’’خدا سے بے خوف لوگوں کا مجمع‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ) پڑھا۔ آپ کے تاثرات عام مسلمانوں کے جذبات کے عکاس ہیں۔ ثقافت کے نام پر بڑھتی ہوئی بے حیائی کا جو طوفان اٹھا ہے اس کی تباہ کاریاں ملک و ملّت کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہو رہی ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس کے خلاف منظم جدوجہد ناگزیر ہوتی جارہی ہے۔
ہمارے ہاں قطع رحمی یا صلہ رحمی کی حقیقت کبھی نزاعی مسئلہ نہیں رہا (ستمبر ۲۰۰۵ئ)۔ مسئلہ یہ ہے کہ قریبی رشتہ داروں میں خواتین کو ترکے یا وراثت سے شرعی طور پر مقرر حصہ نہیں دیا جاتا۔ اپنا حق وراثت لینا ایک گستاخی سمجھی جاتی ہے۔ رہنمائی یہ ہونی چاہیے کہ اگر کچھ لوگ جانتے بوجھتے اللہ کا یہ حکم نہیں مانتے‘ اگر ان سے صرف یہ قطع تعلق کیا جائے کہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے ان کے ساتھ کھانے پینے سے پرہیز یا احتراز کیا جائے‘ تو کیا یہ عمل قطع رحمی میں شمار ہوگا؟
’’ایک منفرد دعوتی تجربہ‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ) نظر سے گزرا۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد معلوماتی اور چشم کشا تحریر ہے۔ امریکا میں قیدیوں پر اسلام کے اثرات سے متعلق کچھ نامکمل معلومات تو اکثر ملتی تھیں‘ اسی طرح دیگر یورپی ممالک سے متعلق بھی بعض تحریریں نظر سے گزریں لیکن فاروقی صاحب نے کوریا اور امریکی قیدیوں کے حوالے سے جو معلومات فراہم کی ہیں اور اشاعت اسلام کے لیے انھوں نے جو علمی اور عملی طریقہ اختیار کیا ہے‘ وہ قابلِ ستایش ہی نہیں‘ قابلِ تقلید بھی ہے۔
’’ایک منفرد دعوتی تجربہ‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ)‘ میں محترم شفیق الاسلام فاروقی کے تجربات نے بہت متاثر کیا۔ البتہ ایک وضاحت بھی ضروری ہے۔ مضمون میں ’’نیشن آف اسلام‘‘ تنظیم کا وارث دین محمد سے تعلق ظاہر کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں۔ درحقیقت وارث دین محمد کا تعلق اُمت مسلمہ سے ہے‘ جب کہ لوئیس فرح خان نیشن آف اسلام کی نمایندگی کرتے ہیں۔ اگرچہ لوئیس فرح خان اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا کے سالانہ کنونشن میں اسلام سے اپنی وابستگی کا اعلان کرچکے ہیں‘ یعنی وہ اللہ پر ایمان اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں‘ تاہم وہ جس گروپ کی نمایندگی کرتے ہیں وہ ابھی تک نیشن آف اسلام کے نظریات پر عمل پیرا ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد نے ’’رسائل و مسائل‘‘ میں ’’اسلامی نظام معاشرت: بعض اہم بنیادی اصول‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ) کے تحت جس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے‘ اسی پر مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’شوہر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خدا کے احکام کی خلاف ورزی پر بیوی کو مجبور کرے اور اگر وہ ایسا کرے تو مسلمان عورت کا فرض ہے کہ ایسے مطالبات پورے کرنے سے انکار کر دے۔
سسرال اور میکے میں عورتوں کا عموماً جن غیرمحرم مگر قریبی رشتہ داروں کے ساتھ رہن سہن ہوتا ہے ان سے پردے کی نوعیت وہ نہیں ہے جو بالکل غیرمردوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ عورتیں ان کے سامنے بغیر زینت کے‘ سادہ لباس میں پورے ستر کے ساتھ آسکتی ہیں‘ مگر صرف اس حد تک ان کے سامنے رہنا چاہیے جس حد تک معاشرتی ضروریات کے لحاظ سے بالکل ناگزیر ہو۔ خلاملا اور بے تکلفی اور ایک مجلس میں بیٹھ کر ہنسی مذاق اور تنہائی میں بیٹھنا اس قسم کے رشتہ داروں کے ساتھ جائز نہیں ہے۔
اس معاملے میں فی الواقع ہماری معاشرت میں بڑی پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ اگرچہ شریعت کا جو حکم ہے‘ میں نے بتا دیا ہے لیکن مسلمانوں میں رواج سے جو غیرشرعی حالات پیدا ہوگئے ہیں ان کو دُور کرنے کے لیے بڑی جرأت اور عزم کی ضرورت ہے۔ ایک طرف مسلمان غیروں سے اتنے پردے کا اہتمام کرتے ہیں جو کہیں کہیں خود شریعت کے مطالبات سے بڑھ جاتا ہے‘ اور دوسری طرف رشتے داروں کے معاملے میں انھوں نے تمام حدودشرعیہ کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس معاملے میں شاید ہم کو کسی وقت ایسا سخت طرزِعمل اختیار کرنا پڑے گا جس سے بعید نہیں کہ ہمارے خاندانی تعلقات میں بہت سی تلخیاں پیدا ہوجائیں‘‘۔ (رسائل و مسائل ‘ اوّل‘ ص۹۹-۱۰۰)