو تباہ کردیا جائے۔

جدید معاشرتی بنیاد پرستی پر ایمان لانے والے مسلم ممالک کے نام نہاد فرماںروا‘ جو مغرب کے سامنے بالعموم یا عادتاً سربسجود رہتے ہیں‘ یہ چاہتے ہیں کہ خاندان کی وحدت کاتصور پارہ پارہ کردیا جائے۔ نکاح‘ حقوق و فرائض‘ شرم و حیا‘ حلال اور حرام‘ جنسی تعلقات‘ غرض معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کی جگہ معاشرے میں مادی بنیادپرستی کو رائج کردیا جائے۔ یہ سرکاری اور قرض پر حاصل کیے ہوئے وسائل کو اس ’نیک مقصد‘ کے لیے نئے نئے عنوانات سے استعمال کرنے میں اپنی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ اکبر الٰہ آبادی کے بقول اپنے وقت کے فرعون بن کر بچوں کا قتل ’چالیس پاروں‘ والے نظامِ تعلیم کے ذریعے ان کے کردار اور فکر کو زہرآلود کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ’ماں کی صحت‘ کے بھلے عنوان کے تحت بچوں کی آمد پر اس لیے پابندی لگادیں کہ ۱۹ویں صدی کے مالتھس کے نظریات پر عمل کرسکیں۔یہ سمجھتے ہیں ہر آنے والا بچہ ان کے ہاتھ کا نوالہ چھین لے گا۔ یہ ’خوش حال گھرانا‘ اور ’محفوط تعلق‘ جیسی اصطلاحات استعمال کرکے آخرکار خاندان کے ادارے کو تحلیل کردینا چاہتے ہیں۔ یہ اس سلسلے میں ادویات اور ’احتیاطی‘ ذرائع کو فروغ دے کر قوم کے ضمیر سے احساس ذمہ داری اور اخلاقی جواب دہی کے تصور کو ایک فرد کی ’انفرادیت‘ کے نام پر ختم کرنے پراندھا ایمان رکھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس اندھے ایمان اور مالتھس کی روایت کی پیروی کا نام ہی بنیاد پرستی ہے۔

ھمارا المیہ

ہمارا المیہ یہ ہے کہ تنقیدی اور غیرجانب دار ذہن سے سوچنے کے بجاے ہم صدیوں کی محکومی سے اخذ کردہ غلامانہ ذہن پر بھروساکرتے ہیں جو مغربی تہذیب و ثقافت و اخلاقیات کی اندھی پیروی کو ’روشن خیالی‘ اور’توازن و اعتدال پسندی‘ کہتا ہے اور مغرب کی کاسہ لیسی اور نقالی کو فن کی معراج قرار دیتا ہے۔ یہ غلامانہ ذہن ریاستی وسائل اور بالخصوص ابلاغ عامہ کا بے دریغ استعمال کرکے یہ چاہتا ہے کہ عوام الناس کی سوچ کو بھی غلامانہ اور لذت پرست بنا دے۔ یہ اپنے قومی مفادات کو بھی مغربی آقائوں کی رضامندی کے حصول کے لیے بھینٹ چڑھانے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔ اسی غلامانہ طرزِعمل اور اندھی تقلید کا نام حقیقی جدید بنیاد پرستی ہے۔ اس بنیاد پرستی کا اظہار عموماً سیاسی آمروں کی انانیت اور خودرائی پر مبنی فیصلوں سے ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ عموماً ’قومی مفاد‘ کا نام لے کر  فی الحقیقت اپنے ذاتی مفاد کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرتے ہیں جو ان کے بیرونی آقائوں کو  ان کی اطاعت و بندگی کا یقین دلا سکے۔ یہ آمر اپنی ذاتی راے کو اپنے عوام پر مسلط کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور عوام پر یہ ظلم کرتے وقت بلندآواز سے جمہوریت کی تسبیح پڑھنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان کا ہر غیرجمہوری عمل سرکاری ابلاغ عامہ میں عوام سے محبت کی بنا پر ایک فلاحی عمل کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے۔ زمینی حقائق کے انکار اور ابلاغ عامہ کی قوت سے جھوٹ کو سچ کہہ کر مسلط کرنا ہی حقیقی ابلاغی بنیاد پرستی کی تعریف میں آتا ہے۔

ابلاغ عامہ خصوصاً کہربائی ذرائع ابلاغ کایک طرفہ استعمال کرتے ہوئے مغربی عریانیت‘  فحاشی اور صنفی بے راہ روی کا پھیلانا ان آمروں کا ایک مشترکہ حربہ ہے۔ اس کا مقصد جہاں عوام کی توجہ کو اصل مسائل سے ہٹاکر فحش و منکرات میں الجھا دینا ہوتا ہے بلکہ لوگوں کے مقصدحیات کو ابلاغی بنیاد پرستی کے ذریعے تبدیل کرنا ہوتا ہے۔

تحریکات اسلامی کی حکمت عملی

مسئلے کا حل کیا ہو؟ کیا تحریکات اسلامی بھی مغربی لادینی جمہوریت کی تثلیث کے جواب میں جہاں کہیں انھیں موقع ملے اپنے نظریات کودوسروں پر مسلط کردیں یا دعوت و اصلاح کا منہج اس سے کچھ مختلف ہے؟

اگر عریانیت کا ریاستی سرپرستی میں فروغ، ’حقوق نسواں کے نام پر حرام کو حلال قرار دینے کا عمل‘ خاندان کے ادارے کو تباہ کردینے کی حکمت عملی‘ شرم و حیا کا جنازہ نکال دینے کی پالیسی   جدید بنیاد پرستی ہے تو اسلامی نظام عوام پر نافذ کردینا بنیاد پرستی کیوں نہیں ہے؟ اگر ایک آمر کا  مغربی لادینی جمہوریت کے نام پر فردِ واحد کی آمریت مسلط کرنا بنیاد پرستی ہے تو اسلامی نظام سیاست و معیشت و معاشرت کو کسی ملک میں رائج کرنا بنیاد پرستی کیوں نہیں ہے؟ یہ اور اس نوعیت کے سوالات اٹھائے بغیر ہم مسئلے کا حل تلاش نہیں کرسکتے۔

اسلام دین فطرت اور تشریعی دین ہونے کے سبب چاہتا ہے کہ ایسے سوالات اٹھائے جائیں اور ان پر معروضی اور تنقیدی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے۔ وہ بار بار یاد دہانی کرتا ہے کہ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل ۱۶: ۴۳) ’’اہلِ علم سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے‘‘۔

اسی طرح مشاورت اور راے کے آزادانہ استعمال کے بعد معاملات میں یک سوئی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) ’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ کرو پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو‘‘۔

یہ حکم محض عوام الناس کو نہیں بلکہ خود قائد انسانیت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جاتا ہے کہ وہ بھی معاملات میں مشورہ کریں اور اس کے بعد عزم الامور اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے مسائل کا حل کریں۔ اس لیے اس قسم کے سوالات کا اٹھایا جانا اور اٹھنا اسلامی نقطۂ نظر سے مطلوب اور ذہنی صحت کی علامت ہے۔

اختصار کے ساتھ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف قرآن و سنت کے زیرسایہ بلکہ اگر انسانی تہذیب و ثقافت کی تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو عریانیت کا چھپانا اور اخلاقی رویے کا اختیار کرنا‘ معاملات میں عدل و توازن برتنا انسانیت کی میراث ہے‘ اور جس کا سبب قرآن کریم نے   یہ بتایا ہے کہ اللہ رب العزت نے پہلے انسان کو بھی بغیر ہدایت کے نہیں بھیجا‘ اور جب سے انسان کا وجود زمین پر ہے اس وقت سے ایک عالمی اخلاقی ضابطہ تاریخ کے ہردور میں انسانوں پر نازل کیا جاتا رہا جس نے انسانیت کے ذہن کا ایک اجتماعی مزاج بنادیا کہ دنیا میں ہرجگہ حق و باطل میں امتیاز کا ایک مشترکہ جذبہ پیدا ہوسکے۔ چنانچہ قرآن کریم نے دنیا میں انسان کو نیابت و امامت کے فریضے پر مامور کرتے وقت عادلانہ رویہ‘ حق‘ صداقت اور پاک بازی کی تعلیم دی جو نسلاً بعد نسلٍ شعوری طور پر منتقل ہوتی رہی۔ یہی سبب ہے کہ انسان دنیا میں کہیں بھی ہو‘ سچ بولنا ایک اخلاقی قدر ہے اور جھوٹ ایک مردود فعل ہے۔ اسی طرح اسلام انسانوں میں شرم و حیا کو انسانیت اور حیوانیت کے درمیان بنیادی فرق سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کردہ ایک صفت سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ اسے عدل کا تقاضا سمجھتا ہے اور زندگی کے تمام معاملات میں عادلانہ رویہ اختیار کرنے کو ایک شعوری اور اختیاری عمل قرار دے کر انسانوں کو اپنے طرزِعمل کا اخلاقی فیصلے کی روشنی میں تعین کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ جبر اور ظلم کا رد اور حریت و آزادیِ عمل کا علَم بردار بن کر انسانیت کے احیا کی دعوت دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے کے ساتھ شعوری طور پر آزاد ذہن کے ساتھ ایک اخلاقی اور عادلانہ طرزِعمل اختیار کیا جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ کہربائی ابلاغ کے جبرواستحصال سے آزاد ہوکر انسان خود یہ طے کرے کہ اسے حق کو ماننا ہے‘ یا باطل کو‘  اخلاقی رویے کو یا فحش اور منکر پر مبنی فساد و ظلم کے رویے کو۔

تحریکات اسلامی کی دعوت کا بنیادی نکتہ اجتماعی اصلاح ہے۔ اس غرض سے انھوں نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ انبیاے کرام کے اسوہ کی روشنی میں ایک دعوتی حکمت عملی ہے‘ یعنی وہ اپنی دعوتِ حق کو انفرادی‘ اجتماعی‘ معاشرتی اور ریاستی‘ ہر ہرسطح پر دلائل و براہین کی بنیاد پر پیش کرتی ہیں اور ایک شخص کو چاہے وہ اپنے وقت کا فرعون یا جارج بش ہو یا اپنے وقت کا سقراط و بقراط ہو مکمل آزادیِ فکر کے ساتھ اسے یہ طے کرنے کا موقع دیتی ہیں کہ وہ فرعون یا باوردی فوجی آمر بننا چاہتا ہے یا عبداً شکوراً۔ وہ اپنے نفس کے شیطان سے نجات چاہتا ہے یا خودساختہ خدائوں کی بندگی کرتے ہوئے غلو‘ معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور ابلاغی شدت پسندی اور بنیاد پرستی کو اختیار کرنا چاہتا ہے۔

تحریکات اسلامی ایک تعمیری اور بامعنی مکالمے کے ذریعے‘ جیساکہ حضرت ابراہیم، حضرت موسٰی، حضرت سلیمان اور دیگر انبیا علیہم الصلوات والسلام نے اپنے وقت کے رائج نظاموں اور اصحابِ اقتدار کے ساتھ مکالمہ کیا تھا‘ بالکل اسی روح کے ساتھ عصری تہذیبوں اور افکار کے ساتھ مکالمہ چاہتی ہیں۔ ان کی یہ دعوت ایک غیرمشروط دعوت ہے‘ کھلی دعوت ہے اور شوریٰ کے تصور پر مبنی ہے۔ اس دعوت میں کہیںآس پاس بھی آمریت‘ جبر اور بنیاد پرستی کی خاصیت نہیں   پائی جاتی۔

تحریکات اسلامی قرآن و سنت کے تصور شوریٰ کی پابندی کرتے ہوئے اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات میں آزادیِ راے کا احترام کرتے ہوئے‘ ادب اختلاف پر عمل اور تنقیدواحتساب کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے ایک تہذیبی مکالمے کے ذریعے معاملات کے تصفیے کی خواہش رکھتی ہیں۔ ان کی یہی صفت انھیںبنیاد پرستی کے اتہام سے پاک کرنے کے لیے کافی قرار دی جاسکتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ تحریکات اسلامی خود اپنی قیادت کو بھی تنقیدواحتساب سے بالاتر نہیں سمجھتیں اور نہ قیادت کے گرد تقدس و کرامت کاہالہ ہی بناتی ہیںکہ ان کی جنبش لب کو حتمی فیصلہ سمجھ  لیا جائے اور سجدۂ تعظیمی کے ساتھ ان کی ہر بات کو مان لیا جائے۔ یہاں شخصیت پرستی کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ وہ اطاعت امیر کو اطاعت رب اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشروط رکھتے ہوئے یقین رکھتی ہیں کہ مطلق اطاعت صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے‘ جب کہ امیر جس وقت تک اللہ اور رسولؐ کی پیروی کر رہا ہو ‘ اس کی بات سنی اور مانی جائے لیکن اگر وہ    اللہ اور رسولؐ سے انحراف کرے تو نہ اطاعت ہے نہ تعاون۔ تحریکات اسلامی کی یہ اصول پرستی اور شخصیت پرستی کو پاش پاش کرنے کی حکمت عملی انھیں بنیاد پرست بننے سے روکنے کا ایک بڑا سبب ہیں۔تحریکات اسلامی کی دعوت سے معمولی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ بات جانتا ہے کہ ان کے اصول اور ان کا نظام اختلاف راے‘ تنقید و احتساب اور مسلسل عملِ مشاورت (interactive discourse) کی بنا پر تقلید‘ اندھی عقیدت (my party right or wrong) جیسے تصورات کو رد کرتی ہیں۔ اسی بنا پر وہ ’حقیقی روشن خیالی‘ کی علَم بردار کہی جاسکتی ہے۔ اس حقیقی روشن خیالی کے خدوخال کیا ہیں۔ یہ ایک مزید قابلِ غور موضوع ہے۔