مئی۲۰۰۵

فہرست مضامین

رب سے ملاقات

خرم مراد | مئی۲۰۰۵ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی کامیاب بنانے کے لیے جو ہدایت دی ہے اس کا ماحصل مختلف الفاظ اور مختلف انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

ایک پہلو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ: اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کرو۔

اگر دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے ہمارا ہر کام اسی مقصد کے لیے ہے۔ اللہ کی بندگی بھی اسی لیے کرنا ہے کہ اللہ سے ملنا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔ اچھے اخلاق بھی اسی لیے اختیار کرنا ہیں‘ عبادات اور اللہ کی راہ میں جہاد اور اُس کے دین کے لیے ساری سرگرمیاں بھی اسی لیے ہیں۔ اگر موت کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات نہ کرنا ہوتی اور ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ زندگی موت پر ختم ہو جائے گی‘ تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کی بندگی کرتے‘ نماز پڑھتے‘ سخت سردی میں وضو کرکے نماز ادا کرتے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم سچ بولیں‘ وعدہ پورا کریں‘ دوسروں کے حقوق ادا کریں اور کسی پر ظلم نہ کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم دین کی خدمت کے لیے‘ اللہ کی راہ میں وقت اور مال لگائیں‘ دعوت کا کام یا جہاد کریں۔ اللہ سے ملاقات نہ کرنا ہو تو یہ سارے کام فضول اور بے کار ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ہر کام میں‘ حقیقی معنی اس یقین سے پیدا ہوتے ہیں کہ اللہ سے یقینا ملاقات کرنا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔

آخرت کی یاد دھانی

اللہ سے ملاقات پر یقین اور اس کے لیے تیاری ہی وہ قوت اور وہ روشنی ہے جو اللہ کی راہ پر چلنے کے لیے طاقت بخشتی ہے‘ اور زندگی کی راہیں روشن کرتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو ہم پاور ہائوس کہہ سکتے ہیں‘ وہ پاور ہائوس جس کے بل پر اچھے اعمال‘ پاکیزہ اخلاق اور دینی جدوجہد کی گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔

انبیاے کرام ؑ اور خود ہمارے نبی ؐ کو ‘جب اس کام کی ذمہ داری دی گئی کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائیں تو انھوں نے سب سے پہلے‘ اللہ سے ملاقات کے لیے تیاری کرنے کی دعوت دی‘دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی کا یقین دلایا۔ جب حضوؐر کو عام لوگوں کے سامنے دعوت پیش کرنے کا حکم ہوا تو آپؐ سے پہلی بات یہی کہی گئی کہ:

قُمْ فَاَنْذِرْ o (المدثر ۷۴:۲)اٹھو اور خبردار کرو۔

پھر جب حکم آیا کہ اپنے رشتہ داروں کو دعوت دو تو تب بھی یہی حکم ہوا:

وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَo (الشعراء ۲۶:۲۱۴)جو تمھارے قریبی رشتہ دار ہیں ان کو ڈرائو‘ آگاہ کرو‘ ہوشیار کرو۔

جب وحی باقاعدہ نازل ہونا شروع ہوئی تو حضوؐر کے لیے‘ نبی اور رسول سے زیادہ مُنذر کا لفظ استعمال ہوا جس کے معنی ہیں ڈرانے والا‘ آگاہ کرنے والا‘ خبردار کرنے والا۔ اسی لیے نبی کریمؐ ،نبوت کے پہلے دن سے لے کر آخری لمحے تک‘اللہ سے ملاقات کی مسلسل تذکیر کرتے رہے‘ اور اس کے لیے تیاری کرنے کی تاکید فرماتے رہے۔

آپؐ اپنے ساتھیوں سے جو گفتگو بھی کرتے‘ جو تقریریں کرتے‘ جو خطبے دیتے‘ غلطیوں پر ٹوکتے اور اچھی باتوں کی تعریف کرتے‘ تو اِس دوران میں‘ موت کے بعد کی زندگی کی یاد دلاتے‘ جنت کی خوشخبری سناتے اور نارِجہنم سے ڈراتے۔

قرآن مجید میں وہ آیات بہت کثرت سے موجود ہیں جو آخرت کا ذکر کرتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی یاد دلاتی اور اس سے ملاقات کی تفصیلات بیان کرتی ہیں۔ حضوؐر اکثر ایسی ہی آیات نمازوں میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

فجر کی نماز میں آپ زیادہ تر سورہ ق ٓ کی تلاوت کرتے۔ اس سورہ میں پورا بیان ہی آخرت کا ہے کہ موت حقیقت کو آشکارا کرتی ہوئی آگئی‘ صور پھونک دیا گیا‘ سب کے سب‘   اللہ کے سامنے پہنچ گئے‘ حساب و کتاب ہوگیا‘ کوئی اُس جہنم میں ڈالا گیا کہ جس کا پیٹ کسی طرح نہیں بھرتا اور کسی کے قریب وہ جنت لائی گئی کہ جس میں ہر خواہش پوری ہوتی ہے۔

اسی طرح سورۃ الواقعہ‘ حم السجدہ ‘ الدھر‘التکویر‘الانفطار‘ الغاشیہ وغیرہ کی تلاوت بھی آپؐ کثرت سے فرماتے۔آپؐ خطبہ دیتے تو اس میں بھی عموماً قرآن مجید کی وہ آیات بیان فرماتے جو آخرت اور موت کی تیاری سے متعلق ہوں۔مکہ میں قیام کے دوران میں معاشرتی معاملات کے سلسلے میں بہت کم احکام نازل ہوئے تھے۔ صرف دین کی بنیادی اور اہم تعلیمات‘ بہت مختصر اوربڑے سادہ الفاظ اور جملوں میں بیان ہوتیں۔ شریعت کی تفصیلات تو نہ تھیں لیکن ان جامع اور مختصر بنیادی تعلیمات ہی پر شریعت کی بنیادیں رکھی گئیں اور اس کا ڈھانچا بنایا اور اٹھایا گیا‘ مثلاً:

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o (الیل ۹۲:۵-۶) جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا‘ اور اچھی بات کی تصدیق کی۔

ان تینوں جملوں میں پورا کردارِ مطلوب  بیان کر دیا گیا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

وَّاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی o فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰیo (النزٰعت ۷۹:۴۰-۴۱) جو شخص [حساب کتاب کے لیے] اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو بے لگام خواہشات کے پیچھے جانے سے روک لیا‘ تو بس جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔

ان مختصر تعلیمات کے ساتھ وہ طویل حصے نازل ہوئے جو آخرت کے تفصیلی بیان پر مشتمل ہیں‘ جو جنت کا شوق اور رب کے حضور کھڑا ہونے کا خوف پیدا کرتے ہیں۔

عمل کا محرک

مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے بعد‘ جب اسلامی معاشرہ وجود میں آگیا اور مزید تفصیلی احکام نازل ہونا شروع ہوئے تو ان احکام کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی مسلسل کی گئی کہ اللہ سے ڈرو جس کے پاس تمھیں لوٹ کر جانا ہے‘ جس کا عذاب بہت سخت اور دردناک ہے‘جو ہر بات کو سنتا ہے‘ ہر ہر عمل کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے اور وہ تم سے حساب لے گا۔ بعض روایات کے مطابق جو آخری آیت نازل ہوئی اور جس نے سورئہ بقرہ کے آخر میں جگہ پائی وہ یہ تھی:

وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ق ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo (البقرہ ۲:۲۸۱) اس دن سے ڈرو‘ جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے۔ پھر ہر ایک کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔

گویا احکامات دیے تو ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے وہ پاور ہائوس بھی بتایا جو ان احکام پر عمل کرنے کی قوت فراہم کرتا ہے‘ خواہ یہ وراثت کے احکام ہوں یا نکاح و طلاق کے‘ جہاد کے ہوں یا ایمانیات کے۔

جہاد کا حکم دیا تو بتایا کہ یہ جنت کا سودا ہے۔ جنت کے لیے جہاد کرو اور اس کے علاوہ کوئی اور مقصد سامنے مت رکھو۔ ایمان کی حقیقت بیان کی تو کہا کہ: ہم نے ایمان لانے والوں کے جان و مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔ اسی طرح جب مسلمانوں میں کوئی خرابی رونما ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِط o (الجمعہ ۶۲:۱۱) بتا دیجیے   جو کچھ اللہ کے پاس آخرت میں ہے‘ وہ دنیا کی ساری دل چسپیوں اور نفعے سے زیادہ بہتر ہے۔

آخرت کے اجر پر یقین اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو لوگ اجتماعی کام‘ بغیر کسی کے کہے بھی کریں گے۔ یقین نہیں ہوگا‘ تومارے باندھے بھی نہیں کریں گے۔ اسی طرح اگر جہاد پر جانے میں سستی دکھائی تو فرمایا:

اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ ج (التوبہ ۹:۳۸) کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ہے۔

اس طرح سے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی یاد اور اس کی تیاری کی فکر کے ذریعے‘ مسلمانوں کے روحانی امراض کا علاج کیا اور ان کو ایمان کے تقاضے ادا کرنے کے لیے تیار کیا۔ پھر کیفیت یہ ہوگئی کہ صحابہ کرامؓ کے لیے جنت اور دوزخ اتنے حقیقی بن گئے جتنی کہ دنیا تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ان پر ہر وقت ایک جیسی کیفیت طاری رہتی تھی۔ وہ بھی انسان تھے اور ہر قسم کے حالات سے گزرتے تھے لیکن ان کو غیب پر ایمان حاصل تھا۔ غیب پر ایمان ہی ان کے تقوے کی بنیاد تھا۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں متقین کی سب سے پہلی صفت ہی یہ بیان کی کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ غیب میں اللہ تعالیٰ کی ذات بھی شامل ہے‘ جنت بھی اور دوزخ بھی۔ ان پر ایمان کے بغیر تقویٰ پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ صحابہؓ کا حال یہ تھا کہ گویا جنت میں رہتے‘ جنت کی خوشبو سونگھتے اور جنت کی نعمتوں کا مزہ چکھتے ہوں۔ جنت مقصود و مطلوب تھی‘ تو وہی نگاہوں میں سمائی رہتی۔ ان کو دنیا میں بھی جنت کا مزہ آگیا تھا۔ وہ دوزخ سے اس طرح ڈرتے ‘ کانپتے اور لرزتے تھے کہ ان کے چہروں کے رنگ بدل جاتے‘ جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے‘ آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے‘ داڑھیاں بھیگ جاتیں‘ گویا کہ آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے ہوں۔

جنت کتنی قریب تھی اور کیسی حقیقت بن گئی تھی‘ اس کا اندازہ ایک واقعے سے کیجیے۔

ایک دفعہ نبی کریمؐ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا‘ پھر واپس کھینچ لیا۔ لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ کیا ہوا۔ پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: میرے سامنے جنت کا ایک خوشہ تھا‘ میں نے چاہا کہ اسے توڑ کر تمھیں دکھا دوں۔

جنت ‘نہ وعظ تھی‘ نہ افسانہ اور نہ کہانی‘ بلکہ جو کچھ ان کو پیش آتا تھا‘ جن حالات میں وہ چلتے پھرتے تھے‘ جنت ان کے سامنے رہتی تھی‘ عذاب اور دوزخ کا خطرہ انھیں لاحق رہتا تھا۔ وہ جنت کی خوشبو سونگھتے اور متوالے ہو کر جان قربان کردیتے۔ جنت کے باغ کا تصور ذہن میں لاتے تو اُس کی چاہت اور تڑپ میں دنیا کا بہترین باغ اللہ کی راہ میں دے دیتے۔ آندھی چلتی تو کانپ اٹھتے۔ کسی قبر پرکھڑے ہوتے تو زاروقطار روتے۔ اسی چیز نے ان میں بے مثال قربانی‘ اطاعت اور اللہ کے ساتھ تعلق پیدا کیا تھا۔

آج بھی اپنے رب سے ملاقات کی ایسی ہی یاد اور جنت کا ایسا یقین اور حصول کے لیے ایسی ہی تڑپ اورجہنم کی آگ کا ایسا ڈر‘ کسی نہ کسی درجے میں ہمیں حاصل کرنا چاہیے۔ یہ ناگزیر ہے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو اُن سارے کاموں کاہمیں کوئی فائدہ نہ ہوگا  جو ہم خدا کی راہ میں کررہے ہیں۔

اللہ کی اطاعت میں اتنی محنت کے بعد بھی‘ آخرت میں اجر نہ ملے تو اس ساری تگ و دو کاکیا فائدہ ؟ اس سے بہتر تو شاید یہ ہوگا کہ ہم دنیا ہی کے لیے بھاگ دوڑ کریں‘ یہیں کچھ کما لیں‘ یہیں کچھ بنالیں۔ ہم دین کے لیے کام کریں‘ دنیا کا نقصان بھی اٹھائیں اور یہ بھی سمجھتے رہیں کہ ہم بڑے اچھے اعمال کر رہے ہیں‘ لیکن آخرت کی آندھی سب کچھ اڑا کر لے جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں‘ تو یہ بڑے نقصان کا سودا ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ ہم ایسے ہوں‘ اور مجھے امید ہے کہ ہم ایسے نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی اس تنبیہ کو یاد رکھنا ضروری ہے:

قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا o (الکھف ۱۸:۱۰۳-۱۰۴)

اے نبیؐ، ان سے کہو‘ کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔

یہ بات ہر وقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جو کام محض دنیا کی خاطر ہوا وہ ضائع ہوگیا۔ کیونکہ جسم سے آخری سانس نکلتے ہی دنیا ہاتھ سے نکل جائے گی۔ دولت ہو‘ مکان ہو‘ کھیت ہوں‘ کاروبار ہوں‘غرض دنیا کی کوئی بھی چیز ساتھ جانے والی نہیں۔ قبر میں کوئی چیز ساتھ نہیں جاتی۔ دنیا میں جو کچھ کمایا‘ وہ پیچھے رہ گیا۔ صرف اعمال ساتھ ہوں گے۔اب اگر اعمال بھی‘ خواہ وہ کتنے ہی دینی کیوں نہ ہوں‘ خدا اور آخرت کے لیے نہ ہوئے تو وہ بھی ضائع جائیں گے۔ اگرچہ ہم اس خیال میں مگن ہوں کہ ہم تو بہت ہی اچھے کام کر رہے ہیں اور آخرت کے لیے ذخیرہ کر رہے ہیں۔ یہ تو بہت ہی نقصان کا سودا ہوگا کہ ہم اللہ کے دین کا کام بھی کریں اور آخرت میں اس کا بدلہ بھی نہ ملے۔

دعوت کا ایک اھم پھلو

فکرِآخرت‘ رب سے ملاقات کی یاد اور تیاری‘ جنت کے حصول کی تڑپ اور نارِجہنم کا خوف‘ صرف ہمارے ہی لیے ضروری نہیں‘ بلکہ ہماری دعوت کے مخاطبین کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر ہم نے کسی کو اجتماع میں شریک کرلیا‘ کسی سے اعانت لے لی‘ کسی کو کتاب پڑھوا دی‘ کسی سے ووٹ لے لیا‘ مگر اس سے اُس کو آخرت کا کوئی فائدہ نہ ہوا‘ تو ہم نے اس کی کوئی خیرخواہی نہیں کی‘ اس کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں کی۔ دوسری پارٹیاں بھی لوگوں سے پیسے لے لیتی ہیں‘ انھیں جلسے جلوس میں لے جاتی ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے ان تمام کاموں کے نتیجے میں اس کو آخرت میں اجر ملنا چاہیے اور اس کی آخرت سنورنی چاہیے۔

نبی کریمؐ نے صرف اپنے ساتھیوں ہی سے نہیں کہا کہ فکرِآخرت اور اللہ سے ملاقات کی تیاری کرو‘ بلکہ آپؐ انتہائی کٹّر مخالف‘ مشرک‘ کافر‘ یہودی‘ عیسائی‘ منافق‘ ہر ایک کو بار بار آخرت کے عذاب سے ڈراتے رہے۔ آپؐ نے اپنے رشتے داروں کو کھانے پر جمع کیا تو یہی بات کہی۔ کوہ صفا پر کھڑے ہوئے تو آپؐ نے یہی کہا کہ اُس عذاب سے ڈرو جو تمھارے سروں پر اس طرح کھڑا ہے جس طرح اس پہاڑی کے پیچھے کوئی لشکر موجود ہو جو ابھی تمھیں دبوچ لے گا۔ اپنی اولاد کو‘ اپنے چچائوں اور پھوپھیوں کو‘ اپنے اعزہ و اقربا کو‘ ایک ایک کا نام لے لے کر‘ اُن کو اُس دن کی تیاری کرنے کی دعوت دی جس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔

ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے یہی کہہ کر بھیجا کہ اَنْذِرْ قَوْمَکَ ، اپنی قوم کو خبردار کرو اور ڈرائو اس سے پہلے کہ عذاب آجائے۔

قرآن کا ایک بڑا حصہ آخرت کے بیان ہی پرمشتمل ہے۔ صرف یہ دعوت ہی نہیں دی کہ اپنے رب کی ملاقات کی تیاری کرو‘ بلکہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آخرت کیسی ہوگی‘ کس طرح قبر سے اٹھو گے‘ کس طرح اللہ کے سامنے جائو گے‘ حشر کا میدان کیسا ہوگا‘ وہاں کیا سماں ہوگا‘ اعمال کا وزن کیسے ہوگا‘ عذاب کس قسم کا ہوگا‘ کیسی ذلت ورسوائی اورحسرت و ندامت ہوگی‘ جہنم کی آگ کیسی ہوگی‘ آگ کے کوڑے ہوں گے‘ پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا جس سے آنتیں کٹ جائیں گی‘ سر پر آگ کا سایہ ہوگا اور لیٹنے کے لیے آگ کا بستر--- گویا ایک ہولناک منظر ہے جس کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

قرآن میں احکام کی اتنی تفصیل بیان نہیں ہوئی‘ لیکن آخرت کے حوالے سے ایک ایک چیز کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ نہیں بیان کیا کہ ہر نماز کی کتنی رکعتیں ہیں‘ ان میں فرائض کیا ہیں اور سنن و مستحبات کیا ہیں‘ زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے‘ لیکن آخرت کی ایک ایک بات بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ ایک ایک عذاب کی تفصیل ہے‘ ایک ایک نعمت کا تذکرہ ہے۔ جنت کیسی ہوگی--- اس میں بالاخانے ہوں گے‘ محلات ہوں گے‘ خیمے ہوں گے‘ گھنے اور لمبے سائے ہوں گے‘ ہر قسم کے پھل اور میوے ہوں گے‘ انگور ہوں گے‘ انار ہوں گے۔کھجور ہوگی‘ کیلا ہوگا‘ بیری کے درخت ہوں گے۔ پانی ‘دودھ ‘ شہد ‘ غرض ہر قسم کے بہترین مشروبات کے چشمے بہہ رہے ہوں گے‘ حسین و جمیل رفاقتیں ہوں گی‘ حوریں ہوں گی اور یہ سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگا۔

قرآن ہی ہمارے لیے روشنی ہے‘ قرآن ہی ہمارا رہنما ہے‘ قرآن ہی کی طرف ہماری دعوت ہے‘ لیکن ہماری دعوت میں آخرت کا بیان کہاں ہے اور کتنا ہے؟ اگر ہم قرآن کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں‘ قرآن کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں‘ قرآن پر لوگوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں تو ہماری دعوت کو بھی قرآن ہی کے انداز میں آخرت کی دعوت ہونا چاہیے۔ اپنے مخالفین کو‘ خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کیسی ہی استعداد رکھتے ہوں‘ قرآن کے اسی انداز میں آخرت کی تیاری کی دعوت دینا چاہیے۔

اگر غور کریں تو اس لحاظ سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ جو تقریریں ہم کرتے ہیں ان کو دیکھیں‘ جو درس ہم دیتے ہیں ان پر نگاہ ڈالیں‘ تربیت گاہوں کے جو پروگرام ہوتے ہیں ان کا جائزہ لیں‘ ان سب میں رب سے ملاقات کی یاد اور جنت و دوزخ کے ذکر کا کتنا حصہ ہوتا ہے؟ کبھی ایک دم ہمیں خیال آتا ہے کہ فکرِآخرت کا پروگرام بھی ہونا چاہیے۔ ایک حدیث رکھ لو‘ ایک درس رکھ لو‘ ایک تقریر رکھ لو‘ مگر قرآن کے وہ حصے جہاں جنت اور جہنم کا بیان ہے وہ ہمارے درس کا موضوع نہیں بنتے۔ شاید یہ سب کچھ جدید دور کا بھی اثر ہے کہ ہم کو اب شاید کچھ غیرشعوری ہچکچاہٹ ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اس زمانے میں یہ حوروغِلمان کا ذکر کرتے ہیں اور محلات کا ذکر کرتے ہیں‘ جنت کا لالچ دیتے ہیں اور آگ سے ڈراتے ہیں۔

ہم سوچتے ہیں کہ آج کل اس طرح لوگ کہاں متاثر ہوں گے‘ کہاں مانیںگے۔ اب تو اسلامی نظام کی برتری ثابت کرنا چاہیے۔ دوسرے نظام ہاے حیات پر تنقید کرنی چاہیے‘ عالمی اور قومی سیاست کے حوالے سے بات ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ بھی ضرور ہونا چاہیے‘ لیکن صرف اس سے کام ہرگز نہیں چلے گا۔ ہمارے دروس میں‘ ہمارے پروگراموں میں آخرت کا‘ جنت کا‘ دوزخ کا وہ تناسب نہیں ہے جو تناسب قرآن مجید میں ہے‘ بلکہ قرآن مجید جس قدر آخرت‘ جنت اور دوزخ کے بیان سے بھرا ہوا ہے اس کا عشرعشیر بھی ہماری دعوت‘ گفتگوئوں‘ تقریروں اور درس میں نہیں ہوتا۔

ظاہر ہے کہ یہ ہونا چاہیے کیونکہ لوگوں کے ساتھ اصل بھلائی ہی یہ ہے کہ وہ آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔ ہمارا سارا کام اسی لیے ہے کہ لوگ جنت کے طلب گار بن جائیں۔ پھر دین بھی قائم ہوگا اور دنیا میں بھی اسلامی نظام کی جنت بنے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ انھی جذبات سے اس دین کی طرف آئیں جن جذبات سے وہ قوم پرستی اور سوشلزم کی طرف جاتے ہیں تو اسلام کے لیے یہ نسخہ کارگر نہیں ہوسکتا‘ نہ ہو رہا ہے۔

جب لوگ جنت کے طلب گار بن جائیں گے جس طرح صحابہ کرامؓ تھے تو پھر وہ دنیا کو بھی جنت بنائیں گے اور دنیا میں عدل و قسط کا نظام بھی قائم ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسپین سے لے کر چین تک‘ ساری دنیا اُن کے قدموں میں ڈھیر ہوگئی جو جنت سماوی کے طلب گار تھے۔ اگر وہ دنیا کے طلب گار ہوتے توکیا دنیا اس طرح ان کے آگے ڈھیر ہوتی؟ ہمیں بھی یہ جاننا چاہیے کہ جب ہم آخرت کے طلب گار بن جائیں گے تو اللہ تعالیٰ دنیا کو ہمارے قدموں میں اُسی طرح ڈھیر کر دے گا جس طرح ان کے آگے دنیا بچھتی چلی گئی۔ لیکن اگر ہم نے صرف دنیا طلب کی تو آخرت بھی ہاتھ سے جائے گی اور دنیا بھی!

دنیا ہماری مطلوب کیوں ہو‘ جب کہ اس طرح اس کا ملنا غیر یقینی ہے اور جنت کا ہاتھ سے جانا یقینی۔ دنیا تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا دے گا‘ جس کو چاہے گا نہیں دے گا‘ لیکن آخرت کے حوالے سے اس کا وعدہ یقینی ہے کہ جس نے آخرت کا ارادہ کر لیا اور اس کے لیے کوشش کی جیساکہ کوشش کرنے کا حق ہے‘ اور اس کے دل میں ایمان ہے تو اس کی محنت کی لازماً قدردانی کی جائے گی۔

مَنْ اَرَادَ الْاٰخِـرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَـھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۹) جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے‘ اور ہو وہ مومن‘ تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔

ہر آدمی دن رات محنت کرتا ہے۔ کسی کو چند ٹکے ملتے ہیں اور کسی کو لاکھوں مل جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے کسی کو بقدرِ ضرورت دیتا ہے اور کسی کو بلاحساب دیتا ہے‘ اس لیے کہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اِس کی حقیقت تو بس اتنی ہے جیسے ایک مچھر کا پر‘ یا جیسے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر کچھ پانی حاصل کرلے‘ یا جیسا کہ قرآن نے کہا: اگر یہ امکان نہ ہوتا کہ سارے کے سارے لوگ کافر ہوجائیں گے تو ہم رحمن کا انکار کرنے والوں کے گھروں کی چھت‘ زینے‘ دروازے‘ فرنیچر سب چاندی کا بنا دیتے‘ بلکہ سونے کا۔ پھر بھی ان کی قیمت اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ جب تک سانس ہے آدمی اس سے کام لے لے‘یا لذت اندوز ہولے۔ جو چیز ختم ہونے والی ہو اس کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے۔

حقیقی خسارہ

قرآن مجید میں بار بار اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ: اس دنیا کو مقصود نہ بنائو‘ منزل نہ بنائو‘ بلکہ اس دنیا کے ذریعے آخرت کا سامان کرو۔ یہی راہ پکڑو گے توکامیابی تمھارے قدم چومے گی۔ یہ بات ہرلمحے یاد رکھو کہ اپنے رب سے ملاقات کرنا ہے‘ اس ملاقات کی تیاری کرو۔ قیامت کے دن وہ یہی پوچھے گا کہ تم نے دنیا کی زندگی میں آج کے دن کی ہم سے ملاقات کو یاد رکھا تھا یا نہیں۔ اگر اِس دنیا میں یہ بات بھلا دی گئی کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا ہے تو تباہی و بربادی اور ناکامی و خسارہ مقدر ہوگا۔ دیکھیے کتنے دل دہلا دینے والے الفاظ ہیں:

وَقِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰکُمْ کَمَا نَسِیْتُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا وَمَاْ وٰکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ o (الجاثیہ ۴۵:۳۴) اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ آج ہم بھی اُسی طرح تمھیں بھلائے دیتے ہیں جس طرح تم اِس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے۔تمھارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اور کوئی تمھاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔

مزید فرمایا:

فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَـآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَاج اِنَّا نَسِیْنٰکُمْ o (السجدہ ۳۲:۱۴)

پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا‘ ہم نے بھی اب تمھیں فراموش کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق‘ محض بھولنے اور یاد رکھنے کا معاملہ نہیں ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ ہم بھلا دیں گے تو اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ ہم نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے‘ رحمت نہ کریں گے۔ جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا سوائے اس کے سائے کے‘ کوئی سہارا نہ ہوگا سوائے اس کے سہارے کے‘ کسی کی نظر کام نہ آئے گی سوائے اس کی نظرِکرم کے‘ کسی کی توجہ سے کام نہ بنے گا سوائے اس کی توجہ کے--- ذرا سو چیے کہ اگر اُس دن اُس نے ہمیں بھلا دیا تو ہمارا کیا بنے گا!

لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے اس دن کو برابر یاد رکھنا اور اس ملاقات کی تیاری کرنا‘ یہ وہ کام ہے جو اپنے لیے بھی ضروری ہے اور جو ہمارے مخاطب ہیں یا ساتھ چلنے والے ہیں‘ ان کے لیے بھی ضروری ہے۔ حضور اکرمؐ نے اپنی جو مثال بحیثیت داعی کے دی ہے‘ اسے دیکھیے۔ آپؐ نے فرمایا: میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی۔ اب تم ہو کہ پروانوں کی طرح اس آگ میں گر رہے ہو اور میں ہوں کہ تمھاری کمریں پکڑپکڑ کر تمھیں روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں‘ لوگو! آگ سے بچو۔

بحیثیت داعی ہمارا کردار حضور اکرمؐ کی اس مثال کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر ہمارے گھر میں آگ لگ جائے تو ہم اپنی جان خطرے میں ڈال کر‘ اپنے بچوں کو اٹھا کر باہر بھاگیں گے‘ پانی لے کر آئیں گے اور آگ بجھائیں گے۔ اگر ہماری بیوی‘ بھائی‘ بہن‘ ماں باپ‘ دوست‘ رشتہ دار آگ میں جلنے کے خطرے کے قریب ہوں تو یقینا ہم بے چین ہوجائیں گے۔ اگر یہی لوگ جہنم کی آگ کے قریب جا رہے ہوں توکیا یہی جذبہ ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے‘ کیا ہم اسی طرح کوشش کرتے ہیں کہ ان کو آگ سے بچالیں؟

آخرت کی یاد اور آخرت کے لیے تیاری‘ یہی وہ پاور ہائوس ہے جو ہمارے کام اور جدوجہد کو رواں دواں رکھے گا۔ سارے کاموں میں یہی یاد جاری و ساری رہنا چاہیے‘ خواہ وہ الیکشن کا کام ہو یا نعروں اور جلوس کا کام یا پوسٹر لگانے کا۔ جو کام بھی آپ کریں صرف اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو‘ آپ کو اپنی جنت میں داخل کر دے۔ پھر دیکھیے اس کام میں کتنی اور بے انتہا برکت ہوتی ہے۔ اس کام کا بہت بڑا اجر آپ کو آخرت میں یقینا ملے گا‘ اگرچہ دنیا میں بظاہر کچھ نہ بھی ملے‘ یہاں آپ الیکشن نہ بھی جیتیں اور چاہے لوگ آپ کی بات سن کر نہ دیں۔ لیکن اگر آپ نے کام صرف اس لیے کیا کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن جیت جائیں‘ الیکشن تو آپ ہار بھی سکتے ہیں‘ لیکن آخرت میں آپ کو اس کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ صرف وہی کام قبول کرے گا جو خالص اس کے لیے ہو۔ بظاہر الیکشن تو دنیاوی کام ہے اور اگر کوئی شخص قرآن کا حافظ اور عالم ہو یا اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے‘ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والا ہو‘ لیکن یہ خالصتاً دینی کام بھی اگر صرف اللہ کے لیے نہ کیے گئے ہوں‘ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرمائے گا‘ بلکہ ان کو جہنم میں ڈال دے گا۔ عمل تو وہی قبول ہوگا جو خالص صرف اسی کے لیے ہو‘ اسی سے اجر کے لیے ہو۔ آخرت کے مسافر اور بھی ہیں‘ فرق اتنا ہے کہ دوسرے لوگوں کے نزدیک آخرت گوشے میں بیٹھ کر ملتی ہے‘ مگر ہمارے نزدیک آخرت اللہ کے دین کی راہ میں جہاد کے ذریعے ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یقینی وعدہ کیا ہے:

وَلَا ُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۵) میں ان کو ضرور بالضرور جنتوں میں داخل کروں گا جہاں نہریں بہتی ہوں گی۔

یہ ہونی چاہیے ہماری دعوت‘ یعنی رب سے ملاقات اور جنت کی طلب۔ دوسروں کو بلانا ہے تو اس طرف ہی بلانا ہے کہ وہ جنت کے طلب گار بنیں اور اللہ کے دین کی راہ میں جہاد کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ ہماری دعوت کا موضوع یہی بن جائے‘ یہی دعوت کی روح بن جائے کہ:

وَفِی الْاٰخِـرَۃِ عَـذَابٌ شَدِیْـدٌ وَّمَـغْفِـرَۃٌ مِّـنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌط (الحدید ۵۷:۲۰) آخرت میں ایک طرف عذاب شدید ہے‘ دوسری طرف اللہ کی مغفرت اور رضا۔

یہ دونوں ہمارے منتظر ہیں۔ ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ان میں سے کون سی چیز ہم اپنے لیے منتخب کرتے ہیں۔

گو یہ دونوں چیزیں آج ہمیں آنکھوں سے دکھائی نہیں دے رہیں۔ لیکن اگر ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے تو مغفرت و رضوان کے انعام کا اور عذاب شدید کا پورا نقشہ‘ ہم قرآن مجید میں دیکھ سکتے ہیں۔ آپ قرآن مجید کثرت سے پڑھیں‘ اس کو یاد کریں‘ اس کو نمازوں میں پڑھیں‘ چھوٹی چھوٹی آیتوں کے معنی یاد کرلیں۔ صبح و شام‘ اٹھتے بیٹھتے‘ موت کو یاد رکھیں۔ قرآن پڑھیں تو خود کو اس کا مخاطب بنائیں۔ اپنے مخاطبین کو دعوت دیں تو آخرت کے بیان اور آخرت کے لیے تیاری کو اس میں شامل کریں۔ اس طرح آپ کی زندگی صحیح راہ پر چلے گی اور آپ کی محنت کا بدلہ آپ کو لازماً ملے گا۔ بالآخر وہ وقت بھی آئے گا جب ہم اس کی جنت میں داخل ہونے کے مستحق ٹھیریں گے۔

آخرت کی یاد

ایک چھوٹا سا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو یاد رکھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ اس کو اگر آپ اپنے اوپر لازم کرلیں تو آپ بھی اس کے ذریعے آخرت کاسفر بار بار کرسکتے ہیں۔

ایک دعا ہے جو نبی کریمؐ نے سکھائی ہے اور یہ کوئی بہت لمبی دعا نہیں ہے:

اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ -

اے اللہ مجھے آگ سے بچا لے۔

بہت چھوٹی‘ بہت سادہ‘ بہت آسان دعا ہے۔ اس کو عربی ہی میں یاد کرنا چاہیے‘ اور یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں۔ اگر ہم اُن الفاظ میں یہ دعا مانگیں گے جو الفاظ حضور اکرمؐ نے سکھائے ہیں تو الفاظ سے بھی برکت کا چشمہ جاری ہوگا‘ لیکن اگر یہ الفاظ یاد نہ ہو سکیں تو اپنی زبان میں اس کا مفہوم ادا کیا جا سکتا ہے‘ یعنی اے اللہ مجھے آگ کے عذاب سے بچا لے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو آدمی مغرب کے بعد اور فجر کے بعد سات سات دفعہ یہ دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ کے عذاب سے بچالے گا۔ دعا خود سے تو کام نہیں کرتی۔ دعا تو اس بات کا اظہار ہے کہ آپ کو اُس چیز کی طلب ہے‘ پیاس ہے جو آپ مانگ رہے ہیں۔ جب آپ پانی مانگتے ہیں تو آپ کو پیاس لگی ہوتی ہے‘ آپ کھانا مانگتے ہیں تو بھوک لگی ہوتی ہے۔ جتنی شدت سے بھوک پیاس ہوتی ہے‘ اتنی ہی بے چینی اور اضطراب اور لگن سے آپ پانی اور کھانا مانگتے ہیں اسی طرح آپ کو آگ سے بچنے کی فکر لگی ہو اور شدت سے لگی ہو‘ خوف‘ اندیشہ‘ بے چینی اور اضطراب سے دل بھرا ہوا ہو‘ اور پھر آپ کہیں اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ،    تو ان الفاظ کا اثر ہوگا۔ دل میں آگ لگی ہوگی تو الفاظ دل سے نکلیں گے‘ رنگ لائیں گے۔     یہ الفاظ آپ دل سے کہیں گے تو دل میں آگ سے بچنے کی فکر بھی پیدا ہوگی۔ مانگنے سے بھی بھوک پیاس محسوس  ہونے لگتی ہے۔ یہ گویا دو طرفہ عمل ہے۔اس لیے صبح و شام فجر اور مغرب کے بعد ضرور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

میں نے اس عمل میں تھوڑا سا اضافہ کیا ہے۔ میں جس طرح پڑھتا ہوں‘ آپ بھی چاہیں اور مفید سمجھیں تو اس طرح ہی پڑھیں۔ اس میں کوئی زیادہ وقت بھی نہیں صرف ہوتا۔ ہر بار جب میں یہ کہتا ہوں کہ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ، تو آخرت کے سفر کی کسی ایک منزل کا نقشہ اپنے ذہن میں رکھتا ہوں۔ یہ سفر قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ میں اس سفر کے کسی ایک مرحلے کی تصویر اپنے ذہن میں لاکر کہتا ہوں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

  • پھلا مرحلہ: آپ پہلی دفعہ کہیں تو موت کا وقت یاد کریں۔ قرآن مجید میں موت کے وقت کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔ کسی ایک منظر کو اپنے ذہن میں تازہ کرلیں۔ ایک یہ ہے:

کَلَّا ٓاِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ o وَقِیْلَ مَنْ رَاقٍ o وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ o وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ o اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ نِ الْمَسَاقُ o (القیامۃ ۷۵:۲۶-۳۰)

ہرگز نہیں‘ جب جان حلق تک پہنچ جائے گی‘ اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا‘ اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے‘ اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی‘  وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا۔

جب جان حلق تک پہنچ جائے گی‘ پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔ کوئی سہارا نظر نہ آئے گا جو موت سے بچائے اور کوئی جھاڑ پھونک کرکے بھی نہیں بچا سکے گا‘ تو یقین ہو جائے گا کہ بس اب تو دنیا کو چھوڑنا ہے۔ بھائی بہن‘ ماں باپ‘ رشتہ دار‘ مال و دولت‘ مکان سب کچھ چھوڑنا ہیں‘ جسم کی سب قوتیں ختم ہو جائیں گی۔ اب اللہ کی طرف جانا ہے اور سوائے اعمال کے کوئی سہارا نہیں۔ یا اس وقت کو یاد کریں جب فرشتے آئیں گے اور چہروں اور پیٹھوں پر آگ کے کوڑے ماریں گے‘ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْo (محمد ۴۷: ۲۷)

موت کے کسی منظر کو چند سیکنڈ کے لیے قرآن کے کسی حصے کے ذریعے‘ یا ذہن میں لاکر آپ موت کا وقت یاد کریں‘ اور اس کے بعد کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ یہ پہلا مرحلہ ہوا۔

  • دوسرا مرحلہ: موت کے بعد قبر کی منزل ہے۔ دوسری بار کہنے لگیں تو قبر کا مرحلہ یاد کریں۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ قبر ہی دراصل فیصلہ کر دے گی کہ آگے کیا ہوگا‘ یا تو یہ آگ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ۔

حضرت عثمانؓ کے بارے میں مذکور ہے کہ آپ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا زاروقطار روتے تھے کہ آپ کی داڑھی آنسوئوں سے بھیگ جایا کرتی تھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ قبر کہتی ہے کہ میں تنہائی کا گھر ہوں‘ میں کیڑوں کا گھر ہوں۔ لہٰذا قبر کا عذاب‘ اُس کے مختلف مناظر اگر ذہن میں تازہ رکھیں‘ اور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ یہ دوسرا مرحلہ ہوا۔

  • تیسرا مرحلہ: قیامت کا ایک مرحلہ وہ ہوگا جب قبروں سے نکال کر اللہ کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا۔ لوگ دیوانہ وار اٹھ کر بھاگیں گے‘ ہوش اُڑے ہوںگے‘ نگاہیں اٹھ نہ رہی ہوں گی‘ چہروں پر ذلت کی سیاہی ہوگی‘ ننگے ہوں گے مگر دیکھنے کا ہوش نہ ہوگا۔ سورج قریب آجائے گا‘ پسینہ اس طرح بہے گا کہ لوگ کانوں تک غرق ہوںگے۔ ہلکے سے ہلکا عذاب یہ ہوگا کہ آدمی کو آگ کے جوتے پہنا دیے جائیں گے اور اس کا دماغ کھولنے لگے گا۔ اعمال نامے ہاتھ میں ہوں گے اور سب لوگ خدا کے حضور کھڑے ہوں گے۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہوگا۔ جس کے نیک اعمال بھاری ہوں گے تو وہ دل پسند زندگی پائے گا‘اور جس کے بداعمال بھاری ہوں گے تو اس کا تو ٹھکانہ آگ کا گڑھا ہوگا۔

یہ تیسری منزل ہے حشر کی۔ کسی بھی منظر کو ذہن میں تازہ کرلیں اور کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

  • چوتہا مرحلہ: چوتھی منزل پُل صراط کی ہے۔ آپ سوچیں کہ ہر شخص جہنم پر سے گزرے گا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ ہوا کی رفتار سے گزر جائیں گے‘ اور بعض اس سے آہستہ‘ اور بعض لڑکھڑاتے ہوئے گزریں گے‘ اور بعض وہیں جہنم کے اندر گر پڑیں گے۔ اس وقت تو اعمال ہی سواری ہوں گے‘ کوئی اور سواری نہ ہوگی۔ آپ اس منظر کو ذہن میں لائیں اور چوتھی بار کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
  • پانچواں مرحلہ: پانچویں دفعہ اس آگ کو دیکھیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس کثرت اور تفصیل سے کیا ہے۔ اس آگ کے جسمانی عذاب کا تصور کریں۔ وہاں پر آگ کا بستر ہے‘ آگ کی چھت ہے‘ پیپ کا پانی ہے‘ کانٹوں کا کھانا ہے‘ لوہے کے ہتھوڑے ہیں‘ سرپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جا رہا ہے‘ ان میں کسی ایک کا تصور اپنے ذہن میں رکھیں اور پھر کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
  • چہٹا مرحلہ: پھر وہاں ایک عذاب اور بھی ہے۔ یہ رسوائی اور حسرت و ندامت کا عذاب ہے۔ یہ نفسیاتی اور روحانی عذاب ہے۔ چھٹی بار اس کا تصور کریں۔ یہ حشر سے شروع ہوگا‘مثلاً جب وہاں آپ کے سارے اعمال براڈ کاسٹ کردیے جائیں گے‘ وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (۸۱:۱۰) ‘کیا آپ اس گھڑی کا سامنا کرسکتے ہیں؟ میں بھی اپنے آپ کو جانتا ہوں ‘اور آپ بھی اپنے آپ کو جانتے ہیں۔ کیا کوئی یہ رسوائی مول لے سکتا ہے کہ اس کے سارے اعمال لائوڈاسپیکر پر بیان ہونا شروع ہو جائیں۔ کتنی رسوائی‘ کتنی ذلّت ہمارے حصے میں آئے گی؟ پھر وہاں زبردست ندامت و حسرت یہ ہوگی کہ ہماری اتنی مختصر سی عمر تھی‘ اس کو ہم نے کیوں ضائع کردیا۔ پھرجہنم سے نکلنا چاہیں گے تو کوئی نجات کی صورت نظر نہ آئے گی۔ جن کا مذاق اڑاتے تھے ان کو ہی عیش و آرام میں دیکھیں گے۔ آپ ذلّت کا‘ رسوائی کا‘ حسرت کا‘ یہ عذاب یاد کریں اور چھٹی بار کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
  • ساتواں مرحلہ: آخر میں آپ یہ سوچیں کہ جو کچھ کل پیش آنے والا ہے‘ یہ سب آج کی کمائی ہے‘ یعنی کل کے جتنے بھی مرحلے پیش آنے والے ہیں‘ یہ آسان ہوں گے تو صرف آج کے نیک اعمال سے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آج مجھے ان اعمال سے بچا لے کہ جو کل آگ کی طرف لے جانے والے ہیں۔ پھر آپ کہیں: اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔

اس طرح آپ دنیا سے چلنا شروع کریں‘ موت کے وقت سے جہنم تک پہنچیں‘ پھر واپس لوٹ کر آج کی دنیا میں آجائیں۔ یہ سفر مکمل ہوجائے گا۔

یہ دعا سات دفعہ اگر آپ صبح و شام اس طرح پڑھ لیں تو مشکل سے دو تین منٹ صرف ہوں گے۔ آپ مزید کچھ وقت بیٹھنا چاہیں تو بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن میں آپ کو کسی طویل مراقبے کی تعلیم نہیں دے رہا ہوں۔

اس طرح آپ موت کو یاد رکھنے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اللہ سے ملاقات کو بھولیں گے ‘کوئی بات نہیں‘ انسان بھولنے والا ہے‘ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے۔ صحابہ کرامؓ بھی ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں رہتے تھے۔ ان کی حالت بدلتی رہتی تھی۔ حضوؐر کی محفل میں ہوتے تو گویا جنت و دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے‘ گھروں کو جاتے تو یہ کیفیت بہت مدھم ہو جاتی۔

اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آپ آخرت کو کبھی نہیں بھولیں گے۔بھول تو آدمی کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آخرت کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہیں‘ اور اگر بھولیں تو فوراً یاد کرلیں۔ پھر پوری امید رکھیں کہ اللہ آپ کی برائیوں کو نظرانداز کر دے گا‘ آپ کے گناہوں کو بخش دے گا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ آپ گناہ کم اور نیکیاں زیادہ کرنے لگیں۔ بس آپ کی اپنی طرف سے کوشش ضروری ہے۔ اس کوشش کے لیے یہ ایک عملی نسخہ ہے۔ اس کو آپ اختیار کرلیں تو ان شاء اللہ آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ‘ سب کو‘ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین: عبدالجبار بہٹی)


(کتابچہ دستیاب ہے۔ فی عدد ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصور‘ہ لاہور-۵۴۷۹۰)