حافظ محمد عبداللہ


اخوان المسلمون کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع خصوصی عدالت میں بیان دے رہے تھے:  ’’میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارا پُرامن رویہ تمھاری گولی سے زیادہ طاقت ور ہے ۔کیا میری امن پسندی ہی میرے خلاف دلیل بنادی جائے گی؟جب سے اخوان المسلمون قائم ہوئی ہے، ہماری جدوجہد پرامن ہے اور ان شاء اللہ ہم پر توڑے جانے والے ظلم کے خلاف اللہ کی نصرت ہمیں ضرور حاصل ہوکر رہے گی۔جج صاحبان ! حقائق کو توڑا مروڑا جارہا ہے ۔جو کٹہرے میں کھڑے کیے گئے ہیں اور جو جیلوں میں ناحق بنداورقید کاٹ رہے ہیں، ظلم انھی پر توڑا گیا ہے۔ ان شاء اللہ اخوان المسلمون فتحیاب لوٹے گی اور پہلے سے بڑھ کر طاقت ور: وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۝۲۲۷‘‘

ڈاکٹر محمد بدیع [پ: ۷؍اگست ۱۹۴۳ء] ۱۶جنوری ۲۰۱۰ء کو اخوان المسلمون کے آٹھویں مرشد عام منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب ایک صائب الرائے اور صاحب ِعزیمت رہنما ہیں ۔ اخوان المسلمون کے سابق مرشد عام [۲۰۰۴ء- ۲۰۱۰ء] محمدمھدی عاکف [۱۹۲۸ء-۲۰۱۷ء] کے قریبی ساتھی ہیں ۔دونوں سید قطب شہید [شہادت: ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء]کے شاگرد رہے اور سید صاحب کے ساتھ ہی ۱۹۶۵ء کی قید و بند اور ابتلا و آزمایش میں مبتلا رہے اور کندن بن کر نکلے۔ مصر کے ریاستی اطلاعاتی ادارے نے ۱۹۹۹ء میں انھیں ’۱۰۰   بہترین عرب سائنس دانوں‘ میں شمار کیا تھا ۔

اس وقت کے مصری فوجی حکمران ، جمال عبد الناصر کی فوجی عدالت نے ڈاکٹر محمد بدیع کو ناکردہ جرم کی پاداش میں ۱۵ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ وہ ۹سال جیل میں قید رہ کر رہا ہوئے۔ ۱۹۹۸ء میں ۷۵ دن کے لیے پھر قید کردئیے گئے ۔۱۹۹۹ء میں تیسری بار گرفتار کیے گئے اور پانچ سال قید کی سزا پائی اور ۲۰۰۳ء میں رہا ہوئے۔

۲۰۱۳ء میں صدر مرسی کی منتخب حکومت کے خلاف چند دولت مند ملکوں کی پشت پناہی میں جنرل سیسی کی باغی حکومت نے فوجی انقلاب میں ایک بار پھر گرفتار کرلیا۔ فوجی جنتا نے اس بار ان پر قتل اور تشدد پر اُبھارنے کا الزام عائد کیا۔اس وقت مصر کے آٹھ اضلاع میں ان کے خلاف ۴۸مقدمات درج ہیں ۔

حالیہ فروری ۲۰۲۲ء میں ایک جعلی مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مرشدعام کی عمرقید کو برقرار رکھاگیاہے۔۳۰دن کے اندر اندر انھیں سنائی جانے والی یہ دوسری عمرقید کی سزا ہے۔ اس طرح مختلف مقدمات میں اب تک مجموعی طور پر انھیں ۲۰۰ برس کی عمرقید سنائی جاچکی ہے۔ مزید ۸۰ برس قید کی سزائوں والے مقدمات کی سماعت ابھی باقی ہے۔

 ۷۸برس کے مرشدعام کو آٹھ برس سے مسلسل قیدتنہائی میں رکھا گیا ہے۔ ان کی بیٹی ضحی بدیع کہتی ہیں کہ میرے والد محترم علیل ہیں۔ پانچ برس سے انھیں اہلِ خانہ سے ملنے نہیں دیا گیا۔ کھانے پینے کا سامان اور باہر سے دوا تک نہیں پہنچنے دی جارہی۔ انھیں طبّی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے اور قید کی تعذیب اور مشقت اس پر سوا ہے۔ ’’وہ سخت جسمانی کمزوری کا شکار ہیں ، ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ہماری التجا سننے والا کوئی نہیں، سوائے اللہ کے‘‘۔

عرب حکومتوں کے پالیسی سازوں کے خیال میں ’عرب بہار‘ کی کامیابی کے پیچھے در اصل اخوان المسلمون کے نظریاتی ،سرتاپا قربانی دینے والے، منظم کارکنان تھے ۔لہٰذا، جب تک انھیں اور ان کی قیادت کا صفایا نہ کردیا جائے دنیا بھر کی طاغوتی قوتوں کی پشت پناہی کے باوجود، ہمارے لیے کامیابی کا کوئی امکان نہیں ۔اسی لیے اخوان المسلمون اور خصوصاً ان کی قیادت ان کا اہم ہدف ہے۔

۲۰۱۳ء میں مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کی گرفتاری کے بعد جناب محمود عزت قائم مقام مرشدعام مقرر ہوئے۔ حکومتی جبرو استبداد کو دیکھتے ہوئے بار بار ساتھیوں نے انھیں ملک سے باہر چلے جانے کا مشورہ دیا ۔لیکن قائم مقام مرشد عام نے دار و گیر میں مبتلااپنے ساتھیوں کو تنہا چھوڑنا پسند نہ کیا اور ملک ہی میں اپنے کارکنوں کے درمیان رہے ۔۲۰۱۵ٌ میں اخوان المسلمون کے دیگر ۹۲کارکنان کے ہمراہ انھیں بھی ان کی عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جسے بعد میں عمر قید میں بدل دیا گیا۔ ۸؍ اپریل ۲۰۲۱ء کو محمود عزت بھی گرفتار کرلیے گئے ۔

نائب مرشد عام محمود عزت کے ساتھ کام کرنے والی اعلیٰ انتظامی کمیٹی کے اولین کنوینیر ڈاکٹر محمد کمال کوابتدا میں ہی شہید کردیا گیا تھا اور دوسرے ذمہ دار ڈاکٹر محمد عبد الرحمٰن مرسی کو قید کرلیا گیا۔

اخوان کے رہنما ڈاکٹر عصام عریان ۲۱؍ اگست ۲۰۲۱ءکو سیسی آمریت کے ہاتھوں قید کے دوران تشدد سے جیل ہی میں انتقال کرگئے ۔ ان کی تشدد زدہ میّت، گھر والوں کے حوالے کرنے کے بجائے انتظامیہ نے خود سپرد خاک کردی تھی۔ تدفین کے وقت گھروالوں کو قبرستان آنے تو دیا گیا،لیکن موبائل فون لانے کی اجازت نہیں دی، تاکہ مجرم نظام اپنا جرم چھپاسکے۔

امام ابن تیمیہؒ نے قید کی دھمکی کے جواب میں فرمایا تھا:’’ہمارے دشمن ہمارے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں ؟ قید ہمارے لیے خلوت اور تنہائی میں عبادت کا موقع ہے ۔جلاوطنی ہمارے لیے سیاحت ہے اور قتل ہمارے لیے شہادت‘‘ ۔امام ؒ کے اس مقولے کو زندگی کا وظیفہ بناتے ہوئے اس وقت اخوان المسلمو ن کی چوٹی کی قیادت اورمکتب ارشاد کے تمام ممبران قید میں ہیں۔ اخوان کے ۶۰ہزار کارکن جیلوں میں بند ہیں ۔(جیلوں میں جگہ کم پڑچکی ہے اور حال ہی میں جنرل سیسی حکومت نے نئے جیل خانے تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔)

صدر مرسی کی زندگی میں مرشد عام محمد مھدی عاکف سے حکومت نے مذاکرات کرنا چاہے تو انھوں نے فرمایا: ’’جس نے مذاکرات کرنے ہوں وہ مصر کے حقیقی منتخب صدر ( مرسی ) سے کرے‘‘۔ نائب مرشد عام خیرت الشاطر کا کہنا تھا: ’’جو بات چیت چاہتا ہے ،وہ صدر مصر (مرسی)سے کرے‘‘۔

صدر مرسی شہید کی دوران قید جیل میں وفات [۱۷جون ۲۰۱۹ء] کے بعد اخوان کا دو ٹوک موقف اب یہ ہے کہ ’’ان کی شہادت کے بعد مذاکرات کا حق اب صرف اور صرف مصری قوم کو ہے۔ اس لیے کہ جنگ اب اخوان اور غدار فوجی جنتا کے مابین نہیں بلکہ بغاوت کے مرتکب فوجیوں اور اس قوم کے درمیان ہے، جس کا مینڈیٹ چُرالیا گیا ہے۔جس کی آواز کو دبا دیاگیا ہے ،اورجس کی عزت پامال کی گئی ہے ۔ تیران و صنافیر کے جزیرے بیچ ڈالے گئے، اور مصر کو امریکا واسرائیل کا بے دام غلام بنادیا گیا ۔

گذشتہ پانچ صدیوں میں اور سقوط غرناطہ کے تھوڑے ہی عرصے بعد دنیا نے بہت بڑی بڑی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے ۔اسی عرصے میں یورپ اپنے عافیت کدے سے نکلا اور عالمی وسائل پر قبضہ جمانے اور انھیں اپنے ہاں منتقل کرنے کے لیےاپنے وقت کی مہذب دنیا پر درندےکی مانند ٹوٹ پڑا۔ مسلم مشرق پر براہِ راست یہ حملہ دو عنوان سے تھا:صلیبی فوجی حملوں کا تسلسل اور عالمی تجارت پر غلبہ ۔ نئی جغرافیائی دریافتوں نے یورپ کو مہمیز دی اور استعماری قبضہ بڑھانے کے لیے انھی کو یورپ نے وجۂ جواز بھی بنایا ۔’نئی دنیا‘یعنی شمالی امریکا کی دریافت بھی دراصل مشرق (خصوصاً مسلم ہندستان) تک رسائی ہی کی ایک کوشش تھی۔یورپی اقوام میں سخت مقابلہ تھا کہ نئے دریافت شدہ خطوں کے وسائل پر تسلط جما کر انھیں اپنے ہم عصر وں اور پرانی دنیا پر اپنی دھاک، دھونس جمانے کے لیے استعمال میں لایا جائے۔

اس دوران مسلم دُنیا کے اوّلین دفاعی مورچے اور مشرق کی طرف یورپی اقوام کے پہلے پڑاؤ، شمالی افریقہ(تیونس ،الجزائر ،مراکش اور لیبیا) پر کیا گزری ؟ خطے کی تاریخ کا یہ عرصہ جن اہم حوادث اور واقعات سے پُر ہے، اسے سمجھے بغیر خطے کے موجودہ حالات کو سمجھنا مشکل ہے ۔

سقوط غرناطہ اور اندلس سے مسلمانوں کو کھرچ کر نکالنے کا سلسلہ کم و بیش ایک سو برس تک جاری رہا۔ اس دوران اسپین اور پرتگال کی فوجیں مسلسل شمالی افریقہ کے ساحلوں کو تاراج کرتی رہیں۔ مراکش کے شہر سبتہ سے ملیلہ تک ،الجزائر اور تیونس کے ساحلوں سے لے کر طرابلس الغرب،   یعنی لیبیا کے ساحل تک، یہ سارا علاقہ ان ابھرتی ہوئی یورپی استعماری طاقتوں اور مقامی مسلمان حکمرانوں کے درمیان میدان جنگ بنا رہا ۔جلد ہی خطے کے مسلم حکمرانوں کو اندازہ ہوگیا کہ اس بڑھتے صلیبی حملے کو روکنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے بچاؤ کے لیے خلافت عثمانیہ سے مدد کی اپیل کی ۔خلافت کی مداخلت اور عملی فوجی مدد ہی کے نتیجے میں تیونس اور الجزائر اس ہلاکت خیز یورپی استعماری یلغار سے بچنے میں کامیاب رہے ۔ چنانچہ مراکش نے بھی عثمانیوں سے دفاعی معاہدہ کیا اور یوں شمالی افریقہ، یورپی سیلاب کے آگے بند باندھنے میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا ۔مراکش کے صرف دو شہر سبتہ اور ملیلہ یورپیوں کے قبضے میں رہ گئے تھے ۔

اسپین اور پرتگال کے کمزور پڑجانے پر شمالی افریقہ کی صورت حال میں کچھ بہتری آئی اورانتظامِ حکومت مقامی لوگوں کے ذریعے چلایاجانے لگا۔ اس نئے انتظام کی سربراہی، سرپرست کے طور پر عملی یا رسمی خلافت عثمانیہ کرتی تھی۔

انقلاب فرانس کے بعد اور نپولین بونا پارٹ کے یورپ اور پوری دُنیا پر تسلط جمانے کے عزم نے مصر اور شمالی افریقہ کو ایک بار پھر فرانس کی سامراجی ریشہ دوانیوں کا شکار کردیا۔ ۱۹ویں صدی کےصنعتی انقلاب نے جارح یورپ کی طاقت میں بے تحاشا اضافہ کردیاتھا۔اب پورے  شمالی افریقہ پر قبضہ کا پرانافرانسیسی خواب پھر انگڑائی لینے لگا۔ یوں ۱۸۸۱ءتک تیونس اور الجزائر، فرانسیسی قبضے تلے سسک رہے تھے ۔

یورپی سامراج نے دونوں ملکوں پر تسلط جمانے کے لیے دو مختلف انداز اختیار کیے تھے۔ تیونس اور پھر مصر کو بھی بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑاگیا۔ سرکاری سطح پر بے تحاشا اسراف، اشرافیہ کی شاہانہ زندگی اور ظاہری نمود ونمایش پر بے اندازہ خرچ کرنے کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی رہی، بلکہ ہر سطح پر اس کے فروغ میں فعال کردار اداکیا گیا ۔دونوں ملک جب مالیاتی دیوالیہ پن کا شکار ہوئے تو قرض خواہوں کے حقوق کے نام پر دونوں ملکوں کو مالیاتی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا، جو آگے چل کر سیاسی غلبے اور پھر فرانس کےمکمل قبضے پر منتج ہوا ۔اس عرصے میں خلافت عثمانیہ پر جب بھی کڑا وقت آیا، ان قابض سامراجی طاقتوں نے اسے خطے میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے کے لیے سنہری موقعے کے طور پرلیااور اپنا استبدادی پنجہ محکوموں کی گردن پر گاڑتے چلے گئے ۔

تاہم، الجزائر کی مقامی حکومت نے شاہِ فرانس نپولین کے دور میں ہونے والےفرانس کے محاصرے سے فائدہ اٹھایا اور اپنے آپ کو اقتصادی طور پر کچھ مضبوط کرلیا ۔ مگر فرانس نے جنگ چھیڑنے کے لیے یہاں پر بھی بہانہ انھی پرانے قرضوں کو بنا یا، جو الجزائر کے ذمے واجب الادا تھے ۔جنگ بلقان کے دوران ایک ہی ہلے میں ایک طرف سربیا،یونان اور دوسری طرف الجزائر پر ہاتھ صاف کرلیے ۔یوں شمالی افریقہ کے یہ مسلم ملک طویل دور ظلمات میں دھکیل دیئے گئے۔ ایک ایسا تاریک عہد کہ جس میں استعمار ی قبضہ تھا،فرنچ تہذیب کا غلبہ تھا ،تیونس اور الجزائر کی اسلامی شناخت مٹانے اور جغرافیائی خدوخال بگاڑنے کے منصوبے تھے ۔

۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو شمالی افریقہ کی ان محکوم اقوام کو جنگ کی تپتی بھٹی  میں جھونک دیا گیا ۔اس بھٹی میں الجزائر اور سینی گال جیسے بڑے ملکوں کے باشندے ایک بڑی تعداد میں جل مر ے ۔ مارے جانے والے کتنی بڑی تعداد میں تھے ؟ اس کا اندازہ تیونس جیسے چھوٹے ملک کے ہلاک شدگان کی تعداد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ پہلی جنگ عظیم میں تیونس کے ۸۰ ہزار مسلمان، فرانسیسی پرچم کی سربلندی کے لیے اپنی جان کی بازی ہارگئے۔

جنگ کے خاتمے پر اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ’انجمن اقوام‘ (League of Nations) کی چھتری تلے نوآبادیاتی یورپی طاقتوں نے ’انتداب‘ (mandate)کا ڈول ڈالا ۔ انتداب کے اس نام نہاد نظام کے تحت قابض طاقت ہی کو یہ قانونی حق دے دیا گیا کہ وہ مغلوب قوم پر اپنا سامراجی شکنجہ مضبوط کرے اور اس کی اجتماعی زندگی ،سیاسی اداروں اور جغرافیے کی تشکیلِ نو کرے۔ اقبالؒ بالادست یورپی طاقتوں کی ان چیرہ دستیوں کی بہترین تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

آ بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ ان الملوک

سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلادیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق

طب مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری

’نظام انتداب‘ کے بعد داخلی خود مختاری کا ڈول ڈالاگیا ۔مقصدتھا مقامی چہروں مہروں کے ساتھ استبداد ی نظام قائم رکھنا ۔ تیونس میں سیاسی ادارے اور سیاسی جماعتیں بھی تھیں، لیکن سب کا اختیار و اقتدار انتہائی محدود ۔ملک اقتصادی اور ثقافتی طور پر پوری طرح فرانس کا محکوم اور باج گزار بنادیا گیاتھا۔جس نے رفتہ رفتہ تیونس کی اپنی شناخت، عقیدے ، اصول ،اس کی تہذیب و ثقافت ، زبان و تمدن سب کچھ کو مکمل بدل کر رکھ دیا۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا درمیانی عرصہ نیشنل از م کے علَم برداروں کے لیے انتہائی مایوس کن تھا ۔ پہلی جنگ عظیم میں فرانس دنیا کی سپر پاور بن کر ابھرا  تھا۔اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی بَری فوج تھی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا ظالموں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ رکھی ۔اس کی سنت اس میں ہر دم جاری و ساری رہتی ہے: وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ۝۰ۙ  لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ(البقرہ ۲:۲۵۱) ’’اگر اس طرح اللہ، انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑجاتا‘‘۔

دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوتے ہی نازی جرمنی کے ہٹلر نے فرانس پر قبضہ کرلیا ۔یہ فرانسیسی غرور اور نخوت کے لیے ذلت کا مقام تھا اور اسی سے فرانس کا اپنے طبیعی جغرافیائی حدود کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔ پھر فرانس کو ۱۹۵۴ء کی ویت نام جنگ میں بھی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ تھے وہ حالات جن میں الجزائر اور تیونس  میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑ ا ۔یوں خطے میں سیاسی ،انقلابی اور فوجی جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔فرانس نے اپنے نقصان کو کم سے کم رکھنے  کے لیے سیاسی تدبیروں کا آغاز کیا ۔ سب سے پہلے محکوم قوموں کو داخلی خود مختاری کی نوید سنائی گئی۔ لیکن کس نخوت کے ساتھ ؟ اس کے لیے فرانسیسی وزیر اعظم کا وہ خطاب پڑھنے کے لائق ہے، جو تیونس کے محمد الامین کے سامنےکیا گیا تھا:’’تیونسی قوم جس حد تک ترقی کرچکی ہے، ہمیں اس پر خوشی منانے کا پورا حق ہے، خصوصاً اس لیے کہ ہم نے ہی تیونس کو ترقی دینے میں اصل کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کی اشرافیہ کی بالغ نظری قابلِ تحسین ہے اورجواز فراہم کرتی ہے کہ تیونسی قوم اپنے امور خود سنبھالے ۔اس لیے ہم تیار ہیں کہ داخلی امور تیونسی افراد اور اداروں کے سپرد کردیں‘‘۔

حبیب بورقیبہ نےبطور سربراہ دستوری فریڈم پارٹی مجوزہ داخلی خود مختاری کے لیے فرانس تیونس مذاکرات کی فوری تائید کردی۔مجاہدین آزادی اور مزاحمت کاروں کو پہاڑوں سے اتر آنے اور ہتھیارسپرد کردینے کا مشورہ دیا ۔تاہم، سویزر لینڈ میں مقیم پارٹی کے سیکرٹری جنرل صالح بن یوسف نے کھل کر حبیب بورقیبہ سے اختلاف کیا اوراس پر وطن سے غداری کا الزام عائد کیا ۔ مسلح مجاہدین کو نہ صرف تیونس بلکہ پورے شمالی افریقہ کی مکمل آزادی تک مزاحمت جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی۔

تاہم، جنگ عظیم میں زخم خوردہ فرانسیسی حکومت نے منصوبے کے مطابق مئی ۱۹۵۵ء میں داخلی خود مختاری کے قانون پر دستخط کردئیے ۔جلا وطن بورقیبہ واپس وطن لوٹ آئے اور انھیں آزادی کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا اورپھر مراکش کےبعد ۲۰ مارچ ۱۹۵۶ء کو تیونس کو بھی مکمل آزادی دے دی گئی۔

۲۵جولائی ۱۹۵۷ء کو پارلیمان کی تائید سے بورقیبہ نے بادشاہت ختم کردی اور خود تیونس کے صدر بن گئے ۔بورقیبہ نے اپنے اقتدار کے ابتدائی مہینوں سے ہی، تیونسی معاشرے کو فرانسیسی مقتدرہ کے حسب منشا ڈھالنے پر کام شروع کردیا تھا۔ اگست ۱۹۵۶ء کو سرکاری گزٹ میں ’نیاپرسنل لا‘ شائع ہوا، جس کے تحت دوسری اور تیسری شادی پر قانوناً پابندی عائد کردی گئی اور سول کورٹس کو طلاق کے معاملات پر نظرثانی کا اختیار دے دیا گیا۔اوقاف تحلیل کردئیے گئے اورشرعی عدالتوں کو ختم کرتے ہوئے فرنچ جوڈیشل سسٹم نافذ کردیا گیا ۔

۱۹۵۸ء میں جامعہ زیتونہ کے نظام تعلیم اور اس تاریخی اسلامی یونی ورسٹی کے زیر انتظام اداروں کو تعلیم کے عمومی سیکولر نظامِ تعلیم میں ضم کردیا گیا۔ اسی مہینے میں تیونس کی نیشنل آرمی تشکیل دی گئی اور اپریل ۱۹۵۶ء میں سکیورٹی سسٹم کو مکمل طور پر سیکولر تیونسی رنگ میں رنگ دیا گیا ۔

جون ۱۹۵۹ء میں جمہوریہ تیونس کا پہلا آئین نافذہوا اور اسی سال نومبر میں ایک مضحکہ خیز الیکشن میں بورقیبہ ۹۹ فی صد ووٹ لے کر پانچ برس کے لیے جمہوریہ کے پہلے صدر بن گئے اور ان کی فریڈم پارٹی نے پارلیمنٹ کی ۱۰۰ فی صد نشستیں حاصل کرلیں ۔

سیاسی محاذ پر صالح بن یوسف کے حامیوں کا گھیرا تنگ کیا جاتا رہا ۔ان کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور ان عدالتوں نے مخالفین کو پھانسیوں کی سزائیں سنانا شروع کردیں۔ حتیٰ کہ ۱۹۶۱ء میں صالح بن یوسف قتل کردئیے گئے۔

۱۹۶۲ء میں روزہ رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ سرکاری طور پر تجویز یہ کیا گیا کہ سرکاری ملازم اپنے روزوں کی قضا ریٹائرمنٹ پر ایک ساتھ یا دیگر مناسب اوقات میں اپنی مرضی سے پوری کرلے ۔بورقیبہ نے کوشش کی کہ تیونسی شہریوں کو مقدس مقامات کی زیارت خصوصاً حج بیت اللہ سے روکا جائے ۔دلیل یہ دی گئی کہ ’’حج پر جانے سے ملک کا قیمتی زر مبادلہ صرف ہوتا ہے‘‘۔ سرکاری سطح پر متبادل یہ تجویز کیا گیا کہ ’’حج کے بجائے اولیاء اللہ اور صالحین کے مقامی مزاروں سے خیر و برکت حاصل کرلی جائے ۔ابو زمعۃ البلوی یاابولبابۃ الانصاری کے مزار اقدس پر حاضری دے لی جائے ‘‘۔ یہ تجویز کسی ادنیٰ سرکاری ملازم کی نہیں تھی بلکہ جمہوریہ تیونس کے صدر حبیب بورقیبہ نے خود صفاقس شہر میں ۲۹؍اپریل ۱۹۶۴ء کو اپنے خطاب میں دی تھی ۔

جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فرانسیسی فوجیں ۱۹۶۳ء تک تیونس میں تھیں تو ہمیں پے درپے لوگوں کے عقیدے اور ایمان کے خلاف کیے گئے ان فیصلوں کی اصل وجہ سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ فرانس کامنصوبہ تھا کہ کہ تیونس پر اس کا غلبہ کمزور نہ ہو، بلکہ مقامی باشندوں کے بھیس میں اس کا اثر و نفوذ برقرار رہے ۔یوں بظاہر تیونس آزاد توہوا لیکن بورقیبہ کی وحشت انگیز ڈکٹیٹر شپ کے زیر سایہ چلاگیا۔ ۳۰ برس بعد بورقیبہ ڈکٹیٹر شپ اس عوامی انقلاب کے نتیجے میں ختم ہوئی جسے آج روٹی کا انقلاب کہا جاتا ہے ۔ تاہم، اس انقلاب کے بعد بھی تیونس، فرانس کے پروردہ گماشتوں کے پنجہ سے نہ نکل سکا کہ  نیا حکمران بن علی تھا، مکمل طور پر بورقیبہ کی فوٹو کاپی ۔

۲۰۱۱ءمیں پھر تیونس کے دبے ہوئے ،زیر دست ،مفلوک الحال عوام میں سے ایک، ریڑھی بان ،بوعزیزی کی خود سوزی نے ایک اور عوامی انقلاب کو جنم دیا۔بوعزیزی کے راکھ میں دبے شراروں سے اٹھے اس انقلاب نے جلد ہی پوری عرب دنیا کو ربیع عربی (عرب بہار ) کی لپیٹ میں لے لیا اور عشروں سے جمے عرب آمروں کے تخت الٹ گئے ۔

تیونس کا پھر ایک اور دستور بنا۔ اس نئے دستور اورنئے انتظام کے تحت ملک بظاہر جمہوری دور میں داخل ہوچکا تھا، لیکن صدر قیس سعید کے حالیہ ا قدامات سے ایسے لگتا ہے کہ تیونس پر ایک نیا بورقیبہ مسلط ہوچکا ہے ۔جو اگرچہ فصیح عربی بولتا ہے لیکن اپنے حقیقی خیالات کا اظہار اپنے آقاؤں کی زبان فرانسیسی میں کرتا ہے ۔ ایمرجنسی لگانے اور دستور کو معطل کرنے کے اقدامات سے دراصل یہ زمانے کے پہیے کو پھر سے الٹاگھمانے کا خواہش مند ہے ۔چاہتا ہےملک کو پھر سے واپس فرانسیسی دور میں لے جائے ۔

اگرچہ تیونس میں یہ بحث ابھی جاری ہے کہ صدر کا اقدام بغاوت تھی یا صحیح راستے کی طرف واپسی؟ تاہم، اطلاعات ہیں کہ امریکا کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ نے فون کرکے مطالبہ کیا ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل اور معطل پارلیمنٹ کو بحال کیا جائے ۔ باالفاظ دیگر صدر کے نام مغربی آقائوں کا پیغام یہ ہے کہ تم نے ایمرجنسی لگاکر اچھا کیا ہے لیکن ہمیں تمھاری کامیابی کا یقین نہیں ہے۔

تیونس میں لگی حالیہ ایمرجنسی کے دوران قصر صدارت میں یہ واقعہ بھی پیش آیا ہے کہ  یہاں کے دورے پر آئے ہوئے چند امریکی صحافی گرفتار ہوئے۔پھر انھیں صدارتی مہمان بناکر شرف ملاقات بخشا گیا۔ ملاقات میں صدر تیونس یقین دلاتے رہے کہ ’’میں ڈکٹیٹر نہیں ہوں‘‘ اور مہمانوں کو فرانسیسی زبان میں امریکی دستور کے اقتباسات سناتے رہے۔آخر میں جب ان صحافیوں نے اپنے سوالات صدر کے سامنے رکھنا چاہے تو انھیں نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کردیا گیا ۔

غالباً یہ صدارتی مہمان اپنے میزبان سے وہی سولات کرنا چاہتے تھے، جو آج کل تیونس میں زبان زد عام ہیں: کیا واقعی فرانس تیونس سے دست بردار ہوچکا ہے یا ہمیں آزاد ہونے کا صرف وہم لاحق ہے ؟

۲۱ دسمبر ۲۰۰۶ء صومالیہ کی تاریک تاریخ میں ایک اورسیاہ باب رقم کرنے کے لیے طلوع ہوا۔ ۱۶برس کی بدترین خانہ جنگی‘ قحط سالی اور عالمی طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے نڈھال صومالی قوم ہمسایہ ملک ایتھوپیا کی جدید ترین امریکی اسلحے سے لیس فوج کا مقابلہ نہ کرسکی۔ یوں ایک ہی ہفتے کے اندر صومالیہ کے تمام قابلِ ذکر شہر یکے بعد دیگرے کالی آندھی کے سامنے ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ اسلامی عدلیہ یونین سے پٹ کر بھاگنے والے جنگی سردار ایتھوپیائی ٹینکوں اور امریکی طیاروں کی بم باری کی آڑ میں موگادیشو پر قبضہ جمانے میںکامیاب ہوگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صومالیہ میں ایسی کیا بات ہے کہ عالمی طاقت امریکا اور افریقہ کی سب سے بڑی فوجی قوت ایتھوپیا اس پکے ہوئے پھل پر اتنی بے تابی سے ٹوٹ پڑے ہیں؟

صومالیہ کے ساتھ ایتھوپیا کے کئی اسٹرے ٹیجک مفادات وابستہ ہیں۔ یہ ۴۰ کے عشرے کی بات ہے جب برطانوی سامراج شاہانہ فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے ہرکس و ناکس کو بڑے بڑے ارضی خطے تحفتاً پیش کر رہا تھا۔ بے وطن یہودیوں کو فلسطین کی زمین بے داموں دی جارہی تھی۔ جنت نظیر خطۂ کشمیر اور پنجاب کے ملحقہ اضلاع ہندوؤں کو عطا کیے گئے تھے۔ اسی طرح براعظم افریقہ میں قدیم بازنطینی عیسائی سلطنت کے وارث شہنشاہ حبشہ کو ارض صومال کا سب سے بہترین زرخیز اور معدنی دولت سے مالامال مسلم اکثریت کا صوبہ اوگادین عطا ہوا۔ استعماری طاقتوں کی یہی بندربانٹ آج دنیا میں تصادم اور جنگوں کا حقیقی سبب ہے۔

صوبہ اوگادین کے تنازعے پر صومالیہ اور ایتھوپیا میں دو نہایت خوف ناک جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ ایتھوپیا کی یہی پالیسی رہی ہے کہ صومالیہ کے عوام کی نمایندہ کوئی طاقت ور مرکزی حکومت نہ آنے پائے۔ یہ ملک خانہ جنگی کی آگ میں جلتا رہے اور اوگادین کی آزادی کے لیے کوئی مربوط اور منظم کوشش نہ ہوسکے۔

دوسری جانب اریٹیریا کی آزادی کے بعد ایتھوپیا عملاً سمندر تک رسائی سے محروم (land locked)  ملک بن گیا ہے۔ سمندر تک اس کا سب سے مختصر راستہ صرف صومالیہ سے ہوکر گزرتا ہے۔ لہٰذا صومالیہ میں دوستانہ بلکہ کٹھ پتلی حکومت کا وجود ناگزیر سمجھا گیا ہے۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے‘ وہ ہمیشہ ہی سے صومالیہ پر اثرورسوخ بلکہ مستحکم قبضے کا خواہاں رہا ہے۔ اس خواہش کے پیچھے ایک تو سمندروں پر حکمرانی کی خواہش ہے۔ صومالیہ کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہاں پر قبضہ جمائے بغیر بحیرۂ احمر کی اہم ترین سمندری گزرگاہ پر تسلط ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ دوسرے‘ اسے   تیل اور دوسری قیمتی معدنیات یورینیم وغیرہ کی بھوک ہے۔ علاوہ ازیں امریکا کو موگادیشو میں کھائی ہوئی ۱۹۹۴ء کی شرم ناک شکست بھولے سے بھی نہیں بھولتی۔ واشنگٹن کے انٹرنیشنل اسٹرے ٹیجک اسٹڈی سنٹر کے صدر جان ہیمبرے اس سلسلے میں کہتے ہیں: ’’صومالیہ ہماری خارجہ پالیسی تشکیل دینے والوں کے سر پر ایک کابوس کی مانند سوار ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے منفی اثرات سے ہم کبھی چھٹکارا حاصل نہیں کرپائے‘‘۔ لہٰذا اب امریکا ایتھوپیا کا عملاً ساتھ دے کر اپنے شرم ناک ماضی کے داغ کو دھونا چاہتا ہے۔ اپنے سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے پہلے پہل تو کمیونزم کے علَم بردار ایتھوپیا کے فوجی ڈکٹیٹر ہیل سلاسی کے مقابلے میں صومالی ڈکٹیٹر جنرل سیدبرے کی حکومت کی مدد کی گئی۔ ۱۹۷۷ء کی اوگادین جنگ میں مالی و فوجی مدد کے ذریعے جنرل سیدبرے کے ہاتھ مضبوط کیے گئے۔ پھر ۱۹۹۱ء میں سیدبرے کا تختہ اُلٹ جانے کے بعد خوراک اور امداد کی تقسیم کی آڑ میں براہ راست فوجی مداخلت کا جواز تراشا گیا‘ لیکن آفرین ہے صومالی حریت پسندوں پر‘ جنھوں نے صومالیہ کی آزادی کی خاطر امریکی سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘ اور ۱۹۹۴ء کا سال امریکی تاریخ کا تاریک ترین سال قرار پایا جب صومالیہ کے حریت کیش مجاہدین نے ۱۸امریکی میرین شکار کیے اور انھیں موگادیشو کی سڑکوں پر گھسیٹا۔ اس پر امریکا اپنی ساری نخوت بھول کر صومالیہ سے نکل گیا۔ اب امریکی حکمران اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے پھر سے نکلے ہیں لیکن ذرا ایک اور طریقے سے۔

صومالیہ کے عوام کو سبق سکھانے کی خاطر موگادیشو پر قابض جنگی سرداروں کو Alliance for the Restoraion of Hope and anti Terrorismکے نام پر جمع کیاگیا اور ان پر اسلحے اور ڈالروں کی بارش برسائی جانے لگی۔ ان جنگی سرداروں کی بے مقصد جنگ و جدل سے اُکتائے ہوئے عوام مزید خون ریزی سے بچتے ہوئے ملک و قوم کی خاطر ٹھوس اقدامات کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں نے ’اسلام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے‘ کے نعرے تلے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ ابتدا میں ایک قبیلے میں اور بعدازاں ہر قبیلے کی سطح پر ایک ایک اسلامی عدلیہ کا قیام عمل میں آیا۔ جہاں جہاں اسلامی عدالتوں کا قیام عمل میں آتا گیا وہ علاقے امن و امان کے حوالے سے مثالی حیثیت اختیار کرتے گئے۔ اسلامی عدلیہ کے احکامات کی تنفیذ کے لیے نوجوان رضاکار موجود تھے۔ انھی قبائلی سطح پر منظم ہونے والی اسلامی عدالتوں نے آگے چل کر ایک یونین بنا لی جسے اسلامی عدلیہ یونین کا نام دیا گیا۔ یہ یونین اپنی ساخت کے لحاظ سے وسیع البنیاد عوامی تحریک تھی جس میں جہاں سخت گیر اسلامی فکر کے حامل سلفی تھے تو صوفیا اور مشائخ بھی شامل تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ معاشرے کے نمایاں تجار‘ سابقہ فوجی جنرل اور دیگر مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے سبھی   امن پسند عناصر موجود تھے۔ اس یونین کا آغاز اگرچہ صرف عدالتی امور نبٹانے کے لیے عمل میں  لایا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور دیگر اسلامی تنظیموں کی مدد سے اس نے سماجی‘    طبی اور تعلیمی خدمات کا آغاز بھی کردیا۔ یہاں تک کہ برسرِاقتدار آنے سے قبل موگادیشو میں   تین یونی ورسٹیاں اسلامی عدلیہ یونین کے زیراہتمام کام کر رہی تھیں۔تمام تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ ۱۶ برس کی خانہ جنگی میں صومالی تاریخ میں اگر کوئی سنہری کارنامہ وقوع پذیر ہوا ہے تو وہ ان اسلامی عدالتوں کا قیام ہے۔

جنگی سرداروں کی چھیڑ چھاڑ کے جواب میں گذشتہ جون میں یونین کے رضاکاروں نے سخت جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں نہ صرف دارالحکومت موگادیشو بلکہ جنوبی صومالیہ کا بیش تر حصہ امریکی حمایت یافتہ جنگی سرداروں کے چنگل سے آزاد ہوگیا۔ عوام نے یونین کی ان کامیابیوں کا بھرپور خیرمقدم کیا اور پورے ملک میں امن و امان پوری طرح بحال ہوگیا۔ بیش تر جنگی سردار ایتھوپیا کی پناہ میں چلے گئے۔ اب ایتھوپیا کو عبوری حکومت کی حمایت کی خاطر صومالیہ میں فوجی مداخلت کا جواز مل گیا۔ اگرچہ یہ بھیڑیے اور میمنے کی کہانی والا جواز ہی تھا لیکن چونکہ اسے امریکا کی عملی تائیدو حمایت حاصل تھی‘ لہٰذا ایتھوپیا نے صومالیہ پرحملہ کرنے میں بالکل دریغ نہ کیا۔

ایتھوپیائی فوج کوئی دو ماہ سے صومالیہ کے سرحدی علاقوں میں برسرپیکار تھی‘ تاہم کھلا فوجی حملہ ۲۱دسمبر سے شروع کیا گیا۔ فضائی بم باری اور توپ و تفنگ کا خانہ جنگیوں سے   ُچور ہونے اور اقوام متحدہ کی جانب سے اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی کے باعث کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ اس پر مستزاد گھر کے بھیدی‘ ملک و قوم کے غدار بھگوڑے جنگی سردار ایتھوپیائی فوج کی رہنمائی کے لیے پیش پیش تھے۔ ان سبھی جنگی سرداروں کا ماضی عوام کے قتلِ عام اور باہمی خون ریزیوں سے عبارت ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے‘ ان سبھی جنگی مجرموں کے سرخیل عبوری حکومت کے سربراہ عبداللہ یوسف احمد کو لیا جائے تو ان کا تعارف یہ ہے کہ موصوف صومالی فوج میں کرنل رہے ہیں۔ کئی    فوجی بغاوتوں میں ان کا نمایاں ہاتھ رہا ہے۔ خانہ جنگی کے دور میں صومالیہ ہی کے ایک نیم خودمختار صوبہ پُنٹی لینڈ کے سربراہ بنے۔ اقتدار سے اس قدر پیار ہے کہ ۲۰۰۱ء میں اپنی مدت صدارت کی تکمیل پر بھی کرسیِ اقتدار کو چھوڑنا گوارا نہ کیا بلکہ اُلٹا اپنے سیاسی مخالفین کو بے دردی سے قتل کرنا شروع کیا اور اب ایتھوپیا کی فوج کے سہارے ایک بار پھر موگادیشو میں وارد ہوئے ہیں۔

اب ایتھوپیا اور امریکا کی مدد سے عبوری حکومت موگادیشو تک پہنچ تو گئی ہے لیکن اس حکومت کا وجود برسرِزمین کہیں نظر نہیں آتا۔ اس حقیقت کو امریکی بھی محسوس کررہے ہیں۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے صدر کہتے ہیں: ’’عبوری حکومت بے حد کمزور ہے اور اب تک کی تمام رپورٹیں یہی بتا رہی ہیں کہ صومالی عوام اس حکومت کے ہرگز حامی نہیں ہیں‘‘۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ صومالیہ کے عوام نے اپنے مقبوضہ علاقے اوگادین کی خاطر ایتھوپیا سے طویل جنگیں لڑی ہیں اور موگادیشو میں ایتھوپیائی فوجوں کو غاصب فوج کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اسی لیے امریکا اور مغربی طاقتیں لالچ اور خوف کے تمام ہتھکنڈے لیے اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ کسی طرح افریقی یونین کی افواج کو صومالیہ لانے میں کامیاب ہوجائیں تاکہ ایتھوپیائی قبضے کا تاثر دُور ہوسکے۔

اس وقت تک ان کی تمام کوشش رائیگاں جاتی نظر آتی ہیں۔جنوبی افریقہ نے دانش مندی سے امریکی کھیل میں شریک ہونے سے انکار کرتے ہوئے اپنی فوجیں بھیجنے سے انکار کیا ہے۔ ۸ہزار امن فوج میں یوگنڈا اور برونڈی جیسے ممالک سے صرف ۴ہزار فوج کا انتظام ہوسکا ہے۔

اگلا مرحلہ یہ بتایا گیا ہے کہ موگادیشو کو اسلحے سے پاک شہر بنایا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس شہر کو امریکا اور ایتھوپیا اپنی کھلی جارحیت سے اسلحے سے پاک شہر بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو کیا افریقی یونین کی کمزور سی آدھی فوج یہ معرکہ سرانجام دینے میں کامیاب ہوسکے گی؟ حالات اس کی نفی کر رہے ہیں۔ موگادیشو میں تقریباً روزانہ مسلم حریت پسندوں اور ایتھوپیائی فوجوں کے درمیان مسلح جھڑپیں ہورہی ہیں۔ نظر یہی آرہا ہے کہ صومالیہ کے عوام اپنی آزادی کو  رہن رکھنے کے لیے ہرگزتیار نہیں ہیں اور غاصب فوجوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمت صومالیہ کے    عزمِ آزادی پر دلالت کر رہی ہے۔

گذشتہ ماہ صومالیہ کی شرعی عدالتوں کے اتحاد نے امریکا نواز جنگجوئوں کو ان کے گڑھ جوہر اور مھدیٰ سے نکال باہر کیا اور اس طرح ۱۵ برس سے جاری خانہ جنگی اپنے اختتام کو پہنچی۔

صومالیہ براعظم افریقہ کے عین مشرق میں انتہائی اسٹرے ٹیجک اہمیت کا حامل ملک ہے۔ خلیجِ عدن اور نہرسویز کے ذریعے بحیرۂ احمر کو بحرہند سے ملانے والی عظیم بحری تجارتی گزرگاہ پر واقع صومالیہ ۱۰۰ فی صد راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ اس کے دیگر ہمسایوں میں ایتھوپیا‘ کینیا اور جیبوتی شامل ہیں۔ اپنے منفرد محل وقوع کی بنا پر تاریخ کے مختلف اَدوار میں استعماری طاقتوں کا اکھاڑا بنا رہا۔ اس کے ایک حصے پر اگر برطانیہ قابض تھا تو دوسرے پر اطالیہ براجمان۔ تیسرا حصہ جیبوتی فرانسیسی استعمار کی چیرہ دستیوں کا شکار رہا اور اب عرصے سے امریکا للچائی ہوئی نظروں سے سرزمینِ صومالیہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔

اس غریب افریقی ملک کو ۱۹۶۰ء میںبرطانیہ اور اطالیہ کے پنجۂ استبداد سے رہائی نصیب ہوئی۔ ۱۹۶۱ء میں آئین نافذ ہوا لیکن آٹھ برس ہی گزرے تھے کہ فوجی آمریت کا شکار ہوگیا۔ ۱۹۶۹ء میں ایک خونی انقلاب کے دوران ملک کے صدر علی شرمارکے قتل کردیے گئے اور   جنرل سیدبرے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ سوشلسٹ رجحانات کے حامل جنرل برے پہلے تو روس کے زیراثررہے اور بعدازاں ایتھوپیا کے خلاف جنگی امداد حاصل کرنے کے لیے امریکی کیمپ میں جابیٹھے۔ امریکا جو عرصے سے صومالیہ کے یورینیم‘ خام لوہے‘ تیل اور دیگر قیمتی معدنیات پر نظریں جمائے بیٹھا تھا‘ فوراً مدد پر آمادہ ہوگیا اور چند ڈالروں کی فوجی امداد کے عوض اس نے صومالیہ میں تیل کی تلاش‘ یورینیم کے ذخائر اور بربیرہ کی مشہور بندرگاہ اور ہوائی اڈے پر تصرف کے حقوق حاصل کرلیے۔

یہیں سے جنرل کے زوال کا آغاز ہوا جو بالآخر فوج کے اندر پھوٹ پڑنے اور خانہ جنگی کا آغاز ہونے پر منتج ہوا‘اور ۱۹۹۱ء میں جنرل سیدبرے کو اقتدار چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ اب صومالیہ جنرل فرح عدید اور علی مہدی کی باہم برسرِپیکار ملیشیا کے رحم و کرم پر تھا۔ ۱۹۹۲ء میں امریکا اپنے ریاستی مفادات کی حفاظت کے لیے خود میدان میں کود پڑا۔ واضح رہے کہ پاک فوج بھی اس کارخیر میں حصہ لینے کے لیے کیل کانٹے سے لیس صومالیہ میں موجود تھی۔

صومالیہ میں امریکی افواج کے آتے ہی نئے استعمار کے خلاف باقاعدہ عوامی مزاحمت کا آغاز ہوگیا۔ ۳ اکتوبر ۱۹۹۳ء امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دن بن کر طلوع ہوا جب صومالی گوریلوں نے ایک امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر گرا لیا اور امریکی فوجی تفاخر کی علامت ۱۸ مرینز قتل کر کے مقدیشو کی سڑکوں پر گھسیٹے۔ عوامی جذبات کا بروقت اندازہ کرتے ہی امریکا بہادر اپنے خواب اور عزائم ادھورے چھوڑ کر صومالیہ سے بھاگ کھڑا ہوا۔

امریکا کے جاتے ہی خانہ جنگی کو اور بڑھاوا ملا‘ حتیٰ کہ امریکا مخالف مزاحمت کی نمایاں ترین علامت جنرل فرح عدید بھی ۱۹۹۶ء میں اسی خانہ جنگی کی نذر ہوکر راہیِ ملکِ عدم ہوگئے۔ بڑے کمانڈروں کے ہٹتے ہی ملک مختلف الخیال‘ مفاد پرست چھوٹے چھوٹے کمانڈروں کے زیرسایہ انتہائی ابتری کی حالت میں خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں جگہ جگہ بیریر لگائے رکھنا‘ عوام کی جابجا تلاشی‘ ہرگزرگاہ پر بھاری رشوتیں اور امن و امان کی قطعی نایابی‘ طوائف الملوکی کی عمومی صفات ہوا کرتی ہیں اور یہی سب کچھ مقدیشو کا مقدر ٹھیرا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ نام نہاد فوجی کمانڈر‘ تجار اور عام شہریوں سے سالانہ ۱۰۰ ملین ڈالر بٹورا کرتے تھے۔

صومالیہ میں براہِ راست قبضہ جمانے میں ناکامی کے بعد امریکا نے علاقے کے لیے   نئی پالیسی تشکیل دی جس کا مرکزی ہدف عسکری قوت استعمال کیے بغیر صومالیہ کو اپنے زیرتسلط لانا تھا۔ اس مقصد کے لیے شمالی اتحاد کی طرز پر خانہ جنگی میں مصروف وار لارڈز کا ایک اتحاد تشکیل دیا گیا اور اس اتحاد کو بھرپور مالی معاونت فراہم کی جانے لگی۔ اطلاعات کے مطابق اس فرنٹ کو اب تک براہِ راست ۸۰ ملین ڈالر کی امداد مل چکی تھی۔ جائزہ لیں تو مذکورہ فوجی کمانڈروں کی امریکا نوازی اظہر من الشمس ہے۔ اس اتحاد کے رکنِ رکین عبداللہ احمد عدو سابق فوجی افسر اور واشنگٹن میں صومالی سفیر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یہ کسی بھی نئے حکومتی سیٹ اَپ کے لیے مغرب کے انتہائی پسندیدہ نمایندے قرار دیے جاتے تھے۔ حسین عدید اپنے مقتول والد کے جانشین تھے۔ موصوف امریکی شہریت کے حامل تھے اور انھیں موجودہ عراقی جنگ میں بطور میرنیز امریکی چاکری کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ نیم خودمختار علاقے بونٹی لینڈ کے سربراہ عبداللہ یوسف بھی واشنگٹن کے قریبی اتحادیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ فرنٹ کے دیگر دو اراکین عبدالنور احمد درمان اور رشید محمد ھوری بھی اپنی امریکا نوازی کی وجہ سے بدنام تھے۔

اکتوبر ۱۹۹۳ء کے واقعے کے بعد اور عراق اور افغانستان میں پھنسے ہونے کی بنا پر امریکا کی اوّلین ترجیح تو یہی تھی کہ براہِ راست فوجی مداخلت سے بچتے ہوئے کسی طرح مذکورہ جنگی کمانڈروں کو صومالی عوام کی گردنوں پر مسلط کیا جاسکے لیکن یہ حکمت عملی عملاً ناکام ہوکر رہ گئی۔

ملک کی ابتر صورت حال کو ریاستی اداروں بالخصوص عدلیہ کی کسی بھی سطح پر عدم موجودگی بھیانک تر بنا رہی تھی۔ اپنوں ہی کی چیرہ دستیوں کا شکار مظلوم عوام اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا محسوس کر رہے تھے کہ علما کی جانب سے تشکیل دی جانے والی عدالتوں کی صورت میں انھیں امیدونجات کی ایک صورت دکھائی دی۔

ابتدائی طور پر شرعی عدالت کا قیام ۱۹۹۷ء میں ایک قبائلی جھگڑے کو نبٹانے کی خاطر عمل میں آیا تھا۔ پھر دیکھا دیکھی مقدیشو میں موجود تمام قبائل کے اندر اپنے اپنے قبیلے کے لیے شرعی عدالت کے قیام کا تصور مقبول ہونا شروع ہوا۔ جن علاقوں میں یہ عدالتیں قائم ہوتی گئیں وہاں امن و امان کی صورت حال بتدریج بہتر ہوتی چلی گئی۔ قتل اور لوٹ مار کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔ جہاں کہیں اس قسم کی واردات ہوتی قبیلے کے جوانوں پر مشتمل شرعی عدالت کی اپنی فورس عدالت کے احکامات کی تنفیذ کے لیے حرکت میں آجاتی۔

۲۰۰۵ء میں مختلف قبائل میں قائم شرعی عدالتوں پر مشتمل ایک یونین تشکیل پائی۔ ایک نوجوان عالمِ دین شیخ شریف شیخ احمد اس کے سربراہ قرار پائے۔ اتحاد کے نتیجے میں ایک طرف ان عدالتوں کے اثرونفوذ میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف ان کے فیصلوں میں یک رنگی دکھائی دینے لگی۔

عامۃ الناس میں شرعی عدالتوں کی وقعت اور ان عدالتوں کی سربراہی مجلس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاںتک کہ گذشتہ فروری میں دارالحکومت پر قابض مختلف جنگجوئوں نے ان عدالتوں کے احکامات کی تنفیذ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی تو عامۃ الناس نے ازخود شہر کی تمام بڑی بڑی شاہراہوں پر شرعی عدالتوں کے اتحاد کے حق میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور عوام عدالتی احکامات کی تنفیذ کے لیے مسلح ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔ جنگجو ملیشیاؤں کے ساتھ ایک مسلح تصادم میں طرفین کے ۲۰۰ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے لیکن بالآخر شرعی عدالتوں کے اتحاد کودو ہفتے بیش تر دارالحکومت مقدیشو پر مکمل کنٹرول حاصل ہوگیا۔

گذشتہ ماہ جنگجو ملیشیاؤں کے آخری مضبوط گڑھ جوہر اور مھدیٰ پر قبضے کے بعد اگرچہ شرعی عدالتوں کے اتحاد کو پورے صومالیہ پر کنٹرول حاصل ہوچکا ہے‘ تاہم نوزائیدہ اسلامی انتظام کو ابھی بہت سے بیرونی و اندرونی چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ تاحال امریکی رویہ بے حد جارحانہ ہے۔ مقدیشو پراسلام پسندوں کے قبضے کے فوراً ہی بعد صدربش نے وہائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ وہ صومالیہ کو دہشت گردوں کی محفوظ جنت کبھی نہیں بننے دیں گے۔ غالب گمان یہی ہے کہ امریکا ماضی کی غلطی سے اجتناب کرتے ہوئے اس مرتبہ ایتھوپیا کی پیٹھ تھپتھپائے گا تاکہ وہ صومالیہ پر فوج کشی کرے۔ اس پر اتحاد کے سربراہ شیخ شریف شیخ احمد نے امریکا کو متنبہ کیا کہ صومالیہ افغانستان نہیں ہے اور نہ امریکا ہی موہوم دہشت گردوں کے تعاقب میں سابقہ غلطی کو دہرائے۔

دوسری طرف اسلامی شرعی عدالتوں کے اتحاد میں ابھی تک تمام قبائل کی مؤثر نمایندگی نہیں ہے۔ انھیں کسی بھی ممکنہ بیرونی جارحیت سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی صفوں میں وسعت پیدا کرنی پڑے گی۔اغلب گمان یہی ہے کہ صومالی عوام برسوں بعد ملنے والے امن کو کسی قیمت پر بھی قربان کرنا پسند نہ کریں گے اور ہر طرح کے اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

مصر کے حالیہ انتخابات کو مغربی ذرائع ابلاغ جمہوریت کی طرف اہم پیش رفت قرار  دے رہے ہیں‘جب کہ مصر کے محبِ وطن‘ جمہوریت پسند اور اسلام دوست حلقے اسے نہایت شرمناک ڈرامابازی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟

گذشتہ برس کے اختتام پر پورے مصر میں تبدیلی کا نعرہ پورے شدّ ومد سے گونجتا نظر آیا۔ مصر کے تمام عناصر بالاتفاق نصف صدی کے جور واستبداد سے بیزاری کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ  ایمرجنسی قوانین کے نام پر شہری آزادیوں کی بُری طرح پامالی‘ سیاسی آزادیوں بالخصوص جماعت سازی‘ اظہار رائے اور صحافتی آزادیوں پر مکمل قدغن کی نصف صدی تھی۔ مصر میں صدارتی انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی تھی یہ خدشات بڑھتے چلے جارہے تھے کہ ۷۷سالہ صدر حُسنی مبارک اقتدار کی باگ ڈور اپنے مشہور زمانہ بدعنوان بیٹے جمال مبارک کے سپرد کر رہے ہیں۔ اسی کے ردِّعمل میں تحریک ’’کفایہ‘‘ (Enough) منظرعام پر آئی۔

اس کی باگ ڈور لبرل عناصر کے ہاتھ میں تھی۔ اس لیے مغربی ذرائع ابلاغ میں اسے  بے حد پذیرائی ملی۔ اس مرحلے پر اخوان المسلمون نے بھی سیاسی تبدیلی کے لیے مکمل اصلاحات کا ایک منشور پیش کیا۔ دیگر اسلام پسند عناصر کے ساتھ مل کر بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے منظم کیے جنھیں حکومت نے گرفتاریوں اور فائرنگ کے ذریعے سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ سیاسی میدان میں جاری اس ہلچل سے ایک مرتبہ تو یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید مصری حکومت کا آقاے ولی نعمت‘ امریکا‘ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے جمہوری ایجنڈے کی تنفیذ پر آمادہ ہے۔ اگر اس کی خاطر حُسنی مبارک سے خلاصی بھی حاصل کرنا پڑی تو شاید دریغ نہ کرے‘ اور عین ممکن ہے کہ جمہوریت کی خاطر اسلامی تحریک کو بھی گوارا کرلے۔ لیکن  ع

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

اسی دوران امریکی وزیرخارجہ کونڈو لیزارائس دو مرتبہ مصر گئیں۔ دورے کے دوران انھوں نے یہ بات واضح کردی کہ مصر بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں فی الوقت امریکی ترجیح حقیقی جمہوریت نہیں بلکہ ڈکٹیٹرشپ علیٰ حالہٖ (status quo) ہے۔عالمی طاقت امریکا کے اس رویے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کے اس عالمی چیمپئن کا عالمِ اسلام کے لیے ایجنڈا کیا ہے؟

اخوان المسلمون کے احتجاجی مظاہرے ہوں یا تحریکِ کفایہ اور حالیہ صدارتی انتخابات میں عوام کی عدمِ شرکت‘ ایک بات واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ عوام پر اب خوف کا وہ عالم باقی نہیں رہا جس نے نصف صدی تک حکمرانوں کو ان کے سیاسی و سماجی اور بنیادی حقوق سلب کیے رکھنے کا حوصلہ دیا تھا۔ عراق میں پٹنے کی وجہ سے امریکا اور اس کے کاسہ لیس حکمرانوں کی ہوا اُکھڑچکی ہے اور عام لوگ بھی اب حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر بات کرتے ہیں۔

گذشتہ برس کے اختتام پر اندرونی و بیرونی دبائو کے تحت صدر حُسنی مبارک نے صدارت کے لیے سابقہ طریقہ کار (ریفرنڈم) میں تبدیلی کا عندیہ دیا۔ سابقہ طریقہ کار کے مطابق ملک کی قومی اسمبلی ایک فرد کو نامزد کرتی اور پھر ملک بھر کے عوام سے اس نام پر ہاں یا ناں میں رائے لی جاتی۔ اس طرح کے ریفرنڈم کا پاکستان میں بھی نتیجہ ہمیشہ ۹۰ فی صد تک ہاں کی شکل میں ہی نکلتا رہا ہے اورمصر جیسے آزادیوں سے محروم ملک میں اس کا نتیجہ ہمیشہ ۹۹ فی صد رہا کرتا تھا۔ نئے طریق کار میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر ایسی ترامیم متعارف کروائی گئیں کہ کسی ’خطرے ‘ کا امکان نہ رہے۔

اب تک کی پارٹی پوزیشن کے مطابق پارلیمنٹ میں حکمران جماعت حزب الوطنی کو     ۹۵ فی صد نشستیں حاصل ہیں۔ حکمران جماعت کے بعد سب سے زیادہ نشستیں اخوان المسلمون کے پاس ہیں جن کی تعداد ۱۷ ہے۔ پھر دیگر پارٹیوں کا نمبر آتا ہے جیسے ’’وفد‘‘ (۵)، ’’غد‘‘ (۶)، ’’ناصری‘‘ (۱)، ’’احرار‘‘ (۱) وغیرہ وغیرہ۔

نئی ترمیم کے مطابق کوئی بھی رجسٹرڈ پارٹی اپنا نمایندہ بطور صدارتی امیدوار کھڑا کرسکتی ہے۔ عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت اخوان المسلمون پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ غیررجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا کوئی نمایندہ بھی بطور امیدوار میدان میں نہیں اُتار سکتی۔ حالانکہ تمام تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ حکمران جماعت کا مقابلہ کرنے کے لیے جس ملک گیر نیٹ ورک اور عوامی مقبولیت کی ضرورت ہے وہ صرف اخوان المسلمون کے پاس ہے۔

راے عامہ کے مختلف سروے بھی یہی ظاہر کر رہے تھے کہ اخوان المسلمون کا نمایندہ ہو تو اسے کل ووٹوں کا ۳۰ فی صد حاصل ہوسکتا ہے۔

اخوان آزاد حیثیت سے اپنا امیدوار براے صدارت میدان میں اتار سکتے تھے لیکن آزاد امیدواروں کا راستہ روکنے کے لیے مذکورہ ترمیم میں اس سے بھی زیادہ سخت تر قانون یہ متعارف کروایا گیا کہ ایسے امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارلیمنٹ (قومی اسمبلی و سینیٹ) کے کم از کم ۶۲ ارکان کی تائید رکھتا ہو۔ اب اگر تمام اپوزیشن پارٹیاں مل کر بھی چاہیں تو مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ قومی اسمبلی کی ۹۵ فی صد سیٹوں پر حکمران جماعت قابض ہے‘ جب کہ سینیٹ میں اپوزیشن کا ایک بھی ممبر موجود نہیں۔

اسی طرح یہ شرط بھی رکھی گئی کہ ۲۶ صوبائی اسمبلیوں میں سے بھی کم از کم ۵ فی صد لوگ آزاد امیدوار کی تائید کریں۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ملک کی ۲۶ صوبائی اسمبلیوں میں ۹۷ فی صد ارکان حکمران جماعت حزب الوطنی کے ہیں۔

حکمران جماعت کی ۹۵ اور ۹۷ فی صد عوامی مقبولیت کا راز کیا ہے؟ اس کے لیے حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج پر ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہوگا۔

مصر میں کل ۳۲ ملین ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۳ فی صد‘ جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق صرف ۱۸ فی صد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ ۷۷ فی صد لوگوں نے موجودہ نظام بالخصوص حکمرانوں کے طریقہ کار کو ناپسند کرتے ہوئے اور بہتر متبادل امیدوار نہ ہونے کی بنا پر پولنگ اسٹیشنوں تک آنا ہی گوارا نہ کیا۔

سرکاری نتائج کے مطابق کل ووٹوں میں سے ۱۹ فی صد ووٹ حُسنی مبارک کو‘ جب کہ ۶ فی صد غد پارٹی کے ایمن نور اور ۲ فی صد ووٹ وفد پارٹی کے نعمان جمعہ کو ملے۔ حکمران پارٹی کو یہ ۱۹ فی صد ووٹ کیسے ملے؟اطلاعات ہیں کہ حکمران پارٹی کو ووٹ دینے والے ووٹر‘ سرکاری ملازمین تھے یا گھیرگھار کر لائے ہوئے کسان اور فیکٹریوں کے مزدور۔ گائوں کے سیدھے سادھے لوگوں کے لیے نمبردار ہی کافی تھا‘ جب کہ شہروں میں حکمران پارٹی کے رئیس البلدیہ کا دبائو کارگر رہا۔ اگر اتنی عام دھاندلی نہ کی جاتی تو شاید حُسنی مبارک کو یہ ۱۹ فی صد ووٹ ملنا بھی مشکل تھے۔

مطلب برآری کے لیے میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری میڈیا نے ۶۰ فی صد وقت حُسنی مبارک کو‘ جب کہ ۹ فی صد ’’وفد‘‘ کے نعمان جمعہ کو اور ۶ فی صد وقت ’’غد‘‘ کے ایمن نور کو دیا۔ سرکاری اخبارات توحُسنی مبارک کی ۲۴ سالہ کامیابیوں کے گن گا ہی رہے تھے البتہ اھرام جیسے نیم سرکاری اخبارات کو بھی خصوصی ضمیمہ جات نکالنے پر مامور کیا گیا تھا۔

اس سارے منظرنامے سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس بار چونکہ  حُسنی مبارک کا متبادل پیش کرنا ممکن نہیں تھا‘ اس لیے کارفرما قوتوں نے سردست حُسنی مبارک ہی کو برقرار رکھا ہے۔ بعدازاں ایک آدھ برس کے بعد جمال مبارک کو بقیہ مدت صدارت کی تکمیل کے لیے اقتدار منتقل کروایا جائے گا۔ موصوف کی مصر میں عمومی شہرت آصف زرداری صاحب کے ۱۰ فی صد والی ہے اور مصری عوام انھیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

جہاں تک خطے میں امریکی پالیسی کا تعلق ہے اس حوالے سے شائع ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ میں حقیقی جمہوریت کے نفاذ کو امریکی مفادات سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ سے امریکا کے تین مفادات وابستہ ہیں:۱- اسرائیل کی امن و سلامتی ۲-پٹرولیم کی بلاانقطاع ترسیل ۳- خلیج میں امریکی فوج کی تادیر موجودگی۔ حقیقی جمہوریت کے نفاذ سے یہ تینوں مقاصد ہی تشنہ تکمیل رہ جائیں گے۔ لہٰذا جمہوریت کا مصرف بس یہ ہے کہ اس کا ہوّا دکھاکر خلیجی حکمرانوں کو دبائو میں لایا جاتا رہے اور انھی سے اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کروائی جائے۔

مصر کے ان انتخابات سے مستقبل میں ہونے والے کسی بھی عرب ملک کے انتخابات کی تصویر جھلکتی ہے۔ بحرین‘ سعودیہ اور قطر و امارات کے بلدیاتی انتخابات اور اس کے بعد قومی انتخابات سے ایسی مخصوص لبرل لابی اُبھاری جائے گی جو موجودہ حکمرانوں سے بھی بڑھ کر امریکی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن سکے۔

سنکیانگ کے مسلمان جارحیت کا شکار

چین دنیا کی دوسری عسکری اور معاشی سپرپاور بن کر تیزی سے اُبھر رہا ہے۔ اب شنگھائی‘ نیویارک اور واشنگٹن سے بتدریج زیادہ اہم بنتا جا رہا ہے۔ لیکن حکومت کی سخت گیر پالیسیوںکی وجہ سے وہاں کی اندرونی خبریں دنیا کو بہت زیادہ معلوم نہیں ہوپاتی ہیں۔ چین نے کمیونزم سے ایک قسم کی توبہ کر کے بڑے پیمانے پر اپنے آپ کو کارپوریٹ معیشت سے ہم آہنگ کرلیا اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت سے ہم آہنگی کے باعث ہی اس کے لیے ممکن ہوسکا ہے کہ وہ جاپان کے مقابلے میں بھی کہیں زیادہ تیزی سے ترقی کرے اور امریکا کا مدمقابل بنتا جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دنیا کے ایک مخصوص طبقے کی نظر کرم بھی اب امریکا کے بجاے چین کی طرف مبذول ہو رہی ہے۔ چین کی روس سے ملنے والی سرحد پر سنکیانگ کا صوبہ ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ ایغوری نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بنیادی طور پر ترکوں‘ تاتاریوں کی ایک شاخ ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سنکیانگ کے لوگ اس صوبے کو مشرقی ترکستان کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

چین میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ کمیونسٹ دورِ اقتدار میں سابق سوویت یونین کی طرح یہاں کے مسلمان بھی ہر طرح کے ریاستی تشددو جبر کا شکار تھے۔ بعد میں اس جبریہ نظام میں کچھ سہولتیں پیدا کردی گئی ہیں‘ البتہ ایغوری مسلمان کبھی بھی چینی تسلط سے خوش نہیں رہے‘ اس لیے وہاں گاہے بگاہے علاحدگی و خودمختاری کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ لیکن چینی حکام ہر بار ان آوازوں کو سخت بے رحمی سے کچل دیتے رہے ہیں۔بیرونی دنیا سے ان کا رابطہ نہایت کمزور رہا۔

اب دیوارِ چین تو کھل گئی‘ لوگوں نے چین جانا اور تعلقات قائم کرنا شروع کر دیا ہے‘  تاہم ادھر چند مہینوں سے سنکیانگ میں حکومت پھر مسلمانوں پر شکنجہ کس رہی ہے۔ حال ہی میں  چینی پولیس نے اس صوبے میں ۱۰ ایغوری مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور ان پر الزام یہ عائد کیا گیا کہ وہ علاحدگی پسند ’’نیرہابوت‘‘ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور علاقے میں انقلابیوں کومنظم کرنے اور سنکیانگ کی آزادی کی مہم چلانے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ یہاں صورت حال اتنی پُرسکون اور’’سب خیریت ہے‘‘ کی نہیں ہے جیساکہ چینی حکام دنیا کو بتاتے ہیں اور عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق ہر ہفتہ ایک یا دو واقعات ہوتے ہیں جن میں گائوں والے‘ دیہاتی اور غریب لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر پولیس سے بھڑ جاتے ہیں۔ مظاہرے ہوتے ہیں جنھیں فرو کرنے اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس چھوڑنے‘ بے تحاشا ڈنڈے برسانے اور کریک ڈائون کرنے جیسے اقدامات کیے جاتے رہتے ہیں۔ عوامی سلامتی کے وزیر زوپونگ کانگ کے مطابق گذشتہ سال ۲۰۰۴ء میں ۷۴ ہزار عوامی احتجاجی مظاہرے اور جھڑپیں ہوئی تھیں‘ جب کہ ۲۰۰۳ء میں یہ ۵۸ہزار تھے۔ ایک دہائی پہلے یہ ریکارڈ محض ۱۰ ہزار واقعات تک محدود تھا۔ ان مختصر اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ عام لوگ (جن میں مسلمان زیادہ ہیں) چین کی معاشی پالیسیوں‘ جابرانہ اقدامات اور نظم و نسق کی موجودہ صورت حال سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ یہ تشویش ناک حالات بتدریج کسی بڑے حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کسی دن      پون صدی سے دبے کچلے ایغوریوں میں اندر ہی اندر پکنے والا لاوا پھوٹ پڑے گا‘ لیکن چینی حکام یہاں کے حالات سے سختی سے نبٹ رہے ہیں اور اپنے ظالمانہ و جابرانہ اقدامات میں مزید تیزی لارہے ہیں۔ مسلم دنیا کو اور بطور خاص ان ملکوں کو جن کے چین سے نہایت قریبی تعلقات ہیں اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے ۔کم از کم اپنے وفود تحقیق حال کے لیے تو بھیجنا ہی چاہییں کہ اس علاقے کی صحیح صورت حال دنیا کے سامنے آسکے۔ (بشکریہ‘ سہ روزہ دعوت‘ دہلی‘یکم ستمبر ۲۰۰۵ئ)

مغرب عالم گیریت کے عنوان سے اقوام متحدہ کو ذریعہ بناکر اپنی تہذیبی اقدار کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کے جس سوچے سمجھے منصوبے پر عمل پیرا ہے‘ اس کا ایک اظہار خواتین کے موضوع پر سلسلہ وار عالمی کانفرنسیں ہیں۔ بیجنگ میں چوتھی عالمی کانفرنس ۱۹۹۵ء میں ہوئی تھی۔ نیویارک کی حالیہ کانفرنس (۲۰۰۰ء میں بیجنگ+ ۵ ہوئی تھی) کو بیجنگ+ ۱۰ کا نام دیا گیا تاکہ سابقہ فیصلوں پر  عمل درآمد کا جائزہ لے کر نئے اہداف مقرر کیے جاسکیں۔

۲۸ فروری تا ۱۱ مارچ ۲۰۰۵ء منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے بارے میں کویت کے رسالے المجتمع (۲ اپریل ۲۰۰۵ئ) سے کچھ اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں:

ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کو اپنی مشکلات پیش کرنے کا باقاعدہ موقع دیا گیا۔ کانفرنس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ان ممالک کو سزا دی جائے جو ہم جنس پرستی کے ایجنڈے کے نفاذ میں روڑے اٹکائیں۔عالمِ عرب اور عالمِ اسلام سے تعلق رکھنے والی مغرب زدہ خواتین نے کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ مسلم ممالک کی حکومتوں کو مجبور کیا جائے کہ کانفرنس کے فیصلوں کو من و عن نافذ کریں۔

بیجنگ میں جو فیصلے ہوئے تھے ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ: ننھی معصوم بچیوں کو صغرسنی ہی سے جنسی تعلیم دی جائے۔ محفوظ شہوت رانی کی اجازت ہو‘ حمل یا اسقاطِ حمل کا اختیار انھی کو ہو‘ ولدالزنا کی پرورش و پرداخت کا فریضہ مملکت انجام دے‘ اور ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کو اس فعلِ بد کی کھلی چھوٹ دی جائے۔

عرب اور مسلم ممالک کے اکثر حکومتی نمایندوں نے کانفرنس کے فیصلوں پر چپ سادھے رکھی۔ اسلامی تنظیموں کا موقف سننے کے لیے ایجنڈے میں باقاعدہ وقت رکھا گیا تھا لیکن انھیں موقع نہیں دیا گیا‘ بلکہ ان کا وقت لاطینی امریکا کی ایک ’’تنظیم براے خواتین‘‘ کو دے دیا گیا جن کا مطالبہ تھاکہ عورتوں کو ہر طرح کی اور مکمل آزادی دی جائے اور حکومتوں کو کانفرنس کے فیصلوں کا مکمل پابند بنایا جائے۔

کانفرنس کے کل ۱۰ سیشن ہوئے جن میں سے اکثر کا موضوع جنس اور مسلمان عورتوں پر ڈھایا جانے والا نام نہاد ظلم و جور تھا۔

پہلا سیشن ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کی عالمی کمیٹی کے نام تھا۔اس میں مطالبہ کیا گیا کہ انسان کے جنسی حقوق کو بنیادی انسانی حقوق تصور کیا جائے‘ اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کی طرح ان کی لازماً پابندی کروائی جائے۔ دوسرے سیشن کا عنوان تھا: اسلامی معاشرے میں عورتوں پر سے ظلم و جور کیسے دُور کیا جاسکتا ہے؟ ویمن لرننگ پارٹنرشپ (ڈبلیو ایل پی) نامی تنظیم نے اس کا اہتمام کیا تھا۔ اجلاس کی کلیدی مقررہ ایک افغان اباحیت پسند خاتون‘ افغان ایجوکیشن فائونڈیشن کی سربراہ سکینہ یعقوبی تھیں۔ اپنے خطاب میں انھوں نے زور دیا کہ مسلمان عورتوں کو قرآن مجید کی ازخود تفسیرکرنا سکھایا جائے تاکہ وہ جمہوریت اور عورتوں کے حقوق کے بنیادی اصولوں کو بخوبی جان سکیں۔

ایک اور سیشن کا عنوان تھا: ’عرب عورتیں بولتی ہیں‘۔ اس کا انتظام ویمن کرائسیس سنٹر مصر کے سپرد تھا۔ اس میں جنسی مساوات کے اصولوں کی روشنی میں اسلام کے عائلی قوانین میں ترمیم و اضافے کا مطالبہ کیا گیا۔

اسلامی تنظیمات متبادل خیالات اور ایجنڈے کے مطابق مکمل تیاری کے ساتھ شریک تھیں لیکن اظہار راے کی آزادی کے علم بردار دوسروں کا نقطۂ نظر سننے کے کہاں روادار ہوسکتے تھے۔ [پاکستان سے بھی حکومت نے مجلس عمل کی خواتین ممبران قومی اسمبلی کو وفد میں شامل نہیں کیا۔]

ان تنظیموں کی کوشش تھی کہ اپنی اپنی حکومتوں کے نمایندوں کو جنسی مساوات کے حوالے سے مفتی مصر کا فتویٰ فراہم کر دیں اور انھیں اسلام کی تعلیمات سے کسی حد تک آگاہ کریں تاکہ وہ آگے بڑھ کر فیصلہ کن قراردادوں میں ترمیم و اضافہ کروا سکیں لیکن انھیں کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ الجزائری وفد کے سربراہ فرما رہے تھے کہ میں آپ کے تحفظات سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں لیکن امریکی مؤقف سے انحراف کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ہمارے یہ نمایندے مسلمان معاشرے پر مذکورہ فیصلوں کے  مضر اثرات کے ادراک سے ہی عاری تھے۔ مسلم ممالک کے تقریباً سبھی وفود کا یہی عالم تھا۔

اسلامی تنظیموں نے جب کانفرنس میں شنوائی ہوتے نہ دیکھی تو اپنا مؤقف ایک بیان کی صورت میں شرکاے مندوبین میں تقسیم کردیا۔ اس بیان میں کہا گیا کہ اقوام عالم دنیا میں موجود مختلف ادیان‘ ثقافتوں اور ان کے رسوم و رواج میں موجود تنوع کا احترام کریں۔ خواتین کی مشکلات جس طرح ہر معاشرے اور ہر ثقافت میں جدا جدا ہیں‘ اسی طرح ان مشکلات کا حل بھی ہر جگہ یکساں نہیں ہے۔ مرد و زن کی مساوات کا حصول ان کے حقوق و فرائض میں عدل و انصاف کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ مطلق مساوات غیر فطری اور باہم نزاع اور جھگڑے کا سبب ہے۔

اس مشکل پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے کو اس کے مکمل تناظر میں دیکھا جائے۔ صرف چند ضمنی مظاہر کے علاج پر توجہ دینے کے بجاے اصل جڑ اور بنیاد کو ختم کیا جائے۔ خواتین کی مشکلات کا علاج اسقاطِ حمل اور ہم جنس پرستی کی کھلی چھوٹ کو سمجھ لیا گیا ہے‘ حالانکہ ایڈز اور ناجائز حمل کا علاج عفت و پاک بازی کی ثقافت کو فروغ دینے‘ اور آزاد شہوت رانی کے بجاے نظامِ زوجیت کے فروغ سے ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی اقدار اور نظامِ معاشرت کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدام اٹھائے جائیں۔

کانفرنس کے فیصلوں پر عمل درآمد سے معاشروں پر جو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں‘ ان کو اسلامی تنظیمات کے اتحاد کی انجینیرہ کاملیہ حلمی نے اس طرح بیان کیا:

۱- ممالک اور ان کی حکومتیں بیجنگ+ ۵ کی تجاویز کو من و عن نافذ کریں گی (گذشتہ کانفرنس کے اعتراضات اور حکومتوں کے تحفظات کا کوئی ذکر اس دفعہ نہیں کیا گیا)۔

۲- علامیے کی دفعہ ۴ میں کہا گیا ہے کہ اس علامیہ اور معاہدہ سیڈا میں باہم ربط پیدا کیا جائے گا۔ سیڈا میں زور دیا گیا تھا کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کو مکمل طور پر ختم کر دیاجائے گا‘ یعنی اب اسی ایجنڈے کو مزید زور زبردستی کے ساتھ نافذ کیا جائے گا۔ قوموں اور ملکوں کے  رسوم و رواج اور دینی عقائد خواہ کچھ ہوں‘ اس معاہدے میں شامل ملکوں پر اس کی تنفیذلازمی ہے۔

۳- بیجنگ کانفرنس کے علامیے کا خطرناک ترین پہلو محفوظ تولیدی خدمات کی فراہمی کا مطالبہ ہے اور یہ خدمات بچوں اور غیرشادی شدہ جوان مردوں اور عورتوں کے لیے ان امور پر مبنی ہوں گی: (الف) میڈیا اور تعلیم کے ذریعے بچوں اور غیر شادی شدہ جوان مردوں اور عورتوں کے لیے جنسی تعلیمی کی فراہمی کا مطلب یہ ہے کہ اب نوجوانوں کو حمل اور ایڈز سے بچتے ہوئے محفوظ اور آزاد شہوت رانی کی تعلیم دی جائے گی۔(ب) تعلیمی اداروں میں بچوں اور جوانوں کو مانع حمل اشیا فراہم کی جائیں گی۔(ج) اسقاطِ حمل قانوناً جائز قرار دیا جائے گا اور ہر ہسپتال اور ڈسپنسری میں اس کا باقاعدہ انتظام ہوگا۔

۴- جنسی مساوات کے نام پر مرد و عورت کے درمیان ہر قسم کی تفریق کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی۔ مرد و زن ہر طرح کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں اپنی مرضی کے مالک ہوں گے۔

کانفرنس کے آخری اجلاس میں امریکا اور ویٹی کن اسٹیٹ کے علاوہ تمام شریک ممالک نے بیجنگ +۱۰کے فیصلوں کی توثیق کی۔ ان دونوں نے تشریح کا اپنا حق محفوظ رکھا اور کہا کہ یہ انسانی حقوق کے چارٹر میں کسی اضافے کا موجب نہیں ہوگا‘ بالفاظ دیگر قانونی طور پر اس کا اطلاق لازمی نہیں ہوگا۔