اکتوبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

جنرل پرویز مشرف کا دورۂ امریکا

پروفیسر خورشید احمد | اکتوبر۲۰۰۵ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان کی ۵۷ سالہ تاریخ کا ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ یہاں ہر سربراہ ریاست یا رئیس مملکت کا ہر بیرونی دورہ ہمیشہ ’کامیاب‘ یا پھر ’بہت کامیاب‘ ہی رہا ہے اور اس کے نتائج اور ثمرات خواہ کچھ بھی ہوں‘ نہ اس کی کامیابی پر کبھی کوئی حرف آیا اور نہ تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے والوں میں کوئی کمی ہوئی۔ اس تاریخی پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کا امریکا کا ان کے چھے سالہ دوراقتدار کا نواں دورہ ‘جو ۱۳ سے ۱۸ ستمبر ۲۰۰۵ء تک رہا‘ اپنی ساری تندوتیز جولانیوں‘ صحافتی مقابلوں اور کہہ مکرنیوں‘ سیاسی رہنمائوں سے مذاکرات اور ’عدو‘ سے اتفاقی ملاقات‘ روشن خیال خواتین اور   دل پسند این جی اوز کے نمایندوں سے لفظی مچیٹوں اور پاکستانی خواتین کی مظلومیت اور ’کاروباریت‘ کو طشت ازبام کرنے کی خدمات اور دوسری بے شمار جرأت مندانہ پسپائیوں کے باوجود نہ صرف ’کامیاب‘ بلکہ ’بہت ہی کامیاب‘ ہی قرار دیا جائے گا۔ سرکاری میڈیا اور لبرل دانش ور اور قلم کار    جو بھی کہیں اور لکھیں‘ آج کی دنیا میں حقیقت کو پردوں میں چھپانا ممکن نہیں رہا۔ امریکا کی     قیادت سے ان کی دوستی اور اشتراکِ مفاد اور یہودی لابی سے نیا نیا عشق اپنی جگہ‘ لیکن جمہوری معاشرے اور آزادیِ صحافت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ حقائق سامنے آکر رہتے ہیں اور معاملہ خواہ نکسن کے واٹرگیٹ کا ہو یا کلنٹن کے مونیکا سے معاشقے کا___ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوکر رہتا ہے۔

دورے کے اھداف

جنرل پرویز مشرف کے دورے کی تمام تقاریر‘ بیانات اور ملاقاتوں کا جائزہ لیا جائے تو کلیدی موضوع پانچ ہی نکلتے ہیں:

۱-            دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کا کردار بحیثیت حلیف اور  تابع مہمل۔ ہر تقریر اور ہر ملاقات میں یہ موضوع سرفہرست رہا حالانکہ یہ نہ ہمارا مسئلہ ہے اور نہ ہمیں اب اس سے کوئی فائدہ ہو رہا ہے‘ بلکہ اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔

۲-            پاکستان اور امریکا کے تعلقات۔ خصوصیت سے بھارت سے امریکا کے بڑھتے ہوئے اسٹرے ٹیجک شراکت (partnership) کے پس منظر میں یہ تعلق پاکستان کے لیے اب ایک فیصلہ کن مرحلے (moment of truth) میں داخل ہوگیا ہے۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ اب صاف معلوم ہوجانا چاہیے کہ پاکستان سے امریکا کے تعلقات کا موجودہ مرحلہ حقیقی دوستی اور رفاقت کا ہے یا محض وقتی ضرورت کی آشنائی کا۔ جنرل مشرف کا ٹائم میگزین کو حالیہ انٹرویو (نوائے وقت/ ڈان‘ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۵ئ) بھی امریکا کی سردمہری کا اعتراف ہے۔

۳-            کشمیرکے سلسلے میں کسی حقیقی پیش رفت کی کوشش۔ صدر بش کی مداخلت اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے نیویارک کی ملاقات اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔

۴-            پاکستان کے اسرائیل سے روابط استوار کرنے کے سلسلے کو آگے بڑھانا۔ اس میں اسرائیلی وزیراعظم شارون سے طے شدہ پروگرام کے تحت ’اتفاقی ملاقات‘، ’ورلڈ جیوش کانگرس‘ سے خطاب اور امریکا کی یہودی لابیز سے راہ و رسم پیدا کرنا اور اس سلسلے میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں پاکستان کے اصولی اور تاریخی مؤقف سے انحراف اور کسی طرح اس کا جواز پیش کرنا شامل ہے۔

۵-            پاکستان کے امیج کو درست کرنے کی کوشش اور اس سلسلے میں خصوصیت سے پاکستان میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کے باب میں جو پروپیگنڈا ہو رہا ہے‘ اس کا توڑ کرنا۔

یہ تھے پانچ اہداف۔ ان میں سے کسی ایک کے سلسلے میں کوئی حقیقی تو کیا‘ رسمی پیش رفت بھی نہیں ہوسکی۔ بھارت کے وزیراعظم کے ساتھ ساڑھے چار گھنٹے کی ملاقات میں بھی بھارت اپنی پوزیشن سے ٹس سے مس نہیں ہوا اور صدر بش نے ہر معاملے میں سرخ جھنڈی دکھا دی۔ اسرائیلی کی یہودی لابی نے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور مکھن لگانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ لیکن عالمِ عرب اور   عالمِ اسلام میں رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا‘ البتہ اس دورے کا نقصانِ عظیم وہ ہے جو پاکستان کے امیج کوپہنچا ہے اور اس کے ساتھ نائن الیون کی پسپائی کے بعد پہلی بار پاکستان کے ساتھ خود جنرل پرویز مشرف کے امیج پر وہ چوٹیں لگی ہیں کہ  ع

پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!

اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ کا انٹرویو‘ اس کی زبان اور گندے الزامات‘ پھر اس بیان کا انکار‘ پھر اخبار کی طرف سے اصل بیان کی اشاعت اور جنرل صاحب کی آواز میں ۹ منٹ کے اس حصے کو انٹرنیٹ پر ڈال دینا‘ جس میں وہ ساری باتیں موجود ہیں جن کا وہ انکار کر رہے تھے اور یہاںتک کہہ رہے تھے کہ:

’’مجھے پورے خلوص کے ساتھ یہ کہنے دیجیے کہ میں نے ایسا کبھی نہیں کہا‘ اور یہ غلط منسوب کیا گیا ہے۔ مشرف نے خواتین کے گروپ سے کہا ’’یہ میرے الفاظ نہیں ہیںاور میں یہ بھی کہوں گا کہ میں اس قدر احمق اور بیوقوف نہیں ہوں کہ اس قسم کا تبصرہ کروں‘‘۔

جنرل صاحب کے امیج پر یہ چاند ماری جاری تھی کہ روز ولٹ ہوٹل میں خواتین کے اجتماع میں ان کی برہمی اور خواتین کو دعوت مبارزت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ بس چند جھلکیاں:

بی بی سی اُردو سروس اپنی ۱۸ ستمبر کی رپورٹ میں یوں تفصیل بیان کرتی ہے:

انھوں نے کچھ غیرسرکاری تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو خواتین کے مسائل ملک سے باہر اٹھاتے ہیں‘ ان کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں اور وہ ایسے لوگوں کو دیکھ لیں گے۔ انھوں نے غیر سرکاری تنظیموں کو تنبیہہ کی کہ ’میں ایک سپاہی ہوں اور مجھے لڑنا آتا ہے۔ میں آپ سے لڑوں گا اور اگر آپ چیخیں گی تو میں آپ سے زیادہ چیخ سکتا ہوں‘۔

صدر مشرف کے خطاب کے بعد سوال جواب کے دوران جب ایک خاتون نے کہا کہ وہ خواتین جو امریکا میں پاکستانی خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں‘ بے حد مخلص ہیں اور پاکستانی صدر کو ایسی بات نہیں کہنی چاہیے‘ تو اس بات پر جنرل مشرف برہم ہوگئے اور انھوں نے کہا کہ ’آپ جیسے لوگ قومی مفاد کے خلاف ہیں‘ [انگریزی پریس نے جو الفاظ دیے ہیں‘ وہ یہ ہیں: you are against me and against Pakistan]۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے لوگوں کے اپنے معاشی یا سیاسی مفاد ہوتے ہیں جس کی خاطر وہ ان واقعات پر خاص روشنی ڈالنا چاہتے ہیں جس سے پاکستان کے وقار کو ٹھیس پہنچے۔ اس موقع پر امریکا میں پاکستان کے سفیر جہانگیر کرامت نے اٹھ کر صدر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مائیک خود سنبھال لیا۔

اس تقریب میں شریک ڈاکٹر اسماء چودھری نے صدر کے خطاب پر کہا کہ ’میں شدید غصے میںہوں‘ صدر صاحب غنڈوں کی طرح باتیں کر رہے ہیں‘۔

ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ان دونوں واقعات (واشنگٹن پوسٹ کا انٹرویو اور روز ولٹ ہوٹل میں خواتین کی کانفرنس) کے ردعمل میں عالمی میڈیا میں جو رسوائی پاکستان کی ہوئی‘ اس کا احاطہ کرسکیں۔ اس ہفتے میں جو نقصان پاکستان کو پہنچا اور جس طرح اس کا امیج مجروح ہوا وہ ہماری تاریخ کا سانحہ اور قدرت کی طرف سے جنرل صاحب کے کیے دھرے کا جواب ہے‘ جو انھی کے ہاتھوں انھیں ملا جن کی خاطر وہ پاکستان‘ اسلام‘ فلسطین‘ کشمیر ہر ایشو پر مغرب کی استعماری قوتوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔

اس ردعمل کا ایک نمونہ ہم پیش کرتے ہیں جو ان کے ایک بڑے مداح اور روشن خیال اعتدال پسندی کے عاشق ولیم می لام (Wiliam Milam)کا ہے جو پاکستان میں امریکا کے سفیر رہے ہیں اور آج کل ووڈرو ولسن سینٹر کے فیلو ہیں۔ اپنے تبصرے کا آغاز اس طرح کرتے ہیں کہ آج کل پاکستان امریکا میں اپنے امیج کو درست کرنے کے لیے مناسب مشیر (consultant) کی تلاش میں ہے جس کا اشتہار بھی دیا جا رہا ہے لیکن ضرورت پاکستان کے امیج سے کہیں زیادہ خود صدرصاحب کو صحیح مشورہ دینے کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ صدر مشرف نے اپنے کارناموں پر جن کو   وہ پہلے بھی بیان کرتے رہے ہیں‘ اپنے آپ کو خوب شاباش دی۔ لیکن مشیر کی اصل ضرورت تو مختاراں مائی جیسے مسئلے پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ان تنظیموں کے ہاتھ آگیا جو پاکستان کا امیج تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ امریکا میں مشرف کی اوّلین ترجیح خواتین کے مسائل تھی‘ لیکن انھوں  نے جو کچھ کہا اس نے معاملات کو مزید خراب کر دیا۔ سب‘ صرف خواتین ہی نہیں‘ پاکستان کے اندر اور باہر ناراض ہوئے۔

سابق امریکی سفیر پاکستانی اخبار ڈیلی ٹائمز سے پاکستان میںصرف ایک دن میں ہونے والے واقعات اور بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں اور جمہوری عمل کو مسخ کرنے (subversion) کے شواہد کا حوالہ دینے کے بعد لکھتا ہے:

روشن خیال اعتدال پسندی یا بیرونی دنیا میں ایک بہتر امیج محض لفاظی سے اور وہ بھی   بے نقط لفاظی سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے حکومت کو زمینی حقائق کو درست کرنا چاہیے‘ انسانی حقوق کا بہتر تحفظ ہونا چاہیے‘ ایک مختلف نصاب کے تحت بہتر تعلیم ہونی چاہیے‘ دہشت گردی اور عورتوں اور بچوں کے خلاف مظالم کے لیے بہتر نفاذ قانون ہونا چاہیے۔

یہ ایک چھوٹا سا آئینہ ہے جس میں پاکستان اور جنرل صاحب کے امیج کے کچھ نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔ جنرل صاحب گئے تو تھے پاکستان کا وقار بڑھانے اور بلند کرنے(image building) کے لیے اور اقوام متحدہ میں اس تاریخی موقع پر پاکستان اور اُمت مسلمہ کا مقدمہ پیش کرنے کے دعوے کے ساتھ‘ مگر حاصل کیا ہوا؟

ع   بات تو سچ ہے‘ مگر بات ہے رسوائی کی

پاکستان اپنے اہداف میں سے کسی ایک کی طرف بھی ایک انچ پیش رفت نہیں کرسکا۔ اُمت مسلمہ کے تصورات اہم ترین مسائل ناگفتنی ہی رہے اور اس کا سب سے بڑا مسئلہ‘ یعنی   مسئلہ فلسطین مزید کنفیوژن‘ انتشار اور بے وقعتی کا شکارہوگیا۔ اقوام متحدہ کی تشکیل نو اور اس میں ملت اسلامیہ کے کردار کا خواب‘ خواب گراں ہی رہا اور ان سب پر مستزاد پاکستانی عورت کی جس طرح سربراہِ مملکت کے ہاتھوں برسرِعام تذلیل ہوئی‘ اس کی مثال تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ کونڈولیزارائس جنرل صاحب کو جتنابھی ’غیرمعمولی انسان‘ (extraordinary person) قرار دیتی رہیں اور یہودی لابی انھیں ’ناگزیر انسان‘(indispensible) کہہ کر کتنا ہی مکھن لگائے‘ حقائق کی زبان پکار پکار کرکہتی ہے کہ معاملہ چاہے وردی کا ہو یا سچائی کا‘ سیاسی تدبر کا ہو یا تحمل اور بردباری کا‘ جوش کا ہو یا ہوش کا‘ پاکستان کا امیج تو اس دورے میں بری طرح مجروح ہوا ہی ہے لیکن خود جنرل صاحب کی شخصیت‘ جس کو اب تک پاکستان سے الگ کر کے تعریف و توصیف کا سزاوار سمجھا جاتا تھا‘وہ بھی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے اور بقول میردرد     ؎

تہمتیں چند اپنے ذمے لے چلے

جس لیے آئے تھے سو ہم کرچلے

ہم نے تاریخ اور عمرانی علوم کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے‘ اس کی روشنی میں یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ جنرل صاحب امریکا گئے تو اس توقع پر کہ ۲۰۰۷ء کے بعد بھی اپنے دو’تاجوں‘ کو مزید مہلت دلوالیں گے مگر ان سات دنوں میں جو کچھ خود انھوں نے اپنے ساتھ کیا‘ اس سے جس عمل کا آغاز ہوگیا ہے اسے چرچل کے الفاظ میں: ’اختتام کا آغاز‘ (beginning of the end) ہی کہا جا سکتا ہے۔ کسی فرد اور ملک کے قابلِ اعتماد ہونے اور اس کی ساکھ قائم ہونے کا انحصار اس کی بات کے سچ ہونے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اس معاشرے میں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور جسے مہذب معاشرہ شمار کیا جاتا ہے قیادت کی طرف سے جھوٹ اور غلط بیانی ناقابلِ معافی جرم ہے۔ بڑی سے بڑی غلطی سے درگزر ممکن ہے مگر دروغ حلفی (perjury) ناقابلِ معافی ہے۔ امریکا میں تو اس جرم پر صدرمملکت کا مواخذہ (impeachment) کیا جاسکتا ہے اور ہوا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے جنرل صاحب کے ۱۳ ستمبر والے انٹرویو کو ان کی اپنی آواز میں انٹرنیٹ پر ڈال کر ہماری رسوائی کا جو سامان کیا ہے‘ اس کی ذمہ داری جنرل صاحب اور ان کی جرأت کے سوا کسی پر نہیں۔ ان کے  سیاسی ترجمان (spin-doctors) جو کچھ بھی کہیں‘ پاکستان کے حقیقی بہی خواہ اس صورت حال پر جتنا بھی افسوس کریں کم ہے۔

اُمت کی نمایندگی

مسلمان ملکوں کی قیادت سے یہ توقع تھی کہ اقوام متحدہ کے اس ۶۰سالہ سربراہی اجلاس کے موقع پر اُمت کے تصورات‘ عزائم اور مسائل کی مؤثر اور مدلل نمایندگی کریں گے۔ لیکن افسوس ہے کہ ایرانی صدر احمدی نژاد کے سوا کسی ایک نے بھی ایمان اور جرأت کے ساتھ ان مسائل اور امور کا کوئی ذکر نہیں کیا جو اُمت کی اصل ترجیح ہیں۔ بش سے لے کر مشرف تک کی تقاریر کو کھنگال ڈالیے‘ معلوم ہوتا ہے کہ ’دہشت گردی‘ ہی آج کی دنیا کا اصل مسئلہ ہے حالانکہ یہ امریکا کا ایجنڈا ہے۔  عالمِ اسلام یا انسانیت کا مسئلہ نہیں۔ اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقاریر اور اس کی آخری قرارداد میں ’دہشت گردی‘ اور اس پر اُکسانے (incitment)کو وقت کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ دنیا دیکھ رہی ہے اور اہلِ نظر اس کا اب کھل کر اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکا نے   دہشت گردی کو دنیا پر اپنی بالادستی (hegemony) اور تحکم قائم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کو بہانہ بناکر افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا ہے اور وہاں کے وسائل کو اپنے تصرف میں لا رہا ہے‘ نیز پوری دنیا کو زیادہ غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔۱؎

آج تک کسی نے دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہیں کی۔ اس موقع پر بھی اقوام متحدہ سابقہ ۵۰ سالوں کی طرح کوئی تعریف کرنے سے قاصر رہی ہے اور اگلے سال اس کے لیے کانفرنس کا اعلان کیا ہے مگر اس بے نام (nameless) غیرمرئی (faceless) اور ناقابلِ گرفت (elusive) دشمن کے خلاف جنگ کو ہر مسئلے پر فوقیت دی ہے اور جو ممالک عملاً دنیا میں سب سے زیادہ ظلم اور دہشت گردی پھیلا رہے ہیں‘ یعنی امریکا‘ اسرائیل‘ بھارت اور روس وہ ہرمواخذے سے بالا ہیں۔ ہمارے جرنیل صاحب نے بھی دہشت گردی کے اسباب کے بارے میں تو بڑے ادب کے ساتھ چند جملے کہے ہیں لیکن سارا زور دہشت گردی اور انتہاپسندی کو قوت سے ختم کرنے پر ہے حالانکہ یہ حکمت عملی بری طرح ناکام رہی ہے۔ دنیا بھر کے عوام اس کے خلاف صداے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ اس ہفتے انگلستان میں لاکھوں افراد نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت میں فقید المثال مظاہرے کیے ہیں۔ عالمی راے عامہ کے سارے جائزے ہواکا یہ رخ بتا رہے ہیں دنیا کے عوام کی ۷۰ سے ۹۰ فی صد آبادی اس کے خلاف ہے۔ خود امریکا میں اب ۶۱ فی صد افراد اس جنگ کو لاحاصل قرار دے رہے ہیں اور اس جنگ کے خلاف احتجاجی تحریک روز بروز مؤثر ہو رہی ہے۔

صدربش کے حامی مشہور کالم نگار تھامس فریڈمین (Thomes Freedman) نے نیویارک ٹائمزمیں ستمبر کے پہلے ہفتے میں اپنے کالم میں لکھا ہے:

موقع ایک ہی دفعہ ملتا ہے۔ اگر جناب بش کترینا سے سبق سیکھنا چاہیں تو ان کے لیے موقع ہے کہ اپنے نائن الیون کے مینڈیٹ کو کسی نئے اور بامعنی مینڈیٹ سے بدل لیں۔ اگر یہ ہوجائے تو کہا جا سکے گا کہ کترینا نے نیو آرلینز تباہ کردیا لیکن امریکا کو بحال کرنے میں مدد دی۔ اگر جناب بش اپنی سیاست حسبِ معمول جاری رکھیں تو ہر موڑ پر انھیں مخالفت کا سامنا ہوگا۔ گویا کہ کترینا نے ایک شہر اور ایک صدر کو تباہ کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ بش اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ دم توڑ رہی ہے لیکن جنرل پرویز مشرف اسی جرأت کے ساتھ بش کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جس جرأت سے ۱۳ستمبر ۲۰۰۱ء کو سجدہ ریز ہوئے تھے۔

دنیا کی اب سوچ کیا ہے؟ اس کا اندازہ انگلستان کے اخبار دی گارڈین کے اس اداریے سے کیا جاسکتا ہے جو ۱۱ستمبر کی مناسبت سے چار سال کا جائزہ لیتے ہوئے جنگوں کے نتائج (Consequences of Wars ) کے عنوان سے لکھا گیا ہے:

نائن الیون کے چار سال بعد امریکا اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف کیا کسی حقیقی کامیابی کا ایمان داری سے دعویٰ کر سکتے ہیں؟ جواب ہے: کوئی خاص نہیں۔     نہ صرف یہ کہ دہشت گردی موجود ہے بلکہ یہ بڑھ رہی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال دنیا بھر میں دہشت گردی کے ۶۵۱ نمایاں حملے ہوئے جو ۲۰۰۳ء کی تعداد کا تین گنا ہیں۔ یہ تعداد ان دو عشروں میں سب سے زیادہ ہے جب سے واشنگٹن نے یہ اعداد و شمار جمع کرنے شروع کیے ہیں۔

اس کا نتیجہ ہے کہ:

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا انحصار اس بات پر تھا کہ مشرق وسطیٰ میں جمہوری انقلاب کا نسخہ بروے کار آئے۔ اصل تعجب کی بات امریکی عسکری طاقت کی ناکامی ہے۔ اس نے قبضہ تو کیا ہے لیکن تعمیرنو کی صلاحیت نظر نہیں آتی۔ سخت مزاحمت کی بناپر زمینی حقائق اور مطلوبہ اہداف کی وسیع خلیج نے امریکی راے عامہ کو متزلزل کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اصل الزام یہ ہے کہ یہ جن قوتوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے‘ انھی کے لیے بھرتی کے اسباب فراہم کرتی ہے۔ (خلاصہ)

گارڈین کا اداریہ بھی نیویارک ٹائمز کے مقالہ نگار مارک ڈینر (Mark Danner)کی تائید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں "Al-Qaidaism" کا عنصر رونما ہوگیا ہے اور اس کے آسانی سے ختم ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔ اداریے کا خاتمہ اس انتباہ پر ہے کہ:

اگر موجودہ نسل امریکی طاقت کے مقابلے میں نائن الیون واقع کر سکتی ہے تو عراق سے واپسی سے ظاہر ہونے والی امریکی کمزوری کے مقابلے پر اگلی نسل کیا کچھ کرے گی۔ ۲۰۰۱ء کے بعد بن لادن کی تنظیم کو نقصان پہنچا ہے‘ وہ منتشر ہوا ہے اور بہت سی جگہ اس کا کام غیر پیشہ ور نوآموزوں کے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ جڑواں ٹاوروں پر حملے کے چار سال بعد دنیا اس کے مقاصد کے لیے اتنی سازگار نظر آئے گی۔

گارڈین کا یہ تجزیہ منفرد نہیں۔ دنیا بھر کے اہل فکرودانش اپنے اپنے انداز میں یہی بات کہہ رہے ہیں لیکن اگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی تو وہ صدر بش‘ ٹونی بلیر اور خود ہمارے جنرل پرویز مشرف ہیں جو ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ سب ایک ہاری ہوئی جنگ میں اپنے اپنے ملکوں کو جھونکے ہوئے ہیں۔ جرنیل صاحب نے اُمت مسلمہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کے عوام کو چھوڑ کر جنگ کی آگ بھڑکانے والے بش اور بلیر کا ساتھ اختیار کیا ہے اور پاکستان اور اس کی افواج کو بھی اس جنگ میں زخم خوردہ کر رہے ہیں۔ امریکا سے ہم کو نہ کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم اس جنگ کی آگ میں آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

افغانستان جس سے ہمارے بہترین تعلقات تھے‘ آج اس میں ہمارے خلاف ہر سطح پر لاوا پک رہا ہے۔ ہماری سرحدیں غیرمحفوظ ہوگئی ہیں اور ہم جھنجھلا کر باڑ لگانے کی باتیں کر رہے ہیں___ وہ راستہ جو اسرائیل نے فلسطین میں اور بھارت نے کشمیر میں اختیار کیا ہے اور ناکام ہیں۔ ہماری فوجیں وزیرستان میں اپنے ہی بھائیوں سے لڑ رہی ہیں اور گذشتہ سال کے آپریشن میں ۲۸۰ سے زیادہ ہمارے فوجی جان دے چکے ہیں اور ۶۰۰ زخمی ہیں‘ جب کہ مقابلہ کرنے والوں میں سے بھی ۴۰۰ کے قریب ہلاک ہوئے ہیں اور امن اب بھی عنقا ہے بلکہ کور کمانڈر اور گورنر بھانت بھانت کی بولی بول رہے ہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ نام نہاد جنگ ایک مبنی برظلم کارروائی ہے‘ یہ صرف امریکی استعمار کا کھیل ہے جس میں ہم اپنے‘ اُمت مسلمہ کے اور پوری دنیا کے عوام سے کٹ کر صرف امریکی نیوکون (new-con)‘ وہاں کے صہیونیوں اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے والی موجودہ امریکی قیادت کا دم چھلّا بن گئے ہیں۔ افسوس ہم کو خود امریکی عوام کے جذبات اور احساسات کا بھی ادراک نہیں جو بش کی اس جنگ گردی کے خلاف نوحہ کناں ہیں۔ امریکی عوام کے جذبات کا اندازہ کرنے کے لیے امریکا کی نامور شاعرہ شارون اولڈز (Sharon Olds) کا وہ خط پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو اس نے واشنگٹن کے مشہور زمانہ National Book Festival میں‘ جو ۲۴ ستمبر ۲۰۰۵ء کو واشنگٹن میں منعقد ہوا تھا‘ شرکت نہ کرنے کے اسباب بیان کرتے ہوئے لیڈی لارابش اور صدر بش کو لکھا ہے اور جس کا متن امریکی جریدہ The Nationنے شائع کیا ہے۔

شارون اولڈز کو اس اہم تقریب میں خطاب کرنا تھا اور فرسٹ لیڈی کی دعوت پر عشائیے میں شرکت کرنی تھی لیکن اس نے اس بنا پر انکار کر دیا کہ اسے ان ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ہوگا جو عراق کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے معصوم انسانوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ وہی ہاتھ جنھیں چومنے کے لیے ہمارے حکمران بے چین ہیں۔

امریکا کی ایک معزز شاعرہ اور ادیبہ وہ بات کہہ رہی ہے جو مسلمان حکمرانوں اور دانش وروں کو کہنی چاہیے تھی اور اقوام متحدہ کے ایوانوں کو اس کی گونج سے بھر جانا چاہیے تھا۔ لیکن مسلم ممالک پر قابض حکمران صدر بش سے مصافحہ کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں اور خود اپنے لوگوں کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں ان کے سپاہی بننے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری نگاہ میں جنرل پرویز مشرف کے دورۂ امریکا کا سب سے افسوس ناک پہلو اس نام نہاد دہشت کی جنگ کے دلدل میں پاکستان کو پھنسانا اور مزید پھنسانے کے لیے آمادگی کا اظہار ہے۔ حالانکہ یہ موقع اس جنگ کا پردہ چاک کرنے اور اس کے خلاف عالمی راے عامہ اور مسلم ممالک اور آزادی پسند اقوام کی قیادتوں کو گومنظم اور متحرک کرنا تھا۔ اگر ہم نے یہ کردار ادا کیا ہوتا تو اقوام متحدہ کا نقشہ بدلنے لگتا اور عالمی حالات کسی دوسرے ہی رخ پر مڑنے لگتے لیکن ہم تو دوسروں کے بنائے ہوئے جال میں اس بری طرح پھنس گئے ہیں کہ   ع

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

اس وقت دنیا میں ایک خاص منصوبے کے تحت اسلام اور مسلمانوں کو‘ اور ان کے بنیادی عقائد کو بالعموم اور جہاد‘ اسلامی ریاست اور اصول حکمرانی کو خصوصیت سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نیز اسلامی تعلیم اور مسلمانوں کا تاریخی اور روایتی تعلیمی نظام خصوصی ہدف ہیں۔ ضرورت تھی کہ اس اسلام فوبیا کا بھرپور رد کیا جاتا اور اس کے خلاف مؤثر اور منظم آواز اٹھائی جاتی لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی بلکہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر خود اسلام کی تراش خراش اور ایک معذرت خواہانہ اندازِ گفتگو اختیار کیا گیا اور ایک تاریخی موقع کو ضائع کر دیا گیا۔

امریکی استعمار کی نئی رو

عالمِ انسانی کے لیے اس وقت دو مسئلے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک امریکی استعمار کی نئی رو جو سیاسی‘ عسکری‘ معاشی‘ تہذیبی اور نظریاتی طور پر دنیا پر امریکی اور مغربی نظریات‘ تصورات اور سیاسی اور عسکری بالادستی مسلط کرنے سے عبارت ہے اور جس کے بارے میں کوئی پردہ بھی نہیں رکھا جا رہا۔ امریکی صدر نے صاف کہا ہے کہ ان کی لڑائی اپنی اقدار اور مغربی جمہوریت اور سرمایہ داری کو دنیا میں پھیلانے کے لیے ہے۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے ایک جملے میں پوری بات یوں   ادا کی ہے جسے سائمن جنکس (Simon Jenkus)نے دی گارڈین میں (بحوالہ دی نیوز ۲۲ستمبر ۲۰۰۵ئ) میں نقل کیا ہے:

لیکن ٹونی بلیر ہمیں بتاتا ہے کہ بندوق کی نالی کے ذریعے پیش کی گئی مغربی اقدار ہی  بے چارے مسلمان کو اس کے اپنے بدترین دشمن‘ یعنی خود اپنے آپ سے بچا سکتی ہیں۔

ٹونی بلیر کے اپنے الفاظ یہ ہیں:

fighting not for territory but for values

اور ہنری کسنجر نے صاف لفظوں میں صدربش کو مشورہ دیا ہے کہ نائن الیون ایک تاریخی موقع ہے جس کے تحت امریکا کو دنیا پر اپنا اقتدار اس طرح مستحکم کرلینا چاہیے کہ اسے مستقبل قریب میں کوئی خطرہ نہ رہے۔ یہی وہ ہدف ہے جس کے حصول کے لیے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ پیشگی حملے‘ حکومتوں کی تبدیلی کے نظریے پیش کیے گئے اور اب تازہ ترین نئے نیوکلیر ڈاکٹرائن ہے جس کے مطابق ہر اس ملک کے نیوکلیر اثاثہ جات تباہ کیے جاسکتے ہیں جن کے بارے میں امریکا کو یہ واہمہ ہے کہ وہ اس کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں یا وہ اس کے زعم میں کسی دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں میں آسکتے ہیں۔

اس وقت امریکا کا یہ سامراجی ایجنڈا دنیا کے امن اور تمام اقوام کی آزادی اور حاکمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ان حالات میں اُمت مسلمہ کی قیادت کا فرض تھا کہ اس خطرے کو مؤثر انداز میں‘ دلیل کی قوت کے ساتھ بے نقاب کرے‘ اس کے خلاف اقوام عالم کو منظم کرے اور  حکومتی اور عوامی محاذ پر وہ حالات پیدا کرے کہ اس نئے سامراج کامقابلہ کیا جا سکے اور اس کے مقابلے میں عالمی امن کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کو مضبوط کرے‘ اس پر پانچ ملکوں کی اجارہ داری کا خاتمہ کرانے کی تحریک کو تقویت بخشے‘ بین الاقوامی قانون کی بالادستی کے لیے تحریک چلانے اور دنیا میں ایک حقیقی تکثیری نظام (pluralistic order) کے قیام کی سعی کرے جس میں تمام ممالک‘ تمام تہذیبیں‘ تمام مذاہب‘ اور تمام اقوام عزت اور آزادی کے ساتھ باہمی تعاون اور اشتراک سے زندگی گزار سکیں۔ ایران کے صدر نے اس طرف ہلکا سا اشارہ کیا لیکن جنرل پرویز مشرف اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کو ادنیٰ سی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ اس بنیادی عالمی مسئلے کی طرف اقوام عالم کی توجہ دلانے اور عالمی راے عامہ کو مسخر کرنے کی کوشش کریں۔

انصاف کا فقدان

عالم انسانیت کا دوسرا بڑا مسئلہ عالمی سطح پر انصاف کا فقدان اور دولت اور اقتدار کی ایسی ناہمواریاں ہیں جن کے نتیجے میں دنیا کی آبادی کا تین چوتھائی عزت کی زندگی سے محروم ہے۔ امریکا کی آبادی دنیا کی آبادی کے ۶ فی صد سے بھی کم ہے مگر دولت کا ۲۵ فی صد اور توانائی کا ۳۰ فی صد اس کے قبضے میں ہے۔ امیرملکوں میں قائم ۵۰۰ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں‘ دنیا کی تجارت کے ۷۰ فی صد پر قابض ہیں اور ان میں ایسی کمپنیاں بھی ہیں جن میں سے ایک ایک کی دولت دنیا کے ۴۰/۵۰ ملکوں کی دولت سے زیادہ ہے۔ افریقہ کے ممالک کا حال یہ ہے کہ آج ان کی فی کس آمدنی اس سے بھی کم ہے جو ۱۹۷۰ء میں تھی‘ جب نئے معاشی عالمی نظام کی آواز بلند ہوئی۔ ان ۴۰ برسوں میں وہ ۱۹۷۰ء سے بھی خراب حالات میں ہیں۔ دنیا کے امیر ملکوں نے بین الاقوامی تجارت پر ایسے بند باندھ رکھے ہیں کہ امریکا اور یورپ کی منڈیوں تک غریب ممالک کی برآمدات کی رسائی ممکن نہیں‘ جب کہ ان کی اپنی منڈیاں ان ممالک کی چراگاہ بنی ہوئی ہیں۔

ستم ہے کہ آج دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ اسی غربت کا شکار ہے کہ اس کے رہنے والوں کو ایک ڈالر یومیہ بھی میسر نہیں ‘ جب کہ یورپ میں ہر گائے کے لیے سرکاری خزانہ سے دو ڈالر یومیہ کی سبسڈی دی جاتی ہے اور اس لیے دی جاتی ہے کہ دوسرے ممالک سے سستا دودھ‘ مکھن‘ گھی نہ منگوانا پڑے۔ امیر ممالک بیرونی امداد کے نام پر سالانہ ۵۰ ارب ڈالر دیتے ہیں‘ جب کہ اپنے ملکوں کی زراعت کو ترقی پذیر ملکوں کی زرعی مصنوعات سے بچانے کے لیے ۳۶۰ ارب ڈالر سالانہ سبسڈی دیتے ہیں اور غریب ملکوں سے آنے والی زرعی مصنوعات کا راستہ روکتے ہیں۔ دنیا میں جنگ کے کاروبار کو گرم رکھنے کے لیے سالانہ خرچ اب ایک ہزار ارب ڈالر کو چھو رہا ہے اور اس میں سے امریکا کا حصہ ۴۰فی صد سے زیادہ ہے لیکن غربت کو ختم کرنے‘ روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے وسائل فراہم کرنے کی کوئی فکر نہیں۔ جس نام نہاد دوسرے ہزاریے (millenium) کے ترقیاتی پروگرام کا آغاز پانچ سال پہلے ہوا تھا اس کا حشر یہ ہے کہ اس کے اہداف کا ایک چوتھائی بھی پورا نہیں ہوسکا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر خود امریکا نے آج تک لفظی حد تک بھی اپنی اس ذمہ داری کو قبول نہیں کیا ہے کہ اپنی قومی دولت کا ۷ئ۰ فی صد ہر سال ترقی پذیر ملکوں کی معاشی ترقی کے لیے فراہم کرے گا۔

یہ ہیں وہ بنیادی مسائل جن کی طرف اقوام متحدہ کے اس ۶۱ویں اجلاس میں غور ہونا تھا مگر اسے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ان کے ساتھ مسلم دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل میں فلسطینیوں کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں نہ صرف یہ کہ کوئی مؤثر آواز نہیں اٹھائی گئی بلکہ اُلٹا اسرائیل اور شارون کو غزہ کی پٹی سے انخلا کے ڈرامے کی بنیاد پر شاباش دی جارہی ہے۔ ہم اس سے تعلقات بحال کرنے کے لیے بے چین ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہودی لابی کے قدموں میں گرنے سے ہمیں کوئی مراعات حاصل ہوجائیں گی۔

کشمیر کا مسئلہ اُمت مسلمہ کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس کو بھی جس کمزور انداز میں اٹھایا گیا اور جہاد آزادی کو دہشت گردی قرار دینے کی بھارتی کوشش کا کوئی مؤثر جواب تک نہیں دیا گیا بلکہ ہر طرح کی دہشت گردی ختم کرنے کا وعدہ کر ڈالا گیا جو تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑنے کے مترادف ہے۔ بھارت کے وزیراعظم سے ملاقات کی بڑی دھوم تھی مگر چار گھنٹے کی ملاقات میں کیا حاصل ہو۱___  وہی ڈھاک کے تین پات! وہی سرحدوں میں تبدیلی نہ کرنے کا اعلان! وہی سرحدپار دہشت گردی کی رٹ! وہی مزید مذاکرات کی نوید!

شیشان کا مسئلہ بھی کسی طرح کم اہم نہیں۔ اسی طرح فلپائن اور تھائی لینڈ کے مسلمانوں کے مسائل ہیں‘ لیکن کسی مسلمان حکمران کو ان مسائل کو اٹھانے اور ان علاقوں پر بیرونی قبضے‘ حکومتی ظلم و تشدد‘ حق خود ارادیت کی تحریکات کو کچلنے اور انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کرنے کے خلاف آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔

صدر بش سے تین توقعات

جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ تو کیا تھا مسلمان اُمت کے مقدمہ کو پیش کرنے کا لیکن وہ صرف صدر بش کے ایجنڈے پر عمل کرتے رہے اور ان کی ساری توقعات صدر بش کے ذریعے  کچھ حاصل کرنے کی تھیں مگر عملاً صدربش نے سفید جھنڈی دکھا دی جو امریکا کا پرانا وطیرہ ہے۔ جنرل صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے صدربش سے تین توقعات کا اظہار کیا تھا‘ یعنی:

۱-            بھارت کو جو اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور خصوصیت سے ایٹمی ٹکنالوجی کے میدان میں جو معاہدہ کیا گیا ہے اور جو تازہ ترین ٹکنالوجی نئے معاہدے کے تحت دی جارہی ہے‘ پاکستان کو بھی   کم ازکم وہی سہولت دی جائے اور مساوی معاملہ کیا جائے۔ امریکا نے صاف انکار کردیا ہے کہ بھارت کا معاملہ خاص ہے‘ پاکستان کو اشک شوئی کے لیے کچھ پرانا اسلحہ دیا جاسکتا ہے مگر جو تعاون نیوکلیئر ٹکنالوجی کے سلسلے میں کیا جا تا رہا ہے اس کو پاکستان کو دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

۲-            دوسری درخواست صدر بش سے یہ کی گئی تھی کہ کشمیر کے معاملے میں کچھ پیش رفت کرانے میں مدد دیں اور خاص طور پر بھارتی فوج میں کچھ کمی اور کم از کم دو چھوٹے سے علاقوں سے فوج کی واپسی کے لیے کچھ دبائو بھارت پر ڈالا جائے۔ لیکن بھارت نے صاف انکار کر دیا اور اس کے برعکس من موہن سنگھ نے صدر بش سے کہا کہ پاکستان سے اب بھی سرحدی دراندازیاں ہو رہی ہیں اور ان کو رکوایا جائے اور ہمارے جرنیل صاحب بغلیں بجاتے رہ گئے۔

۳-            تیسری درخواست فلسطین کے پیش پا افتادہ روڈمیپ کی بحالی کے بارے میں تھی۔ لیکن یہاں بھی صدربش نے کوئی گھاس نہ ڈالی بلکہ محض غزہ کی پٹی سے فوجوں کی جزوی اور نام نہاد واپسی ہی کو بہت بڑا کارنامہ قرار دیا اور سارا زور غزہ اور غرب اُردن کے علاقے میں حماس کا زور توڑنے کے مطالبات پر صرف کر ڈالا۔

یہ ہیں ہماری خارجہ پالیسی کی فتوحات! سب سے بڑھ کر ذلت اور فوجی غیرت کے منافی جنرل صاحب کا آخری دورہ تھا جس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سربراہ مملکت فلوریڈا میں امریکی فوج کے ایک علاقائی نظام سنٹرل کمانڈ (Centcom ) کے دفتر میں بہ نفس نفیس اس کے کمانڈر ابوزید کے دربار میں حاضری دینے کے لیے گیا۔ جنرل پرویز مشرف چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے بھی سنٹرل کمانڈر کے کمانڈر سے اونچا درجہ رکھتے ہیں چہ جائیکہ صدرمملکت کی حیثیت سے لیکن قومی وقار اور ہر protocol کے تمام آداب کو بالاے طاق رکھ کر جرنیل صاحب سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر سے ملنے نیویارک سے فلوریڈا گئے اور دربار میں حاضری دینے کو اپنے لیے وجہِ عزت و افتخار قرار دیا۔ اس سے زیادہ قومی عزت کی پامالی کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا امریکا کا یہ دورہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ خدا کرے کہ یہ اس سلسلے کا آخری باب ہو۔

قومی احتساب کی ضرورت

بات ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس امر کی نشان دہی بھی کر دی جائے کہ یہ ساری ناکامیاں‘ رسوائیاں اور ہزیمتیں اس لیے ہمارا مقدر ہوگئی ہیں کہ ہمارے ملک میں فیصلہ کرنے کا سارا اختیار فردِ واحد کے ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ سارے ادارے عملاً معطل ہیں اور مشاورت اور اجتماعی فیصلہ سازی کا کوئی نظام موجود نہیں اور ایک شخص قرونِ وسطیٰ کے بادشاہوں کی طرح I am the state کے فلسفے پر عمل پیرا ہے۔ کابینہ‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں‘ عوام سب غیرمتعلق ہوگئے ہیں۔ قومی احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں۔ حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتے جب تک اس بنیادی مسئلے کا فوری اور مؤثر حل نہیں کیا جاتا۔ یہ وقت کی اوّلین ضرورت ہے اور اصلاح احوال کے لیے پہلی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ہر دوسرے معاملے (consideration) سے بلند ہوکر اس مسئلے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ افراد جو آج حکومتی پارٹی سے منسلک ہیں‘ ان کو بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ ملک کو کس سمت میں دھکیل رہے ہیں اور خود اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو کس عذاب میں مبتلا کرنے میں شریک ہیں۔ ہم سب کو ایک دن اللہ کو جواب دینا ہے کہ اس نے جو امانت پاکستان کی شکل میں ہمارے سپرد کی تھی ‘ہم نے اس سے کیا معاملہ کیا۔ تاریخ تو اپنا فیصلہ دے گی ہی‘ مگر ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آخرت کے نقطۂ نظر سے بھی اپنا احتساب کرنا چاہیے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ برحق پر سنجیدگی سے عمل کرنا چاہیے کہ حاسبوا قبل ان تحاسبوا ، ’’خود اپنا احتساب کر لو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘۔