مئی۲۰۰۵

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| مئی۲۰۰۵ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

کاروبار میں احتیاط کا پہلو

سوال: ہمارا آبائی کاروبار جنرل سٹور کا ہے۔ شہر کا سب سے بڑا کاروباری ادارہ ہے۔ جب میں تعلیم سے فارغ ہو کر کاروبار میں آیا تو کچھ عرصہ سٹور پر بیٹھنے کے بعد میں نے یہ کاروبار جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ خواتین سے بات چیت‘ دن رات کی مصروفیت اور صبح شام روپے پیسے کی آمدورفت انتہائی خطرناک کام محسوس ہوا۔ انتہائی سوچ سمجھ کر پرنٹنگ پریس کا انتخاب کیا کہ وقت بھی کھلا مل سکتا ہے‘ خواتین سے بھی واسطہ نہیں پڑے گا‘ لہٰذا سکون سے دال روٹی چلتی رہے گی۔ پریس لگ گیا اور ماشاء اللہ بہت کامیابی ملی‘ تاہم اس میں چند چیزیں ایسی ہیں جو غور طلب ہیں۔

۱- ہمارے کاروبار کا زیادہ دارومدار شادی کارڈوں کی اشاعت پر ہے۔ کیا ایسے شادی کارڈ بیچنا جائز ہیں جن پر تصاویر ہوتی ہیں؟ اس کو ایک بڑے اہلحدیث عالم نے جائز کہا تھا کہ یہ مصوری نہیں ہے۔ پھر یہ تصاویر آپ خود پرنٹ نہیں کرتے بلکہ چھپے چھپائے کارڈوں پر شادی کا مضمون لکھ دیتے ہیں۔ بہت سے جید علما ان تصاویر کو جائز بھی قرار دیتے ہیں۔ اگر یہ حرام ہے تو ایسی ہر چیز بیچنی حرام ہے جس پر تصویر ہو۔ مگر اب تو ہر چیز کی پیکنگ پر تصاویر ہیں۔

۲- ہمارے کام کا دوسرا بڑا حصہ حکومتی کاموں کا ہوتا ہے۔ کیا کسی ایسی حکومت کے کسی ادارے کا کام کیا جاسکتا ہے جو اللہ کی نافرمانی پر قائم ہو؟ مثلاً محکمہ اوقاف وغیرہ۔

۳- ہمارے کاروبار کا تیسرا بڑا حصہ پوسٹرز کی طباعت پر مبنی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے پوسٹر نہ شائع کیے جائیں جن پر شرکیہ جملے‘ فرقہ پرستی کی دعوت ہو‘ نیز فلمی پوسٹر اور میوزک سنٹر کے اشتہارات‘ دیگر چھاپ دیتے ہیں۔

۴- ہمارے علاقے میں ایصالِ ثواب کے لیے منعقدہ محافل‘ مثلاً قل خوانی‘ رسم چہلم کے کارڈ اس میں کوئی شرکیہ کلمہ نہیں ہوتا‘ چھاپتے ہیں۔ البتہ ہم ایسے دعوت نامے بھی احتیاطاً شائع نہیں کرتے جن کے بارے میں گمان ہو کہ یہاں خلافِ شریعت بات ہوگی۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں شائع کردہ کارڈوں اور پوسٹروں وغیرہ کے تحت ہونے والی محفلوں اور تقریبات میں جو خلافِ شریعت کام ہوں گے ان کے ہم بھی ذمہ دار ہوں گے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ کیا ہماری کمائی جائز ہے؟ ان حالات میں کیا کیا جائے؟

جواب: تجارت اور بالخصوص ایسی تجارت جس میں شعوری طور پر آپ نے محنت کے ساتھ حلال رزق کے حصول کے لیے کسی شعبے کا انتخاب کیا ہو لائقِ تحسین ہے بلکہ اگر اس انتخاب میں کم تر برائی کا فقہ کا قاعدہ بھی پیش نظر ہو‘ جب بھی اس کا اختیار کرنا شریعت کے اصولوں کی پیروی میں شمار کیا جائے گا۔ آپ نے آخر میں جو سوالات اٹھائے ہیں ان میں سے جن کا تعلق کمائی کی حیثیت اور اس کے استعمال سے ہے‘ ان کا جواب مندرجہ بالا اصول سے خود بخود سامنے آجاتا ہے۔

جہاں تک سوال ایسے مواد کی اشاعت کا ہے جس پر آپ نے آپ کے بقول جید     اہلِ حدیث علما سے فتویٰ حاصل کیا ہے اوروہ ایسے مواد کی اشاعت کو ناجائز یا حرام نہیں کہتے‘ تو پھر آپ کو چاہیے کہ بار بار اس پر غورکرنے کے بجاے ان علما کی رائے اور تفقہ فی الدین پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے وقت کو مثبت اور تعمیری فکر میں لگائیں‘ اور اپنے وقت کا استعمال معروف اور بھلائی کے پھیلانے اور برائی کو روکنے میں صرف کریں۔

ایسے مواد کی اشاعت جس میں ایسی تقریبات کی دعوت ہو جو آپ کے نقطۂ نظر سے مناسب نہیں ہیں لیکن بعض مخلص اور دینی علم رکھنے والے افراد کی تعبیر آپ سے مختلف ہے اور وہ اسے جائز سمجھتے ہیں‘ تو ایسے تمام معاملات کو بظاہر مشتبہ سمجھا جائے گا ۔ حدیث میں ایسے مشتبہ معاملات سے جہاں تک ممکن ہو بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ مشاعرہ ہو یا دنگل یا محفلِ نعت اور سیرت پاکؐ کا جلسہ‘ ان میں بظاہر کسی شریعت کے اصول کی تردید نہیں ہوتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشتی میں حصہ لیا ہے اور سنت کی بنا پر اس کا جواز موجود ہے۔ ہمارے اسلاف علما نے اس پر عمل بھی کیا ہے۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ کشتی میں لباس کی شکل کیا ہو اور سترعورۃ کی پابندی کرائی جائے۔

البتہ جہاں معاملہ شرک اور کفر کا ہو وہاں آپ کو تجارتی اخلاقیات کے پیشِ نظر یہ حق حاصل ہے کہ بعض کاموں کے لیے ایک تحریری پالیسی بنا کر رکھ لیں کہ اس قسم کے کاموں کو قبول نہیں کریں گے اور اس میں کسی کو آپ سے شکایت نہیں ہوگی۔ ہاں‘ یہ خیال رہے کہ فقہی مذاہب میں اختلاف کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ آپ صرف اپنے مکتب فکر سے وابستہ افراد کو حق پر اور باقی سب کو گمراہ اور غیرحق پر سمجھتے ہوئے کسی اور مقام پر رکھ دیں۔ دین رواداری اور اختلاف کو برداشت کرتے ہوئے باہمی اخوت اور مواسات کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ اصول تجارت میں بھی استعمال کرنا ہوگا۔

اس گمان کی بنا پر کہ کسی محفل میں لازماً خلافِ شریعت بات ہی کہی جائے گی‘ محفل کا  دعوت نامہ چھاپنے سے انکار کرنا ایسا ہی ہے کہ وزیرآباد کے کاریگر چاقو بنانا اس لیے بند کر دیں کہ بعض عاقبت نااندیش اور گمراہ حضرات چاقو کو قتل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو ظاہری برائی سے پرہیز کیجیے اور اگر کہیں کوشش کے باوجود کوئی بھول ہو جائے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے استغفار کیجیے۔ وہ سب سے زیادہ رحیم و کریم اور عفو و درگزر کرنے والا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


حصولِ علم کے لیے خواتین کا سفر و قیام

س: ہم میڈیکل کی طالبات گرلز ہاسٹل میں رہتی ہیں۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عورت اپنے محرم کے بغیر تین دن اور رات کا سفر اکیلے نہیں کر سکتی۔ اس طرح تو ہم یہاں رہ کر جتنا بھی کام کریں‘ سب کا سب بغاوت یا حدود توڑنے کے ضمن میں آئے گا۔ کیا ایک بالغ عورت اپنے محرم کے بغیر دین یا دنیا‘ کسی بھی قسم کے علم کے حصول کے لیے گھر سے باہر رک سکتی ہے؟

ج: آپ نے اپنے سوال میں دو باتوں کو خلط ملط کر دیا ہے۔ جہاں تک کسی ایسے مقام تک سفر کا تعلق ہے جس میں تین دن رات کی مسافت درپیش ہو‘ حدیث میں بات کو واضح کر دیا گیا ہے۔ اور اگر معمولی سا غور کر لیا جائے تو اس کی حکمت سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایسے سفر کے دوران ایک مسلمہ کو تنہا ہونے کی صورت میں ایسے ممکنہ حالات پیش آسکتے ہیں جن میں وہ محرم کے ساتھ ہونے کی شکل میں اپنے آپ کو تکلیف‘ پریشانی اور خطرات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کی سہولت اور آسانی کے پیشِ نظر اسلام کی سفری اخلاقیات میں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی یہ تجویز کیا گیا ہے کہ اگر وہ دو افراد بھی ہوں تو اپنے میں سے بہتر کو اپنا امیر بنالیں تاکہ سفر کے دوران نظم و ضبط برقرار رہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں خواتین کی نام نہاد حریت کے باوجود خود مغرب میں خواتین کو تنہائی کی بناپر جن خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ سفر کے حوالے سے اس ارشاد نبویؐ کی عملی تصدیق کرتے ہیں۔

دوسری بات جو آپ کے سوال میں اٹھائی گئی ہے وہ یہ کہ اگر ایک خاتون تین دن رات کی مسافت طے کرکے یا اس سے کم یا زاید مسافت طے کر کے کسی محفوظ مقام پر سکونت اختیار کرتی ہے‘ تو کیا اس سکونت پر سفر کا حکم لگے گا؟ اگر آپ اپنے سوال پر غور کریں تو طالبات کا ہاسٹل سکونت کی تعریف میں آئے گا جس پر کسی حدیث میں پابندی نہیں لگائی گئی۔ اسے یوں سمجھیے کہ اگر کوئی خاتون تنہا حج کے لیے جانا چاہے تو سوائے فقہ جعفریہ کے بقیہ فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کے ساتھ  محرم ہونا چاہیے۔ اس کی حکمت واضح ہے۔ لیکن اگر ایک خاتون خواتین کی ایک جماعت کے ساتھ سفر کررہی ہو اور ان میں سے کسی کے ساتھ اس کا محرم ہو تو اکثر فقہا کو ایسے سفر پر کوئی اعتراض    نہیں ہے۔

یہ بات معلوم ہے کہ حصول علم ایک دینی فریضہ ہے جس میں وہ علوم بھی شامل ہیں جو خواتین کی جان‘ دین‘ عقل اور نسل کے بقا و تحفظ کے لیے ضروری ہیں‘ مثلاً بعض خواتین کا طب کے عمومی شعبہ‘ بعض کے شعبۂ اطفال‘ بعض کے شعبۂ بصارت‘ بعض کے شعبۂ بچگان‘ بعض کا شعبۂ قلب میں تخصص حاصل کرنا ایک فرضِ کفایہ ہے۔ اسی طرح قرآنی علوم‘ علوم الحدیث‘ علم الفقہ وغیرہ کے حوالے سے بھی خواتین کو حصولِ علم سے بری الذمہ نہیں کیا گیا۔ ان تمام علوم کے حصول کے لیے سفر کرنا بمنزلہ عبادت ہے۔ اور اگر حصولِ علم کے لیے وہ گھر سے دُور بھی ہوں‘ لیکن سکونت محفوظ ہو تو اس میں کسی بھی پہلو سے کوئی غیرشرعی فعل صادر نہیں ہوتا۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ علم کا مجموعی حصول قرآن و سنت کے واضح مطالبات میں سے ایک مطالبہ ہے۔ اس لیے نہ یہ بغاوت ہے‘ نہ حدود کا توڑنا‘ نہ شریعت کی خلاف ورزی بلکہ مقاصد شریعہ کے حصول کے لیے ایسا کرنا بعض صورتوں میں فرضِ عین اور بعض میں فرضِ کفایہ‘ دونوں کی تعریف میں آتا ہے۔ حلال و حرام کا علم چاہے باب طہارت میں ہو‘ طب و جراحت میں یا معیشت و معاشرت میں‘ اس کا حصول فریضہ ہے‘ اور مصلحت عامہ کے پیشِ نظر خصوصی میدانوں میں چند افراد کا حصول علم فرضِ کفایہ۔ ظاہر ہے جو عمل اس نوعیت کا ہو وہ دین داری کا عمل ہے جسے شریعت کے منافی کہنا عقلی اور نقلی‘ دونوں حیثیت سے مناسب نہیں ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب! (ا-ا)


دھات سے بنی اشیا کا استعمال اور نماز

س: سونے ‘چاندی ‘ پیتل ‘ کانسی وغیرہ کی انگوٹھی یا بٹن یا گھڑی کی چین پہن کر مرد کا نماز پڑھنا درست نہیں ہے ۔ اس حوالے سے ایک پوسٹر مساجد میں آویزاں کیا جارہا ہے جس میں مختلف فتووں کو جمع کیا گیا ہے (پوسٹر منسلک ہے)۔آپ وضاحت فرمایئے کہ کیا دھات کی بنی اشیا پہن کر مردوں کا نماز ادا کرنا جائز ہے؟

ج: دھات سے بنی ہوئی گھڑی کی چین اور زنجیر کو پہننا ممنوع اور پہننے والے کی نماز اور امامت کو مکروہ تحریمی کہنا صحیح نہیں ہے۔ اشتہار میں جو احادیث ذکر کی گئی ہیں وہ انگوٹھی سے متعلق ہیں‘ گھڑی کی چین اور زنجیر سے متعلق نہیں۔ اگر لوہے اور دوسری دھاتوں سے بنی ہوئی چین یا زنجیر ممنوع ہوجائے تو اس سے لازم آئے گا کہ خود گھڑی بھی ممنوع ہوجائے‘ اس لیے کہ وہ بھی تو لوہے یا کسی دوسری دھات کی بنی ہوئی ہوگی۔ اسی طرح لازم آئے گا کہ لوہے اور دھاتوں سے بنی ہوئی تمام اشیا کا استعمال ممنوع ہوجائے جو قطعاً باطل ہے۔

شریعت کا اصول یہ ہے کہ حرام وہ چیز ہوگی جسے حرام کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ باقی چیزیں حلال ہوں گی۔ چونکہ گھڑی کی چین اور زنجیر جو لوہے یا دھات سے بنی ہوئی ہوں‘ کی حُرمت کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں آیا‘ اس لیے یہ حلال ہوں گی اور ان کو پہن کر نماز پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ رہی انگوٹھی توا س کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ بعض روایات سے حُرمت نکلتی ہے‘ جیسے کے اشتہار میں ذکر کی گئی روایات سے ثابت ہوتا ہے اور بعض سے لوہے کی انگوٹھی کا جواز بھی نکلتا ہے۔ مشکوٰۃ میں پہلے حضرت بریدہؓ کی اس روایت کا ذکر ہے جو اشتہار میں سب سے پہلے درج کی گئی ہے اور اس کے بعد فرمایا: وقال محی السنۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی وقد صح عن سھل بن سعد فی الصداق ان النبیؐ قال لرجل التمس ولو خاتمًا من حدید (مشکوٰۃ‘ باب الخاتم‘ ج ۴‘ ص ۳۰۱) ’’کہا ہے محی السنۃ رحمہ اللہ علیہ نے اور سہل بن سعد سے مہر کے بارے میں صحیح روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: تلاش کرو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔ اس روایت کو صاحب  مشکوٰۃ نے پہلی روایت کے بعد ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ لوہے یا دھات کی بنی ہوئی انگوٹھی پہننا حرام نہیں بلکہ مکروہ تنزیہی ہے‘‘۔ (مظاہر حق جدید‘ ج ۴‘ ص ۳۰۱)

اس لیے یہ پوسٹر بلاجواز ہے اور لوگوں کو بلاوجہ پریشان کرنے کا باعث ہے۔ اس کی وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ علامہ غلام رسول سعیدی شارح صحیح مسلم نے جو اہل السنت بریلوی مکتب فکر کے متبحر عالم دین ہیں‘ اپنے اکابر علما ‘اساتذہ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ علیہ کے حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ سونے اور چاندی کے علاوہ تمام دھاتوں کا چین‘ زنجیر‘ چمچ وغیرہ روز مرہ استعمال کی اشیا جائز ہیں۔ جب یہ جائز ہیں تو ان کو باندھ کر یا پہن کر نماز پڑھنا بھی جائز ہوگا۔ (شرح صحیح مسلم‘ کتاب اللباس والزینۃ‘ ج ۶‘ ص۳۴۷-۳۵۰۔ بحوالہ فتاویٰ النوریہ رضویہ‘ ج ۱‘ ص ۵۲۱)۔ (مولانا عبدالمالک)