اکتوبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

مصر: حالیہ انتخابات اور جمہوریت کا مستقبل

حافظ محمد عبداللہ | اکتوبر۲۰۰۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

مصر کے حالیہ انتخابات کو مغربی ذرائع ابلاغ جمہوریت کی طرف اہم پیش رفت قرار  دے رہے ہیں‘جب کہ مصر کے محبِ وطن‘ جمہوریت پسند اور اسلام دوست حلقے اسے نہایت شرمناک ڈرامابازی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟

گذشتہ برس کے اختتام پر پورے مصر میں تبدیلی کا نعرہ پورے شدّ ومد سے گونجتا نظر آیا۔ مصر کے تمام عناصر بالاتفاق نصف صدی کے جور واستبداد سے بیزاری کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ  ایمرجنسی قوانین کے نام پر شہری آزادیوں کی بُری طرح پامالی‘ سیاسی آزادیوں بالخصوص جماعت سازی‘ اظہار رائے اور صحافتی آزادیوں پر مکمل قدغن کی نصف صدی تھی۔ مصر میں صدارتی انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی تھی یہ خدشات بڑھتے چلے جارہے تھے کہ ۷۷سالہ صدر حُسنی مبارک اقتدار کی باگ ڈور اپنے مشہور زمانہ بدعنوان بیٹے جمال مبارک کے سپرد کر رہے ہیں۔ اسی کے ردِّعمل میں تحریک ’’کفایہ‘‘ (Enough) منظرعام پر آئی۔

اس کی باگ ڈور لبرل عناصر کے ہاتھ میں تھی۔ اس لیے مغربی ذرائع ابلاغ میں اسے  بے حد پذیرائی ملی۔ اس مرحلے پر اخوان المسلمون نے بھی سیاسی تبدیلی کے لیے مکمل اصلاحات کا ایک منشور پیش کیا۔ دیگر اسلام پسند عناصر کے ساتھ مل کر بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے منظم کیے جنھیں حکومت نے گرفتاریوں اور فائرنگ کے ذریعے سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ سیاسی میدان میں جاری اس ہلچل سے ایک مرتبہ تو یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید مصری حکومت کا آقاے ولی نعمت‘ امریکا‘ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے جمہوری ایجنڈے کی تنفیذ پر آمادہ ہے۔ اگر اس کی خاطر حُسنی مبارک سے خلاصی بھی حاصل کرنا پڑی تو شاید دریغ نہ کرے‘ اور عین ممکن ہے کہ جمہوریت کی خاطر اسلامی تحریک کو بھی گوارا کرلے۔ لیکن  ع

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

اسی دوران امریکی وزیرخارجہ کونڈو لیزارائس دو مرتبہ مصر گئیں۔ دورے کے دوران انھوں نے یہ بات واضح کردی کہ مصر بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں فی الوقت امریکی ترجیح حقیقی جمہوریت نہیں بلکہ ڈکٹیٹرشپ علیٰ حالہٖ (status quo) ہے۔عالمی طاقت امریکا کے اس رویے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کے اس عالمی چیمپئن کا عالمِ اسلام کے لیے ایجنڈا کیا ہے؟

اخوان المسلمون کے احتجاجی مظاہرے ہوں یا تحریکِ کفایہ اور حالیہ صدارتی انتخابات میں عوام کی عدمِ شرکت‘ ایک بات واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ عوام پر اب خوف کا وہ عالم باقی نہیں رہا جس نے نصف صدی تک حکمرانوں کو ان کے سیاسی و سماجی اور بنیادی حقوق سلب کیے رکھنے کا حوصلہ دیا تھا۔ عراق میں پٹنے کی وجہ سے امریکا اور اس کے کاسہ لیس حکمرانوں کی ہوا اُکھڑچکی ہے اور عام لوگ بھی اب حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر بات کرتے ہیں۔

گذشتہ برس کے اختتام پر اندرونی و بیرونی دبائو کے تحت صدر حُسنی مبارک نے صدارت کے لیے سابقہ طریقہ کار (ریفرنڈم) میں تبدیلی کا عندیہ دیا۔ سابقہ طریقہ کار کے مطابق ملک کی قومی اسمبلی ایک فرد کو نامزد کرتی اور پھر ملک بھر کے عوام سے اس نام پر ہاں یا ناں میں رائے لی جاتی۔ اس طرح کے ریفرنڈم کا پاکستان میں بھی نتیجہ ہمیشہ ۹۰ فی صد تک ہاں کی شکل میں ہی نکلتا رہا ہے اورمصر جیسے آزادیوں سے محروم ملک میں اس کا نتیجہ ہمیشہ ۹۹ فی صد رہا کرتا تھا۔ نئے طریق کار میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر ایسی ترامیم متعارف کروائی گئیں کہ کسی ’خطرے ‘ کا امکان نہ رہے۔

اب تک کی پارٹی پوزیشن کے مطابق پارلیمنٹ میں حکمران جماعت حزب الوطنی کو     ۹۵ فی صد نشستیں حاصل ہیں۔ حکمران جماعت کے بعد سب سے زیادہ نشستیں اخوان المسلمون کے پاس ہیں جن کی تعداد ۱۷ ہے۔ پھر دیگر پارٹیوں کا نمبر آتا ہے جیسے ’’وفد‘‘ (۵)، ’’غد‘‘ (۶)، ’’ناصری‘‘ (۱)، ’’احرار‘‘ (۱) وغیرہ وغیرہ۔

نئی ترمیم کے مطابق کوئی بھی رجسٹرڈ پارٹی اپنا نمایندہ بطور صدارتی امیدوار کھڑا کرسکتی ہے۔ عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت اخوان المسلمون پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ غیررجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا کوئی نمایندہ بھی بطور امیدوار میدان میں نہیں اُتار سکتی۔ حالانکہ تمام تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ حکمران جماعت کا مقابلہ کرنے کے لیے جس ملک گیر نیٹ ورک اور عوامی مقبولیت کی ضرورت ہے وہ صرف اخوان المسلمون کے پاس ہے۔

راے عامہ کے مختلف سروے بھی یہی ظاہر کر رہے تھے کہ اخوان المسلمون کا نمایندہ ہو تو اسے کل ووٹوں کا ۳۰ فی صد حاصل ہوسکتا ہے۔

اخوان آزاد حیثیت سے اپنا امیدوار براے صدارت میدان میں اتار سکتے تھے لیکن آزاد امیدواروں کا راستہ روکنے کے لیے مذکورہ ترمیم میں اس سے بھی زیادہ سخت تر قانون یہ متعارف کروایا گیا کہ ایسے امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارلیمنٹ (قومی اسمبلی و سینیٹ) کے کم از کم ۶۲ ارکان کی تائید رکھتا ہو۔ اب اگر تمام اپوزیشن پارٹیاں مل کر بھی چاہیں تو مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ قومی اسمبلی کی ۹۵ فی صد سیٹوں پر حکمران جماعت قابض ہے‘ جب کہ سینیٹ میں اپوزیشن کا ایک بھی ممبر موجود نہیں۔

اسی طرح یہ شرط بھی رکھی گئی کہ ۲۶ صوبائی اسمبلیوں میں سے بھی کم از کم ۵ فی صد لوگ آزاد امیدوار کی تائید کریں۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ملک کی ۲۶ صوبائی اسمبلیوں میں ۹۷ فی صد ارکان حکمران جماعت حزب الوطنی کے ہیں۔

حکمران جماعت کی ۹۵ اور ۹۷ فی صد عوامی مقبولیت کا راز کیا ہے؟ اس کے لیے حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج پر ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہوگا۔

مصر میں کل ۳۲ ملین ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۳ فی صد‘ جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق صرف ۱۸ فی صد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ ۷۷ فی صد لوگوں نے موجودہ نظام بالخصوص حکمرانوں کے طریقہ کار کو ناپسند کرتے ہوئے اور بہتر متبادل امیدوار نہ ہونے کی بنا پر پولنگ اسٹیشنوں تک آنا ہی گوارا نہ کیا۔

سرکاری نتائج کے مطابق کل ووٹوں میں سے ۱۹ فی صد ووٹ حُسنی مبارک کو‘ جب کہ ۶ فی صد غد پارٹی کے ایمن نور اور ۲ فی صد ووٹ وفد پارٹی کے نعمان جمعہ کو ملے۔ حکمران پارٹی کو یہ ۱۹ فی صد ووٹ کیسے ملے؟اطلاعات ہیں کہ حکمران پارٹی کو ووٹ دینے والے ووٹر‘ سرکاری ملازمین تھے یا گھیرگھار کر لائے ہوئے کسان اور فیکٹریوں کے مزدور۔ گائوں کے سیدھے سادھے لوگوں کے لیے نمبردار ہی کافی تھا‘ جب کہ شہروں میں حکمران پارٹی کے رئیس البلدیہ کا دبائو کارگر رہا۔ اگر اتنی عام دھاندلی نہ کی جاتی تو شاید حُسنی مبارک کو یہ ۱۹ فی صد ووٹ ملنا بھی مشکل تھے۔

مطلب برآری کے لیے میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری میڈیا نے ۶۰ فی صد وقت حُسنی مبارک کو‘ جب کہ ۹ فی صد ’’وفد‘‘ کے نعمان جمعہ کو اور ۶ فی صد وقت ’’غد‘‘ کے ایمن نور کو دیا۔ سرکاری اخبارات توحُسنی مبارک کی ۲۴ سالہ کامیابیوں کے گن گا ہی رہے تھے البتہ اھرام جیسے نیم سرکاری اخبارات کو بھی خصوصی ضمیمہ جات نکالنے پر مامور کیا گیا تھا۔

اس سارے منظرنامے سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس بار چونکہ  حُسنی مبارک کا متبادل پیش کرنا ممکن نہیں تھا‘ اس لیے کارفرما قوتوں نے سردست حُسنی مبارک ہی کو برقرار رکھا ہے۔ بعدازاں ایک آدھ برس کے بعد جمال مبارک کو بقیہ مدت صدارت کی تکمیل کے لیے اقتدار منتقل کروایا جائے گا۔ موصوف کی مصر میں عمومی شہرت آصف زرداری صاحب کے ۱۰ فی صد والی ہے اور مصری عوام انھیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

جہاں تک خطے میں امریکی پالیسی کا تعلق ہے اس حوالے سے شائع ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ میں حقیقی جمہوریت کے نفاذ کو امریکی مفادات سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ سے امریکا کے تین مفادات وابستہ ہیں:۱- اسرائیل کی امن و سلامتی ۲-پٹرولیم کی بلاانقطاع ترسیل ۳- خلیج میں امریکی فوج کی تادیر موجودگی۔ حقیقی جمہوریت کے نفاذ سے یہ تینوں مقاصد ہی تشنہ تکمیل رہ جائیں گے۔ لہٰذا جمہوریت کا مصرف بس یہ ہے کہ اس کا ہوّا دکھاکر خلیجی حکمرانوں کو دبائو میں لایا جاتا رہے اور انھی سے اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کروائی جائے۔

مصر کے ان انتخابات سے مستقبل میں ہونے والے کسی بھی عرب ملک کے انتخابات کی تصویر جھلکتی ہے۔ بحرین‘ سعودیہ اور قطر و امارات کے بلدیاتی انتخابات اور اس کے بعد قومی انتخابات سے ایسی مخصوص لبرل لابی اُبھاری جائے گی جو موجودہ حکمرانوں سے بھی بڑھ کر امریکی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن سکے۔

سنکیانگ کے مسلمان جارحیت کا شکار

چین دنیا کی دوسری عسکری اور معاشی سپرپاور بن کر تیزی سے اُبھر رہا ہے۔ اب شنگھائی‘ نیویارک اور واشنگٹن سے بتدریج زیادہ اہم بنتا جا رہا ہے۔ لیکن حکومت کی سخت گیر پالیسیوںکی وجہ سے وہاں کی اندرونی خبریں دنیا کو بہت زیادہ معلوم نہیں ہوپاتی ہیں۔ چین نے کمیونزم سے ایک قسم کی توبہ کر کے بڑے پیمانے پر اپنے آپ کو کارپوریٹ معیشت سے ہم آہنگ کرلیا اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت سے ہم آہنگی کے باعث ہی اس کے لیے ممکن ہوسکا ہے کہ وہ جاپان کے مقابلے میں بھی کہیں زیادہ تیزی سے ترقی کرے اور امریکا کا مدمقابل بنتا جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دنیا کے ایک مخصوص طبقے کی نظر کرم بھی اب امریکا کے بجاے چین کی طرف مبذول ہو رہی ہے۔ چین کی روس سے ملنے والی سرحد پر سنکیانگ کا صوبہ ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ ایغوری نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بنیادی طور پر ترکوں‘ تاتاریوں کی ایک شاخ ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سنکیانگ کے لوگ اس صوبے کو مشرقی ترکستان کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

چین میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ کمیونسٹ دورِ اقتدار میں سابق سوویت یونین کی طرح یہاں کے مسلمان بھی ہر طرح کے ریاستی تشددو جبر کا شکار تھے۔ بعد میں اس جبریہ نظام میں کچھ سہولتیں پیدا کردی گئی ہیں‘ البتہ ایغوری مسلمان کبھی بھی چینی تسلط سے خوش نہیں رہے‘ اس لیے وہاں گاہے بگاہے علاحدگی و خودمختاری کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ لیکن چینی حکام ہر بار ان آوازوں کو سخت بے رحمی سے کچل دیتے رہے ہیں۔بیرونی دنیا سے ان کا رابطہ نہایت کمزور رہا۔

اب دیوارِ چین تو کھل گئی‘ لوگوں نے چین جانا اور تعلقات قائم کرنا شروع کر دیا ہے‘  تاہم ادھر چند مہینوں سے سنکیانگ میں حکومت پھر مسلمانوں پر شکنجہ کس رہی ہے۔ حال ہی میں  چینی پولیس نے اس صوبے میں ۱۰ ایغوری مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور ان پر الزام یہ عائد کیا گیا کہ وہ علاحدگی پسند ’’نیرہابوت‘‘ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور علاقے میں انقلابیوں کومنظم کرنے اور سنکیانگ کی آزادی کی مہم چلانے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ یہاں صورت حال اتنی پُرسکون اور’’سب خیریت ہے‘‘ کی نہیں ہے جیساکہ چینی حکام دنیا کو بتاتے ہیں اور عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق ہر ہفتہ ایک یا دو واقعات ہوتے ہیں جن میں گائوں والے‘ دیہاتی اور غریب لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر پولیس سے بھڑ جاتے ہیں۔ مظاہرے ہوتے ہیں جنھیں فرو کرنے اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس چھوڑنے‘ بے تحاشا ڈنڈے برسانے اور کریک ڈائون کرنے جیسے اقدامات کیے جاتے رہتے ہیں۔ عوامی سلامتی کے وزیر زوپونگ کانگ کے مطابق گذشتہ سال ۲۰۰۴ء میں ۷۴ ہزار عوامی احتجاجی مظاہرے اور جھڑپیں ہوئی تھیں‘ جب کہ ۲۰۰۳ء میں یہ ۵۸ہزار تھے۔ ایک دہائی پہلے یہ ریکارڈ محض ۱۰ ہزار واقعات تک محدود تھا۔ ان مختصر اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ عام لوگ (جن میں مسلمان زیادہ ہیں) چین کی معاشی پالیسیوں‘ جابرانہ اقدامات اور نظم و نسق کی موجودہ صورت حال سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ یہ تشویش ناک حالات بتدریج کسی بڑے حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کسی دن      پون صدی سے دبے کچلے ایغوریوں میں اندر ہی اندر پکنے والا لاوا پھوٹ پڑے گا‘ لیکن چینی حکام یہاں کے حالات سے سختی سے نبٹ رہے ہیں اور اپنے ظالمانہ و جابرانہ اقدامات میں مزید تیزی لارہے ہیں۔ مسلم دنیا کو اور بطور خاص ان ملکوں کو جن کے چین سے نہایت قریبی تعلقات ہیں اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے ۔کم از کم اپنے وفود تحقیق حال کے لیے تو بھیجنا ہی چاہییں کہ اس علاقے کی صحیح صورت حال دنیا کے سامنے آسکے۔ (بشکریہ‘ سہ روزہ دعوت‘ دہلی‘یکم ستمبر ۲۰۰۵ئ)