خط تو بہت آتے ہیں لیکن اس خط کی اپنی بات ہے۔ پڑھیں تو پڑھتے رہ جائیں‘ سوچیں تو سوچتے رہ جائیں۔ یااللہ! ہم مسلمان کس چیز کو چھپائے بیٹھے ہیں! ہر کلمہ پڑھنے والا اس جذبے سے سرشار ہوجائے تو دنیا کیا سے کیا ہوجائے۔ (ادارہ)
میری عمر ۴۴ سال ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے جیل میں ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہا ہوں۔ قید تو ۱۵ سال کی ہے لیکن اللہ جل جلالہ جانتے ہیں کہ کب رہائی ہوگی۔ قید کیوں کاٹ رہا ہوں؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ آپ نے حوصلہ افزائی کی تو پھر دوبارہ ان شاء اللہ تفصیل سے لکھوں گا۔ آپ کو خط لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی توجہ ایک واقعے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔
قصہ یوں ہے کہ میں اس جیل کے ایک یونٹ کا قائم مقام امام ہوں۔ اس جیل میں تقریباً ساڑھے تین ہزار قیدی ہیں۔ اس جیل میں ایک خاص یونٹ ہے‘ جس میں تقریباً ۳۰۰ قیدی ہیں۔ یہ یونٹ خاص طور پر قانون ساز اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد پولیس‘ وکیل‘ جج‘ ایف بی آئی‘ کسٹم‘ سی آئی اے اور دیگر قانون ساز اداروں سے تعلق رکھنے والے افسروں کے لیے ہے۔ میں بھی پہلے ایک فیڈرل ایجنسی میں ملازمت کرتا تھا۔ بات یوں ہے کہ چند مہینے پہلے کسی قیدی نے مجھے ترجمان القرآن مئی ۲۰۰۰ء کا ایک پرانا شمارہ دیا۔ میں نے ایک سرسری نظر ڈال کر ایک طرف رکھ دیا۔ ایک دن کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا تو میں نے شمارے کی ورق گردانی کی اور خرم مراد صاحب کا مضمون ’’دعوتِ عام کی بنیادیں‘‘ دھیان سے پڑھا۔ اُن کی باتیں دل کو لگیں۔ اگلے جمعہ کو اُن کے مضمون سے کچھ حصے لے کر انگریزی میں ترجمہ کیا اور جمعۃ المبارک کے خطبے کے دوران وہ سب باتیں دہرائیں۔ سبحان اللہ‘ جمعہ کی نماز کے بعد سات افراد نے اسلام قبول کیا‘ جن میں دو جیل کے اہل کار بھی شامل تھے۔ یہ میرے لیے تو ایک بہت بڑی بات تھی۔ جب سے اسلام کی دعوت کا کام شروع کیا ہے‘ ایسا بڑا واقعہ پہلے کبھی رونما نہیں ہوا‘ گو کہ کافی لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔
صاحب‘ بات یہ ہے کہ میں گناہ گار‘ کم عقل اپنے آپ کو اس قابل نہیں گردانتا۔ میں تو دنیادار‘ کم فہم اور رند خرابات قسم کا بندہ تھا۔ میری معلومات دین کے بارے میں صرف اتنی تھیں کہ کبھی کبھار نماز پڑھ لی یا قوالیاں سن کر اپنے آپ کو مسلمان سمجھ لیا۔ یہ تو جیل آکر پتا چلا کہ دین کیا ہے۔ کبھی تو سوچتا ہوں کہ شاید میرے مالک نے مجھ سے یہ کام لینا تھا‘ اس لیے جیل میں آیا۔ مجھے نہیں پتا کہ خرم مراد صاحب کون ہیں۔ میں نے تو اُن کا نام پہلی بار پڑھا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے بارے میں اتنا پتا تھا کہ وہ وہابی ہیں۔ گھر میں والد صاحب اُن کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ جیل کی مسجد کی صفائی کرتے وقت مجھے اُن کی لکھی کتاب خلافت و ملوکیت ملی‘ پڑھ کر ایمان تازہ ہوگیا۔ ایک دوست سے گزارش کرکے مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن منگوا کر پڑھی تو قرآن پاک کے اصل مفہوم سے واقف ہوا اور اُسی کو لے کر کالے گوروں میں دین اسلام بانٹتا پھر رہا ہوں۔ باہر کی دنیا سے رابطہ منقطع ہے‘ ورنہ مولانا مرحوم کی لکھی ہوئی سب کتابیں پڑھوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُن کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین!
آپ سے گزارش ہے کہ اگر آپ مجھے ترجمان القرآن کا شمارہ بھیج دیا کریں تو میرے علم میں اضافہ ہوگا اور میں تبلیغ کا کام بہتر طریقے سے کر پائوں گا۔
خرم مراد صاحب کی خدمت میں میرا مؤدبانہ سلام عرض کریں اور اُن تک یہ خبر پہنچا دیں۔ اُن سات افراد میں‘ میں نے دو کا نام آپ کے نام سے رکھا ہے۔ ایک کا خرم اور دوسرے کا مراد۔ اُن کی لکھی ہوئی ایسی ہی عمدہ تحریریں اگر آپ بھیج دیں تو نہایت مشکور ہوں گا۔
بس اتنی خواہش ہے کہ دین اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کروں تاکہ نومسلموں کی صحیح رہنمائی کر سکوں۔ (۲۷ اگست ۲۰۰۵ئ)