مغرب عالم گیریت کے عنوان سے اقوام متحدہ کو ذریعہ بناکر اپنی تہذیبی اقدار کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کے جس سوچے سمجھے منصوبے پر عمل پیرا ہے‘ اس کا ایک اظہار خواتین کے موضوع پر سلسلہ وار عالمی کانفرنسیں ہیں۔ بیجنگ میں چوتھی عالمی کانفرنس ۱۹۹۵ء میں ہوئی تھی۔ نیویارک کی حالیہ کانفرنس (۲۰۰۰ء میں بیجنگ+ ۵ ہوئی تھی) کو بیجنگ+ ۱۰ کا نام دیا گیا تاکہ سابقہ فیصلوں پر عمل درآمد کا جائزہ لے کر نئے اہداف مقرر کیے جاسکیں۔
ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کو اپنی مشکلات پیش کرنے کا باقاعدہ موقع دیا گیا۔ کانفرنس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ان ممالک کو سزا دی جائے جو ہم جنس پرستی کے ایجنڈے کے نفاذ میں روڑے اٹکائیں۔عالمِ عرب اور عالمِ اسلام سے تعلق رکھنے والی مغرب زدہ خواتین نے کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ مسلم ممالک کی حکومتوں کو مجبور کیا جائے کہ کانفرنس کے فیصلوں کو من و عن نافذ کریں۔
بیجنگ میں جو فیصلے ہوئے تھے ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ: ننھی معصوم بچیوں کو صغرسنی ہی سے جنسی تعلیم دی جائے۔ محفوظ شہوت رانی کی اجازت ہو‘ حمل یا اسقاطِ حمل کا اختیار انھی کو ہو‘ ولدالزنا کی پرورش و پرداخت کا فریضہ مملکت انجام دے‘ اور ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کو اس فعلِ بد کی کھلی چھوٹ دی جائے۔
عرب اور مسلم ممالک کے اکثر حکومتی نمایندوں نے کانفرنس کے فیصلوں پر چپ سادھے رکھی۔ اسلامی تنظیموں کا موقف سننے کے لیے ایجنڈے میں باقاعدہ وقت رکھا گیا تھا لیکن انھیں موقع نہیں دیا گیا‘ بلکہ ان کا وقت لاطینی امریکا کی ایک ’’تنظیم براے خواتین‘‘ کو دے دیا گیا جن کا مطالبہ تھاکہ عورتوں کو ہر طرح کی اور مکمل آزادی دی جائے اور حکومتوں کو کانفرنس کے فیصلوں کا مکمل پابند بنایا جائے۔
کانفرنس کے کل ۱۰ سیشن ہوئے جن میں سے اکثر کا موضوع جنس اور مسلمان عورتوں پر ڈھایا جانے والا نام نہاد ظلم و جور تھا۔
پہلا سیشن ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کی عالمی کمیٹی کے نام تھا۔اس میں مطالبہ کیا گیا کہ انسان کے جنسی حقوق کو بنیادی انسانی حقوق تصور کیا جائے‘ اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کی طرح ان کی لازماً پابندی کروائی جائے۔ دوسرے سیشن کا عنوان تھا: اسلامی معاشرے میں عورتوں پر سے ظلم و جور کیسے دُور کیا جاسکتا ہے؟ ویمن لرننگ پارٹنرشپ (ڈبلیو ایل پی) نامی تنظیم نے اس کا اہتمام کیا تھا۔ اجلاس کی کلیدی مقررہ ایک افغان اباحیت پسند خاتون‘ افغان ایجوکیشن فائونڈیشن کی سربراہ سکینہ یعقوبی تھیں۔ اپنے خطاب میں انھوں نے زور دیا کہ مسلمان عورتوں کو قرآن مجید کی ازخود تفسیرکرنا سکھایا جائے تاکہ وہ جمہوریت اور عورتوں کے حقوق کے بنیادی اصولوں کو بخوبی جان سکیں۔
ایک اور سیشن کا عنوان تھا: ’عرب عورتیں بولتی ہیں‘۔ اس کا انتظام ویمن کرائسیس سنٹر مصر کے سپرد تھا۔ اس میں جنسی مساوات کے اصولوں کی روشنی میں اسلام کے عائلی قوانین میں ترمیم و اضافے کا مطالبہ کیا گیا۔
اسلامی تنظیمات متبادل خیالات اور ایجنڈے کے مطابق مکمل تیاری کے ساتھ شریک تھیں لیکن اظہار راے کی آزادی کے علم بردار دوسروں کا نقطۂ نظر سننے کے کہاں روادار ہوسکتے تھے۔ [پاکستان سے بھی حکومت نے مجلس عمل کی خواتین ممبران قومی اسمبلی کو وفد میں شامل نہیں کیا۔]
ان تنظیموں کی کوشش تھی کہ اپنی اپنی حکومتوں کے نمایندوں کو جنسی مساوات کے حوالے سے مفتی مصر کا فتویٰ فراہم کر دیں اور انھیں اسلام کی تعلیمات سے کسی حد تک آگاہ کریں تاکہ وہ آگے بڑھ کر فیصلہ کن قراردادوں میں ترمیم و اضافہ کروا سکیں لیکن انھیں کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ الجزائری وفد کے سربراہ فرما رہے تھے کہ میں آپ کے تحفظات سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں لیکن امریکی مؤقف سے انحراف کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ہمارے یہ نمایندے مسلمان معاشرے پر مذکورہ فیصلوں کے مضر اثرات کے ادراک سے ہی عاری تھے۔ مسلم ممالک کے تقریباً سبھی وفود کا یہی عالم تھا۔
اسلامی تنظیموں نے جب کانفرنس میں شنوائی ہوتے نہ دیکھی تو اپنا مؤقف ایک بیان کی صورت میں شرکاے مندوبین میں تقسیم کردیا۔ اس بیان میں کہا گیا کہ اقوام عالم دنیا میں موجود مختلف ادیان‘ ثقافتوں اور ان کے رسوم و رواج میں موجود تنوع کا احترام کریں۔ خواتین کی مشکلات جس طرح ہر معاشرے اور ہر ثقافت میں جدا جدا ہیں‘ اسی طرح ان مشکلات کا حل بھی ہر جگہ یکساں نہیں ہے۔ مرد و زن کی مساوات کا حصول ان کے حقوق و فرائض میں عدل و انصاف کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ مطلق مساوات غیر فطری اور باہم نزاع اور جھگڑے کا سبب ہے۔
اس مشکل پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے کو اس کے مکمل تناظر میں دیکھا جائے۔ صرف چند ضمنی مظاہر کے علاج پر توجہ دینے کے بجاے اصل جڑ اور بنیاد کو ختم کیا جائے۔ خواتین کی مشکلات کا علاج اسقاطِ حمل اور ہم جنس پرستی کی کھلی چھوٹ کو سمجھ لیا گیا ہے‘ حالانکہ ایڈز اور ناجائز حمل کا علاج عفت و پاک بازی کی ثقافت کو فروغ دینے‘ اور آزاد شہوت رانی کے بجاے نظامِ زوجیت کے فروغ سے ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی اقدار اور نظامِ معاشرت کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدام اٹھائے جائیں۔
۱- ممالک اور ان کی حکومتیں بیجنگ+ ۵ کی تجاویز کو من و عن نافذ کریں گی (گذشتہ کانفرنس کے اعتراضات اور حکومتوں کے تحفظات کا کوئی ذکر اس دفعہ نہیں کیا گیا)۔
۲- علامیے کی دفعہ ۴ میں کہا گیا ہے کہ اس علامیہ اور معاہدہ سیڈا میں باہم ربط پیدا کیا جائے گا۔ سیڈا میں زور دیا گیا تھا کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کو مکمل طور پر ختم کر دیاجائے گا‘ یعنی اب اسی ایجنڈے کو مزید زور زبردستی کے ساتھ نافذ کیا جائے گا۔ قوموں اور ملکوں کے رسوم و رواج اور دینی عقائد خواہ کچھ ہوں‘ اس معاہدے میں شامل ملکوں پر اس کی تنفیذلازمی ہے۔
۳- بیجنگ کانفرنس کے علامیے کا خطرناک ترین پہلو محفوظ تولیدی خدمات کی فراہمی کا مطالبہ ہے اور یہ خدمات بچوں اور غیرشادی شدہ جوان مردوں اور عورتوں کے لیے ان امور پر مبنی ہوں گی: (الف) میڈیا اور تعلیم کے ذریعے بچوں اور غیر شادی شدہ جوان مردوں اور عورتوں کے لیے جنسی تعلیمی کی فراہمی کا مطلب یہ ہے کہ اب نوجوانوں کو حمل اور ایڈز سے بچتے ہوئے محفوظ اور آزاد شہوت رانی کی تعلیم دی جائے گی۔(ب) تعلیمی اداروں میں بچوں اور جوانوں کو مانع حمل اشیا فراہم کی جائیں گی۔(ج) اسقاطِ حمل قانوناً جائز قرار دیا جائے گا اور ہر ہسپتال اور ڈسپنسری میں اس کا باقاعدہ انتظام ہوگا۔
۴- جنسی مساوات کے نام پر مرد و عورت کے درمیان ہر قسم کی تفریق کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی۔ مرد و زن ہر طرح کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں اپنی مرضی کے مالک ہوں گے۔
کانفرنس کے آخری اجلاس میں امریکا اور ویٹی کن اسٹیٹ کے علاوہ تمام شریک ممالک نے بیجنگ +۱۰کے فیصلوں کی توثیق کی۔ ان دونوں نے تشریح کا اپنا حق محفوظ رکھا اور کہا کہ یہ انسانی حقوق کے چارٹر میں کسی اضافے کا موجب نہیں ہوگا‘ بالفاظ دیگر قانونی طور پر اس کا اطلاق لازمی نہیں ہوگا۔