مئی۲۰۰۵

فہرست مضامین

قانون کا نفاذ اور ہماری پولیس

مسلم سجاد | مئی۲۰۰۵ | شذرات

Responsive image Responsive image

کسی معاشرے کے مہذب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی کا صرف ذکر نہ کیا جاتا ہو بلکہ واقعی قائم ہو۔ قانون کی حکمرانی کا تصور تو ایک اعلیٰ تصور ہے جس کا ہم اپنے ملک میں صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں ملک کا دستور بلاتکلف توڑ دیا جاتا ہو یا معطل کر دیا جاتا ہو‘ محض پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کے بل بوتے پر دستور کی روح کے خلاف اقدامات کیے جاتے ہوں‘ عدلیہ دستور کی خلاف ورزی کا نوٹس نہ لینے کی ایسی شہرت رکھتی ہو کہ اس کے پاس انصاف کے لیے جانا لاحاصل سمجھا جاتا ہو‘ وہاں قانون کی حکمرانی کی بات کچھ عجیب لگتی ہے۔ لیکن جیسا کچھ بھی ملک کا قانون ہے جس کے نفاذ کے لیے حکومت قائم کی جاتی ہے‘ کم سے کم اس کا نفاذ ایک عام معیار کے مطابق ہی کیا جائے تو معاشرے میں توازن قائم ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ حکومتوں کے پاس قانون نافذ کرنے کے لیے جو مؤثر ادارہ ہے وہ محکمہ پولیس ہے۔ قانون کے نفاذ کا انحصار سراسر پولیس کی کارکردگی پر ہے کہ اس کے سامنے عدلیہ بھی بے بس ہوجاتی ہے۔

اخبارات کی روزانہ خبریں‘ کالم نگاروں کے کالم اور موقع بہ موقع اداریے‘ اس حوالے سے جو افسوس ناک صورت حال ہے‘ اس کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محکمہ پولیس کو کچھ ایسے امراض گھن کی طرح لگ گئے ہیں کہ کسی طرح ان سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ اس صورت میں قانون کا نفاذ محض ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔

ایک عام شہری کو اگر کسی وجہ سے پولیس سے واسطہ پڑ جائے تو اس پر جو گزرتی ہے وہ کوئی راز نہیں۔ ایک پولیس اہل کار نے ایک بے گناہ شخص کو بالکل ایک بے بنیاد ناجائز مقدمے میں پھنسادیا۔ حال ہی میں وہ ۱۸ سال بعد اپنی عمر کا بہترین حصہ جیل میں گزار کر رہا ہوا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ہے۔ ذاتی بنیادوں پر ناجائز مقدمے بنانا بھی پولیس کا ایک مشغلہ ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت ہم پولیس کی عام کارکردگی یا انصاف کے شعبے سے وابستہ محکموں کو موضوع بحث نہیں بنا رہے‘ حکومت اپنے مخالفوں کو سیاسی بنیادوں پر کچلنے کے لیے جس طرح قانون کے احترام کے نام پر پولیس کے ذریعے قانون کو پامال کرتی ہے‘ اسے سامنے لانا مقصود ہے۔

متحدہ مجلس عمل نے ۲ اپریل ۲۰۰۵ء کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا۔ حکومت نے اپنی پوری مشینری کو ہڑتال کو ناکام بنانے کی ناکام کوشش میں استعمال کیا۔ سرکاری میڈیا پر ہڑتال کے خلاف مسلسل خبروں اور بیانات سے ایک فضا بنا دی گئی۔ لیکن اس جمہوریت ‘آزادی‘ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے ’’مثالی‘‘ دور میں اس کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کہ مجلس عمل کے کسی نمایندے کو بھی یہ موقع دیا جاتا کہ وہ ۵‘ ۱۰ منٹ کے لیے میڈیا پر آکر بتائے کہ وہ ہڑتال کیوں کروانا چاہتے ہیں؟ پھر جو چاہتا ہڑتال کرتا‘ جو چاہتا نہ کرتا اور حکومت کو معلوم ہو جاتا کہ عوام کی نظروں میں اس کی پالیسیوں اور پروپیگنڈے کی کیا وقعت اور حیثیت ہے۔

ہڑتال کے دن پولیس نے جو کچھ کیا‘ اس کی تفصیلات اخبارات اور رسائل میں آچکی ہیں۔ اگر کہیں کچھ لوگوں نے ٹریفک روکنے یا دکان بند کرانے کی کوشش کی ہو تو یقینا پولیس کو انھیں گرفتار کرکے معمول کا مقدمہ قائم کرنے کا حق تھا (کسی قسم کے تشدد کا ہرگز نہیں)۔ کسی مہذب ملک میں ایسا ہی ہوتا۔ لیکن پولیس نے اس دن جو کچھ کیاوہ اتنا شرم ناک ہے کہ اگر ہم کسی زندہ معاشرے میںہوتے تو دو چار اعلیٰ پولیس افسر ضرور اس پر استعفا دے دیتے۔

ادارہ نور حق کراچی میں پٹرول اور اسلحہ پکڑنے کا جو مقدمہ بنایا گیا‘ اس کی سرکاری ٹی وی پر خوب خوب تشہیر کی گئی۔ اسے پولیس نے خود بعد میں جھوٹا مقدمہ تسلیم کیا۔ اے آر وائی کے پروگرام میں پروفیسر غفور احمد کے اس حلفیہ بیان پر کہ یہ اشیا وہاں نہیں تھیں‘ سیکرٹری داخلہ یہ حلفیہ بیان نہیں دے سکے کہ یہ اشیا وہاں تھیں۔ ایسی صورت میں سرکاری ٹی وی پر جو بے بنیاد خبر جاری کی گئی اور عزت و شہرت کو جو نقصان پہنچایا گیا‘ اس کے ازالے کے لیے کوئی اقدام ہونا چاہیے تھا۔ لیکن     ہم ایسے گئے گزرے دور میں ہیں کہ کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ اس پر کوئی مقدمہ کر کے شہرت کو نقصان پہنچانے کی تلافی کرائی جاسکتی ہے۔

پولیس کا جو کردار لاہور میں سید مودودی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ‘ تعمیر سیرت کالج اور منصورہ ڈگری کالج کے ہوسٹلوں میں طلبہ کے ساتھ رہا‘ اس کی تفصیلات اتنی لرزہ خیز ہیں کہ اس پر حیرت ہے کہ انھیں اتنی خاموشی سے برداشت کیا گیا ہے۔ نہ اخبارات میں مکمل اور صحیح رپورٹنگ ہوئی ہے‘ نہ مناسب ردعمل سامنے آیا ہے۔

پھر آصف علی زرداری کی لاہور آمد پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ پولیس نے جو کچھ کیا ہے‘ اور پی او ایف کالج کی طالبات پر راولپنڈی میں جو تشدد کیا گیا ہے وہ بھی ہمارے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔

دیکھا جائے تو اس سب کے نتیجے میں پولیس کی جو بدنامی ہونا چاہیے تھی اور اس کے منہ پر جو کالک ملی جانی چاہیے تھی اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پہلے ہی اتنی سیاہی ہے کہ مزید کالک سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ہماری پولیس کا روز مرہ ہے‘ استثنا نہیں۔

کہیں تو یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ پولیس کو کس قانون نے اجازت دی کہ وہ دروازے توڑ کر بے خبر طلبہ کے کمروں میں جا دھمکے‘ ان پر لاٹھیوںسے تشدد کرے‘ ان کا سامان اور رقم چوری کرے‘ اور موبائل اور گھڑیاں سمیٹ لے؟ دراصل پولیس کے افراد کو یہ تحفظ اور اطمینان حاصل ہے کہ چوروں اور ڈاکوئوں والی سرگرمیوں پر کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرے گا۔ خود اپنا ضمیر تو مردہ ہی ہے‘ اعلیٰ افسران بھی نہیں پوچھیں گے۔ اور حکومت؟ جس کا کام ہی قانون کا نفاذ اور احترام ہے‘ پولیس والے انھی کو تو خوش کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر اس پر گڈ گورننس کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو اس پر ہنساہی جاسکتا ہے۔ عوام کو بے وقوف بنانے کی آخر کوئی حد بھی ہونا چاہیے!

حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک خصوصی قانون بنایا ہے جس میں فوری کڑی سزائیں دی جاتی ہیں۔ معمول کی قانونی کارروائی بھی نہیں ہوتی۔ جھوٹے سچے ثبوت چل جاتے ہیں۔یہ قانون جس مقصد کے لیے بھی بنایا گیا ہو‘ اس لیے تو ہرگز نہیں تھا کہ پندرہ سولہ سال کے  فرسٹ ایئرکے طلبہ کو سوتے میں بستروں سے اٹھا کر اس کی دفعات ان بے گناہوں پر لاگو کر دی جائیں۔

تین دن پہلے ہی سے وزیر داخلہ خود بہ نفس نفیس اس کی دھمکیاں دے رہے تھے جس پر عمل بھی کیا گیا۔ قانون کا احترام ختم کرنے کے لیے قانون کے غلط استعمال سے زیادہ کوئی موثر ترکیب نہیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ ہم کسی مہذب معاشرے میں نہیں‘ کسی جنگل میں رہتے ہیں‘ جہاں رہنے والوں کے ساتھ ہر ظلم اور زیادتی روا ہے‘ نہ کوئی فریاد ہے نہ شنوائی۔ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے‘ یہاں وہ بھی نہیں۔

حکمرانوں سے کچھ کہنا تو لاحاصل لگتا ہے‘ لیکن معاشرے کے اہلِ بصیرت کو دیکھنا چاہیے کہ آرزئووں اور تمنائوں اور بے بہا قربانیوں سے بننے والا ہمارا یہ ملک ۵۷ سال کی آزادی کے بعد کہاں پہنچا ہے۔ کوئی براے نام بھی جمہوری حکومت ہوتی تو اپنی اور اپنی پولیس کی اصلاح کے لیے اور حقیقت کو جاننے کے لیے عدالتی تحقیقات کا انتظام کرتی۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اتنی معمول کی کارروائی ہے کہ کسی ذمہ دار کے ضمیر میں کوئی خلش پیدا نہیں کرتی۔ پولیس کا اپنا بھی نظم و ضبط کا ایک نظام کار ہے۔ اس کے اپنے اعلیٰ افسران ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں اور غالباً اچھا اور برا جانتے ہیں۔ وہ بھی اس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ وہ اپنی پولیس کو حدود میں رکھیں۔ مذاکروں اور تقاریر میں اپیل کی جاتی ہے کہ عوام پولیس سے تعاون کریں‘ ان پر اعتماد کریں‘ لیکن جب لوگ آنکھوں سے یہ کچھ دیکھیں‘ تو کیا اعتماد کریں اور کیا تعاون کریں!

کچھ فرض شناس وکلا کو یہ ضرور کرنا چاہیے کہ وہ ذمہ دار پولیس افسران اور عملے پر باقاعدہ مقدمے کریں۔ اس کی روایت پڑ جائے توشاید پولیس کو کچھ لگام دی جا سکے۔ ساتھ ہی انسانی حقوق کی انجمنوں کو مکمل تفصیلات مع ایک ایک طالب علم سے انٹرویو اور تصاویر فراہم کی جائیں۔

اعلیٰ افسران کو اور حکومت کے ذمہ داران کو اور پولیس کے ان اہل کاروں کو بھی جنھوں نے بے قصور نوجوان طلبہ کے بازو اور ٹانگیں اپنی سرکاری لاٹھیوں سے نہایت بے رحمی سے توڑیں اور ان کے موبائل‘ گھڑیاں‘ سامان اور نقدی پر قبضہ کر کے لے گئے (کاش! ان سے قصاص دلوانے والا کوئی مسلمان حکمران یا عدالت ہو)۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ کسی کو بھی یہاں ہمیشہ نہیں رہنا۔ اپنے اچھے اور برے اعمال کے ساتھ اپنے خالق کے حضور حاضر ہونا ہے‘ پھر جزا و سزا ملے گی۔ اور یہ نہ بہت دُور کی بات ہے‘ اور نہ بہت دیر کی بات ہے۔