یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے کسی امریکی ادارے کی رپورٹ کی جو جامع تلخیص آپ نے دی ہے (اپریل ۲۰۰۵ئ)‘ اس سے تمام پہلو سامنے آگئے ہیں۔ لیکن یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہم نے اپنے جائزوں کا کام بھی غیروں کے سپرد کر دیا ہے۔ ترجمان جیسے رسالے کو بھی نقل کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے ادارے‘ ہمارے اہلِ علم‘ ہمارے محققین مخطوطات اور قدیم شخصیات کے بجاے آج کے جدید مسائل پر داد تحقیق کیوں نہیں دیتے؟ ہم تو مسلم دنیا کے بارے میں بھی اندھیرے میں ہیں۔ غیروں کی دی ہوئی خبریں ہی ہمارا نقطۂ نظر تشکیل دیتی ہیں۔ مصر‘ انڈونیشیا‘ نائیجیریا‘ ملایشیا‘ وسط ایشیا کے ممالک کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟ وہاں کی معاشرت‘ معیشت‘ تعلیم‘ ذرائع ابلاغ… کوئی مغربی ادارہ ہی بتائے تو پتا چلتا ہے۔
’’بنک کاری نظام:ایک تاریخی جائزہ‘‘ (اپریل ۲۰۰۵ئ) میں معاشیات کے طالب علم کے لیے بڑی رہنمائی ہے۔ اس لیے کہ ہماری درسی کتب میں یہ معلومات نہیں دی جاتیں۔ اسٹیٹ بنک کو تو قائداعظمؒ نے ۱۹۴۸ء میں عادلانہ اسلامی نظام معیشت کی تشکیل کا کام سپرد کیا تھا لیکن وہ مغربی نظام کا آلہ کار بن کر رہ گیا۔ کمیونزم ناکام ہوچکا ہے‘ سرمایہ داری سے انسانیت عاجز ہے‘ موقع ہے کہ اسلامی نظام پر عمل کر کے رہنمائی کی جائے تو دنیا اس کی طرف لوٹ آئے۔
’’نظریہ پاکستان اور سیکولر تعلیم‘‘ (اپریل ۲۰۰۵ئ) میں مدلل انداز سے نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ جس طرح اسلام دشمن اپنے ایجنڈے پر سرگرمی سے عمل کر رہے ہیں‘ ہم اس سے زیادہ مستعدی سے ان کی اسلام دشمن پالیسیوں سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ عالمی استعمار نے ہماری تعلیم کو بجاطور پر ہدف بنایا ہے‘ کاش! ہم ان کی سازشوں کو سمجھیں‘ اور ان کا مناسب توڑ کریں۔ کم سے کم تعلیمی اداروں کو تو چھائونیاں اور قلعے بنا دیں۔
’’تابناک مستقبل اور ہماری ذمہ داری‘‘ (اپریل ۲۰۰۵ئ) میں آپ نے دنیابھرکے مسلمانوں کو جو روشنی فراہم کی ہے اور جس راہِ عمل کی طرف رہنمائی فرمائی ہے‘ اس سے آپ نے صرف برعظیم کے مسلمانوں ہی کو نہیں‘ بلکہ ساری ملّت اسلامیہ اور اُس کے رہنمائوں کو احیاے اسلام کی صحیح راہ دکھا دی ہے۔