حال ہی میں یونی ورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر رابرٹ پاپ (Robert Pape)نے ایک کتاب Dying To Win (فتح کے لیے مرنا) خودکُش دہشت گردی کے موضوع پر لکھی ہے۔ یہ موضوع بھی ہمارا ہے‘ لیکن شاید پاکستان یا عرب دنیا میں کہیں اس طرح کا ریکارڈ اور تحقیقی مطالعہ نہ کیا گیا ہو۔ مصنف نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ اس کے پاس اس طرح کے دہشت گردوں کا ایک پورا ڈیٹابیس ہے جس میں ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۴ء تک خودکُش دہشت گردوں کی نام بہ نام ہر ایک کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں۔ یہ صرف اخباری اطلاعات پر مبنی نہیں ہے بلکہ متعلقہ فرد کے اہل خانہ سے ملاقاتیں کی گئی ہیں اور ان کی اپنی زبان (عربی‘ روسی اور تامل) میں بات چیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مصنف سے ایک انٹرویو لیا گیا ہے جو The American Conservative (۱۸جولائی ۲۰۰۵ئ) میں شائع ہوا ہے۔ یہ تحریر اسی انٹرویو پر مبنی ہے۔
رابرٹ پاپ کا کہنا ہے: ’ان معلومات کے نتیجے میں اس سے ایک بالکل مختلف تصویر اُبھرتی ہے جو ہمیں امریکا میں دکھائی جارہی ہے۔ دہشت گردی کی تحریک کو غذا کس چیز سے مل رہی ہے؟ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں‘ اس کا اسلامی بنیاد پرستی سے تعلق ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس کے پیچھے ایک واضح اسٹرے ٹیجک مقصد ہے: وہ سرزمین جس کو دہشت گرد اپنی مادرِ وطن سمجھتے ہیں وہاں سے جدید جمہوریتوں [مغربی ممالک] کو اپنی فوجیں واپس بلانے پر مجبور کرنا۔ لبنان سے سری لنکا تک‘ چیچنیا سے کشمیر اور دریاے اُردن کے مغربی کنارے تک‘ ہرخودکُش دہشت گرد مہم کے تمام واقعات کے تقریباً ۹۵ فی صد کا ہدف یہی تھا‘۔
مصنف کہتا ہے: ’امریکا میں تو یہی کہا جاتا ہے کہ اگر ہم دہشت گردوں سے وہاں لڑلیں تو ہمیں ان سے یہاں اپنی زمین پر نہیں لڑنا پڑے گا۔ اگر ہم صاف دلی سے دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشت گردی اسلامی بنیاد پرستی کی وجہ سے نہیں ہے‘ بلکہ غیرملکی قبضے کا ردعمل ہے۔ اس لیے مسلم معاشروں کو فوجی قوت کے ذریعے تبدیل کرنے کی ہماری کوشش کا نتیجہ اُلٹا ہی ہوگا کہ ہم یہاں اپنے گھر میں اور زیادہ خودکُش حملوں کا نشانہ بنیں گے۔ ۱۹۹۰ء سے امریکا نے جزیرہ نماے عرب میں لاکھوں کی تعداد میں فوج بٹھا رکھی ہے۔ امریکی فوج کی یہی موجودگی‘ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے گرد لوگوں کو جمع ہونے کا سب سے بڑا محرک ثابت ہوئی ہے۔ ہمارے جن پالیسی سازوں کا استدلال یہ ہے کہ بہتر ہے کہ یہ حملے وہاں ہوتے رہیں‘ لیکن وہ یہ بات فراموش کردیتے ہیں کہ یہ عمل ایسا نہیں ہے کہ جس میں رسد محدود ہو اور صرف چند سو دہشت گرد یا مذہبی دیوانے یہ کرنے کے لیے آمادہ ہوں‘ بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے طلب اور رسد دونوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ مثلاً عراق پر ہمارے حملے نے دہشت گردی کو تحریک دی ہے اورخودکُش دہشت گردی کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔
رابرٹ پاپ تجزیہ کرتا ہے: ’اسامہ بن لادن کی تقریریں چالیس چالیس‘ پچاس پچاس صفحوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان میں پہلی بات یہی ہوتی ہے کہ امریکی فوجیوں کو اس سرزمین سے نکالا جائے‘۔ ۱۹۹۶ء میں اسامہ نے کہا تھا:’’امریکا کا منصوبہ یہ ہے کہ عراق کو ختم کریں‘ اس کے تین ٹکڑے کریں‘ ایک اسرائیل کو دیں تاکہ وہ اپنی سرحدیں وسیع کرے‘ اور پھر یہی کچھ سعودی عرب کے ساتھ کریں۔ ہم اس پیش گوئی کو حرف بحرف سچا ثابت کر رہے ہیں۔ اس طرح اسامہ کی اپیل میں بڑی کشش پیدا ہوگئی ہے‘۔
’سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان علاقوں میں امریکی افواج کی موجودگی کو زیادہ وزن دیا جائے‘ یا مغرب کو تہذیبی طور پر مسترد کرنے کے جذبے کو؟ حقائق بتاتے ہیں کہ اس ردعمل میں اصل چیز‘ ان علاقوں میں امریکی افواج کی موجودگی ہے۔ اگر اسلامی بنیاد پرستی ہی ان خودکش حملوں کی اصل محرک ہوتی تو دنیا کی بڑی بڑی اسلامی بنیاد پرست حکومتوں میں دہشت گردوں کی اکثریت ہوتی‘ لیکن عراق اور سعودی عرب سے تین گنا زیادہ آبادی والے ۷ کروڑ مسلمانوں کے ملک ایران سے کوئی بھی دہشت گرد پیدا نہیں ہورہے‘ اور نہ عراق میں یہ ایران سے آرہے ہیں۔ پھر ۲کروڑ آبادی کا ملک سوڈان انتہائی بنیاد پرست ہے۔ اسامہ بن لادن نے تین سال یہاں بھی گزارے ہیں‘ لیکن یہاں سے کوئی بھی حملہ نہیں ہوا۔ خود عراق کو دیکھیے‘ ہمارے حملے سے پہلے عراق کی تاریخ میں کسی خودکُش حملے کا ریکارڈ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے حملے کے بعد اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ۲۰ حملے‘ ۲۰۰۴ء میں ۴۸ حملے اور ۲۰۰۵ء کے پہلے پانچ مہینوں میں ۵۰ سے زیادہ۔ امریکی افواج کی موجودگی کی وجہ سے ان حملوں میں ہر سال دگنا اضافہ ہو رہا ہے‘۔
رابرٹ پاپ وضاحت کرتا ہے: ’۱۹۸۰ء کے بعد سے ہونے والے اُن ۴۶۲ خودکُش حملوں کا میں نے پورا ریکارڈ جمع کیا ہے جس میں حملہ آور نے اپنا مشن بھی مکمل کیا اور اپنے آپ کو ہلاک بھی کردیا۔ ان میں چند ہی وہ ہیں جو کسی دہشت گرد گروپ سے طویل عرصے تک سے وابستہ رہے ہوں۔ زیادہ تر کے لیے تشدد کا پہلا تجربہ خود ان کا یہ حملہ ہی ہوتا ہے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہمارے حملے سے پہلے عراق میں دہشت گرد تنظیمیں ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ امرواقع یہ ہے کہ ہمارے حملے اور عراق پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش نے خودکُش دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق دہشت گرد زیادہ تر عراقی سنی اور سعودی باشندے ہیں۔ یہی وہ دو علاقے ہیں جہاں ہماری افواج موجود ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری خودکُش دہشت گردی کی منطق درست ہے‘۔
وہ دعویٰ کرتا ہے کہ القاعدہ کی ایک خفیہ دستاویز سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ اگلی مختصر مدت میں امریکا پر حملہ کرنے کے بجاے اس کے حلیفوں کو نشانہ بنائیں گے تاکہ دہشت گردی کے خلاف قائم اتحاد ٹوٹ جائے۔ اس دستاویز میں یہ بحث موجود ہے کہ حملہ برطانیہ پر کریں‘ پولینڈ پر یا اسپین پر۔ یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ اسپین پر مارچ ۲۰۰۴ء کے انتخابات سے پہلے حملہ کیا جائے تو وہ اپنی فوجیں واپس بلا لے گا اور پھر دوسرے بھی یہی کریں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ اس دستاویز کے علم میں آجانے کے بعد میڈرڈ میں حملہ ہوا‘ اسپین نے فوجیں واپس بلا لیں‘ اور کچھ دوسرے ممالک نے بھی۔ القاعدہ نے ۲۰۰۲ء میں ۱۵ خودکُش حملے کیے ہیں۔ یہ نائن الیون سے پہلے کے مجموعی حملوںسے زیادہ ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود القاعدہ کمزور نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔
پوچھا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح کا کیا مطلب ہے؟ فتح یہ ہے کہ ہمیں اپنا کوئی اہم مفاد قربان نہ کرنا پڑے اور نہ امریکی باشندے خودکُش حملوں کی زد میں آئیں‘ یعنی ہمیں تیل کی فراہمی برقرار رہے اور دہشت گردوں کی کوئی نئی نسل پیدا نہ ہو۔ ۷۰ء اور ۸۰ء کے عشروں میں ہم نے اپنے یہ مقاصد عرب سرزمین پر اپنا کوئی فوجی بھیجے بغیر حاصل کیے۔ اب بھی اسی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
دیکھا جائے تو ہرغیرملکی تسلط سے خودکُش دہشت گردی پیدا نہیں ہوتی۔ یہاں مذہب کا دخل سامنے آتا ہے مگر اس طرح کا نہیں جس طرح کا لوگ سوچتے ہیں۔ اگر قبضہ کرنے والے اور مقبوضہ معاشرے اور علاقے کے مذاہب مختلف ہیں تو دہشت گردی کا عمل سامنے آتا ہے۔ لبنان اور عراق میں بھی یہی وجہ ہے اور ایسا ہی معاملہ سری لنکا میں سنہالی بدھ اور تامل ہندوئوں کا ہے۔ مذہبی فرق کی وجہ سے دہشت گرد رہنما قابض حکمرانوں کا خراب نقشہ پیش کرتے ہیںلیکن ضروری ہے کہ قبضہ کرنے والا وہاں ہو۔ اگر قابض فوج وہاں موجود نہ ہو تو اسامہ بن لادن خواہ کتنی ہی دلیلیں دے‘ اس کے مخاطب لوگوں میں اس کا کوئی وزن نہ ہوگا۔ چونکہ ہماری فوجیں وہاں موجود ہیں‘ اس لیے ہم اس کی اس بات کا جواب نہیں دے سکتے۔
رابرٹ پاپ کے بقول: ’یہ سمجھا جاتاہے کہ امریکی فوج واپس چلی جائے تب بھی یہ حملے بند نہ ہوں گے۔ لیکن میرے خیال میں یہ صحیح نہیں ہے۔ گذشتہ ۲۰ برس کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ دہشت گردوں کے وطن سے اگر غیرملکی فوج واپس چلی جائے تو عموماً حملے فوراً رک جاتے ہیں۔ لبنان سے اسرائیلی فوجیں واپس چلی گئیں تو دہشت گردوں نے ان کا پیچھا تِل ابیب تک نہیں کیا۔ فلسطین کی دوسری تحریک انتفاضہ میں بھی یہی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کے صرف یہ وعدہ کرلینے سے کہ وہ علاقے خالی کرے گا‘ حملوں میں کمی آگئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ افواج کی واپسی مزید خودکش حملہ آوروں کی بھرتی کے امکانات کو کم کردیتی ہے‘۔
رابرٹ سے پوچھا گیا کہ اس کا امکان کہاں تک ہے کہ کسی امریکی شہر میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) استعمال کیے جائیں؟ اس نے جواب دیا: ’اس کا بیش تر انحصار اس پر ہے کہ ہماری مسلح افواج کتنے عرصے تک خلیج میں رہتی ہیں۔ امریکا مخالف دہشت گردی‘ خودکُش دہشت گردی اور تباہ کن دہشت گردی کا مرکزی محرک غیرملکی قبضہ‘ یعنی دوسرے ممالک میں ہماری افواج کی موجودگی کا ردعمل ہے۔ ہماری افواج دنیاے عرب میں جتنی دیر قیام کرتی ہیں کسی نہ کسی نائن الیون کا اندیشہ موجود ہے ‘خواہ یہ خودکُش حملہ ہو‘ جوہری حملہ ہو یا حیاتیاتی۔ (اخذو تلخیص)