اکتوبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

تہجد اور تربیت نفس

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | اکتوبر۲۰۰۵ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o (المزمل ۷۳: ۱-۴)

اے اُوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔

یہ ابتدائی دورکی سورتوں میں سے ہے۔ دوسرارکوع خاص طور پر معلوم ہوتاہے کہ مدینہ طیبہ کا ہے‘جوآخرمیں نازل ہوا۔پہلا رکوع ابتدائی دورکا ہے جس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت فرمائی جارہی تھی۔لیکن ایسے ابتدائی دورکا نہیں ہے کہ کفارسے کش مکش شروع نہ ہوئی ہو۔ ایک وہ دورتھاکہ جب کفار سے کش مکش شروع نہیں ہوئی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علانیہ تبلیغ نہیں فرماتے تھے‘ بلکہ الگ الگ لوگوں سے فرداً فرداً مل کربات کرکے فضیلت اورمعنی بتاتے تھے۔اس زمانے میں کش مکش میں شدت اختیارنہیں ہوئی تھی۔

جب آپؐ نے علانیہ تبلیغ کرنا شروع کی‘اس زمانے میں کش مکش شروع ہوئی۔اس   کش مکش کے زمانے میں اس بات کی ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی جائے۔ اس کارِعظیم کے لیے آپؐ کوتیار کیاجائے۔اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے پیارے اندازسے حضوؐرکو خطاب کیا: یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ ۔

عربی زبان میں اوڑھ لپٹ کربیٹھ جانے یا لیٹ جانے کو مزمل کہتے ہیں۔ یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ کہہ کر خطاب کرنے کے دومفہوم ہوسکتے ہیں۔ایک مفہوم یہ ہوسکتاہے کہ اے شخص جواطمینان سے پاؤں پھیلائے پڑاہے‘اب تیرے اُوپر بہت بڑے کام کا بارہے۔دوسرامفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ   اے شخص جوبہت غمگین اور اُداس ہے‘اُٹھ کریہ کام کر۔ گویا ایک آدمی جس کے اُوپر کارِعظیم کابار ڈال دیاگیا ہے وہ اب پریشان ہے کہ میں ِاس بارکوکیسے اٹھاؤں اور یہ فریضۂ عظیم کیسے انجام دوں؟اس پریشانی میں آپؐ لیٹے تھے‘ یا آپؐ آرام فرما رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے خطاب کیاکہ میاں اَب تمھارے آرام کرنے کا زمانہ گیا‘اَب تمھارے اُوپر ایک عظیم الشان کام کابار ہے ۔ اُٹھواوراَب یہ مشقت کرو۔

اس کے بعد فرمایاکہ:

قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا o (۷۳: ۲-۵)

رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔

آدھی آدھی رات کھڑے رہوسے مراد تہجد کی نمازہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا کہ وہ بارِ عظیم جوتمھارے اُوپرڈالا گیا ہے اس کو سنبھالنے کے لیے تمھیں جس طاقت کی ضرورت ہے وہ اس تہجد کی نمازسے حاصل ہوگی ۔یہ وہ چیز ہے جوتمھیں تیار کرے گی ۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ آدھی آدھی رات کھڑے رہویاآدھی رات سے کچھ کم یاآدھی رات سے کچھ زیادہ ۔

رسولؐ اللہ کا تہجد میں یہ طریقہ رہا کہ جب تک آپؐ کے جسم میں کافی طاقت تھی اُس وقت آپؐ بغیر درمیان میں بیٹھے ہوئے آٹھ رکعتیں مسلسل پڑھتے تھے۔ اس کے بعد بیٹھ کر آدھا تشہد پڑھتے تھے‘ پھر کھڑے ہوکرایک رکعت اُس میں اضافہ فرماتے تھے‘ اور نویں رکعت پڑھنے کے بعدآپؐ پھر بیٹھ کرپوراتشہدپڑھ کر سلام پھیرتے تھے۔پھر دورکعتیں اور پڑھتے تھے۔اس طرح کہ ۱۱رکعتیں آپؐ تہجد میں پڑھتے تھے۔ آپؐ کی ہر رکعت طویل ہوتی تھی کیونکہ قرآنِ مجید میں آپؐ کو ترتیل کا سبق دیا گیا ہے۔

ترتیل سے مراد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ قرآن مجیدکی ایک ایک آیت کوآپؐ  بڑے غور سے پڑھا کریں۔یہاں تک بھی آتاہے کہ ‘مثلاً اگر کوئی عذاب کی آیت آگئی ہے توآپؐ اس کے اُوپر ٹھیر گئے اور اللہ سے استغفار کیا اور رحم کی درخواست کی۔کوئی غوروفکر کی دعوت دینے والی آیت آئی تو اس کے اُوپر ٹھیر گئے اورغوروفکر کیا۔ اس طرح آپؐ  کی جوتلاوت ہوتی تھی وہ اس نوعیت کی نہیں ہوتی تھی کہ جیسے ہم آج کرتے ہیں‘ رواں دواں پڑھتے چلے جا رہے ہیں‘ بلکہ ٹھیر ٹھیرکر‘ ایک ایک آیت کے اُوپر‘ ایک ایک لفظ کے اُوپر غور کرتے اورپڑھتے تھے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسا مضمون آتا ہے اس کے مطابق اس کے جواب میں بات کرتے ہیں۔ اس طرح سے آپؐ  کی ۱۱ رکعتوں میں کئی گھنٹے گزر جاتے تھے۔بعد میں جب آپؐ  کے اندرطاقت کم ہوگئی توآپؐ نے دورکعتیں کم کردیں‘یعنی جب بڑھاپاآگیا تو آپؐ نے نورکعتیں پڑھنا شروع کر دیں۔

یہاں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ تم نماز ٹھیر ٹھیر کرپڑھو‘ آدھی رات یاآدھی رات سے کچھ کم یاآدھی رات سے کچھ زیا دہ ۔ اور قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھو‘یعنی آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ کو اداکرو۔حضرت عائشہ ؓ فر ماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر آہستہ آہستہ قرآن پڑھتے تھے کہ اگر کوئی چاہتاتوایک ایک حرف کو گن سکتاتھا۔اتنا آہستہ پڑھتے تھے آپؐ۔ کہا گیا کہ ایک بڑے بھاری کلام کا بوجھ تمھارے اُوپرڈالاگیاہے۔ اس کوسنبھالنے کے لیے یہ تربیت درکار ہے کہ تم رات کوتہجدپڑھو۔

اب یہ بھاری کلام ایسا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُوپراس کانزول ہوتا تھاتوآپؐ  فرماتے ہیں کہ مجھے ایسے معلوم ہوتاہے کہ جیسے میری جان نکل جائے گی۔ایک صحابیؓ فرماتے ہیںکہ آپؐ  میرے زانو پرزانو رکھ کربیٹھے ہوئے تھے کہ اس حالت میں وحی آئی تومجھے محسوس ہوا کہ جیسے میرازانوٹوٹ جائے گا۔ایک اور روایت میں یہ آتاہے کہ آپؐ  ایک اونٹنی پر سوار تھے کہ اس حالت میں آپؐ  کے اُوپرقرآنِ مجید کا نزول شروع ہواتواونٹنی بوجھ کے مارے بیٹھ گئی اورتڑپنے لگی۔ یہ نزول وحی کی کیفیت ہوتی تھی۔ اس لیے فرمایا کہ یہ بھاری کلام جو تمھا رے اُوپر نازل کیا جا رہا ہے‘ اس کوسہارنے کے لیے تمھارے اندرجس روحانی قوت کی ضرورت ہے وہ اس چیزکے ساتھ آئے گی ۔

بھاری کلام وہ اِس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ ایک ایساکلام تھاکہ اس کے نازل ہونے کے بعدساری دنیا سے آپؐ  کی لڑائی ہو گئی اور وہ دشمنی کے لیے کھڑی ہوگئی۔ آپؐ  قرآن کے نزول کے وقت سے لے کرآخری سانس تک عمر بھر کی ایک جدوجہدمیں مشغول رہے۔ہر طرف جاہلیت کادوردورہ تھا۔ گردوپیش کی تمام طاقتیں سب کی سب آپؐ  کے اُوپرٹوٹ پڑیں۔ گویا یہ ایک بھاری کلام تھا جو اپنے ساتھ بڑی بھاری ذمہ داریاں لے کر آیا تھا۔ان کو نبھانے کے لیے جس طاقت کی ضرورت تھی اس کے لیے تہجد پڑھنے کی تاکید فرمائی گئی۔

اب مزیدوجہ بتائی جاتی ہے کہ یہ تہجد کی نماز تمھارے لیے کیوں ضروری ہے۔

اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا o (۷۳: ۶)

درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔

راتوں کو اُٹھنا یہ بہت زیادہ مؤثر ہے اس با رے میں کہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیداہو جائے۔ اس لیے جو آدمی اپنی نیند توڑ کر رات کو اُٹھتا ہے ‘بالکل اپنی خلوت میں ‘جہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے‘ اُٹھ کر نمازپڑھتاہے‘اوراپنے خداسے دیر تک خطاب کرتارہتاہے‘تویہ بغیرخلوص کے ممکن نہیں۔جب تک آدمی بالکل مخلص نہ ہوجائے‘ جب تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا انتہائی مخلصانہ تعلق نہ ہو‘اس وقت تک یہ کام ممکن نہیں ہے۔ آدمی باجماعت نماز میں اور پانچ وقت کی نماز میں ریاکاری کر سکتا ہے‘ نمایش کی خاطر کرسکتاہے ‘اس غرض کے لیے کرسکتاہے کہ میرا شمار صالحین میں کیاجائے اور میرالوگوں کے اندر اثرقائم ہو جائے۔ لیکن تہجد کی نماز جورات کواُٹھ کر پڑھی جائے‘  بغیر اِخلاص کے ممکن نہیں۔

اس لیے فرمایاکہ یہ راتوں کو اُ ٹھنا اس بارے میں سب سے زیا دہ مؤثر ہے کہ آدمی کے دل اور اُس کی زبان کے درمیان مطابقت پیدا ہو۔آدمی کا ظاہراورباطن یکساں ہوجائے۔ اگرایک آدمی یہ عمل کرتاہے اور اس کے بعد کھڑے ہوکر اللہ کے راستے کی طرف لوگوں کو دعوت دے گا‘ ظاہر بات ہے کہ یہ اخلاص کی بنیاد پر ہوگا۔کیونکہ وہ روز اخلاص کی تربیت (training) لے رہا ہے۔اگر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق اخلاص کے ساتھ نہ ہوتووہ رات کو کیسے اُٹھے۔ رات کواُٹھ کر وہ اللہ تعالیٰ سے مخلصانہ تعلق کوروزتازہ کرتا رہتاہے‘اس لیے اِس بات کا کوئی امکان باقی نہیں رہتاکہ وہ اللہ کے راستے میں دعوت دینے کے لیے ریا کاری کرے یااپنی کسی ذاتی غرض کے لیے‘کسی اپنے دنیوی مقصد کی خاطریہ کام کرے۔ اس طرح آدمی کاظاہر اورباطن یکساں ہوتاچلاجاتاہے۔ اس کے قول اور عمل میں مطابقت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔اس کی نیت درست ہوتی چلی جاتی ہے۔

وَّاَقْوَمُ قِیْلًا

اورآدمی کے قول کو زیادہ راست کردینے والا ہے۔

دوسرے الفاظ میں اس حالت میں جو آدمی دعوت الی اللہ کاکام کرے گاتووہ کامل راست بازی کے ساتھ کرے گا۔ اس آدمی میں کمال درجے کی راست بازی پیداہوجائے گی‘ جورات کو اُٹھ کر اپنے آپ کو اخلاص کی ٹریننگ دیتاہے۔

اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا o (۷۳: ۷)

دن کے اوقات میں تو تمھارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔

یہ ممکن ہے کہ دن کے وقت تمھیں اس طرح کی خلوت کی نماز کا موقع مل جاتا۔یہ بھی آدمی کر سکتاہے کہ دن کو اپنے حجرے کے دروازے بندکرے اوردروازے بندکرکے خاموشی کے ساتھ نمازپڑھتا رہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ دن کوتمھارے لیے ایک دوسری مشغولیت ہے جو تمھارا پورا پورا دن لے لینے والی ہے‘یعنی تبلیغ کی‘دعوت کی ‘اللہ کے راستے کی طرف بلانے کی۔ لہٰذا تم رات کو ٹریننگ لواور دن کو پوراوقت اس کام پرصرف کروکہ اللہ کے راستے کی طرف لوگوں کو بلاؤ۔ تمھارا دن کا وقت اس ٹریننگ کے لیے نہیں ہے۔

وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا o (۷۳: ۸)

اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اُسی کے ہو رہو۔

تبتل اس بات کو کہتے ہیں کہ آدمی سب سے اپنا تعلق توڑ کرایک طرف کا ہوجائے۔ حضرت فاطمہؓ کے لیے بتول کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ اپنے سارے تعلقات ختم کرو‘ایک اللہ کے ساتھ اپناتعلق جوڑو۔اس کے بعد اَب جو خلق کے ساتھ تعلق ہوگا وہ اللہ کے واسطے سے ہوگا‘براہِ راست نہیں ہوگا۔بیوی سے تعلق ہے تواللہ کی خاطرہے‘اولاد سے تعلق ہے تو اللہ کی خاطر ہے‘دوستوں سے تعلق ہے تو اللہ کی خاطر ہے‘محلے والوں سے تعلق ہے تو اللہ کی خاطرہے‘حتیٰ کہ دشمنوں سے جوتعلق ہے تووہ بھی اللہ کی خاطرہے۔اگر محبت ہے تو اللہ کے لیے اور دشمنی ہے تواللہ کے لیے۔ کسی قسم کی کوئی ذاتی آلایش اس کے ساتھ نہیں ہے۔یہ معنی ہیں  تبتلکے۔

اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آدمی سب کچھ چھوڑکر گوشہ نشین ہوجائے۔ تبتـل اس چیز کا نام نہیں ہے کہ آدمی تارک الدنیاہو کرجنگل میں جابیٹھے یاپہاڑوں پرچڑھ جائے ۔ تبتـل اس کا نام ہے کہ آدمی اِسی معاشرے میں رہے ‘انھی لوگوں میں رہ کرکام کرے‘اپنی روزی کمائے ‘ دنیاکے تمام تعلقات رکھے‘ اور ان تعلقات کو رکھتے ہوئے سب سے کٹ کراللہ کا ہوجائے ۔یہ بہت بڑاکام ہے آدمی کے لیے۔تارکِ الدنیا ہوکر‘بے نیاز ہو کرجنگل میں بیٹھ جانا بڑا آسان ہے۔ لیکن معاشرے کے اندر رہتے ہوئے پھر تبتل کرنا‘ یہ بہت عظیم الشان کام ہے۔یہ ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔ اس چیز کی تعلیم اسلام کے سوا کسی اور مذہب میں نہیںہے۔

دوسرے مذاہب نے جو کچھ سکھایا وہ یہ ہے کہ اگر خداکے ہوناچاہتے ہوتوخلق سے تعلق توڑواورجاکرپہاڑوں کے پہلومیں بیٹھ جاؤ۔جنگلوں میں بیٹھ جاؤاوروہاں بیٹھ کرتپسیّا کرو۔ اسلام نے یہ سکھایاہے کہ نہیں‘ تمھاراکام جنگلوں میں نہیں ہے ‘تمھاراکام انسانوں کے درمیان ہے۔تم یہاں انسانوں سے تمام تعلقات رکھ کر سارے معاملات چلا سکتے ہو‘ جس طرح سے کوئی دنیادار چلاسکتا ہے۔ اس لیے اس کے ساتھتبتـل اختیار کرو‘ سب  سے کٹ کر اسی کے ہوجاؤ۔

رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا o (۷۳: ۱۹)

وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل بنالو۔

وکیل اُس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے اُوپراعتمادکرکے آپ اپنے معاملات اس کے حوالے کردیتے ہیں۔ہم اپنی زبان میں بھی وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جس پر ہم یہ اعتماد کرتے ہیں کہ ہمارامقدمہ یہ خود لڑے گا۔ اپنا مقدمہ اس کے حوالے کر کے آپ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہما رے سرسے یہ بلاٹل جائے گی ۔یہاں اسی معنی میں وکیل کا لفظ استعمال کیاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپناوکیل بنالو‘ جب کہ تم نے اتنا بڑا جھگڑادنیا میں چھیڑ دیاکہ شرک کے خلاف تم تبلیغ کرنے کھڑے ہوگئے‘ تمام معبودوں کی تم نے تردید کردی‘تمام جاہلانہ رسموں کی تم مخالفت کرتے ہو‘ غرض یہ کہ دنیا میں جوکچھ خداکے قانون کے خلاف ہو رہاہے ‘ اُن سب سے تم نے اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔اب یہ جنگ مول لینے کے بعد اگرتم اپنی طاقت پر بھروسا کروتو  اس سے بڑی کوئی نادانی نہیں ہوسکتی کہ آدمی دنیا بھر سے جھگڑامول لے رہاہو اوربھروسا اس کا اپنی طاقت پر ہو۔ اسی طرح کسی دوسری انسانی طاقت کے بل بوتے پر یاکسی دوسرے بندے کی طاقت کے بل بوتے پراگر یہ جھگڑا مول لے گا توتب بھی نادانی کرے گا۔اس لیے کہ کوئی ایسا طاقت ور نہیں ہے کہ آدمی کو تمام دنیا سے جو اس نے لڑائی مول لے رکھی ہے اورہرمیدان میں لے رکھی ہے___ عقیدے کے میدان میں بھی اور عمل کے میدان میں بھی‘ معاشرت‘ سیاست‘ تمدن اور معیشت غرض ہرچیز کے میدان میں___ اس انسان کا ساتھ دے اور اسے کامیاب کرے۔ کون سی جما عت ایسی ہو سکتی ہے جو اتنی طاقت ورہوکہ جو اس دنیا بھر سے لڑائی میں اُس کے ساتھ ہو اور مقابلہ کرسکے۔اس وجہ سے فرمایاکہ جو رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ہے‘جس کے سواکوئی الٰہ نہیں ہے ‘اس کواپنا وکیل بناؤ۔پھر یہ لڑائی مول لواوراس کے اُوپر بھروسا کروکہ وہ تمھاراخالق ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھڑے ہوئے تو بالکل اکیلے تھے ۔دنیا بھر میں ایک ہی کی اقلیت سے یہ کام شروع ہوا ہے۔ایک بندئہ خدا تمام دنیا کے مقابلے میں کھڑاہوگیا‘ اور اس کے لیے تیارہوگیاکہ کوئی نہیں مانے گا تب بھی میں یہ کام کروں گااور اگر کوئی ساتھ نہیں دے گاتب بھی میں یہ کام کروں گا۔مجھے ہر حال میں یہ کام کرنا ہے۔یہ ہمت انسان کے اندر اس کے بغیرپیدا ہی نہیں ہوسکتی کہ اس کا خداپر بھروسا نہ ہو۔اپنی طاقت کے بل بوتے پر آدمی یہ کام نہیں کرسکتا۔ کسی بندے کی‘ کسی انسان کی یاکسی غیرانسان کی طاقت کے بل بوتے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے فرمایاکہ جو مشرق اورمغرب کا مالک ہے اسی پر بھروسا کرو۔

مشرق ومغرب سے مراد محض مشرق اور مغرب نہیں ہے۔جب ہم کہتے ہیں کہ مشرق اور مغرب کا مالک تو ہماری مراد ساری دنیا کامالک ہے۔کیونکہ ساری دنیا مشرق اور مغرب کے درمیان میں ہے۔ لہٰذا جو ساری دنیا کا مالک ہے اور جس کے سواکوئی الہ نہیں ہے‘ اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔

جس کے سواکوئی الہ نہیں ہے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اس کے سواکوئی پرستش کے قابل نہیں ہے ۔ظاہر بات ہے کہ اگر اس کے سواکوئی پرستش کرنے کے قابل نہیں ہے تواِس وجہ سے نہیں ہے کہ کسی کے ہاتھ میں کوئی اختیارات نہیں ہیں۔انسان کبھی اتنا بے وقوف نہیں رہاہے کہ کسی کی پرستش بغیر یہ سمجھے ہوئے کرے کہ اس کے اختیارات میں کچھ نہیں ہے۔اگر کوئی آدمی یہ سمجھے کہ کسی کے اختیار میں کچھ نہیں ہے توکبھی اُس کی پرستش نہیں کرتا۔اگر کوئی شخص کسی کے متعلق یہ سمجھتا ہو کہ بیمار ہو گیاہوں تو کوئی مجھے اچھا کرنے والانہیں ہے‘ اگر اولاد نہیں ہے تو کوئی مجھے اولاد دینے والا نہیں ہے‘ اگر روزگار نہیں ہے تو مجھے روزگار دلوانے والانہیں ہے ‘توظاہر بات ہے کہ اس کی پرستش کیسے کرنے جائے گا۔پرستش تب کرنے جائے گاجب یہ سمجھ کر جائے گاکہ مجھے بیماری سے تندرست کرنے والایہ ہے‘ رزق دینے والایہ ہے‘ مجھے روزگار دلوانے والایہ ہے‘ مجھے اولاد دلوانے والایہ ہے‘دنیا میں کامیابیاں دلوانے والایہ ہے‘ یاآخرت میں نجات دلوانے والایہ ہے۔ اسی لیے  فرمایاکہ اس کے سواکوئی الہ نہیں ہے‘ اور اس کامطلب یہ ہے کہ اس کے علاوہ کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔اس کے علاوہ کسی کے ہاتھ میں کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ چونکہ سارے اختیارات کا مالک وہ ہے ‘مشرق ومغرب کامالک وہ ہے‘ اِس وجہ سے اِس کو اپناوکیل بناؤ‘یعنی اسی کے سپرداپنے سارے معاملات کردو۔

وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا o (۷۳: ۱۰)

اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہوجائو۔

ھجرِ جمیل کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کسی نے آپ کوگالی دی ‘آپ یہ سمجھ کرکہ میں بے بس ہوں ‘کمزور ہوں‘مقابلہ کیاکروں‘ غم کاگھونٹ پی کر اورخوب اچھی طرح دل میں رو کر‘  آپ خاموش ہوگئے ۔اس کانام ھجرِ جمیلنہیں ہے۔اس کانام بے بسی ہے۔ ھجرِ جمیل یہ ہے کہ ایک آدمی اِتنا شریف ہو کہ اگر کوئی اُس کو گالی دے تووہ اس کی ذرابرابرپروا نہ کرے اور اس گالی کے باوجود اس کے دل میں نیت یہی رہے کہ موقع ملے گا تو اس کو درست کرنے کی کوشش کروں گا۔ اِس وقت یہ غصے میں ہے‘اس وقت اس سے مخاطب ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ کوئی اور وقت آئے گاتو اس کی اصلاح کے لیے کوشش کروں گا۔اس غرض کے لیے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دینا‘یہ ھجرِ جمیل ہے۔اس کے خلاف دل میں میل تک نہ آئے‘اس کے خلاف دل میں کوئی غصہ اورکوئی نفرت پیدانہ ہو۔ یہ سمجھے کہ جیسے ایک بیمار تھا جس نے غصے اور تکلیف کی حالت میں مجھے گالی دے دی۔ فرض کیجیے کہ کوئی بیمار ہواور بیماری کے دورے کی حالت میں طبیب کو گالی دے توکوئی عقل مندطبیب غصے میں نہیں آئے گا اور اس سے نفرت پیدا نہیں ہوگی۔وہ یہ خیال نہیں کرے گا کہ کم بخت نے گالی دی ہے ‘اچھا !موقع ملے گا تو اسے زہردے کرمار دوں گا۔ اسے کبھی یہ خیال نہیں آئے گا۔ اگر اس کو کوئی خیال آئے گا تو یہ کہ اس پر سخت دورہ ہے اور وہ اس کے اور زیادہ علاج کی فکر کرے گا۔ لہٰذا ھجرِ جمیل اس چیز کانام ہے کہ آدمی کے دل میں کوئی غصہ اورکوئی نفرت پیدانہ ہو۔اس کے بجاے وہ کمالِ شرافت اورکمالِ خیر خواہی کی بنیاد پر اس کو نظرانداز کردے۔

وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (جو کچھ باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ‘ ان پر صبر کرو)‘یہ الفاظ خود بتارہے ہیں کہ یہ اس زمانے کی نازل شدہ سورہ ہے جب لوگوں نے آپؐ کے اُوپر باتیں بنانا شروع کر دی تھیں۔ قرآنِ مجید کے نزول کا زمانہ سمجھنے کے لیے خود قرآن میںکوئی اندرونی شہادت ایسی موجود ہوتی ہے جویہ بتا دیتی ہے کہ یہ کس دور کی نازل شدہ ہے۔ یہاں یہ الفاظ خود بتارہے ہیں کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُوپر طرح طرح کی باتیں بنائی جانے لگی تھیں۔کوئی گالیاں دے رہا تھا‘کوئی اعتراضات کر رہا تھا‘ کوئی الزامات اوربہتان چسپاں کررہا تھا‘کوئی طرح طرح سے نبی پاک ؐ کے خلاف لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا پھرتا تھا‘ کوئی طرح طرح کی تہمتیں جوڑ کرلوگوں کوبدگمان کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اسی لیے توفرمایا گیاکہ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ ، جو کچھ باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ‘اُن کے اُوپر صبر کرو۔

صبر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے گھر بیٹھ جائے ۔صبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کام کیے جاؤ جس کی وجہ سے یہ باتیں کر رہے ہیں اور پھر کسی سے جھگڑامت کرو۔ کسی سے مت اُلجھو۔جو باتیں وہ بناتے ہیں اُن کو نظر انداز کر دو اوراپناکام کیے جاؤ۔ صبر کے معنی محض برداشت کر لینے بھی نہیں ہیں۔صبر کے معنی یہ ہیں کہ جوکام آپ کو کرنا ہے وہ کام آپ کیے جائیں اور اس کے اُوپرآپ ٹھیریں نہیں۔صبر کے آخری معنی اپنے آپ کو روک لینے او رٹھیرانے کے ہیں۔ گویا اس کام کے اُوپر ڈٹے رہو ‘اس کے اُوپر جمے رہو‘ اوروہ سب باتیں برداشت کرو جو یہ لوگ آپ کے اُوپر بناتے ہیں۔

یہاں پھرآپ دیکھیے کہ تہجد کے ذریعے نبی پاکؐ کی تربیت کا جو انتظام کیا گیا تھا‘اس میں ایک چیز تو یہ پیشِ نظر تھی کہ کامل اخلاص پیدا ہوجائے اورکلام میں راست بازی پیدا ہوجائے اور آدمی کاظاہروباطن یکساں ہو جائے۔دوسری مصلحت یہ بیان کی گئی کہ تمھارے اُوپرایک ثقیل کلام کا بار ڈالاجانے والا ہے‘بہت بھاری کلام کا بارڈالاجانے والاہے‘اس کو سہارنے کی طاقت تمھارے اندر اس سے پیدا ہوگی۔ تیسری جو ضرورت تھی وہ یہ تھی کہ تمھارے اُوپرجو باتیں چھاپی جا رہی ہیں اس کے لیے صبرِ جمیل کی جو ضرورت ہے‘ یہ طاقت تمھارے اندرتہجد کی نماز سے پیدا ہوگی۔ تہجد کی نماز تمھارے اندر یہ صلاحیت اوریہ طاقت پیداکرے گی کہ تمھیں گالیاں دی جا رہی ہیں‘ تمھارے اُوپرالزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے ‘لیکن تم صبر کے ساتھ اپنا وہ کام کیے جائو جو تمھارے سپرد   کیا گیاہے۔دل میں میل نہیں آتا‘دل کے اندر کوئی غصہ اور کوئی نفرت پیدانہیں ہوتی اور اس کے ساتھ آدمی اصلاحِ قلب کے لیے برابر کام کیے چلا جاتا ہے۔ یہ طاقت اس کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی کہ آدمی اخلاص الی اللہ اور اخلاص فی الدین اپنے اندر پیداکرے۔ یہ چیز بھی تہجدکی نماز سے پیدا  ہوتی ہے۔

وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ وَمَھِّلْھُمْ قَلِیْلًا o (۷۳: ۱۱)

اِن جھٹلانے والے خوش حال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو اور انھیں ذرا کچھ دیر اِسی حالت پر رہنے دو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا معاملہ میرے سپردکر دو میں ان سے نمٹ لوں گا۔فرمایا:  اس کو وکیل بنا لو‘ اور فرمایاکہ تم صبر جمیل کرواور ان کوباتیں کرنے دو‘اس کے بعد فرمایاکہ ان کوچھوڑ دو‘ میں ان سے نمٹ لوں گا‘ اِن کا معاملہ میرے حوالے کرو ۔ گویا تم میرے بھروسے کے اُوپر اپناکام کیے چلے جاؤاور اطمینان رکھو کہ میں ان سے نمٹ لوں گا‘تمھیں فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

مکذبین کی صفت یہ بیان کی کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کوہم نے نعمت دی۔ بجاے اس کے کہ ان کے اندر کوئی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوتااور وہ اپنے خدا کے سامنے جھکنے والے ہوجاتے ‘ ان کا دماغ خراب ہوگیاہے۔ یہ بھول گئے ہیں‘ نمک حرام بن گئے ہیں اور اپنے رب کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ لہٰذا جو اس طرح سے کھاتے پیتے لوگ ہیں اور نعمتیں پانے کی وجہ سے جھٹلارہے ہیں اِن کو اور مجھے چھوڑ دو‘ میں ان سے نمٹ لوں گا۔

ذرا مہلت دے دو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اپنے پاس سے ان کو کوئی مہلت دو‘بلکہ مراد یہ ہے کہ ذرا انتظار کرواس بات کاکہ ان کے ساتھ میں کیا معاملہ کرتاہوں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ بے چین مت ہوکہ اِن کو جلدی سزادے دی جائے ۔بسااوقات آدمی پریشان ہوجاتا ہے ‘ جب دیکھتا ہے کہ چہارسو بندوں پر ظلم ڈھایا جارہاہے ‘خداکے بندوں کو ستایاجارہاہے محض اس لیے کہ خداکے دین کاکام کرنے والے ہیں ۔پھانسیوں پر ان کوچڑھایاجاتاہے‘ جیلوں میں ان کو ٹھونسا جاتا ہے ‘ طرح طرح کی مار ان کو دی جاتی ہے‘مگر اس ظالم کا کچھ نہیں بگڑ رہا‘تو بڑا بڑا نیک آدمی‘بڑا بڑا خداپرست آدمی ‘ بڑابڑاصابرآدمی بھی ایک مرتبہ تو پریشان ہوجاتا ہے کہ یااللہ یہ کیامعاملہ ہے ؟یہ کیا ہورہا ہے؟حضرت موسٰی ؑ تک نے یہ کہہ دیاکہ یااللہ فرعون کو برابرنعمتیں ملی چلی جا رہی ہیں‘اس کا زور بڑھتاہی چلاجا رہا ہے‘ اس کو دنیا کی زینتیں دی چلی جا رہی ہیں‘ حالانکہ یہ دنیا پر ظلم ڈھارہاہے۔ چونکہ اس طرح کی صورتِ حال کو دیکھ کر انسان بے صبرا ہوجاتاہے تو فرمایا کہ َمَہِّلْھُمْ قَلِیْلًا ، ذرا اِن کو مہلت تودوتم‘بے چین مت ہواس بات کے لیے کہ یہ ظلم ڈھارہاہے تو جلدی سے اس کوختم کردیا جائے۔اب اس مہلت میں جو اللہ تعالیٰ دیتاہے‘ بے شمار مصلحتیں ہوتی ہیں جن کوکوئی نہیں جانتا۔

اب دیکھیے‘ مثال کے طور اگر اس ابتدائی زمانے میں‘ جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ڈھارہے تھے اور آپؐ کے خلاف طرح طرح کا جھوٹا پروپیگنڈاکر رہے تھے‘اگر اسی زمانے میں عذاب نازل ہوجاتا تو یہ خالدبن ولید کہاں سے آتے؟یہ بڑے بڑے مجاہدین جو اُسی شہر سے پیداہوئے ہیں‘ وہ کہاں سے آتے اگر اسی وقت عذاب نازل کردیاجاتا؟ اگر مسلمانوں نے تمام  ظلم وستم کے مقابلے میں صبر نہ دکھایاہوتا‘اس کے مقابلے میں ڈٹے نہ رہتے ‘ہر قسم کی تکلیف کا مقابلہ نہ کرتے‘خداپرستی پر قائم نہ رہتے تو ان کے اندر وہ زبردست روحانی طاقت کہاںسے پیداہوتی جس سے انھوں نے دنیا بھرکو فتح کیا۔وہ عزم کیسے پیدا ہو سکتاتھا؟اسی طرح سے اگر کفار کو ظلم کاموقع نہ دیاجاتااورمسلمانوں کو اس کے مقابلے میں صبراورصبرِ جمیل کا موقع نہ دیا جاتا تو سارا عرب کیسے قائل ہوجاتاکہ یہ گروہ واقعی دنیاکا نہایت نیک گروہ ہے‘ اور ساراعرب کیسے اس کا حامی ہوتا چلاجاتا؟لہٰذا اللہ تعالیٰ کی بے شمارمصلحتیں ہوتی ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ کسی گروہ کوجوظالم ہے‘ دنیامیںبرائی پھیلانے والاہے‘ اس کومہلت دیتا ہے۔لیکن ان مصلحتوں کو آدمی سمجھ نہیں سکتا۔جس وقت وہ کام ہورہاہوتاہے اُس وقت آدمی کی سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ آگے چل کر اس سے کیا خیر پیدا ہونے والی ہے؟آدمی یہ سمجھتاہے کہ یہ تو شرہی شرہورہاہے۔حالانکہ شر اس کائنات میں جہاں کہیں بھی ہے‘ کسی خیر کی خاطرہے‘ بجاے خود شر کی خاطر نہیں۔

اِنَّ لَدَیْنَـآ اَنْکَالًا وَّجَحِیْمًا o وَّطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّعَذَابَا اَلِیْمًا o یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیْبًا مَّھِیْلًا o (۷۳: ۱۲-۱۴)

ہمارے پاس (ان کے لیے) بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ اور حلق میں پھنسنے والا کھانا اور دردناک عذاب۔ یہ اُس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اُٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہوجائے گا جیسے ریت کے ڈھیر ہیں جو بکھرے جارہے ہیں۔

یعنی وہ سزاجس کے لیے ہم کہہ رہے ہیں وہ سزاہما رے پاس تیارہے۔ ایساہوجائے گا جسے ریت کے ڈھیر ہیں جو بکھرے جا رہے ہیں۔ ایسے مواقعوں پر بالعموم قرآن مجید نے دنیوی عذاب کا کہیں ذکر ہی نہیں کیاہے۔کثرت سے ایسے مقامات ہیں کہ جہاں ظالموں کے ظلم کے مقابلے میں صبر کا مشورہ دیاگیاہے اور بتایا گیاہے کہ عالمِ آخرت میں اِن کے لیے ہما رے ہاں یہ سزاموجود ہے۔بعض مقامات پر دنیوی عذاب کی دھمکی دی گئی ہے ‘بعض مواقع پر خبر دی گئی ہے کہ ان کے اُوپر اب دنیا میں عذاب ہوگا‘لیکن ایسے مواقع کم ہیں۔زیا دہ تر مواقع وہ ہیں کہ جہاں یہ بتایاگیاہے کہ اِن ظالموں کے ظلم پرصبر کرو اور اِن کے لیے آخرت میں قیامت کے روزہمارے ہاں یہ سزاتیارہے۔

اِس کی مصلحت پرغورکیجیے کہ یہ بات کہی کیوں گئی ہے؟یہ بات اس لیے کہی گئی ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ ہرظالم کے اُوپراس دنیاہی میں عذاب آجائے۔تاریخ بھی بتاتی ہے ‘یہ انسانی مشاہدہ بھی ہے کہ ہر ظالم پر دنیامیں ہمیشہ عذاب نہیں آسکتا۔اگر دنیامیں کسی ظالم قوم پرکبھی عذاب آیابھی ہے تواُن لوگوں پر آیا ہے جو اس وقت موجود تھے ۔اس گھڑی سے ایک منٹ پہلے جوآدمی مرچکا تھا اُس پر کبھی کوئی عذاب نہیں آیا۔اس لیے اصل عذاب وہ ہے جوظالموں کو آخرت ہی میں دیا جائے۔

دوسری مصلحت اس میںیہ ہے کہ آدمی اس غرض کے لیے بیٹھ کر بے چین نہ ہوکہ جو لوگ ہم پر ظلم کررہے ہیں ‘اُن پر دنیا میں عذاب آئے گا۔ اور اس بھروسے کے اُوپر کہ دنیا میں اُن پر عذاب آئے گا‘ ان کو مہلت نہ دیں اور صبر نہ کریں اور نہ یہ ہی سمجھیں کہ یہ جیتے جی ساری عمربھی ظلم کرتے رہے توتب بھی کچھ نہیں بگڑتا‘ آخرکارآخرت میں ان کی شامت آنی ہے۔ مسلمان کو جس صبر کی تلقین کی گئی ہے اس میں نیکی کااَجر بھی اصل وہ ہے جو آخرت میں ملے گانہ کہ وہ جودنیا میں ملے گا۔اتنا صبر مسلمان میں ہونا چاہیے کہ عمر بھروہ نیکی کرتارہے‘ چاہے اُس نیکی کانتیجہ اُس کے حق میں اِس دنیامیں ‘عمربھر برانکلتا رہے‘اُس نیکی کی وجہ سے عمر بھر ستایاجاتا رہے ‘عمرقید اس کو دے دی جائے یاکوئی بھی ظلم وستم اُس کے اُوپر کیا جائے‘ تب بھی وہ اس یقین کے اُوپرصبر کر سکے کہ بہرحال آخرت میں میرا اجریقینی ہے۔جب تک کوئی شخص آخرت تک کے لیے صبر کرنے پر تیار نہ ہو‘ وہ اس دین کے راستے پر نہیں چل سکتا۔

اسی طرح سے ظالموں کو سزا دینے کے معاملے میں بھی قرآن جس چیز کا اطمینان دلاتا ہے وہ یہ ہے کہ چاہے اس دنیا میں وہ پھلتے پھولتے رہیں ‘مگر آخرت میں اُن کی شامت آکر رہے گی۔ بہت سے ظالم ایسے ہیں کہ جو مرتے وقت تک ظلم کرتے رہتے ہیں‘ مثلاً اسٹالن آخر وقت تک اس کا اعتبارقائم رہااورمرتے مرتے وہ ڈکٹیٹر بنارہا‘ اور مرتے مرتے وہ خلقِ خداپرظلم ڈھاتارہا‘ اس دنیا میں اس کی کوئی شامت نہیں آئی۔اگر کوئی شخص اسی دنیا کے اُوپر انحصار کرنے والاہواور آخرت کا قائل نہ ہوتو وہ یہ سمجھے گاکہ یہ سارانظامِ کائنات ظلم کے لیے بناہے کہ ایک شخص عمربھر ظلم کرتا رہااورمزے سے ٹانگیں پھیلاکرمر گیا‘ اوراس بات کی کوئی سزااُسے دنیامیں نہیں ملی۔ دنیا کو ایک عادل خداکی مملکت ہونے کا یقین اُسی آدمی کو ہوسکتا ہے جس کویہ یقین ہوکہ اس دنیاسے اگرظالم گزر بھی گیا توآخرت میں اُس کی شامت آنی ہے۔لہٰذا ایک مسلمان کویہاں جو صبر کی تلقین کی گئی ہے‘ یہ وہ صبر ہے کہ جو دنیا کے اندر آخرت تک انتظارکرسکتاہو۔ دنیا کے لیے بے چین نہ ہوکہ دنیاہی میں اس کو اجر بھی مل جائے اور دنیاہی میں ظالم کو بھی سزا مل جائے۔(جاری)

(کیسٹ سے تدوین:  امجدعباسی)