مارچ۲۰۰۷

فہرست مضامین

قائداعظم اور سیکولرزم

پروفیسر خورشید احمد | مارچ۲۰۰۷ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

اختلاف راے علم و تحقیق کے لیے رحمت ہے۔ یہ صرف کھلی بحث‘ تنقیدی جائزے اور دیانت دارانہ بحث کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ صحیح علمی قدروقیمت کا تعین ہوسکے۔ حقیقی مکالمے کے مفہوم میں یہ شامل ہے کہ دلائل کے لیے وسعت قلبی‘حقائق کا ادراک‘ اختلاف راے کے لیے  تحمل و برداشت ہو‘ جب کہ اہم ترین پہلو علمی دیانت اور اخلاقی بلندی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو باقی سب کی کوئی اہمیت نہیں۔

پاکستان دنیا کے سیاسی نقشے پر ۱۹۴۷ء میں اُبھرا۔ اس نے مسلمانان ہند کی جمہوری جدوجہد کے نقطۂ عروج کی عکاسی کی جس کے تحت انھوں نے برطانوی راج سے ایک نئے دستوری نظام کے تحت آزادی حاصل کی۔ اس نے مسلمانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک آزاد اور خودمختار ریاست قائم کرسکیں جہاں وہ اپنے ایمان‘ اقدار‘ نظریات اور تاریخی روایات کی روشنی میں سماجی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور ثقافتی ترقی کرسکیں۔ یہ ان کی اسلامی تشخص سے وابستگی اور تعلق ہی تھا جس نے پوری سیاسی جدوجہد کے دوران مسئلے کو زندہ رکھا‘ خاص طور پر تحریکِ خلافت (۱۹۱۱ء-۱۹۲۵ء) اور تحریک پاکستان (۱۹۴۰ء-۱۹۴۷ء) کے دوران۔ محمداقبال کا مسلم لیگ کے اجلاس سے صدارتی خطاب (۱۹۳۰ء)‘ قائداعظم محمدعلی جناح اور دیگر مسلم لیگی قائدین کے سیکڑوں بیانات اور پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا قرارداد مقاصد (مارچ ۱۹۴۹ء) کا منظور کرنا‘ ان سب پر ایک محتاط نظر‘ اس بات میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہنے دیتی کہ اسلام ہی تحریکِ پاکستان اور ریاست اور معاشرے کا مرکزی نکتہ تھا‘جو اس تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ایک حقیقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا۔

سیکولرلابی نے آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پر بحث کے دوران پہلی مرتبہ سر اُٹھایا۔ اس موقع پر‘ قائداعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو ہندو ممبران اسمبلی نے جن کا تعلق کانگریس پارٹی سے تھا‘ پورے زوروشور سے اُٹھایا۔ آئین ساز اسمبلی کے مسلم ممبران نے لیاقت علی خان‘ عبدالرب نشتر اور مولانا شبیراحمدعثمانی کی قیادت میں اس دعوے کو رد کردیا اور قراردادمقاصد تقریباً متفقہ طور پر منظور ہونے سے سیکولرلابی کا پول کھل کر رہ گیا۔ یہ افسوس ناک امر ہے کہ سیکولر لبرل لابی اسی غبارے میں پھر ہوا بھرنے کے عمل پر مصر ہے۔ جسٹس محمدمنیر فریب اور تحریف کے اس کھیل کے مرکزی کھلاڑی تھے۔ اپنی کتاب: From Jinnah To Zia (وین گارڈ بکس‘ لاہور‘ ۱۹۸۰ء) میں انھوں نے جناح کا پاکستان بطور سیکولر ریاست کے تصور کے حق میں مبینہ دلائل پیش کیے۔ پاکستان اور بیرون ملک میں پائی جانے والی تمام سیکولر لابی اس کتاب میں جناح سے وابستہ کیے جانے والے بیانات کو اس بحث میں بنیادی حوالے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اگرچہ جسٹس منیراور سیکولرلابی کے الزامات کو بہت سے مصنفین بشمول تبصرہ نگار نے چیلنج کیا ہے ‘ لیکن زیرتبصرہ مختصر اور جامع کتاب: سیکولرجناح میں سیکولر حضرات کے موقف پر بہت بھرپور‘ جان دار اور شواہد کے ساتھ کڑی تنقید کی گئی ہے۔ سلینہ کریم نے انتہائی محتاط تحقیقی کام سے جسٹس منیر اور تمام ہم خیال سیکولر لابی کے اسکالر ادیبوں کے ٹولے بشمول اردشیر کاؤس جی ‘ اشتیاق احمد‘ پرویز ہود بھائی‘ اے ایچ نیر وغیرہ جیسے مریضانہ ذہنیت کی حد تک لکھنے والوں کے موقف کا بھرپور اور زوردار انداز میں رد کردیا ہے۔

یہ کتاب اس بات کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں چھوڑتی کہ قائداعظم کو جانتے بوجھتے غلط نقل (quote)کیا گیا ہے۔ درحقیقت انھیں نہ صرف چھانٹ چھانٹ کر اور سیاق و سباق سے ہٹتے ہوئے نقل کیا گیا ہے بلکہ جو الفاظ انھوں نے کبھی نہیں کہے‘ وہ ان سے منسوب کردیے گئے ہیں۔ مزیدبرآں ان مصنفین نے بڑی تعداد میں اور بکثرت پائے جانے والے ان شواہد سے صرفِ نظر کیا ہے جو قائداعظم کے اس نقطۂ نظر اور وژن کو واضح کرتے ہیں‘ جو وہ پاکستان کے بارے میں اسلام کے اصولوں پر مبنی اور ملّت اسلامیہ کی آرزؤں اور تمنائوں کے مطابق ریاست کے طور پر رکھتے تھے۔سلینہ کریم نے نہایت محتاط انداز میں قائداعظم کے رائٹر کے نمایندے کو دیے گئے اس انٹرویو کا جس کا عام طور پر حوالہ دیا جاتا ہے‘ اصل متن تلاش کیا ہے‘ اور حتمی طور پر ثابت کیا ہے کہ جسٹس منیر نے جو الفاظ ان سے منسوب کیے تھے‘ وہ اصل بیان میں تھے ہی نہیں۔ جسٹس منیر نے ان سے یہ منسوب کیا ہے کہ انھوں نے کہا: ’’نئی ریاست ایک جدید ریاست ہوگی جس میں اعلیٰ ترین اختیار (sovereignty)  عوام کے ہاتھ میں ہوگا‘‘۔

یہ بات دل چسپی کا باعث ہوگی کہ گرامر کی ایک غلطی کی وجہ سے مصنفہ اس رخ پر پڑیں اور بالآخر تحقیق کے بعد یہ دریافت ہوا کہ یہ اقتباس محض لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک جعل سازی تھا‘اور سب سے زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ یہ بات ایک چیف جسٹس نے کی جسے انصاف اور سچائی کا نگہبان تصور کیا جاتا ہے۔

کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب اس بیان سے متعلق ہے جو قائداعظم سے منسوب کیا جاتا ہے جوکہ جعل سازی کا ایک نمونہ ثابت ہوچکا ہے۔ باقی تین ابواب جناح سے متعلق دوسری ۱۲ فرضی باتوں کے بارے میں ہیں‘ جن کا تعلق ان کے مبینہ سیکولرزم یا ان کے اپنے نام نہاد سیکولر طرززندگی سے ہے۔ اس بحث میں محتاط محققہ نے ۴۰ سے زیادہ اقتباسات پیش کیے ہیں جن سے جناح کی اسلام کے عقیدے اور نظریے سے گہری وابستگی‘ اور انھوں نے ملّت اسلامیہ سے اسلام کے تحرک‘ تشخص اور پاکستان کی منزل کے تناظر میں جو پختہ عہد کیا تھا‘ ثابت ہوتا ہے۔ مصنفہ نے اپنے دعوے کو شک و شبہے سے بالاتر ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت کیا ہے۔ انھوں نے سیکولر اور لبرل لابی کے اخلاقی اور علمی دیوالیہ پن کا بھی انکشاف کیا ہے جنھوں نے اپنے موقف کو‘ واقعات کو مسخ کر کے‘ حقائق سے انکار کرکے اور قبیح و ناروا علمی فروگذاشت کی بنیاد پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیکولر لابی کے ہردعوے کو حقائق اور ٹھوس دلائل سے رد کیا گیا ہے۔ بہرحال جناح کے ساتھ بالآخر انصاف کیا گیا ہے‘ جب کہ پاکستان میں انصاف تقسیم کرنے والوں نے ان کے سر ناانصافیاں منڈھی ہیں۔

اگرچہ زیرتبصرہ کتاب جناح کے پاکستان کے وژن اور جسٹس منیر اور ان کے پیرو اہلِ قلم کی فریب کاری جو انھوں نے برسوں پھیلائے رکھی‘ کے حوالے سے بھرپور ہے‘ تاہم مصنفہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس کی حیثیت ایک تاریخ کی کتاب کی نہیں ہے۔ یہ اب بھی مفید ہوگا اگر اس بحث کے تاریخی تناظر میںاسی طرح کا قابلِ قدر علمی مطالعہ پیش کیا جائے۔

بحث کا پہلا مرحلہ ۱۹۴۹ء میں آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد سے پہلے اور دوران بحث سے متعلق ہے۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں قادیانی مسئلے پر حکومت مخالف تحریک کے بعد کے اثرات کو سامنے لاتی ہے۔ جسٹس منیر کا اسلامی ریاست کے تصور اور جناح کے مبینہ سیکولر وژن کے بارے میں پہلا حملہ تحقیقاتی عدالت کی پنجاب میں فسادات کے بارے میں رپورٹ میں کیا گیا جو پنجاب ایکٹ II‘ ۱۹۵۴ء کے تحت قائم کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ عام طور پر منیر رپورٹ ۱۹۵۶ء کے طور پر جانی جاتی ہے‘ اور اس پر مکمل تنقیدی جائزہ جماعت اسلامی پاکستان نے منیر رپورٹ کا تجزیہ ‘ (پنجاب ڈسٹربنس انکوائری رپورٹ کا تنقیدی جائزہ) کے عنوان سے شائع کیا‘ جو مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا اور اس تبصرہ نگار نے اس کا ترجمہ کیا۔

منیر رپورٹ  میں جناح کے ڈوم کیمپلز کے انٹرویو پر مبنی اسی مبینہ اقتباس (ص ۲۰۱) کا حوالہ دیا گیا ہے ‘جس کی حقیقت زیرتبصرہ کتاب میں بہت واضح طور پر کھول دی گئی ہے۔ہمارے جواب الجواب‘ منیر رپورٹ کا تجزیہ میں قائداعظم کے بارے میں اس موقف کو رد کردیا گیاتھا‘ مگر مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ فریب دہی پوری طرح کھل کر سامنے نہیں آئی تھی جب تک کہ موجودہ کتاب سامنے نہیں آئی۔ اس تحقیق کا سہرا یقینا سلینہ کریم کو جاتا ہے۔

شریف المجاہد (قائداعظم جناح: اسٹڈیز ان دی انٹرپرٹیشن، قائداعظم اکیڈیمی‘ کراچی‘ ۱۹۷۸ء) اور دیگر بہت سے مصنفین بشمول تبصرہ نگار (کیا قائداعظم ایک دھوکا باز تھے؟  نیوایرا، کراچی‘ ۲۸ جنوری ۱۹۵۶ء) نے اس موضوع پر لکھا ہے اور قائداعظم کی اس مسئلے پر پوزیشن کو واضح کیا ہے۔بعض مقامات پر دھیمے‘ خوش گوار اور مناظرانہ انداز میں --- جس مشقت سے  سلینہ کریم نے تحقیق کی اور جس طرح سے انھوں نے جعل سازوں کی فریب دہی کا انکشاف کیا ہے‘ اپنے موضوع پر قابلِ تحسین کاوش ہے جو ریکارڈ درست رکھنے میں بھی مددگار ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ کتاب ایک آئینے کی مانند ہے جو قائداعظم کے پاکستان کے بارے میں حقیقی تصور اور سیکولر لابی کے مسخ شدہ بیانات دونوں کی عکاسی کرتی ہے۔

سلینہ کریم بجا طور پر دعویٰ کرتی ہیں کہ جناح نے اپنی تقریروں‘ تحریروں اور انٹرویو میں محض ایک بار بھی سیکولرزم کے نظریے کی واضح طور پر حمایت نہیں کی‘ یا پاکستان کے ایک سیکولر ریاست کے طور پر کوئی اشارہ بھی دیا ہے۔ درحقیقت انھوں نے بارہا پاکستان کے لیے ’مسلم ریاست‘، ’اسلامی ریاست‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ قیامِ پاکستان کے پیچھے جو تصور کارفرما تھا وہ ’اسلامی اصولوں‘ اور’اسلامی قانون‘ پر عمل درآمد تھا۔ تاہم ان سے قائد کے کئی بیانات میں اہم متعلقہ بیانات رہ گئے۔ مثال کے طور پر مسلمانانِ ہند کے لیے اپنے ایک پیغام (۸ستمبر‘ ۱۹۴۵ء) میں انھوں نے سیکولرزم کے نظریے پر ایک شدید ضرب لگائی۔ انھوں نے کہا:

ہرجہت میں مسلمان اپنی ذمہ داریاں زیادہ سے زیادہ محسوس کررہے ہیں۔ ہرمسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی امور تک محدود نہیں ہیں۔ گبن کے بقول: اٹلانٹک سے گنگا تک قرآن کو ایک بنیادی ضابطے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے‘ نہ صرف دینیات کے اعتبار سے بلکہ سول اور فوج داری ضابطوں اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نوع انسان کے افعال اور املاک پر اللہ تعالیٰ کے غیرمبدل قوانین کے طور پر محیط ہے۔ جہلا کے سوا ہر شخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا عام ضابطہ حیات ہے۔ ایک دینی‘ معاشرتی‘ سول‘ تجارتی‘ فوجی‘ عدالتی‘ فوج داری ضابطہ ہے۔ رسومِ مذہب ہی سے متعلق نہیں‘بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی۔ روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک‘ حقوق العباد سے لے کر فردِواحد کے حقوق تک‘ اخلاقیات سے لے کر جرائم تک اس دنیا میں سزا سے لے کر عقبیٰ میں سزا تک۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لازمی قرار دیا کہ ہرمسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کرسکے۔ لہٰذا اسلام محض روحانی عقائد اور نظریات یا رسم و رواج کی ادایگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے‘ زندگی کے ہرشعبے پرمن حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات‘ جلدسوم‘ ترجمہ:اقبال احمد صدیقی‘ بزمِ اقبال‘لاہور‘ ص ۴۷۴)

سیکولرزم سے متعلق ایک اور بہت اہم حوالہ‘ جو غالباً واحد حوالہ ہے جسے میں نے ان کی تقاریر اور بیانات میں پایا‘ پارٹیشن پلان کے اعلان کے بعد اور کراچی روانگی سے قبل‘ ۱۳ جولائی ۱۹۴۷ء کی ایک اہم پریس کانفرنس کے موقع پر سامنے آیا۔ان سے براہِ راست یہ سوال کیا گیا: پاکستان سیکولر ریاست ہوگی یا مذہبی ریاست؟مسٹر جناح نے جواب دیا: ’’آپ مجھ سے ایک احمقانہ سوال کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مذہبی ریاست کے معنی کیا ہوتے ہیں‘‘۔ (ایک اخبار نویس نے کہا کہ مذہبی ریاست ایسی ریاست ہوتی ہے جس میں صرف کسی مخصوص مذہب کے لوگ‘ مثلاً مسلمان تو پورے شہری ہوسکتے ہیں اور غیرمسلم پورے شہری نہیں ہوسکتے)۔ مسٹر جناح نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’پھر مجھے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میں نے جو کچھ کہا ہے (یعنی پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق )وہ ایسے تھا جیسے چکنے گھڑے پر پانی گرا دیا جائے‘‘ (قہقہہ)۔ خدا کے لیے اپنے ذہن سے وہ واہیات باتیں نکال دیجیے جو کہی جارہی ہیں۔ مذہبی کا کیا مطلب ہے میں نہیں جانتا۔ (ایک صحافی نے کہاکہ ایسی ریاست جو مولانا چلائیں)۔ مسٹر جناح نے جواب دیا: ’’اس حکومت کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہندستان میں پنڈت چلائیں گے؟‘‘ (قہقہہ)۔ مسٹر جناح نے کہا: ’’جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت کا سبق تیرہ سو برس پہلے پڑھا تھا‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات‘ جلد چہارم‘ ایضاً‘ ص ۳۵۲)

سلینہ کریم نے کتاب کا آخری باب قائد کے ریاست اور معاشرے کے بارے میں وژن کے مختلف پہلوؤں کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جائزے کے لیے مختص کیا ہے۔ یہ بحث مسٹر جناح کے اسلامی اقدار‘ اصولوں اور اسلامی روایات سے اور ان کے نقطۂ نظر کی گہری وابستگی کے کسی حد تک ادراک میں مددگار ہے‘ تاہم قرآن کے اقتصادی نظام اور خاص طور پر زکوٰۃ کا ایک سیاسی مسئلے کی بحث کے دوران تذکرہ باعثِ حیرت ہے۔ البتہ بحیثیت مجموعی کتاب میں جناح کے تصورِپاکستان پر بحث اُٹھائی گئی ہے جو اپنے موضوع پر لٹریچر میںمفید اضافہ ہے۔ مطالعہ پاکستان میں دل چسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا لازماً مطالعہ کرنا چاہیے۔(ترجمہ: امجد عباسی)

(Secular Jinnah: Munier's Hoax Exposed, by Saleena Karim, Laskeard, UK, Exposure Publishing, 2005, pp 148, ISBN: 1905363753)