اکتوبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

ہم قرآن پر کیسے عمل کریں؟

سمیہ رمضان | اکتوبر۲۰۰۵ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

ترجمہ: ظہیرالدین بھٹی

قرآن کے درس دیے جاتے ہیں اور عمل کی دعوت دی جاتی ہے۔ ایک برادر مسلم ملک میں خواتین کے حلقۂ درس نے یہ پروگرام بنایا کہ بات دعوت تک نہ رہے‘ بلکہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اپنے مسائل قرآن کے ذریعے حل کریں۔ محترمہ سمیّہ رمضان کی زیرِنگرانی یہ حلقہ قائم تھا۔ شرکاے درس ہر ہفتے ایک آیت کو حفظ کرتے‘ اسے بار بار پڑھتے ‘ اس پر عمل کی کوشش کرتے اور اگلے ہفتے کی مجلس میں اپنی رواداد سناتے۔ شرکا کی دل چسپی بڑھی‘ تعداد بھی بڑھی۔ جب گھروں میں خواتین نے عمل کیا تو برکات وثمرات مردوں تک بھی پہنچے۔ یہ درس ایک مسجد میں ہوتا تھا (عرب دنیا میں مسجد کے ساتھ خواتین کے لیے تعمیرکردہ حصہ نمایشی نہیں ہوتا‘ آباد ہوتا ہے)۔ حاضری اتنی بڑھی کہ مسجد کے ذمہ داران کو عمارت میں توسیع کرنا پڑی۔ محترمہ سمیّہ رمضان نے اس کی روداد کویت کے رسالے المجتمع میں قسط وار شائع کرنا شروع کی‘ تاکہ ہر کوئی قرآن پر عمل کی اس تحریک میں شامل ہوجائے۔ اس کی ایک قسط یہاں پیش کی جارہی ہے۔(ادارہ)

قرآن مجید تو عمل ہی کے لیے اُترا ہے۔ قرآن کی رہنمائی میں سفرِزندگی طے کرنا دراصل دنیا میں جنت بسانا ہے۔ قرآن مجید پر عمل کرنے سے کتنے زخم مندمل ہوئے‘ کتنی جدائیاں ختم ہوئیں‘ کتنے گھر تباہ ہوتے ہوتے سلامتی کے گھر بنے۔ یہ سب کچھ قرآن کریم پر عمل کرنے کی برکت ہے۔ قرآنی رہنمائی سے انفرادی اصلاح کس طرح ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بہن کا اپناتجربہ اُسی کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے:

مجھے رات دیر تک جاگتے رہنے کی عادت تھی۔ جب مؤذن نماز فجر کے لیے اذان دیتا تو میں غافل و لاپروا سوئی رہتی۔ اللہ کے فرشتے مجھے نمازیوں میں نہ پاتے۔ اس مبارک وقت میں‘ مَیں اور میرے گھر والے شیطان کی گرفت میںہوتے تھے‘ ہم سب گہری نیند سوتے۔ بیدار ہونے کے بعد مجھے سارا دن اس کا قلق رہتا۔ میںنے کئی بار صبح سویرے نماز کے لیے اٹھنے کا فیصلہ کیا مگر اس فیصلے نے کبھی عملی صورت اختیار نہ کی۔ ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب محترمہ بہن سمیّہ رمضان کی زیرِنگرانی ابھی ان کے درسِ قرآن اور قرآنی آیات پر عمل کے تجربے کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ محترمہ سمیّہ نے بہت سی بہنوں کے مسائل حل کردیے ہیں تو میں نے بھی اپنا مسئلہ حل کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ ان سے مشورہ کیا تو انھوں نے مجھے ذیل کے ارشاد الٰہی کو بار بار دہرانے کی تاکید کی:

الَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَo (الشعرا ۲۶: ۲۱۸-۲۱۹) جو تمھیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو‘ اور سجدہ گزار لوگوں میں تمھاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔

چنانچہ میں اس نورانی ارشاد کو بار بار دہراتی رہتی اور میں نے کوشش کی کہ یہ ارشاد مبارک جس طرح میری زبان پر جاری ہے اسی طرح دل میں بھی پیوست ہوجائے۔

بالآخر وہ وقت آگیا‘ فیصلہ کن وقت‘ آیت کے مطابق حرکت کرنے کا لمحہ‘ اُدھر مؤذن نے اللّٰہ اکبر‘ اللّٰہ اکبر کے کلمات ادا کیے‘ اِدھر میں نے اپنے بستر پر کروٹیں بدلنا شروع کر دیں۔ میں مؤذن کی آواز پر لبیک کہنے سے ہچکچا رہی تھی‘ شیطان میرے لیے نیند کو خوش گوار بناکر پیش کر رہا تھا اور نماز کے معاملے کو میری نظر میں معمولی بناکر دکھا رہا تھا۔ اُدھر مؤذن کے کلمات مجھے یہ حقیقت یاد دلا رہے تھے کہ میں مسلمان ہوں۔ مؤذن کہہ رہا تھا: اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ، اب مؤذن میرے رسولِ محترم کا ذکر کر رہا تھا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے تعلق کو وہ بیان کر رہا تھا‘ اشھد ان محمدًا رسول اللّٰہ۔اب تو مجھے مؤذن نماز کے لیے بلا رہا تھا‘ حیّ علی الصلاۃ ‘ حیّ علی الصلاۃ۔ مؤذن مجھے بتا رہا تھا کہ فلاح و کامیابی نماز ادا کرنے میں ہے حیّ علی الفلاح۔ مؤذن کے یہ الفاظ اور قرآن کی اس آیت کے کلمات اور جس آیت کو بار بار پڑھنے اور عمل کرنے کا مجھے مشورہ دیا گیا تھا ___ مجھے نماز کے لیے پکار رہے تھے۔ پھر اذان اور آیت کے کلمات میرے دل میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ اب نیند میری آنکھوں سے دھل چکی تھی۔ میں نے اللہ رحمن کو اپنے قریب محسوس کیا اور اس احساس کے بیدار ہوتے ہی میں یکدم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنے کپڑے سنبھالے‘ بڑی شدت سے احساس ہوا کہ میں کمرے میں تنہا نہیں ہوں۔ یہاں کوئی اور بھی ہے۔ وہی جو میری شاہ رگ سے بھی زیادہ میرے قریب ہے۔ اُس کے قرب کا احساس ہوا تو میں وضو کے لیے لپکی۔ نماز فجر ادا کرنے کے لیے اپنے خالق و مالک کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ یہی وہ نماز تھی جس کے پڑھنے کی مجھے بے حد حسرت رہی‘ کتنی بار ارادے باندھے اور توڑے۔ میری آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں اور نماز کے بعد میرے ہونٹوں پر یہ الفاظ تھے: اللہ کا شکر ہے‘ وہ ذات ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہے جس نے مجھے‘ میرے مرنے سے پہلے اس نماز کی توفیق دی اور یوں مجھ پر بڑا کرم کیا۔ اللہ نے مجھ پر چار نہیں پانچ نمازیں فرض کی تھیں مگر میں اپنی سُستی و کاہلی کے سبب صرف چار نمازیں ہی ادا کرتی رہی۔ میں نے رو رو کر اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگی اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے آخری عمر تک اسی طرح پانچوں نمازیں بروقت ادا کرنے کی توفیق دے۔

توبہ واستغفار کے بعد میں پُرسکون ہوکر بیٹھ گئی تو میرے سامنے میری زندگی کی فلم چلنے لگی۔ میں چشمِ تصور سے اپنی گزری ہوئی زندگی کے مناظر دیکھ رہی تھی۔ میں ایک عام سی لڑکی تھی‘ جس کی زندگی کاکوئی واضح ہدف نہ تھا۔ میں زندگی کو کولھو کے بیل کی مانند گزار رہی تھی۔ بالآخر میری شادی ہوگئی۔ مجھے اپنے شوہر کے خیالات و افکار سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ مجھے تو اس کی پوزیشن اور مال و دولت سے غرض تھی۔ اُسے بھی نماز روزے سے کوئی غرض نہ تھی۔ صرف دنیا کی گہماگہمی سے سروکار تھا۔ زندگی کی گاڑی یونہی چلتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خوب صورت بچے بھی عطا کیے۔ مجھے اپنے بچوں سے بس یہ تعلق تھا کہ وہ کیا کھاتے ہیں؟ کیا پہنتے ہیں؟ اسکول جاتے ہیں؟پڑھائی کیسی ہورہی ہے؟ ہوم ورک کیسے ہو رہا ہے؟۔ لیکن میں نے اپنے بچوں سے کبھی بھول کر بھی نہ پوچھا کہ انھوں نے نماز پڑھی یا نہیں؟ انھوں نے کتنا قرآن شریف حفظ کرلیا ہے؟ کیاوہ انبیاے کرام ؑکے حالات سے واقف ہیں؟ انھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں کتنا کچھ پتا ہے؟ مجھے بچوں کے ان معاملات میں قطعاً دل چسپی نہ تھی بلکہ میں تو دیر تک ان کے ساتھ ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھی رہتی اور ڈراموں اور فلموں کے مختلف پارٹ سمجھنے میں ان کی مدد کرتی۔

میں نماز پڑھ کے بیٹھی تھی‘ اور گذشتہ زندگی کے بیتے ہوئے شب و روز کی یہ فلم میرے ذہن کی اسکرین پر چل رہی تھی کہ میں یکایک اپنے خاوند کے خراٹوں سے چونک پڑی۔ مناظر دھندلا گئے۔ میرارفیقِ زندگی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ میں نے چاہا کہ اُسے جگائوں‘ اُسے نماز کے لیے بیدار کروں اور اپنا قصہ بھی سنائوں۔ میں نے اُسے اُس کا نام لے کر نہیں جگایا‘ جیساکہ میرامعمول تھا بلکہ میں نے آج اس کے کندھوں پر جھک کر قدرے بلند آواز سے یہ آیت پڑھی: الَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَo (جو تمھیں اس وقت دیکھ رہا ہے جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمھاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے)۔ یہ آیت سن کر میرا خاوند اُٹھا‘وضو کیا‘ نماز پڑھی اور پھر آکر میرے پاس بیٹھ گیا۔ کہنے لگا: آج کی صبح کتنی مبارک اور کس قدر حسین ہے کہ آج مجھے تم سے قرآن سننے کا موقع ملا‘ میں اسے اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا: خوش قسمتی تو میری ہے کہ میں نے آج مؤذن کی اذان پر بیدار ہوکر قرآن کی آیت پر عمل کیا ہے‘ خوش قسمت تو میں ہوں کہ میں نے آج تمھیں پہلی بار نمازِ فجر پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ سن کر میرے شوہر کا دل نورِ ایمان سے جگمگا اُٹھا۔ اُس نے کہا: میں تمھیں ایک عجیب واقعہ سناتا ہوں۔

کل گھر واپس آتے ہوئے میں اپنی گاڑی میں نصب ریڈیو کی سوئی گھما رہا تھا کہ وہ سوئی قرآن چینل پر آکر رک گئی۔ میں نے چاہا کہ اس اسٹیشن سے سوئی کو ہٹا دوں مگر میں ایسا نہ کرسکا کیونکہ ٹریفک پولیس نے مجھے گاڑی روکنے کے لیے اشارہ کیا تھا۔ گاڑی جب دوبارہ چلائی تو قرآن چینل سے اللہ تعالیٰ مجھ سے مخاطب تھا۔ جی ہاں‘ مجھ سے ہی مخاطب تھا‘ مجھے اُس وقت یہی احساس ہوا کہ اللہ مجھ سے خطاب کر رہا ہے۔ تم جانتی ہو کہ میرا رب مجھ سے کیا کہہ رہا تھا:

وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ ق وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ م بِیَمِیْنِہٖ ط سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ o (الزمر ۳۹:۶۷) ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیساکہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک اور بالاتر ہے وہ اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

قرآن کریم کے اس ارشاد نے میرے پورے وجود کو ہلا کے رکھ دیا۔ میں سمندر کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا‘ میں نے اپنے ہاتھ کی مٹھی کو دیکھا اور پھر سمندر کی جانب دیکھا۔ اس فرق نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ یہ سمندر تو کچھ بھی نہیں‘ اللہ کے ہاتھ میں تو پوری زمین ہے‘ اللہ کس قدر بڑا ہے؟ میں نے فوراً یہ آیت یاد کرلی‘ مجھے محسوس ہوا گویا یہ آیت میرے دل میں ہے اور میرا دل اسی کی وجہ سے دھڑک رہا ہے۔ مجھے اپنے پورے جسم میں ایک سکون و حلاوت کا ادراک ہوا‘ اور میرے پروردگار کا فضل مجھ پر آج اس وقت پورا ہوا جب تم نے قرآن مجید کی آیت پڑھ کر جگایا۔ مجھے تم نے نہیں جگایا‘ بلکہ مجھے میرے اللہ نے جگایا ہے‘ نماز فجر ادا کرنے کے لیے۔

میں نے کہا: مجھے بھی میرے رب نے ہی آیت کریمہ کے ذریعے جگایا ہے۔ میرے اور تمھارے عمل سے یہ آیت زندہ و متحرک ہوئی ہے۔ میرے شوہر نے کہا: میری عمر ۴۰ سال سے زائد ہے۔ قرآن میرے گھر میں موجود ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں قرآن پڑھتا نہیں ہوں۔ میں پڑھتا ہوں‘ بہت سی سورتیں اور آیتیں حفظ بھی کرلی ہیں۔ مگر میرے اور قرآن کریم کے درمیان ایک رکاوٹ تھی۔ میں نے فوراً جواب دیا: جی ہاں‘ یہ رکاوٹ تھی‘ قرآن کے مطابق عمل نہ کرنے کی‘ قرآن کے مطابق حرکت نہ کرنے کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین پر چلتا پھرتا قرآن تھے۔

’’ہم بھی زمین پر چلتے تھے مگر قرآن کے ساتھ نہیں‘‘، میں نے یہ کہا اور زار و قطار رونے لگی۔ میرے خاوند کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے‘ وہ یک دم کھڑا ہوگیا۔ بچوں کے کمرے کی جانب بڑھا۔ اُس نے کمرے کی بتیاں روشن کیں پھر بجھا دیں۔ چند بار ایسا کیا توبچے نیند سے بیدار ہوگئے۔ اُس نے زور سے اللہ اکبر کہا۔ بچے حیران و پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میرے   رفیقِ زندگی نے بچوں سے کہا: جانتے ہو ہمیں کون ملنے آیا ہے؟ اور ہمیں اب دیکھ رہا ہے؟ اللہ تم لوگوں سے ملنے آیا ہے۔ بچوں نے ایک دوسرے کو دیکھا‘ ان کا والد بڑی ہی میٹھی آواز میں پڑھ رہا تھا: ’’جو تمھیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمھاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے‘‘۔ پھر اُس نے اعلان کیا: ’’آج گھر میں نماز پڑھ لو‘ کل سے ان شاء اللہ مسجد میں نماز پڑھنے جایا کریں گے‘‘۔ میرا شوہر بچوں کو نماز پڑھتے دیکھتا رہا۔ سب نے نماز پڑھ لی تو اس کا دل مطمئن ہوا۔ پھر اس کا ذہن اس آیت کی طرف منتقل ہوا: وَکَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہ‘ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا(مریم ۱۹:۵۵) ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا‘‘۔ یہ سوچتے ہی اُس نے دعا کی: ’’یااللہ! مجھ سے راضی ہوجا‘ مجھے معاف فرما دے‘ مجھ پر رحم کر‘‘۔ پھر مجھ سے کہنے لگا: آج سے تم بچوں کی نگرانی کرو گی اور انھیں نماز پڑھنے کا حکم دو گی۔ میں نے کہا: یہ میری بات نہیں سنتے‘ انھیں نماز کا پابند بنانے میں مجھے کافی محنت کرنا پڑے گی۔ میرے خاوند نے مجھے مشورہ دیا کہ تم انھیں اس آیت سے متحرک کرو: ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا‘‘(مریم۱۹:۵۵)۔ میں نے اپنے بچوں کو نماز کا پابند بنانے کا تہیہ کرلیا‘ میں نے ایک بڑا چارٹ لیا اور یہ آیت جلی خط میں اس پر لکھ دی۔

ہم میں سے ہر ایک اس امر کا محتاج ہے کہ وہ اپنی آنکھوںاور کانوں اور دل پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹا دے‘ دلوں پر لگی مہروں کو کھرچ کھرچ کر پھینک دے۔ دلوں پر غفلت کے پڑے ہوئے پردوں کی وجہ سے ہم بلاسوچے سمجھے یونہی قرآن مجید پڑھتے رہتے ہیں۔ نہ ہم اُسے سمجھتے ہیں‘ نہ عمل کرتے ہیں۔ ہماری یہ دعوت صرف مسلمان عورتوں کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے۔ ہم پوری دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آیئے! ہم قرآن کا مطالعہ روحِ محمدؐ اور ارواحِ صحابہؓ کے ساتھ کریں۔ وہی جذبہ‘ وہی ولولہ جو آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ میں تھا‘ ہمارے اندر آجائے۔ ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت یہ عہد کریں کہ یہ نورانی آیات سطور و صفحات سے نکل کر ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ہمیں بلا رہی ہیں‘ پکار رہی ہیں۔ یہ آیتیں خالق و مالک کی وحدانیت کا اعلان کر رہی ہیں۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ قرآن جس بات کا ہمیں حکم دے گا ہم اس کی تعمیل کریں گے اور جس بات سے روکے گا اس سے رک جائیں گے۔