مارچ۲۰۰۷

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| مارچ۲۰۰۷ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

اسلامی بنکوں میں سرمایہ کاری

سوال: اسلامی بنکاری سے متعلق میں اور میرے دوسرے احباب اپنے آ پ کو  ایک مشکل میں پاتے ہیں۔ ہم ایک لاکھ تک کی رقم بچاپاتے ہیں لیکن اس بچت کو سود کے خوف سے کسی بھی منافع بخش اسکیم میں لگانے سے گریز کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں چاہتے اس رقم کو کرنٹ اکائونٹ میں لگا کر ضائع کردیں۔ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے ہماری مصروفیات کچھ ایسی ہیں کہ اس رقم کے ساتھ کوئی اور کاروبار بھی نہیں کرسکتے۔ مہربانی کر کے ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہم آخر کیا کریں؟ اگر ممکن ہو تو بنک آف خیبر یا کسی اور اسلامی بنک کی اسلامی بنیادوں پر جاری کردہ منافع بخش اسکیموں کی تفصیلات سے ہمیں آگاہ فرمائیں۔

جواب: آپ نے جس مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے‘ یہ ایک عام آدمی‘ خصوصیت سے متوسط آمدنی والے افراد کا بڑا اہم مسئلہ ہے اور اسلامی قانون سے ہم آہنگ‘ قابلِ اعتماد بچت اور سرمایہ کاری کے مواقع کی عدم موجودگی کی وجہ سے‘ ان تمام افراد کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے جو سود سے بچنا چاہتے ہیں‘ اور شریعت کے مطابق اپنی بچت کو نفع بخش مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

این آئی ٹی یونٹ کی شکل میں ۱۹۷۹ء سے‘ اس مد میں سرمایہ کاری کی ایک ایسی شکل موجود ہے۔ اس ادارے میں جو اصلاحات ۸۹-۱۹۷۸ء میں کی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ  این آئی ٹی کی سرمایہ کاری کی مدات (invest portfolio)  ایسی ہوں جو سودی کاروباریا شریعت سے کھلے کھلے متصادم کاروبار سے پاک ہوں۔ یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ ہر سال کے منافع کے اعلان کے وقت انوسٹمنٹ ٹرسٹ اس بات کا بھی اعلان کرے کہ بنک کے سودی ڈیپازٹ میں جو رقوم اس نے رکھی ہیں اس پر سود ان کی کل آمدنی کا کتنا حصہ ہے تاکہ یہ رقم خیرات کی جاسکے اور باقی نفع سے کسی اضطراب کے بغیر استفادہ کیا جاسکے۔ یہ صورت اس وقت سے آج تک موجود ہے اور ان یونٹس میں جائز سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔

الحمدللہ، پچھلے پانچ چھے سال میں کئی اسلامی بنک میدان میں آگئے ہیں اور بہت سے روایتی بنکوں نے بھی اسلامی بنکاری کی شاخیں قائم کرلی ہیں۔ میں اس بارے میں اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر صرف اتنی بات کہہ سکتا ہوں کہ ان بنکوں کے شریعہ بورڈ ہیں اور وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے کاروباری معاملات شریعت سے متصادم نہ ہوں۔ اس توقع پر کہ یہ بورڈ اپنا کام   ٹھیک طور پر انجام دے رہے ہیں‘ ایک عام مسلمان کے لیے ایک مسلمان ادارے کی گواہی کے بعد کہ وہ شریعہ بورڈ کی نگرانی میں ان معاملات میں شریعت کے مطابق کام کر رہے ہیں‘ ان اسلامی بنکوں میں یا روایتی بنکوں کی اسلامی بنکاری کی شاخوں میں اپنی رقوم ڈیپازٹ کرنا اور ان کے مختلف مالی پروڈکٹس یا انوسٹمنٹ اکائونٹ میں اپنی بچت ڈالنا بظاہر سود سے آلودہ ہونے اور بچنے کی ضمانت دیتا ہے اور اسے بھی سرمایہ کاری کی ایک جائز شکل قرار دیا جاسکتاہے۔

اب ایک عام انسان اور خاص طور پر متوسط آمدنی والے لوگ جو خود بلاواسطہ سرمایہ کاری نہیں کرسکتے‘ ان کے لیے ا ن بنکوں کے مختلف سرمایہ کاری کے حسابات یا دوسرے پروڈکٹس کے ذریعے اپنی بچت کی نسبتاً محفوظ اور شریعت کے مطابق سرمایہ کاری کرنے کا موقع فراہم ہوگیا ہے۔

بلاشبہہ اسلامی بنکاری سے متعلق ادارے ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں لیکن بظاہر قانونی حد تک سود سے بچتے ہوئے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم ہوگئے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہرشخص کا  اپنا کام ہے کہ ایک ایسے بنک کا انتخاب کرے جو قابلِ اعتماد بھی ہو اور مالی اعتبار سے بھی مضبوط بنیادوں پر کام کر رہا ہو۔ ذاتی طور پر جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے المیزان بنک کے مختلف کھاتے اور پروڈکٹس شریعت کے احکام سے ہم آہنگ ہیں اور اس کا شریعہ بورڈ مولانا تقی عثمانی کی قیادت میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح بنک آف خیبر کی اسلامی شاخوں میں بچت کھاتے اور سرمایہ کاری شرعی حدود کے اندر ہے۔ اس کا شریعہ بورڈ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ معاملات شریعت کی طے کردہ حدود کے اندر ہوں اور بنک کے تمام لین دین کا شرعی اور سائنسی بنیادوں پر مسلسل آڈٹ کیا جائے۔ البرکۃ بنک کے بارے میں معلومات مثبت ہیں۔ دوسرے بنکوں کی اسلامی شاخوں کی کارکردگی بھی اسی انداز میں دیکھی جاسکتی ہے۔

موجودہ حالات میں جو بنک بھی اس انداز میں کام کر رہا ہے وہ ان تمام افراد کے لیے جو اپنی بچتوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں سرمایہ کاری کا ایک قابلِ اعتماد موقع فراہم کر رہا ہے۔ انسان ظاہر کی بنیاد پر ہی بات کہہ سکتا ہے اور شریعت بھی معاملات کی ظاہری شکل پر ہی حکم لگاتی ہے۔ دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ بلاشبہہ آخری فیصلہ تو سارے علم کی بنیاد پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے۔

میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ جو گفتگو میں کررہا ہوں اس کی حیثیت فتوے کی نہیں اور میں اپنے آپ کو اس ذمہ داری کا اہل بھی نہیں سمجھتا۔ میری راے کا انحصار حاصل شدہ معلومات پر ہے اور اسلامی معاشیات کی حد تک جو علم مجھے حاصل ہے اور جس حد تک اسلامی بنکوں کے حالات سے میں واقف ہوں‘ اس کی بنیاد پر اس راے کا اظہار کر رہا ہوں۔ ایک ایسے معاشرے میں جوایک مدت سے اسلامی بنیادوں سے محروم ہو اور جس کے کم و بیش تمام ہی ادارے شرعی احکام کو ہمہ پہلو سامنے رکھنے سے قاصر رہے ہوں‘ انسان ظاہر ہی پر معاملات استوار کرسکتا ہے۔ اس کی مثال خوراک کے معاملات میں حلال گوشت پر اعتبار کی طرح ہے۔ جس طرح ایک آدمی خود     یہ دیکھے بغیر‘ کہ قصائی نے ذبیحہ شرعی اصولوں کے مطابق کیا ہے یا نہیں‘ ایک مسلمان قصائی کے قول پر اعتماد کرکے گوشت حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح ان بنکوں کے ساتھ بھی ان کے شریعہ بورڈوں کی شہادت پر‘ کھاتہ رکھنے اور سرمایہ کاری کرنے میں کوئی انقباض محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ وماتوفیقی الا باللّٰہ ۔ (پروفیسر خورشید احمد)