یہ خبر ملاحظہ کیجیے: ’’اسلام آباد میں آج کل واشنگٹن کی اس تجویز پر غور ہو رہا ہے کہ افغانستان میں مقیم امریکا اور ناٹو افواج کا مالی بوجھ اُٹھانے میں مسلم ممالک بھی شرکت کریں‘‘۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ایک اہل کار نے ۱۹؍اپریل ۲۰۱۲ء کو یہ بات دی ایکسپریس ٹربیون کو بتائی۔امریکی منصوبے میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے: پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک ہرسال ایک خاصی رقم افغان سیکورٹی فنڈ میں دیں تاکہ ۲۰۱۴ء تک اور ممکنہ طور پر اس کے بعد بھی افغانستان کی قومی سلامتی کی افواج (ANSF) پر صرف کی جاسکے۔
’’وزارتِ خارجہ کے اہل کار نے نام نہ بتانے کی شرط پر تجویز کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور ناٹو نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں ’دہشت گردی‘ جڑ سے اکھاڑنے میں مالیات فراہم کرکے حصہ لے۔ اس اہل کار کے مطابق پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کی کوشش میں حصہ لینے کے لیے رضامند ہے۔ لیکن وہ تنبیہہ کرتا ہے کہ ملک کو اس تجویز پر غور کرنے میں خصوصی احتیاط (extra care) کرنا پڑے گی، کیوں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف امریکا کی عالمی لڑائی کی حمایت کرنے کی وجہ سے پہلے ہی تحریکِ طالبان پاکستان اور دوسرے جنگجوئوں کے غیض و غضب کا سامنا کر رہے ہیں۔
’’مئی ۲۰۱۲ء میں شکاگو میں جو سربراہ کانفرنس ہورہی ہے اس میں طے کیا جائے گا کہ اے این ایس ایف کو اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے کس قسم کی مدد دی جائے۔ افغان افواج کی حیثیت، ان کی تربیت کے انتظامات اور دیگر متعلقہ مسائل پر اس کانفرنس میں غور کیا جائے گا۔ افغانستان میں متعین ناٹو کی زمینی افواج کا بل ادا کرنے کے لیے یورپی ریاستوں کی نارضامندی آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ یہ کام وہ تقریباً ایک عشرے سے کر رہے ہیں۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے اپنی ۲۰۱۱ء رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ ممبر ممالک بجٹ میں اپنا مالی حصہ کم کررہے ہیں ۔ اپنی قسم کی اس پہلی رپورٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ حالیہ معاشی بحران کی وجہ سے دفاعی اخراجات غیرمعمولی طور پر کم ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ۲۸ میں سے ۱۸ حلیف ممالک کے دفاعی سالانہ بجٹ ۲۰۱۱ء میں ۲۰۰۸ء سے بھی کم ہیں۔ مزید کمی کا اعلان کیا جاسکتا ہے، یا ان کے بارے میں پیش گوئی کی جاسکتی ہے، جب کہ ناٹو سے باہر بہت سے ممالک کی دفاعی صلاحیت اور بجٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
’’آسٹریلیا کے نیشنل ٹائمز نے لکھا ہے کہ’’امریکا نے بتایا ہے کہ افغان افواج اور پولیس کے لیے ۱ئ۴ ارب ڈالر سالانہ درکار ہوں گے، لیکن افغانستان میں کئی سال سے کافی کچھ خرچ کرنے کے بعد ناٹو ممالک اپنا ہاتھ کھینچنا چاہتے ہیں‘‘۔ (دی ایکسپریس ٹربیون، لاہور، ۲۰؍اپریل)
یہ خبر کسی تبصرے کی محتاج نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے مسئلہ امریکا کی چاکری نہیں، اس چاکری کو پاکستان کے غیور عوام کا قبول نہ کرنا ہے۔ اگر عوام کا غیظ و غضب قابو کیا جاسکے تو وہ ہر طرح حاضر ہیں۔ ہمارے نادان دوست سمجھاتے ہیں کہ ہم امریکا سے اپنے اخراجات وصول کرلیں گے، کنٹینروں پر ٹیکس سے کمائی کرلیں گے، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی مد میں کچھ مانگ لیں گے، لیکن شاطر امریکا تو آیندہ کئی برس تک اپنا خرچ بھی ہمارے کندھوں پر ڈالنا چاہتاہے، اور ہم اس کے لیے تیار ہیں!
امریکا ہمارا کیسا دوست اور حلیف ہے، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ وزیر خارجہ امریکا نے فرمایا ہے کہ اگر پاکستان نے ایران سے پائپ لائن تعمیر کرنے کی ’کوشش‘ کی تو ہم اس پر پابندیاں لگادیں گے جس سے اس کی ڈگمگاتی معیشت مزید بے حال ہوجائے گی۔
ہم ایران پر پابندیاں لگائیں اور پاکستان اس سے معاہدہ کرے، یہ مجال!
اب بولیں ہماری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر صاحبہ!!
ان دنوں ہماری حکومت سبھی دائروں میں، لیکن خاص طور پر تعلیم کے دائرے میں جو فیصلے کر رہی ہے، ان میں سے بعض بطورِ خاص مضحکہ خیز ہیں سندھ میں تعلیمی کمیٹی نے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ ۲۰۱۳ء سے سندھ کے تمام اسکولوں میں چینی زبان بطور لازمی مضمون پڑھائی جائے۔ غالباً وزیر اعلیٰ نے اس عظیم تاریخی فیصلے کا کریڈٹ وزیر تعلیم کو نہ دینے کی غرض سے اپنی صدارت میں یہ فیصلہ فرمایا۔ اب یہ مسائل کہ ایک ڈیڑھ سال میں اتنی بڑی تعداد میں چینی زبان کے اساتذہ کس طرح تیار ہوں گے، کیا یہ چین سے درآمد کیے جائیں گے اور حکومت چین پاکستان سے اپنی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی کی خاطر ان اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرے گی، اور پاکستان کے لاکھوں نوجوان چینی زبان جیسی کچھ پڑھائی جائے گی پڑھ کر، کیا تیر ماریں گے، ہم جیسے فکر مندوں کا درد سر ہوں تو ہوں، فیصلہ کرنے والے اس سے بے نیاز نظر آتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام میں زبان کے مسئلے کا جو حشر کیا گیا ہے وہ بھی خوب ہے۔ ایک مسئلہ ذریعۂ تعلیم کا ہے۔ ۱۹۷۳ میں دستور میں یہ طے کیا گیا کہ ۱۵ برس میں اردو بطور سرکاری زبان نافذ کر دی جائے گی، لیکن قومی تقاضوں کے مطابق اور پاکستان کی ترقی کے لیے لازمی ہوتے ہوئے بھی آج ۳۸ سال ہو گئے (۷۳ء سے پہلے کے ۲۶ شمار نہ کیے جائیں تو)لیکن اردو کے نام پر کچھ اداروں میں کچھ افراد کی پرورش کے علاوہ، انگریزی کے بجاے اردو کو دفتروں میں نافذ کرنے، عدالتوں کی زبان بنانے اور کاروبار مملکت اردو میںچلانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ ہمارے حکمران طبقوں کے مرعوب اور غلام ذہن انگریزی کے حوالے سے صحیح فیصلہ کرنے سے معذور ہیں۔ کتنا ہی بتایا جائے کہ چین، جاپان، جرمنی، ایران، عرب ممالک اور دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک اپنی اپنی زبانوں میں ملک کا سارا نظام چلاتے ہیں، ذریعہ تعلیم بھی یہی زبان ہوتی ہے، ذریعہ روزگار بھی یہی ہوتی ہے___ چین کی ترقی تو آنکھیں کھولنے والی ہے___ لیکن ہمارے ہاں انگریزی اور ترقی کو لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا ہے۔ بجاے اس کے کہ انگریزی کو وہ مقام دیا جائے جو اس کا جائز حق ہے، اور اردو کو واقعتا قومی زبان کے طور پر اختیار واستعمال کیا جائے، حال یہ ہے کہ جسے انگریزی نہ آتی ہو، کتنا ہی عالم فاضل ہو، اسے ہم غیر تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ کسی انٹرویو میں کوئی انگریزی میں گٹ پٹ کر جائے، تو اصل مضمون کا علم نہ رکھنے کے باوجود وہی منتخب ہو جاتاہے۔ کمزور انگریزی اور ناقص تدریس کا یہ بقراطی حل نکالا گیا کہ پہلی جماعت سے انگریزی لازمی کر دی گئی ہے۔ اس پر کیسا اور کتنا عمل ہو رہا ہے، اس سے ملّی اور قومی مقاصد کو کیا نقصانات ہورہے ہیں، ہر ہوش مند انسان دیکھ سکتا ہے۔
ایک مسئلہ مادری زبان کا بھی ہے۔ سندھ میں بطور مادری زبان بشمول کراچی لازمی سندھی نافذ کر دی گئی۔ ۱۹۷۲ء میں اس پر لسانی فسادات کی آگ بھڑکی۔ یقینا کراچی والوں کو بھی زور زبردستی کے بغیر اپنے بھائیوں کی سندھی زبان آتی ہو تو کوئی ہرج نہیں۔اسکولوں میں سندھی زبان کی تعلیم خوش اسلوبی سے اس لیے نافذ ہو گئی کہ سندھی کے اساتذہ نے سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے کراچی میں طالب علموں کو دل کھول کر نمبر دیے اور اس سے طلبہ کوبہتر گریڈ ملے۔ سندھی آئے نہ آئے، نمبرخوب آ گئے۔ اب جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ اسکولوں میں چوتھی کلاس سے سندھی لازمی ہے۔ چھٹی سے بھی ہو سکتی تھی تاکہ سرکار پر صرف ثانوی اسکولوں کے اساتذہ کا بوجھ رہے لیکن چوتھی کلاس سے کرکے ہر پرائمری اسکول میں ایک سندھی ٹیچر کی جگہ بن گئی۔ شاید یہی مطلوب تھا، سندھی زبان کی ترویج ضمنی بات تھی۔ کراچی میں عموماً پرائمری تعلیم خواتین نے سنبھالی ہوئی ہے۔ اس میں ایک سندھی مرد استاد کے آنے سے، جب کہ اس کے لیے کام کا بوجھ بھی صرف دو کلاسوں کا ہو، جو مسائل پیدا ہو رہے ہوں گے ان کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب پالیسی اس بنیاد پر بنے کہ ایک ہی فیصلے سے کئی ہزار لوگوں کے لیے ملازمت مہیا ہوجائے، خزانے پر غیر ضروری بار کا احساس نہ ہو تو کیا کہا جائے!
زبان ہی کی بات ہو رہی ہے تو انھی دنوں میں جب سندھ سے چینی زبان کا فیصلہ آیا تو پنجاب سے چھٹی کلاس سے عربی لازمی کے سلسلے میں وضاحت کی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں دینی اور قومی نقطۂ نظر سے بہت سے اچھے فیصلے کیے گئے جنھیں شمار کیا جائے تو ۱۰۰ سے زائد ہوتے ہیں۔ ان میں ایک یہ تھا کہ چھٹی ، ساتویں، آٹھویں میںعربی لازمی کر دی گئی۔ اس کی لازمی درسی کتاب بھی ایک ایسے امریکی نو مسلم یوسف طلال نے مرتب کی، جو بنوری ٹائون کے مدرسے سے فارغ التحصیل تھے۔ اس کا اصل فائدہ یہ ہوا کہ ہمارا جو بچہ مڈل پاس کرتا ہے اسے عربی سے شدبد ہو جاتی ہے۔ بنیادی قرآنی عربی سے شناسا ہو جاتا ہے۔ اب وہ جو نمازوں میں تلاوت ہو اس کا مطلب سمجھتا ہے۔ اسے عالم فاضل بنانا مقصد نہ تھا، اتنی بنیاد اسے دین اور قرآن سے تعلق اور ایمان کو تازہ رکھنے کے لیے بہت مفید ہے۔ اس شناسائی سے کسی کو خلیج یا سعودی عرب میں ملازمت میں سہولت ملی، تویہ اس کا مزید فائدہ ہے۔ یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہے۔ حال ہی میں انھی تین کلاسوں میں کمپیوٹر کی تعلیم لازمی کی گئی تو یہ غلط فہمی پھیل گئی کہ یہ لازمی عربی کی بجاے رائج کی جا رہی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے حکومت پنجاب نے مراسلہSO (SE-IV) 2-34/2008 مورخہ ۲۳؍اگست ۲۰۱۱ء جاری کیا کہ عربی حسب سابق لازمی رائج رہے گی، کمپیوٹر تعلیم اضافی لازمی مضمون ہے۔ عربی کی یہ تعلیم نئی نسل کے ایمان اور دین سے تعلق اور اپنے مستقبل کی بہتر تعمیر میں مثبت کردار ادا کرتی رہے گی۔
جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا تب اس وقت بھی زبان کا مسئلہ اٹھا تھا بلکہ جبھی سے اس مسئلے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ بھی اسی سے جوڑا جاتا ہے۔ پاکستان میں صوبائیت کے فتنے کے پیش نظر اس وقت ایک راے یہ تھی کہ عربی کو پاکستان کی سرکاری اور قومی زبان بنایا جائے اور یہ تجویز آغا خان چہارم نے پیش کی تھی۔ اسٹیٹ بنک کے پہلے گورنر اور پلاننگ کمیشن کے پہلے چیئرمین جناب زاہد حسین بھی یہی راے رکھتے تھے۔ اس فیصلے کو سب مسلمان دل و جان سے قبول کرتے تو ۱۵، ۲۰ سال میں یہ تبدیلی آجاتی۔ غیر ملکی زبان جب ظالم فاتح کی زبان ہو اور اس کے خلاف مزاحمت ہو تب بھی وہ رائج ہو جاتی ہے۔ ہندستان میں انگریزی اور فرانس اور سپین کے مقبوضات میں فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں کی ترویج اس کی مثال ہیں۔ لیکن عربی کی مزاحمت نہ ہوتی بلکہ سر آنکھوں پر لیا جاتا۔ قیام پاکستان کے بعد اولین دور میں مسلمانوں کی اسلام کے لیے جو گرم جوشی اور جذبات تھے ان کے پیش نظر یہ فیصلہ آسانی سے نافذہوتا اور ہمارے بہت سارے مسائل حل کرتا۔ ہم خلیجی ممالک اور عرب دنیا سے قریب ہو کر مسلم اُمت کا مضبوط حصہ بنتے تو بہت زیادہ فوائد حاصل کر لیتے۔
چین سے ہمارے رابطے بڑھ رہے ہیں۔ چین ہمارے پڑوس سے دنیا کی ایک عظیم سوپرپاور کی حیثیت سے ابھرا ہے۔ اکیسویں صدی کو چین کی صدی بھی کہا جانے لگا ہے خواہ امریکا کتنا ہی اس صدی پر دعویٰ کرے۔ امریکا کا تو اب چل چلائو ہے۔ زوال نوشتہ دیوارہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انگریزی سے فارغ ہوں اور چینی کو اوڑھ لیں۔ مسئلے کا صاف اور سیدھا حل یہ ہے کہ حکومت کوئی ایسا ادارہ بنائے جو ملک کے ۲۰، ۲۵ شہروں میں، خصوصاً چار پانچ بڑے شہروں میں چینی زبان میں مہارت کے لیے مختلف کورس کرائے۔ اورچین سے تجارتی و ثقافتی تعلقات بڑھانے کے لیے جو مہارت اور جتنے افراد درکار ہیں ان کی تربیت کا مناسب انتظام کرے۔ انگریزی کے مسئلے کا بھی یہی حل ہے۔ یہ پہلی جماعت سے ہرگزلازمی نہ کی جائے۔ صورت حال یہ ہے کہ انگریزی کو ملک میں عملی زندگی میں ایک ایسا مقام حاصل ہے کہ جسے آگے بڑھنا ہے اس کے لیے انگریزی کی مہارت لازمی ہے۔ اگر ہم انگریزی کو صرف تحقیق کی اور بین الاقوامی رابطے کی زبان تک محدود رکھیں تو اس ضرورت کو بھی اسی طرح پورا کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے بہت میٹرک کے بعد لازمی کی جائے۔ جنھیں انگریزی نہیں آتی، وہ اب بھی بھوکے نہیں مرتے لیکن انگریزی کی مصنوعی اہمیت ختم ہو جائے تو حقیقی قابل اور عالم لوگ ہر شعبے میں قیادت کے لیے آگے آئیں گے۔ ابھی تو انگریزی کی وجہ سے امتحانات میں کامیابی کا اوسط خوامخواہ کم ہو جاتا ہے۔ دوسری زبان میں سمجھنے کا ذہنوں پر بوجھ نہیں ہوگا اور چینیوں یا جاپانیوں اور جرمنوں کی طرح ہم بھی اپنی زبان، یعنی اردو میں مست رہیں گے تو زیادہ فطری اور بہتر انداز سے ترقی کریں گے اور مادری زبان اور اردو زبان کے ساتھ انگریزی کے ناروا بوجھ سے آزاد ہوں گے۔
بات چینی زبان کی تعلیم لازمی کرنے سے شروع ہوئی تھی، بعد میں اعلان آیا کہ لازمی نہیں اختیاری ہوگی۔ جب اختیار ہو اور کوئی اختیار نہ کرے اور خوامخواہ کوئی کیوں اختیار کرے، تو یہ عملاً نفی کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ چینی زبان لازمی کرنے کا یہ فیصلہ ہمارے تعلیمی بزر جمہروں کو کس نے سجھایا۔ایسے مضحکہ خیز فیصلے کرکے اپنے کو نشانۂ تضحیک کیوں بنایا جارہا ہے!
جس کسی نے بھی تفہیم القرآن کو پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ ایک عجیب و غریب تفسیر ہے۔ قرآن کے مقصد ہدایت سے بالکل جڑی ہوئی ہے، لیکن بیش بہا علمی خزانہ ہے، معلومات کا سمندر ہے۔ علوم اسلامی کی کسی بھی شاخ کا آپ نام لیں، اس کے بنیادی مباحث آپ کو اس میں مل جائیں گے۔ سیرت نبویؐ کا مطالعہ کرنا ہو تو تفہیم القرآن، احکام القرآن کا مطالعہ کرنا ہو تو تفہیم القرآن، قصص الانبیا کا مطالعہ کرنا ہو تو تفہیم القرآن، توحید رسالت اور آخرت کے دلائل، اعتراضات اور ان پر ساری بحثیں دیکھنی ہو تو تفہیم القرآن، جو جدید علوم مرتب ہوئے ہیں، ان کی آپ فہرست بنا لیں، ان کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر جاننا ہو تو تفہیم القرآن۔
سچ یہ ہے کہ ہم ناقدروں نے اس کی قدر نہیں کی ہے۔ زبانی بیان کلام تو ہوتا ہے لیکن جس طرح ہر کارکن کو اسے حرزِ جاں بناکر روزمرہ زندگی کو اس سے جوڑنا چاہیے، وہ ہم خود جانتے ہیں کہ کتنا کررہے ہیں۔ احتساب ہی ہوتا رہتا ہے کہ روزانہ آدھ گھنٹہ بھی اسے دیتے ہو کہ نہیں۔ صرف اسی کتاب کو جدید طریقے اختیار کرکے معاشرے میں پھیلا دیا جائے تو دعوتِ اسلامی کی آدھی سے زیادہ مہم سر ہوجائے گی۔ لیکن ہرکام کرنے سے ہوتا ہے، اور اس کے کچھ آداب اور طریقے ہوتے ہیں۔ وہ اختیار نہ کیے جائیں تو نتیجہ نہیں ملتا۔ کوتاہ نظروں کی نظر اصل سبب تک نہیں جاتی۔
کوئی کمپنی نیا بسکٹ لاتی ہے، نیا شیمپو لاتی ہے تو میڈیا اور اخبارات کے ذریعے ہر گھر میں اس کی اطلاع اور پیغام پہنچ جاتا ہے۔ لیکن دیکھیے ۳۰، ۴۰ سال میں سب ملا کر بھی کیا ایک بسکٹ کے برابر اشتہاری بجٹ تفہیم القرآنکی اطلاع اُردو پڑھنے والوں تک پہنچانے کے لیے صرف کیا گیا۔ واضح رہے کہ یہ رقم جیب سے صرف نہیں کرنا ہے، خریدار ہی اطلاع پانے کی قیمت بھی اصل کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ لیکن ہم نرالے لوگ ہیں، خزانے چھپا کر رکھتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے۔
یہ طویل تمہید اس بات کے لیے ہے کہ یہ آگاہ کیا جائے کہ یہ ۶جلدوں کی تفہیم القرآن (تقریباً۴ ہزار صفحات) ایک اچھے معیاری dvd میں صرف -/۱۰۰ روپے ہدیے میں دستیاب ہے۔ mp3 سی ڈی پر بھی ۶جلدیں ۴ سی ڈی کے پیک میں -/۲۰۰ روپے میں مل جاتی ہیں۔ آپ کے پاس سی ڈی پلیئر ہے، dvd پلیئرہے، کمپیوٹر ہے، آپ کی گاڑی میں مناسب gadget لگا ہے تو آپ اس خزانے اور سمندر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں (چاہے آپ کو پڑھنا نہ آتا ہو)۔ کچن میں کام کرتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے۔
پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں یہ خوشبو کی طرح پھیل رہی ہے۔ اس کی نشرواشاعت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ کتنے ہی اداروں اور افراد نے اسے اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے۔ اس کا نفع ہی یہ ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ افراد تک جائے، دنیا کے ہرکونے میں پھیلے۔ اس میں مسجدنبویؐ کے امام علی عبدالرحمن حذیفی کی خوش الحان تلاوت ہے، ریڈیو پاکستان کے مشہور براڈکاسٹر عظیم سرور کے باوقار لہجے میں سیدمودودی علیہ الرحمہ کی ادوئے مبین پڑھی گئی ہے اور حواشی کی پہلی تین جلدیں سیدسفیرحسن مرحوم کے دل نواز لہجے میں اور آخری تین جلدیں پروفیسر عبدالقدیر سلیم کے ٹھیرے ہوئے لیکن رواں دواں لہجے میں ہیں۔ جس نے بھی اسے سنا ہے اسے معیاری پیش کش قرار دیا ہے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ ناخواندگی ہے۔ جو پڑھنا جانتے ہیں وہ احساس ہی نہیں کرسکتے کہ آج کے دور میں جسے پڑھنا نہیںآتا وہ کس طرح کی زندگی گزارتا ہے۔ اس سی ڈی کی اصل خدمت یہ ہے کہ اس نے اس خزانے کو جس سے ناخواندہ بالکل محروم تھے ان کی پہنچ میں کردیا ہے۔ ناخواندہ لوگوں میں بڑے بڑے معاملہ فہم، ذی فہم اور عالم اور فاضل (غیرکتابی) ہوتے ہیں (جس طرح پڑھے لکھوں میں بھی جاہل پائے جاتے ہیں)۔ یہ ناخواندہ لوگ اب ایک پروگرام کے تحت اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن اسے سننا ایک صرف ایک شغل نہیں ہے، اسے کورس کی طرح پڑھنا اور ساتھ ساتھ سننا چاہیے۔ مطالعہ کو ذہن نشین کرنے کے لیے یہ بہترین ہے کہ آپ کی نظریں الفاظ پڑھ رہی ہوں اور آپ کے کان میں وہ الفاظ پڑھ کر سنائے جا رہے ہوں۔ ضرورت ہے کہ اس کی وڈیو بنائی جائے تاکہ کتاب ہاتھ میں لینے کے بجاے اسکرین پر پڑھی جاسکے۔
جو لوگ اس ملک میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور ملک و قوم کو عروج کے راستے پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ حقیقی عروج و ترقی اور دنیوی و اُخروی فلاح قرآن کے ساتھ وابستہ ہوکر ہی ہو حاصل کی جاسکتی ہے اور قرآن سے جڑنے کا، اس کی تعلیمات کو زندگی کا حصہ بنانے کا سب سے کارگر نسخہ تفہیم القرآن کا مطالعہ ہے۔
۱- اس سی ڈی کی مدد سے پورے ملک میں ایسا ایک سلسلہ بنایا جاسکتا ہے کہ روزانہ یا ہفتے کے کچھ مقررہ دن مختلف گروپ ایک دو گھنٹے یا زیادہ کے لیے بیٹھیں اور اسے سنیں۔ تفہیم القرآن خود استاد ہے۔ سننے والے جہاں چاہیں رُک کر اس پر بات چیت، تبادلۂ خیال کرلیں اور پھر آگے بڑھیں۔ ۱۸۰ گھنٹے کا یہ کورس ایک پروگرام کے تحت ایک متعین مدت میں ختم ہوسکتا ہے۔
۲- اسی تجویز کو مزید specific کیا جائے تویہ کہا جاسکتا ہے کہ طلبہ و طالبات کے ہوسٹلوں میں یہ ایک رو چلا دی جائے کہ روزانہ عشاء کے بعد ایک گھنٹہ کاغذ قلم ہاتھ میں لے کر تفہیم القرآن پڑھی اور سنی جائے گی۔ اس طرح ۶ ماہ کایہ کورس ۸،۹ ماہ یا سال میں بھی ختم ہوجائے تو نقصان کا سودا نہیں۔
۳- ہمارے اپنے جتنے دینی مدارس ہیں یا جن مدارس میں ہمارا دخل ہے، وہاں تفہیم القرآن کے ۳ماہ اور ۶ ماہ کے کورس بنائے جاسکتے ہیں جس میں روزانہ زیادہ وقت اور توجہ دے کر اسے پڑھ کر جذب و ہضم کیا جائے۔ یہ مدارس اس کا کوئی سرٹیفیکیٹ بھی جاری کرسکتے ہیں جو حقیقی قابلیت کا تصدیق نامہ ہوگا۔
۴- اس کے لیے انسٹی ٹیوٹ بن سکتے ہیں جن کا مقصد اور بنیادی پروگرام ہی تفہیم القرآن کی تدریس ہو۔ جہاں عمر اورقابلیت کی بنا پر مختلف گروپس بنائے جائیں اور اساتذہ موجود ہوں (حسبِ ضرورت سمجھانے اور امتحان لینے کے لیے)۔
۵- رمضان میں دورۂ تفسیر قرآن کا رواج بھی بڑھ رہا ہے۔ ۶ تا ۸ گھنٹے روزانہ درس ہوتا ہے۔ کیوں نہ سیدمودودیؒ کو استاد بنا کر یہ دورہ کیا جائے! شرکا ۶گھنٹے روز تفہیم القرآن سنیں۔ کوئی استاد وضاحت و تشریح کے لیے ہو۔ ۳۰، ۳۵ دن میں چھے کی چھے جلدیں سن لی جائیں (اور ساتھ ہی ساتھ پڑھ بھی لی جائیں)۔
جن حضرات و خواتین نے تفہیم القرآنکا مطالعہ کیا ہے وہ ایک لمحے کے لیے رکیں اور سوچیں اور بتائیں کہ اگر کوئی تفہیم القرآن کو اس طرح غوروفکر کے ساتھ پڑھ لے کہ اس کے مضامین اس کے ذہن نشین ہوجائیں اور وہ اس پر سوالات اور انٹرویو میں ۷۰، ۸۰ فی صد نمبر لے تو اس کی قابلیت اور دانش اور فہم اور حالات پر نظر ہمارے بی اے، ایم اے یا درس نظامی کے فارغ التحصیل کے مقابلے میں کیسی ہوگی۔
ہم دین کے لیے اللہ کی رضا کی خاطر بہت سے کام کرتے ہیں۔ ہماری توجہ اس طرف کیوں نہیں جاتی۔ کیا یہ سیدمودودی کی بدنصیبی نہیں کہ ان کے پیروکار تشہیر کے جدید ذرائع اختیار کرکے اور مارکیٹنگ کے تمام طور طریقوں اور تدبیروں کو بروے کار لاکر پاکستان، ہندستان اور ساری دنیا کے اُردو پڑھنے والے لوگوں میں اس عظیم کتاب کو hottest item نہیں بناتے۔ اس میں جو پیسہ لگے گا وہ خریدنے والے واپس کردیں گے لیکن کچھ خیرخواہوں، مخلصوں کو lip service سے آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا۔ جو بھی سید سے محبت و تعلق کا دعوے دار ہے، ان کے پیغام کے مطابق زندگی گزارنے کی جدوجہد میں مصروف ہے، اسے تفہیم القرآن کے حوالے سے اپنا حصہ ضرور ادا کرنا چاہیے۔
رمضان المبارک میں پورے ملک میں ہزاروں حلقہ ہاے مطالعہ قرآن دو، اڑھائی گھنٹے روزانہ کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ خواتین کی اس طرف زیادہ توجہ ہے حالانکہ مرد بھی کم فارغ نہیں ہوتے۔ ان حلقوں میں ترجمۂ قرآن کی سی ڈی (دورانیہ ۵۶ گھنٹے) ایک پروگرام کے تحت ایک ماہ یا جیسا مناسب ہو، روز سنی جاسکتی ہے۔ اس سی ڈی میں امام حذیفی کی قراء ت اور عظیم سرور کی آواز میں ترجمہ ہے۔
ہر طرح کی ترقی، آسایش اور راحت کے سامان فراہم کرلینے کے باوجود آج کا انسان اضطراب اور بے چینی کا شکار ہے۔ ہم اپنے ملک میں غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ اگر معاشی ترقی کرلیں تو ہمارے سب دلدّر دُور ہوجائیں گے۔ ہماری اجتماعی اور انفرادی سعی و جہدبیش تر اسی کے گرد گھومتی ہے۔ لیکن ہم کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرجائیں، کتنے ہی وسائل کیوں نہ فراہم کرلیں، کیا ہم، مثلاً برطانیہ سے آگے نکل جائیں گے؟ برطانیہ کا معاشرہ ایک ترقی یافتہ معاشرہ ہے۔ ہماری نظر میں ترقی کی معراج پر پہنچا ہوا ہے۔ گذشتہ ۵۰ برسوں میں وہاں کے باشندوں کو سائنسی ایجادات، ٹکنالوجی کے تنوعات اور وسائل کی فراوانی نے کیا کچھ نہ دے دیا۔ لیکن آج وہاں کی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی جس میں سب پارٹیوں کے نمایندے شامل ہیں، اپنی رپورٹ میں بتاتی ہے کہ ’’ہمارے اسکولوں میں خوشی و مسرت پر کورس کروائے جا رہے ہیں اور برطانوی معاشرے کی خوبیوںپر گفتگو ہورہی ہے، لیکن برطانیہ میں رہنے والوں کا حال زیادہ قابلِ رحم (miserable) ہوتا جا رہا ہے‘‘۔
برطانیہ کے اخبار ٹائمز نے اس رپورٹ پر اپنی نامہ نگار رتھ گلڈہل (Ruth Gledhill) کی اسٹوری (۱۲ مئی ۲۰۰۸ئ)شائع کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’برطانیہ میں خوشیوں سے محرومی کی اصل وجہ دولت کی کمی نہیں ہے بلکہ خدا اور مذہب پر اعتقاد سے محرومی ہے۔ اس منصوبے کے پیچھے ہماری اصل فکر یہ تھی کہ اس ملک کے باشندے بددلی، عدمِ اطمینان اور بیگانگی کے شدید احساسات کا شکار ہیں، اطمینان اور خوشی کی کیفیت بہت زیریں سطح پر آگئی ہے۔ لوگ زندگی سے ’کچھ اور‘ کے متمنی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سوچ محدود ہے۔ مسائل پر پیسہ پھینک دینے سے کام نہیں چلتا، اپنا روایتی خول اُتار کر ان پر گفتگو کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ عمل اور تدبیر نہ کی جائے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے پالیسی ساز ان باتوں کو محسوس کرتے ہیں مگر انھیں نہیں معلوم کہ اس کے بارے میں کیا کیا جائے۔
رپورٹ میں ایک بڑی پتے کی بات کہی گئی ہے جو ہمارے لیے بھی قابلِ غور ہے۔ قدرتی بات ہے کہ رپورٹ عیسائی پس منظر میں لکھی گئی ہے مگریہ کہا گیا ہے کہ اس کا اطلاق دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر بھی ہوتا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ: ’’مذہبی گروہوں کی قیادت کے لیے یہ ایک عظیم موقع ہے مگر اسی صورت، جب کہ وہ ایک دوسرے کی برائیاں بیان کرنے، اور ہرچیز کی مخالفت کرنا ترک کردیں اور مثبت رویہ اپنائیں۔ یہ پیغام جس طرح راے سازوں کے لیے ہے، اسی طرح مذہب کے علَم برداروں کے لیے بھی ہے‘‘۔
رپورٹ کے مصنفین مقدمے میں لکھتے ہیں:’’ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ حالیہ برسوں کی تمام ترقیوں کے باوجود انسانی فلاح کا احساس، جسے آپ مسرت بھی کہہ سکتے ہیں، عام کیوں نہیں ہے؟‘‘ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس بے اطمینانی کی وجہ مادی نہیں ہے بلکہ کچھ خاص کلیدی اقدار کا ترک کرنا ہے۔ ’’اس لیے ہماری سفارشات میںنئے قوانین یا نئے ٹیکسوں کی تجویز نہیں دی گئی بلکہ یہ ایک پیغام ہے کہ معاشرے کے ہر دائرے میں جو بھی فیصلے کیے جا رہے ہیں ان کا جائزہ زندگی تبدیل کرنے والے اہم اصولوں کی روشنی میں لیا جائے‘‘۔ انھوں نے ہر فیصلے کے لیے پانچ ٹیسٹ تجویز کیے ہیں کہ آیا یہ اقدام اہلِ خاندان سے مثبت تعلقات کو فروغ دے گا اور کیا یہ اقدام اجتماعی اور عالمی طور پر ایک ذمہ دارانہ اقدام ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ جن اقدار کی جڑیں یہودی اور عیسائی اقدار میں ہیں، جو کبھی مغربی فلسفۂ قانون کی بنیاد تھے، ان پر زور دیا جائے گا تو سب کی بھلائی میں اضافہ ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’مسرت کے راستوں کو بتانے والی کتابوں سے آج کتابوں کی دکانیں بھری پڑی ہیں لیکن ہر طرح کی مادی اور اجتماعی ترقی کے باوجود ہمارا معاشرہ بالکل غیرمطمئن ہے۔ ہمارے لوگوں نے معاشی ترقی کی خاطر ایک دوسرے کا احترام، رشتوں کا تقدس اور ماحول کی نگہداشت، سب کچھ قربان کردیا ہے۔ لیکن خوش حالی کے باوجود ہم ۵۰سال پہلے سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ہمیں مسرت کو پونڈ/اسٹرلنگ میں نہیں تولنا چاہیے اور نہ کامیابی کو یونی ورسٹی کی ڈگریوں سے‘‘۔
یہ رپورٹ ہمارے لیے بھی چشم کشا ہے۔ اگر ہمیں معاشرے کی بھلائی کی واقعی فکر ہے تو ہماری پارلیمنٹ بھی کوئی ایسی کمیٹی بنا سکتی ہے جو ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرے کہ پاکستانی معاشرے میں لوگ کس طرح پُرسکون زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بنیادی فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہمارا مسئلہ معاشی ہے یا اخلاقی۔ آج ہم کسی بھی پریشانی کا جائزہ لیں تو اس کی بنیاد میں اخلاقی مسئلہ نظرآئے گا۔ ہماری پریشانیوں کی بظاہر بڑی وجہ معاشی نظر آتی ہے، گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو ہماری معاشی ناکامی کی اصل وجہ بھی اخلاقی نظر آئے گی۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ایک ایسے دین کو مانتے ہیں جو دنیوی اور اُخروی فلاح، دونوں کے لیے مکمل ہدایات دیتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے فرض کرلیں کہ سب اچھے مسلمان بن جائیں، یعنی خدا سے ڈرنے والے ہوں، اُخروی زندگی کو اولیت دیتے ہوں تو ہمارے کتنے بہت سے بہ شمول معاشی مسائل حل ہوجائیں گے۔ آپ سوچیں کہ صرف ٹیکس ہی ایمان داری سے دیے جائیں اور ایمان داری سے وصول کیے جائیں اور ترقیاتی منصوبے خداخوفی کے ساتھ عمل میں لائے جائیں تو وصولی موجودہ سے دو گنا اور ترقیاتی کام چار گنا زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ۶۰ سالوں میں اگر ایسا ہوتا تو آج ہم نام نہاد ترقی یافتہ معاشروں سے زیادہ خوش حال ہوتے، اور ہماری زندگیاں سکون و اطمینان اور اُس مسرت سے مالا مال ہوتیں جسے آج برطانیہ کا معاشرہ تلاش کر رہا ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ کی کمیٹی اقدار اور پیمانے تلاش کر رہی ہے۔ہم تو سب کچھ جانتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس یقین سے محروم ہوگئے ہیں کہ حقیقی فلاح دین پر مکمل عمل کرنے میں ہے۔ قیادت کو اس پر یکسو ہونا چاہیے۔ حکومتی پالیسی ہونا چاہیے کہ ہرفیصلے کو اللہ و رسولؐ کے احکام کی میزان پر تولا جائے، نیز آخرت کی جواب دہی کو کتابوں اور وعظوں تک نہ رکھا جائے بلکہ معاشرے کی زندہ حقیقت بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کیے جائیں۔ دستور میں سب لکھا ہے لیکن دستور کا دم بھرنے والے دستور پر عمل تو کریں۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو ہم بحیثیت قوم خَسِرَ الدّنیا والآخِرۃ کے مصداق بن جائیں گے۔ آخرت کا نقصان بھی اٹھائیں گے اور برطانیہ جیسی ’خوش حالی‘ کی طرف بھی دوڑتے ہی رہیں گے۔
کتابوں میں لکھا ہے کہ کسی حکومت کی کارکردگی جانچنا ہو تو دیکھو کہ اُس ملک کے شہریوں کی جان‘ مال اور آبرو کتنی محفوظ ہے۔ نواب شاہ کی غریب لڑکی سکینہ پر ایک وڈیرے کا بیٹا رات کو گھر میں گھس کر تیزاب ڈال جاتا ہے اور اُسے یقین ہے کہ کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ ایک فوجی ایتھلیٹ فیصل آباد سے ایک ایتھلیٹ لڑکی کو ملازمت دلانے کے بہانے لاہور بلاتا ہے اور اگلی صبح ہوٹل سے اس کی لاش ملتی ہے۔ اس کے بعد اس کا ذکر اخبارات سے غائب ہوجاتا ہے۔ اجتماعی آبروریزی کی کوئی بہت ہی لرزہ خیز واردات ہو اور سیاسی مصلحت آڑے نہ آرہی ہو تو وزیراعلیٰ جاکر ہمدردی کے دو بول بولتے ہیں اور ایک دو لاکھ روپوں سے زخموں پر نمک چھڑک آتے ہیں۔ یقینا اخبارات میں سیکڑوں میں سے چند ہی واقعات آپاتے ہیں۔
مال کی حفاظت کایہ عالم ہے کہ کراچی جیسے شہر میں گاڑیاں اور موبائل چھیننے کے واقعات سیکڑوں ہوتے ہیں (گذشتہ برس موبائل چوری میں مزاحمت پر ۴۰ شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے) اور مجرم آٹھ دس بھی نہیں پکڑے جاتے۔ گھروں میں ڈاکو دستک دے کر آتے ہیں اور گھروں کا صفایا کرجاتے ہیں۔ صاحبِ خانہ مزید لٹنے کے لیے تیار نہیں‘ اس لیے پولیس میں رپورٹ درج نہیں کراتے۔ بنکوں سے رقم لے کر نکلنے اور جمع کرانے آنے والوں کا لٹنا معمول کی بات ہے۔ بسوں اور ریل گاڑیوں میں سوار ہوکر اور ناکے لگاکر باوردی ڈاکو کئی کئی گھنٹے کارروائی کرتے ہیں اور کوئی پوچھنے نہیں آتا۔ کئی موقعوں پر تو وردی جعلی نہیں‘ اصلی پائی گئی۔اگر معاشرے میں جان کی حفاظت کا عالم دیکھنا ہو تو اخبارات میں قتل کی وارداتوں کی کثرت پر نظر ڈالیں۔ کوئی تحقیق کار ملک بھر کے اخبارات سے صرف ایک دن کا چارٹ بنالے تو تعداد تین ہندسوں تک پہنچ جائے گی۔
اس مہذب اور ترقی یافتہ دور میں قانون کی حکمرانی‘ یعنی Rule of Law کا بڑا ذکر ہے۔ عدالتوں کا پورا نظام‘ پولیس کا ہمہ دم مزید سہولتیں پانے والا محکمہ اسی لیے ہے لیکن قانون کی حکمرانی کا عالم دیکھنا ہو تو یہ دیکھیے کہ اس ملک کا بزعم خود صدرجلسۂ عام میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم چلاکر دن دہاڑے دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیرتا ہے‘ اور ڈنکے کی چوٹ بکھیرتا ہے لیکن کسی الیکشن کمیشن کے کان پر جوں نہیں رینگتی اور نہ کسی عدالت کو سوموٹو کا خیال آتا ہے اور نہ کوئی شہری فریاد لے کر جاتا ہے‘ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ ایسی فریاد کی شنوائی نہ ہونے کی روایت محکم ہے اور فریاد کرنے والے کا حشر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے قانون توڑنے والے صدر کو ۱۰ بار بلکہ ۱۰۰ بار باوردی منتخب کرنے کا‘ چہرے پر کسی شرم کا تاثر لائے بغیر‘ اعلان کرنے والے بھی موجود ہیں۔
جان‘ مال اور آبرو کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی سے غافل بلکہ اس کی دشمن حکومت کی کارگزاری پر نظر ڈالی جائے تو صحافی اغوا ہورہے ہیں‘ قتل ہورہے ہیں‘ لاپتا افراد کے ورثا احتجاج کرتے کرتے تھک گئے ہیں‘ عدالت عظمیٰ بھی بے بس ہے۔ اتنی پولیس اور فوج دھماکے روکنے میں ناکام ہے لیکن میڈیا سے راگ الاپے جا رہے ہیں کہ سب چین ہے اور پورے ملک میں زبردست معاشی ترقی ہورہی ہے‘ دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں (خودکشی اور بچے فروخت کرنے کی خبروں کو ایک طرف رکھیں)۔ معاشی ترقی ضرور ہو لیکن ایسا بھی کیا کہ اُس کا خبط ہوجائے اور ترقی بھی بس یہ کہ ہم کسی طرح امریکا و برطانیہ کی طرح ہوجائیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی سوچ نہیں‘ کوئی نصب العین نہیں۔ آزادی کے ۶۰سال بعد بھی غلام کے غلام! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون!
بات صرف معاشی ترقی کی نہیں۔ دوسرا خبط اپنی دینی اور معاشرتی اقدار و روایات کو ترک کرکے ہرطرح سے مغرب کے سانچے میں ڈھل جانے کا ہے۔ اس کا اظہار صرف میراتھن ریس سے نہیں بلکہ ہر سرگرمی سے ہوتا ہے( بسنت‘ سیاحت کا سال‘ ہر وقت ناچ گانے…)۔ حال ہی میں ریڈیو پاکستان جیسے قومی ادارے کی تقسیم ایوارڈ کی تقریب منعقد ہوئی‘ جس میں شوکت عزیز‘ محمد علی درانی اور اشرف قاضی جیسی ہستیوں کی مسکراہٹوں کی جلو میں گلوکارائیں حاضرین کو اُٹھنے اور ناچنے کی اور بیٹھے بیٹھے بھنگڑا ڈالنے پر ہر طرح کے انداز و ادا سے اُبھارتی رہیں۔
کیا ہم اللہ تعالیٰ کی نظروں میں واقعی اس حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے بدترین لوگ ہم پر مسلط کردیے گئے ہیں! وہ حکومت جس کے لیے دستور پاکستان میں یہ ہدایت مرقوم ہے کہ اپنے شہریوں کی زندگی کو قرآن وسنت کے مطابق گزارنے میں تعاون کرے گی‘ اس کی ساری پالیسیاں اس کے خلاف ہیںاور کسی شرمندگی کے ساتھ نہیں‘ ببانگ دہل خلاف ہیں۔ اس کے لیے سارے قومی وسائل بے دردی سے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
ایک محدود اقلیت طاقت و اختیار کے سرچشموں پر قبضہ کرکے اور عالمی سازشوں میں حصہ دار بن کر ملک کی اکثریت کا قبلہ و کعبہ بدلنے کے درپے ہے۔ کیا اسے ایسا کرنے دیا جائے؟ اس اقلیت کے سرخیل اپنے اُوپر ’اعتدال پسندی‘ کا جھوٹا لیبل لگاکر پروپیگنڈے کے بل پر حقیقی اکثریت کو اقلیت ہونے کا یقین دلا رہے ہیں۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اقلیت کے لیے‘ حکومت و اختیار کے باوجود بھی‘ یہ ممکن کیوں ہے؟
اس کا سبب یہ ہے کہ معاشرے میں جو مجموعی خیر ہے‘ وہ منظم نہیں‘ اس لیے مقابلے پر نہیں آتا اور برائی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ اس اقلیت کی طاقت کا راز اکثریت کی نیکی کا غیرمنظم ہونا ہے۔ جو آدمی خود کو نیک سمجھتا ہے‘ وہ اس سے آنکھیں بندکرلیتا ہے کہ معاشرے کا شر اس کے ماحول کو اور آس پاس افراد بلکہ اُس کی آل اولاد تک کو گھیرے میں لے رہا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ جب تک یہ حکمران تبدیل نہیں ہوں گے‘ معاشرہ صرف دعائوں سے نہیں بدلے گا۔ خیر کی بہت ساری کوششیں علیحدہ علیحدہ منظم ہیں لیکن مجموعی طور پر منتشر ہیں‘ اس لیے بے اثر ہیں۔ دراصل حکمران طاقت کو تبدیل ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خیر کی طاقتیں مجتمع ہوں‘ ورنہ منظم برائی کے آگے غیرمنظم نیکی شکست کھا جائے گی اور مغلوب ہوجائے گی۔ اس وقت تو چیلنج بھی دیا جارہا ہے کہ مقابلے کا سال ہے‘ ان نیکوکاروں کو فنا کردو۔ اس کا ایک جواب یہ ہوسکتا ہے کہ پورے ملک کے ہر قریہ و شہر کی ہر چھوٹی بڑی مسجد کے سب نمازی ہر روز مغرب کے بعد باہر آئیں اور بازار میں کھڑے ہوکر مرگ بر امریکا کی طرز کا نعرہ تین دفعہ لگا کر منتشر ہوجائیں۔ یہ لَے بڑھتی جائے اور یہ نعرے ملک کے طول و عرض میں ۳۰‘ ۳۵ منٹ گونجیں تو بدی کے علَم برداروں کے اعصاب جواب دے جائیں گے۔ ایسا وقت آگیا ہے کہ نیک لوگوں کو‘ سب نیک لوگوں‘ مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے تاکہ بدی اور فساد کے علَم بردار شکست کھاکر اپنے بلوں میں واپس جائیں۔ ہماری خون پسینے کی کمائی ‘ ہمارے فراہم کردہ وسائل ہماری دنیا اور آخرت خراب کرنے کے لیے استعمال نہ کریں۔
قرآن صرف اس لیے نازل نہیں ہوا کہ لوگ نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں اور رسولؐ اللہ بھی صرف نماز روزوں کے لیے نہیں آئے تھے۔ نماز‘ روزہ ضروری ہیں لیکن ان کی بنا پر وہ قوت پیدا ہونا چاہیے جو بدی کو برداشت نہ کرے اور نیکی کو نافذ کرنے کے لیے ہرطرح کی تدابیر کرے اور کامیابی حاصل کرنے تک چین سے نہ بیٹھے۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نیکی کے محدود تصور پر قانع ہیں اور قرآن کے پیغام اور اُسوۂ رسول ؐ سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔اس کے باوجود بھی معاشرے میں اتنا خیر ہے کہ بدی کی طاقتیں حکومتی وسائل‘ فوج‘ پولیس‘ اقتدار‘ عالمی سرپرستی وغیرہ سے محروم ہوں‘ اور ملک کے سیکولر عناصر کا دین اسلام کے غلبے کے خواہاں لوگوں سے منصفانہ مقابلہ ہوتو بڑے بڑے طرّم خاں دم دبا کر بھاگتے نظر آئیں گے۔ وہ اپنے عوام کی عظیم مسلمان اکثریت پر چڑھ دوڑنے کے لیے وردی اور اسلحے کے محتاج ہیں۔ یہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی لیے شفاف انتخابات کی ہرتجویز کو رد کرتے ہیں اور اپنے مذموم عزائم کے سرپرست بیرونی ماہرین سے انتخابات منصفانہ ہونے کا سرٹیفیکٹ لیتے ہیں۔
تبدیلی آئے‘ معاشرے کا خیرحکومت کے ایوانوں تک پہنچے‘ حکومت دستور اور قرارداد مقاصد کے تقاضوں کو اخلاص اور جذبے سے پورا کرے‘ تب ہی اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی اور شہریوں کی جان‘ مال اور عزت وآبرو محفوظ ہوگی۔ پولیس فرض شناس ہوگی۔ عدلیہ کو معلوم ہوگا کہ اگر وہ ممانعت کردے گی تو کوئی آرڈی ننس بسنت منانے کی اجازت نہیں دے گا‘ کوئی آبروریزی کی جرأت کرے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ اسی شام یا اُسی ہفتے اُسے تختہ دار پر لٹکنا ہوگا۔ ایسا ہوجائے تو پھر یہ ملک ہمارے لیے اور ہماری آیندہ نسلوں کے لیے رہنے کی جگہ ہوگی اور ہم یہاں پُرسکون زندگی گزار کر آخرت میں بھی سرخ رو ہوسکیں گے۔ان شاء اللہ!
وہ آزادی جو اس خطے کے مسلمانوں نے اللہ سے یہ عہد کر کے حاصل کی تھی کہ ہم اس سرزمین پر اللہ کا قانون نافذ کریں گے‘ اسے آج ۵۹ برس ہو رہے ہیں۔ اگر یہ عہد پورا کیا جاتا تو آج یہاں کے عوام سکون اور چین کی زندگی گزارتے اور ایک باعزت اورباوقار قوم ہوتے۔ اللہ تعالیٰ سے اسی عہدشکنی کا انجام ہے کہ آج ملک بھر میں سکون میسر نہیں ہے۔ کرپشن کا دور دورہ ہے۔ جرائم کی خبروں سے اخبارات بھرے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کے عذاب نے ایک عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ دوسری جانب حکومت کے ترجمان یہ کہتے ہیں کہ اگست میں ہم قوم کو حدود قوانین کے خاتمے کی خوش خبری دیں گے (اور پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟)۔
حدود قوانین ۱۹۷۹ء میں نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اگر انتظامی مشینری نے اسے نیک نیتی سے نافذ کیا ہوتا اور حکومت کی دوسری تمام پالیسیوں میں اس کے تقاضوں کا لحاظ رکھا جاتا تو آج اس کی برکات ہم بچشم سر دیکھتے۔ لیکن ہوا یہ کہ اس کے نفاذ میں ایک طرف بدعنوان پولیس نے اور معاشرے کے بدکردار عناصر نے اپنا کھیل کھیلا اور دوسری طرف ملک کے ان سیکولر عناصر نے جو روزِ اوّل سے اس کے نفاذ سے خوش نہ تھے‘ اس کے خلاف مستقل مہم جاری رکھی۔ بیرونی قوتوں اور ان کے مقامی غلام حکمرانوں پر بھی یہ بہت گراں تھا کہ ہم اپنے ملک میں شریعت کے مطابق قوانین بنائیں اور انھیں نافذ کریں۔ چنانچہ اسی تذبذب کے نتیجے میں حدود قوانین کے ثمرات نہ ملے اور وہ الٹا موضوع بحث بنا دیے گئے۔
یہ بھی عجب منطق ہے کہ کسی قانون سے مطلوبہ فائدہ حاصل نہ ہو تو اسے سرے سے منسوخ کرنے کا اقدام کیا جائے۔ اگر اس منطق کو دانش مندی کہا جائے تو پھر مطالبہ کرنا چاہیے‘ چونکہ عدالتیں انصاف دینے میں ناکام ہیں‘ اس لیے پورے عدالتی نظام کوختم کیا جائے‘ تعلیمی ادارے مطلوبہ معیار پر تعلیم فراہم نہیں کر رہے‘ اس لیے انھیں لپیٹ دیا جائے‘ یا چونکہ حکومت عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ میں ناکام ہے‘ اس لیے حکومت کا ادارہ ہی توڑ دیا جائے۔
حدود قوانین کسی کا ذاتی قانون نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قرآن و سنت سے ثابت شدہ حدود کو نافذ کرنے کے لیے اختیار کردہ قانون ہے۔ اس قانون کے نفاذ سے پہلے اس کے بارے میں نہ صرف پاکستان‘ بلکہ دوسرے مسلم ممالک کے علما و فقہا سے اور ماہرین قانون سے مشورے کیے گئے۔ حدود قوانین پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں خواتین سے امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ اس کے جائزے کے لیے جو کمیشن بنایا گیا تھا اور اس میں سے اکثر افراد نے اس کی منسوخی کی سفارش کی ہے‘ اس کے اعتراض مضحکہ خیز ہیں۔ مثال کے طور پر دفعہ ۵ (۱) (ا) میں جہاں زنا کے جرم کا ذکر کیا گیا ہے وہاں مرد کے ساتھ بالغ کا لفظ لکھا گیا ہے‘ عورت کے ساتھ نہیں۔ کمیشن کا موقف ہے کہ یہ امتیازی سلوک ہے‘ حالانکہ عورت کے ساتھ بالغ کا ذکر کیا جائے تو نابالغ بچیوں کے ساتھ زیادتی کا مداوا کیسے ہو۔ ایک اور اعتراض یہ کیا گیا کہ قذف کے سلسلے میں مقدمہ دائر کرنے کا اختیار صرف مرد کو دیا گیا ہے۔ چنانچہ کمیشن کا اعتراض یہ ہے: ’’اس دفعہ میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان سے یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس قانون کے بنانے والوں نے عورت کو نظرانداز کیا ہے۔ اس دفعہ سے مونث کے صیغے her کو نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف مرد ہی ہے جو اپنے خلاف جھوٹی تہمت کی سزا دلوانے کے لیے درخواست دائر کرسکتا ہے‘‘۔ اس اعتراض کو ایک لطیفے کے علاوہ کیا کہاجا سکتا ہے۔ یہ قانون کا اصول ہے کہ صیغہ مذکر میں صیغہ مونث شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا دفعہ کے مفہوم میں مرد و عورت دونوں داخل ہیں اوردونوں درخواست دائر کرسکتے ہیں۔ ایک مبتدی وکیل بھی اس بات کو بخوبی جانتا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۸ میں یہ صراحت موجود ہے کہ مذکر کے صیغے اور اس کے تمام مشتقات ہرشخص کے لیے استعمال ہوتے ہیں‘ خواہ وہ مذکر ہوں یا مونث‘ اور اس قانون کی دفعہ ۲(بی) کی رو سے اس پر تعزیرات پاکستان کی تمام تعریفات کا اطلاق ہوتا ہے۔
اسی طرح پروپیگنڈے کے ذریعے مشہور کردیا گیا ہے کہ جیلوں میں مقید ۸۰ سے ۹۰ فی صد خواتین حدود قوانین میں گرفتار ہیں‘ جب کہ مصدقہ جائزوں کے مطابق یہ تعداد ۳۰‘ ۳۲ فی صد سے زیادہ نہیں۔ یہ بات بھی بے بنیاد ہے کہ ان خواتین کے تحت زیادہ تعداد میں عورتوں کو سزائیں
مل رہی ہیں۔ جسٹس محمد تقی عثمانی نے‘ جنھوں نے خود اس طرح کے مقدمات کی ۱۷‘ ۱۸ سال سماعت کی ہے‘ مصدقہ طور پر بتایا کہ زیرجائزہ پانچ برسوں میں نیچے کی عدالتوں میں ۱۴۵ مردوں کو سزا ہوئی اور ۱۴۴ عورتوں کولیکن جب ان کی اپیلیں وفاقی شرعی عدالت میں پہنچیں تو ۱۴۵ مردوں میں سے صرف ۷۱ مردوں کی سزا بحال رہی‘ اور عورتوں میں سے صرف ۳۰ خواتین کی پانچ سال میں صرف ۳۰خواتین کی سزا پر کہا جا رہا ہے کہ اس دفعہ کے تحت جیلیں عورتوں سے بھری ہوئی ہیں۔
مسئلہ حدود قوانین کے حدود اللہ کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا نہیں‘ صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک کے وہ عناصر جنھیں ملک میں اختیار و اقتدارحاصل ہے‘ اسلامی تہذیب اور اقدار کے بارے میں شکست خوردہ ذہنیت رکھتے ہیں‘ اور مغربی اقدار کے بارے میں مرعوبانہ نقطۂ نظرکے حامل ہیں۔ وہ اس ملک کو ایک اسلامی معاشرے کے بجاے ایک مغربی انداز کا سیکولر معاشرہ بنانا چاہتے ہیں۔ چونکہ اس ملک کا اجتماعی ضمیر اور یہاں کے عوام یہ نہیں چاہتے‘ اس لیے مستقل کش مکش جاری ہے۔
بدقسمتی سے گذشتہ چند برسوں سے ہمارا ملک بیرونی ملکوں کی توجہات کا مرکز بن گیا ہے اور وہ یہاں سے اسلامی اثرات کو کھرچ کر پھینک دینا چاہتے ہیں۔ موجودہ صاحبِ اقتدار گروہ کے مکمل تعاون سے وہ ایک ایسے منصوبے پر عمل پیرا ہیں کہ یہاں کی تہذیب و معاشرت سے اسلامی اثرات مٹ جائیں اور آیندہ آنے والی نسلیں مغربی اقدار کی حامل ہوں۔
حدود قوانین کو منسوخ کرنے کا ایجنڈا کوئی علیحدہ مسئلہ نہیں‘ مغرب کی سیاسی اور تہذیبی یلغار کا ایک حصہ ہے۔ ہمارے حکمران ملّی اور قومی مفادات کو نظرانداز کر کے ہر بات مانتے اور نافذ کرتے چلے جارہے ہیں۔ پاکستانی قوم کے لیے یہ ایک آزمایش کا مرحلہ ہے۔ حدود قوانین کی منسوخی کے لیے کیا جانے والا ہراقدام‘ محض قوانین کے رد و بدل کا عمل نہیں ہوگا بلکہ دراصل یہ قدم علامتی سطح پر بڑے دُور رس اثرات کا حامل ہوگا۔ اس ملک کے عوام کو‘ ہر سوچنے سمجھنے والے شخص کو‘ خصوصاً دین کا درد رکھنے والے ہرمرد اور عورت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی منسوخی یا تبدیلی کے نام پر منسوخی کی جانب پیش قدمی ایک علیحدہ اقدام نہیں رہے گا‘ بلکہ اس کے ساتھ ہی ہماری معاشرتی اقدار کو تبدیل کرنے کا عمل بھی مزید زور شور سے آگے بڑھایا جائے گا۔ اس لیے ملک کی تمام خیرخواہ قوتوں کو یک جا ہونا چاہیے۔ ہر ممبر اسمبلی پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ اس کی منسوخی کے حق میں ووٹ دے کر وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں منہ دکھانے کے لائق نہ رہے گا اور اللہ کو ناراض کرے گا۔ قوم کو چاہیے کہ آزمایش کے اس مرحلے پر‘ ماضی کی طرح ایک بار پھر سچے ایمان اور تحریکِ پاکستان کے سے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدا کے ہاں سرخ رو ٹھیرے اور حدود قوانین کی منسوخی کی جسارت کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دے۔
عامرعبدالرحمن چیمہ کی شہادت نے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک برقی رو دوڑا دی۔ ہر صاحبِ ایمان کے دل کا وہ تار چھڑ گیا جو اس کا سرمایۂ حیات ہے۔ اس کا مظاہرہ لاکھوں افراد کے اس عظیم الشان ہجوم سے ہوا جو محض اپنے جذبے کی کشش سے‘ کسی باقاعدہ اعلان و پروگرام اور کسی مہم اور کوشش کے بغیر انتہائی گرم موسم میں خود ہی شہید کے گائوں ساروکی‘ گوجرانوالہ پہنچا۔
ہماری قومی زندگی کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے جذبات اور ترجیحات‘ ان کے مقاصد اور عزائم پاکستان میں بسنے والے عوام کے جذبات اور اُمنگوں کے بالکل مخالف اور متصادم ہیں۔ سید مودودی علیہ الرحمہ نے اپنی مشہور تقریر اسلام عصرِحاضر میں، میں فرمایاتھا کہ آزادی کے بعد مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ آپس کی کش مکش ہی سب سے اہم ترین سرگرمی ہوجاتی ہے۔ یہ کیفیت قوم کی توانائیوں کو کھا جاتی ہے اور عام معاشی ترقی کا ہدف بھی حاصل نہیں ہوپاتا۔
ہمارے ملک میں اس وقت سرفہرست یہی مسئلہ ہے۔ حکومت کو فکر ہے کہ دنیا کے سامنے پاکستان کا ’سافٹ امیج‘ پیش کیا جائے۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر اور حکومت کی سرپرستی میں طرح طرح کی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ لیکن کسی ایسے مظاہرے سے‘ جو عامر شہیدؒ کی تدفین کے موقع پر ہوا‘ حکمران طبقے کی ساری کوششوں پر پانی پھرجاتا ہے اور پاکستان کا حقیقی امیج دنیا کے سامنے آجاتا ہے۔
توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے موقع پر بھی دنیا نے یہی دیکھا کہ عوام مطالبہ کر رہے ہیں اور حکومت احتجاج کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ جب سے ہمارے فوجی حکمران نے افغانستان پر حملے کے لیے اپنے کندھے پیش کیے‘ ایک کے بعد ایک ایسے اقدامات ہورہے ہیں جو عوام کی مرضی کے خلاف ہیں۔ ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کے نام پر وہ کچھ ہو رہا ہے جسے پاکستانی عوام کااجتماعی ضمیر تسلیم نہیں کرتا۔ احتجاج ہوتے ہیں‘ ان پر کان نہیں دھرا جاتا۔
ہمارے حکمران بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کوئی عام ملک نہیں۔ یہ دو قومی نظریے کے حوالے سے لا الٰہ الا اللّٰہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ اگر یہاں روز اوّل سے اس کے مطابق کام کیا گیاہوتا تو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) ہم سے جدا نہ ہوتا اور پاکستان اس علاقے کی ایک اہم طاقت ہوتا۔ لیکن حکمرانوں نے عوام سے لڑکر‘ ان کے خوابوں اور اُمنگوں کے خلاف پالیسیاں اختیار کرکے‘ آج پاکستان کو امریکا کی تابع فرمان اور بھارت کے مقابلے میں نہایت کم تر حیثیت کی ریاست کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔
اگر آج پاکستان میں عوام کی آرزوؤں اور اُمنگوں کی نمایندہ قیادت برسرِکار ہوتی تو عامرچیمہ شہیدؒ کے جنازے کا مکمل اہتمام سے استقبال کیا جاتا‘ اہلِ خانہ کی مرضی کے مطابق اور سہولتیں فراہم کر کے راولپنڈی میں نماز جنازہ ادا کی جاتی‘ اور اس طرح دنیا کویہ پیغام دیا جاتا کہ یہ اُمت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے معاملے میںکتنی حساس اور یک زبان ہے___ اور اس حوالے سے حکومت اور عوام میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ہمارے حکمران ایک ایسی کوشش میں مصروف ہیں جس کے لیے بالآخر ناکامی مقدر ہے۔ مسلمانوں کے دلوں سے ایمان کو کھرچ کر پھینکا نہیں جاسکتا۔ یہاں مائیں اپنی لوریوں کے ساتھ اللہ کی بندگی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا درس دیتی ہیں۔ ملک کا نظامِ تعلیم ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی تربیت دینے والا ہو تو ہر نوجوان ملکی طاقت وقوت کا ایک خزانہ ہے‘ لیکن اگر تعلیم مخالف سمت کی دی جائے تو نوجوانوں کی طاقت کش مکش کی نذر ہوجاتی ہے۔
عامرشہیدؒ کے جنازے سے اربابِ حکومت کی آنکھیںکھل جانا چاہییں کہ یہ قوم کس طرح سوچتی ہے‘ اس کی طاقت کا اصل منبع کیا ہے‘ اسے کس رخ پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر وہ عوام کی مرضی کے مطابق نہ چلیں تو انھیں ملک پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انھیں خود سمجھنا چاہیے‘ کہ جب عوام ان پر نفرین بھیج رہے ہوں‘ ان کے برسرِحکومت رہنے کا کوئی جواز نہیں۔
اگر پاکستان کو اقوامِ عالم میں اپنا حقیقی مقام حاصل کرنا ہے‘ اس کے قیام کے لیے جو قربانیاںدی گئی ہیں‘ انھیں برگ و بار لانا ہے‘ اگر یہاں کتاب و سنت کی فرماں روائی قائم ہونا ہے‘ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حکومت کی جائے۔ یہی جمہوریت کی بھی روح ہے۔ جمہوریت یہ نہیں کہ زور زبردستی سے انتخابات کے ذریعے ٹھپا لگوا لیا جائے۔ عامرشہیدؒ کے جنازے اور اس سے پہلے خاکوں کے مسئلے پر جو احتجاج ہوا‘ اس نے بتادیا ہے کہ ملک کے عوام کس طرح سوچتے ہیں‘ کیا چاہتے ہیں۔ اگر شفاف انتخابات میں ان کی عکاسی ہو تو ملک کا نظام درست ہو اور پاکستان ایک باوقار اسلامی جمہوری ملک بنے۔
پاکستان کو قائم ہوئے ۶۰برس ہونے کو ہیں لیکن یہاں کی بیوروکریسی نے اس ملک کے نظریے کو پنپنے نہیں دیا بلکہ قوم کو انتشار اور بے مقصدیت کا زہر دیے رکھا۔ آج پوری دنیا میں ڈکٹیٹروں کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے۔ یہاں کے اقتدار پرقابض ٹولے کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہییں کہ ملک کواپنی جاگیر نہ سمجھیں وگرنہ دوسرے ممالک میں کامیاب عوامی احتجاج کے نتیجے میں آمریتوں کے خاتمے کی مثالوں میں پاکستانی عوام کے لیے کرنے کا بہت کچھ سبق موجود ہے۔
ماہنامہ ہیرالڈ کراچی (مارچ ۲۰۰۶ئ) میں سید شعیب حسن کی رپورٹ کے مطابق ایئرچیف مارشل (اب سبک دوش) کلیم سعادت کے ذاتی حکم پر اسکواڈرن لیڈر محسن حیات رانجھا کو ۱۲؍اکتوبر ۲۰۰۵ء کو جبری طور پر قبل از وقت ریٹائر کردیا گیا ہے۔ وہ فضائیہ کے نہایت قیمتی اور باصلاحیت پائلٹ تھے اور حال ہی میں امریکا سے تربیت مکمل کرکے واپس آئے تھے۔ اُن کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے داڑھی منڈوانے سے انکار کردیا۔ اسی رپورٹ کے مطابق چار دیگر آفیسر بھی زیرعتاب ہیں‘ ان کے نام یہ ہیں: اسکواڈرن لیڈر نویدریاض‘ فلائٹ لیفٹیننٹ ثاقب‘ فلائٹ لیفٹیننٹ اجمل اور فلائٹ لیفٹیننٹ فضل ربی۔ انھیں بھی گرائونڈ کردیا گیاہے‘ یعنی کام کرنے سے روک دیا گیا ہے ‘اور اُن کے خلاف بھی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ اُن کا قصور بھی یہی ہے کہ وہ داڑھی رکھتے ہیں اور منڈوانے سے انکاری ہیں۔ فلائٹ لیفٹیننٹ عاطف کو بھی جبری ریٹائر کردیا گیا ہے محض اس لیے کہ انھوں نے دیگر افسران میں آیاتِ قرآنی اور احادیث تقسیم کی تھیں۔ ہمارے حکمرانوں کا پاکستان کا سافٹ امیج پیش کرنے کا شوق دیوانگی کی جن حدود کو چھو رہا ہے‘ اُس کا مظہر یہ کارروائی ہے۔
ہمارے معاشرے میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی یہ نسل اپنی حرکتوں سے باز آنے پر تیار نہیں۔ ہمارے حکمران اعلیٰ کے ہیرو کمال اتاترک کے ملک میں اسکارف لینے والی خواتین کو تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ پارلیمنٹ میں اسکارف لے کر آنے والی ممبر کو رکنیت سے محروم ہونا پڑا۔ جب امریکا میں کسی کانگریس کمیٹی میں یہ معاملہ پیش ہوا اور وہاں ترکی کے کمانڈر انچیف بھی موجود تھے‘ تو امریکی ارکان یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ذاتی آزادی کے اتنے رائی جیسے معاملے کو پہاڑ کیوں بنادیا گیا ہے۔
ان دنوں ڈنمارک کے اخبار کے خاکوں نے جو شعلہ انگیز فضا بنائی ہے ان میں فضائیہ کا یہ ’کارنامہ‘ جلتی پر تیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ توہینِ رسالتؐ کے لیے کارٹون بناکر چھاپنا ضروری نہیں۔ کیا اس سے بھی زیادہ توہینِ رسالتؐ ہوسکتی ہے کہ داڑھی کو جو سنتِ رسولؐ اور شعارِ اسلام ہے‘ منڈوانے پر مجبور کیا جائے ورنہ ملازمت سے برطرف کردیا جائے۔ اگر یہ کارروائی امریکا یا انگلینڈ میں ہو تو ہم احتجاجی مظاہرہ کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے مکلف ہیں لیکن اپنے ملک میں اگر یہ ’کارنامہ‘ کیا جائے تو اس ملک کے شہریوں کا اور ہر باغیرت مسلمان کا کیافرض ہے؟ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے؟
جیساکچھ بھی دستور نافذ ہے اُس میں قرارداد مقاصد موجود ہے۔ حکومت کی یہ دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو کتاب وسنت کی ہدایات کی روشنی میں چلائے۔ ہر طرح کی خلاف ورزیاں برداشت کی جارہی ہیں‘ لیکن کیا پاکستانی قوم ان پانچ پائلٹوں کے حق میں کھڑے ہوکر ایک ہی دفعہ فیصلہ نہیں کراسکتی کہ اس ملک میں سنت رسولؐکے ساتھ یہ رویہ نہ صرف فضائیہ میں بلکہ کسی بھی ادارے میں اور کسی بھی سطح پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ہم عدلیہ سے کوئی توقع نہیں رکھتے لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ کچھ خبروں کا اور تبصروں کا موضوع بنتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ فرض شناس وکلا کو یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا اس اقدام کے خلاف توہینِ رسالتؐ کے قانون کے تحت مقدمہ درج کرایا جا سکتا ہے؟ اس ایکٹ کے حق میں ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اگر یہ ایکٹ نہ ہو یا موثر نہ ہو تو پھر ایک عام مسلمان کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی مجرموں کو سزا دے۔
قومی اسمبلی میں اس پر تحریکِ التوا پیش کر دی گئی ہے۔ اگر اجازت دی گئی تو ممبران اس پر مشقِ سخن کرلیں گے لیکن بعض معاملات اس سے زیادہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ ذمہ داروں کے لیے سزایقینی بنائے‘ سبک دوش افسر کو بحال کروائے اور جن کے خلاف داڑھی رکھنے کے ’جرم‘ پر کارروائی کی جارہی ہے وہ رکوائے۔ سدِّباب کے لیے یہ ضروری ہے۔
جس ملک کے شہریوں کو بنیادی سہولتیں مہیا نہ ہوں‘ پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے خواتین میلوں چلتی ہوں‘ خواندگی کی شرح آس پاس کے تمام ممالک کے مقابلے میں شرمناک ہو‘ علاج کی سہولت چند بڑے شہروں سے باہر دستیاب نہ ہو‘ ایک بڑی آبادی ناقابلِ رہایش مکانات میں رہتی ہو‘وہاں کی حکومت اپنے عوام کو تفریح فراہم کرنے میں اتنی پُرخلوص و پُرجوش ہو جس کا مظاہرہ لاہور میں رہتے ہوئے جشنِ بہاراں اور بسنت کے موقع پر نظر آتا ہے تو ضرور یہ سوچنا پڑتا ہے کیا حکومت کو واقعی اپنے عوام کی خوشی کی فکر ہے یا دال میں کچھ کالا ہے۔
مسائل تو اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔ نابالغ بچیاں اغوا ہوتی ہیں‘ زیادتی کا شکار ہوتی ہیں‘ قتل کردی جاتی ہیں‘ مجرم پکڑنے کے اعلان ہوتے ہیں‘ لیکن بے قصوروں کو پکڑنے میں ماہر پولیس کے ہاتھ مجرم نہیں آتا۔ کتنے ہی فراڈ اخباری اشتہارات اور ٹی وی چینل کے ذریعے چلائے جاتے ہیں اور عوام لٹتے رہتے ہیں لیکن کوئی حکومت کا محکمہ یا پولیس ان فراڈیوں پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ چینی کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھاکر عوام کی جیبوں سے اربوں روپیہ کھسوٹنے والے سب کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں‘ لیکن نیب بھی اُن کا بال بیکا نہ کرسکی۔ معاشرے میں ظلم کا دور دورہ ہے۔ زبردست زیردستوں کے مال و منال ہی نہیں‘ عزت و آبرو پر دُرّانہ ہاتھ ڈالتے ہیں لیکن مظلوموں کی دادرسی کہیں نہیں ہوتی۔
یوں شمار کیا جائے تو مسائل کی ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی عوام کی خیرخواہ اور فرض شناس حکومت ہو‘ تو وہ ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل سے نبٹے گی یا عوام کو تفریح فراہم کرنے کے معصوم عنوان سے پتنگ بازوں کی سرپرستی کرے گی؟
فیلڈمارشل ایوب خاں (غالباً اب جنرل فیلڈمارشل کے لقب سے اس لیے متوحّش ہیں کہ ایوب خاں والا انجام نہ ہو) کے زمانے میں بھی حکومت کو تفریحات میں بھی بہت دل چسپی ہوگئی تھی۔ اس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب حکومت عوام کے بنیادی مسائل حل نہ کررہی ہو‘ صرف تقاریر‘ اعلانات اور ٹی وی اشتہارات سے کام چلا رہی ہو تو وہ عوام کو لہوولعب‘ کھیل کود اور لایعنی تفریحات میں مصروف کرنا چاہتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر عوام نے ملکی مسائل پر اور اپنی پریشانیوں پر سنجیدگی سے سوچا تو حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ حکمران جانتے ہیں کہ انھوں نے کس طرح حکومت پر ناجائز قبضہ کیا ہے۔ وہ اپنے دلوں میں خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھوں نے کس طرح انتخابات جیتے ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ وہ حکومت کو عوام کی خدمت کرنے کے بجاے اپنے مفادات پورے کرنے‘ دوستوں کو ٹھیکے دلوانے‘ کرپشن کرکے کروڑوں اربوں کے بینک بیلنس بنانے میں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اپنے جھوٹ کو عوام سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لیے ان کے ضمیر مجرم ہیں۔ اسی لیے یہ اپنے مجرم ضمیر کو تسکین دینے کے لیے عوام کو تفریح کے بہلاوے دیتے ہیں۔
بسنت آنے سے پہلے ہی بسنت کا بخار چڑھ جاتا ہے۔ پچھلے تین چار سالوں میں سرکاری سرپرستی میں ہندوئوں کا یہ تہوار ہماری حکومت نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ پتنگ بازی ایک عام سی تفریح تھی‘ جسے شرفا کے بچوں کے لیے معیوب سمجھا جاتا تھا‘ لیکن عوام کو اُن کے مسائل بھلانے کے لیے اسے ایک قومی جشن کی صورت دے دی گئی۔ اس کے دیگر نقصانات سے تو آنکھیں بند کرلی گئیں (واپڈا کے کروڑوں کے بل‘ جو بالآخر عوام کی جیب سے ہی جاتے ہیں)‘ لیکن جب قاتل ڈور سے سکوٹرسوار قتل ہونے لگے اور ہسپتال کے وارڈ زخمیوں سے بھر گئے تو اس طرف توجہ دی گئی اور سپریم کورٹ نے اپنے روایتی دائرے سے باہر آکر پتنگ بازی پر پابندی لگا دی۔ اس آڑ میں اور جو کچھ ہوتا ہے عدالت عظمیٰ کو اس سے سروکار نہ تھا۔ عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے اور معاشرے کے سنجیدہ عناصر کے مطالبوں پر کان دھرتے ہوئے حکومت پنجاب اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرلیتی تو کم سے کم وہ جانی نقصان تو نہ ہوا ہوتا اور گھروں کے وہ چراغ نہ گل ہوتے جو پابندی ہٹانے سے ہوئے۔ پولیس کو صرف اتنا کرنا تھا کہ قاتل ڈور بنانے کے مراکز ختم کروا دیتی لیکن القاعدہ کی بو سونگھنے والی بے چاری پولیس یہ کام تونہ کرسکی لیکن چھوٹے چھوٹے بچوںکو ہتھکڑیاں ڈالنے میں شیرثابت ہوئی۔ اس سے ان معصوموں کی شخصیت پر جو گھائو لگے ہیں اس پر کسی ماہرنفسیات کو لکھنا چاہیے۔ اُن کے والدین سے جو رقومات لی گئی ہوں گی اُن کا اندازہ ہماری پولیس کی درخشندہ روایات کے تحت ہر کوئی لگا سکتا ہے۔ کوئی اخبار ہی عدالت لگالیتا کہ لوگوں نے پولیس کو جو ادایگیاں کی ہیں اُس کی تفصیل فراہم کردیتا۔ کیا پتا ہماری سپریم کورٹ حکومت پنجاب سے یہ رقم واپس کروادیتی۔
بسنت کا سب سے کریہہ پہلو اُس کی تاریخی روایت اور اب اُس کی آڑ میں فحاشی کے رواج کے علاوہ وہ قتل ہیں جو قاتل ڈور کے ذریعے ہوگئے۔ معصوم بچوں کے قتل نے معاشرے کو ہلادیا۔ اخباری سرخیوں اور کالم نگاروں نے شہریوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ پہلے ہی قتل پر سپریم کورٹ کو دوبارہ پابندی لگا دینا چاہیے تھی‘ اس صراحت کے ساتھ کہ پولیس قاتل ڈور بنانے والوں کو پکڑے اور عدالتوں میں لائے اور اس پابندی کو اپنی رشوت ستانی کا ذریعہ نہ بنائے۔ پنجاب حکومت تو غالباً جناب صدر کی تشریف آوری کی منتظر تھی لیکن سپریم کورٹ نے درجن بھر سے زیادہ قتل کیوں ہونے دیے اور اپنا فرض صرف یہی کیوں سمجھا کہ دیت یا معاوضہ دلوا دے۔
سپریم کورٹ میں ابھی مقدمہ جاری ہے۔ آیندہ فروری تک سوچ بچار کا موقع ہے۔ جو کچھ ہوتا رہا ہے اُس کے تجزیے ہوتے رہیں گے لیکن کانٹے کی بات یہ ہے کہ اس نوعیت کے معاملات میں معاشرے کو اپنا فرض سرگرم طور پر ادا کرنا چاہیے۔ حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہے کہ لوگ خود تماشا دیکھتے ہیں اور سب کچھ کرنے کی توقع حکومت سے کرتے ہیں۔ اگر سب باشعور عناصر فعّال ہوکر آگے بڑھ آئیں تو بہت سے غلط کام اپنی موت آپ مرجائیں‘ لیکن عوام تماشائی ہوجائیں اور حکومت اُلٹا سرپرستی کرے تو پھر وہی کچھ ہونا ہے جو ہوا۔
بنیادی بات یہ ہے کہ معاملات میں افراط و تفریط کے بجاے اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ پتنگ بازی فی نفسہ کوئی ایسی برائی نہیں کہ اُس پر پابندی لگائی جائے لیکن ایک فرض شناس حکومت کو اُس کی خرابیوں کا سدباب کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ اُلٹا اُن خرابیوں کو بڑھائے‘ پھیلائے اور اُن کی سرپرستی کرنے میں لگ جائے‘ اور لوگ جائز طور پر یہ سمجھیں کہ جو ڈور قتل کر رہی ہے‘ اس کو ہلانے والے ہاتھ حکومت کے ہیں۔
حال ہی میں یونی ورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر رابرٹ پاپ (Robert Pape)نے ایک کتاب Dying To Win (فتح کے لیے مرنا) خودکُش دہشت گردی کے موضوع پر لکھی ہے۔ یہ موضوع بھی ہمارا ہے‘ لیکن شاید پاکستان یا عرب دنیا میں کہیں اس طرح کا ریکارڈ اور تحقیقی مطالعہ نہ کیا گیا ہو۔ مصنف نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ اس کے پاس اس طرح کے دہشت گردوں کا ایک پورا ڈیٹابیس ہے جس میں ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۴ء تک خودکُش دہشت گردوں کی نام بہ نام ہر ایک کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں۔ یہ صرف اخباری اطلاعات پر مبنی نہیں ہے بلکہ متعلقہ فرد کے اہل خانہ سے ملاقاتیں کی گئی ہیں اور ان کی اپنی زبان (عربی‘ روسی اور تامل) میں بات چیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مصنف سے ایک انٹرویو لیا گیا ہے جو The American Conservative (۱۸جولائی ۲۰۰۵ئ) میں شائع ہوا ہے۔ یہ تحریر اسی انٹرویو پر مبنی ہے۔
رابرٹ پاپ کا کہنا ہے: ’ان معلومات کے نتیجے میں اس سے ایک بالکل مختلف تصویر اُبھرتی ہے جو ہمیں امریکا میں دکھائی جارہی ہے۔ دہشت گردی کی تحریک کو غذا کس چیز سے مل رہی ہے؟ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں‘ اس کا اسلامی بنیاد پرستی سے تعلق ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس کے پیچھے ایک واضح اسٹرے ٹیجک مقصد ہے: وہ سرزمین جس کو دہشت گرد اپنی مادرِ وطن سمجھتے ہیں وہاں سے جدید جمہوریتوں [مغربی ممالک] کو اپنی فوجیں واپس بلانے پر مجبور کرنا۔ لبنان سے سری لنکا تک‘ چیچنیا سے کشمیر اور دریاے اُردن کے مغربی کنارے تک‘ ہرخودکُش دہشت گرد مہم کے تمام واقعات کے تقریباً ۹۵ فی صد کا ہدف یہی تھا‘۔
مصنف کہتا ہے: ’امریکا میں تو یہی کہا جاتا ہے کہ اگر ہم دہشت گردوں سے وہاں لڑلیں تو ہمیں ان سے یہاں اپنی زمین پر نہیں لڑنا پڑے گا۔ اگر ہم صاف دلی سے دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشت گردی اسلامی بنیاد پرستی کی وجہ سے نہیں ہے‘ بلکہ غیرملکی قبضے کا ردعمل ہے۔ اس لیے مسلم معاشروں کو فوجی قوت کے ذریعے تبدیل کرنے کی ہماری کوشش کا نتیجہ اُلٹا ہی ہوگا کہ ہم یہاں اپنے گھر میں اور زیادہ خودکُش حملوں کا نشانہ بنیں گے۔ ۱۹۹۰ء سے امریکا نے جزیرہ نماے عرب میں لاکھوں کی تعداد میں فوج بٹھا رکھی ہے۔ امریکی فوج کی یہی موجودگی‘ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے گرد لوگوں کو جمع ہونے کا سب سے بڑا محرک ثابت ہوئی ہے۔ ہمارے جن پالیسی سازوں کا استدلال یہ ہے کہ بہتر ہے کہ یہ حملے وہاں ہوتے رہیں‘ لیکن وہ یہ بات فراموش کردیتے ہیں کہ یہ عمل ایسا نہیں ہے کہ جس میں رسد محدود ہو اور صرف چند سو دہشت گرد یا مذہبی دیوانے یہ کرنے کے لیے آمادہ ہوں‘ بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے طلب اور رسد دونوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ مثلاً عراق پر ہمارے حملے نے دہشت گردی کو تحریک دی ہے اورخودکُش دہشت گردی کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔
رابرٹ پاپ تجزیہ کرتا ہے: ’اسامہ بن لادن کی تقریریں چالیس چالیس‘ پچاس پچاس صفحوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان میں پہلی بات یہی ہوتی ہے کہ امریکی فوجیوں کو اس سرزمین سے نکالا جائے‘۔ ۱۹۹۶ء میں اسامہ نے کہا تھا:’’امریکا کا منصوبہ یہ ہے کہ عراق کو ختم کریں‘ اس کے تین ٹکڑے کریں‘ ایک اسرائیل کو دیں تاکہ وہ اپنی سرحدیں وسیع کرے‘ اور پھر یہی کچھ سعودی عرب کے ساتھ کریں۔ ہم اس پیش گوئی کو حرف بحرف سچا ثابت کر رہے ہیں۔ اس طرح اسامہ کی اپیل میں بڑی کشش پیدا ہوگئی ہے‘۔
’سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان علاقوں میں امریکی افواج کی موجودگی کو زیادہ وزن دیا جائے‘ یا مغرب کو تہذیبی طور پر مسترد کرنے کے جذبے کو؟ حقائق بتاتے ہیں کہ اس ردعمل میں اصل چیز‘ ان علاقوں میں امریکی افواج کی موجودگی ہے۔ اگر اسلامی بنیاد پرستی ہی ان خودکش حملوں کی اصل محرک ہوتی تو دنیا کی بڑی بڑی اسلامی بنیاد پرست حکومتوں میں دہشت گردوں کی اکثریت ہوتی‘ لیکن عراق اور سعودی عرب سے تین گنا زیادہ آبادی والے ۷ کروڑ مسلمانوں کے ملک ایران سے کوئی بھی دہشت گرد پیدا نہیں ہورہے‘ اور نہ عراق میں یہ ایران سے آرہے ہیں۔ پھر ۲کروڑ آبادی کا ملک سوڈان انتہائی بنیاد پرست ہے۔ اسامہ بن لادن نے تین سال یہاں بھی گزارے ہیں‘ لیکن یہاں سے کوئی بھی حملہ نہیں ہوا۔ خود عراق کو دیکھیے‘ ہمارے حملے سے پہلے عراق کی تاریخ میں کسی خودکُش حملے کا ریکارڈ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے حملے کے بعد اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ۲۰ حملے‘ ۲۰۰۴ء میں ۴۸ حملے اور ۲۰۰۵ء کے پہلے پانچ مہینوں میں ۵۰ سے زیادہ۔ امریکی افواج کی موجودگی کی وجہ سے ان حملوں میں ہر سال دگنا اضافہ ہو رہا ہے‘۔
رابرٹ پاپ وضاحت کرتا ہے: ’۱۹۸۰ء کے بعد سے ہونے والے اُن ۴۶۲ خودکُش حملوں کا میں نے پورا ریکارڈ جمع کیا ہے جس میں حملہ آور نے اپنا مشن بھی مکمل کیا اور اپنے آپ کو ہلاک بھی کردیا۔ ان میں چند ہی وہ ہیں جو کسی دہشت گرد گروپ سے طویل عرصے تک سے وابستہ رہے ہوں۔ زیادہ تر کے لیے تشدد کا پہلا تجربہ خود ان کا یہ حملہ ہی ہوتا ہے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہمارے حملے سے پہلے عراق میں دہشت گرد تنظیمیں ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ امرواقع یہ ہے کہ ہمارے حملے اور عراق پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش نے خودکُش دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق دہشت گرد زیادہ تر عراقی سنی اور سعودی باشندے ہیں۔ یہی وہ دو علاقے ہیں جہاں ہماری افواج موجود ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری خودکُش دہشت گردی کی منطق درست ہے‘۔
وہ دعویٰ کرتا ہے کہ القاعدہ کی ایک خفیہ دستاویز سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ اگلی مختصر مدت میں امریکا پر حملہ کرنے کے بجاے اس کے حلیفوں کو نشانہ بنائیں گے تاکہ دہشت گردی کے خلاف قائم اتحاد ٹوٹ جائے۔ اس دستاویز میں یہ بحث موجود ہے کہ حملہ برطانیہ پر کریں‘ پولینڈ پر یا اسپین پر۔ یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ اسپین پر مارچ ۲۰۰۴ء کے انتخابات سے پہلے حملہ کیا جائے تو وہ اپنی فوجیں واپس بلا لے گا اور پھر دوسرے بھی یہی کریں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ اس دستاویز کے علم میں آجانے کے بعد میڈرڈ میں حملہ ہوا‘ اسپین نے فوجیں واپس بلا لیں‘ اور کچھ دوسرے ممالک نے بھی۔ القاعدہ نے ۲۰۰۲ء میں ۱۵ خودکُش حملے کیے ہیں۔ یہ نائن الیون سے پہلے کے مجموعی حملوںسے زیادہ ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود القاعدہ کمزور نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔
پوچھا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح کا کیا مطلب ہے؟ فتح یہ ہے کہ ہمیں اپنا کوئی اہم مفاد قربان نہ کرنا پڑے اور نہ امریکی باشندے خودکُش حملوں کی زد میں آئیں‘ یعنی ہمیں تیل کی فراہمی برقرار رہے اور دہشت گردوں کی کوئی نئی نسل پیدا نہ ہو۔ ۷۰ء اور ۸۰ء کے عشروں میں ہم نے اپنے یہ مقاصد عرب سرزمین پر اپنا کوئی فوجی بھیجے بغیر حاصل کیے۔ اب بھی اسی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
دیکھا جائے تو ہرغیرملکی تسلط سے خودکُش دہشت گردی پیدا نہیں ہوتی۔ یہاں مذہب کا دخل سامنے آتا ہے مگر اس طرح کا نہیں جس طرح کا لوگ سوچتے ہیں۔ اگر قبضہ کرنے والے اور مقبوضہ معاشرے اور علاقے کے مذاہب مختلف ہیں تو دہشت گردی کا عمل سامنے آتا ہے۔ لبنان اور عراق میں بھی یہی وجہ ہے اور ایسا ہی معاملہ سری لنکا میں سنہالی بدھ اور تامل ہندوئوں کا ہے۔ مذہبی فرق کی وجہ سے دہشت گرد رہنما قابض حکمرانوں کا خراب نقشہ پیش کرتے ہیںلیکن ضروری ہے کہ قبضہ کرنے والا وہاں ہو۔ اگر قابض فوج وہاں موجود نہ ہو تو اسامہ بن لادن خواہ کتنی ہی دلیلیں دے‘ اس کے مخاطب لوگوں میں اس کا کوئی وزن نہ ہوگا۔ چونکہ ہماری فوجیں وہاں موجود ہیں‘ اس لیے ہم اس کی اس بات کا جواب نہیں دے سکتے۔
رابرٹ پاپ کے بقول: ’یہ سمجھا جاتاہے کہ امریکی فوج واپس چلی جائے تب بھی یہ حملے بند نہ ہوں گے۔ لیکن میرے خیال میں یہ صحیح نہیں ہے۔ گذشتہ ۲۰ برس کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ دہشت گردوں کے وطن سے اگر غیرملکی فوج واپس چلی جائے تو عموماً حملے فوراً رک جاتے ہیں۔ لبنان سے اسرائیلی فوجیں واپس چلی گئیں تو دہشت گردوں نے ان کا پیچھا تِل ابیب تک نہیں کیا۔ فلسطین کی دوسری تحریک انتفاضہ میں بھی یہی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کے صرف یہ وعدہ کرلینے سے کہ وہ علاقے خالی کرے گا‘ حملوں میں کمی آگئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ افواج کی واپسی مزید خودکش حملہ آوروں کی بھرتی کے امکانات کو کم کردیتی ہے‘۔
رابرٹ سے پوچھا گیا کہ اس کا امکان کہاں تک ہے کہ کسی امریکی شہر میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) استعمال کیے جائیں؟ اس نے جواب دیا: ’اس کا بیش تر انحصار اس پر ہے کہ ہماری مسلح افواج کتنے عرصے تک خلیج میں رہتی ہیں۔ امریکا مخالف دہشت گردی‘ خودکُش دہشت گردی اور تباہ کن دہشت گردی کا مرکزی محرک غیرملکی قبضہ‘ یعنی دوسرے ممالک میں ہماری افواج کی موجودگی کا ردعمل ہے۔ ہماری افواج دنیاے عرب میں جتنی دیر قیام کرتی ہیں کسی نہ کسی نائن الیون کا اندیشہ موجود ہے ‘خواہ یہ خودکُش حملہ ہو‘ جوہری حملہ ہو یا حیاتیاتی۔ (اخذو تلخیص)
یومِ آزادی کی شب تھی۔ اسلام آباد میں ایوانِ صدر کا سبزہ زار تھا۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے حکمران اپنی بیگمات‘ بیٹوں اور بیٹیوں‘ بہنوں اور مائوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آزادی کی شب منائی جارہی تھی۔ نغمے اور گانے گائے جا رہے تھے۔ رقص بھی ہوئے اور صدرمملکت نے بذاتِ خود بھی رقص فرمایا۔ اسی دوران وقفے وقفے سے کیٹ واکس (catwalks) ہوئیں۔ یہ نت نئے فیشن کا مظاہرہ کرتی مادرِوطن کی بیٹیاں خراماں خراماں آتیں اور سامنے سے اور پشت سے جسم کے نشیب و فراز دکھاتی چلی جاتیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں سے داد وصول کرتیں‘ ماں اور بیٹے ایک ساتھ تالیاں بجاتے۔
یہ پروگرام کراچی یا لاہور کے کسی پوش بنگلے کے سبزہ زار پر منعقد ہوتا اور شرکا خرمستیاں کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ چار دیواری کے اندر وہ جانیں‘ ان کا اللہ جانے۔ لیکن آزادی کی رات ایوانِ صدر میں یہ پروگرام ہو اور پورے ملک میں فخر سے بلکہ سینہ ٹھونک کر دکھایا جائے تو ایک پاکستانی کی حیثیت سے دل صدمے کا شکار ہوتا ہے۔
پروگرام ختم ہوا تو صدر مملکت اسٹیج پر تشریف لائے‘ فرمایا: یہ جو پروگرام ہوا ہے‘ بہت اچھا ہوا ہے۔ یہ ہماری ’’خوش گوار تصویر‘‘ (soft image) ہے۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم یہ ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: جن لوگوں کے مذہب میں یہ کوئی رکاوٹ بنتا ہے‘ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی عقلوں سے اور آنکھوں سے پردہ اٹھا دے۔
میں کانپ گیا۔ ایک ہوتا ہے‘ خدا کے غضب کو دعوت دینا۔ اس حوالے سے بھی ہم بہت کچھ کر رہے ہیں۔ لیکن ایک ہوتا ہے خدا کے غضب کو بھڑکانا۔ صدرمملکت کی دعا اسی ذیل میں محسوس ہوئی۔
تصور کیجیے کہ موقع کیا ہے؟ یہ ملک کس لیے حاصل کیا گیا (۵۸ سال اس کے ساتھ ہم نے جو بھی کیا ہو)‘ ملک بننے کے موقع پر جو قربانیاں دی گئیں‘ ہنستے بستے شہر جس طرح اُجڑ گئے‘ معصوموں اور حیاداروں کی عزتیں جس طرح لوٹی گئیں‘ جو خون بہا وہ سب اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہے۔ الیکٹرانک میڈیا تو کل کی پیداوار ہیں‘ تاریخ سے بے بہرہ ہیں لیکن پرنٹ میڈیا میں تو جدوجہدِ آزادی کے ساتھ قربانیوں کے تذکرے ضرور ہوتے ہیں (جب تک انھیں منافرت پیدا کرنے کے الزام کے تحت بند نہ کروا دیا جائے)۔ ایوان صدر کے اس پروگرام نے آزادی کے لیے قربانی دینے والوں کی روحوں کو کس کس طرح نہ تڑپایا ہوگا اور ابھی تو زمین پر وہ نسل موجود ہے‘ جس نے آنکھوں سے سب کچھ دیکھا ہے۔
غضب کو بھڑکانے کی بات اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ تاریخ سے‘ ماضی سے‘ بلکہ مستقبل سے بھی آنکھیں بند کرکے مادرپدر آزاد پروگرام کرنے پر اظہار فخر بھی ہے۔ اس کو اسلام کے مطابق نہ سمجھنے والوں پر نکیر بھی ہے‘ بلکہ جرأت دیکھیں کہ اللہ سے یہ دعا بھی ہے کہ وہ منکرات کو غلط سمجھنے والوں کی نظروں اور دماغ کو ان حکمرانوں کی طرح کر دے تاکہ وہ ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ کی عینک لگا کر ناچ گانوں اور کیٹ واک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ’’حقیقی خوش گوار تصویر ‘‘ اور دینی لحاظ سے جائز سمجھیں۔
۲۵ سال میں ہم نے آدھے سے زیادہ ملک گنوا دیا اور اب جتنا بچا ہے اور جتنا خودمختار رہ گیا ہے‘ سب کو نظر آتا ہے۔ ہماری آزادی چھن چکی ہے‘ بہت سوں کو خبر نہیں ہے۔ ہم بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے لیے ہمیں براہ راست احکام ملتے ہیں اور ہمیں ماننا پڑتا ہے۔ سرحدوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ہمیں چپ رہنا پڑتا ہے۔ اپنے ٹی وی پر ہم خود اپنے عالمی اعلیٰ مقام کے گن گاتے ہیں (بھلا اپنی قوم کو فروخت کر کے بھی کسی کو عزت ملی ہے!) اور حال یہ ہے کہ ہفت روزہ ٹائم نے ماڈرن ایشیا پر اسپیشل ڈبل ایشو نکالا ہے تو پاکستان جیسے ’’عظیم ملک‘‘ کا ذکر ہی نہیں‘ جب کہ نیپال اور ویت نام کا ہے (غالباً ان کی منطق کے مطابق جب انڈیا کا ذکر کر دیا تو پاکستان پر الگ اسٹوری کی کیا ضرورت ہے)۔
بات ہو رہی تھی صدر مملکت کی دعا کی اورخدا کے غضب کو بھڑکانے کی۔ یہ پروگرام جس موقع پر ہوا ہے‘ جہاں ہوا ہے اور جس طرح پوری قوم کو گواہ کر کے ہوا ہے‘ اس سے اندیشہ ہوتا ہے کہ معلوم نہیں اللہ کی دی ہوئی ڈھیل کب ختم ہوجائے۔ ہم اپنی باتوں میں‘ کھیل کود میں اور کیبل سے طرح طرح کے چینل دیکھنے میں مشغول ہوں‘ اور اللہ کی پکڑ آجائے۔ اگر پاکستانی ایک بیدار قوم ہوتے تو ان حکمرانوں کو ٹی وی پر یہ پروگرام دکھانے کی جرأت نہ ہوتی (یحییٰ خان کو اتنی شرم تھی کہ اپنی کارروائیاں کچھ نہ کچھ اخفا کے ساتھ کرتا تھا)۔ اب سب کچھ ببانگِ دہل ہے۔ اس لیے جو دیکھتا ہے‘ کچھ نہیں کرتا‘ کچھ نہیں کہتا‘ وہ بھی اس میں شریک ہے۔ نسیم حجازی کے ناولوں میں پڑھا ہوا ایک جملہ یاد آتا ہے کہ قدرت افراد کے گناہوں سے صرفِ نظر کرلیتی ہے لیکن قوموں کے اجتماعی جرائم معاف نہیں کیے جاتے۔
اگر قوم بیدار ہو ‘ اس کے نوجوان‘ بچے‘ مرد و عورت بیدار ہوں تو اس طرح کے حکمران مسلط ہی نہ کیے جائیں۔ آج بھی یقینا سب نہیں سو رہے‘ کچھ لوگ ضرور جاگ رہے ہیں۔ اگر یہ جاگنے والے خود جاگتے رہیں‘ سونے والوں کو نہ اٹھائیں‘ تو ان کا حشر سونے والوں کے ساتھ ہوگا۔ کشتی میں چھید کرنے والوں کا ہاتھ نہ پکڑا گیا تو کشتی سب سواروں کو لے ڈوبے گی۔
پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اِس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی‘ جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا‘ جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔(الاعراف ۷:۹۷-۹۹)
پھر جب انھوں نے اُس نصیحت کو جو اُنھیں کی گئی تھی بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوش حالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے‘ یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انھیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے اُنھیں پکڑلیا۔ (الانعام ۶:۴۴)
یومِ آزادی کی شب تھی۔ اسلام آباد میں ایوانِ صدر کا سبزہ زار تھا۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے حکمران اپنی بیگمات‘ بیٹوں اور بیٹیوں‘ بہنوں اور مائوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آزادی کی شب منائی جارہی تھی۔ نغمے اور گانے گائے جا رہے تھے۔ رقص بھی ہوئے اور صدرمملکت نے بذاتِ خود بھی رقص فرمایا۔ اسی دوران وقفے وقفے سے کیٹ واکس (catwalks) ہوئیں۔ یہ نت نئے فیشن کا مظاہرہ کرتی مادرِوطن کی بیٹیاں خراماں خراماں آتیں اور سامنے سے اور پشت سے جسم کے نشیب و فراز دکھاتی چلی جاتیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں سے داد وصول کرتیں‘ ماں اور بیٹے ایک ساتھ تالیاں بجاتے۔
یہ پروگرام کراچی یا لاہور کے کسی پوش بنگلے کے سبزہ زار پر منعقد ہوتا اور شرکا خرمستیاں کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ چار دیواری کے اندر وہ جانیں‘ ان کا اللہ جانے۔ لیکن آزادی کی رات ایوانِ صدر میں یہ پروگرام ہو اور پورے ملک میں فخر سے بلکہ سینہ ٹھونک کر دکھایا جائے تو ایک پاکستانی کی حیثیت سے دل صدمے کا شکار ہوتا ہے۔
پروگرام ختم ہوا تو صدر مملکت اسٹیج پر تشریف لائے‘ فرمایا: یہ جو پروگرام ہوا ہے‘ بہت اچھا ہوا ہے۔ یہ ہماری ’’خوش گوار تصویر‘‘ (soft image) ہے۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم یہ ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: جن لوگوں کے مذہب میں یہ کوئی رکاوٹ بنتا ہے‘ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی عقلوں سے اور آنکھوں سے پردہ اٹھا دے۔
میں کانپ گیا۔ ایک ہوتا ہے‘ خدا کے غضب کو دعوت دینا۔ اس حوالے سے بھی ہم بہت کچھ کر رہے ہیں۔ لیکن ایک ہوتا ہے خدا کے غضب کو بھڑکانا۔ صدرمملکت کی دعا اسی ذیل میں محسوس ہوئی۔
تصور کیجیے کہ موقع کیا ہے؟ یہ ملک کس لیے حاصل کیا گیا (۵۸ سال اس کے ساتھ ہم نے جو بھی کیا ہو)‘ ملک بننے کے موقع پر جو قربانیاں دی گئیں‘ ہنستے بستے شہر جس طرح اُجڑ گئے‘ معصوموں اور حیاداروں کی عزتیں جس طرح لوٹی گئیں‘ جو خون بہا وہ سب اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہے۔ الیکٹرانک میڈیا تو کل کی پیداوار ہیں‘ تاریخ سے بے بہرہ ہیں لیکن پرنٹ میڈیا میں تو جدوجہدِ آزادی کے ساتھ قربانیوں کے تذکرے ضرور ہوتے ہیں (جب تک انھیں منافرت پیدا کرنے کے الزام کے تحت بند نہ کروا دیا جائے)۔ ایوان صدر کے اس پروگرام نے آزادی کے لیے قربانی دینے والوں کی روحوں کو کس کس طرح نہ تڑپایا ہوگا اور ابھی تو زمین پر وہ نسل موجود ہے‘ جس نے آنکھوں سے سب کچھ دیکھا ہے۔
غضب کو بھڑکانے کی بات اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ تاریخ سے‘ ماضی سے‘ بلکہ مستقبل سے بھی آنکھیں بند کرکے مادرپدر آزاد پروگرام کرنے پر اظہار فخر بھی ہے۔ اس کو اسلام کے مطابق نہ سمجھنے والوں پر نکیر بھی ہے‘ بلکہ جرأت دیکھیں کہ اللہ سے یہ دعا بھی ہے کہ وہ منکرات کو غلط سمجھنے والوں کی نظروں اور دماغ کو ان حکمرانوں کی طرح کر دے تاکہ وہ ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ کی عینک لگا کر ناچ گانوں اور کیٹ واک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ’’حقیقی خوش گوار تصویر ‘‘ اور دینی لحاظ سے جائز سمجھیں۔
۲۵ سال میں ہم نے آدھے سے زیادہ ملک گنوا دیا اور اب جتنا بچا ہے اور جتنا خودمختار رہ گیا ہے‘ سب کو نظر آتا ہے۔ ہماری آزادی چھن چکی ہے‘ بہت سوں کو خبر نہیں ہے۔ ہم بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے لیے ہمیں براہ راست احکام ملتے ہیں اور ہمیں ماننا پڑتا ہے۔ سرحدوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ہمیں چپ رہنا پڑتا ہے۔ اپنے ٹی وی پر ہم خود اپنے عالمی اعلیٰ مقام کے گن گاتے ہیں (بھلا اپنی قوم کو فروخت کر کے بھی کسی کو عزت ملی ہے!) اور حال یہ ہے کہ ہفت روزہ ٹائم نے ماڈرن ایشیا پر اسپیشل ڈبل ایشو نکالا ہے تو پاکستان جیسے ’’عظیم ملک‘‘ کا ذکر ہی نہیں‘ جب کہ نیپال اور ویت نام کا ہے (غالباً ان کی منطق کے مطابق جب انڈیا کا ذکر کر دیا تو پاکستان پر الگ اسٹوری کی کیا ضرورت ہے)۔
بات ہو رہی تھی صدر مملکت کی دعا کی اورخدا کے غضب کو بھڑکانے کی۔ یہ پروگرام جس موقع پر ہوا ہے‘ جہاں ہوا ہے اور جس طرح پوری قوم کو گواہ کر کے ہوا ہے‘ اس سے اندیشہ ہوتا ہے کہ معلوم نہیں اللہ کی دی ہوئی ڈھیل کب ختم ہوجائے۔ ہم اپنی باتوں میں‘ کھیل کود میں اور کیبل سے طرح طرح کے چینل دیکھنے میں مشغول ہوں‘ اور اللہ کی پکڑ آجائے۔ اگر پاکستانی ایک بیدار قوم ہوتے تو ان حکمرانوں کو ٹی وی پر یہ پروگرام دکھانے کی جرأت نہ ہوتی (یحییٰ خان کو اتنی شرم تھی کہ اپنی کارروائیاں کچھ نہ کچھ اخفا کے ساتھ کرتا تھا)۔ اب سب کچھ ببانگِ دہل ہے۔ اس لیے جو دیکھتا ہے‘ کچھ نہیں کرتا‘ کچھ نہیں کہتا‘ وہ بھی اس میں شریک ہے۔ نسیم حجازی کے ناولوں میں پڑھا ہوا ایک جملہ یاد آتا ہے کہ قدرت افراد کے گناہوں سے صرفِ نظر کرلیتی ہے لیکن قوموں کے اجتماعی جرائم معاف نہیں کیے جاتے۔
اگر قوم بیدار ہو ‘ اس کے نوجوان‘ بچے‘ مرد و عورت بیدار ہوں تو اس طرح کے حکمران مسلط ہی نہ کیے جائیں۔ آج بھی یقینا سب نہیں سو رہے‘ کچھ لوگ ضرور جاگ رہے ہیں۔ اگر یہ جاگنے والے خود جاگتے رہیں‘ سونے والوں کو نہ اٹھائیں‘ تو ان کا حشر سونے والوں کے ساتھ ہوگا۔ کشتی میں چھید کرنے والوں کا ہاتھ نہ پکڑا گیا تو کشتی سب سواروں کو لے ڈوبے گی۔
پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اِس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی‘ جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا‘ جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔(الاعراف ۷:۹۷-۹۹)
پھر جب انھوں نے اُس نصیحت کو جو اُنھیں کی گئی تھی بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوش حالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے‘ یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انھیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے اُنھیں پکڑلیا۔ (الانعام ۶:۴۴)